تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23264
ڈاؤنلوڈ: 3116


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23264 / ڈاؤنلوڈ: 3116
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۷۶

۱۷۶۔( َسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللهُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلاَلَةِ إِنْ امْرُؤٌ هَلَکَ لَیْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ اٴُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَهُوَ یَرِثُهَا إِنْ لَمْ یَکُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِنْ کَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاٴُنثَیَیْنِ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ اٴَنْ تَضِلُّوا وَاللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ )

ترجمہ

۱۷۶۔تجھ سے (بہن بھایئوں کی مراث کے بارے میں ) سوال کرتے ہیں ۔ان سے کہہ دو کہ خدا تمھارے لیے کلالہ (بہن بھائی ) کاحکم بیان کرتا ہے ۔ اگر ایک مرد مرجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی بہن ہوتو وہ ا س کے چھوڑے ہوئے مال سے آدھا (بطور میراث ) لے گی اور (اگر بہن مرجائے اوراس کا وارث صرف ایک بھائی ہو تو ) وہ اس بہن کاسارا مال میراث میں لے گا ۔ اس صورت میں کہ (متوفّی کی)کوئی اولاد نہ ہو اور اگر (متوفّی کی) دو بہنیں باقی ہو ں تو وہ مال کا دو تہائی لیں گی اور اگر بہن بھائی اکٹھے ہوں تو (تما م مال اسطرح سے تقسیم کریں گے کہ ) ہر مذکر کے لیے مئونث کے حصے سے دوگنا ہوگا ۔ خدا تمہارے لیے (اپنے احکام )بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجا ؤ اور خدا تمام چیزوں کو جانتا ہے

شانِ نزول

بہت سے مفسرین جابر بن عبداللہ انصاری سے اس آیت کی شانِ نزول اس طرح نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : میں بہت سخت بیمار ہوگیا تھا تو پیغمبر میری عبادت کے لیے تشریف لائے اور وہیں وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑ کا ۔میں چونکہ موت کی فکر میں تھا ، پیغمبر سے عر ض کیا : میر ی وارث فقط میری بہنیں ہیں ، ان کی میراث کس طرح ہو گی ؟

اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،جسے آیت فرائض کہتے ہیں ۔

بعض کے نظریئے کے مطابق احکام ِ اسلام کے بارے میں پیغمبر اکرم پر نازل ہونے والی یہ آخری آیت ہے ۔(۱)

بہن بھائی کی میراث کے چند احکام

زیر نظر آیت میں بھا ئی بہنوں کی میراث کی مقدار بیان کی گئی ہے ۔جیساکہ اس سورہ کے اوائل میں آیت ۱۲ کی تفسیر میں ہم کہہ چکے ہیں کہ بہنوں اور بھایئوں کی میراث کے بارے میں قرآن حکیم میں دو آییتں ہیں ۔ ایک وہی آیت ۱۲ دوسری یہ آیت جو سورئہ نسا ء کی آخری آیت ہے اگر چہ دونوں آیات میراث کی مقدار کے بارے میں مختلف ہیں لیکن جیسا کہ سورہ کی ابتداء میں بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ ان میں ہر ایک بہنوں اور بھایئوں کی الگ الگ قسم کے بارے میں ہے ۔آیت ۱۲ مادری بہن بھایئوں کے بارے میں ہے لیکن زیر بحث آیت پدری مادری یاصرف پدری بہن بھایئوں کے بارے میں ہے ۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ عام طور پر کبھی تو کچھ لوگ متوفی سے بالواسطہ ربط رکھتے ہیں ۔ ان کی میراث کی مقدار اسی واسطے سے ہوتی ہے یعنی مادری بہن بھائی ماں کے حصّے کے حساب سے لیتے ہیں جو کہ ایک تہائی ہے اور پدری یا مادری پدری بہن بھائی باپ کی میراث والا حصہ لیتے ہیں جو کہ دوتہائی ہے ۔ آیت ۱۲ چو نکہ بہن بھایئوں کی میراث کے متعلق ایک تہائی حصے کے بارے میں ہے اس لیے یہ ان کے بارے میں ہے جو صرف ماں کی طرف سے متوفی کے ساتھ مربوط ہیں جبکہ زیر بحث آیت دو تہا ئی حصے کے بارے میں ہے لیکن یہ ان بہن بھایئوں سے متعلق ہے جو ماں باپ دونوں سے مربوط ہیں ۔ علاوہ ازیں آئمہ اہل بیت سے مروی روایات جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں بہرحال اب اگر ایک تہائی یا دوتہائی میراث بھائی یا بہن سے متعلق ہے باقی ماندہ مال قانون ِ اسلام کے مطابق دیگر ورثہ میں تقسیم ہو گا اب جبکہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان دونوں آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہم ان احکام کی تفسیر شروع کرتے ہیں جو اس آیت میں آئے ہیں ۔

تو جہ ہے کہ یہ آیت کلا لہ (بہن بھائی ) کے بارے میں سوال کے جواب کے طور پر نازل اہوئی ہے ۔(۲)

اسی لیے فرمایا گیا ہے : تم سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ خدا کلالہ (بھائی بہن ) کے بارے میں تمھارے لیے حکم بیان کرتا ہے( یستفتو نک قل الله یفتیکم فی الکلالة ) اس کے بعد چند احکام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

بہن بھائی کی میراث کے چند احکام

۱۔ جب کوئی مرد دنیا سے چلا جائے ، اس کی کوئی اولاد نہ ہو فقط ایک بہن ہو تو اس کی آدھی میراث اس ایک بہن کو ملے گی( ان امرؤ اهلک لیس له ولد وله اخت فلها نصف ماتر ک ) ۔

۲۔ اگر کوئی عورت مرجائے ،اس کی اولاد نہ ہو اس کا بس ایک بھائی ہو ( جو پدری ہو یا مادری پد ری ہو ) تو اس کی ساری میراث اس کے اس اکیلے بھائی کو ملے گی( وهو یرثها ان الم یکن لها ولد ) ۔

۳۔ اگر کوئی شخص دنیا سے چلا جا ئے اور دو بہنیں پیچھے چھوڑجائے تو وہ اس کی دوتہائی میراث لیں گی( فان کا نتا اثنیتن فلها الثثان مما تر ک ) ۔

۴۔ اگر مرنے والے شخص کی چند بہنیں اور چند بھائی ہوں (جو دو سے زیادہ ہوں ) تو وہ اس کی تمام میراث آپس میں تقسیم کرینگے اس طرح سے کہ ہر بھائی کا حصہ ایک بہن سے دوگنا ہوگا( وان کانو ا اخوا ة رجا لا ونساء فللذکر مثل حظ الا نثیین ) ۔

آیت کے آخرمیں فرماتا ہے : خدا یہ حقائق تم سے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجا ؤ اور سعا دت کی راہ پالو اور (یقینا) جس راستے کی خدا نشاندہی کرتا ہے وہی صیحح اور حقیقی راستہ ہے (کیو نکہ ) وہ ہر چیز سے دانا ہے( یبین الله لکم ان تضلوا والله بکل شئی علیم ) ۔(۳)

یہ بات بنا کہے نہ رہ جائے کہ زیر نظر آیت میں بہن بھایئوں کی میراث اس صورت میں بیان کی گئی ہے جبکہ اولاد نہ ہو اور ماں باپ کے ہونے یا نہ ہونے کے متعلق اس میں کوئی بات نہیں آئی ۔ لیکن اس سورہ کی ابتدائی آیات کے مطابق ماں باپ ہمیشہ اولاد کے یعنی میراث کے پہلے طبقے کے ہم پلہ قرار پا تے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آیت اس مقام کے لیے ہے جب نہ اولاد ہو اور نہ ماں باپ ۔

____________________

۱۔تفسیر صافی ، مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔

۲۔کلالة کے لغوی معنی کیا ہیں اور یہ کہ بہن بھایئوں کو کلالة کیوں کہتے ہیں -اس کے بارے میں سورہ نساء آیت ۱۲ کے ذیل میں تفصیلی بحث کی جا چکی ہے ( ۲۱۷ اردو ترجمہ جلد ۳)

۳”ان تضلوا “ یہا ں“ ان لا تضلوا“ کے معنی میں ہے یعنی لفظ ”لا “ مقدّر ہے ۔ ایسی تعبیرات قرآن میں اور عربی زبان میں بہت ملتی ہیں ۔

سورةُ المَائدة

آیت ۱

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ )

۱۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ اٴُحِلَّتْ لَکُمْ بَهیمَةُ الْاٴَنْعامِ إِلاَّ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اٴَنْتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللَّهَ یَحْکُمُ ما یُریدُ ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱۔ اپنے عہد و پیمان اور قول و قرار پورے کرو، چو پائے ( اور چوپایوں کے جنین ) تمہارے لئے حلال کردئے گئے ہیں مگر وہ جوتم سے بیان کئے جائیں گے

( ان کے سوا جن کی استثناء کی جائے گی ) اور احرام کے وقت شکار کو حلال نہ سمجھو اور خدا جو چاہتا ہے ( اور مصلحت دیکھتا ہے ) حکم کرتا ہے ۔

ایفائے عہدضروری ہے

جیسا کہ اسلامی روایات اور بڑے مفسرین کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے ، سورة پیغمبر اکرم پر نازل ہونے والی آخری سورت ہے ( یا آخری سورتوں میں سے ہے ) تفسری عیاشی میں امام محمد باقر (علیه السلام) سے منقول ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (علیه السلام) نے فرمایا: ” سورہ مائدہ رحلت ِ پیغمبر سے دو یا تین ماہ پہلے نازل ہوئی ۔(۱)

توجہ رہے کہ اس سورہ میں وضو ، تیمم وغیرہ کے احکام اس کے آخری ہونے کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ایسے بہت سے احکام تکرار و تاکید کا پہلو رکھتے ہیں ۔ لہٰذاایسے بعض احکام سورہ نساء میں بھی ہیں ۔

یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ سورہ ناسخ ہے منسوخ نہیں ، یہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے ۔

یہ بات اس بات کی منافی نہیں جو اس تفسیر کی دوسری جلد میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۸۱ کے ذیل میں کی گئی ہے ۔ وہاں اس آیت کے نارے میں کہاگیا ہے کہ روایات کے مطابق مذکورہ آیت پیغمبر پر نازل ہونے والی آخری آیت ہے ۔ یہاں گفتگو سورہ کے بارے میں ہے اور وہاں بات ایک آیت کے متعلق تھی ۔

اس سورہ میں اس کے خاص موقع کے وجہ سے مفاہیم اسلامی بیان کیے گئے ہیں دین سے متعلق آخری پروگراموں کا تذکرہ ہے ۔ اس میں امت کی رہبری اور پیغمبر اسلام کی جانشینی کا ذکر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس سورہ کا آغاز عہد و پیمان کے لازمی ایفا کے حکم سے ہوتا ہے ۔

پہلے جملے میں فرمایا گیا ہے : اے ایمان والو: اپنے عہد و پیمان کے ساتھ ساتھ وفا کرو( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ ) ۔یہ اس لئے ہے تاکہ اہل ایمان کے لئے پیمانوں اور وعدوں کا ایفا ضروری قرار دیا جائے جو وہ خدا سے پہلے باند چکے ہیں یا جن کے متعلق اس سورہ میں اشارہ ہوا ہے یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی مسافر اپنے رشتہ داروں اور پیروکاروں سے وداع ہوتے ہوئے آخری لمحوں میں تاکید کرتا ہے کہ میری وصیتوں اور نصیحتوں کو بھول نہ جانا اور جو قول و قرار تم نے میرے ساتھ نابدھے ہیں ان کے وفا دار رہنا ۔

توجہ رہے کہ ” عقود “ ” عقد “ کی جمع ہے ” عقد “ در اصل ایک محکم چیز کے اطراف کو جمع کرنے کے معنی میں ہے اسی مناسبت سے رسی کے دوسروں کو یا دو رسیوں کو ایک دوسرے سے گرہ لگا نے کو ” عقد “ کہتے ہیں بعد ازں اس حسی معنی سے معنوی مفہوم پیدا ہوگیا اور ہر قسم کے عہد و پیمان کو ” عقد“ کہا جانے لگا ۔ البتہ بعض فقہا نے تصریح کی ہے کہ عہد کی نسبت عقد کا مفہوم محدودہے کیونکہ عقدایسے پیمان کو کہتے ہیں جو بہت مستحکم ہو نہ کہ ہ رعہد و پیمان کو ۔لہٰذا اگر بعض روایات میں اور مفسرین کی بعض تحروں میں عقد اور عہد ایک ہی مفہوم میں آئے تو یہ ہماری بیان کردہ بات کے منافی نہیں ہے کیونکہ مقصد ان دو الفاظ کی اجمالی تفسیروں کا بیان کرنا تھا نہ کہ اس کی جزئیات کا تذکرہ منظور تھا ۔

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اصطلاح کے مطابق” العقود“ ” جمع محلی بہ الف لام “ ہے جو عمومیت کے لئے ہوتی ہے اور جملہ بھی بالکل مطلق ہے لہٰذا مندر جہ بالا آیت ہر طرح کے عہد و پیمان کے وفا کرنے کے واجب ہونے کی دلیل ہے ۔

چاہے یہ محکم عہد و پیمان انسان کا انسان کے ساتھ ہو یا انسان کا خدا کے ساتھ ہو۔ اس طرح یہ تمام خدا ئی اور انسانی اور سیاسی ، اقتصادی، اجتماعی ، تجارتی ، ازدواجی وغیرہ عہد و پیمان پر محیط ہے اور اس کا ایک مکمل وسیع مفہوم ہے ، اس کی نظر تمام انسانی پہلووں پر ہے ، چاہے ان کا تعلق عقیدے سے ہو یا عمل سے، وہ فطری عہد و پیمان ہو یا توحیدی، اور چاہے ان کا تعلق ان معاہدوں سے ہو جو لوگ زندگی کے مختلف مسائل میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں ۔

تفسیر روح المعانی میں راغب کے حوالے سے منقول ہے کہ وضع و کیفیت کے لحاظ سے طرفین میں ہونے والے عقد کی تین قسمیں ہں ۔ کبھی عقد خدا اور بندے کے درمیان ہوتا ہے کبھی انسان اور اس کے نفس کے مابین ہوتا ہے او رکبھی عقد انسان دوسرے انسانوں سے باندھتا ہے ۔ ( تفسیر روح المعانی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ) ۔

( البتہ عقد کی یہ تینوں قسمیں طرفین کے مابین میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں انسان خود اپنے ساتھ عہد و پیمان باندھتا ہے وہاں وہ اپنے آپ کو دو اشخاص کی طرف فرض کرتا ہے ) ۔

بہر حال آیت کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ اس میں وہ عہد و پیمان بھی آجاتے ہیں جو مسلمان غیر مسلموں سے باندھتے ہیں ۔

____________________

۱ ۔ تفسیر بر ہان جلد اول صفحہ ۴۳۰۔

چنداہم نکات

۱۔ ایک فقہی قاعدہ :

یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو حقوقِ اسلام سے بحث کرتی ہیں ۔ فقہی مباحث میں اول سے آخر تک اس سے استدلال کیا جاتا ہے اس سے ایک اہم فقہی قاعدہ معلوم ہوتا ہے جسے ” اصالة اللزوم والعقود“کہتے ہیں یعنی ہر قسم کا عہد و پیمان جو کچھ چیزوں کے بارے میں ہو یا دو افراد کے درمیان کچھ کاموں کے متعلق ہو، اس کا اجزاء اور اس پر عمل کرنا ضروری اور لازمی ہے ۔

یہاں تک ک جیسے محققین کہتے ہیں کہ مختلف قسم کے معاملات، شراکتیں ، کارو بار اور قرا دادیں جو ہمارے زمانے میں موجود ہیں اور سابقہ دور میں نہیں تھیں یا آنے والے دور میں عقلاء میں معرض وجوہ میں آئیں گی اور صحیح اصولوں کی بنیاد پر ہوں گی، یہ قاعدہ سب پر محیط ہے اور یہ آیت سب کے بارے میں ہے ( البتہ ان کلی ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کا اسلام معاہدوں کے بارے میں حکم دیتا ہے ) ۔

اس آیت میں ایک فقہی قاعدہ کے طور پر استدلال کرنا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ پیمان ِ الہٰی جو خدا اور بندوں کے درمیان باندھے گئے ہیں یا وہ مسائل جو رہبری اور امت کی قیادت سے مربوط ہیں کہ جن کا پیمان پیغمبر کے ذریعے لوگوں سے لیا گیا ہے اس میں شامل نہیں بلکہ آیت ایک وسیع مفہوم کی حامل ہے جس میں یہ تمام امور شامل ہیں ۔

اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ دو طرفہ عہد و پیمان کی وفا اور تکمیل اس وقت تک ضروری ہے جب تک کوئی ایک طرف سے توڑ نہ دے لیکن اگر ایک طرف سے اسے توڑ دیاجائے تو پھر دوسری طرف یہ لازم نہیں ہوگا کہ وہ اسے وفا کرے، اور ایسا معاملہ عقد و پیمان کے مفہوم سے ساقط ہو جاتا ہے ۔

۲۔ ایفائے عہد کی اہمیت:

عہد و پیمان کی وفا کا مسئلہ جو زیر بحث آیت میں بیان ہوا ہے ،اجتماعی زندگی کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے بغیر کوئی اجتماعی ہم کاری اور تعلق ممکن نہیں ہے اور اگر انسان اسے ہاتھ سے دے بیٹھے تو اجتماعی زندگی اور اس کے ثمرات کو عملی طور پر کھو بیٹھتا ہے ۔ اسی بنا پر اسلامی مصادر او رکتب میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ شاید بہت کم کوئی اور چیز ہو جسے اس قدر وسعت سے بیان کیا گیا ہو کیونکہ اس کے بغیر تو معاشرہ ہر ج مرج اور عدم اطمینان کا شکار ہو جائے گا، جو نوع انسانی کے لئے سب سے بڑی اجتماعی مصیبت ہے ۔

نہج البلاغہ میں مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں حضرت امیر المومنین (علیه السلام) فرماتے ہیں :

فانه لیس من فرائض الله شیء الناس اشد علیه اجتماعا مع تفرق اهوائهم و تشتت ارائهم من تعظیم الوفا بالعقود، و قد لزم ذٰلک المشرکوں فیها بینهم دون المسلمین لما استوبلوا من عواقب الغدر ۔

دنیا بھر کے لوگوں میں تمام تر اختلافات کے باوجود ایفائے عہد کی طرح کسی اور امر پر اتفاق نہیں ہے ۔ اسی لئے تو زمانہ جاہلیت کے بت پرست بھی اپنے عہد و پیمان کا احترام کرتے تھے ۔ کیونکہ وہ عہد شکنی کے درد ناک انجام کو جان چکے تھے ۔(۲)

امیر المومنین (علیه السلام) ہی سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا:

ان الله لایقبل الا العمل الصالح ولا یقبل الله الا الوفاء بالشروط و العهود ۔

خدا اپنے بندوں سے عمل صالح کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور ( اسی طرح ) خدا شرائط اور عہد و پیمان کے ( بارے میں بھی) ایفاء کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرتا ۔ (سفینة البحار، ج ۲ صفحہ ۲۹۴ ۔ )

پیغمبر اکرم سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:لادین لمن لا عهد له (بحار جلد ۱۶ صفحہ ۱۴۴) ۔

جو شخص اپنے عہد و پیمان کا وفا دار نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔

لہٰذا ایفائے عہد ایک ایسی بات ہے جس میں افرادِ انسانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے چاہے طرف مقابل مسلمان ہو یا کوئی غیر مسلم۔ اصطالح کے مطابق یہ انسانی حقوق میں سے ہے نہ کہ برادرونِ دینی کے حقوق میں سے ۔

ایک حدیث میں حضرت امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا :

ثلاث لم یجعل الله عز وجل لا حد فیهن رخصة ، اداء الامانة الیٰ البر و الفاجر، و الوفاء بالعهد للبر والفاجر، و بر الوالدین برین کانا او فاجرین ۔

تین چیزیں ایسی ہیں جن کی مخالفت کی خدا نے کسی شخص کو اجازت نہیں دی

۱ ۔ امانت کی ادائیگی، ہر شخص کو چاہے وہ نیک ہو یا بد

۲ ۔ ایفائے عہد ہر کسی سے چاہے وہ اچھا ہو یا برا اور (اصول کافی جلد ۲ صفحہ ۱۶۲) ماں باپ سے حسن سلوک ، چاہے وہ اچھے ہو ں یا برے۔

یہاں تک کہ ایک رویت میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے :

اگر کوئی شخص اشارے سے بھی کوئی عہد اپنے ذمے لے لے تو اسے وفا کرنا چاہئیے۔

اس روایت کا متن یہ ہے :اذا اومی احد من المسلمین اواشار الیٰ احد من المشرکین فنزل علی ٰ ذٰلک فهو فی امان ۔(۳)

عہد و پیمان کے بارے میں حکم پر گفتگو ہو چکی جو کہ تمام احکام اور خدائی پیمانوں پر محیط ہے اس کے بعد احکام ِ اسلام کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے ان میں سے پہلا حکم کچھ جانوروں کے گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں ہے ، فرمایا گیا ہے : چو پائے( اور ان کے جنین ) تمہارے لئے حلال کئے گئے ہیں

( اٴُحِلَّتْ لَکُمْ بَهیمَةُ الْاٴَنْعامِ ) ۔

”انعام “جمع ہے” نعم “کی جس کا معنی ہے اونٹ ، گائے اور گوسفند ۔(۴)

” بھیمة “ کا مادہ ”بھمة“ ( بر وزن” بھمة “ ) ہے ۔ اس کا معنی ہے ” محکم اور سخت پتھر“ اور ہر چیز جس کا ادراک مشکل ہو اسے ” مبہم “ کہتے ہیں اور وہ تمام جانور جو بول چال نہیں سکتے انھیں بھیمة کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی آواز میں ابہام ہوتا ہے ۔ لیکن عام طور پر یہ لفظ چوپایوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے اور اس میں درندے اور پرندے شامل نہیں ہوتے چونکہ حیوانات کے جنین ( جو مادہ جانور کے پیٹ میں ہوتے ہیں ) بھی ایک قسم کا ابہام رکھتے ہیں اس لئے انھیں بھی ” بھبیمة“ کہا جاتا ہے ۔

اس بنابر” بھیمة الانعام “کا حلال ہونا یا تو تمام چو پایوں کے لئے ہے ( البتہ وہ جانور مستثنیٰ ہیں جن کا ذکر بعد کی آیت میں آئے گا) یا ان بچوں کے حلال ہونے کے معنی میں ہے جو حلال گوشت جانوروں کے شکم میں ہوں ( وہ بچے کہ جن کی خلقت پوری ہوگئی ہے اور کھال او ربال ان پر اگ آئے ہیں ۔(۵)

کچھ جانوروں کے حلال ہونے کے بارے میں پہلے سے مشخص تھا مثلاً اونٹ، گائے اور گوسفند ، لہٰذا ممکن ہے کہ اس آیت میں ان کی جنین کی حلیت کی طرف اشارہ ہو لیکن جو بات آیت کے معنی سے زیادہ قریب نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے یعنی ایسے جانوروں کے حلال ہونے کے بارے میں بھی ہے اور ان کی جنین کے حلال ہونے سے متعلق بھی ہے اور اگر ایسے جانوروں کا حکم پہلے سے بھی معلوم تھا تب بھی یہاں مستثنیٰ قرار دیئے جانے والے جانوروں کے حکم سے پہلے مقدمے کے طور پر اس حکم کا تکرار کیا گیا ہے ۔ اس جملے کی تفسیر کے بارے میں جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس حکم کا ربط ایفائے عہد کے لازمی ہونے سے اس بنا پر تھا کہ ایفائے عہد ایک کلی بنیاد ہے ۔ یہ کلی بنیاد احکام الہٰی پراس لحاظ سے ایک تاکید ہے کہ احکام الہٰی بھی خدا کے بندوں سے عہد و پیمان کی ایک قسم ہے اس کے بعد پھر کچھ احکام بیان کیے گئے ہیں جن میں بعض جانوروں کے حلال ہونے کا ذکر ہے اور بعض جانوروں کے گوشت کے حرام ہونے کا ذکر ہے ۔

پھر آیت میں چوپایوں کے گوشت کی حرمت کے بارے میں دو استثنائی حکم ہیں : ان جانوروں کے گوشت کو استثناء کرنا حرام ہے جن کی تحریم عنقریب تمہارے لئے بیان کی جائے گی( إِلاَّ ما یُتْلی عَلَیْکُم ) ( یعنی حج کے مناسک یا عمرہ کے مناسک انجام دینے کے لئے باندھے گئے احرام کی حالت میں شکار کرنا حرام ہے )( إِلاَّ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اٴَنْتُمْ حُرُمٌ ) ۔(۶)

آیت کے آخر میں فرماتا ہے : خدا جو حکم چاہتا ہے ، صادرکرتا ہے یعنی ۔ خدا چونکہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور ہر چیز کا مالک ہے لہٰذا جو حکم بندوں کی مصلحت میں ہو اور حکمت اس کی متقاضی ہو اسے جاری کردیتا ہے( إِنَّ اللَّهَ یَحْکُمُ ما یُریدُ ) ۔

____________________

۱ -نہج البلاغہ، حضرت علی (علیه السلام) کے خطوط میں سے خط نمبر ۵۳۔

۲ -مستدرک الوسائل ج۲ ص ۲۵۰۔

۳ - ” نعم “ اگر مفرد کی صورت میں استعمال ہو تو” اونٹ“ کا معنی دیتا ہے لیکن جمع کی شکل میں ہو تو اونٹ، گائے اور گوسفند بھی اس کے مفہوم میں آجاتے ہیں ( مفردات راغب ، مادہ ” نعم “ “ ) ۔

۴ -اگر ”بھیمة“کا معنی آیت میں ” حیوانات“ ہو تو ” انعام “ کے ساتھ اس کی اضافت ، اضافت بیانیہ کہلائے گی اوراگر ” جنین “ کے معنی میں ہو تو اس کی اضافت ، اضافت لامیہ ہو گی ۔

۵ ۔ البتہ ” الا مایتلی علیکم “ جملہ استثنائیہ ہے اور ” غیر محلی الصید “ کم کی ضمیر سے حال ہے جو معنی کے لحاظ سے استثناء کا نتیجہ دیتا ہے ۔