تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23269
ڈاؤنلوڈ: 3119


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23269 / ڈاؤنلوڈ: 3119
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۷۸،۷۹

۷۸۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

۷۹۔( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ترجمہ

۷۸۔ تم جہاں کہیں بھی رہو ، موت تمھیں پالے گی اگر چہ محکم بوجوں میں جار ہو او راگر انھیں ( منافقین کو ) حسنہ ( اور کامیابی) حاصل ہو تو کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہے اور سیئہ( اور شکست) سے دوچار ہوں تو کہتے ہیں یہ تمہاری طرف سے ہے کہہ دو کہ سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔ پس یہ گروہ کیوں تیار نہیں ہوتا کہ حقائق کا ادراک کرے ۔

۷۹۔ جو نیکیاں تجھ پر پہنچتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائی تجھے پہنچتی ہے وہ خود تیری طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے رسول بناکر بھبیجا ہے اور اس بارے میں خدا کی گواہی کافی ہے ۔

تفسیر

گذشتہ اور بعد کی آیات پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آیات بھی منافقین سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کی صفوں میں رہتے تھے جیساکہ آیات میں ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں شر کت کرنے سے ڈرتے تھے اور جب جہاد کا حکم صادر ہواتو انھیں تکلیف ہوئی ۔ قرآن ان کے اس طرزِ فکر کا دو طرح سے جواب دے رہا ہے پہلا جواب تو وہی تھا جو گذشتہ آیت کے آخر میں گزر چکا ہے( قل متاع الدنیا قلیل و الاخرة خیر لمن اتقی ) ” کہہ دو کہ دنیا وی زندگی بہت کم ہے لیکن پر ہیز گاروں کے لئے دوسرے جہان میں اس کا صلہ موجود ہے “۔

دوسرا جواب جو زیر بحث ہے کہ موت سے فرار اختیار کرنا تمہارے لئے مفید نہیں ” حالانکہ تم جہاں کہیں بھی ہو موت سے تم کو مفر نہیں آخر ایک تمھیں اس کا نوالہ بننا ہے یہاں تک کہ تم مضبوط گنبدوں میں کیوں نہ چھپ جاو” پس وہ موت جسے ضرور آنا ہے اور جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے کیون نہ اسے اصلاح اور سچائی کے لئے قبول کیا جائے جیسے جہاد کی صورت میں بجائے اس کے کہ بے کار اور لا حاصل موت قبول کی جائے ۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ ) ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات مثلاً حجر کی آیة ۹۹ ۔ اور مدثر کی آیت ۴۸ ۔ میں موت کو ” یقین “ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر قوم اور گروہ جو بھی عقیدہ رکھتا ہو وہ ہر چیز کا انکار کرسکتا ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ زندگی ایک دن ختم ہونے والی ہے وہ افرد جو زندگی سے عشق کرتے ہیں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ موت ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہونے کانام ہے اور اس کا نام لیتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں یہ آیات انھیں تنبیہ کرتی ہیں اور زیر بحث آیت میں ۔ یدرککم ۔ کے مفہوم سے انھیں متوجہ کیا گیا ہے کہ عالم ہستی کی اس حقیقت سے فرار اختیار کرنا ایک نامناسب فعل ہے کیونکہ ۔یدرککم ۔ کے مادہ کا معنی یہ ہے کہ کوئی کسی چیز سے فرار حاصل کرے اور وہ اس کے پیچھے دوڑے ۔ سورہ جمعہ کی آیت ۸ میں بھی یہ حقیقت زیادہ کھل کربیان کی گئی ہے :

قل ان الموت الذی تفرون منہ ملاقیکم کہیے کہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور تمہارے سامنے آئے گی ۔

جب یہ حقیقت مد نظر ہو تو کیا یہ عقل مندی ہے کہ انسان میدان جہاد میں جانے اور قابل فخر مرتبے پر فائز ہونے کی بجائے اس سے کنارہ کش ہ وکر گھر میں آرام کرتا رہے فرض کرلیں کہ جہاد سے کنارہ کش ہو کر وہ زندگی کے چند روز اور گذار لے اور وہی کام دہراتا رہے جو پہلے کرتا رہا ہے ۔راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے اجر و ثواب سے بے بہرہ ہو جائے تو کیا یہ عقل اور منطق کے مطابق صحیح ہے اصولی طور پر موت ایک عظیم حقیقت ہے اور موت کے استقبال کے لئے افتخار کے ساتھ آمادہ ہونا چاہئیے ۔دوسرا نکتہ جس پر توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ درج بالا آیت میں کہا گیا ہے کہ کوئی چیز یہاں تک کہ محکم برج ( بروج مشیدہ)(۱) بھی موت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا اور اس کی وجہ واضح یت اور وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت وجود انسانی سے باہر نفوذ کرتی ہے ۔ عملی طور پر موت کا سر چشمہ انسان کے اندر ہے ، کیونکہ بدن کے مختلف کل پر زوں ( اعضاء) کی استعداد یقینا محدود ہے ایک دن وہ ختم ہو جاتے ہیں ۔البتہ غیر طبیعی موت انسان کی تلاش میں باہر سے آتی ہے لیکن طبعی موت اس کے اندر سے آتی ہے ۔ مضبوط گنبد اور بھاری قلعے بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتے ۔یہ بجا ہے کہ مضبوط قلعے بعض اوقات غیر طبعی موت سے بچا لیتے ہیں ۔ مگر پھر بھی موت سے مکمل نجات نہیں دلاسکتے اورچند دنوں بعد طبعی موت انسان کو آلیتی ہے ۔

____________________

۱ - مشیدہ ۔ در اصل مادہ شید ( بر وزن شیر) سے ہے اور گچ اور دوسرے محکم مواد کے معنی میں ہے جنھیں کسی بنیاد کے استحکام کے لئے استعمال کرتے ہیں چونکہ اس زمانہ میں عام طور پر مضبوط بنیاد کے لئے محکم ترین مادہ گچ اور چونا تھا لہٰذا زیادہ تر اس مفہوم میں بولا جاتا تھا۔ لہٰذا بروج مشیدہ محکم قلعوں کے معنی میں ہے اور دیکھنے میں مشیدہ مرتفع اور بلند کے معنی میں آتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ چوناسے استفادہ کئے بغیر کسی طرح بھی بلند و بالا عمارت کی بنیادیں استوار نہیں ہوسکتیں ۔

کامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ

قرآن اس آیت کے ذیل میں منافقین کی کچھ اور بے بنیاد باتوں اور باطل خیالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :وہ جب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور نیکیاں اور حسنات ان کے ہاتھ آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے یعنی ہم اس قابل تھے کہ خدا نے ہمیں یہ شفقتیں اور نعمتیں عطا کی ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

لیکن جب انھیں شکست کا سامنا ہو یا میدان جنگ میں کوئی مشکل لاحق ہو تو کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر کی غلط تدبیر اور ان کی جنگی حکمت عملی کے خام ہونے کی وجہ سے تھا اس ضمن میں وہ جنگ احد کی شکست کا حوالہ دیتے ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ )

بعض مفسرین کا احتمال ہے کہ درج بالا آیت یہودیوں کے بارے میں ہے اور ” حسنہ“ اور ” سیئة“ سے مراد سارے اچھے اور برے حوادث و واقعات ہیں کیونکہ یہودی پیغمبر کے ظہور کے وقت اپنی زندگی کے اچھے حوادث کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے اور برے حوادث کو پیغمبر سے منسوب کردیتے تھے لیکن اس آیت کا ربط پہلے اور بعد کی ان آیات سے ہے جو منافقین کے بارے میں نشاندہی کرتی ہیں یہ آیت بھی زیادہ تر انہی سے مربوط ہے بہر حال قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ ایک موحد اور بالغ نظر خدا پرست کی نگاہ میں یہ تمام حوادث کامیابیاں اور شکستیں خدا کی طرف سے ہیں جولوگوں کی قابلیت اور اہلیت کے مطابق دی جاتی ہے ۔( قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

اور آیت کے آخر میں اعتراض کے طور پر ان منافقین کی زندگی کے مختلف پہلووں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ فکر اور غور نہیں کرتے” پس کیوں یہ لوگ حقائق کاادراک کرنے کو تیار نہیں ہوتے“

( فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

اس کے بعد اگلی آیت میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے کہ تمام نیکیاں ، کامیابیاں اور حسنات جو تمہیں ملتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائیاں اور شکستیں تمھیں در پیش ہوتی ہیں اور وہ خود تمہاری طرف سے ہیں ۔

( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ )

اور آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو اپنی شکستوں اور ناکامیوں کی نسبت پیغمبر سے دیتے ہیں اور اصطلاحاً پیغمبرکی وجہ سے سمجھتے تھے انھیں جواب دیا گیا ۔ ۔ پیغمبر سے ارشاد ہوتا ہے : ” اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے اپنا پیامبرقرار دیاہے اور خدا اس پر گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے “۔تو کایہ ممکن ہے کہ خدا کابھیجا ہوا لوگوں شکست، ناکامی او ربرائی کا سبب ہو؟( وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ایک اہم سوال کا جواب

ان دو آیات کا مطالعہ جو قرآن میں آگے پیچھے مربوط ہیں ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے کہ کیوں پہلی آیت میں تمام نیکیوں اور برائیوں (حسنات و سیئات ) کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے جب کہ دوسری آیت میں صرف نیکیوں کو خدا کی طرف اور برائیوں اور سیئات کو لوگوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ یقینا یہاں کوئی نکتہ پوشیدہ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ دو آیات جو کہ یکے بعد دیگرے آئی ہیں ان میں ایسا واضح اختلاف ہے ان دونو ں آیات پر غور و فکر کرنے سے چند نکات واضح ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک سوال کا علیحدہ جواب بن سکتا ہے ۔

۱۔ اگر سیئات اور برائیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دوپہلو رکھتی ہیں ۔ ایک مثبت پہلو اور ایک منفی پہلو ۔ یہی منفی پہلو ہے جو انھیں برائی کی شکل و صورت دیتا ہے اور انھیں نسبتی زبان یا مقابلتاً نقصان کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔

اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔

جو شخص گرم سر و ہتھیار کے ذریعہ کسی مسلمان کو قتل کردے ، مسلم ہے کہ وہ ایک برائی کا مرتکب ہوا ہے اب ہم اس برے کام کے عوامل پر غور و فکر کرتے ہیں ۔ ان عوامل میں انسان کی طاقت م اس کی فکر ، سرد یا گرم ہتھیار کی طاقت ، صحیح نشانہ، مناسب وقت سے استفادہ کرنا اور گولی کی تاثیر اور طاقت وغیرہ نظر آتے ہیں جو تمام واقعہ کے مثبت پہلو ہیں ۔ کیونکہ یہ سب مفید اور سود مندہ سکتے ہیں اور اگر انھیں بر مخل استعمال کیا جائے تو بڑی بڑی مشکلات کے موقع پر کام آتے ہیں صرف ایک منفی پہلو اس واقعہ کا یہ ہے کہ یہ تمام صلاحتیں اور توانائیاں بے محل استعمال ہوئی ہیں مثلاً بجائے اس کے کہ ان کے ذریعے ایک خطر ناک درنسدے کو مارا جاتا یا ایک جفا کار ظالم کو قتل پر انھیں استعمال کیا جاتا، ایک بے گناہ انسان کو نشانہ بنایا گیا بس یہی پہلو ،منفی ہے کہ ان صلاحیتوں کو برائی کے طور پر کام لایا گیا ، ورنہ نہ تو اچھے نشانے کی صلاحیت انسان کے لئے بری چیز ہے اور نہ ہی گولی او ربارود کا استعمال برا ہے ، یہ سب صلاحیت کو استعمال کرنے کے ذرائع ہیں اور اپنی جگہ بہت فوائد کے حامل ہیں ۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی آیت میں تمام حسنات اور سیئات کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت کے تمام ذرائع ، یہاں تک کہ وہ صلاحتیں کہ جن سے غلط فوائد حاصل کئے گئے ، خدا کی طرف سے ہیں اور اصلاحی اور مثبت اجراء کا سر چشمہ وہی ہیں اور اگر دوسری آیت میں سیئات کی نسبت لوگوں کی طرف دی گئی ہے تو واقعہ کے انھی منفی پہلووں اور خدا کی عنایات اور صلاحیتوں سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کی طرف اشارہ ہے یہ بالکل اسی مثال کی طرح ہے کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو ایک اچھا گھر بنانے کے لئے سرمایہ دے لیکن وہ اسے منشیات، فساد ، تباہ کاری میں صرف کردے اس میں شک نہیں ہے کہ سرمایہ کے لئے وہ اپنے باپ کا مقروض ہے لیکن سرمایے کے غلط استعمال کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے ۔

۲۔ ممکن ہے کہ آیہ مبارکہ ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتی ہو جس کی طرف خبر اور تفویض کی بحث میں اشارہ ہوا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام حوادث دنیا، یہاں تک ہمارے اعمال و افعال چاہے اچھے ہوں یا برے ، نیک ہوں یا بد ایک طرح سے خدا سے مربوط ہیں کیونکہ وہی جس نے ہمیں طاقت دی ہے اور اختیار و ارادہ کی آزادی ہمیں بخشی ہے لہٰذا ہم جو کچھ اختیار کرتے ہیں اور ارادے کی آزادی کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں وہ مشیت الہٰی کے برخلاف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اعمال ہم سے نسبت رکھتے ہیں اور ان کا سر چشمہ ہمارا وجود ہے کیونکہ عمل کے تعین کرنے کا عامل و سبب ہمارا ارادہ و اختیار ہے اور اسی بناپر ہم اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہیں اور خدا کی طرف ہمارے اعمال کی اسناد و نسبت، جیسا کہ اشارہ ہوا ہے ہماری ذمہ داری اور جوابدہی کو سلب نہیں کرتی اور عقیدہ جبر کا موجب اور سبب نہیں بنتی۔ لہٰذ ا خدا جہاں فرماتا ہے کہ ” حسنات و سیئات“ میری طرف سے ہیں تو وہاں اشارہ کرتا ہے کہ تمام چیزوں کی نسبت خدا کی اس فاعلیت ( اختیار) کی طرف ہے اور جہاں فرماتا ہے سیئات تمہاری طرف سے ہیں تو وہاں ہماری فاعلیت اور ہمارے ارادہ و اختیار کی طرف اشارہ ہے ، اور حقیق میں دو آیات کا مجموعہ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کو ثابت کرتا ہے ( یہ نکتہ غور طلب ہے )

۳۔ ایک اور تفسیر جو ان آیات کے لئے موجود ہے اور اہل بیت (علیه السلام) کی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ” سیئات“ سے مراد اعمال کی سزا و مجازات اور گناہوں کے عقوبات و نتائج ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سزائیں خدا کی طرف سے ہیں لیکن چونکہ یہ بندوں کے اعمال و افعال کا نتیجہ ہیں ۔ اس بناپر بعض اوقات ان کی نسبت بندوں کی طرف دی جاتی ہے اور بعض اوقات خدا کی طرف، اور دونوں صحیح ہیں ۔ مثلا یہ دونوں طرح سے صحیح و درست ہے کہ کہا جائے کہ قاضی چور کا ہاتھ کاٹتا ہے یا یہ کہ چور خود اپنے ہاتھ کو کاٹتا ہے ۔

آیات ۸۰،۸۱

۸۰۔( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

۸۱۔( وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللهُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۸۰۔جس شخص نے پیغمبر کی اطا عت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو گر دانی کرے تو تم اس کے جواب دِہ نہیں ہو ۔

۸۱۔وہ تیرے سامنے کہتے ہیں کہ ہم فر ما نبردار ہیں لیکن جب وہ تمھاری بز م سے باہرجاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمھاری گفتگو کے بر خلاف رات کو خفیہ میٹنگیں تشکیل دیتا ہے جو کچھ وہ ان میٹنگوں میں کہتے ہیں خدا اسے لکھتا ہے ۔

ان کی پر واہ نہ کرو (اور ان کے منصوبوں اور سا زشوں سے نہ ڈرو)اور خدا پر تو کل کرو اور کافی ہے کہ وہ تمھارا مدد گاراور حفاظت کرنے والا ہو ۔

تفسیر

اس آیت میں لوگو ں اور ان کے ”حسنات“اور ” سیئات“کے مقا بلہ میں رسول کی حیثیت بیان گئی ہے ۔خدا پہلے فر ماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی ۔

( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ )

لہٰذا خدا کی اطاعت پیغمبر کی اطاعت ہے جدا نہیں ہو سکتی کیونکہ پیغمبر کوئی قدم خدا کی مشیت کے خلاف نہیں اٹھاتا اس کی گفتار ، کردار، اعمال سب خدا کے فرمان کے مطابق ہیں ۔

اس کے بعد فرماتا ہے : اگر کچھ لوگ اعراض اور رو گردانی کرتے ہیں اور وہ تمہارے احکام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں تو تم ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں ہو اور یہ تمہارا کام نہیں کہ ان سے تکرار کرو یا نافرمانی کر نے سے انھیں جبراً روکو ۔ تمہارا فرض تبلیغ رسالت امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور گمراہ وبے خبر لوگوں کی رہنمائی کرنا

( وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

غور کرنا چاہئیے کہ لفظ ” حفیظ“ اس لحاظ سے کہ وہ شخص ہے کہ جو ہمیشہ کسی چیز کی نگرانی پر مامور ہو ۔ لہٰذا آیت کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ پیغمبر کی ذمہ داری رہبری کرنا، دعوت حق دینا، فتنہ اور مفاسد کا مقابلہ کرنا ہے لیکن اگر کچھ لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہو ں تو پیغمبر ان کی کجروی کے لئے جوابدہ نہیں ہیں کہ ہر جگہ موجود ہوں اور ہر گناہ و معصیت کا طاقت اور جبر سے مقابلہ کریں اور مروّج طریقوں سے بھی وہ اس طرح کی قدرت نہیں رکھتے ۔ اس بنا پر احد جیسی جنگ کے حوادث بھی شاید آیت کے پیش نظر ہوں کہ پیغمبر کا فرض تھا کہ فنون ِ حرب کے لحاظ سے زیادہ گہرائی اور غور و خوض سے جنگی حکمتِ عملی تیار کرتا اور دشمن کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھتا، اور یہ بات مسلم ہے کہ ان احکام و ضوابط میں پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے پیغمبر کے احکام کی حکم عدولی کی اور اس سبب سے وہ شکست سے دو چار ہو ئے تو اس کی جواب دہی ان سے منسوب ہو گی نہ کہ پیغمبرسے ۔ غور کرنا چاہئیے کہ یہ آیت قرآن کی واضح ترین آیات میں سے ہے جو سنتِ پیغمبر کے حجت ہونے اور آپ کی احادیث کو قبول کرنے کے لئے دلیل ہے ، لہٰذا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو قبول کرتا ہوں لیکن پیغمبر کی حدیث اور سنت کو قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ درج بالا آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ پیغمبر کی حدیث اور سنت کی اطاعت فرمانِ خدا کی اطاعت ہے ۔

جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر نے حدیث ثقلین کے مطابق جو کہ مشہور مآخذ اور کتب اسلامی میں مذکور ہے چاہے وہ کتب شیعہ ہوں یا کتب اہل سنت، صراحت کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کو سند اور حجت قرار دیا ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت (علیه السلام) کے فرمان کی اطاعت بھی فرمانِ خدا کی اطاعت سے الگ نہیں ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو تو قبول کرتا ہوں لیکن اہل بیت(علیه السلام) کے فرامین کو نہیں مانتا کیونکہ یہ بات درج بالا آیت اور اس کے مشابہ آیات کے برخلاف ہے ۔

اسی لئے بہت سی روایات جو تفسیر بر ہان میں اس آیت کے ضمن میں آئی ہےں میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے درج بالا آیت کے مطابق امر و نہی کا حق اپنے پیغمبر کو دیا ہے اور پیغمبر نے یہ حق حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ اہل بیت (علیه السلام) کو دیا ہے لہٰذا لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے امر و نہی سے رو گردانی نہ کریں کیونکہ ان کا امر و نہی ہمیشہ خدا کی طرف سے ہے نہ کہ خود ان کی طرف سے ( تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۳۹۶) اس کے ساتھ دوسری آیت میں منافقین کے ایک گروہ یا کمزور ایمان والے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” وہ لوگ جس وقت مسلمانوں کی صفوں میں پیغمبر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یا کسی ضرر سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے دوسروں کے ہم آواز ہوتے اور فرمانِ پیغمبر کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جان و دل سے پیغمبر کی پیروی کرنے کو تیار ہیں( وَیَقُولُونَ طَاعَة )

لیکن جب لوگ بزم رسالت سے نکلتے ہیں تو وہ منافقین اور کمزور ایمان والے افراد اپنے عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور خفیہ اجتماعات میں پیغمبر کے ارشادات کے خلاف پروگرام بناتے ہیں

( فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ )

اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین پیغمبر کے زمانہ میں نچلے نہیں بیٹھے تھے ، بلکہ وہ رات کو خفیہ اجتماعات میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے اور پیغمبر اکرم کے لائحہ عمل میں رخنہ اندازیاں کرتے تھے ، لیکن خدا اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سے منہ پھیر لیں اور ان کی سازشوں سے گھبرائیں نہیں اور اپنے لائحہ عمل کے لئے ان پر انحصار نہ کریں ۔ بلکہ فقط خدا پر بھروسہ رکھیں خدا جو سب سے زیادہ مدد اور حفاظت کرنے والا ہے ۔

( فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

آیت ۸۲

۸۲( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

ترجمہ

۸۲۔ کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ اختلافات پاتے ۔

تفسیر

اعجاز قرآن کی زندہ مثال

ان سر زنشوں کے بعد جو گزشتہ آیات میں منافقین کو کی گئی تھیں یہاں انھیں اور دوسرے تمام ان لوگوں کی طرف جو قرآن کی حقانیت میں شک و تردد کرتے ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کیا یہ لوگ قرآن کی مخصوص وضع و کیفیت پر غور و فکر نہیں کرتے اور اس کے نتائج کو نہیں دیکھتے ، قرآن اگر خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نازل ہوتا تو یقینا اس میں انھیں بہت سے تفاوت و اختلافات ملتے ا ب جب کہ اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے تو جان لینا چاہئیے کہ وہ خدا ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔

( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

”تدبر“ اصل میں مادہ دبر( بر وزن ابر) پشت سر اور کسی چیز کی عاقبت و انجام کے معنی میں ہے اس بنا پر تدبیر سے مراد نتائج ، عواقت اور کسی چیز کے آگے پیچھے دیکھنا ہے ۔ تفکر سے اس کا فرق یہ ہے کہ تفکر کا ربط کسی وموجود کے علل اور خصوصیات کے مطالعہ سے ہے لیکن ”تدبیر“ اس کے عواقب و نتائج کے مطالعے اور جائز سے مربوط ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصولِ دین اور ایسے مسائل مثلاً پیغمبر کے دعوے کی سچائی اور قرآن کی حقانیت کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کریں اور اندھی تقلید اور بغیر سوچے سمجھے فیصلوں سے اجتناب کریں ۔

۲۔ بعض لوگوں کے خیال کے برعکس قرآن سب لوگوں کے لئے قابل فہم و ادراک ہے کیونکہ اگر وہ قابل فہم و ادراک نہ ہوتا تو اس میں تدبر و فکر کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔

۳۔ قرآن کی حقانیت کی ایک اور دلیل اور یہ کہ وہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے یہ ہے کہ سارے قرآن میں تضاد اور اختلاف نہیں ہے ۔ اس حقیقت کے ادراک کے لیے حسبِ ذیل وضاحت کی طرف توجہ کریں ۔

” ہر شخص کی کیفیات اور نظر یات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں بعض استثنائی حالتیں چھوڑ کر عام حالات میں قانون تکامل و ارتقاء انسان اور اس کے افکار و نظر یات پر بھی موثر حاوی ہے ہمیشہ دن مہینے اور سال بدلنے سے لوگوں کی زبان ، فکر اور گفتار بھی بدلتی رہتی ہے اگر غور سے دیکھیں تو ایک لکھنے والے شخص کی تحریریں کبھی بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ ایک ہی کتاب کی ابتدا اور انتہا میں فرق ہوتا ہے خصوصاً اگر کوئی شخص عظیم حوادثسے گزرے اور حوادث بھی ایسے جو ایک فکری، اجتماعی ، نظر یاتی عقائدی انقلاب کی بنیاد بن جائیں تو وہ جتنا بھی کوشش کرے کہ اپنی گفتار کو ایک جیسا اور ایک طرز پر رکھے اور اسے اپنی گزشتہ باتوں سے مربوط کرلے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ خصوصاً اگر وہ ان پڑھ اور پس ماندہ ماحول میں پروان چڑھا ہو“۔

”لیکن قرآن جو ۲۲ سال کی مدت میں لوگوں کے تربیتی تقاضوں اور ضروریات کے مطابق بالکل مختلف حالات اور مواقع پر نازل ہوا، ایسی کتاب ہے جو مکمل طور پر مختلف موضوعات کو چھیڑتی ہے اور عام کتب کی طرح اس میں صرف ایک اجتماعی، سیاسی ، فلسفیانہ، حقوقِ انسانی یا تاریخی موضوع سے بحث نہیں ہے بلکہ قرآن کبھی توحید اور اسرار آفرینش کے بارے میں اور کبھی احکام قوانین اور آداب و سنن کے متعلق اور کسی وقت گذشتہ عبادات اوربندوں کے خدا سے رابطے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے ۔ ڈاکٹر گوستان دلبون کے بقول قرآن جوکہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب ہے صرف تعلیمات اور احکام مذہبی پر منحصر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی احکام کو بھی بیان کرتی ہے ایسی خصوصیات کی حامل کتاب کے لئے عام طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ تضاد، تناقض اور تضاد بیانی سے مبرا ہو ۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام جہات کے باوجود اس کی تمام آیات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اور ہر قسم کے تضاد، اختلافات، ناموزونیت سے خالی ہے تو ہم بہت بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب افکار انسانی کی تخلیق نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ خدا کی طرف سے ہے ۔ جیسا کہ قرآن خود اس حقیقت کو درج بالا آیت میں بیان کرتا ہے ۔“(۱)

____________________

۱ - کتاب قرآن و آخرین پیغمبر ص ۳۰۹ تالیف ناصر مکارم

آیت ۸۳

۸۳۔( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

ترجمہ

۸۳۔ اور جب کامیابی یا شکست کی خبر انہیں ملے تو وہ ( تحقیق کے بغیر) اسے مشہور کر دیتے ہیں لیکن اگر وہ پیغمبر اور صاحبان امر کی طر ف( جو تشخیص کی کافی اہلیت و قدرت رکھتے ہیں ) پلٹا دیں تو مسائل کی تہہ سے آگاہ ہو جائیں اور خدا کا فضل اور رحمت شاملِ حال نہ ہوتی تو سوائے قلیل گروہ کے سب کے سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے ۔

تفسیر

افواہیں پھیلانا

اس آیت میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے ایک اور منفی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب انھیں مسلمانوں کی فتح یا شکست کے متعلق خبریں پہنچتی ہیں تو وہ تحقیق کے بغیر انھیں لوگوں میں پھیلاتے ہیں جب کہ بیشتر یہ خبریں بے بنیاد ہوتی ہیں اور دشمنوں کی جانب سے خاص مقاصد کے لئے گھڑی جاتی ہیں ، ان کا شہرت پانا مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہوتا ہے

( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ )

حالانکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس قسم کی خبریں سب سے پہلے اپنے رہبروں اور پیشواوں کے سامنے رکھیں اور ان کی وسیع اطلاعات اور گہری فکر سے استفارہ کریں اور بلا وجہ نہ تو مسلمانوں کو اچھے نتائج کے غرور میں مبتلا کریں جو خیالی کامیابیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ شکست کی جھوٹی خبروں سے ان کی ہمتوں کو پست کریں ۔

( وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ )

” یستنبطونہ“ اصل میں نبط ( بر وزن فقط) کے مادے سے ہے اس سے مرادوہ پہلا پانی ہے جو کنویں سے نکالتے اور زمین کی تہہ سے حاصل کرتے ہیں اسی بناپر ہر حقیقت کے مختلف دلائل وشواہد سے استفادہ کرنے اور موجود مدارک سے استخراج کرنے کو ” استنباط“ کہا جاتا ہے چاہے یہ کام فقہی مسائل میں ہو یا فلسفانہ ، سیاسی اور علمی مسائل میں جو تشخیص کی قدرت رکھتے ہوں ، اور مختلف مسائل پر کافی دسترس رکھتے ہوں اور جو حقائق کو بے بنیاد افواہوں سے اور صحٰح مطالب کو غلط امر سے الگ کرکے لوگوں تک پہچائیں ، اس طرح کے لوگوں میں پہلا درجہ پیغمبراکرم اور آپ کے جانشین ائمہ اہل بیت(علیه السلام) کا ہے اور دوسرے درجہ میں ایسے علماء ہیں جو ان مسائل میں صاحبِ نظر ہیں ۔ جیسا کہ تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ضمن میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

” ھم الائمہ“ یعنی اس آیت سے مراد آئمہ اہلِ بیت ہیں ۔

اور اس مضمون کی دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں ممکن ہے اس طرح کی روایات پر لوگ اعتراض کریں کہ رسول اللہ تو آیت کے نزول کے وقت موجود تھے لیکن آئمہ اہل بیت (علیه السلام) کو منصبِ امامت نہیں ملا تھا اس اعتراض کا جواب واضح ہے کیونکہ یہ آیت پیغمبر اکرم کے زمانے کے ساتھ تو مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تو ایک مکمل قانون ، تمام ادوار اور زمانوں کے لئے ہے جو دشمنوں اور نادان مسلمانو کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان غلط خبروں کی اشاعت کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے کے نقصانات

مختلف معاشروں کو جو بڑے مسائل در پیش ہوتے ہیں اور جو معاشروں سے اجتماعی فکر ، افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کو ختم کر دیتے ہیں ان کا سبب جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت ہے اس طرح سے کہ بعض اوقات ایک منافق ایک غلط خبر گھڑ لیتا ہے وہ چند افراد تک پہنچاتا ہے اور وہ بلا تحقیق اس کی نشر و اشاعت کرنے لگتے ہیں اور شاید کچھ اس میں اپنی طرف سے اضافے بھی کرتے ہیں اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک لوگوں کی فکری توانائی ضائع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو اس طرف مشغول کرکے انھیں اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہیں اور معاشرے کو اہم فرائض کی انجام دہی سے سست روا اور متردد کردیتی ہیں ۔ اگر چہ وہ گروہ اور معاشرے جن میں جبر ہے اور ان کے گلے گھونٹ دیئے گئے ہیں ان میں بی جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت کرنا ایک قسم کے مقابل؛ے یا انتقام جوئی کے زمرے میں آتا ہے لیکن صحیح معاشروں میں غلط خبروں کی نشر و اشاعت بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ اگر اس قسم کی خبریں قابل، مشیتاور مفید افراد کے متعلق ہوں تو وہ انھیں خدمات اور کار نامے انجام دینے کے معاملے میں دلِ سرد اور سست کردیتی ہیں اور بعض اوقات ان کی برس ہا برس کی حیثیت کو بر باد کردیتی ہیں ۔ ولوگوں کو ان کے وجود کے فوائد سے محروم کردیتی ہیں ۔ اسی بنا پر اسلام صراحت کے ساتھ جھوٹی خبریں گھڑنے کے عمل سے جنگ کرتا ہے اور جعل سازی، جھوٹ اور تہمت گوئی اور اس کی نشر و اشاعت بھی ممنوع قرار دیتا ہے ۔ درج بالا آیت اس کا ایک نمونہ ہے ۔

اس کے بعد آیت کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی اور پر وردگار کے مقرر شدہ رہنماوں کے ذریعے تم اس قسم کی جھوٹی خبروں اور ان کے برے نتائج سے چھٹکارہ حاصل نہ کرتے تو تم میں سے بہت سے لوگ شیطانی راستوں پر چل پڑتے اور قلیل افراد ایسے رہ جاتے جو شیطان کی پیروی سے اجتناب کرتے( وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

یعنی پیغمبر اور صاحب نظر و اہل بصیرت علماء ہی جو غلط مشتہر ہونے والی خبروں کے وسوسو ں سے بچ سکتے ہیں لیکن معاشرے کی اکثریت اگر صحیح رہبری سے محروم رہ جائے تو من گھڑت خبروں اور ان کے ضرررساں اثرات سے نہیں بچ سکتی۔(۱)

____________________

۱- جو کچھ ہم نے کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ” الاقلیلاً“ ” اتبعھم “ کی ضمیر سے ” مستثنیٰ ہے اور آیت میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں ہے

(غور کیجئے گا) ۔