تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23280
ڈاؤنلوڈ: 3120


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23280 / ڈاؤنلوڈ: 3120
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۷

۱۷۔( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اللهِ شَیْئًا إِنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یُهْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاٴُمَّهُ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَلِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا یخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

ترجمہ

۱۷۔ یقینا جنھوں نے کہا کہ مسیح بن مریم خدا ہے وہ کافر ہوگئے ہیں ، کہہ دو اگر خدا چاہے کہ مسیح بن مریم ، اس کی ماں اور روئے زمین پر موجود تمام لوگوں کو ہلاک کردے تو اسے کوروک سکتاہے ( ہاں ) آسمانوں زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، ان کی حکومت خدا ہی کے لئے ہے جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

کیسے ممکن ہے کہ مسیح (علیه السلام) خدا ہو؟۔

گذشتہ مباحث کی تکمیل کے لئے اس آیت میں حضرت مسیح (علیه السلام) کی الوہیت کے دعویٰ پر شدید حملہ کیا گیا ہے اور اسے ایک واضح کفر قرار دیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : یہ امر مسلم ہے کہ جن لوگوں نے کہا ہے کہ مسیح بن مریم خدا ہے وہ کافر ہوگئے ہیں اور در حقیقت انھوں نے خدا کا انکار کیا ہے

( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ ) ۔

اس جملے کا مفہوم واضح ہونے کے لئے ہمیں جاننا چاہئیے کہ عیسائی خدا کے بارے میں بے بنیاد دعوے کرتے ہیں ۔

پہلا وہ تین خدا وں کو عقیدہ رکھتے ہیں جسے سورہ نساء کی آیہ ۱۷۰ میں باطل قرار دیا گیا ہے :

( لا تقولوا ثلاثة انتهوا خیراً لکم انما الله اله واحد )

یعنی یہ نہ کہوکہ تین خدا ہیں ،اس عقیدے سے باز آجاو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ، معبود تو فقط تنہا خدا ہے ۔(۱)

دوسرا وہ عالم ہستی پیدا کرنے والے کو ان تین میں سے ایک خدا شمار کرتے ہیں اور ” باپ خدا “(۲)

نیز یہ بھی ہے :

خد ایعنی جو خود بخود وجود میں آیا تمام مخلوقات کے خالق اور ساری کائنات کے مالک کا نام اور وہ ایک لامتناہی اور ازلی روح ہے جو اپنے وجود حکمت قدرت اور عدالت میں انواعِ مختلف کے ساتھ ایسا ہے جس میں تغیرو تبدل نہیں ہے ۔ ( قاموس کتاب مقدس ص ۳۴۴)

کہتے ہیں ۔ سورہ مائدہ ۷۳ میں قرآنِ مجید نے اس عقدے کو بھی باطل قرار دیا ہے :

( لقد کفرو الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة و ما من الٰه الاالٰه واحد )

یعنی کافر کہتے ہیں کہ خدا تین میں سے تیسرا ہے ۔ جب کہ ایک اکیلے معبود کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔(۳)

تیسرا وہ کہتے ہیں کہ تینوں خدا تعداد حقیقی کے باوجود ایک ہیں اس عقیدے کو وہ ” وحدت در تثلیث“ بھی کہتے ہیں اس بات کی طرف زیر نظر آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا مسیح بن مریم ہے او رمسیح بن مریم خدا ہے اور دونوں روح القدس سے مل کر تین متعدد ذاتیں ہونے کے باوجود ایک ہیں ۔

سہ گانہ تثلیث کے تمام پہلو جن میں سے ہر ایک عیسائیت کا عظیم ترین انحراف ہے ، قرآن کی ایک ہی آیت میں باطل قرار دئے گئے ہیں ۔عقیدے تثلیث کے بطلان کے بارے میں تفصیلی وضاحت اسی جلد میں سورہ نساء کی آیہ ۱۷۱ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں ۔ہم نے جو کچھ مندرجہ بالا سطروں میں کہا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ فخر الدین رازی او ربعض دیگر مفسرین کو اس آیت کے سمجھنے میں یہ جو اشکال ہوا ہے کہ کوئی عیسائی بھی صراحت سے خدا اور مسیح کے اتحاد کے عقیدہ کا اظہار نہیں کرتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں مسیحیت کی کتب پر کافی احاطہ نہیں ہے کیونکہ موجودہ عیسائی کتب میں ” وحدت در تثلیث“ کا مسئلہ بالوضاحت پیش کیا گیا ہے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی کتابیں اس زمانے میں ان مفسرین کے ہاتھ نہ لگی ہوں ۔اس کے بعدعقیدہ الوہیت کے بطلان کے لئے قر آن کہتا ہے : اگر خدا چاہے کہ مسیح ، اس کی والدہ اور زمین میں بسنے والے تمام لوگوں کو ہلاک کردے تو کون اسے روک سکتا ہے( قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اللهِ شَیْئًا إِنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یُهْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاٴُمَّهُ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت مسیح (علیه السلام) اور ان کی والدہ مریم دیگر انسانوں کی طرح انسان ہونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ اس بناپر مخلوق ہونے کے لحاظ سے وہ دیگر مخلوقات کی طرح ہیں لہٰذا نابودی ان کے لئے بھی ہے اور وہ چیز جس کے لئے نیستی کا تصور ہوسکے کس طرح ممکن ہے کہ وہ ازلی و ابدی خدا ہو۔دوسرے لفظوں میں اگرمسیح (علیه السلام) خدا ہو تو خالق کائنات اسے ہلاک نہیں کر سکتا اور اس طرح اس کی قدرت محدود ہو جائے گی اور ایسی ہستی خدا نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا کی قدرت اس کی ذات کی طرح غیر محدود ہے ( غور کیجئے گا) ۔

آیت میں ” مسیح بن مریم “ کے الفاظ کا تکرار ہے شاید اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ تم خود معترف ہو کہ مسیح (علیه السلام) مریم کے فرزند تھے اور وہ ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان پر ایک مرحلہ حالتِ جنین کا گذرا، پھر وہ نو زائیدہ بچے کی حالت میں رہے اور انھوں نے تدریجاً پرورش پائی اور بڑے ہوئے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ خدا ایک چھوٹے سے محیط مثلاً شکم مادر میں رہے اس میں یہ تمام تغیرات اور تحویلات پیدا ہوں نیز جنین اور شیر خوارگی کے عالم میں وہ ماں کا محتاج ہو۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیت میں حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے ذکر کے ساتھ خصویت سے ان کی والدہ کے نام کے ساتھ لفظ ” وامہ“ آیا ہے یوں مادر عیسیٰ (علیه السلام) کو دنیا کے دیگر لوگوں سے ممتاز کیا گیا ہے ، ممکن ہے یہ تعبیر اس بنا پر ہو کہ عیسائی پو جا پاٹ کیوقت ان کی والدہ کی پرستش بھی کرتے ہیں اور اس وقت کے کلیسا وں میں دیگر مجسموں کے علاوہ جناب مریم کا مجسمہ بھی ہوتا ہے جس کی وہ تعظیم اور پر ورش کرتے ہیں ۔ سورہ مائدہ کی آیت ۱۱۶ میں بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔

( و اذقال الله یا عیسیٰ بن مریم اٴ انت قلت للناس اتخذونی و امی الهین من دون الله )

روزقیامت جب خدا کہے گا : اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر میر او رمیری والدہ کی پرستش کرو۔جولوگ بغیر باپ کے پیدا ہونے کو مسیح (علیه السلام) کی الوہیت کی دلیل سمجھتے ہیں ، آیت کے آخر میں انھیں جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب خدا کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جیسی مخلوق چاہے پیدا کرتا ہے ( تو چاہے تو کسی کو بغیر ماں باپ کے پیدا کرے جیسے اس نے حضرت آدم(علیه السلام) کو پیدا کیا ، وہ چاہے تو ماں باپ کے توسط سے پیدا کرے ۔

جیسے عام انسانوں کو پیدا کرتا ہے اور وہ چاہے تو کسی کو صرف ماں کے توسط سے پیدا کرے جیسے اس نے حضرت مسیح (علیه السلام) کو پیدا کیا ہے خلقت کو یہ تنوع کسی اورچیزکا نہیں بلکہ اس کی قدرت کی دلیل ) اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے( وَلِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا یخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

____________________

۱۔ اس آیت کی تفسیر اس جلد کی ابتداء میں گذر چکی ہے ۔

۲۔ عیسائی کتب میں ہے :

باپ خدا بیٹے کے واسطے سے پوری کائنات کا خالق ہے ( قاموس کتاب مقدس ص ۳۴۵)

۳ ۔ اس کی تفسیر انشاء اللہ عنقریب آئے گی ۔

آیت ۱۸

۱۸۔( وَقَالَتْ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ اٴَبْنَاءُ اللهِ وَاٴَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ بَلْ اٴَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ وَلِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَإِلَیْهِ الْمَصِیر )

ترجمہ

۱۸۔ یہودو نصاریٰ کہتے تھے کہ ہم خدا کے بیٹے ہیں اور اس کے ( خاص) دوست ہیں ( ان سے ) کہہ دو کہ پھر بھی وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے بلکہ اس کی مخلوقات میں سے انسان ہو وہ جسے چاہتا ہے ( اور اہل پاتا ہے ) اسے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ( اور مستحق سمجھتا ہے ؟) اسے سزا دیتا ہے ۔ آسمانوں اور زمین کی حکومت او رجو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کے لئے اور تمام موجودات کی باز گشت اسی کی طرف ہے ۔

اے اہل کتاب: ہمارا رسول تمہاری طرف آگیا ہے

اس آیت میں گذشتہ مباحث کی تکمیل کی گئی ہے ، یہود و نصاریٰ کی بے بنیاد دعووں اور موہوم امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں( وَقَالَتْ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ اٴَبْنَاءُ اللهِ وَاٴَحِبَّاؤُهُ ) ۔

وہ اپنے بارے میں صرف اسی امتیاز کے قائل نہیں بلکہ آیات قرآنی میں بار ہا ان کے اس قسم کے دعووں کا ذکر کیا گیاہے سورہ بقرہ آیت ۱۱۱ میں ان کے دعویٰ کا بھی ذکر ہے کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا او ریہ کہ جنت یہود و نصاریٰ ہی سے مخصوص ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت ۸۰ میں یہودیوں کے اس دعویٰ کا ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کی آگ چند دن کے سوا ان تک نہیں پہنچے گی ۔اس دعویٰ کے ذکر کے بعد ان کی سر زنش کی گئی ہے ۔

مندرجہ بالا آیت میں ان کے اس موہوم دعویٰ کا تذکرہ ہے کہ وہ خدا کے بیٹے اور خاص دوست ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا کا حقیقی بیٹا نہیں سمجھتے تھے عیسائی صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حقیقی بیٹا سمجھتے ہیں اور بالتصریح اپنے اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں ۔(۱)

وہ بات اپنے لئے اس مفہوم میں استعمال کرتے تھے کہ وہ خدا سے خاص ربط رکھتے ہیں اور جو شخص بھی ان کی نسل میں سے ہے یا ان کے گروہ میں داخل ہو جاتا ہے وہ اعمال صالح کے بغیر خود بخود خدا کے دوستوں اور فرزندوں میں شمار ہو جاتا ہے ۔(۲)

ہم جانتے ہیں کہ قرآن ان تمام موہوم امتیازات سے جنگ کرتا ہے او رہر شخص کا امتیاز صرف ایمان ، عمل صالح اور ا س کی پر ہیز گاری میں سمجھتا ہے اسی لئے زیر نظر آیت میں اس دعویٰ کے بطلان کے لئے فرمایا گیا ہے : ان سے کہیے کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے( قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ ) ۔

یعنی تم خود اعتراف کرتے ہو کہ تمہیں تھوڑی سی مدت کے لئے سزا دے گا گناہ گاروں والی جو یہ سزا تمہیں ملے گی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ تم خدا سے خا ص تعلق رکھتے ہو بلکہ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا شمار کرتے ہو۔ علاوہ ازیں تمہاری تاریخ شاہد ہے کہ خود اسی دنیا میں تم کئی سزاوں اور عذابوں میں مبتلاہوئے ہو۔ یہ تمہارے دعویٰ کے بطلان پر دوسری دلیل ہے ۔

اس مفہوم کی تاکیدکے لئے مزید ارشاد ہوتا ہے : تم مخلوقاتِ خدا میں سے دیگر انسانوں جیسے انسان ہو( بَلْ اٴَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَق ) ۔

یہ سب کے لئے قانون عام ہے کہ خدا جسے چاہتا ہے ( اور اہل سمجھتا ہے ) بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ( اور مستحق پاتاہے ) ۔ سزا دیتا ہے( یَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ ) ۔

علاوہ ازیں سب خدا کی مخلوق، اس کے بندے او رمملوک ہیں لہٰذا کسی کو خدا کا بیٹا کہنا منطقی اور اصولی بات نہیں ہے( وَلِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ) ۔اور آخرکار ساری مخلوق نے اسی کی طرف لوٹ جانا ہے( وَإِلَیْهِ الْمَصِیر ) ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہودو نصاریٰ نے کہاں ” خدا کے بیٹے“ ہونے کا دعویٰ کیا ہے ( چاہے یہاں بیٹا حقیقی میں نہیں مجازی معنی میں ہی ہو)؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ اناجیل میں یہ بات بار ہا دکھائی دیتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انجیل یوحنا باب ۸ جملہ ۴۱ کے بعد درج کی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے یہودیوں سے کہا :

” تم اپنے باپ والے کام کرتے ہو“۔

یہودیوں نے جواب دیا :

ہم زنا سے پیدا نہیں ہوئے ، ہمارا ایک باپ ہے جو کہ خدا ہے ۔

عیسیٰ (علیه السلام) نے ان سے کہا:

اگرخدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھے دوست رکھتے۔

روایات اسلامی میں بھی ابن عباس سے ایک حدیث مروی ہے :

پیغمبر اسلام نے یہودیوں کی ایک جماعت کو دین اسلام کی دعوت دی اور انھیں خدا کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگے تم ہمیں خدا کے عذاب سے کیسے ڈراتے ہو جب کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں ۔(۳)

تفسیرمجمع البیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں اس حدیث سے ملتی جلتی ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ : پیغمبر خدا نے خدا کے عذاب سے ڈرایا تو ایک گروہ کہنے لگا ہمیں تہدید نہ کرو او رنہ ڈراو کیونکہ ہم تو خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں اگر وہ ہم پر ناراض بھی ہو تو اس کی یہ ناراضگی ایسی ہے جیسے کوئی انسان اپنے بیٹے پرناراض ہوتا ہے ( یعنی بہت جلد اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے ) ۔

____________________

۱۔ ” خد اکا بیٹا“ یہ لفظ ہمارے منجی ( نجات دینے والے ) اور فادی( فدیہ بنے والے ) کا ایک لقب ہے جو کسی دوسرے پر نہیں بولا جاسکتا مگر ایسے مقام پر کہ قرآن سے معلوم ہو کہ مقصد خدا کا حقیقی بیٹا نہیں ۔ ( قاموس کتاب مقدس /ص ۳۴۵)

۲۔کچھ عرصہ ہوا ہمارے علاقے میں کچھ افراد نے لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے خاص تبلیغات شروع کررکھی تھیں اور وہ اپنے آپ کو ” خدا کے بیٹے “ کہتے تھے ۔

۳ ۔تفسیر مجمع البیان فخر رازی جلد ۱۱ ص ۱۹۲۔

آیت ۱۹

۱۹۔( یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَی فَتْرَةٍ مِنْ الرُّسُلِ اٴَنْ تَقُولُوا مَا جَائَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَلاَنَذِیرٍ فَقَدْ جَائَکُمْ بَشِیرٌ وَنَذِیرٌ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

ترجمہ

۱۹۔ اے اہل کتاب: ہمارا رسول تمہاری طرف آگیا ہے اور وہ پیغمبروں کے درمیانی عرصے اور فاصلے کے بعد تمہارے لئے حقائق بیان کرتا ہے کہ مبادا( روز قیامت) کہو کہ ہمارے پاس نہ بشارت دینے والا آیا ہے نہ ڈرانے والا( لہٰذا اب ) بشارت دینے والا اور ڈرانے والا ( پیغمبر) تمہارے پاس آگیا ہے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

تفسیر

اس آیت میں پھر روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے : اے اہل کتاب ! اے یہوو نصاریٰ ! ہمارا پیغمبر تمہاری طرف آیا ہے اور اس دور میں جب انبیاء الہٰی کے درمیان فاصلہ اور وقفہ ہو چکا ہے اس نے تمہارے سامنے حقائق بیان کئے ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ تم کہو کہ خدا کی طرف سے ہماری طرف کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا( یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَی فَتْرَةٍ مِنْ الرُّسُلِ اٴَنْ تَقُولُوا مَا جَائَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَلاَنَذِیرٍ ) ۔

”بشیر اور نذیر“ یعنی پیغمبر اسلام جنہوں نے صاحب ایمان او رنیک افراد کو خدا کی رحمت و جزا کی بشارت دی او ربے ایمان، گنہ گار اور آلودہ افراد کو عذاب ِ الہٰی سے ڈرا یا ایسا پیغمبر تمہاری طرف آگیا ہے( فَقَدْ جَائَکُمْ بَشِیرٌ وَنَذِیرٌ ) ۔

” فترت“ در اصل سکون و اطمنان کے معنی میں ہے ۔ دو حرکات، دو کوششوں اور دو انقلابات کے درمیانی فاصلے کو بھی ” فترت“ کہتے ہیں ۔

حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور حضرت مسیح (علیه السلام) کے درمیانی انبیاء مرسلین موجود تھے لیکن حضرت مسیح (علیه السلام) اور پیغمبر اسلام کے درمیان یہ صورت نہیں تھی قرآن نے اس دور کانام ” فترت رسل “ رکھا ہے او رہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اور بعثتِ پیغمبرکے درمیان تقریباً چھ سو سال کا فاصلہ تھا(۱)

____________________

۱۔بعض ان دو عظیم پیغمبروں کے درمیانی عرصے کو چھ سوسال سے کم سمجھتے اور بعض زیادہ۔ کچھ کے بقول حضرت مسیح (علیه السلام) کی ولادت اور پیغمبر اسلام کی ہجرت کے درمیان رومی سالوں کے حساب سے چھ سو اکیس سال اور ایک سو بچانوے دن کا فاصلہ ہے ۔( تفسیر الفتوح رازی ج۴ ص ۱۵۴ کے حاشیہ پر مر حوم شعرانی کی تحریر)

ایک سوال اور اس کا جواب

ممکن ہے کہ اس مقام پر کہا جائے کہ ہمارے عقیدے کے مطابق تو انسانی معاشرہ ایک لحظہ کے لئے بھی خدا ئی نمائندے اور ا س کے بھیجے ہو ئے افراد سے خالی نہیں ہوسکتا لہٰذا ” فترت“ کا ایسا دور کیونکر ہو سکتا ہے ۔

تو جہ رہے کہ قرآن کہتا ہے :”علی فترة من الرسل “ یعنی اس دور میں رسول نہیں تھا ۔ یہ بات اس کے خلاف نہیں کہ اس دور میں اوصیاء موجود ہوں ۔

بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ ” رسول “ ان ہستیوں کو کہتے ہیں جو وسیع و عریض تبلیغات پر مامور تھے ۔ لوگوں کو بشارتیں اور نزارتین دیتے تھے ، معاشروں کا سکوت توڑتے تھے اور اپنی آواز تمام لوگوں کے کانوں تک پہنچاتے تھے ۔ لیکن سب کے سب اوصیاء ایسی ماموریت اور ذمہ داری نہ رکھتے تھے یہاں تک کہ ممکن ہے وہ بعض اجتماعی عوامل کی وجہ سے پوشیدہ طور لوگوں میں زندگی گزارتے ہوں ۔ حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ایک بیان میں فرماتے ہیں ۔

اللهم لاتخلوا الارض من قائم لله بحجة اما ظاهراً مشهوراً اوخائفاً مغموراً لئلا تبطل حجج الله وبیناته یحفظ الله بهم حججه و بینا ته حتی یودعو ها نظرائهم ویزرعوها فی قلوب اشباههم ۔

ہاں روئے زمین ایسے شخص کے وجود سے ہر گز خالی نہیں ہوتی جو حجت ِ خدا کے ساتھ قیام کرے ، وہ آشکار او رمشہور ہو یا مخفی اور نہ پہچانا ہو تاکہ خدا ئی احکام ، دلائل او رنشانیاں ختم نہ ہو جائیں ( اور وہ لانھیں تحریف اور دستبردسے محفوظ رکھیں ) خدا ن کے ذریعے اپنے دلائل اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ انھیں اپنے جیسے افراد تک پہنچا دیں ، آہستہ آہستہ خرافات، شیطانی وسوسے، تحریفات اور تعلیماتِ الہٰی سے بے خبری پھیلی رہے گی ایسے میں ممکن ہے کہ کچھ لوگ ذمہ داریوں سے فرار کے لئے ایسی صورت کو بہانہ بنائیں تو اس صورت میں خدا آسمانی جوانمردوں کے ذریعے اس بہانے کو منقطع کردیتا ہے ۔(۱)

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے( وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر ) ۔یعنی پیغمبروں کو بھیجنا اور ان کے جانشینوں کو دعوت حق کی نشر و اشاعت کے لئے بھیجنااس کے قدرت کے سامنے آسان سا کام ہے ۔

____________________

۱ ۔نہج البلاغہ کلمات قصار، کلمہ ۱۴۷۔