تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23220
ڈاؤنلوڈ: 3110


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23220 / ڈاؤنلوڈ: 3110
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۳۰،۳۱

۳۰۔( فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ اٴَخِیهِ فَقَتَلَهُ فَاٴَصْبَحَ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ۔

۳۱۔( فَبَعَثَ اللهُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْاٴَرْضِ لِیُرِیَهُ کَیْفَ یُوَارِی سَوْاٴَةَ اٴَخِیهِ قَالَ یَاوَیْلَتَا اٴَعَجَزْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَاٴُوَارِیَ سَوْاٴَةَ اٴَخِی فَاٴَصْبَحَ مِنْ النَّادِمِینَ ) ۔

ترجمہ

۳۰۔ نفس سر کش نے آہستہ آہستہ اسے بھائی کے قتل کے لئے پختہ کردیا اور اس نے است قتل کردیا، اور وہ زیان کا روں میں سے ہو گیا ۔

۳۱۔ اس کے بعد خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین میں کوشش کرتا( اور اسے کھودتا) تاکہ وہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کا جسم زمین میں کسیے دفنائے۔ تو وہ کہنے لگا وائے ہو مجھ پر کہ میں اس کواّ ے جیسا ( بھی ) نہیں ہو سکتا کہ اپنے بھائی کو دفن کرتا اور آخرکار وہ ( رسوائی کے خوف اور وجدان کے دباو سے اپنے کام پر ) پشیمان ہوا ۔

ظلم پر پَردہ پوشی

ان آیات میں حضرت آدم (علیه السلام) کے بیٹوں کا واقعہ ، ایک بھائی کا دوسرے کے ہاتھوں قتل اور قتل کے بعد کے حالات بیان کئےگئے ہیں ، پہلے فرمایا سر کش نفس نے بھائی کے قتل کے لئے اسے پختہ کردیا اور اس نے اسے قتل کردیا( فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ اٴَخِیهِ فَقَتَلَهُ ) ۔

”طوع“ کا معنی ہے کسی چیز کا رام اور مطیع ہونا ۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہابیل کا عمل قبول ہونے کے بعد قابیل کے دل میں ایک طوفان پیدا ہو گیا ایک طرف دل میں ہر وقت حسد سے ذاتی تنفر اسے جرم سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ۔ لیکن آخر کار سر کش نفس آہستہ آہستہ روکنے والے عوامل پر غالب آگیا اور اس نے اس کے بیدا ر وجدان کو رام کرلیا اور اسے جکڑ دیا اور بھائی کو قتل کرنے پر آمادہ کرلیا“ طوعت“ ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے سارے مفہوم کی طرف بھر پور اشارہ کرتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کسی کو ایک ہی لمحے میں رام نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسا تدریجی طور پر کئی طرح کی کشمکش کے بعد عمل میں آتا ہے ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے : اس کام کے نتیجے میں وہ زیان کاروں میں سے ہو گیا( فَاٴَصْبَحَ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ۔

اس سے بڑھ کراور کیا خسارہ ہو گا کہ اس نے وجدان کا عذاب ، خدا کی طرف سے سزا اور قیامت تک کے لئے اپنے نام پر ننگ و عار خرید لی ۔

” اصبح “ سے بعض نے یہ استفادہ کیا ہے کہ یہ قتل رات کے وقت ہوا حالانکہ یہ لفظ لغت ِ عرب میں رات یا دن کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی چیز کے واقع ہونے پر دلالت کرتا ہے ، مثلاً سورہ آلِ عمران آیہ ۱۰۳ میں ہے :”( فاصبحتم بنعمته اخواناً“ )

نعمت خدا کی وجہ سے تم میں سے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے ۔

امام صادق علیہ السلام سے منقول بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قابیل نے جب اپنے بھائی کو قتل کردیا تو اس کی لاش اس نے صحرا میں ڈال رکھی تھی اور اسے نہیں معلوم تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے زیادہ دیر نہ گذری کہ درندے ہابیل کے جسم کی طرف آنے لگے ۔ قابیل ضمیر کے شدید دباو کا شکار تھا بھائی کے جسم کو بچانے کے لئے وہ لاش کو ایک مدت تک کندھے پر لئے بھرتا رہا، کچھ پرندوں نے پھربھی اسے گھیر رکھا تھا اور وہ اس انتظار میں تھے کہ وہ کب اسے زمین پر پھینکتا ہے تاکہ وہ لاش پر جھپٹ پڑیں ۔(۱)

جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ اس موقع پر خدا تعالیٰ نے ایک کوّا بھیجا ۔ مقصد یہ تھا کہ وہ زمین کھودے اور اس میں دورے مردہ کوّء کا جسم چھپادے یا اپنے کھانے کی چیزوں کو زمین میں چھپا دے جیسا کہ کوّے کی عادت ہے تاکہ قابیل سمجھ سکے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح سپرد خاک کرے

( فَبَعَثَ اللهُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْاٴَرْضِ لِیُرِیَهُ کَیْفَ یُوَارِی سَوْاٴَةَ اٴَخِیهِ ) ۔(۲)

البتہ اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ انسان کوئی چیز کسی پرندے سے سیکھے کیونکہ تاریخ اور تجربہ شاہد ہیں کہ بہت سے جانور طبعی طور پر معلومات رکھتے ہیں کہ انسان نے اپنی پوری تاریخ میں جانوروں سے بہت کچھ سیکھا ہے یہاں تک کہ میڈیل کی بعض کتب میں ہے کہ انسان اپنی بعض طبّی معلومات میں حیوانات کا مرہونن منت ہے ۔

اس کے بعد قرآن مجید مزید کہتا ہے : اس وقت قابیل اپنی غفلت اور جہالت سے پریشان ہو گیا اور چیخ اٹھا کہ وائے ہو مجھ پر ، کیا میں اس کوّے سے بھی زیادہ ناتواں اور عاجز ہوں ، مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ میں اس کی طرح اپنے بھائی کا جسم دفن کروں( قَالَ یَاوَیْلَتَا اٴَعَجَزْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَاٴُوَارِیَ سَوْاٴَةَ اٴَخِی ) بہر حال وہ اپنے کئے پر نادم و پشمان ہو اجیسا کہ قرآن کہتا ہے :( فَاٴَصْبَحَ مِنْ النَّادِمِینَ ) ۔

کیا اس کی پشمانی اس بناپر تھی کہ اس کا گھٹیا اور برا عمل آخر کار اس کے ماں باپ پر احتمالی طور پر دوسرے بھائی تھے ان پر آشکار ہو جائے گا اور وہ اسے بہت سر زنش کریں گے یا کیا یہ پشمانی ا س بنا پر تھی کہ کیوں میں ایک مدت تک بھائی کی لاش کندھے پر لیے پھر تا رہا اور اسے دفن نہ کیا اور یا پھر یہ ندامت اس وجہ سے تھی کہ اصول طور پر انسان ہر برا کام انجام دے لینے کے بعد اپنے دل میں ہر طرح کی پریشانی اورندامت محسوس کرتا ہے لیکن واضح ہے کہ اس کی ندامت کی جو بھی وجہ ہو وہ اس کے گناہ سے توبہ کی دلیل نہیں ہے کیونکہ توبہ یہ ہے کہ ندامت خوف خدا کے باعث اور عمل کے برا ہونے کے احساس کی بنا پر ہو اور یہ احساس اسے اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ آیندہ ہر گز ایسا کام نہیں کرے گا ۔ قرآن میں قابیل کی ایسی کسی توبہ کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ بلکہ شاید اگلی آیت میں ایسی توبہ کے نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔

پیغمبر اسلام سے ایک حدیث منقول ہے ، آپ نے فرمایا:

لاتقتل نفس ظلماً الا کان علی ابن آدم الاولیٰ کفل من دمها لانه کان اول من سن القتل “۔(۳)

جس کسی انسان کا بھی خون بہا یا جاتا ہے اس کی جوابدہی کا ایک حصہ قابیل کے ذمہ ہوتا ہے کہ جس نے انسان کشی کی اس بری سنت کی دنیا میں بنیاد رکھی تھی ۔

اس حدیث سے ضمنا ً یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر بری اور منحوس سنت جو دنیا میں باقی ہے اس کی سزا کا ایک حصہ اس شخص کے کندھے پر ہے جو اس کی بنیاد رکھتا ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا یہ واقعہ ایک حقیقی واقعہ ہے اس کے علاوہ کہ آیات قرآن اور اسلامی روایات کا ظاہری مفہوم اس کی واقعیت کو ثابت کرتا ہے کہ اس کے ” بالحق“ کی تعبیر بھی جو ان آیات میں آئی ہے اس بات پر شاہد ہے جو لوگ ان آیات میں بیان کئے گئے واقعہ کو تشبیہ، کنایہ یا علامتی( symbolic )داستان سمجھتے ہیں ، بغیر دلیل کے ایسا کرتے ہیں ۔

اس کے باوجود اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ حقیقی واقعی اس جنگ کے لئے نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہو جو ہمیشہ سے مردانِ پاکباز ، صالح و مقبولِ بار گاہِ خدا انسانوں اور آلودہ، منحرف، کینہ پرور، حاسد ا ور ناجائز ہٹ دھرمی کرنے والوں کے درمیان جاری رہی ہے ۔ وہ لوگ کتنے پاکیزہ اور عظیم ہیں جنہوں نے ایسے برے لوگوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کیا ۔

آخر کار یہ برے لوگ اپنے شرمناک اور برے اعمال کے انجام سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور ان پر پر دہ ڈالنے اور انھیں دفن کرنے کے در پے ہو جاتے ہیں اس موقع پر ان کی آرزوئیں ان کی مدد کو لپکتی ہیں ۔ کوّا ان آرزوں کا مظہر ہے جو جلدی سے پہنتا ہے اور انھیں ان کے جرائم پر پر دہ پوشی کی دعوت دیتا ہے ۔ لیکن آخرکار خسارے، نقصان اور حسرت کے سوال کچھ نصیب نہیں ہوتا ۔

____________________

۱ ۔ مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲” یبحث“ ” بحث“کے مادہ سے ہے جیسا کہ مجمع البیان میں ہے در اصل یہ لفظ مٹی میں سے کسی چیز کو تلاش کرنے کے معنی میں ہے بعد ازں یہ لفظ ہر طرح کی جستجو حتیٰ کہ عقلی و فکری مباحث کے لئے بھی استعمال ہونے لگا اور ”سواٴة “ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو پسند نہ آئے اس لئے کبھی شرمگاہ تک کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ضمناً توجہ رہے کہ ” لیریة“ کا فاعل ممکن ہے خدا ہو، یعنی خدا چاہتا تھا کہ ہابیل کا احترام ملحوظ رہے اور اس کے لئے قابیل کو اسے دفن کرنے کا طریقہ سکھائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا فاعل وہی کوّا ہو جس نے حکم خدا سے یہ کام انجام دیا ۔

۳ تفسیر فی ظلال جلد ۲ صفحہ ۷۰۳۔ زیربحث آیت کے ذیل میں ، بحوالہ مسند احمد حنبل۔

آیت ۳۲

۳۲۔( مِنْ اٴَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِی إِسْرَائِیلَ اٴَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْ فَسَادٍ فِی الْاٴَرْضِ فَکَاٴَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ اٴَحْیَاهَا فَکَاٴَنَّمَا اٴَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا وَلَقَدْ جَائَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ کَثِیرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِکَ فِی الْاٴَرْضِ لَمُسْرِفُونَ ) ۔

ترجمہ

۲۳۔ اس بنا پر ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ قرار دیا کہ جو شخص کسی انسان کو بغیر اس کے کہ وہ ارتکاب قتل کرے اور روئے زمین پر فساد بھیلائے ، قتل کرد ے تو یہ اس طرح ہے گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جوکسی ایک انسان کو قتل سے بچا لے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی ہے اور ہمارے رسول واضح دلائل کے ساتھ بنی اسرائیل کی طرف آئے پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں نے روئے زمین پر ظلم اور تجاوز کیا ۔

انسانی رشتہ

حضرت آدم (علیه السلام)کے بیٹوں کا ذکر کرنے کے بعد اس آیت میں ایک عمومی نتیجہ بیان کیا گیا ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے : اس بناء پر ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ قرار دیا کہ جب کوئی انسان کسی شخص کو ارتکابِ قتل اور زمین پر فسادپھیلانے کے جرم کے بغیر قتل کردے تو ایسے ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا او رجو کسی انسان کو موت سے بچا لے ، ایسے ہے گو یا اس نے تمام انسانوں کو موت سے بچا لیا( مِنْ اٴَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِی إِسْرَائِیلَ اٴَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْ فَسَادٍ فِی الْاٴَرْضِ فَکَاٴَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ اٴَحْیَاهَا فَکَاٴَنَّمَا اٴَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا ) ۔(۱)

یہاں یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ ایک انسان کا قتل سب انسانوں کے قتل کے برابر کیسے ہوسکتا ہے اور اسی طرح ایک انسان کو بچا لینا سب کی نجات کیسے قرار پا سکتا ہے ۔

مفسرین نے بہت سے جوابات دیے ہیں تفسیر تبیان میں چھ جواب ہیں ، مجمع البیان میں پانچ اور کنز العر فان میں چار جواب دئے گئے ہیں ان میں سے بعض جوابات تو آیت کے معنی سے بہت دور ہو گئے ہیں ۔

بہر حال مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن اس آیت میں ایک اجتماعی اور تربیتی حقیقت بیان کرتا ہے ۔ در حقیقت جو شخص کسی بے گناہ کے خون میں ہاتھ رنگتا ہے وہ اس بات پر تیار ہو تا ہے کہ وہ اس مقتول جیسے دیگر بے گناہ انسانوں پر بھی حملہ کرکے انھیں قتل کردے وہ حقیقت میں ایک درندہ ہے جس کی غذا بے گناہ انسان ہیں ہم جانتے ہیں کہ اس لحاظ سے بے گناہ انسانوں میں کوئی فرق نہیں ۔ اسی طرح جو شخص بھی انسانی جذبے او رانسان دوستی کی بنیاد پر ایک انسان کو موت سے نجات دیتا ہے وہ اس بات پر تیار ہوتا ہے کہ ایسا سلوک ہر انسان کے ساتھ کرے۔ وہ بے گناہ انسانوں کی نجات سے لگاو رکھتا ہے ۔اس لحاظ سے اس کی نگاہ میں اس انسان میں اور اس انسان میں کوئی فرق نہیں اور قرآن جو یہ کہتا ہے : فکانم)( یعنی یہ ایسے ہے گویا ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی کی موت یا حیات اگر چہ پورے معاشرے میں مو ت یا حیات کے برابر نہیں لیکن اس سے شباہت ضرور رکھتی ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ انسانی معاشرے در حقیقت ایک ہی اکائی ہے اس کے افراد ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں ، جو تکلیف اس پیکر کے ایک عضو کو پہنچتی ہے اس کا اثر کم و بیش تمام اعضاء پر ظاہر ہوتا ہے ، معاشرہ افراد سے بنتا ہے ایک فرد کی نابودی سے پورے معاشرے کو نقصاب پہنچتا ہے ایک فرد کا فقدان اس کے وجود کے اثرات کی مناسبت سے معاشرے کے ایک حصے کا فقدان ہے یوں یہ نقصان پورے معاشے کو متاثر کرتا ہے ۔ اسی طرح ایک نفس کی زندگی اس جسم کے باقی اعضاء کی زندگی کا سبب ہے کیونکہ ہر کوئی اپنے وجود کی حیثیت کے اعتبار سے انسانی معاشرے کی عظیم عمارت میں اس کی ضرورت و احتیاج کو پورا کرتا ہے ، کوئی زیادہ کردار ادا کرتا ہے اور کوئی کم۔

یہ جو بعض روایات میں ہے کہ ایسے انسان کی سزا قیامت میں ایک شخص کی سی ہے جس نے تمام انسانوں کو قتل کیا ہو، در اصل یہ بھی اسی مذکورہ مفہوم کی طرف اشارہ ہے نہ کہ ایک انسان ہر لحاظ سے تمام بنی نوعِ انسان کے برابر ہے اسی لئے ان روایات میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بہت سے افراد کو قتل کرے تو سزا بھی اسی نسبت سے بڑھ جائے گی ۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی نظر میں ایک انسان کی موت یا حیات کسی قدر اہمیت رکھتی ہے اور اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ آیات ایسے ماحول میں نازل ہو ئیں جس میں انسانی خون کی کوئی قیمت نہ تھی ، اس کی عظمت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔

یہ قابل توجہ ہے کہ متعدد روایات میں یہ بیان ہوئی ہے کہ آیت ظاہری طور پر اگر چہ مادی موت وحیات کے بارے میں ہے لیکن اس سے زیادہ اہم معنوی موت و حیات ہے یعنی کسی شخص کو گمراہ کرنا یا کسی شخص کو گمراہی سے نجات دلانا ۔

کسی نے امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا:

من حرق او غرق ثم سکت ثم قال تاٴویلها الاعظم ان دعا ها فاستجاب له

یعنی قتل کرنے اور موت سے نجات دینے سے آیت میں مراد جلنے سے نجات یا غرق ہونے سے بچا نا وغیرہ ہے ۔

پھر امام کچھ خاموش ہو گئے ، کچھ توقف کے بعد مزید فرمایا:

آیت کی سب سے بڑی تاویل اور سب سے بڑا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے کو راہ حق کی طرف دعوت دی جائے یا باطل کی طرف اور وہ یہ دعوت قبول کرلے ۔(۲)

دوسرا سوال جو آیت کے بارے میں باقی رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں خصوصیت سے بنی اسرائیل کا نام کیوں لیا گیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مذکورہ حکم نہیں سے مخصوص نہیں ہے ۔

اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ بنی اسرائیل کا ذکر اس لئے ہے کہ ان میں ایسے قتل بہت ہوئے جن کا جذبہ محرکہ حسد او رجاہ طلبی تھا ۔ دور حاضر میں بھی بہت سا قتل و خون انہی کے ہاتھوں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ خدائی حکم سب سے پہلے ان کے بارے میں آیا ۔

آیت کے آخر میں بنی اسرائیل کی قانون شکنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر مایا گیا ہے : ہمارے پیغمبر روشن دلائل کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے آئے لیکن ان میں سے بہت سوں نے قوانین ِ الہٰی کو توڑ دیا اور تجاوز کا راستہ اختیار کیا( وَلَقَدْ جَائَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ کَثِیرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِکَ فِی الْاٴَرْضِ لَمُسْرِفُونَ ) ۔

توجہ رہے کہ ”اسراف“ لغت میں وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں حد سے ایسا تجاوز بھی شامل ہے اگر چہ اکثر اوقات مصاف و اخرجات میں تجاوز کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

____________________

۱ ۔ ”اجل“ (بروزن ” نخل “ در اصل ” جرم “ کے معنی میں ۔ بعد ازاں ہراس کام کو اجل کہا جانے لگا جس کا انجام ناگوار ہو اور اب زیادہ تر تعلیل او رکسی چیز کی علت بیان کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔

۲ ۔ تفسیر نو ر الثقلین ج۱ صفحة ۶۲۰۔ اسی مضمون کی اور روایات بھی موجود ہیں ۔

آیات ۳۳،۳۴

۳۳۔( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا اٴَنْ یُقَتَّلُوا اٴَوْ یُصَلَّبُوا اٴَوْ تُقَطَّعَ اٴَیْدِیهِمْ وَاٴَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلاَفٍ اٴَوْ یُنفَوْا مِنْ الْاٴَرْضِ ذَلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) ۔

۳۴۔( إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَقْدِرُوا عَلَیْهِمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۳۳۔جو لوگ خدا اور پیغمبر سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور روئے زمین پر فساد بر پا کرتے ہیں ( اور ڈرا دھمکا کر لوگوں کو جان و مال اور ناموس پر حملہ کرتے ہیں ) ان کی سزا یہ ہے کہ انھیں قتل کردیا جائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے یا ان کے دائیں ہاتھ اور بائیں پاوں ( کی چار انگلیوں ) کو کاٹ دی اجائے اور یا انھیں انکی زمین سے جلا وطن کر دیا جائے یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت سخت عذاب ہے ۔

۳۴۔ مگر وہ جو ان پر تمہارے ہاتھ ڈالنے سے پہلے توبہ کرلیں اور جان لو کہ ( خدا ان کی توبہ قبول کرلے گا کیونکہ ) خدا بخشنے والااور مہر بان ہے ۔

شان ِ نزول

اس آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں منقول ہے کہ مشر کین کی ایک جماعت خدمت ِ پیغمبر میں پہنچی اور یہ لوگ مسلمان ہو گئے لیکن مدینہ کی آب و ہوا انھیں راس نہ آئی ان کے رنگ زرد ہو گئے اور وہ بیمار پڑ گئے ۔ پیغمبر اسلام نے ان کی صحت کے پیش نظر حکم دیا کہ وہ مدینہ سے باہر ایک صحت افزائی صحرائی علاقے میں چلے جائیں ، جس میں زکوٰة کے اونٹوں کو چرایا جاتا تھا، تاکہ اونٹنیوں کا تازہ دودھ بھی انھیں میسر آسکے۔ وہ صحت مند ہو گئے لیکن پیغمبر اکرم کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے انھوں نے مسلمان چرواہوں کے ہاتھ پاوں کاٹ دئیے ، ان کی آنکھیں نکال لیں ، انھیں قتل کرنا شروع کردیا، زکوٰة کے اونٹ لوٹ لئے اور اسلام سے خارج ہو گئے۔ پیغمبر اکرم نے حکم دیا کہ انھیں گرفتار کرلیا جائے اور جو سلوک انھوں نے مسلمان چر واہوں سے کیا ہے قصاص کے طور پر وہی ان سے کیا جائے ۔ آنکھیں نکال لی گئیں ہاتھ پاوں کاٹ ڈالے گئے اور انھیں قتل کر دیا گیا تاکہ دوسرے لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور ایسے انسانیت کش افعال کا ارتکاب نہ کریں زیر نظر آیت ایسے ہی لوگو ں کے بارے میں نازل ہو ئی جس میں ان کے بارے میں حکم ِ شریعت بیان کیا گیا ہے(۱)

لوگوں کی جان و مال پر حملہ کرنے والوں کی سزا

یہ آیت حقیقت میں قتلِ نفس کے بارے میں جاری بحث کی تکمیل کرتی ہے اس میں مسلمانوں کے خلاف مسلح ہو کر دھمکیاں دیتے ہوئے بلکہ انھیں قتل کرکے ان کا مال و اسباب لوٹنے والوں کی نہایت سخت سزا بیان کی گئی ہے ارشاد ہو تا ہے : جو لوگ خدا اور پیغمبر کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہو تے ہیں اور زمین میں فساد بر پا کرتے ہیں یہ ہے کہ ان چار سزاون میں سے کوئی ایک ان پر جاری کی جائے:

پہلی یہ کہ وہ قتل کردئے جائیں ۔

دوسری یہ کہ انھیں سولی پر لٹکا دیا جائے ۔

تیسری یہ کہ ان کے الٹے ہاتھ پاوں کاٹ دئے جائیں ۔

اور چوتھی یہ کہ وہ جس علاقے میں رہتے ہوں انھیں اس سے جلا وطن کر دیا جائے(إ( ِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا اٴَنْ یُقَتَّلُوا اٴَوْ یُصَلَّبُوا اٴَوْ تُقَطَّعَ اٴَیْدِیهِمْ وَاٴَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلاَفٍ اٴَوْ یُنفَوْا مِنْ الْاٴَرْضِ ) ۔

چند اہم نکات

۱۔ خدا اور رسول سے جنگ کرنے سے کیا مراد ہے ؟

جیسا کہ روایت ِاہل بیت علیہم السلام میں آیا ہے اور کم و بیش آیت کی شانِ نزول بھی اس کی گواہی دیتی ہے ، خدا اور رسول سے جنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی ڈرادھمکا کر مسلح ہو کر لوگوں کے جان و مال پر حملہ آور ہو چاہے تو چوروں ڈاکووں کی طرح شہروں سے باہر ایسا کرے یا شہر کے اندر۔ اس بناپر وپ بد معاش لٹیرے جو لوگوں کے جان و مال او رناموس پر حملہ کرتے ہیں اب اس حکم میں شامل ہیں ۔

ضمناً توجہ رہے کہ اس آیت میں بند گان خدا کے ساتھ جنگ کرنے کو خدا کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانوں کے حقوق اور ان کے امن و سکون کی کس قدر اہمیت ہے ۔

۲۔ ہاتھ پاوں کاٹنے کا کیا مطلب ہے ؟

جیسا کہ روایت اہل بیت علیہم السلام میں آیا ہے کہ کم و بیش آیت کی شانِ نزول بھی اس کی گواہی دیتی ہے ، خدا اور رسول سے جنگ کرنے سے مراد ہے کہ کوئی ڈرادھمکا کر مسلح ہو کر لوگوں کے جان و مال پر حملہ آور ہوچاہے تو چوروں ڈاکووں کی طرح شہروں سے باہر ایسا کرے یا شہر کے اندر ۔ اس بنا پر وہ بد معاش لٹیرے جو لوگوں کے جان و مال او رناموس پر حملہ کرتے ہیں سب اس حکم میں شامل ہیں ۔

ضمناً توجہ رہے کہ اس آیت میں بندگانِ خدا کے ساتھ جنگ کو خدا سے جنگ قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانوں کے حقوق اور ان کے امن و سکون کی کس قدر اہمیت ہے۔

جیسا کہ فقہی کتب میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ہاتھ پاوں کا ٹنے سے مراد اتنی ہی مقدار ہے جو چوری کے بارے میں بیان ہوئی ہے یعنی ہاتھ پاوں کی صرف چار انگلیاں کاٹنا ۔(۲)

۳۔ کیا چاروں سزائیں اختیاری ہیں :

زیر نظر آیت میں چار سزائیں بیان ہوئی ہیں ۔ اس سلسلے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سزائیں اختیاری حیثیت رکھتی ہیں یعنی حکومت اسلامی ان میں سے جس شخص کے لئے مناسب سمجھے جاری کرے یا جرم کی مناسبت سے ان میں سے سزا اختیار کی جائے گی یعنی اگر حملہ آوروں ( ڈاکووں ) نے بے گناہ لوگوں کوقتل کیا ہے تو ان کے لئے قتل والی سزا انتخاب ہو گی اور اگر مسلح ہو کر لوگوں کو ڈرا دھمکاکر ان کا مال لوٹا ہے تو ان کی انگلیاں کاٹی جائیں گی اور اگر انھوں نے قتل بھی کیا ہے اور مال بھی چرایا ہے تو انھیں قتل کیا جائے گا اور لوگوں کی عبرت کے لئے ان کی لاشیں کچھ عرصے کے لئے سولی پر لٹکائی جائیں گی اور لوگوں کے خلاف ہتھیار لے کرنکلے ہیں لیکن انھوں نے خون نہیں بہایا اور چوری بھی نہیں کی تو انھیں دوسرے شہر کی طرف جلا وطن کیا جائے گا ۔

اس میں شک نہیں کہ دوسرا معنی حقیقت سے زیادہ قریب ہے اور یہی مفہوم آیمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول چند احادیث میں بھی آیا ہے ۔(۳)

یہ صحیح ہے کہ کچھ احادیث میں اس سلسلے میں حکومتِ اسلامی کو اختیار حاصل ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے لیکن جن احادیث کی پہلے بات کی گئی ہے ان کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اختیار سے مراد یہ نہیں ہے کہ حکومت اسلامی ان چار میں سے خودہی کوئی سزا منتخب کرے اور جرم کی کیفیت کو پیش نظر نہ رکھے کیونکہ یہ بہت بعیدہے کہ قتل اور سولی دیئے جانے کو جلا وطنی کا ہم پلہ قرار دیا جائے یہ سب ایک ہی سطح پر نہیں ہو سکتے۔

اتفاق کی بات ہے کہ آج کی دنیا میں جرائم اور سزا کے بہت سے قوانین میں بھی یہ بات صریح طور پر دیکھی جاتی ہے کہ ایک قسم کے جرم کے لئے متعدد سزائیں مقر کی جاتی ہیں مثلاً بعض جرائم کے لئے قانون میں تین سے لے کر دس تک قید معین کی جاتی ہے اور قاضی کا ہاتھ اس سلسلے میں کھلا رکھا جاتا ہے اس کا مفہوم یہ نہیں ہو تا کہ جج اپنی مرضی سے قید کی مدت کا تعین کرے بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ سزا کی مدت جرم کے خفیف یا شدید ہونے کے حوالے سے معین کرے اور مناسب سزا کا انتخاب کرے۔

اس اہم اسلامی قانون میں بھی حملہ آوروں کے لئے سزا کی کیفیت مختلف بیان کی گئی ہے کیونکہ جرم کی کیفیت بھی اس سلسلے میں مختلف ہوتی ہے اور سب حملہ آور یقینا ایک جیسے نہیں ہوتے۔

کہے بغیر واضح ہے کہ اسلام نے حملہ آوروں کی بارے میں اتنی شدید سزا اس لئے مقرر کی ہے تاکہ بے گناہوں کے خون ، جان و مال اور ناموس کی ہٹ دھرم، منہ زور ، اوباش اورفسادی لوگوں کے حملوں اور تجاوزات سے حفاظت کی جائے۔(۴)

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : یہ رسوائی اور سزا تو ان کے لئے دنیا میں ہے لیکن صرف اسی سزا پر اکتفا نہیں کی جائے گی بلکہ آخرت میں بھی انھیں سخت سزا دی جائے گی( ذَلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) ۔اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی حدود اور سزائیں اگر دنیا میں جاری ہو جائیں تو وہ آخرت کی سزاوں سے مانع نہیں ہیں ۔

اس کے بعد اس بناء پر کہ لوٹ آنے کا راستہ ایسے خطر ناک مجروموں پر بھی بند نہ کیا جائے اور اگر وہ مائل بہ اصلاح ہو جائیں تو ان کے تلافی اور تجدید نظر کا راستہ کھلا رکھا جائے ، ارشاد ہوتا ہے : مگر وہ لوگ کہ جو قابو آنے سے پہلے تو بہ کرلیں تو عفوِ الہٰی ان کے شامل حال ہو گا اور جان لوکہ خدا غفور و رحیم ہے ۔

( إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَقْدِرُوا عَلَیْهِمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

اس جملے سے معلوم ہوتا کہ اس سلسلے میں انھیں صرف اس صورت میں سزا نہیں ملے گی کہ اگر وہ پکڑے جانے سے پہلے اپنے ارادے سے اور رغبت سے اس جرم سے صرفِ نظر کرلیں اور پشمان ہو جائیں ۔

یہاں شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ ان کی توبہ اس کا سبب نہیں بنے گی کہ اگر انھوں نے قتل کیا ہے یا چوری کیا ہے تو اس کی سزا انھیں نہیں ملے گی بلکہ صرف اسلحہ اٹھا کر لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی سزا بر طرف ہو جائے گی ۔ دوسرے لفظوں میں صرف حقوق اللہ میں ان کی سزا توبہ کی صورت میں ساقط ہو جائے گی، لیکن حقوق الناس میں صاحبانِ حق کی رضا کے بغیر ساقط نہیں ہو گی( غور کیجئے گا ) ۔

اس کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ محارب کی سزا عام قاتل یا چور سے زیادہ سخت اور شدید تر ہے لیکن توبہ کرنے سے محارب والی سزا اس سے بر طرف ہو جائے گی ۔ باقی رہی چور ، غاصب یا عام قاتل والی سزا تو و ہ اسے ملے گی ۔

ممکن ہے یہاں یہ سوال کیا جائے کہ توبہ تو ایک باطنی امر ہے اسے کس طرح ثابت کیا جائے گااس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ بات ثابت کرنے کے بہت سے راستے ہیں مثلاً دو عادل گواہی دیں کہ فلاں مجلس میں انھوں نے اس کی توبہ سنی ہے اور اس نے بغیر کسی دباو کے اپنی رضا و رغبت سے توبہ کی ہے ۔ مثلاً وہ اپنی زندگی کی روش اور طور طریقہ اس طرح سے بد ل لے کہ اس سے توبہ کے آثار ظاہر ہوں

____________________

۱۔ تفسیر المنار ج۶ صفحہ ۳۵۳ اور تفسیر قرطبی ج۳ صفحہ ۲۱۴۵۔

۲۔ کنزل العرفان فی فقہ القرآن ج۲ صفحہ ۳۵۲۔

۳-نور الثقلین جلد ۱ صفحہ ۶۲۲۔

۴ ۔ سطوربالا میں جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ اجمال اور خلاصہ کے طور پر اس اسلامی قانون کی تفصیل اور شرائط کا مطالعہ فقہی کتب میں کیا جانا چاہئیے۔