تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23174
ڈاؤنلوڈ: 3094


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23174 / ڈاؤنلوڈ: 3094
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۳۵

۳۵۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ وَجَاهِدُوا فِی سَبِیلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ) ۔

ترجمہ

۳۵۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور قرب خدا کا وسیلہ تلاش کرو اور راہ خدا میں جہاد کرو تاکہ فلاح اور نجات پاجاو۔

توسل کی حقیقت

اس آیت میں روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے اور نجات کے لئے انھیں تین حکم دیئے گئے ہیں پہلے فرمایا گیا ہے ۔

اے ایمان والو! تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کر( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ ) ۔

اس کے بعد حکم دیا گیا ہے تقرب الہٰی کا وسیلہ اختیار کرو( وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ ) آخر میں راہ خدا میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے ( وَجَاہِدُوا فِی سَبِیلِہِ)ان سب احکام پر عمل کا نتیجہ ہو گا کہ تم نجات پا جاو گے( لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ) ۔

اس آیت میں جس موضوع کو زیر بحث لایا جانا چاہئیے وہ اس میں اہل ایمان کو وسیلہ تلاش کرنے کے لئے دیا جانے والا حکم ہے ۔

” وسیلہ “ قرب حاصل کرنے کو کہتے ہیں یا اس چیز کو کہتے ہیں جو لگاو اور رضا و رغبت سے دوسرا کا قرب حاصل کرنے کا باعث بنے لہٰذا آیت میں لفظ ”وسیلہ “ ایک وسیع مفہوم کو حامل ہے اس کے مفہوم میں ہر وہ کام اور چیز شامل ہے جو پر ور دگار کی بار گاہِ مقدس سے قریب ہونے کا باعث ہو اس میں اہم ترین خدا اور پیغمبر اکرم پر ایمان لانا او رجہاد کرنا، ،نیز نماز، زکوٰة،روزہ اور خانہ خدا کا حج ، اسی طرح صلہ رحمی، راہ خدا میں پنہاں ویا آشکار خرچ کرنا اور ایسا اچھا اور نیک کام اس کے مفہوم میں داخل ہے ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے :

ان افضل ماتو سل به المتوسلون الیٰ الله سبحانه و تعالیٰ الایمان به و برسله والجهاد فی سبیله فانه ذروة الاسلام، وکلمة الاخلاص فانها الفطرة و اقام الصلوٰة فانها الملة و ایتاء الزکوٰة فانها فریضة واجبة و صوم شهر رمضان فانه جنة من العقات وحج البیت و اعتماره فانهما ینتفیان و یرحضان الذنب، وصلة الرحم فانها مثراة فی المال و مغساة فی الاجل، و صدقه السر فانها تکفر الخطینة و صدقة العلانیة فانها تدفع میّة السوء و صنائع المعروف فانها تقی مصارع الهوان ۔

یعنی بہترین چیز اجس کے ذریعے اور وسیلے سے تقرب ِ الہٰی حاصل ہو سکتا ہے وہ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لانا اور جہاد کرنا ہے کہ جو ہسارِ اسلام کی چوٹی ہے اسی طرح جملہ اخلاص ( لاالہ الااللہ ) کہ جو وہی فطرتِ توحید ہے اور نما ز قائم کرنا کہ جو آئین اسلام ہے اور زکوٰة کہ جو واجب فریضہ ہے او رماہ رمضان کے روزے کہ جو گناہ اور عذاب ِ خدا کے سامنے سپر ہیں اور حج و عمرہ کہ جو فقرو فاقہ اور پریشانی کو دور کرتے ہیں اور گناہوں کو دھو ڈالتے ہیں اور صلہ رحمی کہ جو مال و ثروت کو زیادہ اور زندگی کو طویل کرتا ہے اور مخفی طور پر خرچ کرنا کہ جو گناہوں کی تلافی کا باعث بنتا ہے اور ظاہری طور پر خرچ کرنا کہ جو ناگہانی اور بری موت کو دور کرتا ہے اور نیک کہ جو انسان کو ذلت و خواری کے گڑھے میں گرنے سے بچا تے ہیں ( سب تقرب الہٰی کا وسیلہ ہیں )

یہ یاد وہانی ضروری ہے یہاں یہ مقصد ہر گز نہیں کہ کوئی چیز ذات ِ پیغمبر یا امام سے مستقل طور پر مانگی جائے بلکہ مراد اعمال ِ صالح بجا لانا ہے پیغمبر و امما کی پیروی کرنا ہے ، ان کی شفاعت کا حصول ہے یا پھر ان کے مقام و مکتب کا واسطہ دینا ہے ( جوکہ خود ایک قسم کا احترام ہے اور اس سے واسطہ دینے والے کی نظر میں ان کی حیثیت و مقام کی اہمیت ظاہر ہو تی ہے اور یہ بھی ایک قسم کی خدا کی عبادت ہے ) اور اس ذریعے خدا سے مانگا جائے تو اس میں کوئی بوئے شرک نہیں اور نہ ہی یہ قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے اور نہ ہی یہ زیر بحث آیت کے عمومی مفہوم سے متجا وز ہے ( غور کیجئے گا) ۔

انبیاء، آئمہ اور خدا کے نیک بندوں کی شفاعت بھی کہ جو صراحت ِ قرآنی کے مطابق تقرب ِ الہٰی کا ذریعہ ہے وسیلہ کے وسیع مفہوم میں داخل ہے ۔ اسی طرح پیغمبر اور امام کی پیروی بھی بار گاہ ِ الہٰی کی قربت کا موجب ہیں یہاں تک کہ خدا کو انبیاء، آئمہ اور صالحین کے مرتبہ و مقام کا واسطہ بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے کیونکہ ان کا ذکر در اصل ان کے مقام او رمکتب کو اہمیت دینے کے مترادف ہے ۔

جن لوگوں نے زیر نظر آیت کو ان کے مفاہیم میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے ان کے پاس در حقیقت اس تخصیص کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ کیونکہ جیسے ہم کہہ چکے ہیں لغوی مفہوم کے لحاظ سے ہر چیز جو تقرب کا سبب بنے ” وسیلہ “ ہے ۔

قرآن اور توسل

قرآن کی دیگر آیات سے بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک انسان کے مقام کو بار گاہ ِ وسیلہ قرار دینا اور اس کی وجہ سے خدا سے کوئی چیز طلب کرنا کسی طرح بھی ممنوع نہیں ہے اور یہ توحید کے منافی نہیں ہے سورہ نساء آیت ۶۴ میں ہے :( ولو انهم اذظلموا انفسهم جاؤ ک فاستغفروا الله و استغفر لهم الرسول لوجدوا الله تواباً رحیما ) ۔

اور جب ان لوگوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ( اور گناہ کے مرتکب ہو ئے ) اگر تمہارے پاس آجاتے اور خدا سے مغفرت طلب کرتے او رتم بھی ان کے لئے طلب مغرفت کرتے تو خدا کو توبہ قبول کرنے والا اور رحیم و مہر بان پاتے۔

نیز سورہ یوسف آیہ ۹۷ میں ہے کہ برا درانِ یوسف نے اپنے باپ سے در خواست کی کہ وہ بار گاہ خدا وندی میں ان کے لئے استغفا ر کریں اور حضرت یعقوب(علیه السلام) نے بھی ان کی اس درخواست کو منظور کرلیا ۔

سورہ توبہ آیت ۱۱۴ میں بھی حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے بارے میں ہے کہ انھوں نے اپنے باپ(۱)

کے لئے طلب مغفرت کی یہ امر بھی دوسرے لوگوں کے لئے انبیاء کی دعا کے موثر ہو نے کی تائید کرتا ہے اسی طرح قرآن کی دیگر متعدد روایات سے بھی اس بات کی تائید ہو تی ہے ۔

____________________

۱۔ یہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے چچا کی کی طرف اشارہ ہے جنہیں وہ اپنے باپ کے بمنزلہ سمجھتے تھے ( مترجم ) ۔

روایات ِ اسلامی اور توسل

بہت سی شیعہ سنی روایات سے بھی یہ بات واضح ہو تی ہے کہ توسل کے مذکورہ مفہوم میں کوئی اشکام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اچھا طریقہ شمار ہوتا ہے ۔ ایسی روایات بہت زیادہ ہیں اور بہت سی کتب میں مذکورہیں ۔ ہم نمونہ کے طور پر اہل سنت کی کتب سے چند روایات نقل کرتے ہیں :

۱۔ کتاب ” وفاء الوفا“ اہل سنت کے ایک مشہور عالم سمبودی کی تالیف ہے اس کتاب میں ہے :

بار گاہ خدا میں رسول اللہ اور ان کے مقام و مرتبہ کے وسیلے سے آپ کی والادت سے پہلے ، آپ کی ولادت کے بعد ،آپ کی رحلت کے بعد ، عالم برزخ کے دوران میں اور قیامت کے دن ، شفا عت طلب کرنا جائز ہے ۔

اس کے بعد وہ اس روایت کو نقل کرتے ہیں جس میں ہے کہ حضرت آدم(علیه السلام) نے پیغمبر اسلام کو وسیلہ قرار دیا چونکہ آپ پیغمبراسلام کے آئندہ پیدا ہونے کے بارے میں جانتے تھے۔ حضرت آدم (علیه السلام) نے بارگاہِ الہٰی میں یوں عرض کیا:”یارب اسئلک بحق محمد لما غفرت لی

خدا وند!بحق محمد تجھ سے در خواست کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے(۱)

اس کے بعد صاحب ” وفا ء الوفاء“ نے ایک اور حدیث ، راویانِ حدیث کی ایک جماعت جس میں نسائی اور ترمذی جیسے مشاہیر علماء شامل ہیں کے حوالے سے پیغمبر اکرم کی زندگی کے دوران میں توسل کے جواز کے بارے میں بطور شاہد نقل ہے حدیث کا خلاصہ یہ ہے :

ایک نابینا نے پیغمبر اکرم سے اپنی بیماری سے شفا کے لئے دعا کی درخواست کی تو پیغمبر اکرم نے اسے حکم دیا کہ اس طرح دعا کرو۔”اللهم انی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک محمد نبی الرحمة یا محمد انی توجهت بک الیٰ ربی فی حاجتی لتقضی لی اللهم شفعه فی “

یعنی خدا یا ! میں تجھ سے تیرے پیغمبر جو نبی رحمت ہے کے صدقے میں سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنی حاجت روائی کے لئے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں خدا یا! انھیں میرا شفیع قرار دے ۔(۲)

اس کے بعد صاحب الوفاء الوفاء نے آنحضرت کی وفات کے بعد آپ سے توسل کے جواز میں یہ روایت نقل کی ہے :

حضرت عثمان کے زمانے میں ایک حاجت مند پیغمبراکرم کی قبر کے پاس آیا اور نماز پڑھ کر اس نے اس طرح دعا کی :

”اللهم انی اسئلک و اتوجه الیک بنبینا محمد نبی الرحمة یا محمد انی اتوجه بک الیٰ ربک ان تقضی حاجتی “

یعنی خدا وندا ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور اپنے پیغمبر جو نبی ِ رحمت کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ اے محمد ! میں آپ کے پر وردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری مشکل آسان ہو جائے۔

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ فوراً اس کی مشکل حل ہو گئی ۔(۳)

۲۔ کتاب ”التوصل الیٰ الحقیقة التوسل“ کا مولف نے جو توسل کے بارے میں بہت سخت گیر ہے ، ۲۶ احادیثمختلف کتب اور مصادر سے نقل کی ہیں جن سے توسل کا جواز ظاہر ہوتا ہے اگر چہ موصوف نے ان احادیث کی اسناد میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن واضح ہے کہ روایات جب بہت زیادہ ہوں اور حد تواتر تک پہنچ جائیں تو پھر سند حدیث میں کوئی خدشہ اور ردو قدح کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور توسل و وسیلہ کے بارے میں منابع اسلامی میں مذکورہ روایات حد تواتر سے بھی زیادہ ہیں ۔

ان میں سے ایک روایت صواعق میں اہل سنت کے مشہور امام شافعی سے نقل کی گئی ہے وہ اہل بیت ِ رسول سے متوسل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں :

آل النبی ذریعتی وهم الیه وسیلتی

ارجو بهم اعطی عنداً بید الیمین صحیفتی

اہل بیت رسول میرا وسیلہ ہیں ۔

وہ اس کی بار گاہ میں میرے تقرب کا ذریعہ ہیں

میں امید کرتا ہوں کہ ان کے ذریعے سے کل قیامت کے دن میر انامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔(۴)

نیز بیہقی سے صاحب ِ صواعق نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ قحط پڑگیا ، حضرت بلاچند صحابہ کے ساتھ پیغمبراکرم کی قبر انور کے پاس آئے اور یوں کہنے لگے :

” یا رسول الله استسق لامتک فانهم قد هلکوا

یعنی اے رسول خدا ! اپنی امت کے لئے اپنے خدا سے بارانِ رحمت طلب کیجئے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ہلاک ہو جائے۔(۵)

یہاں تک کہ ابن حجر سے کتاب” الخیرات الحسان “ میں منقول ہے کہ امام شافعی جن دنوں بغداد میں تھے امام ابو حنیفہ کی زیارت کے لئے گئے اور اپنی حاجات کے لئے ان سے متوسل ہو ئے ۔(۶)

نیز صحیح دارمی میں ابو الجوزاء سے منقول ہے :

ایک سال مدینہ میں سخت قحط پڑا تو بعض لوگوں نے حضرت عائشہ سے شکایت کی ، انھوں نے کہا: قبر پیغمبر کے اوپر چھت میں ایک سوراک کریں تاکہ قبر پیغمبر کی بر کت سے خدا کی طرف سے بارش نازل ہو، ان لوگوں نے ایسا کیا تو بہت زیادہ بارش برسی ۔

تفسیر آلوسی میں مندرجہ بالا احادیث میں سے متعدد نقل کی گئی ہیں اس کے بعد ان کاتفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے حتی کہ ان احادیث کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا گیا ہے آخر میں مجبوراً صاحب مقامِ پیغمبر سے متوسل ہونے سے نہیں روکتا ، خواہ حیات پیغمبروں میں ہو یا آپ کی رحلت کے بعد ۔

پھر مزید تفصیلی بحث کے بعد کہا ہے ۔

خدا کی بار گاہ میں رسول اللہ کے علاوہ کسی اور سے متوسل ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ جسے وسیلہ بنایا جائے وہ بار گاہ الہٰی میں مقام و منزلت رکھتا ہو۔(۷)

رہیں شیعہ کتب تو ان میں یہ بات اتنی واضح ہے کہ کوئی حدیث نقل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔

____________________

۱ ۔ وفا ء الوفاء جلد ۳ صفحہ ۱۳۷۱، کتاب ” التوصل الیٰ الحقیة التوسل“ میں بھی بیہقی کی ” دلائل النبوة“ کے حوالے سے یہ روایت مذکورہے ۔

۲ ۔ وفا ء الوفاء، صفحہ ۱۳۷۳۔

۳ وفا ء الوفاء صفحہ ۱۳۷۳۔

۴ ۔ التوصل صفحہ ۳۲۹۔

۵ ۔ التوصل صفحہ ۲۵۳۔

۶ ۔ التوصل صفحہ ۳۳۱ ۔

۷ ۔ روح المعانی جلد ۴ ، صفحہ ۱۱۴، ۱۱۵۔

چند قابل توجہ باتیں

۱۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ توسل سے مراد یہ نہیں کہ کوئی شخص پیغمبر یا آئمہ (علیه السلام) سے حاجت طلب کرے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے مقام و منزلت کو بار گاہ ِ خدا میں رابطے کا وسیلہ قرار دے یہ در حقیقت خدا کی طرف ہی توجہ کرنا ہے کوینکہ پیغمبر کا احترام بھی اس بنا پر ہے کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے تھے اور انھوں اسی راہ میں قدم بڑھا یا ہے ہمیں ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ جو اس قسم کے توسل کو شرک کی ایک قسم خیال کرتے ہیں حالانکہ شرک تو یہ ہے کہ خدا کی صفات اور افعال میں کسی کو خدا کا شریک سمجھا جائے لیکن ایساتوسل جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کسی طرح سے بھی شرک سے مشابہ نہیں ہے ۔

۲۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم اور آئمہ کی حیات اور وفات میں فرق کریں حالانکہ مذکورہ روایات میں سے اکثر وفات کے بعد کے زمانے سے مربوط ہیں سے قطع نظر بھی ایک مسلمان کی نظر میں انبیاء اور آئمہ علیہم السلام وفات کے بعد بر زخ میں ایسی حیات رکھتے ہیں جیسی قرآن نے شہداء کے بارے میں بیان کی ہے اور کہا ہے : انھیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ۔( آل عمران ۱۶۹)

۳۔ بعض پیغمبراکرم سے دعا کی درخواست کرنے اور خدا کو ان کے مقام کی قسم دینے میں بھی فرق پر اصرار کرتے ہیں وہ دعا کی درخواست کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ کو ممنوع سمجھتے ہیں حالانکہ منطقی طور پر ان میں کوئی فرق نہیں ۔

۴۔ اہل سنت کے بعض مولفین اور علماء خصوصاً وہابی حضرات بڑی ہٹ دھرمی سے توسل کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات کو ضعیف ثابت کرنے کے در پے رہتے ہیں ۔ وہ فضول اور بے اعتراضا ت کے ذریعے انھیں طاق نسیان کردیا چاہتے ہیں ۔ ان کی بحث اس طرح سے ہوتی ہے کہ ایک غیر جانب دار شخص محسوس کرتا ہے کہ عقیدہ انھوں نے پہلے بنا لیا ہے اور پھر اپنے عقیدے کو رویات ِ اسلامی پر ٹھونسنا چاہتے ہیں اور جو کچھ ان کے عقیدے کے خلاف ہے اسے راستے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں حالانکہ ایک محقق ایسی غیر منطقی اور تعصب آمیز بحث کو ہر گز قبول نہیں کرسکتا ۔

۵۔جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں توسل والی روایات حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں یعنی اس قدر زیادہ ہیں کہ ہمیں اسناد کی تحقیق سے بے نیاز کردیتی ہیں ۔ علاہو ازیں ان میں صحیح روایات بھی بہت سی ہیں لہٰذا بعض دیگرکی اسناد میں ردو قدح کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔

۶۔ جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ رویات جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں ہے کہ پیغمبر اکرم لوگوں سے فرماتے تھے کہ خدا سے میرے لئے وسیلہ کی دعا کرو ۔ یاکتاب کافی میں حضرت علی (علیه السلام) کا یہ فرمان کہ ” وسیلہ “ جنت میں بالاترین مقام ہے ایسی روایات آیت کی مذکورہ بالا تفسیر کے منافی نہیں کیونکہ جیسے ہم نے بار ہا نشاندہی کی ہے ، وسیلہ میں تقرب ِ پر وردگار کا ہر مفہوم شامل ہے اور خدا سے پیغمبر اکرم کا تقرب اور جنت میں بلند ترین درجہ اس کا ایک مقام ہے ۔

آیات ۳۶،۳۷

۳۶۔( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ اٴَنَّ لَهُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِیَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

۳۷۔( یُرِیدُونَ اٴَنْ یَخْرُجُوا مِنْ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِینَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۳۶۔جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ، اگر روئے زمین میں جو کچھ ہے اس کے برابر ان کے پاس ہو اور وہ روز قیامت سزا سے نجات کے لئے فدیہ کے طور پر دے دیں تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا ۔

۳۷۔ وہ ہمیشہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل آئیں لیکن وہ اس سے نکل نہ پائیں گے ، اور ان کے لئے پائیدارعذاب ہوگا ۔

تفسیر

گذشتہ آیت میں مومنی کو تقویٰ ، راہ جہاد اور وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا گیا تھا اب ان دو آیات میں گذشتہ حکم کا سبب بیان کرنے کے حوالے سے بے ایمان اور آلودہ گناہ افراد کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے : جو لوگ کافر ہو گئے ہیں اگر چہ روئے زمین میں ہے اس جتنا سر مایہ رکھتے ہوں اور اسے روز قیامت سے سزا سے نجات کے لئے دے دیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا او ران کے لئے دردناک عذاب ہو گا ( ا( ِٕنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ اٴَنَّ لَهُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِیَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

یہی مضمون سورہ رعد آیہ ۴۷ میں بھی ہے ۔ اس سے خدائی سزا کے بارے میں انتہائی تاکید ظاہر ہو تی ہے اور یہ کسی بھی سرما ئے اور طاقت کے ذریعےاس سے رہائی حاصل نہیں کی جاسکتی چاہے وہ سرمایہ ساری زمین کے برابر یا اس سے بھی زیادہ کیوں نہ ہو، نجات فقط ایمان، تقویٰ ، جہاد اور عمل ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔

اس کے بعد اس سزا کے دائمی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ ہمیشہ چاہیں گے کہ جہنم کی آگ سے باہر نکل آئیں لیکن نکل نہ سکیں گے اور ان کی سزا باقی اور برقرار رہے گی( یُرِیدُونَ اٴَنْ یَخْرُجُوا مِنْ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِینَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِیمٌ ) ۔

دائمی سزا اور کفارکے دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی بحث انشاء اللہ سورہ ہود آیہ ۱۰۸ کے ذیل میں آئے گی ۔

آیات ۳۸،۳۹،۴۰

۳۸۔( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا اٴَیْدِیَهُمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِنْ اللهِ وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ۔

۳۹۔( فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَاٴَصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ یَتُوبُ عَلَیْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

۴۰۔( اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ لَهُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ وَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

ترجمہ

۳۸۔چور مرد اور چور عورت کا ہاتھ اس کے انجام دئیے گئے عمل کی پاداش میں خدائی سزا کے طور پر کاٹ دو، خدا توانا اور حکیم ہے ۔

۳۹۔لیکن جو شخص ظلم کرنے کے بعد توبہ ، اصلاح اور تلافی کرلے توخدا اس کی توبہ قبول کرلے گا ، کیونکہ خدا بخشنے والا مہر بان ہے ۔

۴۰۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا آسمانوں اور زمین ک امالک اور حکمران ہے جسے چاہتا ہے ( اور مستحق سمجھتا ہے ) سزا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ( او راہل سمجھتا ہے ) بخش دیتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔

چور کی سزا

قبل از ایں چند آیات میں ” محارب “ یعنی ڈرادھمکا کر علی الاعلان مسلح ہو کر لوگوں کی جان و مال او رناموس کے خلاف حملہ کرنے والے شخص کے بارے میں احکام بیان ہوئے ہیں ۔ اسی مناسبت کی بنا پر ان آیات میں چور کہ جو مخفی طور پر لوگوں کا مال لے جاتا ہے ، کے بارے میں حکم بیان ہوا ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : چورمرد اور عورت کا ہاتھ کاٹ دو( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا اٴَیْدِیَهُمَا ) ۔

یہاں چور مرد کو چور عورت پر مقدم رکھا گیا ہے چونکہ چوری کے سلسلے میں اصلی عامل زیادہ تر مرد ہوتے ہیں لیکن ارتکاب ِ زنا کے موقع پر زیادہ اہم عامل اور محرک بے لگام عورتین ہوتی ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے : یہ سزا ان کے اعمال پر ہے جو انھوں نے انجام دئیے ہیں اوریہ خداکی طرف سے عذاب ہے( جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِنْ اللهِ ) ۔

اس جملہ میں در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ اول تویہ سزا ان کے اکام کا نتیجہ ہے اور ایسی چیز ہے جو انھوں نے خود اپنے لئے خرید ی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ایک طرح سے پیش بندی اور حق و عدالت کی طرف باز گشت سے کیونکر ” نکال “کا معنی ہے ایسی سزا جو پیش بندی کے لئے ترک گناہ کے مقصد کے لئے ہو۔ در اصل اس لفظ کا معنی ہے ” لگام “ بعدازاں ہر ا سکام کے لئے استعمال ہو نے لگا جو انحراف اور کج روی سے روکے ۔

آیت کے آخر میں اس لئے منادہ یہ وہم ہو کہ مذکورہ سزا عادلانہ نہیں ، فرمایا گیا ہے : خدا قادر و توانا ہے لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ وہ کسی سے انتقام لے اور حکیم بھی ہے اس لئے وہ کسی کو بلا وجہ نہیں دے( وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ۔

بعد والی آیت میں ان کے لئے لوٹ آنے کا راستہ کھولتے ہوئے فرماتا ہے : اس ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اصلاح و تلافی کو راہ اپنائے خدا اسے بخش دے گا کیونکہ وہ بخشنے والا مہر بان ہے( فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَاٴَصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ یَتُوبُ عَلَیْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

کیا توبہ کرنے سے صرف اس کا گناہ بخشا جائے گا یا چوری کی سزا ( ہاتھ کاٹنا) بھی ساقط ہو جائے گی ۔ اس سلسلے میں ہمارے فقہاء میں یہی مشہور ہے کہ اگر وہ اسلامی عدالت میں چوری ثابت ہوجانے سے پہلے کرلے تو چوری کی حد بھی بر طرف ہ وجائے گی لیکن جب دو عادل گواہوں کے ذریعے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر تو بہ سے حد ساقط نہیں ہو گی ۔

در اصل حقیقی توبہ جس کی طرف آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ ہے جو عدالت میں ثبوت جرم سے پہلے انجام پائے ورنہ تو ہر چیز چور جب اپنے آپ کو سزا کے سامنے پائے گا اظہار توبہ کرے گا اور اس طرح تو کسی پر سزا جاری ہی نہ ہوگی ۔ دوسرے لفظوں میں ” اخباری توبہ “وہ ہے جو شرعی عدالت میں جرم ثابت ہونے سے پہلے انجا م پائے ورنہ ” اضطراری توبہ “ ہو گی اور اضطراری توبہ تو ایسی ہے جسے عذاب الہٰی یا آثار موت دیکھ کر کی جائے اور ایسی توبہ کی کوئی قیمت نہیں ۔

چوروں کے بارے میں توبہ کا حکم بیان کرنے کے بعد روئے سخن اسلام کے عظیم پیغمبر کی طرف کیا گیا ہے ، فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ا ور جس طرح مناسب سمجھتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے ، جس شخص کو سزا کا مستحق سمجھتا ہے سزا دیتاہے اور جسے بخشش کے لائق سمجھتا ہے بخش دیتاہے اور وہ ہر چیزپر قدرت رکھتا ہے( اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ لَهُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ وَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

چند اہم نکات

۱۔ چور کو سزا دینے کی شرائط:

دیگر احکام کی طرح اس حکم میں قرآن نے بنیادی بات بیان کی ہے اس کی تفصیل سنت ِ پیغمبر پر چھوڑدی ہے ، روایاتِ اسلامی سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہاتھ کاٹنے کی اس اسلامی حد کے اجراء کے لئے بہت سی شرائط ہیں جن کے بغیر اسے جاری کرنا جائز نہیں ہے ان میں سے کچھ شرائط ہیں :

۱) چوری کیاہو امال کم از کم ایک چوتھائی دینار کی مالیت کا ہونا چاہئیے۔(۱)

۲) مال محفوظ جگہ سے مثلاً گر، دوکان یا اندر کی جیب سے چوری کیا جائے ۔

۳) چوری قحط سالی کے زمانے میں جبکہ لوگ بھوک زدہ ہو تے ہیں او ر انھیں کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی ، نہ ہوئی ہو۔

۴) چور عاقل و بالغ ہو اور ا س نے حالت ِ اختیار میں یہ کام کیا ہو۔

۵)باپ کا بیٹے کے مال سے چوری کرنا یا ایک شریک کا شرکت والے مال سے چوری کرنا اس حکم میں نہیں آتا ۔

۶)باغ کے درختوں سے بھل کی چوری کو بھی اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔

۷) ہر وہ موقع جہاں چور کے لئے اشتباہ کا احتمال ہو کہ اس نے دوسرے کے مال کو اشتباہ سے اپنا مال سمجھتے ہوئے لیا ہے ، بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہو گا ۔

کچھ اور شرائط بھی ہیں جن کی تفصیل فقہی کتب میں آئی ہے ۔

اشتباہ نہ ہو کہ مذکورہ شرائط کی صورت ہی میں چوری حرام ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ مذکورہ حد کا اجراء ان شرائط سے مخصوص ہے ورنہ چوری تو ہر شکل و صورت ، ہر مقدار، اور ہر کیفیت سے اسلام میں حرام ہے ۔

۲۔ ہاتھ کاٹنے کی مقدار :

روایات اہل بیت علیہم السلام سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے فقہا میں مشہور یہی ہے کہ دائیں ہاتھ کی صرف چار انگلیان کاٹی جائیں نہ کہ اس سے زیادہ۔ اگر چہ فقہاء اہل سنت اس سے زیادہ کے قائل ہیں ۔

۳۔ کیا یہ سخت سزا ہے ؟ :

مخالفین ِ اسلام اور کچھ ناواقف مسلمانوں کی طرف سے بارہا یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ اسلامی سزا بہت سخت ہے اور اگرآج کی دنیا میں یہ سزا نافذ ہو جائے تو بہت سے ہاتھ کٹ جائیں ، علاوہ ازیں اس حکم کے اجراء سے ایک شخص نہ صرف اپنے بدن کے ایک اہم حصے سے محروم ہو جائے گا بلکہ ساری عمر کے لئے لوگوں کی انگشت نمائی کاشکار ہو جائے گا ۔

اس سوال کے جواب میں ان حقائق کی طرف توجہ کرنا چاہئیے ۔

۱) جیسا کہ ہم نے اس حکم کی شرائط میں کہا ہے کہ یہ حکم ہر چور کے لئے نہیں ہے ، بلکہ چوروں کے ایک خطر ناک گروہ کے لئے ہے ۔

۲) اس جرم کے ثبوت کے لئے اسلام میں چونکہ خاص شرائط معین ہیں لہٰذا اس سے بہت کم لوگوں پر یہ سزا جاری ہو گی ۔

۳) کم معلومات رکھنے والے لوگ جو بہت سے اعتراضات اسلامی قوانین پر کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک حکم کو مستقل طور پر دوسرے تمام احکام سے الگ کرکے بحث کرتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر وہ اس حکم کو سوفی صد غیر اسلامی معاشرے میں فرض کرتے ہیں لیکن اگر ہم توجہ رکھیں کہ اسلام صرف اسی ایک حکم کا نام نہیں بلکہ وہ احکام کے ایک مجموعے کا نام ہے اور اگر یہ تمام احکام کسی معاشرے پر حکمران ہوں تو عدالت ِ اجتماعی وجود میں آجائے ، فقر و تندستی کے خلاد جنگ کی جائے، تعلیم و تربیت صحیح ہو اور آداب و اخلاق ، آگاہی، بیداری اورتقویٰ کا دور دورہ ہو۔ اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس حکم کے زیر اثر آنے والے لوگوں کی تعدا کس قدر کم ہوگی ۔

کہیں اشتباہ نہ ہو، مقصد یہ نہیں کہ آج کے مختلف معاشروں میں یہ حکم جاری نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ فیصلہ اور قضاوت کرتے وقت ان تمام پہلو وں کو نظر میں رکھنا چاہئیے۔

خلاصہ یہ کہ حکومت ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام افراد کو بنیادی ضروریات مہیا کرے ، انھیں ضروری تعلیم دلائے اور ان کی اخلاقی تربیت کرے واضح ہے کہ پھر ایسے ماحول میں غلط کار افراد بہت کم ہوں گے ۔

۴) اگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ چور زیادہ ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا حکم جاری نہیں ہوا لہٰذا جس علاقے میں اسلامی حکم جار ی ہوتا ہے ( مثلاً سعودی عرب میں گذشتہ سالوں میں یہ حکم جاری ہوتا تھا) وہاں بہت اچھا امن و امان ہو تا ہے ۔

خانہ خدا کے بہت سے زائرین سوٹ کیس ، بٹوے اور تھیلے حجاز کے گلی کوچوں میں پڑے دیکھتے ہیں انھیں کوئی شخص ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرتا یہاں تک کہ گمشدہ چیزوں کے ادارے کے مامورین آتے ہیں اور انھیں اس ادارے میں لے جاتے ہیں او رمالک نشانی بتا کر لے جاتے ہیں اسی طرح رات کو بغیر در وازوں کے اکثر دکانیں کھلی پڑی رہتی ہیں او رکوئی ان میں چوری نہیں کرتا ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ اسلامی حکم اگر صدیوں تک جاری ہوتا رہا اور اس کی پناہ میں صدر اسلام کے مسلمان امن امان کی زندگی بسر کرتے رہے لیکن صد یوں میں گنتی کے صرف چند افراد پر یہ حکم جاری ہوا ۔

ایک ملت کی صد یوں کی زندگی کے لئے چند غلط کار افراد کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں تو کیا یہ کوئی زیادہ قیمت ہے ۔

۴۔ ایک اعتراض کا جواب :

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک چوتھائی دینار کی چوری پر حد کا اجراء کیا مسلمان کی جان کے بارے میں اعتراضات کے اسلامی احکام کے منافی نہیں کیونکہ اسلام تو مسلمان کے لئے ہر قسم کی گزند سے محفوظ رہنے کا قائل ہے اور ایک انسان کی چار انگلیان کاٹنے کی دیت اسلام نے بہت زیادہ معین کی ہے ۔

جیساکہ بعض تواریخ سے معلوم ہوتا ہے ، اتفاقاً یہی سوال اسلام کے ایک عظیم عالم مرحوم سید مرتضیٰ علم الھدیٰ سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ہوا تھا ، سائل نے شعر کی صورت میں اپنا سوال یوں پیش کیا :

ید بخمس مئین عجد و دیت ما بالها قطعت فی ربع دینار

یعنی وہ ہاتھ جس کی دیت پانچ سو دینار ہے ۔

(توجہ رہے کہ پانچسو دینار پانچ انگلیاں کاٹنے پر ہے ، لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں فقہائے اہل بہت (علیه السلام) کے نزدیک چوری میں چار انگلیاں کاٹی جاتی ہیں ) ۔

ایک چوتھائی دینار کے بدلے کیوں کاٹا جاتا ہے ۔

سید مرتضیٰ نے اس کے جواب میں یہ شعر ارشاد فرمایا:عز الامانة اغلا ها و ارخصها ذل الخیانة فانهم حکمة الباری

یعنی امانت کی عزت نے اس ہاتھ کو گراں قیمت بنادیا تھا لیکن خیانت کی ذلت نے اس کی قیمت گرادی ۔ تم ذرا حکمت ِ الہٰی کو سمجھو۔(۲)

____________________

۱۔دینار سے مراد سکہ دار سونے کا ایک مثقال ِ شرعی اور مثقال شرعی برابر ہے ۱۸ چنے کے دانوں کے یعنی عام مثقال کا ۴/۳حصہ

۲۔ تفسیر آلوسی جلد ۲ صفحہ ۶ پر بھی یہ واقعہ منقول ہے لیکن وہاں سید م