تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23278
ڈاؤنلوڈ: 3120


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23278 / ڈاؤنلوڈ: 3120
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۴۱،۴۲

۴۱۔( یَااٴَیُّهَا الرَّسُولُ لاَیَحْزُنْکَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الْکُفْرِ مِنْ الَّذِینَ قَالُوا آمَنَّا بِاٴَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ وَمِنْ الَّذِینَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَاٴْتُوکَ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ یَقُولُونَ إِنْ اٴُوتِیتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ یُرِدْ اللهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِکَ لَهُ مِنْ اللهِ شَیْئًا اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ لَمْ یُرِدْ اللهُ اٴَنْ یُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) ۔

۴۲۔( سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ اٴَکَّالُونَ لِلسُّحْتِ فَإِنْ جَائُوکَ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ اٴَوْ اٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَضُرُّوکَ شَیْئًا وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ) ۔

ترجمہ

۴۱۔ اے ( خدا کے ) رسول! وہ لوگ جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کے دل ایمان نہیں لائے اور وہ راہ کفرِ کفر میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں ، تم ان کے بارے میں غم نہ کرو اور یونہی یہودیوں کے بارے میں ( جو اسی راہ پر چلتے ہیں ) وہ زیادہ آپ کی باتیں سنتے ہیں تاکہ تمہاری تکذیب کے لئے کوئی بات ہاتھ آجائے وہ دوسرے لوگوں کے جاسوس ہیں جو لوگ خود تمہارے پاس نہیں آئے وہ باتوں کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اگر ( جو ہم چاہتے ہیں ) تمہیں دیں ( او رمحمد تمہاری خواہش کے مطابق فیصلہ کریں ) تو اسے قبول کرلو، ورنہ دوری اختیار کرو( اور اس پر عمل نہ کرو )اور جسے خدا ( اس کے پے در پے گناہوں کی وجہ سے )سزا دینا چاہے تو کوئی اسے بچا نہیں سکتا وہ ایسے لوگ ہیں کہ خدا ان کے دلوں کی پاکی نہیں چاہتا ۔ انھیں دنیا میں رسوائی نصیب ہو گی اور آخرت میں وہ عذاب عظیم سے دو چار ہو ں گے ۔

۴۲۔ وہ تمہاری باتیں بہت غور سے سنتے ہیں تاکہ انھیں جھٹلائیں وہ مال حرام زیادہ کھاتے ہیں ۔ اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے درمیان قضاوت کرو یا ( اگر مصلحت ہو ) تو انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دو اور اگر ان سے صرف نظر کرلو تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتے اور ار ان کے درمیان فیصلہ کرو تو عدالت سے کام لو کہ خدا عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

شان نزول

اس آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں ان میں سے زیادہ واضح روایت وہ ہے جو امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہو ئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے :

خیبر کے یہودیوں کے ایک بڑے آدمی نے جو شادی شدہ تھا ایک شوہر دار عورت سے خلاف عفت کام کیا وہ عورت بھی خیبر کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی ۔

تورات میں اس سلسلہ میں سنگساری کا حکم تھا، یہودی اس کے اجراء میں پریشان تھے اور ایسے حل کی تلاش میں تھے جس میں دونوں کی معافی ہو جائے اور اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو احکام ِ الہٰی ک اپابند بھی کہیں ۔

انھوں نے اپنے ہم مذہب اہل مدینہ کو پیغام بھیجا کہ وہ اس حادثہ کے بارے میں پیغمبر اسلام سے حکم در یافت کریں ( تاکہ اگر اسلام میں اس سے کوئی آسان حکم ہو تو اسے انتخاب کر لیا جائے ورنہ اس سے بھی صرف ِ نظر کرلیا جائے اور شاید اس طرح سے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ پیغمبر اسلام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائیں اور اپنے آپ کو مسلمانوں کا دوست ظاہر کریں ) ۔

اسی مقصد کے لئے مدینہ کے برے یہودی پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت نے فرمایئا : میں جو حکم کروں گا اسے قبول کروگے؟

وہ کہنے لگے : ہم اسی لئے آپ کے پاس آئے ہیں ۔

اس موقع پر زنا ئے محصنہ کا ارتکاب کرنے الوں کے لئے سنگسار کئے جانے کا حکم نازل ہوا لیکن انھوں نے اسے قبول نہ کیا ( اور عذر یہ پیش کیا کہ ہمارے مذہب میں تو ایسا حکم نہیں آیا) ۔

پیغمبر اسلام نے مزید فرمایا : یہ وہی حکم ہے جو تمہاری تورات میں بھی آیا ہے کیا تم اس بات سے اتفاق کرتے ہو کہ میں تم میں سے ایک شخص کو فیصلے کے لئے بلاوں او رجو کچھ وہ تورات سے بیان کرے اسے قبول کرلوں ۔

وہ کہنے لگے : جی ہاں ۔

پیغمبر اسلام نے فرمایا :ابن صریا جو کہ فدک میں رہتا ہے ، کیسا عالم ہے ؟

وہ بولے ؛ وہ تو تورات کا سب سے بڑا عالم ہے ۔

کسی کو اسے لینے کے لئے بھیجا گیا جب وہ آنحضرت کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اس سے فرمایا: تمجھے اس خدائے یکتا کی قسم دیتاہوں جس نے تورات کو موسیٰ (علیه السلام) پر نازل کیا ، تمہارے لئے دریا شگاف کیا، تمہارے دشمن فرعون کو غرق کیا اور تمہیں بیابا ن میں اپنی نعمتوں سے نوازکہو کیا ایسے موقع پر تورات میں تمہارے لئے سنگسار کرنے کا حکم نازل ہواہے یا نہیں ؟

وہ کہنے لگا: آپ نے مجھے ایسی قسم دی ہے کہ میں مجبور ہو گیا ہوں کہ کہوں جی ہاں ! ایسا ہی حکم تورات میں موجود ہے ۔پیغمبر اسلام نے فرمایا: پھر اس کے حکم کے اجراء کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟

وہ بولا : حقیقت یہ ہے کہ ہم گذشتہ زمانے میں یہ حد عام افراد پر تو جاری کر دیتے تھے لیکن دولتمندوں او ربڑے لوگوں پر نہیں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ہمارے معاشرے کے خوش حال طبقوں میں یہ گناہ رائج ہو گیا ۔ یہاں تک کہ ہمارے ایک سر دار کا چچا زاد بھائی اس قبیح عمل کا مر تکب ہوا اور حسب معمول اسے سزا دی گئی ۔ اسی اثنا میں ایک عام آدمی اس کا مرتکب ہوا ۔ جب اسے سنگسار کرنے لگے تو اس کے رشتہ داروں نے اعتراض کیا او رکہنے لگے یہ حکم جاری ہو نا تو پھر دونوں پر ہو، اس صورت ِ حال کے پیش نظر ہم بیٹھ گئے اور سنگسار کے قانون کی جگہ ایک آسان قانون بنا لیا اور وہ یہ تھا کہ ہر ایک کو چالیس کوڑے لگائے جائیں اور ان کا منہ کالا کر کے اور سواری پر بٹھا کر انھیں گلی کوچوں میں پھرایا جائے۔

اس وقت پیغمبر اکرم نے حکم دیا کہ اس مرد اور عورت کو مسجد کے سامنے سنگسار کیا جائے۔(۱)

پھر آپ نے فرمایا: خدا یا! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ یہودی اسے ختم کرچکے تھے ۔

اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہو ئیں اور اس وقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

____________________

۱۔ بیہقی نے اپنی سنن جلد ۸ صفحہ ۲۴۶ میں جو روایت نقل کی ہے ۔ اس کے مطابق علماء ِ یہود جب پیغمبر اس

دوست اور دشمن کے درمیان فیصلہ زیر نظر آیات اور بعد کی چند آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے قاضی حق رکھتے ہیں کہ مخصوص شرائط کے ساتھ غیر مسلموں کے مقدمات کابھی فیصلہ کریں ، تفصیل آیات کے ذیل میں بیان کی جائے گی ۔

زیر نظر آیات میں سے پہلی آیت یا ایھا الرسول ( اے بھیجے ہوئے)سے شروع ہوتی ہے ۔ قرآن میں یہ تعبیر صرف دو جگہ پر نظر آتی ہے ایک اس مقام پر اور ایک اسی سورہ کی آیہ ۶۷ میں جہاں ولایت و خلافت کے مسئلے پر گفتگو کی گئی ہے ، معاملہ چونکہ اہم ہے اور دشمن کا خوف بھی ہے لہٰذا چاہتا ہے کہ پیغمبرمیں احساس مسئولیت کو اور متحرک کرے اور ان کے ارادے کو تقویت پہنچائے یہ کہتے ہوئے کہ تو صاحب ِ رسالت ہے اور رسالت بھی ہماری اس لئے حکم بیان کرنے میں استقامت اور مامردی سے کام لو۔

اس کے بعد پیغمبر کی دلجوئی اور تسلی کےلئے بعد والے حکم کی تمہید کے طور پر فرمایا گیا ہے ۔ جو لوگ زبان سے ایمان کے دعویدار ہیں اور ان کا دل ہرگز ایمان نہیں لایا اور کفر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں وہ تمہارے غم و اندوہ کا سبب نہ بنیں ( کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے )

( لاَیَحْزُنْکَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الْکُفْرِ مِنْ الَّذِینَ قَالُوا آمَنَّا بِاٴَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ )

بعض کا نظریہ ہے کہ”یُسَارِعُونَ فِی الْکُفْر“ ِ ” یُسَارِعُونَ اِلیٰ الْکُفْرِ“میں فرق ہے کیونکہ پہلا جملہ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے جو کافر ہیں اور کفر کے اندر غوطہ زن ہیں اور کفر کے آخری مرحلہ تک پہنچنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوشان ہیں لیکن دوسرا جلہ ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو باہر سے کفر کی چار دیواری کی طرف حر کت میں ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت کررہے ہیں ۔(۱)

منافقین اور داخلی دشمنوں کی کارستانیوں پر ان کی حوصلہ شکنی کے بعد خارجی دشمنوں اور یہودیوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ہ وتا ہے : اسی طرح یہودیوں میں سے بھی جو لوگ اس راہ پر چل رہے ہیں وہ بھی تمہارے لئے حزن و ملال کا باعث نہ ہوں( وَمِنْ الَّذِینَ هَادُوا ) ۔

اس کے بعد ان منافقانہ افعال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ تمہاری باتوں کو بڑے غور سے سنتے ہیں لیکن ان کی یہ توجہ اطاعت کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ انھیں تمہاری تکذیب کے لئے اور تم پر افترا باندھنے کے لئے کوئی عذر ہاتھ آجائے( سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ ) ۔

اس جملے کی ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ کہ : وہ اپنے گذشتہ لوگوں کے جھوٹ اور افتراء کی طرف زیادہ کان دھرتے ہیں ، لیکن بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔(۲)

ان کی ایک اور صفت یہ ہے کہ یہ نہ صرف جھوٹ باندھنے کے لئے تمہاری مجلس میں آتے ہیں بلکہ جو لوگ تمہارے پاس نہیں آتے ان کے جاسوس کا کردار بھی ادا کرتے ہیں( سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَاٴْتُوکَ ) ۔

دوسری تفسیر کے مطابق وہ اپنے گروہ کے حکم پر کان دھرتے ہیں ان کا طریقہ یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی حکم اپنی منشاء کے مطابق سن لیں تو اسے قبول کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حکم ان کے میلانِ طبع کے خلاف ہے تو اس کی مخالفت کرتے ہیں لہٰذا وہ اپنے بڑون کافرمان سنتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ تمہاری ۔ ان حالات میں ان کی مخالفت تمہارے لئے باعث ِ غم اندوہ نہیں ہونا چاہئیے ، کیونکہ وہ ابتداء سے ہی تمہارے پاس قبولِ حق کی غرض سے نہیں آئے ۔ ان کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کلام ِ الہٰی میں تحریف کرتے ہیں ( چاہے تحریف ِ لفظی ہو یا تحریف معنوی) جس حکم کو وہ اپنے مفاد اور ہواو ہوس کے خلاف سمجھتے ہیں اس کی کوئی توجیہ کرلیتے ہیں یا سے بالکل مسترد کردیتے ہیں ۔

( یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ) ۔(۳)

زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی پختہ ارادہ کرلیتے ہیں ۔ ان کے بڑوں نے انھیں حکم دیا ہے کہ اگر محمد کوئی حکم ہماری خواہش کے مطابق دے تو اسے قبول کرلو اور اگر ہماری خواہش کے خلاف ہو تو اس سے دور رہو( یَقُولُونَ إِنْ اٴُوتِیتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ) ۔

وہ اس طرح سے گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنے ان افکار و نظر یات میں اتنے پختہ ہیں کہ بغیر کسی سوچ بچار اور تحقیق و مطالعہ کے جو کچھ بھی ان کے تحریف شدہ مطالب کے خلاف ہو اسے رد کردیتے ہیں اس طرح ان کی ہدایت کی کوئی امید نہیں اور خدا چاہتا ہے کہ اس ذریعے سے سزا دے کر انھیں رسوا کرے اور جس کی سزا اور رسوائی کا خدا ارادہ کرلے تو تم ہر گز اس کا دفاع نہیں کر سکتے۔( وَمَنْ یُرِدْ اللهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِکَ لَهُ مِنْ اللهِ شَیْئًا ) ۔

وہ اس قدر آلودہ ہیں کہ ان کی آلودگی دھلنے کے قابل نہیں ہے وہ ایسے لوگ ہیں کہ خدا ان کے دلوں کو پاک نہیں کرنا چاہتا( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ لَمْ یُرِدْ اللهُ اٴَنْ یُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ) ۔

کیونکہ خدا کا کام ہمیشہ حکمت آمیز ہوتا ہے اور وہ لوگ جو اپنے ارادے سے زندگی کا ایک حصہ کجروی میں گزار چکے ہیں اور نفاق ، جھوٹ، مخالفتِ حق اور قوانین ِ الہٰی میں تحریف کا جرم کرچکے ہیں ان کے لئے پلٹنا عادتاً ممکن نہیں ہے ۔

اور آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : وہ اس دنیا میں میں بھی رسوا ہوں گے اور آخرت میں بھی انھیں عذاب عظیم ہوگا ۔( لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) ۔

دوسری آیت میں قرآن دوبارہ تاکید کرتا ہے کہ ان کے سننے والے کان تو تمہاری بات سن کر اس کی تکذیب کرنے کے لئے ہیں ( یا پھر وہ اپنے بڑوں کے جھوٹ سننے کے لئے گوش ِ شنوا رکھتے ہیں )( سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ ) ۔یہ جملہ تاکید کے طور پر ہے اور اس بری صفت کے اثبات کے لئے تکرار ہے ۔

اس کے علاوہ وہ ناحق ، حرام اور رشوت زیادہ کھاتے ہیں( اٴَکَّالُونَ لِلسُّحْت ) (۴) ۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ایسے لوگ فیصلہ حاصلہ کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کریں تو وہ احکام ِ اسلام کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرسکتے ہیں اور یہ بھی کہ ان سے منہ پھیر بھی سکتے ہیں( فَإِنْ جَائُوکَ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ اٴَوْ اٴَعْرِضْ عَنْهُمْ ) ۔

البتہ یہاں یہ مراد نہیں کہ پیغمبر اکرم کسی ذاتی میلان کی بنیاد پر کوئی راستہ اپنالیں بلکہ مراد یہ ہے کہ حالات و اوضاع کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر مصلحت ہو تو حکم جاری کریں ورنہ صرفِ نظر کرلیں ۔

روح ِ پیغمبر کی تقویت کے لئے مزید فرمایا گیا ہے : اگر مصلحت اس میں ہو کہ ان سے منہ پھیر لو تو وہ تمہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے( وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَضُرُّوکَ شَیْئًا ) ۔

اور اگر ان کے درمیا ن فیصلہ کرنا چاہو تو یقینا تمہیں اصولِ عدالت کو ملحوظ رکھنا چاہئیے کیونکہ خدا، حق، انصاف اور عدالت کے مطابق فیصلہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے( وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ) ۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت ِ اسلامی کو آج بھی یہ اختیار ہے کہ وہ غیر مسلموں کے بارے میں احکام ِ اسلام کے مطابق فیصلہ کردے یا فیصلہ کرنے سے اعراض کرے ۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔

بعض کا نظر یہ ہے کہ اسلامی ماحول میں جو شخص بھی زندگی بسر کرتا ہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ، حقوق اور جزا و سزا کے اسلامی قوانین سب کے بارے میں یکساں ہیں ۔ اس بناپر مندرجہ بالاآیت کا حکم یا تو منسوخ ہو چکا ہے یا غیر ذمی کفار سے مخصوص ہے ( یعنی وہ کفار جو ایک اقلیت کے طور پر اسلامی ملک میں زندگی بسر نہیں کرتے لیکن مسلمانوں کے ساتھ معاہدوں میں شریک ہیں اور ان سے میل جول رکھتے ہیں )

بعض دیگر حضرات کا نظریہ ہے کہ اسلامی حکومت اس وقت بھی غیر مسلموں کے بارے میں یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ حالات و اوضاع کو ملحوظ رکھتے ہوئے مصلحت سمجھے تو ان کے بارے میں احکامِ اسلام کے مطابق فیصلہ کرے اور یا انھیں ان کے اپنے قوانین کی طرف رجوع کرنے کی اجازتدے دے ( تفصیلی مطالعہ اور تحقیق کے لئے فقہی کتب میں قضاوت کی بحث سے رجوع کریں )

لام کی خدمت میں آئے تھے تو اس عورت اور مرد کو بھی ساتھ لائے تھے ۔

____________________

۱ ۔ المنار ج۶ صفحہ۲۸۸۔

۲ ۔ پہلی صورت میں ” للکذب“ کی لام ” لام تعلیل “ ہے اور دوسری صورت میں ” لام تعدیہ “ ہے ۔

۳ ۔ تحریف کی کیفیت اور اقسام کے بارے میں اسی سورہ کی آیت ۱۳ کے ذیل میں بحث ہو چکی ہے ۔

۴ ۔ ”سحت“ ( بر وزن جفت“ در اصل درخت کے چھلکے اتارنے اور شدید بھوک کے معنی میں ہے بعد ازاں ناجائز مال اور خصوصاً رشوت کے لئے بولاجانے لگا کیونکہ ایسا مال معاشرے سے تازگی، پاکیز گی اور برکت چھین لیتا ہے جیسے درخت سے چھلکے اتاردئیے جائیں تو اس پر پذمردگی چھا جاتی ہے اور وہ خشک ہو جاتا ہے اس بنا ہر ” سحت“ کا ایک وسیع معنی ہے اگر بعض روایات میں اس کا کوئی خاص مصداق بیان کیا گیا ہے تو وہ اختصاص کی دلیل نہیں ہے ۔

آیت ۴۳

۴۳۔( وَکَیْفَ یُحَکِّمُونَکَ وَعِنْدَهُمْ التَّوْرَاةُ فِیهَا حُکْمُ اللهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَمَا اٴُوْلَئِکَ بِالْمُؤْمِنِینَ ) ۔

ترجمہ

۴۳۔وہ کس طرح تجھے فیصلہ کرنے کے لئے بلاتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات ہے اور اس میں خدا کا حکم موجود ہے ( اور پھر ) فیصلہ کے بعد انھوں نے چاہا کہ تجھ سے منہ پھیر لیں اور وہ مومن نہیں ہیں ۔

تفسیر

گذشتہ آیت میں پیغمبر اکرم سے یہودیوں کے فیصلہ طلب کرنے کا ذکر تھا یہ آیت بھی اسی معاملے کے بارے میں ہے ۔ یہاں تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ کس طرح تجھے فیصلہ کے لئے بلاتے ہیں جب کہ تورات ان کے پاس ہے اور اس میں خدا حکم بھی آچکا ہے( وَکَیْفَ یُحَکِّمُونَکَ وَعِنْدَهُمْ التَّوْرَاةُ فِیهَا حُکْمُ اللهِ ) ۔

یاد رہے کہ زنا محصنہ کے مرتکب مرد عورت کو سنگسار کرنے کا مذکورہ حکم موجودہ تورات کے سفر تثنیہ فصل بائیس میں موجود ہے ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ وہ تو تورات کو ایک منسوخ کتاب مانتے اور دین اسلام کو باطل سمجھتے ہیں اس کے باوجود وہ تورات کے ان احکام کو چھوڑ کر جو انکی طبیعت کے مطابق نہیں ہیں ایسے حکم کی تلاش کرتے ہیں جو اصولی طور پر ان کے موافق نہیں ہے ۔ اس سے بھی بڑ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ تجھے فیصلہ کرنے کے لئے منتخب کرلینے کے بعد تیرا حکم قبول نہیں کرتے کہ حکم تورات کے مطابق ہے کیونکہ یہ حکم ان کے میلان اور رغبت کے خلاف ہے( ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ ) حقیقت یہ ہے کہ وہ ایمان ہی نہیں رکھتے ورنہ احکام ِ خدا کے ساتھ ایسا کھیل نہ کھیلتے( وَمَا اٴُوْلَئِکَ بِالْمُؤْمِنِینَ ) ۔ممکن ہے یہ اعتراض کیا جائے کہ مندرجہ بالا آیت یہ کیونکہ کہتی ہے کہ حکم خدا تورات میں مذکورہے حالانکہ قرآنی آیات اور تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات تحریف شدہ کتاب ہے اور یہی تحریف شدہ کتاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تھی ۔ اس سلسلے میں توجہ رہے کہ اول توہم تمام تورات کو تحریف شدہ نہیں سمجھتے بلکہ اس کے کچھ حصے کو واقع کے مطابق جانتے ہیں اور اتفاق کی بات ہے کہ زیر بحث حکم غیر تحریف شدہ احکام میں سے ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ تورات جو کچھ بھی تھی یہودیوں کے نزدیک تو آسمانی کتاب تھی جو تحریف شدہ نہیں سمجھی جاتی تھی لہٰذا ان حالات میں کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہ اس پر عمل نہ کریں ۔

آیت ۴۴

۴۴۔ إ( ِنَّا اٴَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًی وَنُورٌ یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ اٴَسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْاٴَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ اللهِ وَکَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَاءَ فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِی وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ ) ۔

ترجمہ ۔

۴۴۔ ہم نے تورات کو نازل کیا کہ جس میں ہدایت اور نور تھا اور انبیاء کہ جو حکم خدا کے سامنے تسلیم تھے اس کے مطابق یہودیوں میں فیصلہ کرتے تھے اور (اسی طرح)علماء بھی اس کتاب کے مطابق حکم کرتے تھے کہ جو ان کے سپرد تھی اور وہ اس پر گواہ تھے اس بنا پرت(آیات الہٰی کے مطابق فیصلہ کرنے کے بارے میں ) لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو او رمیری آیات معلوم قیمت پر نہ بیچو او رجو لوگ خدا کے نال کردہ احکام کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔

ہم نے تورات نازل کی

زیر نظر اور آئندہ آیت گذشتہ بحث کی تکمیل کرتی ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی آسمانی کتاب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہ ، ہدایت حق کی طرف راہنمائی کے لئے اور نور جہل و نادانی کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے( إِنَّا اٴَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًی وَنُورٌ ) ۔

اس بنا پر وہ پیغمبر ان ِ خدا جو حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہو ئے تھے اور نزول تورات کے بعد مصروف کارتھے، سب یہودیوں کے لئے اس کے مطابق حکم کرتے تھے( یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ اٴَسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا ) ۔

صرف وہی ایسانہ کرتے تھے بلکہ ” یہودیوں کے بزرگ علماء اور صاحب ِ ایمان پاکباز داشور اس آسمانی کتاب کے ہی مطابق فیصلہ کرتے تھے جو ان کے سپرد کی گئی تھی اور وہ اس پر گواہ تھے( وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْاٴَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ اللهِ وَکَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَاءَ ) ۔(۱)

یہاں روئے سخن اہل کتاب کے ان علماء کی طرف ہے جو اس زمانے میں موجود تھے ار شاد ہوتا ہے : لوگوں سے نہ ڈرو اور خدا کے حقیقی احکام بیان کرو اور چاہے تو یہ کہ میر مخالفت سے ڈرو کیونکہ اگر تم نے حق کو چھپا یا تو تمہیں سزادی جائے گی( فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ ) ۔اور اسی طرح آیاتِ خدا کو کم قیمت پرنہ بیچو( وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا ) ۔

در اصل حق کو چھپا نے کی وجہ یا لوگوں کا خوف ہے یا پھر ذاتی مفاد کا حصول بہر حال جو کچھ بھی ہو ضعف ایمان کی دلیل او رمقام ِ انسانیت کی نفی ہے اور مندجہ بالا جملوں میں دونوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔

ایسے اشخاص کے بارے میں آیت کے آخر میں قطعی فیصلہ صادر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :

جو لوگ احکام ِ خدا کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ ) ۔

واضح ہے کہ حکم خدا کی مطابق فیصلہ نہ کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خاموش رہا جائے اور بالکل کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور اپنی خاموشی سے لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیا جائے اور یہ بھی کہ بات کی جائے اور حکم خدا کے خلاف فیصلہ دیاجائے ۔

یہ بھی واضح ہے کہ کفر کے لئی مراتب اور مختلف درجات ہیں اور یہ اصل وجود خدا کے انکار سے شروع ہو تا ہے اور اس کی نافرمانی اور معصیت تک جا پہنچتا ہے ۔ کیونکہ ایمان ِ کامل انسان کو حکم ِ خدا کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور وہ جو عمل نہیں کرتے ان کا ایمان کا مل نہیں ہے ۔

یہ آیت ہر امت کے علماء اور داشنوروں پر عائد ہو نے والی بھاری ذمہ داری ار جوابدہی کو واضح کرتی ہے ۔ آیت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے گرد رونما ہونے والے معاشرتی طوفان اور حوادث کا مقابلہ کریں ۔ کجرویوں کے خلاف فیصلہ کن انداز میں ڈٹ جائیں اور کسی سے خوف نہ کھائیں ۔

____________________

۱۔ ”ربانی “ کے معنی اور اس کے اصلی مادہ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۳۸۷ ( اردو ترجمہ ) میں بحث کی جاچکی ہے نیز ” احبار “ ” حبر “ ( بر وزن “ فکر )کی جمع ہے اور اسی طرح بر وزن ” ابر “ ہو تو اس کا منعی ہے ” نیک اثر “ بعد ازاں یہ لفظ ایسے علماء کے بارے میں استعمال ہو نے لگا جو معاشرے میں اچھا اور نیک اثر رکھتے ہوں دوات کی سیاہی کو بھی ”حبر “ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ نیک آثار رکھتی ہے ۔

آیت ۴۵

۴۵۔( وَکَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیهَا اٴَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاٴَنفَ بِالْاٴَنفِ وَالْاٴُذُنَ بِالْاٴُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ کَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۵۔ اور ہم نے اس ( تورات) میں ان( بنی اسرائیل )کے لئے مقرر کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان ہے اور ہر زخم کے لئے قصاص ہے اور اگر کو ئی ( قصاص سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ) اسے بخش دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ شمار ہوگا اور جو شخص خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔

قصاص اور در گذر

اس آیت میں ان حدودِ الہٰی کا ایک حصہ بیان کیا گیا ہے جو تورات میں ہیں ، فرمایا گیا ہے : ہم نے تورات میں قانون ِ قصاص مقرر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو قتل کردے تو مقتول کے اولیاء قاتل کو اس کے بدلے قتل کر سکتے ہیں( وَکَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیهَا اٴَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ) ۔

اور اگر کوئی دوسرے کی آنکھ کو نقصان پہنچائے اور اسے ختم کردے تو وہ اس کی آنکھ نکال سکتا ہے( وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ ) ۔نیز کان کاٹنے کے بدلے مد مقابل کا کان کاٹا جا سکتا ہے( وَالْاٴُذُنَ بِالْاٴُذُنِ ) ۔

اسی طرح کسی کی ناک کاٹنے کے بدلے جائز ہے کہ مجرم کی ناک کاٹی جائے( وَالْاٴَنفَ بِالْاٴَنفِ ) ۔

اور اگر کوئی کسی کا دانت توڑ دے تو وہ بھی اس کادانت توڑ سکتا ہے( وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ) ۔

اسی طرح جو بھی کسی کو کوئی زخم لگائے تو وہ اس کے بدلے قصاص لے سکتا ہے( وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ) ۔

لہٰذا حکم ِ قصاص بغیر کسی نسلی ، طبقاتی ، اجتماعی ، قبائلی اور شخصی امتیاز کے جاری ہو گا اور اس سلسلے میں کسی کے لئے بھی کسی پہلو سے کوئی فرق اور تبعیض نہیں ہے ( البتہ دیگر اسلامی احکام کی طرذح اس حکم کی بھی کچھ شرائط ہیں جو فقہی کتب میں موجود ہیں کیونکہ یہ حکم بنی اسرائیل سے مخصوص نہیں ہے اسلام میں بھی اس کی نظیر موجود ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیہ ۱۷۸ میں مذکورہ ہے کہ جو آیہ قصاص ہے ) ۔

ناروا امتیازات اور تفریقات جو اس زمانے میں مروج تھیں انھیں یہ آیت ختم کرتی ہے جیساکہ بعض تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں یہودِ مدینہ کے دو گروہوں میں ایک عجیب عدم مساوات موجود تھی اور وہ یہ کہ بنی نضیر کو کائی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کردیتا ہے تو اس سے قصاص نہ لیا جاتا لیکن اس کے بر عکس بنی قریظہ کا کوئی شخص بنی نضیر کے کسی شخص کو قتل کردیتا تو وہ اس کے بدلے قتل کیا جا تا ۔

جب مدینہ میں اسلام آیا تو نبی قریظہ نے اس بارے میں پیغمبر اسلام سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: خون کسی کا ہو کوئی فرق نہیں ۔

اس پر بنی نضیر اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے :

آپ ہما را مقام نیچے لے آئے ہیں اور اسے پست کردیا ہے ۔

زیر نظر آیت اسی ضمن میں نازل ہو ئی اور انھیں بتا یا گیا کہ نہ صرف اسلام میں بلکہ یہودیوں کے دین میں بھی مساوات کا یہ قانون موجود ہے(۱)

لیکن اس بنا پر کہ کہیں یہ گمان نہ ہو کہ خدا نے قصاص کو لازمی قرار دیا ہے اور مقابلہ بمثل کی دعوت دی ہے ، مزید فرمایا گیا ہے ، : اگر کوئی اپنے حق سے در گذر کرے اور عفو و بخشش سے کام لے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ شمار ہو گا اور جس طرح اس نے در گذر سے کام لیا ہے خدا اس سے در گذر کرے گا

( فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ کَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ ) (۲)

گویا قصاص ایک صدقہ و عطیہ ہے جو مجرم کو بخش دیا گیا ہے یہاں ” تصدق“ کی تعبیر اور خدا کی طرف سے ” تصدق“ کرنے والے کو عفو کا وعدہ ، یہ سب کچھ عفو و در گذر کا شوق پیدا کرنے کے لئے ہے ۔ کیونکہ اس میں شک نہیں کہ قصاص کے ذریعے کھوئی ہوئی چیز تو ہاتھ میں نہیں آسکتی یہ تو فقط وقتی سکون ن و اطمنان دیتا ہے لیکن خدا کی طرف سے عفو و بخشش کا وعدہ در اصل ایک دوسری صورت میں اس کی تلافی ہے جو وہ ہاتھ سے دے بیٹھا ہے اور اس طرح سے اس کی پریشانی ختم ہو جاتی ہے اور یہ ایسے لوگوں کے لئے عمدہ اور بہترین تشویق ہے ۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام)نے فرمایا:

جو شخص معاف کردیتا ہے ، خدا بھی اسی طرح کے گناہ معاف کردیتا ہے ۔(۳)

یہ جملہ در حقیقت ان لوگوں کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو قانون قصاص کو غیر عادلانہ سمجھتے ہیں اور اسے ایک آدم کش قانون قرار دیتے ہیں ۔ پوری آیت پر غو ر و خوض سے معلوم ہوتا ہے کہ قصاص کی اجازت مجر موں کو خوف زدہ کرنے کے لئے ہے تاکہ بے گناہ لوگ ان کے اقدامِ ِ جرم سے مامون رہیں لیکن اس کے باوجود عفو و باز گشت کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا ہے ۔ خوف و امید کی یہ کیفیت پیدا کوتے ہوئے اسلام چاہتا ہے کہ ظلم و زیادی کو بھی رو کے اور جتنا ہو سکے او رمناسب ہو خون کو خون سے پاک کرنے کی پیش بندی بھی کرے۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : اور جو لوگ خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الظَّالِمُون ) ۔

اس سے بڑ ھ کر کیا ظلم ہو گا کہ ہم جھوٹے احساسات اور جذبات سے مغلوب ہو کر قاتل سے اس بہانے سے صرفِ نظر کرلیں کہ خون کو خون سے نہ دھو یا جائے اور قاتلوں کے ہاتھ دوسرے لوگوں کو قتل کرنے کے لئے کھلے چھوڑ دیں ، اور اس طرح سے بے گناہوں پر ظلم و ستم کریں ۔

توجہ رہے کہ موجودہ تورات میں بھی سفر خروج کی اکیسویں فصل میں ہے کہ :

اور اگر دوسرے کو اذیت پہنچائی گئی ہو تو اس وقت جان کے عوض جان دی جائے ۔ آنکھ کے عوض آنکھ ، دانت کے بدلے دانت ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور پاوں کے بدلے پاوں اور خلانے کے بدلے جلایا جائے ، زخم کے عوض زخم اور تھپڑ کے بدلے تھپڑ۔(۴)

____________________

۱۔تفسیر قرطبی جلد ۳ صفحہ ۲۱۸۸۔

۲۔ بہت سے مفسرین نے یہ آیت کے بارے میں ایک اور احتمال بھی پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ” لہ“ کی ضمیر مجرم کے بارے میں ہے اس طرح آیت کا معنی یہ ہو گا : جو شخص اپنے حق سے درگذر کرے تو اس سے جان کا قصاص بر طرف ہوجائے گا اور یہ اس کے عمل کا کفارہ شمار ہو گا لیکن آیت کا ظہور وہی ہے جو ذکر ہو چکا ہے ۔

۳۔نو ر الثقلین ج ۱ ص ۶۳۷۔

۴ ۔سفر خروج ۔ جملہ ۲۳، ۲۴ اور ۲۵۔