تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23297
ڈاؤنلوڈ: 3123


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23297 / ڈاؤنلوڈ: 3123
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۴۶

۴۶۔( وَقَفَّیْنَا عَلَی آثَارِهِمْ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنْ التَّوْرَاةِ وَآتَیْنَاهُ الْإِنجِیلَ فِیهِ هُدًی وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنْ التَّوْرَاةِ وَهُدًی وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ ) ۔

ترجمہ

۴۶۔ اور ان ( گذشتہ انبیاء) کے بعد ہم نے عیسیٰ کو مقرر کیا تاکہ اس سے پہلے جو تورات میں بھیجا گیا تھا اس کی تصدیق کرے اور ہم نے اسے انجیل دی کہ جس میں ہدایت او رنور تھا( اور اس کی یہ آسمانی کتاب بھی ) تورات کی تصدیق کرتی تھی جو اس سے پہلے تھے اور متقیوں کے لئے ہدایت او رموعظہ ہے ۔

تفسیر

تورات سے مربوط آیات کے بعد یہ آیت انجیل کی کیفیت بیان کررہی ہے ارشاد ہوتا ہے : گذشتہ رہبروں اور پیغمبروں کے بعد ہم نے مسیح کو مبعوث کیا جب کہ اس کی نشانیاں بالکل ان نشانیوں کے مطابق تھیں جو تورات نے بیان کی تھیں( وَقَفَّیْنَا عَلَی آثَارِهِمْ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنْ التَّوْرَاةِ ) ۔

اس جملہ کی ایک اور بھی تفسیر ہے اور وہ یہ ہے کہ : حضرت مسیح (علیه السلام) نے تورات کی حقانیت کا اعتراف کیا کہ جو حضرت موسیٰ بن عمران پرنازل ہ وئی تھی جیسے تمام آسمانی پیغمبر اپنے سے پہلے انبیاء کی حقانیت کے معترف تھے ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے : ہم نے اسے انجیل سونپی کہ جس میں ہدایت اور نور تھا( وَآتَیْنَاهُ الْإِنجِیلَ فِیهِ هُدًی وَنُورٌ ) ۔

قرآن مجید میں تورات ، انجیل اور قرآن تینوں کو نور کہا گیا ہے ۔ تورات کے بارے میں ہے :

( انا انزلنا التوراة فیها هدی و نور ) ( مائدہ۔ ۴۴)

انجیل کے بارے میں تو مندرجہ بالا آیت شاہد ہے اور قرآن کے بارے میں ہے :

( وَ قَد جاء کم من الله نور و کتاب مبین ) “ ( مائدہ ۔ ۱۵)

در حقیقت جیسے تمام موجودات ِ عالم اپنی زندگی کے تسلسل کے لئے نور کے سخت محتاج ہیں ۔ اسی طرح خدا کے دین اور آسمانی کتب کے احکام و قوانین انسانوں کے رشد و تکامل اور ارتقاء کے لئے باگریز ہیں ۔ اصولی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ تمام توائیوں اور ھرکات اور زیبائیوں کا سر چشمہ نور ہے اور نور نہ ہوتو خاموشی اور موت تمام جگہوں پر چھا جائے ۔اسی طرح پیغمبروں کی تعلیمات نہ ہوں تو تمام انفرادی و اجتماعی انسانی قدریں موت کی نیند سو جائیں اور اس نمونے ہم مادی معاشروں میں واضح طو ر پر دیکھ سکتے ہیں ۔

قرآن نے کئی ایک مقامات پر تورات اور انجیل کو آسمانی کتاب کے عنوان سے یاد کیا ہے اور بتا یا ہے کہ یہ دونوں کتابیں اصل میں خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ اپنے پیغمبروں کے بعد یہ دونوں آسمانی کتابیں تحریف کی نذر ہو گئیں کچھ حقائق ان میں سے کم کر دئے گئے اور کچھ اورکتب نے ان کی جگہ لے لی ۔ جن میں کچھ حصہ اصلی کتب کا بھی تھا ۔(۱)

لہٰذانور کا اطلاق اصلی تورات اور انجیل پر ہوتا ہے ۔ تحریف شدہ کتب پر نہیں ۔

دوبارہ بطور تاکید فرمایا گیا ہے کہ : نہ صرف یہ کہ عیسیٰ بن مریم ، تورات کی تصدیق کرتے تھے بلکہ ان کی آسمانی کتاب انجیل بھی تورات کی صداقت پر گواہ تھی( وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنْ التَّوْرَاةِ ) ۔

آخر میں ارشاد ہو تا ہے : یہ آسمانی کتاب پرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور وعظ و نصیحت کا سر مایہ ہے( وَهُدًی وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ ) ۔یہ تعبیر بھی ویسی ہی ہے جیسی سورہ بقرہ کی ابتداء میں قرآن کے بارے میں آئی ہے ۔ جہاں فرمایا گیا ہے :( هدی للمتقین ) یعنی قرآن پرہیز گاروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے ۔

نہ صرف قرآن بلکہ تمام آسمانی کتب اسی طرح پرہیز گاروں کے ہدایت کا ذریعہ ہیں ۔ پرہیز گاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق کی تلاش میں رہتے ہیں اور اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ و تیار رہتے ہیں ۔ واضح ہے کہ جو لوگ ہت دھرمی اور دشمنی کی بنا پر اپنے دل کادریچہ حق کے سامنے بند کرلیتے ہیں وہ کسی بھی حقیقت سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیت میں پہلے انجیل کے بارے میں ” فیہ ھدیً“ کہا گیا ہے اور بعد میں بطور مطلق ” ھدیً“ کہا گیا ہے ۔ تعبیر کا یہ فرق ممکن ہے اس بنا پر ہو کہ انجیل اور دوسری آسمانی کتب میں ہر شخص کے لئے بلا استثناء ہدایت کے دلائل موجود ہیں لیکن پرہیزگاروں کے لئے کہ جو اس میں دقت نظر کرتے ہیں وہ ہدایت تربیت، تکامل اور ارتقاء کا باعث ہے ۔

____________________

۱۔ تورات اور انجیل میں تحریف اور اس کی تاریخی اسناد کے بارے میں زیادہ وضاحت کے لئے کتاب ”الھدی الیٰ دین المصطفیٰ “ اور ” انیس الاعلام“ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

آیت ۴۷

۴۷۔( وَلْیَحْکُمْ اٴَهْلُ الْإِنجِیلِ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فِیهِ وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ ) ۔

ترجمہ ۴۷۔ ہم نے اہل انجیل ( پیروان ِ مسیح ) سے کہا کہ جوکچھ خدا نے اس میں نازل کیا ہے وہ اس کے مطابق حکم کریں اور جو لوگ اس کے مطابق حکم نہیں کرتے جو خدا نے نازل کیا ہے ، وہ فاسق ہیں ۔

وہ جو قانونِ الہٰی کے مطابق حکم نہیں کرتے

گذشتہ آیات میں انجیل کے نازل ہونے کا ذکر ہے ۔ اب اس آیت میں فرمایا گیا ہے : ہم نے اہل انجیل کو حکم دیا کہ جو کچھ خدا نے اس میں نازل کیا ہے اس کے مطابق حکم اور فیصلہ کریں( وَلْیَحْکُمْ اٴَهْلُ الْإِنجِیلِ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فِیهِ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ اس جملے سے یہ مراد نیں کہ قرآن عیسائیوں کو یہ حکم دے رہا ہے کہ انھیں اس وقت انجیل کے احکام پر عمل کرنا چاہئیے کیونکہ یہ بات تو قرآن سے مناسبت نہیں رکھتی کہ جو نئے آئیں اور دین کا اعلان کررہا ہے ، پرانے دین کو منسوخ کررہا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم نے عیسیٰ پر انجیل نازل کرنے کے بعد اس کے پیروکاروں کا حکم دیا تھا کہ وہ اس پر عمل کریں اور ا س کے مطابق فیصلے کریں ۔(۱) اس آیت کے آخر میں بطور تاکید فرماتا ہے : جو لوگ حکم ِ خدا کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ فاسق ہیں( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ ) ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ ان آیات میں ایک مقام پر انہی افراد کو ” کافر “ کہا گیا ہے ۔ دوسرے مقام پر ” ظالم “ قراردیا گیا ہے اور تیسرے مقام پر ” فاسق“ کہا گیا ہے ۔ تعبیر میں یہ فرق ممکن ہے اس بنا پر ہو کہ ہر حکم تین پہلو رکھتا ہے ۔ ایک طرف سے وہ قانون بنانے والے ( خدا ) پر منتہی ہوتا ہے دوسری طرف قانون جاری کرنے والے ( حاکم و قاضی) تک پہنچتا ہے اور تیسری طرف اس شخص کہ جس پر قانون جاری ہورہا ہے ( محکوم) تک پہنچتا ہے ۔ گویا ہر تعبیر تین میں سے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ جو شخص خدا کے ایک حکم کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ ایک ظرف سے قانون ِ الہٰی کو پاون تلے روند کر ” کفر“ اختیار کرتا ہے ۔ دوسری طرف ایک بے گناہ انسان پر” ظلم “کرتا ہے اور تیسری طرف وہ اپنی ذمہ داری اور مسئولیت کی سر حد سے انحراف کرکے ” فاسق“ بن جاتا ہے جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ فسق کا معنی بندگی اور مسئولیت کی سر حد سے تجاوز ہے ۔

____________________

۱در حقیقت اسی طرح جیسے بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ ”قلنا“ یہاں مقدر ہے اور آیت کا مفہوم ہے ”و قلنا لیحکم اهل الانجیل

آیت ۴۸

۴۸۔( وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنْ الْکِتَابِ وَمُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ وَلاَتَتَّبِعْ اٴَهْوَائَهُمْ عَمَّا جَائَکَ مِنْ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَکُمْ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَلَکِنْ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۸۔ اور اس کتاب کو ہم نے حق کے ساتھ تم پر نازل کیا جبکہ یہ گذشتہ کتب کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا خد انے جو احکام نازل کئے ہیں ان کے مطابق حکم کرو اور ان کے ہواو ہوس کی پیروی نہ کرو اور احکام الہٰی سے منہ نہ پھیرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے واضح آئیں اور طریقہ مقرر کردیا ہے ۔ اگر چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت قرار دیتا لیکن خدا چاہتا ہے کہ اس نے جو کچھ تمہیں بخشا ہے اس میں تمہیں آزمائے ( اور تمہاری صلاحیتیوں کی نشو ونما کرے ) اس لئے تم کو شش کرو اور نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاو ۔ تم سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے اور جس میں تم نے اختلاف کیا ہے وہ تمہیں اس کی خبر دیتا ہے ۔

قرآن کے مقام و مرتبے کا تذکرہ ہے

گذشتہ انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اس آیت میں قرآن کے مقام و مرتبے کا تذکرہ ہے ” مھیمن “ در اصل ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی محافظ، شاہد، امین اور نگہدار ہو۔ قرآن چونکہ گذشتہ آسمانی کتب کے اصولوں کی مکمل حفاظت و نگہداری کرتا ہے اور ان کی تکمیل کرتا ہے لہٰذا اسے ” مھیمن “ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے ہم نے اس آسمانی کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے ، جبکہ یہ گذشتہ کتب کی تصدیق کرتا ہے ( اور اس کی نشانیاں اور علامات اس کے مطابق ہیں جو گذشتہ کتب نے بتائی ہیں ) اور یہ ان کا محافظ و نگہبان ہے( وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنْ الْکِتَابِ وَمُهَیْمِنًا عَلَیْهِ ) ۔

بنیادی طور پر تمام آسمانی کتابیں اصول ِ مسائل میں ہم آہنگ ہیں اور سب کا ہدف و مقصدایک ہی ہے یعنی سب انسانی تربیت، ارتقاء اور تکامل کے در پے ہیں اگر چہ فروعی مسائل میں تکامل و ارتقاء کے تدریجی قانون کے مطابق مختلف ہیں اور ہر نیا دین بالاتر مرحلے کی طرف قدم بڑھا تا ہے اور جامع ترین پروگرام پیش کرتا ہے ۔

”ِّ( مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ ) “کے بعد”( مهَیْمِنًا عَلَیْهِ ) “ کا ذکر جو تم پر نازل ہو ئے ہیں( فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ ) ۔یہ جملہ فاء تفریح کے ساتھ آیا ہے جو گذشتہ ادیان کے احکام کی نسبت احکام اسلام کی جامعیت کا نتیجہ ہے ۔ یہ حکم گذشتہ آیات کے اس حکم کی منافی نہیں کہ جن میں پیغمبر کویہ بتا دیا گیا ہے کہ ان کے درمیان خود فیصلہ کریں یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ کیونکہ یہ آیت کہتی ہے کہ جب اہل کتاب کے درمیان فیصلہ کرنا چاہو تو قرآن کے احکام کے مطابق فیصلہ کرو ۔

پھر مزید فرما یا گیا ہے کہ جو لوگ چاہتے ہیں کہ احکام الہٰی کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیں ، تم ان کے ہواو ہوس اور خواہشات کی اتباع نہ کرو ۔ اور حق میں سے جو کچھ تم پرنازل ہوا ہے اس سے منہ نہ پھیرو( وَلاَتَتَّبِعْ اٴَهْوَائَهُمْ عَمَّا جَائَکَ مِنْ الْحَقِّ ) ۔

بحث کی تکمیل کے لئے فرما یا گیا ہے : تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے دین ، شریعت ، طریقہ اور واضح راستے کا تعین کردیا ہے( لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ) ۔”شرع“ اور ” شریعة“ اس راستے کو کہتے ہیں جو پانی کی طرف جاتا ہو اور وہاں کا کر ختم ہو تا ہو اور دین کو شریعت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حقائق اور ایسی تعلیمات تک پہنچا تا ہے جو پاکیزگی ، طہارت اور انسانی زندگی کا سر مایہ ہیں ” نھج“ اور” منھاج “ واضح راستے کو کہتے ہیں راغب مفردات میں ابن عباس سے نقل کیا ہے :

” شرعة “ اور ” منھاج “ میں یہ فرق ہے کہ ” شرعة“ اسے کہا جا تا ہے جو قرآن میں وارد ہوا ہے اور منہاج سے مرادوہ امور ہیں جو سنت ِ پیغمبر میں وارد ہو ئے ہیں ۔

یہ فرق اگر چہ جاذب ِ نظر ہے لیکن اس کے لئے کوئی قطعی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے ۔(۱)

لیکن ہمارے پاس اس فرق کے لئے بھی کوئی واضح دلیل نہیں کیونکہ یہ دونوں الفاظ بہت سے مواقع پر ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے : خدا میں یہ طاقت تھی کہ وہ تمام لوگوں کو ایک ہی امت قرار دے دیتااور سب کو ایک ہی دین کا پیرو بنا دیتا لیکن یہ بات تدریجی تکامل کے قانون اور مختلف تربیتی مراحل کے اصول سے مناسبت نہیں رکھتی تھی( وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَکُمْ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَلَکِنْ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ ) ۔

لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ ۔یعنی تاکہ تمہیں ان چیزوں کے متعلق آزمائے جو تمہیں دی گئی ہیں ۔

یہ جملہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں اور وہ یہ کہ خدا نے وجود انسانی میں مختلف قسم کی استعدادیں اور صلاحیتیں پیدا کی ہیں اور وہ آزمائشوں کے ذریعے اور تعلیمات ِ انبیاء کے ذریعے لوگوں کی تربیت اور پرورش کرتا ہے ۔ اسی لئے ایک مرحلہ طے کرنے کے بعد انھیں بالاتر مرحلے میں لے جاتا ہے ایک دور کے ختم ہ ونے پر دوسرے پیغمبر کے ذریعے بالاتر دور میں لے جاتا ہے بالاتر تمام اقوام و ملل کو مخاطب کرکے دعوت دیتا ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنی توانائیاں اختلافات و مشاجرات میں صرف کرو، نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو( فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ ) کیونکہ سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے اور وہی روز قیامت ان چیزوں سے آگاہ کرے گا ، جن میں تم اختلاف کرتے ہو( إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ ) ۔

____________________

۱۔ بعض بذرگ مفسرین کا نظر یہ ہے کہ دین اور شریعت کے درمیان فر ق یہ ہے کہ دین توحید اور دیگر اصول سے عبارت ہے جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں اسی لئے دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے لیکن شریعت ایسے قوانین ، احکام کو کہا جاتا ہے جو ان مذاہب میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔

آیات ۴۹،۵۰

۴۹۔( وَاٴَنْ احْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ وَلاَتَتَّبِعْ اٴَهْوَائَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اٴَنْ یَفْتِنُوکَ عَنْ بَعْضِ مَا اٴَنزَلَ اللهُ إِلَیْکَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اٴَنَّمَا یُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُصِیبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ) ۔

۵۰۔( اٴَفَحُکْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُونَ وَمَنْ اٴَحْسَنُ مِنْ اللهِ حُکْمًا لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۹۔ اور ان ( اہل کتاب) کے درمیان تمھیں اس کے مطابق حکم کرنا چاہئیے جو خدا نے نازل کیا ہے اور ان کی ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو اور اس سے بچو کہکہیں تمہیں وہ بعض ایسے احکام سے منحرف کردیں جو تم پر نازل ہوئے ہیں اور اگر وہ ( تمہارے کام اور فیصلے سے ) رو گردانی کریں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان کے کچھ گناہوں کے بدلے انھیں سزا دے اور بہت سے لوگ فاسق ہیں ۔

۵۰۔ کیا وہ ( تم سے ) زمانہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اہل ایمان کے لئے خدا سے بہتر حکم کون کر سکتا ہے ۔

شانِ نزول

بعض مفسرین نے اس پہلی آیت کی شان ِ نزول میں ابن عباس سے نقل کیا ہے :

یہودیوں کے بڑوں کی ایک جما عت نے آپس میں سازش کی او رکہا کہ محمد کے پاس جاتے ہیں ۔ شاید اسے ہم اس کے دین سے منحرف کردیں ۔ یہ طے کرکے وہ پیغمبر اسلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم یہودیوں کے علماء اور اشراف ہیں ، اگر ہم آپ کی پیروی کرلیں تو مسلم ہے کہ باقی یہودی ہماری اقتداء کریں گے لیکن ہمارے اور ایک گروہ کے درمیان ایک نزاع ہے ( ایک شخص کے قتل یا کسی اور بات کے بارے میں ) اگر اس جھگڑے میں آپ ہمارے فائدے میں فیصلہ کردیں تو ہم آپ پر ایمنا لے آئیں گے ۔

اس پرپیغمبر اسلام نے ایسے ( غیر عادلانہ ) فیصلے سے منہ موڑ لیا ۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی ۔ ( تفسیر المنار ۔ج ۶ ص ۴۲۱ ۔) ۔

تفسیر

اس آیت میں خدا تعالیٰ دوبارہ اپنے پیغمبرکو تاکید کرتا ہے کہ اہل کتاب کے درمیان حکم ِ خدا کے مطابق فیصلہ کریں ، اور ان کی ہوا وہوس کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں ۔( وَاٴَنْ احْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ وَلاَتَتَّبِعْ اٴَهْوَائَهُمْ ) ۔

اس حکم کی تکراریا تو ان مطالب کی وجہ سے ہے جو آیت کے ذیل میں آئے ہیں یا اس بناپر کہ اس فیصلے کا موضوع گذشتہ آیات کے فیصلے کے موضوع سے مختلف ہے ۔ گذشتہ آیات میں موضوع زنا ئے محصنہ اور یہاں موضوع قتل یا کوئی اور جھگڑا تھا ۔

اس کے بعد پیغمبر کو متوجہ کیا گیا ہے کہ انھوں نے سازش کی ہے کہ تمھیں آئیں حق و عدالت سے روگرداں کردیں تم ہوشیار اور آگاہ رہو( وَاحْذَرهُمْ اٴَنْ یَفْتِنُوکَ عَنْ بَعْضِ مَا اٴَنزَلَ اللهُ إِلَیْکَ ) ۔

اور اگر اہل کتاب تمہارے عادلانہ فیصلے کے سامنے سر نہیں جھکاتے تو جان لو کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے گناہوں نے ان کا دامن پکڑ رکھا ہے اور اس سے توفیق سلب ہو چکی ہے اور خدا چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے انھیں سزا دے( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اٴَنَّمَا یُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُصِیبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ) ۔

تمام گناہوں کی بجائے بعض گناہوں کا ذکر ممکن ہے اس بنا پر ہو کہ تمام گناہوں کی سزا اس دنیا میں انجام نہیں پاتی صرف کچھ سزا انسان کو ملتی ہے اور باقی معاملہ دوسرے جہان کے سپرد ہوجاتا ہے۔

انھیں کون سی سزا دامن گیر ہوئی ، اس کی آیت میں کوئی صراحت نہیں ہے لیکن احتمال ہے کہ اسی انجام کی طرف اشارہ ہے ، جس سے مدینہ میں یہودی دو چار ہوئے ۔ وہ اپنی پے در پے خیانتوں کے باعث اپنا گھربار چھوڑ کر مدینہ سے باہر چلے جانے پرمجبورہوئے یایہ کہ سلبِ توفیق ان کے لئے ایک سزا شمار ہوئی ہو۔ دوسرے لفظوں میں پیہم گناہ اور ہٹ دھرمی کی سزا عادلانہ احکام سے محرومی اور بے راہ و سرگردان زندگی کی صورت میں انھیں ملی ہو۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : اگر یہ لوگ راہ ِ باطل میں ڈٹے ہو ئے ہیں تو تم پرشان نہ ہونا کیونکہ بہت سے لوگ فاسق ہیں( وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ) ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

ہوسکتا ہے یہ اعتراض کیا جائے کہ زیر بحث آیت اس امر پر دلیل ہے کہ پیغمبر بھی حق سے انحراف کرسکتے ہیں لہٰذا خدا انھیں تنبیہ کررہا ہے تو کیا یہ بات انبیاء کے معصوم ہو نے کے مقام سے مناسبت رکھتی ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ معصوم ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پیغمبراور امام کے لئے گناہ محال ہے ورنہ ان کے لئے ایسی عصمت میں تو کوئی فضیلت نہ ہوگی بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ گناہ کی طاقت رکھنے کے باوجود گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔اگر چہ یہ مرتکب نہ ہوناتذکرات ِ الہٰی کی وجہ سے ہی ہو ۔ دوسرے لفظوں میں خدائی تو جہات گناہ سے پیغمبر کے محفوظ رہنے کا ایک عامل ہے ۔

انبیاء اور آئمہ کے مقام عصمت کے بارے میں تفصیلی بحث انشاء اللہ آیت تطہیر ( احزاب۔ ۲۳) کے ذیل میں آئے گی ۔

بعد والی آیت میں استفہام انکارتی کے طور پر فرمایا گیا ہے : کیا یہ لوگ آسمانی کتب کی پیروی کے مدعی ہیں ،توقع رکھتے ہیں کہ تم زمانہ جاہلیت کے احکام کی طرح اور تبعیض و امتیاز برتتے ہو ئے ان کے درمیان قضاوت کرو( اٴَفَحُکْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُونَ ) ۔

حالانکہ اہل ایمان کے لئے حکم ِ خدا سے بہتر اور بالا تر کوئی فیصلہ نہیں ہے( وَمَنْ اٴَحْسَنُ مِنْ اللهِ حُکْمًا لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ ) ۔

جیسا کہ ہم گذشتہ آیات کے ذیل میں کہہ چکے ہیں کہ یہودیوں کے مختلف قبائل میں بھی عجیب و غریب امتیازات تھے۔ مثلاً اگر بنی قریظہ کا کوئی شخص بنی نضیر کے کسی شخص کو قتل کردیتا تو قصاص لیا جاتا تھا ۔ لیکن اس کے برعکس بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کردیتا تو قصاص نہ لیا جاتا یا یہ کہ دیت اور خون بہا عام دیت سے دو گنا لیتے تھے ۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے امتیازار زمانہ جاہلیت کی نشانیاں ہیں ۔ جبکہ خدا ئی احکام کی نظر میں بند گانِ خدا میں کوئی امتیاز نہیں ۔ کافی میں امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا :

الحکم حکمان حکم الله و حکم الجاهلیة فمن اخطاٴ حکم الله حکم بحکم الجاهلیة

حکم صرف دو طرح کے ہیں ۔ اللہ کا حکم یا جاہلیت کا حکم ۔ اور جو خدا کا حکم چھوڑ دے، اس نے جاہلیت کا حکم اختیار کرلیا ۔ ( نوالثقلین جلد ۱ ص ۶۴۰)