تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22844
ڈاؤنلوڈ: 2986


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22844 / ڈاؤنلوڈ: 2986
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۵۷،۵۸

۵۷۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اٴَوْلِیَاءَ وَاتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔

۵۸۔( وَإِذَا نَادَیْتُمْ إِلَی الصَّلاَةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَیَعْقِلُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۷۔اے ایمان والو! اہل کتاب اور مشرکین میں سے ان لوگوں کو اپنی دوست اور سہارا نہ سمجھو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھتے ہیں اور اگرایمان دار ہو تو خدا سے ڈرو۔

۵۸۔ جب ( تم اذان کہتے ہواو رلوگوں کو ) نماز کے لئے پکارتے ہو تو وہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں او راسے کھیل تماشہ سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسا گروہ ہیں جو عقل و ادراک نہیں رکھتے ۔

شان نزول

تفسیر مجمع البیان ، تفسیر ابو الفتوح رازی اور تفسیر فخر الدین رازی میں منقول ہے :

رفاعہ اور سوید مشرکین میں سے تھے ۔ انھوں نے اظہار اسلام کیا او رپھر وہ منافقین کے ہم کاروں میں داخل ہو گئے ۔ بعض مسلمامن ان دونوں سے میل جول رکھتے تھے اور اظہار دوستی کرتے تھے اس پر مندرجہ بالاآیت نازل ہوئیں اور انھیں اس راہ و رسم کے خطرے سے آگاہ کیا گیا تاکہ وہ اس عمل سے پرہیز کریں ۔

یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں ولایت بمعنی دوستی ہے نہ کہ ولایت بمعنی سر پرستی و تصرف جو کہ گذشتہ آیات میں تھی ، کیونکہ اس آی کی شانِ نزول ان آیات سے مختلف ہے ۔ لہٰذا انھیں ایک دوسرے کے لئے قرینہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

دوسری آیت جو پہلی کا ضمیمہ ہے ، اس کی شان ِ نزول یہ منقول ہے :

یہودیوں کا ایک گروہ اور کچھ عیسائی جب موذن کی اذان کی آواز سنتے او رنماز کے لئے مسلمانوں کا قیام دیکھتے تو تمسخر او راستہزا شروع کردیتے ۔ لہٰذاقرآن مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے پرہیز کاحکم دیتا ہے ۔

تفسیر

اس آیت میں خدا وند عالم دوبارہ مومنین کو حکم دے رہا ہے کہ منافقوں اور دشمنوں کی دوستی سے بچو ، البتہ ان کے جذبات و میلانات کو متحرک کرنے کے لئے یوں فرماتا ہے : اے ایمان والو! جو لوگ تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھتے ہیں وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین و منافقین میں سے ان میں سے کسی کو بھی دوست نہ بناو( یَااٴَیُهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اٴَوْلِیَاءَ ) ۔

آیت کے آخر میں( وَاتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔فرماکر تاکید کی گئی ہے کہ تقویٰ او رایمان سے ایسے لوگوں کی دوستی مناسبت نہیں رکھتی ۔

توجہ رہے کہ ” ھزو“(بروزن ”قفل “) کا معنی ہے ” تمسخر آمیز باتیں یا حرکات جو کسی چیز کے بے وقعت ظاہر کرنے کے لئے کی جائیں ” جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے استہزاء ایسے مذاق کو کہتے ہیں جو کسی عدم موجود گی میں اور پس پشت کیا جائے اگر چہ کبھی کبھار کسی کے سامنے اس کا تمسخر اڑانے پربھی یہ لفظ بطور نادر بولا جاتا ہے ۔ ”لعب “ عام طور پر ایسے کاموں کوکہا جاتا ہے جن کے انجام دینے میں کوئی تصحیح غرض کار فرمانہ ہو یا جو بالکل بغیر ہدف اور مقصد کے انجام پائیں ، نہ بچوں کے کھیل کود کوبھی ” لعب “ اسی بنا پر کہتے ہیں ۔

گذشتہ آیت میں منافقین اور اہل کتاب کی ایک جماعت سے دوستی کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ وہ لوگ احکام اسلام کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب اگلی آیت میں شاہد کے طور پر ان کے ایک عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ : جب تم مسلمانوں کو نماز کی دعوت دیتے ہوتو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھتے ہیں( وَإِذَا نَادَیْتُمْ إِلَی الصَّلاَةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ) (۱) ۔

اس کے بعد ان کے عمل کی علت بیان کی گئی ہے : ایسا اس لئے ہے کہ وہ ایک نادان گروہ ہے اور حقائق کا ادراک کرنے کی منزل سے دور ہے( ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَیَعْقِلُونَ ) ۔

اذان اسلام کا عظیم شعار ہے

ہر دور میں ملت کا کوئی ایسا شعار ہوتا ہے جو وہ اپنے لوگوں کے احساسات و جذبات کو ابھار کر انھیں ذمہ داریوں کی طرف دعوت دینے کے لئے استعمال کرتی ہے اور یہ بات دورحاضر میں زیادہ وسعت سے دکھائی دیتی ہے ۔

گذشتہ او رموجودہ زمانے میں عیسائی ناقوس کی ناموزوں آواز کے ذریعے اپنے پیروں کاروں کو کلیسا کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ لیکن اسلام میں اس دعوت کے لئے اذان کو اپنا لیا گیا ہے جو صدائے ناقوس سے کئی درجے موثر اور دلآویز ہے ۔ اس اسلامی شعار کی جاذبیت اور کشش اتنی زیادہ ہے کہ صاحب ”المنار“ کے بقول جب متعصب عیسائی بھی اسے سنتے ہیں تو سننے والوں پر اس کی گہری تاثیر کا اعتراف کرتے ہیں اس کے بعد موصوف نے نقل کیا ہے کہ مصر کے ایک شہر میں کچھ عیسائیوں کو لوگوں نے دیکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی اذان کے وقت اس سرودِ آسمانی کو سننے کےلئے جمع ہو تے ہیں ۔

اس سے بہتر شعار کون سا ہوگا ، جس کی ابتداء خدائے بزرگ و بر تر کے نام سے ہوتی ہے ، جو خالق ِ عالم وحدانیت اور اس کے پیغمبرکی رسالت کے اعلان کے ساتھ بلند ہوتا ہے او رکامیابی ، فلاح، نیک عمل اور یادِ خدا پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ یہ شعار اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے اور اللہ ہی کے نام پر تمام ہو تا ہے ۔ اس میں موزوں جملے ، مختصر عبارات ، واضح محتویات اور اصلاح کنندہ اور آگہی عطا کرنے والا مضمون ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایات میں اذان کہنے کےلئے بہت تاکید کی گئی ہے اس سلسلے میں پیغمبر اکرم سے ایک مشہور حدیث منقول ہے ، جس میں آپ نے فرمایا :

روز قیامت اذان کہنے والے دوسروں سے سر اور گردن کی مقدار کے برابر بلند تر ہو ں گے ۔

یہ بلندی در حقیقت وہی مقام ِ رہبری ہے اور دوسروں کو خدا کی طرف او رنماز جیسی عبادت کی طرف دعوت دینے کے سبب سے ہے۔

اسلامی شہروں میں وقت نماز جب اذان کے نغمے گلدستہ اذان سے گونجتے ہیں تو ان کی آواز سچے مسلمانوں کے لئے پیام آزادی اور استقلال و عظمت کی حیات بخش نسیم کی مانند ہوتی ہے ۔ یہ آواز بد خواہوں کے تن بدن میں رعشہ اور اضطراب ڈال دیتی ہے ۔ یہ صدا بقائے اسلام کی ایک رمز ہے انگلستان کے ایک مشہور شخص کا ایک اعتراف اس پر گواہ ہے ۔ وہ عیسائیوں کے ایک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ۔

جب تک محمد کانام گلدستہ ہائے اذان سے بلند ہورہا ہے ، خانہ کعبہ اپنی جگہ پر قائم ہے اور قرآن مسلمانوں کا رہنما اور پیشوا ہے ، اس وقت تک ممکن نہیں ہے کہ اسلامی سر زمینوں پر ہماری سیاست کی بنیادیں استوار ہو سکیں ۔(۲)

لیکن بعض بے چارے اور بینوا مسلمانوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انھوں نھے اس عظیم اسلامی شعار کو ترک کرکے اس کی جگہ فضول سے پروگرام رکھ دئیے ہیں جب کہ اسلامی شعار ان کے دین اور ثقافت کے قیام کی صدیوں پر حاوی تاریخ کی سند ہے۔ خدا ایسے افراد کی ہدایت کرے اور انھیں مسلمانوں کی صفوں میں پلٹا دے ۔

واضح ہے کہ جیسے اذان کا باطن اور ا س کے مفاہیم خوبصورت ہیں اسی طرح اسے ادا بھی اچھی آواز میں کرناچاہئیے اور اس کے باطنی حسن کو نامر غوب طریقے سے ظاہر کرکے پامال نہیں کردینا چاہئیے ۔

اذان وحی کے ذریعے پہنچی اہل سنت کے طرقسے منقول کئی ایک روایات میں اذان کی تشریع کے بارے میں عجیب و غریب باتیں منقول ہیں جو منطق اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے :۔

پیغمبر خدا سے اصحاب نے درخواست کی کہ وقت ِ نماز بتانے کے لئے کوئی نشانی ہو نا چاہئیے ۔ اس پر آپ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا ۔

ہر ایک نے کوئی نہ کوئی تجویز پیش کی ۔ کسی نے کہا مخصوص علم لہرانا چاہئیے ، کسی نے کہا آگ روشن کرنا چاہئیے اور کسی نے کہا ناقوس بجا نا چاہئیے ۔ لیکن رسول اللہ نے ان میں سے کوئی بات قبول نہ کی ۔ یہاں تک کہ عبد اللہ ابن زید اور عمر بن خطاب نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص انھیں حکم دے رہا ہے کہ نماز کو وقت بتانے کے لئے اذان کہیں اور اس نے ان دونوں کو اذان سکھائی اور رسول اللہ نے اسے قبول کرلیا ۔(۳)

یہ جعلی روایت پیغمبر اکرم کی توہیں معلوم ہوتی ہے کہ جس کے مطابق آپ وحی پر انحصار کرنے کی بجائے کچھ افراد کے خوابوں کا سہارا لیتے تھے اور کچھ لوگوں کے خوابوں کی بنیاد پر اپنے دین کے احکام پیش کرتے تھے ۔

در حقیقت ایسا نہیں ہے بلکہ جیساکہ روایات ِ اہل بیت (علیه السلام) میں ہے کہ اذان پیغمبر اسلام کو وحی کے ذریعے تعلیم دی گئی تھی امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب جبرئیل اذان لے کر آئے تو پیغمبر خدا کا سر حضرت علی (علیه السلام) کی گود میں تھا اور جبرئیل نے آپ کو اذان و اقامت بتائیں ۔ جب رسول اللہ نے اپنا سر اٹھا یا تو حضرت علی (علیه السلام) سے پوچھا :

کیا تم نے جبرئیل کی اذان کی آواز سنی ہے ۔

حضرت علی (علیه السلام) نے کہا :

جی ہاں

رسول اللہ نے پھر پوچھا :

کیا اسے یاد کرلیا ہے ؟

حضرت علی (علیه السلام) نے کہا:

جی ہاں

پیغمبر خدا نے فرمایا :

بلال ( جن کی آواز اچھی تھی ) کو بلا اور اسے اذان و اقامت سکھادو۔

حضرت علی (علیه السلام) نے بلال کو بلا کر اسے اذان و اقامت سکھا دی ۔ (وسائل ، ج ۴ ص ۶۱۲) ۔

اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ” النص و الاجہاد“ ص ۱۲۸ کی طرف رجوع کریں ۔

____________________

۱۔ مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ” اتخذوھا “ کی ضمیر نما زکی طرف لوٹتی ہے یا اذان کی طرف۔ جو شان نزول اس سلسلے میں ذکر کی گئی ہیں ان میں بھی یہ دونوں احتمالات موجود ہیں ، کیونکہ منافقین او رکفاراذان کی روح پروندا کا مذاق بھی اڑاتے تھے اور نماز کا بھی ۔ لیکن آیت کا ظہور زیادہ تر اس احتمال کی تائید کرتا ہے کہ یہ ضمیر ”صلوٰة “ کی طرف لوٹتی ہے ۔

۲۔یہ الفاظ گلاوسٹون کے ہیں جو اپنے زمانے میں انگریزوں کا پہلے درجہ کا سیاستدان تھا ۔

۳-تفسیر قرطبی ۔

آیات ۵۹،۶۰

۵۹۔( قُلْ یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلاَّ اٴَنْ آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا اٴُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَاٴَنَّ اٴَکْثَرَکُمْ فَاسِقُونَ ) ۔

۶۰۔( قُلْ هَلْ اٴُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِکَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللهِ مَنْ لَعَنَهُ اللهُ وَغَضِبَ عَلَیْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمْ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ اٴُوْلَئِکَ شَرٌّ مَکَانًا وَاٴَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ ) ۔

ترجمہ

۵۹۔ کہہ دو: اے ایک کتاب ! کیا تم ہم پر اعتراض کرتے ہو( مگر ہم نے کیا کیا ہے ) سوائے اس کے کہ ہم خدا ئے یکتا پر ، جو کچھ اس نے ہم پر نازل کیا ہے اس پر اور جو کچھ اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے اس پر ایمان لائے ہیں اور یہ اس بنا پر ہے کہ تم میں سے اکثر راہ ِ حق سے منحرف ہو گئے ہیں ( لہٰذا حق تمھیں اچھا نہیں لگتا ) ۔

۶۰ ۔ کہہ دو : کیا میں تمھیں ایسے لوگوں کے بارے میں آگاہ کروں جن کا ٹھکا نا اور جز اس سے بد تر ہے وہ لوگ کہ جنھیں خدا نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور ان پر اپنا غضب نازل کیا ہے ( اور انھیں مسخ کردیا ہے )اور ان میں سے بندر اور خنزیر بنائے اور جنھوں نے بت پرستی کی ہے ان کا ٹھکانا برا ہے اور وہ راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔

شان نزول

عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے :

کچھ یہودی رسول اللہ کے پاس آئے اور در خواست کی کہ اپنے عقائد انھیں بتائیں ۔

رسول اللہ نے فرمایا : میں خدائے بزرگ و یگانہ پر ایمان رکھتا ہوں اور جو کچھ ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق، یعقوب ، موسیٰ، عیسیٰ اور دوسرے پیغمبران ِ خد اپر نازل ہوا ہے اسے حق سمجھتا ہوں اور ان میں تفریق نہیں کرتا ۔

وہ کہنے لگے : ہم عیسی کو نہیں مانتے اور اس کی نبوت کو قبول نہیں کرتے ۔

انھوں نے مزید کہا : ہم کسی دین کو تمہارے دین سے بد تر نہیں سمجھتے ۔

اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور انھیں جواب دیا ۔

عیسائی او ریہودی علماء انھیں گناہ آمیز باتوں او رمال ِ حرام

پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ اہل کتاب سے پوچھئیے اور کہئیے کہ ہم سے کون سا کام سرزد ہواہے کہ ہم تم میں عیب نکالتے ہو اور ہم پرتنقید کرتے ہو، سوائے اس کے کہ ہم خدائے یگانہ پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر اور گذشتہ انبیاء پر نازل ہوا ہے اس کے سامنے ہم سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔( قُلْ یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلاَّ اٴَنْ آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا اٴُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ ) ۔(۱)

یہ آیت یہودیوں کی بے محل ضد، ہٹ دھرمی اور تعصبات کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ وہ لوگ اپنے اور اپنے تحریف شدہ دین کے خلاف کسی کی کچھ وقعت کے قائل نہیں تھے اور ا سی شدید تعصب کی بنا پر حق ان کی نظر میں باطل اور باطل ان کی نگاہ میں حق بن چکا ہے ۔

آیت کے آخر میں ایک جملہ جو در حقیقت پہلے جملے کی علت اور سبب ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے : اگر تم توحید ِ خالص او رتمام آسمانی کتب کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر ہم اعتراض کرتے ہوتو اس کی وجہ یہ ہے کہ تم میں سے اکثر فسق اور گناہ سے آلودہ ہو چکے ہیں اور اگر کچھ لوگ پاکیزگی اور حق کا راستہ اپناتے ہیں تو یہ تمہاری نظر میں عیب ہے( وَاٴَنَّ اٴَکْثَرَکُمْ فَاسِقُونَ ) ۔

فسق و گناہ سے آلودہ انسانوں کی کثرت سے تشکیل پانے والے آلودہ ماحول میں اصولی طور پر حق و باطل کا معیار اس قدر دگر گون ہ وجاتا ہے کہ اس میں پاکیزہ عقیدہ اور صالح کو برا سمجھا جانے لگتا ہے اور اسے ہدفِ تنقید بنا یا جا تا ہے اور غلط عقائد و اعمال کو اچھا سمجھا جا تا ہے او رانہیں بنظر تحسین دیکھا جاتا ہے ۔ یہ مسخ شدہ فکر کی خاصیت ہے ۔ جب کوئی گناہ میں ڈوب جاتا ہے اور اس کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کی یہی حالت ہو جاتی ہے ۔

توجہ رہے کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ آیت تمام اہل کتاب پر تنقید نہیں کررہی بلکہ صالح او رنیک اقلیت کا حساب لفظ” اکثر“ استعمال کرکے الگ کردیا گیا ہے ۔

دوسری آیت میں اہل کتاب کے تحریف شدہ عقائد ، غلط اعمال اور جو سزائیں انہیں دامن گیر ہوئیں ان کا موازنہ سچے مومنین اور مسلمین کی حالت و کیفیت سے کیاگیا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کو ن سا تنقید اور سر زنش کا مستحق ہے ۔ یہ در اصل متعصب او رہٹ دھرم افراد کو متوجہ کرنے کے لئے ایک منطقی جواب ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ! اے پیغمبر ! ان سے کہہ دو کیا خدا ئے یکتا اور آسمانی کتب پر ایمان لانا باعث ِ سر زنش اور وجہ ِ اعتراض ہے یا پھر خو د ان کے برے اعمال جن کے سبب وہ خدائی سزا وں میں گرفتار ہو ئے ہیں ۔انہیں کہہ دو : کیا میں تمھیں ان لوگوں کے بارے میں آگاہ کروں جن جن کا معاملہ بار گاہ الٰہی میں اس سے بد تر ہے( قُلْ هَلْ اٴُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِکَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللهِ ) ۔(۲)

اس میں شک نہیں کہ خدا تعالیٰ اور آسمانی کتاب پر ایمان لانا کوئی بری بات نہیں ہے ۔ یہ جو زیر نظر آیت میں اس کا موازنہ اہل کتاب کے اعمال و افکار سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ” ان میں سے بد تر کون ہے “ در حقیقت ایک کنایہ ہے ، جیسے اگر کوئی ناپاک شخص کسی پاکیزہ انسا ن پر تنقید کرے تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ پاکدامن بد تر ہیں یا گناہ سے آلودہ لوگ۔

اس کے بعد اس مطلب کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ لوگ جو اپنے اعمال کی وجہ سے پر وردگار کی آفت اور غضب کا شکار ہو ئے ہیں انہیں بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کردیا گیا ہے اور وہ کہ جنہوں نے طاغوت اور بت کی پرستش کی ہے یقینا ایسے لوگوں کی دنیا میں حیثیت و مقام اور آخرت میں ٹھکانا بد تر ہوگا اور وہ راہ راست اور جادہ مستقیم سے بہت گمراہ ہیں( مَنْ لَعَنَهُ اللهُ وَغَضِبَ عَلَیْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمْ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ اٴُوْلَئِکَ شَرٌّ مَکَانًا وَاٴَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِیل ) ۔(۳)

مسخ اور بعض انسانوں کے چہروں کے متغیر ہونے کے بارے میں او ریہ مسخ سے مراد جسمانی چہرے کا تغیر ہے یا فکری و اخلاقی چہرے کی تبدیلی ، اس سلسلے میں انشاء سورہ اعراف آیہ ۱۶۳ کے ذیل میں تفصیلی گفتگو کی جائے گی ۔

____________________

۱۔”تنقموت“ مادہ ” نقمت“ سے ہے یہ در اصل کسی چیز کا انکار کرنے کے معنی میں ہے چاہے وہ انکار زبان سے ہو یا عمل سے اور سز ادینے کے ذریعے سے ہو۔

۲ ۔ ”مثوبة “اور ”ثواب “ در اصل پہلی حالت کی طرف رجوع کرنے اور پلٹنے کے معنی میں ہے یہ لفظ ہر طرح کی جزا اور سر زنش کے لئے بھی بولا جاتا ہے لیکن زیادہ تر اچھی چیز کے لئے استعمال ہوتاہے بعض اوقات سزا کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے ۔ مندرجہ بالا آیت میں یہ لفظ انجام یا جزا و سزا کے معنی میں ہے ۔

۳ ۔ ”سواء “ لغت میں مساوات ، اعتدال اور برابری کے معنی میں ہے اور یہ جو آیت ِ بالا میں جادہ مستقیم کو سواء السبیل کہا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر طرف سے برابر ، مساوی او رہموار ہے ۔ اور معتدل ، منظم اور انحراف سے خالی روش اور طریقے کو سیدھا راستہ کہا جاتا ہے ۔ ضمناً توجہ رہے کہ ” عبد الطاغوت“ کا عطف ” من لعنہ اللہ “ اور ” عبد“ فعل ماضی ہے اور عبد کی جمع نہیں ہے جیسا کہ بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے ۔ اور اہل کتاب کی طرف طاغوت کی پرستش کی نسبت یہودیوں کی گوسالہ پرستی کی طرف اشارہ ہے یا منحرف اور کجرو پیشوا وں کے سامنے بے چون و چرا سر تسلیم خم کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔

آیات ۶۱،۶۲،۶۳

۶۱۔( وَإِذَا جَائُوکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْکُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا کَانُوا یَکْتُمُونَ ) ۔

۶۲۔( وَتَرَی کَثِیرًا مِنْهُمْ یُسَارِعُونَ فِی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاٴَکْلِهِمْ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

۶۳۔( لَوْلاَیَنْهَاهُمْ الرَّبَّانِیُّونَ وَالْاٴَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمْ الْإِثْمَ وَاٴَکْلِهِمْ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَصْنَعُونَ ) ۔

ترجمہ

۶۱۔ اور جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں( لیکن ) وہ کفر کے ساتھ داخل ہو تے ہیں اور کفر کے ساتھ ہی نکل جاتے ہیں اور جو کچھ وہ چھپائے ہوئے ہیں خدا اس سے آگاہ ہے ۔

۶۲۔ تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو گے کہ وہ گناہ ، تجاوز اور مال ِ حرام کھانے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں جو کام وہ انجام دیتے ہیں کس قدر بر اہے ۔

۶۳۔ عیسائی او ریہودی علماء انھیں گناہ آمیز باتوں او رمال ِ حرام کھانے سے کیوں منع نہیں کرتے۔ کس قدر برا ہے وہ عمل جو وہ انجام دیتے ہیں ۔

پہلی آیت میں اہل کتاب منافقین کے بارے میں بحث مکمل کرتے ہوئے اور ان کے چہروں سے نفاق کے پردے ہٹا تے ہوئے مسلمانو ں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ : جس وقت وہ تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن کفر سے معمور دل کے ساتھ آتے ہیں اور اسی حالت میں تمہارے پا سے اٹھ جاتے ہیں اور منطقی استدلال اور تمہاری باتیں ان کے دل پر کچھ اثر نہیں کرتیں( وَإِذَا جَائُوکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْکُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ ) ۔

لہٰذا وہ ظاہر اً حمایت حق میں باتیں کرتے ہیں ، اظہار ایمان کرتے ہیں اور تمہاری باتوں کی ریا کارانہ پذیرائی کرتے ہیں ، اس سے تمہیں دھوکا نہ ہو ۔

آیت کے آخر میں انھیں خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ ان تمام پر دہ پوشیوں کے باجود جو کچھ تم چھپاتے ہو خدا اس سے آگاہ اور با خبر ہے( وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا کَانُوا یَکْتُمُونَ ) ۔

بعد والی آیت میں ان کے نفاق کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو کے کہ گناہ ، ظلم اور حرام خوری کی راہ میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں( وَتَرَی کَثِیرًا مِنْهُمْ یُسَارِعُونَ فِی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاٴَکْلِهِمْ السُّحْتَ ) ۔(۱)

یعنی گناہ اور ظلم کے راستے میں یوں قدم بڑھا تے ہیں گویا باعث ِ فخر اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بغیر کسی شرم کے کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں ۔

توجہ رہے کہ لفظ” اثم “ کفر کے معنی میں بھی آیا ہے او رہر قسم کے گناہ کے مفہوم میں بھی آیا ہے ۔ لیکن یہاں ” عدوان “ کے مقابلے میں آیا ہے ۔ لہٰذا بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیا ن کیا ہے : ایسے گناہ جن کا نقصان صرف کرنے والے ہی کو پہنچے بخلاف” عدوان “ کے جس کا نقصان دوسروں کو پہنچتا ہے ۔

یہ احتمال بھی بیان کیا گیا ہے کہ ” عدوان“ کا ذکر ” اثم “ کے بعد اصلاح کے مطابق خا ص کے بعد عام کاذکر ہے اور ان کے بعد حرام کھانے کا تذکرہ ” ذکر اخص“ کے طور پر ہے ۔ اس طرح پہلے تو ان کی ہر قسم کے گناہ کی بنا ء پر مذمت کی گئی ہے اس کے بعد اہمیت کی وجہ سے دو عظیم گناہوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ یعنی ایک ظلم و ستم اور دوسرا حرام خوری چاہے وہ رشوت کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ۔

مختصریہ کہ قرآن اہل کتاب کے ان منافق افراد کو آشکار کرتا ہے اور ان کی مذمت کرتا ہے جو بڑی لا پر واہی سے ہر طرض کا گناہ سرانجام دیتے ہیں ، خصوصاً ظلم و ستم کرتے ہیں اور بالخصوص نا جائز مال کھاتے ہیں مثلاً رشوت اور سود کھاتے ہیں ۔

آیت کے آخر میں ان کے اعمال کی برائی تاکیداً ظاہرکرنے کے لئے فرمایا گیا ہے : یہ لوگ کیسا برا قبیح عمل انجام دیتے ہیں( لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

” کانو ا یعملون “ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اعمال کو وہ اتفاقیہ نہیں بجا لاتے بلکہ وہ ان پرڈٹے رہتے ہیں او ربار بار ان کا ارتکاب کرتے ہیں ۔

تیسری آیت میں ان کا علماء پر حملہ کیا گیا ہے جو اپنی خاموشی کے ذریعے انھیں گناہ کا شوق دلاتے تھے ،ارشاد ہوتاہے : عیسائی اور یہودی علماء انھیں گناہ آلودہ باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے( لَوْلاَیَنْهَاهُمْ الرَّبَّانِیُّونَ وَالْاٴَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمْ الْإِثْمَ وَاٴَکْلِهِمْ السُّحْتَ ) ۔

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ” ربانیوں “ ربانی “ کی جمع ہے اور یہ لفظ”رب “ سے لیا گیا ہے اس کا مطلب ہے ایسے علماء جو لوگوں کی خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں ، لیکن زیادہ تر یہ لفظ عیسائی مذہبی علماء کے لئے استعمال ہوتا ہے ” احبار“ ” حبر “ ( بر وزن ” ابر “ کی جمع ہے ۔ اس کا مطلب ہے ایسے علماء جو معاشرے پر اچھا اثر مرتب کریں ، لیکن زیادہ تر یہ لفظ یہودی مذہبی علماء کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

ضمناً سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ آیت میں لفظ” عدوان “ تھا لیکن اس آیت میں نہیں ہے ، بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ ” اثم “ایسا وسیع مفہوم جس میں ”عدوان “ بھی داخل ہے ۔

اس آیت میں گذشتہ آیت کے بر خلاف ” قولھم الاثم “ آیا ہے ۔ یہ تعبیر ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو آلودہ باتوں سے بھی روکیں اور اعمال گناہ ۔ یا پھر قول یہاں اعتقاد کے معنی میں ہے یعنی علماء ایک فاسد معاشرے کی اصلاح کے لئے پہلے ان کے غلط افکار اور عقائد کی اصلاح کریں کیونکہ جب تک افکار نظر یات میں انقلاب نہیں آتا ہے یہ توقع نہیں کیا جاسکتی ہے کہ ان کے عمل میں کوئی گہری اصلاح ہو سکے۔ اس طرح سے آیت فاسد اور برے معاشرے کی اصلاح کے لئے علماء کو نشاندہی کرتی ہے کہ کام فکری انقلاب سے شروع کیا جائے۔

جیسے اصلی گناہ گاروں کی مذمت کی گئی ہے آیت کے آخر میں خاموش رہنے والے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ترک کر دینے والے علماء کی بھی مذمت کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : کتنا برا ہے وہ کام جو یہ انجام دیتے ہیں( لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَصْنَعُونَ ) ۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عظیم ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے خا ص طو رپر علماء اور دانشمندان کا انجام بھی اصلی گناہ گاروں کا سا ہو گا ۔ در حقیقت یہ لوگ ان کے جرم میں شریک شمار ہو ں گے ۔

مشہورمفسرابن عباس سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں :

اپنی ذمہ داریوں کی پیمان نہ کرنے والے اور خاموش رہنے والے علماء کی مذمت میں یہ سخت ترین آیت ہے ۔

واضح ہے کہ یہ حکم خاموش رہنے والے یہودی اور عیسائی علماء سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ان تمام صاحبان ِ فکر و نظر ، راہبروں او رعلماء کے بارے میں ہے جو لوگوں کو گناہ سے آلودہ ہوتا دیکھیں اور انھیں ظلم و ستم کی راہ پر تیز گام پائیں او رخاموش بیٹھے رہیں ، کیونکہ خدا کا حکم تو سب کے لئے برابر ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی (علیه السلام) نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا :

گذشتہ قومیں اس بناء پر ہلاک او رنابود ہو گئیں کہ وہ گناہ کی مرتکب ہوتی تھیں اور ان کے علماء سکوت اختیارکرلیتے تھے اور نہی عن المنکر نہیں کرتے تھے ۔ اس حالت میں ان پر خدا کا عذاب ، سزائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی تھیں ۔ پس اے لوگو! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرو تاکہ تمہارا بھی وہی انجام نہ ہو۔(۲)

یہی مضمون نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ( خطبہ ۱۹۲) میں بھی ہے ، آپ نے فرمایا :

فان الله سبحانه لم یلعن القراٰن الماضی بین ایدیکم الالترکهم الامر بالمعروف و النهی عن المنکر فلعن السفها ء لرکوب المعاصی و الحکماء لترک التناهی “۔

گذشتہ زمانے کے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے صرف اس لئے اپنی رحمت سے دور کردیا کہ انھوں نے امر المعروف او رنہی عن المنکر کو ترک کردیا ۔ اس نے عوام کو گناہ کے ارتکاب اور علماء کو نہی عن المنکر ترک کرنے پر اپنی لعنت کا حق دار قرار دیا اور انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ گذشتہ آیت میں عام لوگوں کے بارے میں لفظ ”یعملون “ آیا ہے اور زیر نظر آیت میں علماء کے لئے ” یصنعون“ استعمال ہوا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ” یصنعون “ صنع“ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا مطلب ہے ایسے کام جو بڑی توجہ او رمہارت سے انجام دئیے جائیں جب کہ ” یعملون “” عمل “کے مادہ سے ہے اور ہر کام کے لئے بولا جاتا ہے اگر نادان لوگ اور عوال برے کام انجام دیتے ہیں تو ان میں سے کچھ نادانی اور بے خبر ی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں لیکن علماء اور دانشور جو اپنی ذمہ داری پر عمل نہیں کرتے تو واضح ہے کہ وہ جانتے ہوئے اور ماہرانہ طور پر غلط کام انجام دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے عالم کے لئے جاہل سے زیادہ سخت سزا ہے ۔

____________________

۱۔”سحت“ کے معنی کے بارے میں اس سورہ کی آیہ ۴۲ کے ذیل میں ” یسارعون“ کے بارے میں اسی سورہ کی آیہ ۴۱ کے ذیل میں اور ” اثم “ کے متعلق سورہ بقرہ آیہ ۲۱۹ کے ذیل میں جلد دوم میں بحث کی جاچکی ہے ۔

۲۔ نور الثقلین جلد ۱ ص ۶۴۹ ۔