تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23140
ڈاؤنلوڈ: 3079


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23140 / ڈاؤنلوڈ: 3079
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۸۴

۸۴۔( فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۸۴۔راہ خدا میں جنگ کرو ۔ تم صرف اپنی ذمہ داری کے جواب وہ ہو او رمومنین کو ( اس کام کا )شوق دلاو۔امید ہے کہ خدا کافروں کی قوت کو روک دے

( چاہے تم اکیلے ہی میدان میں چلے جاو) خدا کی قدرت بہت زیادہ ہے اور اس کی سزا دردناک ہے ۔

شان ِ نزول

تفسیر مجمع البیان ، قرطبی اور روح المعانی میں اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں اس طرح منقول ہے :

جس وقت ابو سفیان اور قریش کا لشکر فتح و کامیابی کے ساتھ میدان ِ احد سے پلٹا تو ابو سفیان نے پیغمبر سے معاہدہ کیا کہ بدر صغریٰ کے موقع پر ( یعنی ماہِ ذی القعدہ میں جو بازار بدر کی زمین پر لگتا تھا) دوبارہ ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے ۔

جب مقررہ وقت آیا تو پیغمبر اکرم نے مسلمانوں کو مذکورہ مقام کی طرف جانے کی دعوت دی لیکن مسلمانوں کی ایک جماعت جو جنگ احد کی شکست کی تلخی کو ابھی تک نہیں بھولی تھی اس نے شدت کے ساتھ جانے کی مخالفت کی اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی اور رسول اللہ نے مسلمانوں کو دوبارہ چلنے کی دعوت دی تو اس موقع پر صرف ستر آدمی پیغمبر کے ہم رکاب ہو کر اس مقام پر پہنچے ۔ لیکن ابو سفیان ( جو مسلمانوں کا سامنا کرنے سے خوف زدہ تھا) مقابلہ کرنے نہ آیا اور پیغمبر اکرم اپنے اصحاب کے ساتھ صحیح و سلامت مدینہ لوٹ آئے ۔

ہر شخص اپنے فرائض کا جوابدہ ہے

جہاد سے متعلق آیات کے بعد اس آیت میں ایک بہت بڑا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اکیلے دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں ۔ چاہے ایک شخص بھی میدان میں ان کا ہم قدم نہ ہو ۔ کیونکہ وہ صرف اپنی ذمہ داری کے لئے جوابدہ ہیں اور وہ دوسرے لوگوں کے بارے میں شوق دلانے اور دعوتِ جہاد دینے کے علاوہ ان کی کوئی مسئولیت نہیں ہے ۔

( فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ )

حقیقت میں یہ آیت ایک اہم اجتماعی حکم خصوصاً رہبروں کے متعلق اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ انھیں اپنے کام میں اس قدر پختہ عزم ، ثابت قدم اور اٹل ہونا چاہئیے کہ اگر کوئی شخص بھی ان کی دعوت پ ر” لبیک “ نہ کہے تب بھی وہ اپنے مقدس مقصد اور منزل کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار نہ ہوں ۔ دوسروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دینے کے باوجود اپنے لائحہ عمل کو دوسروں کی مرضی پر نہ چھوڑ یں ۔ کوئی رہبر بھی جب تک ایسے عزم ِ صمیم کا حامل نہ ہو وہ رہبری کے اہل نہیں اور نہ ہی وہ اپنے مقاصد کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے خصوصاً خدا کے مقرر شدہ رہبر و رہنما بلند عزم و حوصلہ اور کردار کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ انھیں خدا کی ذات پر تکیہ ہوتا ہے وہ خدا کہ جو تمام تونائیوں اور طاقتوں کا سر چشمہ ہے ۔

لہٰذا اس حکم کے بعد خدا فرماتا ہے : امید ہے کہ خدا تیری سعی و کوشش کے ذریعے دشمنوں کی قدرت و طاقت کو ختم کردے گاچاہے ان کے مد مقابل تو اکیلا ہی کیوں نہ ہو ۔ کوینکہ اس کی قدرت تمام قدرتوں سے مافوق اور اس کی سزا تمام عذابوں سے بڑھ کر ہے ۔

( عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ) ۔(۱)

____________________

۱-باٴس کے معنی لغت لغت میں قوت، استحکام اور شجاعت ہے اور تنکیل مادہ نکول سے خوف کے مارے رک جانے کے معنی میں ہے اور اصل نکل

( بر وزن اکل ) کو جانور کی لگام کے معنی میں لیا گیا ہے اسی بناپر تنکیل جو کہ بات کا مصدر ہے ایسے کام کی انجام دہی کے مقصد میں آتا ہے کہ مقابل کی طرف جسے مشاہدہ کرنے کے ساتھ خلاف ورزی سے لوٹ آئے اور یہ وہی عذاب ہے کہ جو تم ستم گروں سے دوسرے لوگوں کی عبرت کا باعث بنتا ہے ۔

کلام خدا میں ” عسی ٰ“ اور ” لعل “ کے معنی

لفظ ” عسیٰ “ عربی لغت میں شائد کے معنی میں ردد کا مفہوم بھی دیتا ہے اور ” لعل“ پر امید ہونے ، انتظار اور ایسے امر کی توقع کے معنی میں آتا ہے آئندہ جنکے وجود کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ انسانوں کی گفتگو میں آنا تو فطری اور عین طبعی ہے کیونکہ انسان تمام مسائل سے آگاہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی صلاحیت و قدرت بھی محدود ہے اور وہ جو کچھ کرے اس کے انجام کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ خدا جو ماضی ، حال اور مستقبل سے مکمل طو رپر باخبر ہے اور جو کرنا چاہے اس کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے ”جہالت “ی ا” بے اختیار“ ہونے کے الفاظ استعمال کرنے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا اس لئے بہت سے علماء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ جو اس کے کلام میں استعمال ہوں وہ اپنے اصل معنی میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کے کچھ اور معنی نکلتے ہیں مثلاً” عسی ٰ“ وعدہ کے معنی اور ” لعل “ طلب کے معنی میں ہے ۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ الفاظ کلام خدا میں بھی اپنے وہی اصلی معانی رکھتے ہیں اور ان کا لازمہ جہالت اور عدم اختیار نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ ایسے مواقع پر استعمال ہوتے ہیں کہ جہاں مقصد تک پہنچنے کے لئے کئی ایک مقامات کی ضرورت ہوتی ہے تو جس وقت ان میں سے ایک یا کئی مقدمات حاصل ہو جائیں تو پھر بھی اس مقصد کے موجود ہونے کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ چاہیئے کہ اسے احتمالی حکم کے طور پر بیان کیا جائے ۔

مثلاً قرآن کہتا ہے :۔( واذا قرء القراٰن فاستمعو ا له و انصتوا لعلکم ترحمون )

جب قرآن پڑھا جائے تو کا دھرکے سنو اور خاموش رہو ، امید ہے کہ خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو ۔ (اعراف، ۲۰۴)

واضح ہے کہ صرف قرآن کی آیات کو کان دھر نے کے سننے سے خدا کی رحمت انسان کے شامل حال نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ایک مقدمہ ہے اس کے علاوہ بھی دیگر لوازم ہیں جن میں ان آیات کا فہم و ادراک اور اس کے بعد ان احکام پر عمل در آمد جو ان آیات میں موجود ہیں بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا اس قسم کے مواقع پر ایک مقدمہ کے موجود ہونے سے نتیجہ کے حصول کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ اس ے ایک احتمالی حکم کے طور پر بیان کرنا ہو گا دوسرے لفظوں میں کلامِ خدا میں اس قسم کی تعبیرات تو بیدار کرنے اور سننے والے کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے ہیں اس کا م کے علاوہ کچھ اور شرائط و مقدمات بھی مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً اسی مثال میں خدا کی رحمت کا شعور حاصل کرنے کے لئے قرآن کو غور سے سننے کے ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔

زیر بحث آیت پر بھی یہ گفتگو مکمل طور پر صادق آتی ہے کیونکہ کفار کی طاقت صرف مومنین کو دعوت جہاد دینے اور انھیں شوق جہاد دینے سے ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے ساتھ جہاد کے باقی لائحہ عمل پر عملدر آمد بھی ضروری ہے تاکہ اصل مقصد حاصل ہو سکے اس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ الفاظ جب خدا کے کلام میں آئیں تو ان کے حقیقی معنی سے صرف نظر کر لیا جائے ۔(۱)

____________________

۱ -راغب نے کتاب مفردات میں اس قسم کے الفاظ( عسیٰ وغیرہ ) کی تفسیر میں ایک دوسرا احتمال بھی بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ ان سے مخاطب اور سننے والے کو امید دلانا مقصود ہے ۔ نہ کہ کہنے والے کی امید بیان کرنا اور واضح تر الفاظ میں جب خدا کہتا ہے ” عسی و لعل “ تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ میں امید رکھتا ہوں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم امید رکھو ۔

آیت ۸۵

۸۵۔( مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَهُ نَصِیبٌ مِنْهَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَهُ کِفْلٌ مِنْهَاوَکَانَ اللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ مُقِیتًا )

ترجمہ

۸۵۔جو شخص نیک کام کی تحریک دے اس میں اس کا حصہ ہوگا اور جو برے کام کے لئے ابھارے گا تو اس میں سے ( بھی ) اسے حصہ ملے گا۔ اور خدا ہر چیز کا حساب کرتا اور اسے محفوظ رکھتا ہے ۔

تفسیر

اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ

جیساکہ گذ شتہ آیت کی تفسیر میں اشارہ ہوچکا ہے قرآن کہتا ہے کہ ہر شخص پہلے مرحلہ میں اپنے کام کا جوابدہ ہے نہ کہ دوسروں کا۔ لیکن اس بنا پر کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جائے اس آیت میں کہتا ہے : یہ درست ہے کہ ہر شخص اپنے فعل کا جوابدہ ہے لیکن جو شخص دوسرے کو نیک کام پر ابھارے تو اس کا حصہ ملے گا اور جو شخص دوسرے کو کسی برے کام پر اکسائے تو اس کا حصہ ( بھی) اس میں ہوگا

( مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَهُ نَصِیبٌ مِنْهَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَهُ کِفْلٌ مِنْهَا )

اس بناپر ہر شخص کااپنے اعمال کاجوابدہ ہونے کے معنی یہ نہیں کہ وہ دوسروں کو دعوتِ حق دینے اور فساد کا مقابلہ کرنے سے آنکھیں بند کرلے اور اسلام کی روحِ اجتماعیت کو مجرح کرتے ہوئے تجردد انفرادیت کے ذریعے معاشرے سے بیگانگی کا راستہ اختیار کرے ۔ شفاعت اصل میں مادہ شفع ( بر وزن نفع) سے جفت کے معنی میں ہے اس بناپر ایک چیز کا دوسری میں منضم و مدغم ہوجانا شفاعت کہلاتا ہے البتہ کبھی کبھار یہ راہنمائی اور ارشاد و ہدایت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ( جس طرح درج بالا آیت میں ہے ) تو اس وقت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا معنی دیتا ہے ( شفاعت سیئہ اس کے بر عکس یعنی امر بالمنکر و نہی عن المعروف ہے )لیکن اگر گنہ گاروں کو ان کے انجام سے نجات دینے کا موقع ہو تو یہ ایسے گنہ گار افراد کی مدد کرنے کے معنی میں آتا ہے جو شفاعت کے لئے اہلیت اور لیاقت رکھتے ہوں ، دوسرے الفاظ میں شفاعت کبھی تو عمل کی انجام دہی سے پہلے ہوتی ہے جو رہنمائی کے معنی میں ہے اور کبھی عمل کی انجام دہی کے بعد ہوتی ہے ۔

جہاں عمل کے نتائج سے نجات دینے کے معنی میں ہے بہر حال دونوں طرح سے ایک چیز دوسری کے لئے ضمیمہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ضمناً توجہ رہے کہ آیت اگر چہ ایک کلی مفہوم کی حامل ہے ، نیک اور بد ہر طرح کی دعوت کا مفہوم اس میں شامل ہے لیکن چونکہ یہ جہاد کی آیات کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہے لہٰذا شفاعت حسنہ سے پیغمبر اکرم کی طرف سے تشویق جہاد مراد ہے اور شفاعتِ سیئہ سے منافقین کی طرف شوق جہاد دلانا مراد ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے کام کا نتیجہ بھگتے گا یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ لفظ شفاعت کی تعبیراس موقع پر جہاں ( نیکیوں اور برائیوں کی طرف ) رہبری کے بارے میں گفتگو ہوری ہے ۔ ممکن ہے اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ رہبر کی گفتگو ( چاہے خیر کا راستہ بتانے والا رہبر ہو یا شر کا سبق دینے والا ) دوسروں پر اسی صورت میں اثر کرے گی جب وہ اپنے لئے دوسروں کی طرح امتیاز نہ برتے بلکہ اپنے آپ کو دوسروں کا ہم دوش اور ساتھی قرار دے ۔ یہ ایسا طریقہ ہے ، جو اجتماعی اور معاشرتی مقاصد میں بڑا موثر ہوتا ہے ۔ اگر قرآن میں بعض مواقع پرمثلاسورہ شعراء، اعراف، ہود ، نمل، عنکبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے انبیاء و مرسلین کو جو امتوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے بھیجے گئے ہیں ” اخو ھم “ یا ” اخاھم“یعنی ان کا بھائی کہا ہے ، تو وہ بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن شفاعت حسنہ یعنی اچھے کام کی طرف راغب کرنے والوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ترغیب دینے والوں کو ” نصیب “ ملے گا ۔ جب کہ ”شفاعت سیئہ“ کے ضمن میں کہتا ہے کہ اسے” کفل “ میسرآئے گا ۔ یہ تعبیر کا اختلاف اس وجہ سے ہے کہ ” نصیب “ کے معنی ہیں مفید اور زیادہ سود مند اور” کفل “کے معنی ہیں پست اور بری چیز ۔(۱)

یہ آیت اسلام کے بنیادی اجتماعی مسائل کی ایک منطق کو واضح کرتی ہے ۔ آیت صراحت سے کہتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے اعمال کے معاملے میں ترغیب دینے اور رہنمائی کے عمل میں شریک ہیں اس بنا پر جب بھی کوئی بات یا عمل بلکہ انسان کی خاموشی بھی اگر کسی گروہ کے نیک یا برے عمل کی ترغیب کا باعث بنے تو ترغیب دینے والا اس کام کے نتائج کے قابل ذکر حصہ کا ذمہ دار ہو گا ۔ لیکن اس سے اصل کام کرنے والے کا حصہ کم نہیں ہو جائے گا ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے :

من امر بمعروف او نھی عن المنکر او دل علی خیر او اشار بہ فھو شریک و من امر بسوء او دل علیہ او اشار بہ فھو شریک ۔

جو شخص کسی اچھے کام کا حکم دے یا برے کام سے روکے یا لوگوں کے لئے عمل خیر کی رہنمائی کرے یا ترغیب دلانے کے لئے کوئی ایسے اسباب فراہم کرے وہ اس عمل میں شریک اور حصہ دار ہے اور اسی طرح جو شخص کسی برے کام کی دعوت دے یا اس کی رہنمائی کرے اور ترغیب وہ بھی اس کام میں شریک ہوگا اس حدیث میں تین مرحلوں میں لوگوں کو نیک یا بد کام کی دعوت دینے کا ذکر ہوا ہے ۔

۱۔ مرحلہ حکم

۲۔ مرحلہ دلالت

۳۔ مرحلہ ارشارہ

یہ تینوں ترتیب دار قوی ، متوسط اور کمزور مرحلے ہیں اس طرح ہر قسم کی دخل اندازی کسی نیک یا برے کام پر ابھارنے کا سبب بنتی ہے اور دخل اندازی کرنے والا اسی نسبت سے اس کے نتائج اور فوائد میں شریک ہوگا۔

اس اسلامی منطق کے مطابق صرف گناہ کرنے والے ہی گنہگار نہیں ہیں بلکہ وہ اشخاص جو کسی کام کی تبلیغ کے مختلف ذرائع استعمال کرکے حالات پیدا کریں ۔ یہاں تک کہ ذراسی ترغیب دلانے والے کا ایک لفظ بھی اسے گناہ کرنے والوں میں شام ل کرلیتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو خیرات اور نیکی اور نیکیوں کے راستے میں اس قسم کا کام کرتے ہیں وہ بھی اس کا اجر حاصل کرتے ہیں ۔

چند نیک روایات جو اس آیت کی تفسیر میں آئی ہیں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شفا عت حسنہ یا سیئہ کے معنی میں سے ایک کسی کے حق میں اچھی یا بری دعا کرنا بھی ہے جو کہ بارگاہ ِ خدا وندی میں ایک قسم کی شفا عت ہے ۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا :

( من دعا لاخیه الملم بظهر الغیب استجیب له و قال له الملک فلک مثلاه فذلک النصیب ) ۔

جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کے پس پشت دعا کرے تو وہ قبول ہو گی اور خدا کا فرشتہ اس سے کہے گا اس سے دوگناہ تمہارے لئے بھی ہے اور آیت میں نصیب سے مراد یہی ہے ۔ ( تفسیر صافی آیہ مذکور کے ذیل میں )

یہ تفسیر گذشتہ تفسیر سے اختلاف نہیں رکھتی بلکہ شفاعت کے معنی میں وسعت ہے یعنی جو مسلمان کسی دوسرے کی کسی طرح کی مدد کرے وہ چاہے نیکی کی ترغیب کی صورت میں ہو یا بار گاہ خدا وندی میں دعا کی شکل میں ہو یا کسی اور طرح سے اس کے نتیجہ میں شریک ہو گا ۔ یہ بات اسلامی پروگراموں کی روحِ اجتماعیت کو اجا گر کرتی ہے اور مسلمانوں کو شخصی اور فقط ذاتی حیثیت سے زندگی گزارنے سے منع کرتی ہے ۔

یہ امر اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ انسان دوسروں کی طرف توجہ اور ان کی بہتری کی کو ششوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور اس سے اس کا ذاتی مفاد خطر ے میں نہیں پڑتا ۔ بلکہ وہ اس کے نتائج میں شریک ہوتا ہے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : خدا توانا اور صاحبِ قدرت ہے اور تمہارے اعمال کی حفاظت کرتا اور حساب رکھتا ہے اور حسنات و سیئات کے نتیجے میں مناسب جزا و سزا دے گا( وکان الله علی ٰ کل شیء مقیتاً ) خیال رہے کہ ” مقیت“ اصل میں قوت کے مادہ سے ہے جس کے معنی اس غذا کے ہیں جو انسان کی جان کی حفاظت کرتی ہے اس بنا پر ” مقیت“ جو باب افعال کا اسم فاعل ہے اس شخص کے معنی میں ہے جو دوسروں کو روزی دیتا ہے ، چونکہ ایسا شخص اس کی زندگی کا محافظ ہوتا ہے اس لئے لفظ ” مقیت “ محافظ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ نیز وہ شخص جو روزی دیتا ہو یقینا اس پر قدرت اور طاقت بھی رکھتا ہے اسی بنا پر یہ لفظ مقتدر کے معنی میں بھی آتا ہے ، ایسا شخص یقینا اپنے زیر کفالت لوگوں کا حساب بھی رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ لفظ حسیب کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ او پر والی آیت میں ممکن ہے کہ لفظ” مقیت“ سے یہ تمام مفاہیم مراد لئے گئے ہوں ۔

____________________

۱کفل ( بر وزن طفل ) اصل میں جانور کی پشت کا عقبی اور آخری حصہ ہے جس پر سوار ہونا تکلیف اور سختی کا باعث ہے اس لئے ہر قسم کے گناہ اور برے حصہ کو کفل کہتے ہیں اور ایسے کام کو بھی جس میں بوجھ اور زحمت ہو، کفالت کہتے ہیں ۔

آیت ۸۶

۸۶۔( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا اٴَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا ) ۔

ترجمہ

۸۶۔ جس وقت کوئی شخص تمہیں تحیہ( اور سلام ) کہے تو اس کا جواب بہتر انداز سے دویا ( کم از کم ) اسی طرح کا جواب دو، خدا ہر چیز کا حساب رکھتا ہے ۔

تفسیر

احترام ِ محبت

اگر چہ بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کاتعلق گذشتہ آیات کے ساتھ اس لحاظ سے ہے کہ گذشتہ آیات کی مباحث جہاد سے متعلق تھیں اور اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر دشمن دوستی اور مصالحت چاہیں تو تم بھی مناسب جواب دو لیکن واضح ہے کہ یہ تعلق اس سے مانع نہیں کہ ایک کلی اور عمومی حکم تما م تحیات اور نوازشات کے اظہار سے متعلق ہو جو مختلف افراد کی طرف سے ہو ۔ آیت کی ابتدا میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تحیہ کہے تو اس کا جواب بہتر طریقہ سے دو یا کم از کم اس کے مساوی جواب دو ۔

( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا اٴَوْ رُدُّوهَا )

تحیت لغت میں حیات کے مادہ سے دوسرے کے لئے حیات و زندگی کی دعا کرنے کے معنی میں ہے چاہے یہ دعا ” سلام علیک “ کی صورت میں ہو

( خدا تجھے سلامت رکھے ) یا حیاک اللہ ( خدا تجھے زندہ رکھے ) یا اس قسم کے اور الفاظ سے ہو لیکن عام طور پر یہ ہر قسم کے اظہار محبت کے لئے ہے جو لوگ الفاظ کے ذریعہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں جس کا واضح ترین اظہار سلام کرنا ہے لیکن کچھ روایات اور تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ عملی اظہار محبت بھی مفہوم ِ تحیت میں شامل ہے تفسیر علی بن ابراہیم میں امام محمد باقر اور امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے :

( المراد بالتحیة فی الایة السلام و غیره من البر )

آیت میں محبت سے مراد سلام اور ہر قسم کی نیکی کرنا ہے ۔

کتاب مناقب کی ایک روایت میں ہے :

ایک کنیز نے پھول کی ایک شاخ امام حسن علیہ السلام کی خد مت میں پیش کی تو اس کے جواب میں امام (علیه السلام) نے اسے آزاد کردیا۔ جب آپ (علیه السلام) سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ خدا نے ہمیں یہی حسن سلوک سکھاتے ہوئے فرمایا :

( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا )

اس کے بعد مزید فرمایا : بہتر تحیہ وہی اس کا آزاد کرناتھا۔

اس سے معلوم ہوا کہ آیت ایک کلی حکم اور ہر قسم کے اظہار محبت کا جواب دینے کے سلسلہ میں ہے چاہے وہ زبانی ہو یا عملی ۔ آیت کے آخر میں اس لئے کہ لوگ جان لیں کہ تحیات ان کے جوابات اور ان کی بر تری و مساوات ، جس قدر اور جیسے ہوں ، خدا سے پوشیدہ پنہاں نہیں ہیں ۔ فرماتا ہے : خدا تمام چیزوں کے حساب سے آگاہ ہے

( إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا ) ۔

سلام عظیم اسلامی تحیہ ہے

جہان تک ہمیں معلوم ہے دنیا کی تمام ملل و اقوام کے افراد جب ایک دوسرے سے ملا قات کرتے ہیں تو ایک دوسرے سے اظہار محبت کے لئے کچھ تحیہ پیش کرتے ہیں جو بعض اوقات لفظی ہوتا ہے اور کبھی عملی بھی ۔ عمل عموماً تحیت کی علامت ہوتا ہے ۔ اسلام میں بھی ” سلام “ ایک واضح ترین تحیت ہے اور اوپر والی آیت میں جیسا کہ اشارہ ہو چک ہے تحیہ اگر چہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے تاہم اس کا ایک واضح اظہار سلام کرنا ہے ۔ لہٰذا اس آیت کے مطابق تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سلام کا عالی تر یا کم از کم مساوی جواب دیں ۔

آیاتِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام تحیت کی ایک قسم ہے سورہ نو کی آیة ۶۱ میں ہے :

( فاذا دخلتم بیوتاً فسلموا علی انفسکم تحیة من عند الله مبارکة طبیة )

جب تم کہیں داخل ہو تو ایک دوسرے پر تحیت الہٰی بھیجو ، وہ تحیہ جو مبارک اور پاکیزہ ہے ۔

اس آیت میں سلام کو مبارک اور پاکیزہ خد ائی تحیہ کہہ کر پکارا گیا ہے اور ضمنی طور پر اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سلام ٌ علیکم کا معنی اصل میں سلام اللہ علیکم ہے ” یعنی پروردگار کا تم پر سلام ہو “ یا خدا تمہیں سلامت رکھے ۔ اسی سبب سلام کرنا ایک قسم کا دوستی ، صلح اور جنگ نہ کرنے کا اعلان ہے ۔ قرآن کی کچھ آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل بہشت کا تحیہ بھی سلام ہے ۔

( اولئک یجزون الغرفة بما صبروا و یلقون فیها تحیة و سلاماً ) (فرقان۔ ۷۵)

” اہل بہشت اپنی استقامت اور صبر کی وجہ سے بہشت کے انعامات اور بلند مقامات سے بہر یاب ہوں گے اور انھیں تحیہ و سلام سے نوازا جائے گا“۔

سورہ ابراہیم کی آیہ ۲۳ اور سورہ یونس کی آیہ ۱۰ میں بھی اہل بہشت کے بارے میں ہے : تحیتھم فیھا سلام ” ان کا تحیہ بہشت میں سلام ہے ۔“

آیاتِ قرآں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت بمعنی سلام (یا اس کے مفہوم کا کچھ متبادل ) گذشتہ اقوام میں بھی مروج تھا جیسا کہ سورہ ذاریات کی آیہ ۲۵ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے واقعہ میں آیا ہے کہ جب قوم ِ لوط (علیه السلام) کو سزا دینے والے فرشتے بھیس بدل کر حضرت ابراہیم

(علیه السلام) کے پاس آئے تو آپ (علیه السلام) پر سلام کہا اور آپ(علیه السلام) نے بھی ان کے سلا م کا جواب دیا ۔اذ دخلوا علیه فقالوا سلاماً ْقال سلام قوم منکرون

زمانہ جاہلیت کے عربی اشعار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت سلام کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی تھی ۔(۱)

یہ شعر زمانہ جاہلیت کے توبہ نامی شاعر کے ہیں ۔

جب ہم غیر جانبدار انہ طور پر اس اسلامی تحیت کا مختلف اقوام کی تحیت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اس کی قدر و قیمت ہم پر زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔ اسلامی تحیت خدا کی طرف توجہ بھی ہے مخاطب کے لئے سلامتی کی دعا بھی اور صلح و امن کا اعلام بھی ہے ۔ اسلامی روایات میں سلام کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم سے منقول ہے :من بدء بالکلام قبل السلام فلاتجیبوه

جو شخص سلام سے پہلے گفتگو شروع کردے اس کا جواب نہ دو ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم ) ۔

اور امام صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ خدا فرماتا ہے :

البخیل من یخیل بالسلام بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔

دوسری حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے :

ان الله عزو جل یحب افشاء السلام

افشاء سلام سلام عام کرنے والے کو خدا دوست رکھتا ہے ۔ ( اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔

افشاء سلام سے مراد مختلف افراد کو سلام کرنا ہے ۔ احادیث میں سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام صرف ان افراد سے مخصوص نہیں ہے جن سے انسان خصوصی شنا سائی رکھتا ہو جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبراکرم سے سوال ہوا :

کونسا عمل بہتر ہے تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا:”تطعم الطعام و تقمرء السلام علی من عرفت و من لم تعرف“

کھانا کھلاو اور سلام کرو اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جاتے۔(۲)

احادیث میں بھی آیا ہے کہ سوار پیادہ کو اور پیش قیمت سواری والا کم قیمت سواری والوں کو سلام کریں گویا یہ حکم ایسے تکبر کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے جو دولت، ثروت اور مخصوص مادی حیثیت سے پیدا ہو تا ہے ۔

یہ بات آج کل دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ آداب و سلام کو نچے طبقہ کی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور انھوں نے اسے استعمار، استعباد اور بت پرستی کی شکل دے رکھی ہے اگرہم پیغمبر اکرم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ تمام لوگوں کو یہاں تک کہ بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔ البتہ یہ بحث اس حکم سے اختلاف نہیں رکھتی جو بعض روایات میں آیا ہے کہ بچے جو عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں وہ اپنے بڑوں کو سلام کریں کیونکہ ادب کا تقاضا یہی ہے اس بات کا طبقاتی تفاوت او رمادی حیثیت کے اختلاف سے کوئی تعلق نہیں ۔

چند روایات میں حکم ہے کہ سودخور، فاسق ، کجرو اور منحرف وغیرہ پر سلام نہ کرو ۔ یہ بھی فساد اور برائی کے خلاف ایک طرح کا اقدام ہے ہاں البتہ ایسے لوگوں سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے یا رابطے کے لئے تاکہ انھیں خدا ئی نافرمانی سے بچنے کی دعوت دی جاسکے، سلام کرنے کی اجازت ہے ” تحیت باحسن“ سے مراد یہ ہے کہ سلام کی دوسری عبارات مثلاً و رحمة اللہ یا و رحمة اللہ وبرکاتہ کو ساتھ ملا نا ۔

تفسیر در المنثور میں ہے :

ایک شخص نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا : السلام علیک۔ تو آپ نے فرمایا ” و علیک السلام و رحمة اللہ “ دوسرے نے عرض کیا” السلام علیک ورحمة اللہ “ تو آپ نے فرمایا” وعلیک السلام و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تیسرے شخص نے کہا” السلام علیک و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تو پیغمبر نے فرمایا” و علیک “ جب اس نے سوال کیا کہ آپ نے مجھے مختصر جواب کیوں دیا ہے تو فرمایا ۔” قرآن کہتا ہے تحیہ کا جواب زیادہ بہتر طریقہ سے دولیکن تونے کوئی چیز باقی نہیں رکھی ۔“

حقیقت میں پیغمبر نے پہلے اور دوسرے شخص کے جواب میں احسن طریقہ پر تحیہ کیا ہے لیکن تیسرے شخص کے بارے میں مساوی طریقہ اختیار کیا ہے کیونکہ ” وعلیک “ کا مفہوم ہے کہ جو کچھ تونے کہا وہ تیرے لئے بھی ہو ۔ ( در المنثورجلد ۲ صفحہ ۸)

____________________

۱-ولو ان لیلی الاخیلیة سلمت، علی ودونی جندل و صفایح : لسلمت تسلیم البشاشة او زقا الیما صدی من جانب الزبر صالح

۲ ۔تفسیر فی ظلال ذیل آیہ مذکورہ۔

آیت ۸۷

۸۷۔( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ۔

ترجمہ

۸۷۔ وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، تم سب کو یقینی طور پر قیامت کے دن کہ جس میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا اور کون ہے جو خدا سے زیادہ سچا ہو ۔

تفسیر

درج بالاآیت گذشتہ آیات کی تکمیل اور بعد میں آنے والی آیات کا مقدمہ ہے کیونکہ گذشتہ آیت میں ” تحیت“ کے حکم کے بعد فرمایا ہے کہ خدا تمہارے اعمال کا حساب رکھتا ہے اس آیت میں مسئلہ قیامت اور روز قیامت ہونے والی عام عدالت کا ذکر ہے اور اسے مسئلہ توحید اور خدا کی یکتائی کے مسئلہ کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے جو کہ ایمان کا ایک اور رکن ہے ۔ فرماتا ہے کوئی معبود اس کے علاوہ نہیں ہے اور لازمی طور پر تمہیں قیامت کے دن اکٹھا مبعوث کرے گا وہی قیامت کا دن کہ جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے

( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ )

” یجمعنکم “کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمام افراد کے لئے روز محشر ایک ہی ہو گا ۔ جیسا کہ سورہ مریم کے آخر میں آیة ۹۳ سے لے لیکر ۹۵ تک اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ خدا کے تمام بندے چاہے وہ اہل زمیں ہو ں یا دوسرے کرات کے رہنے والے ، سب ایک ہی دن مبعوث ہو ں گے ۔

( لاریب فیه ) “ ( اس میں کوئی شک و شبہ نہیں )قیامت کے آنے کے بارے میں اس آیت میں اور قرآن کی دوسری آیات میں یہ تعبیر ان قطعی اور مسلم دلائل کی طرف اشارہ ہے جو اس دن قیامت کی خبر دیتے ہیں مثلا قانون تکامل ، تخلیق کا حکمت و فلسفہ اور قانون عدالت پ روردگار معاد کی بحث میں ان کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے آخر میں اس مطلب کی تاکید کے لئے فرماتا ہے کون ہے جو خدا سے زیادہ سچا ہے( وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ۔

لہٰذا وہ جس کا وعدہ روز قیامت یا اس کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں کرتا ہے اس پر شک نہیں کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ جھوٹ کا سر چشمہ جہالت ہے یا کمزوری اور ضرورت مندی ہے لیکن وہ خدا جو سب سے زیادہ جانتے والا ہے اور سب سے بے نیاز ہے ، وہ سب سے زیادہ سچا ہے اور اصولی طور پر جھوٹ اس کے لئے کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔