تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22822
ڈاؤنلوڈ: 2984


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22822 / ڈاؤنلوڈ: 2984
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۶۴

۶۴۔( وَقَالَتْ الْیَهُودُ یَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ اٴَیْدِیهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ یَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ یُنفِقُ کَیْفَ یَشَاءُ وَلَیَزِیدَنَّ کَثِیرًا مِنْهُمْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ طُغْیَانًا وَکُفْرًا وَاٴَلْقَیْنَا بَیْنَهُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ کُلَّمَا اٴَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ اٴَطْفَاٴَهَا اللهُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا وَاللهُ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ) ۔

ترجمہ

۶۴۔ اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ تو زنجیرسے بندھا ہو اہے ۔ انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کی وجہ سے رحمت ِ الہٰی سے دور ہیں جب کہ اس ( کی قدرت) کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح سے چاہے ( بخشتا اور )خرچ کرتا ہے اور یہ آیات جو تجھ پر تیرے پر وردگار کی نازل ہوئی ہیں ان میں سے بہت سوں کے طغیان او رکفر کو بڑھادیتی ہیں اور ان کے درمیان ہم نے قیامت تک کے لئے دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے او رجب بھی انھوں نے جنگ کی آگ روشن کی خدا نے اسے خاموش کردیا او روہ زمین میں فساد کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔

اس آیت میں یہودیوں کی ناروا اور گناہ آلودہ باتوں کی ایک مثال کی گئی ہے کہ جب کہ گذشتہ آیت میں کلی طو ر پر ان کی ایسی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ تاریخ نشاندہی کرتی ہے کہ یہودی ایک زمانے میں اوج قدرت میں تھے ۔ اس وقت کم اہم آباد دنیا کے ایک حصے پر ان کی حکومت تھی ۔ حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان بن داود (علیه السلام) کے زمانے کو بطور نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے ۔ بعد میں بھی زور و شور سے ان کی قدرت و طاقت موجودی لیکن ظہورِ اسلام کے ساتھ ہی خصوصاً حجاز میں ان کی قدرت کا آفتاب ڈوب گیا ۔ بنی نضیر ، بنی قریظہ اور خیبر کے یہودیوں سے پیغمبر اکرم کی جنگوں کے باعث وہ انتہائی کمزور ہو گئے ۔ اس موقع پر ان میں سے بعض نے اپنی گذشتہ قدرت و عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے استہزاء اور مذاق کے طور پ رکہا کہ خدا کا ہاتھ تو زنجیر سے بندھا ہوا ہے اور وہ ہم پر بخشش و نوازش نہیں کرتا( بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ بات کہنے والا فخاس بن عازذورا تھا جوبنی قینقاع کا سر دار تھا او ربعض نے نباش بن قیس کا نام لکھا ہے ) چونکہ دوسرے بھی اس کی گفتگو سے راضی تھے لہٰذا قرآن نے اس بات کی ان سب کی طرف نسبت دی ہے اور فرمایا ہے یہودیوں نے کہا کہ خدا کا ہاتھ زنجیر سے بندھا ہو اہے( وَقَالَتْ الْیَهُودُ یَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ ) ۔

توجہ رہے کہ ”ید “ عربی زبان میں کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا ایک معنی ” ہاتھ “ ہے ۔ دوسرا” نعمت “ ، تیسرا ” قدرت“ چوتھا”سلطنت و حکومت “اور پانچواں ” تسلط“ ہے ۔ البتہ اس کا حقیقی معنی ” ہاتھ “ ہی ہے او رچونکہ انسان اہم ترین کام ہاتھ سے انجام دیتا ہے لہٰذا یہ لفظ کنایہ کے طور پر دوسرے معانی بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فارسی میں ” دست “بھی اسی طرح مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔

طریق اہل بیت سے مروی بعض روایات میں ہے کہ یہ بات یہودیوں کے مسئلہ قضا و قدر اور سر نوشت و تفویض کے بارے میں عقیدے کی طرف اشارہ ہے ، ان کا نظر یہ تھا کہ ابتدائے خلق میں خدا نے تمام امور کا تعین کردیا ہے اور جسے انجام پانا چاہے وہ گویا انجام پا چکا ہے اور خدا بھی اس میں تبدیلی نہیں کرسکتا ۔ ۱

البتہ آیت میں ” بل یداہ مبسوطتان “ بھی ہے جیسا کہ آگے آئے گا ، یہ عبارت پہلے معنی کی تائید کرتی ہے ، البتہ دوسرا معنی بھی پہلے معنی کی طرف ہی ایک راستہ ہے کیونکہ جب ان کی زندگی درہم بر ہم ہو گئی اور ان کے اقبال کا ستارہ ڈوب گیا تو ان کا خیال تھا کہ یہ ان کی تقدیر میں تھا جسے بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ انجام تو شروع سے معین ہو چکا ہے اور عملی طور پر خدا کا ہاتھ بند ہوا ہے ۔

خدا تعالیٰ ان کے جواب میں پہلے تو اس عقیدے کی مذمت کرتا ہے ، فرما یا گیا ہے : ان کے ہاتھ زنجیر سے بندھے ہوں اور اس ناروا بات کی وجہ سے وہ رحمت سے دور ہوں( غُلَّتْ اٴَیْدِیهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ) ۔

اس کے بعد اس غلط عقیدے کے بطلان کےلئے ارشاد ہوتا ہے : خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے اور جس پر چاہتاہے لطف و عنایت کرتا ہے ( بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ یُنفِقُ کَیْفَ یَشَاءُ ) ۔اس کام میں کوئی مجبوری نہ ہو وہ عوامل ِطبعی و فطری کے جبر کا محکوم ہے اور نہ وہ جبر تاریخی کاپابندہے بلکہ اس کا رادہ ہر چیز سے بالاتر اور ہر چیز میں نافذ ہے ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہودیوں نے لفظ ” ید “ مفرد استعمال کیا ہے لیکن خدا نے ” ید “ کو تثنیہ کے طور پر استعمال کیا ہے ، فرماتا ہے : اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ۔ یہ دراصل تاکید ِ مطلب بھی ہے اور خدا تعالیٰ کے انتہائی جود بخشش کے لئے لطیف کنایہ بھی ۔ کیونکہ جو ذات زیادہ سخی ہو دونوں ہاتھ بخشش کرتی ہے ۔ علاوہ ازیں دو ہاتھوں کا ذکر قدرت ِ کاملہ کے لئے بھی کنایہ ہو سکتا ہے اور شاید یہ مادی و معنوی یا دینوی و اخروی نعمتوں کی طرف بھی اشارہ ہو۔

پھر ارشاد ہوتا ہے : یہاں تک کہ ان کی گفتار اور عقائد سے پر دہ کشائی کرنے والی یہ آیات ان پر مثبت اثر مرتب کرنے کی بجائے اور انہیں غلط راستے سے باز رکھنے کی بجائے ان میں سے بہت سوں کو ہٹ دھرمی کے چکر میں ڈال دیتی ہیں اور ان کا طغیان و کفر مزید بڑھ جاتا ہے( وَلَیَزِیدَنَّ کَثِیرًا مِنْهُمْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ طُغْیَانًا وَکُفْرًا ) ۔

”عداوت“ اور ” بغضاء “ سے یہا ں کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن اگر ہم یہودیوں کی موجودہ صورتِ حال سے قطع نظر کرلیں اور تاریخ میں ان کی در بدر اور پراگندی کی زندگی کو ملحوظ ِ نظر رکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس خاص تاریخی کیفیت کا ایک اہم عامل ان میں اتحاد، عزم اور ارادے کی پختگی کا فقدان تھا کیونکہ اگر ان میں اتحاد اور عزم صمیم ہوتا تو اتنی طویل تاریخ میں وہ اس طرح سے در بدر ، منتشر او ربدبخت نہ رہتے۔

اسی سورہ آیہ ۱۴ کے ذیل میں اہل کتاب کے درمیان دائمی عداوت و دشمنی کے مسئلہ پر ہم نے مزید ضاحت کی ہے ۔

آیت کے آخر میں آتش ِ جنگ بھڑ کانے کےلئے یہودیوں کی کوششوں اور خدا کی طرف سے مسلمانوں کو اس نابود کرنے والی آگ سے رہائی اور لطف و رکم کے بارے میں اشارہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جب انھوں نے آتشِ جنگ بھڑ کائی تو خدا نے اسے خاموش کردیا اور تمھیں اس سے محفوظ رکھا( وَاٴَلْقَیْنَا بَیْنَهُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ کُلَّمَا اٴَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ اٴَطْفَاٴَهَا اللهُ ) ۔یہ حقیقت میں پیغمبر اسلام کی پر دعا اعجاز زندگی کا ایک نکتہ ہے ۔ کیونک یہودی حجاز کے تمام لوگوں کی نسبت زیادہ طاقتور او رجنگی امور سے زیادہ آشنا تھے ۔ ان کے پاس نہایت محکم قلعے تھے ۔ علاوہ ازیں ان کے پاس مالی وسائل بھی بہت تھے جن سے وہ جنگوں میں کام لیتے تھے ۔ یہاں تک کہ قریش ان کی مدد حاصل کرنے میں کوشش کرتے تھے ۔ اوس و خزرج میں سے ہر قبیلہ ان سے پیمان دوستی اور جنگی معاہدے کی کوشش کرتا تھا ۔ اس کے باوجود ان کی طاقت کا زعم اس طرح ٹوٹا کہ کوئی اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتا تھا ۔ بنی نضٰر ، بنی قریظہ او ربنی قینقا ع کے یہودی خاص حالات کی وجہ سے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے خیبر کے قلعوں میں رہنے والے اور فدک یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ یہاں تک کہ حجاز کے بیابانوں میں رہنے والے یہودیوں نے بھی عظمت اسلام کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ۔ نہ صرف یہ کہ وہ مشرکین کی مدد نہ کر سکے بلکہ خود بھی مقابلے سے کنارہ کش ہو گئے ۔ قرآن مزید کہتا ہے : وہ ہمیشہ روئے زمین میں فتنہ فساد کے بیج بونے کی کوشش کرتے ہیں (وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا ) ۔ جب کہ خدا فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔( وَاللهُ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ) ۔

اس بنا پر قرآن ان پر بھی کبھی نسلی اور خاندانی حولاے سے کوئی اعتراض نہیں کرتا بلکہ قرآن کی تنقید اور سر زنش کا معیار او رنمونہ وہ اعمال ہیں جو ہر شخص اور گروہ انجام دیتا ہے ۔ بعد کی آیات میں ہم دیکھیں گے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود قرآن نے ان کے لئے راہ ِ حق کی طرف لوٹ آنے کی راہ کھلی رکھی ہے ۔

____________________

۱۔تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۶۴۹، تفسیر بر ہان جلد۱ ص ۴۸۶۔

آیات ۶۵،۶۶

۶۵۔( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَهْلَ الْکِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ وَلَاٴَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِیمِ ) ۔

۶۶۔( وَلَوْ اٴَنَّهُمْ اٴَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَاٴَکَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِهِمْ مِنْهُمْ اٴُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا یَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۶۵۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تو ہم ان کے گناہ بخش دیں گے اور انھیں نعمات سے معمور باغات بہشت میں داخل کردیں گے ۔

۶۶۔ اور اگر وہ تورات ، انجیل او رجو کچھ ان کے پر وردگار کی طرف سے ( قرآن کی صورت میں ) نازل ہوا ہے اسے قائم رکھیں آسمان او رزمین سے رزق کھائیں گے ۔ اس میں سے کچھ لوگ میانہ رو ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر برے اعمال انجام دیتے ہیں ۔

اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تو

گذشتہ آیات میں اہل کتاب کے طور طریقوں اور طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے ۔ اب ان دو آیا ت میں تربیتی اصول کے مطابق خدا تعالیٰ اہل کتاب میں سے منحر فین کو راہ ِ راست پر لانے ، انھیں حقیقی راستے کی نشاندہی کرنے اور ان میں سے اقلیت جو ان کے غلب افعال میں ہم قدم نہ تھی کی تعریف کرنے کے لئے کہتا ہے : اگر اہل کتاب ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کرلیں تو ہم ان کے گذشتہ گناہوں پر پر دہ ڈال دیں گے اور ان سے صرف ِ نظر کرلیں گے ۔( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَهْلَ الْکِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ ) ۔نہ صرف ان کے گناہ بخش دیں گے بلکہ انھیں طرح طرح کی نعمتوں سے پرباغات ِ جنت میں داخل کریں گے( وَلَاٴَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِیم ) ۔یہ تو معنوی او راخروی نعمتوں کے بارے میں ہے ۔ اس کے بعد ایمان و تقویٰ کے گہرے اثر حتی مادی زندگی میں اس کے اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اگر وہ تورات اور انجیل کو قائم رکھیں اور زندگی کے دستور العمل کے طور پر انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں او رجو کچھ پر ور دگار کی طرف سے ان پر نازل ہوا ہے اس سب پر عمل کریں چاہے وہ گذشتہ آسمانی کتب ہوں یا قرآن اور ان میں تفریق و تعصب کر راہ نہ دیں تو آسمان و زمین کی نعمتیں انھیں گھیر لیں گی( وَلَوْ اٴَنَّهُمْ اٴَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَاٴَکَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِهِمْ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ تورات اور انجیل کو قائم اور بر پا رکھنے سے مراد ان کا وہ حقیقی حصہ ہے جو اس زمانے میں ان کے پاس موجود تھا نہ ان کے تحریف شدہ حصے جو کم و بیش قرائن سے پہنچا نے جاتے تھے اور ” وما انزل الیھم من ربھم “ سے مراد تمام آسمانی کتب اور خدائی احکام ہیں کیونکہ یہ جملہ مطلق ہے اور در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ قومی تعصبات کو دینی او رالٰہی مسائل کے ساتھ نہیں ملانا چاہےئے ۔ یہاں عربوں اور یہودیوں کی آسمانی کتب کی بات نہیں ۔ اصل بات تو خدا ئی احکام کی ہے ۔ یہ کہہ کر قرآن چاہتا ہے کہ جس قدر ہو سکے ان کے تعصب کو کم کیا جائے اور ان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں بات اثر کرسکے۔ اسی لئے تمام ضمیریں انھیں کی طرف لوٹتی ہیں (الیهم ، من ربهم ، من فوقهم ، من تحت ارجلهم )یہ سب کچھ اس بنا پر ہے کہ تاکہ وہ ہٹ دھرمی کی سواری اتر پڑیں اور یہ تصور نہ کریں کہ قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے عربوں کے سامنے سر جھا دیا بلکہ اس کا مطلب تو خدائے عظیم کے سامنے جھکا نا ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ تورات و انجیل کے احکام کو قائم، کرنے سے مراد ان کے اصول پر عمل کرنا ہے کیونکہ جیسے ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ تعلیمات ِ انبیاء کے اصول تمام جگہ ایک جیسے ہیں اور ان کے درمیان صرف کامل و اکمل کا فرق ہے او ریہ بات اس کے منافی نہیں کہ گذشتہ دین کے بعض احکام بعد والے دین کے بعض احکام کے ذریعے منسوخ ہو جا ئیں ۔

مختصر یہ کہ مندرجہ بالا آیت ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور د ے رہی ہے کہ آسمانی تعلیمات کی پیروری صرف بعد از موت کی زندگی کے اسباب مہیا کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کی تمام مادی زندگی کے لئے بھی مفید ہے ۔ یہ پیروی جماعتوں او رگروہوں کی صفوں کو منظم کرتی ہے ، تونائیوں کومجتمع کرتی ہے ،نعمتوں کو با بر کت کرتی ہے ، وسائل کو وسعت دیتی ہے ، زندگی کو خوش حال بناتی ہے اور امن و امان میں پیدا کرتی ہے ۔

ان عظیم مادی مسائل او ر فراوان انسانی توانائیوں پر ایک نظر ڈالی جائے کہ جو آج کی دنیا ئے انسانیت میں تعلیمات ِ انبیاء سے انحراف کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ سب تباہ کن ہتھیار وں ، بے سبب کشمکشوں اور ویران کن مساعی پر صرف ہورہی ہیں ۔آج دنیا کی جتنی دولت اور وسائل دنیا کی تباہی کے لئے استعمال ہو رہے ہیں وہ اصلاح و فلاح کے لئے استعمال ہونے والے مسائل سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ۔ آج کس قدر دماغی صلاحتیں جو جنگی ہتھیاروں کی تیاری اور استعماری و سامراجی مقاصد کے لئے استعمال ہورہی ہیں ۔ جو وسائل و ذرائع ، صلاحتیں ، اور توانائیاں فضول اور بے کار صرف ہورہی ہیں ان کی نوع ِ انسانی کس قدر ضرورت مند اور محتاج ہے ۔ یہ سب نہ ہوتا تو دنیا آج خو ب صورت ، زیبا او ررہنے کے قابل ہو تی ۔

ضمنی طور پر توجہ رہے کہ ” من فوقھم “ اور ” من تحت ارجلھم “ سے مراد یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تمام نعمتیں انھیں گھیر لیں گی ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ اس بات کے لئے کنایہ ہو کہ یہ نعمات عمومیت رکھتی ہیں ۔ جیسا کہ عربی اور غیر عربی ادب میں کہا جاتا ہے کہ ” فلان شخص سر تا پا نعمتوں میں ڈوبا ہو اہے “ یعنی ہر طرف سے نعمتیں اسے گھیرے ہوئے ہیں ۔

یہ آیت یہودیوں کی اس گفتگو کا جواب بھی ہے کہ جو گذشتہ آیات میں ہم بڑھ چکے ہیں ۔ یعنی اگر تم دیکھتے ہوکہ خد اکی نعمتیں تم سے منقطع ہو چکی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ذات مقدس ِ خدا میں بخل آگیا ہے ۔ او راس کا ہاتھ بندھا ہوا ہے ، بلکہ یہ تو تمہارے اعمال ہی ہیں جو تمہاری مادی او رمعنوی زندگی میں منعکس ہو ئے ہیں او رتمہارے اعمال ہی نے تمہاری ہر طرح کی زندگی کو تاریک کردیا ہے اور جب تک تم نہیں پلٹو گے یہ تاریکیاں بھی نہیں پلٹیں گی ۔

آیت کے آخر میں ان میں سے ایک نیک اقلیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : اگر چہ ان میں سے زیادہ تر تو بد کار ہی ہیں لیکن پھر بھی کچھ میانہ رو اور معتدل افراد ان میں موجود ہیں ( جن کا معاملہ خد اکے نزدیک اور مخلوق خدا کے نزدیک دوسروں سے مختلف ہے( مِنْهُمْ اٴُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِنهُمْ سَاءَ مَا یَعْمَلُونَ ) ۔

اہل کتاب میں سے نیک اور صالح اقلیت کے بارے میں سورہ اعراف آیہ ۱۵۹ اور ۱۸۱ اور سورہ آل ِ عمران آیہ ۷۵ میں بھی ایسی تعبیر دکھائی دیتی ہے ۔

فہرست

بیداری تیار رہنے اور خطرے کے مقابلے میں چوکس ۵

آیات ۷۲،۷۳ ۷

دشمن کے مقابلہ میں جہاد ۷

آیت ۷۴ ۹

تفسیر ۹

مومنین کو جہاد کے لئے آمادہ کرنا ۹

آیت ۷۵ ۱۱

تفسیر ۱۱

انسانی جذبوں کو مظلوموں کی مدد کے لئے ابھارا گیا ہے ۱۱

چند اہم نکات ۱۲

۱ ۔ اسلامی جہاد کے دو ہدف ۱۲

۲ ۔ معاشرے میں آزادیِ فکر و نظر ۱۲

۳ ۔ یاور سے پہلے رہبر ۱۲

۴ ۔ بار گاہ الہٰی میں دستِ نیاز ۱۳

آیت ۷۶ ۱۴

تفسیر ۱۴

آیت ۷۷ ۱۶

شان ِ نزول ۱۶

وہ جو صرف باتیں کرنا جانتے ہیں ۱۶

چند اہم نکات ۱۸

۱ ۔ صرف نماز اور زکوٰة کا تذکرہ کیوں ؟ ۱۸

۲ ۔ مکہ میں حکم زکوٰة ۱۸

۳ ۔ مکہ اور مدینہ میں مختلف لائحہ عمل ۱۸

آیات ۷۸،۷۹ ۲۰

تفسیر ۲۰

کامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ ۲۲

ایک اہم سوال کا جواب ۲۳

آیات ۸۰،۸۱ ۲۵

تفسیر ۲۵

آیت ۸۲ ۲۸

تفسیر ۲۸

اعجاز قرآن کی زندہ مثال ۲۸

چند اہم نکات ۲۸

آیت ۸۳ ۳۰

تفسیر ۳۰

افواہیں پھیلانا ۳۰

غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے کے نقصانات ۳۱

آیت ۸۴ ۳۳

شان ِ نزول ۳۳

ہر شخص اپنے فرائض کا جوابدہ ہے ۳۳

کلام خدا میں ” عسی ٰ“ اور ” لعل “ کے معنی ۳۵

آیت ۸۵ ۳۷

تفسیر ۳۷

اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ ۳۷

آیت ۸۶ ۴۱

تفسیر ۴۱

احترام ِ محبت ۴۱

سلام عظیم اسلامی تحیہ ہے ۴۲

آیت ۸۷ ۴۶

تفسیر ۴۶

آیت ۸۸ ۴۷

شان نزول ۴۷

تفسیر ۴۷

آیت ۸۹ ۵۰

تفسیر ۵۰

ایک سوال ۵۱

جواب ۵۱

آیت ۹۰ ۵۲

شان ِنزول ۵۲

آیت ۹۱ ۵۵

شانِ نزول ۵۵

طرفین سے ساز باز رکھنے والوں کی سزا ۵۵

آیت ۹۲ ۵۷

شانِ نزول ۵۷

قتل اشتباہ کے احکام ۵۸

چند اہم نکات ۶۰

۱ -خسارے کی تلافی کے لئے احکام ۶۰

۲ ۔ مسلمانوں میں دیت سے صرف نظر ۶۰

۳ ۔ غیر مسلموں کے لئے دیت کا پہلے تذکرہ ۶۰

۴ ۔ اسلامی پیمانوں کی طبعی بنیاد ۶۱

۵ ۔ غلطی کی سزا؟ ۶۱

آیت ۹۳ ۶۲

شانِ نزول ۶۲

قتل عمد کی سزا ۶۲

کیا انسانی قتل ابدی سزا کا موجب ہے ۶۳

قتل کی اقسام ۶۶

قتل عمد ۶۶

قتل شبیہ عمد ۶۶

قتل اشتباہ ۶۶

آیت ۹۴ ۶۷

شان ِنزول ۶۷

تفسیر ۶۸

ایک سوال اور اس کا جواب ۶۹

آیت ۹۵ ۷۰

تفسیر ۷۰

چند اہم نکات ۷۳

بلاغت کا ایک پہلو ۷۳

”درجة“ ” درجات“ ۷۳

جہاد کی انتہائی تاکید ۷۳

آیات ۹۷،۹۸،۹۹ ۷۶

شانِ نزول ۷۶

تفسیر ۷۷

چند اہم نکات ۷۸

۱۔ روح کی استقامت ۷۸

۲ ۔ روح قبض کرنے والے ، ایک یا ایک ست زائد فرشتے ۷۸

۳ ۔ مستضعف کون ہے ؟ ۸۰

آیت ۱۰۰ ۸۱

تفسیر ۸۱

ہجرت. اسلام کا ایک اصلاحی حکم ۸۱

اسلام اور ہجرت ۸۲

آیت ۱۰۱ ۸۶

تفسیر ۸۶

نماز ِ مُسافر ۸۶

چند اہم نکات ۸۹

۱۔ نماز خوف ہر دور میں ہوسکتی ہے ۸۹

۲ ۔ دوران نمازِ خوف مسلح رہنے کے حکم میں فرق ۸۹

۳ ۔ مال و متاع کی حفاظت ۸۹

۴ ۔ نماز با جماعت کی اہمیت ۸۹

خیانت کرنے والوں کی حمایت نہ کرو ۹۲

آیات ۱۰۷،۱۰۸،۱۰۹ ۹۴

تفسیر ۹۴

آیات ۱۱۰،۱۱۱،۱۱۲ ۹۷

جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے ۹۷

آیت ۱۱۳ ۱۰۱

اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو ۱۰۱

انبیاء کا چشمہ عصمت ۱۰۲

آیت ۱۱۴ ۱۰۴

تفسیر ۱۰۴

سر گوشیاں ۱۰۴

آیت ۱۱۵ ۱۰۷

شانِ نزول ۱۰۷

تفسیر ۱۰۷

اجماع کی حجیت ۱۰۹

آیت ۱۱۶ ۱۱۱

تفسیر ۱۱۱

شرک.... ناقابل معافی گناہ ۱۱۱

آیات ۱۱۷،۱۱۸،۱۱۹،۱۲۰،۱۲۱ ۱۱۳

شیطانی سازشیں ۱۱۳

آیت ۱۲۲ ۱۱۷

شانِ نزول ۱۱۷

آیات ۱۲۳،۱۲۴ ۱۱۸

شانِ نزول ۱۱۸

سچے اور جھوٹے امتیازات ۱۱۸

ایک سوال کاجواب ۱۱۹

آیات ۱۲۵،۱۲۶ ۱۲۱

تفسیر ۱۲۱

خلیل کِسے کہتے ہیں ؟ ۱۲۲

آیت ۱۲۷ ۱۲۴

حقوق نسواں کے بارے میں مزید گفتگو ۱۲۴

آیت ۱۲۸ ۱۲۶

شانِ نزول ۱۲۶

صلح بہتر ہے ۱۲۶

آیات ۱۲۹،۱۳۰ ۱۲۹

ایک سے زیادہ شادیوں کے لئے عدالت شرط ہے ۔ ۱۲۹

ایک اہم سوال کا جواب ۱۳۱

آیات ۱۳۱،۱۳۲،۱۳۳ ۱۳۳

ایسی لا متناہی ملکیت اور بے پایاں قدرت ۱۳۳

آیت ۱۳۵ ۱۳۶

عدالت ِاجتماعی ۱۳۶

آیت ۱۳۶ ۱۳۹

شان ِ نزول ۱۳۹

تفسیر ۱۳۹

آیات ۱۳۷،۱۳۸،۱۳۹ ۱۴۱

ہٹ دھرم منافقین کا انجام ۱۴۱

آیت ۱۴۰ ۱۴۳

شان نزول ۱۴۳

بری مجلس میں نہ بیٹھو ۱۴۳

چند اہم نکات ۱۴۴

آیت ۱۴۱ ۱۴۵

تفسیر ۱۴۵

منافقین کی صفات ۱۴۵

آیات ۱۴۲،۱۴۳ ۱۴۷

تفسیر ۱۴۷

منافقین کی پانچ صفات ۱۴۷

آیات ۱۴۴،۱۴۵ ۱۴۹

مومنین کو تنبیہ ۱۴۹

آیت ۱۴۷ ۱۵۱

خدا کی سزا انتقامی نہیں ۱۵۱

آیات ۱۴۸،۱۴۹ ۱۵۲

اسلام کے چند اخلاقی احکام ۱۵۲

ظالم سے در گذر اس کی تقویت کا سبب نہیں ؟ ۱۵۳

آیات ۱۵۰،۱۵۱،۱۵۲ ۱۵۵

انبیا ء میں فرق نہیں ہے ۱۵۵

گناہ اور سزامیں تناسب ۱۵۶

آیات ۱۵۳،۱۵۴ ۱۵۸

شان نزول ۱۵۸

یہودیوں کی بہانہ سازی ۱۵۸

دواہم نکات ۱۶۰