تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23299
ڈاؤنلوڈ: 3124


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23299 / ڈاؤنلوڈ: 3124
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۸۸

۸۸۔( فَما لَکُمْ فِی الْمُنافِقینَ فِئَتَیْنِ وَ اللَّهُ اٴَرْکَسَهُمْ بِما کَسَبُوا اٴَ تُریدُونَ اٴَنْ تَهْدُوا مَنْ اٴَضَلَّ اللَّهُ وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبیلاً ) ۔

ترجمہ

۸۸۔ منافقین کے بارے میں تم دو گروہ کیوں ہوگئے ہو ، کچھ ان سے جنگ کرنے کو ممنوع اور کچھ جائز سمجھتے ہو حالانکہ خدا نے ان کے اعمال کی بنا پر ان کے افکار پلٹ کر رکھ دئیے ہیں کیا تم چاہتے ہو ایسے اشخاص کو جنہیں خدا نے ( ان کے برے اعمال کی وجہ سے ) گمراہ رکھا ہے ہدایت کرو، حالانکہ جسے خدا گمراہ رکھے اس کے لئے تمہیں کوئی راستہ نہیں ملے گا ۔

شان نزول

بعض مفسر ین نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ مکہ کے کچھ لوگ بظاہر مسلمان تھے لیکن حقیقت میں منافقین کی صفت میں سے تھے اسی لئے وہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنا نہیں چاہتے تھے اور عملی طور پر بت پرستوں کی خیر خواہ او رمدد گار تھے، لیکن آخر کارمکہ کو چھوڑ نے پر مجبور ہو گئے ( تاکہ وہ مدینہ کے قریب آجائیں اور شاید اپنی خصوصی حیثیت کی وجہ سے جاسوسی کے مقصد کے لئے انھوں نے ہجرت کی ہو)اور وہ خوش تھے کہ انھیں مسلمان اپنے میں سے سمجھتے ہیں لہٰذا ان کا خیال تھا کہ مدینہ میں داخل ہو نا ان کے لئے قدرتی طور پر کو ئی مشکل پید انہیں کرے گا ،مسلمانوں کو اس بات کا پتہ چل گیا لیکن بہت جلد منافقین سے سلوک کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافرائے پیدا ہو گیا ایک گروہ کا نظریہ تھا کہ ان کو دھتکا ر دیا جائے کیونکہ حقیقت میں یہ دشمنان اسلام کے مدد گار ہیں لیکن کچھ مسلمان ظاہر بین اور سادہ لوح تھے وہ اس کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ ہم کس طرح ایسے لوگوں سے محاذ آرائی کریں جو تو حید اور رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور صرف ہجرت نہ کرنے کے جرم میں ان کے خون کو مباح اور حلال قرار دیں ۔ اس پر درج بالا آیت نازل ہو ئی جس میں دوسرے گروہ کو اس غلط فہمی پر علامت کی گئی اور پھر ان کی رہنمائی بھی کی گئی ۔(۱)

تفسیر

مندرجہ بالا شانِ نزول کی طرف توجہ کرنے سے اس آیت اور بعد والی آیت کا منافقین سے متعلق گذشتہ آیات سے ربط مکمل طور پر واضح ہوتا ہے آیت کی ابتدا میں میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : منافقین کے بارے میں کیوں بٹ گئے ہو اور تم میں سے ہر ایک جدا فیصلہ کرتا ہے ۔( فما لکم فی المنافقین فئتین ) ۔(۲)

یعنی یہ افرادجو ہجرت نہ کرنے اور مشرکین کے شریک کا ر رہنے اور مجاہدین ِ اسلام کی صف میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نفاق کو ظاہر کر چکے ہیں ان کے اعمال اور انجام کے بارے میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئیے ۔ یہ بات مسلم ہے کہ یہ لوگ اول درجہ کے منافقین ہیں تو پھر بعض لوگ کیوں ان کے اظہار توحید اور خدا پر ایمان لانے کے دعوی ٰ سے دھکا کھاتے ہیں اور ان کی شفاعت و شفارش کرتے ہیں جبکہ گذشتہ آیات میں بتا یا جا چکا ہے کہ ( من یشفع شفاعة سیئة یکن لہ کفل منھا )اوراس طرح وہ اپنے آپ کو ان کے برے انجام میں کیوں شریک کرتے ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے ۔ منافقین کے اس گروہ سے ان کے برے اور شرمناک اعمال کی وجہ سے خدا نے اپنی حمایت اور توفیق منقطع کر لی ہے اور منصوبے مکمل طور پر ناکام کردیئے ہیں اور ان کی حالت ایسی ہے جسیے کوئی شخص پاوں پر کھڑا ہونے کی بجائے سر کے بل کھڑا ہو( والله ارکسهم بما کسبوا ) (۳)

ضمنی طورپر ” بما کسبوا “ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ، سعادت ، اور نجات کے راستے سے ہٹ جانا انسان کے خود اس کے اعمال کا نتیجہ ہے اور اگر اس عمل کو خدا سے نسبت دی جائے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ خدا حکیم ہے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دیتا ہے اور لیا قت و اہلیت کی مناسبت سے اسے جزا بھی دے گا ۔ آیت کے آخر میں سادہ لوح افراد کو ، جو منافقین کے اس گروہ کی حمایت کرتے ہیں خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے : کیا تم چاہتے ہوکہ ان لوگوں کو جنھیں خد انے ان کے برے اعمال کی وجہ سے ہدایت سے محروم کردیا ہے ہدایت کرو حالانکہ یہ لوگ ہدایت کے قابل نہیں ہیں

( اٴَ تُریدُونَ اٴَنْ تَهْدُوا مَنْ اٴَضَلَّ اللَّهُ وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبیلاً ) ۔

کیونکہ یہ تو خدا کی انمٹ سنت ہے کہ کسی شخص کے اعمال کے اثرات اس سے جبر نہیں ہو ں گے تو تم یہ توقع کیوں رکھتے ہو کہ وہ افراد جن کی نیت صحیح نہیں اور جن کے دلوں میں نفاق بھرا ہوا ہے او رجو عملاًخدا کے دشمنوں کی حمایت کرتے ہیں انھیں ہدایت نصیب ہوگی یہ تو بے جا اور غیر منطقی توقع ہے ۔(۴)

_____________________

۱-اس آیت میں اور بعد والی آیات کی اور بھی شان نزول بیان کی گئی ہے انہی میں سے بعض میں اس کو جنگ احد کے واقعہ سے مربوط سمجھا گیا ہے حالانکہ بعد والی آیات، جو ہجرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اس سے مربوط نہیں بلکہ اسی شانِ نزول کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں جس ذکر اوپر ہوا ہے ۔

۲۔ اوپر والے جملے میں حقیقتاً او رلفظ مخفی ہے جو بقیہ جملہ پر توجہ کرنے سے واضح ہوتا ہے اور اصل جملہ یوں بنتا ہےفما لکم تفرقتم فی المنافقین فئتین ۔

۳ارکسهم رکس (بر وزن مکث) کے مادہ سے کسی چیز کو اوندھا کرنے کے معنی میں ہے اور بعض پھیر نے کے بھی معنی لیتے ہیں ۔

۴ ۔ اس تفسیر کی پہلی جلد میں ہدایت و ضلالت کے بارے میں مفصل بحث آچکی ہے ۔

آیت ۸۹

۸۹۔( وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ کَما کَفَرُوا فَتَکُونُونَ سَواء ً فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ اٴَوْلِیاء َ حَتَّی یُهاجِرُوا فی سَبیلِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَ لا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً ) ۔

ترجمہ

۸۹۔ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کا فر ہو جاواور پھر وہ اور تم ایک دوسرے کے برابر ہو جاو۔ پس ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناو۔ مگر یہ کہ ( وہ توبہ کریں اور) خدا کی راہ میں ہجرت کریں ۔ لیکن وہ لوگ جو کام سے منہ موڑلیں

اور تمہارے خلاف اقدامات جاریرکھیں ) انہیں جہاں پاو قید کرلو اور (ضروری ہو تو ) انھیں قتل کرو اور ان میں سے کسی کو دوست او رمدد گار نہ بناو۔

تفسیر

گذشتہ آیت ان منافقین کے بارے میں تھی جن کی حمایت میں کچھ سادہ لوح مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے تھے او ران کی سفارش کرتے تھے جبکہ قرآن نے انہیں اسلام سے بیگانہ قرار دے دیا اور اب اس آیت میں فرماتا ہے : ان کے اندر اس قدر جہالت اور تاریکی ہ کہ نہ صرف وہ خود کافرہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہو جاوتاکہ ایک دوسرے کے مساوی ہو جاو ۔( وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ کَما کَفَرُوا فَتَکُونُونَ سَواء ً )

اس وجہ سے وہ تو عام کفار سے بھی بد تر ہیں ۔ کیونکہ عام کافر دوسروں کے عقائد باطل کرنے کے در پے رہتے ہیں کیونکہ وہ ایسے ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہےئے کہ ان میں سے کسی کو دوست نہ بنائیں

( فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ اٴَوْلِیاء ) َ)

مگر یہ کہ وہ اپنے اعمال سے با ز آجائیں اور نفاق اور تخریب کا ری سے دستبردارہو جائیں اور اس کا ثبوت اور نشانی یہ ہے کہ وہ کفر اور نفاق کے مرکز سے اسلام کے مرکز ( مکہ سے مدینہ ) کی طرف ہجرت کریں( حَتَّی یُهاجِرُوا فی سَبیلِ اللَّهِ ) ۔

لیکن اگر وہ ہجرت کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر سمجھ لو کہ وہ کفر و نفاق سے دستبردار نہیں ہوئے اور ان کا مسلمان کہلانا صرف جاسوسی اور تخریب کاری کی غرض سے ہے اور اس صورت میں وہ تمہیں جہاں بھی مل جائیں انہیں قید کرلو یا اگر ضروری ہو تو انھیں قتل کردو( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَ لا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً ) ۔

درج بالا آیت میں منافقین کے اس گروہ کے بارے میں جو سخت احکام آئے ہیں اس وجہ سے ہیں کہ ایک زندہ معاشرے کی تشکیل کے لئے جو اصلاح کے راستے پر چلتا ہے ایسے دوست نما خطرناک دشمن سے چھٹکارا حاصل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ اسلام غیر مسلم افراد ( مثلاً یہود و نصاریٰ ) چند شرائط کے ساتھ صلح کی اجازت دے دیتا ہے اور ان سے کوئی تعرض نہ کرنے کے لئے تیار ہے مگر منافقین کے اس گروہ کے بارے میں اس قدر شدت سے کام لیتا ہے ۔ بظاہر وہ مسلمان ہیں پھر انہیں قید کرنے بلکہ بوقت ضرورت ان کے قتل کا حکم دیتا ہے ۔ اس امرکی اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسے افراد اسلام کے پردے میں اسلام کو ایسی گزند پہنچا سکتے ہیں جیسی کوئی دشمن نہیں پہنچا سکتا ۔

ایک سوال

ممکن ہے کہا جائے کہ پیغمبر اکرم کا منافقین کے بارے میں یہ رویہ تھا کہ آپ کبھی ان کے قتل کاحکم نہیں دیتے تھے کہ دشمن کہیں آپ کو اپنے اصحاب کے قتل میں ملوث نہ کریں یا کچھ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ذاتی دشمنوں کو منافق کہہ کر ان سے نہ الجھیں اور انھیں قتل نہ کردیں ۔

جواب

توجہ رہے کہ پیغمبر اکرم کا یہ رویہ صرف مدینہ کے منافقین اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں تھا جو بظاہر مسلمان تھے، لیکن وہ لوگ جو مکہ کے منافقین کی طرح واضح طور پر اسلام دشمنوں سے ملے ہوئے تھے وہ اس حکم میں شامل نہیں تھے ۔

آیت ۹۰

۹۰۔إ( ِلاَّ الَّذینَ یَصِلُونَ إِلی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُمْ میثاقٌ اٴَوْ جاؤُکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ اٴَنْ یُقاتِلُوکُمْ اٴَوْ یُقاتِلُوا قَوْمَهُمْ وَ لَوْ شاء َ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقاتَلُوکُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقاتِلُوکُمْ وَ اٴَلْقَوْا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَما جَعَلَ اللَّهُ لَکُمْ عَلَیْهِمْ سَبیلاً ) ۔

ترجمہ

۹۰مگر وہ لوگ جنہوں نے تمہارے ہم پیمان لوگوں سے عہد و پیمان باندھا ہے یا وہ جو تمہای طرف آتے ہیں اور تم سے جنگ کرنے یا اپنی قوم سے جنگ کرنے سے عاجز ہیں ( نہ تم سے جنگ کرنا چاہتے ہیں او رنہ اپنی قوم سے لڑ نے کی طاقت رکھتے ہیں ) اور اگر خدا چاہے تو انھیں تم پر مسلط کردے تاکہ وہ تم سے جنگ کریں ( اب جبکہ )انہوں نے صلح کی پیشکش کی ہے تو خدا تمہیں اجازت نہیں دیتا کہ ان سے تعرض کرو ۔

شان ِنزول

مختلف روایات سے جو آیت کی شانِ نزول کے بارے میں آئی ہیں اور مفسرین نے ہر قسم کی تفاسیر میں انھیں نقل کیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قبائل عرب میں دو قبیلے ” بنی حمزہ“ اور ” اشجع “ نام کے تھے ان میں سے پہلے قبیلے نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا عہد کیا تھا اور قبیلہ اشجع نے بھی بنی حمزہ سے ایسا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ بعض مسلمان بنی حمزہ کی طاقت اور عہد شکنی سے خوفزدہ تھے لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرم کو تجویز پیش کی کہ اس سے پہلے کہ وہ حملہ آور ہوں مسلمان ان پر حملہ کردیں ۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

( کلا فانهم ابر العرب بالوالدین ولو صلهم للرحم اوفاهم بالعهد )

نہیں کبھی یہ کام نہ کریں کیونکہ وہ تمام قبائل عرب میں اپنے ماں باپ کے ساتھ بہتر سلوک کر نے والے ہیں اپنے عزیز و اقارب پر سب سے زیادہ مہر بان ہیں اور بہترایفائے عہد کر نے والے ہیں ۔

کچھ عرصہ بعد مسلمانوں کو اطلاع ملی کی اشجع قبیلہ کے سات سو افردا مسعود بن وجیلہ کی سرکرد گی میں مدینہ کے قریب پہنچ چکے ہیں پیغمبر اکرم نے اپنے نمائندے ان کے پاس بھیجے کہ وہ کس مقصد کے لئے آئے ہیں انھوں نے جواب دیا کہ ہم محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کرنے کے لئے آئے ہیں جب پیغمبر اکرم کو یہ معلوم ہوا تو حکم دیا کہ بہت سی مقدار میں کھجوریں تحفہ کے طوران کے پاس لے جاو اس کے بعد حضور نے ان سے ملا قات کی تو انھوں نے کہا کہ ایک طرف ہم آپ کے دشمنوں سے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ ہماری تعداد کم ہے اور دوسری طرف نہ آپ سے مقابلے کی ہم طاقت رکھتے ہیں نہ آپ سے ہم لڑنا چاہتے ہیں ۔

کیونکہ ہماری سکونت آپ کے قریب نہیں ہے لہٰذا ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کریں ۔ اس موقع پر درج بالاآیات نازل ہوئیں جن میں اس ضمن میں مسلمانوں کو ضروری احکام جاری کئے گئے ۔ چند ایک روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا ایک حصہ قبیلہ ” بنی مدلج “ کے باےر میں نازل ہوا ہے وہ لوگ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے کہا کہ ہم نہ تو آپ کے ہم نواہیں اور نہ ہی آپ کے مخالف کوئی قدم اٹھائیں گے ۔

پیغمبر اکرم نے ان سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا ۔

تفسیر صلح کی پیش کش کا استقبال ان منافقین کے لئے جو دشمنان اسلام کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اس سخت حکم کے بعد زیر نظر آیت میں حکم دیتا ہے کہ اس قانون سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں :

۱۔ جو تمہارے کسی ہم پیمان کے ساتھ مربوط ہیں اور انھوں نے اس سے معاہدہ کررکھا ہے

(إ( ِلاَّ الَّذینَ یَصِلُونَ إِلی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُمْ میثاقٌ ) ۔

۲۔ وہ اپنی مخصوص حالت کی وجہ سے ایسے حالات سے دو چار ہیں کہ نہ تو وہ تمہارے ساتھ مقابلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ تمہارا ساتھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے قبیلہ سے ٹکرانے کی حوصلہ رکھتے ہیں( اٴَوْ جاؤُکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ اٴَنْ یُقاتِلُوکُمْ اٴَوْ یُقاتِلُوا قَوْمَهُمْ ) ۔

ظاہر ہے کہ پہلے گروہ کو معاہدہ کے احترام کی وجہ سے اس قانون سے مستثنیٰ ہو نا چاہئیے اور دوسرا گروہ بھی اگر چہ مقدور نہیں ہے اسے چاہئیے کہ حق کی تلاش کے بعد اپنا رشتہ جوڑ لے ۔ لیکن چونکہ وہ غیر جانبدار رہنے کا اعلام کرتا ہے لہٰذا اس پر اعتراض کرنا عدل او رمردانگی کے اصولوں کے خلاف ہے اس کے بعد اس بنا پر کہ مسلمان اپنی شاندار کامیابیوں پر مغرور نہ ہو جائیں اور انھیں اپنی لشکری قوت او رمہارت کا مرہونِ منت سمجھیں اس غیر جانبدار گروہ کے مقابلہ میں ان کے انسانی جذبات کو تحریک دیتے ہوئے فرماتا ہے : اگر خدا چاہے تو ان ( کمزور) لوگوں کو تم پر مسلط کرسکتا ہے تاکہ وہ تم سے بر سر پیکار ہوں ۔( وَ لَوْ شاء َ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقاتَلُوکُمْ ) ۔

لہٰذا ہمیشہ کامیابیوں پر اپنے خدا کو نہ بھولو او رکسی جہت بھی اپنی طاقت پر غور نہ کرو ۔ نیز کمزور لوگوں کو معاف کرنے کو اپنے نقصان میں نہ سمجھو ۔ آیت کے آخر میں دوبارہ آخری گروہ کے لئے تاکید زیادہ واضح انداز میں کرتے ہوئے کہتا ہے : اگر وہ تم سے جنگ نہ کریں اور صلح و مصالحت کی پیش کش کریں تو خدا تمہیں ان سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ تمہارا فرض ہے کہ جو ہاتھ صلح کے لئے تمہاری طرف بڑھے اسے مضبوطی سے تھا م لو( فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقاتِلُوکُمْ وَ اٴَلْقَوْا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَما جَعَلَ اللَّهُ لَکُمْ عَلَیْهِمْ سَبیلاً ) ۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن اس آیت میں اور چند دوسری آیات میں صلح کی پیش کش کو ” القاء سلام “ ”صلح پھینکا“قرار دیتا ہے ۔ ممکن ہے یہ اس معنی کی طرف اشارہ ہو کہ طرفین نزاع، صلح سے پہلے عموماً ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے کاتے ہیں یہاں تک صلح کی پیش کش کو بھی بڑے محتاط ہ وکر دیکھتے ہیں گویا ایک دوسرے سے فاصلہ پرہتے ہوئے اس پیش کش کو ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں ۔

آیت ۹۱

۹۱۔( سَتَجِدُونَ آخَرینَ یُریدُونَ اٴَنْ یَاٴْمَنُوکُمْ وَ یَاٴْمَنُوا قَوْمَهُمْ کُلَّما رُدُّوا إِلَی الْفِتْنَةِ اٴُرْکِسُوا فیها فَإِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوکُمْ وَ یُلْقُوا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوا اٴَیْدِیَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَ اٴُولئِکُمْ جَعَلْنا لَکُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطاناً مُبینا ) ۔

ترجمہ

۹۱۔ بہت جلد تم ایسے لوگوں سے ملوگے جو چاہتے ہیں کہ تمہاری طرف سے بھی امان میں ہوں اور اپنی قوم کی طرف سے بھی مامون ہوں (یہ مشرک ہیں لہٰذا تمہارے سامنے ایمان کا دعوی ٰ کرتے ہیں ) لیکن جس وقت وہ فتنہ ( اور بت پرستی) کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو وہ سر کے بل اس میں ڈوب جاتے ہیں اگر وہ تم سے الجھنے سے کنارہ کش نہ ہوئے اور انھوں نے صلح کی پیش کش نہ کی اور تم سے دستبردار نہ ہوئے تو انھیں جہاں کہیں پاو قید کرلو( یا) انھیں قتل کردو اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر ہم نے تمہارا واضح تسلط قرار دیا ہے ۔

شانِ نزول

در ج بالا آیت کے لئے مختلف شانِ نزول منقول ہو ئے ہیں زیادہ مشہور ان میں سے یہ ہے کہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دھو کے بازی اور چالبازی کے طور پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ۔ لیکن جب بھی وہ قریش اور ان کے بتوں کے سامنے جاتے تو ان کے بتوں کی عبادت اور پرستش شروع کردیتے ۔ اس طرح وہ چاہتے تھے کہ وہ اسلام اور قریش دونوں سے محفوظ رہیں ، دونوں طرف سے فائدہ اٹھائیں اور کسی سے انھیں نقصان نہ پہنچے اصطلاح کے مطابق دونوں گروہوں سے دو طرفہ تعلقات استوار رکھیں ۔ اس پر زیر نظر آیت نازل ہوئی جس میں اس گروہ کے خلاف سخت کار روائی کا حکم دیا گیا۔

طرفین سے ساز باز رکھنے والوں کی سزا

مشرکین کے درمیان آزادی سے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انھوں نے دھوکے اور خیانت کی راہ اختیار کر رکھی ہے وہ دونوں گروہوں سے ہم قدم اور ہم فکر ہونے کا اظہار کرتے ہیں( سَتَجِدُونَ آخَرینَ یُریدُونَ اٴَنْ یَاٴْمَنُوکُمْ وَ یَاٴْمَنُوا قَوْمَهُمْ )

اسی وجہ سے جب فتنہ سازی اور بت پرستی کا موقع ان کے ہاتھ آتا ہے تو ان کے سارے پروگرام الٹے ہوجاتے ہیں اور سر کے بل بت پرستی میں ڈوب جاتے ہیں( کُلَّما رُدُّوا إِلَی الْفِتْنَةِ اٴُرْکِسُوا فیها ) ۔

یہ پہلے گروہ کے بالکل بر عکس ہیں کیونکہ ان کی کوشش یہ تھی کہ یہ مسلمانوں سے بر سر پیکار نہ ہوں جب کہ ان کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں سے الجھتے رہیں وہ صلح کی پیش کش کرتے تھے جبکہ یہ مسلمانوں سے بر سر پیکار تھے وہ مسلمانوں کو تکلیف نہیں پہنچاتے تھے لیکن یہ ظلم و جور سے اجتناب نہیں کرتے تھے ۔ یہ تینوں فرق جن کی طرف( فَإِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوکُمْ وَ یُلْقُوا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوا اٴَیْدِیَهُمْ ) ۔

میں اشارہ ہوا ہے اس امر کا سبب ہیں کہ ان کے بارے میں حکم پچھلے گروہ سے مکمل طور پر مختلف حکم ہو ۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انھیں جہاں کہیں پائیں اسیر کرلیں اور مقابلہ کرنے کی صورت میں قتل کردیں( فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ )

لہٰذا ان کے لئے کافی اتمام حجت کیا گیا ہے وہاں آیت کے آخر میں یہ بھی فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں کہ ہم نے واضح طور پر ان پر تمہارا تسلط قائم کیا ہے ۔

( وَ اٴُولئِکُمْ جَعَلْنا لَکُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطاناً مُبینا ) ۔

زیر بحث آیت میں جس تسلط کی طرف اشارہ ہے ہوسکتا ہے یہ تسلط منطقی لحاظ سے ہو ۔ کیونکہ مسلمانوں کی منطق مشرکین کی منطق پر غالب تھی یا یہ بھی ہوسکتا ہے ظاہری اور خارجی لحاظ سے ہو کیونکہ جس وقت یہ آیات نازل ہو ئیں اس وقت مسلمان بہت ھد تک طاقت ور ہو چکے تھے ۔

درج بالا آیت میں ”ثقفتموهم “ کی تعبیر ممکن ہے ایک دقیق نکتے کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ یہ لفظ ثقافت کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کا مشکل سے اور مہارت سے ہا تھ آنا اور ”وجدتموهم “ وجدان کے مادہ سے صرف ہاتھ آنے کے معنی میں ہے ان دونوں کا مفہوم مختلف ہے گویا منافقین کا یہ گروہ ( جودوغلہ ہے ) دونوں سے تعلقات رکھتا ہے یہ منافقین کا خطر ناک ترین گروہ ہے ممکن نہیں کہ انھیں آسانی سے پہچان لیا جائے اور وہ کسی جال میں پھنس جائے لہٰذا فرماتا ہے : مہارت اور مشکل سے ان پر قبضہ کر لو تو انھیں خد اکا حکم سنا و یہ اس طرف اشارہ ہے کہ انھیں گرفتار کرنا کٹھن اور مشکل کام ہے ۔

آیت ۹۲

۹۲۔( وَ ما کانَ لِمُؤْمِنٍ اٴَنْ یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَاٴً وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَاٴً فَتَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ دِیَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی اٴَهْلِهِ إِلاَّ اٴَنْ یَصَّدَّقُوا فَإِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ إِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُمْ میثاقٌ فَدِیَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی اٴَهْلِهِ وَ تَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیامُ شَهْرَیْنِ مُتَتابِعَیْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَ کانَ اللَّهُ عَلیماً حَکیماً )

ترجمہ

۹۲۔ کسی صاحب ایمان فرد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی صاحب ایمان کو قتل کرے مگر یہ کہ یہ کام غلطی اور اشتباہ میں اس سے سرزد ہو جائے اور پھر جس نے کسی مومن کو غلطی سے قتل کیا ہے اسے چاہے کہ وہ غلام آزاد کرے اور خون بہا بخش دیں اور اگر مقتول ایسے گروہ سے ہے تو تمہارے دشمن ہیں ( اور کافر ہیں ) لیکن قاتل خود مومن تھا تو چاہئیے ( کہ صرف) ایک غلام آزاد کرے( اور خونبہا ادا کرنا ضروری نہیں ہے ) اور اگر ایسے گروہ میں سے ہے جن کے ساتھ تمہارامعاہدہ ہو چکا ہے تو چاہئیے کہ اس کا خون بہا اس کے اہل خانہ کو دے اور ایک غلام ( بھی ) آزاد کرے اور جو شخص( غلام کے آزاد کرنے پر ) دسترس نہیں رکھتا، وہ مسلسل روزے رکھے ۔ یہ ( ایک قسم کی تخفیف اور ) اللہ کے حضور توبہ ہے اور خدا دانا و حکیم ہے ۔

شانِ نزول

مکہ کے ایک بت پرست حارث بن یزید نے ” ابو جہل“ کی مدد سے ایک مسلمان ” عیاس بن ابی ربیعہ “ کو اسلام کی طرف مائل ہونے کی پاداش میں ایک عرصہ تک شکنجہ ظلم میں جکڑے رکھا۔ مسلمانو ں کی مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد ” عیاش“ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔ اتفاقاًایک دن مدینہ کے قریب ایک محلہ میں اس کا سامنا اسے آزار دینے والے حارث بن یزید سے ہوگیا عیاش نے موقع غنیمت جان کر ھارث کو قتل کردیا اس کا خیال تھا کہ اس نے ایک دشمن کو قتل کیا ہے حالانکہ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ حارث توبہ کرکے مسلمان ہو چکا تھا اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہونے جارہا تھا یہ واقعہ آنحضرت سے عرض کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی اور اس قتل کے بارے میں جو خطا سے اور اشتباہ میں ہو گیا حکم بیان ہوکیا گیا

قتل اشتباہ کے احکام

دشمنوں کو منافقین کہہ کر قتل نہ کر دیں یا لاپرواہی سے کسی بے گناہ کا خون نہ بہا دیں ۔ اس آیت میں اور بعد والی آیت میں قتل اشتباہ اور قتل عمد کے احکام بیان ہوئے تاکہ قتل جو اسلام کے نذدیک نہایت سنگین معاملہ ہے اس کے بارے میں تمام لازمی پہلو وں کو ملحوظ نظر رکھا جائے ۔

اس آیت کی ابتدا میں کہ جس میں قتل اشتباہ کا ذکر ہے فرماتا ہے : کسی مومن کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی صاحب ایمان شخص کو قتل کرے مگر یہ کہ اشتباہ میں ایسا ہو جائے (وَ ما کانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَا) ۔ حقیقت میں یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصولی طور پر کوئی مومن یہ نہیں چاہتا کہ اپنے ہاتھ کسی بے گناہ کے خون سے رنگین کرے، کیونکہ حریم ایمان میں تمام افراد ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں کیا یہ ہو سکتا ہے کہ بدن انسانی کا ایک عضو دوسرے عضو کو سوائے اشتباہ کے کاٹ دے یا اسے کوئی آزار دی جائے ۔ اس سبب سے جو اس قسم کے کام میں مشغول ہیں ان کا ایمان صحیح نہیں ہے اور حقیقت میں وہ ایمان سے بے بہرہ ہیں ۔الاّ خطا ( مگر غلطی سے) کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہ انھیں اجازت ہے کہ شک کی بناپر قتل جیسا عمل کریں کیونکہ شک و شبہ میں انسان دور تک نہیں دیکھ نہیں دیکھ سکتا او رکوئی شخص شک کی حالت میں اپنے اشتباہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ مقصد یہ ہے کہ مومنین شک و شبہ کی حالت کے علاوہ ایسا گناہ کبیرہ نہیں کرسکتے ۔

اس کے بعد قتل اشتباہ کا جر مانہ اور کفارہ تین مراحل میں بیان کیا گیا ہے :۔

پہلی صورت یہ ہے کہ ” بے گناہ شخص جو شک اور شبہ میں قتل ہو گیا ہو، اگر وہ مسلمان خاندان سے تعلق رکھتا ہو تو اس صورت میں قاتل کے لئے دو حکم ہیں ۔ ایک غلام آزاد کرے اور دوسرا یہ کہ مقتول کا خون بہا مقتول کے وارثوں کو ادا کرے ۔( وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَاٴً فَتَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ دِیَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی اٴَهْلِهِ ) ۔

مگر یہ کہ مقتول کے وارث دیت کو اپنی رضا اور رغبت سے چھوڑ دیں ( ا( ِٕلاَّ اٴَنْ یَصَّدَّقُوا ) ۔

دوسری صورت یہ پء کپ مقتول ایسے خاندان سے وابستہ ہو جو مسلمانوں سے دشمنی رکھتا ہو، تو اس صورت میں قتل اشتباہ کا کفارہ صرف غلام آزاد کرنا ہے اور ایسے گروہ کو دیت دینا ضروری نہیں کہ جو مالی طور پر مسلمانوں کے خلاف مضبوط ہو جائے ۔

اس کے علاوہ اسلام ایسے شخص کو اپنے خاندان سے ربط رکھنے سے منع کرتا ہے جس کے خاندان میں سب کے سب اسلام کے دشمن ہوں اس بنا پر یہ نقصان کی تلافی کا مقام نہیں ہے( فَإِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ )

تیسری صورت یہ ہے کہ مقتول کا خاندان ایسے کفار میں سے ہو جنھوں نے مسلمانوں سے معاہدہ کر رکھا ہو ۔ اس صورت میں معاہدہ کے احترام میں ایک غلام آزاد کرنے کے علاوہ مسلمان اس کا خون بہا اس کے پس ماندگان کو دیں( وَ إِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُمْ میثاقٌ فَدِیَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی اٴَهْلِهِ وَ تَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ ) ۔

اس بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ کیا مقتول اس صورت میں پہلی دونوں صورتوں کی طرح مرد مومن ہوگا یا یہ حکم کافر اور ذمی کے لئے بھی ہے لیکن بظاہر آیات اور روایات جو اس آیت کی تفسیر میں آئی ہیں ان کے مطابق اس سے مراد بھی ” مقتول مومن “ ہی ہے او رکیا اس قسم کے مسلمان مقتول کی دیت کا فر وارث کو دی جاسکتی ہے جبکہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔ آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ دیت اس کے ورثہ کو دی جائے گی چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں یہ مسلمان کے ساتھ ان کے معاہدے کی بنیاد پر ہے ۔ لیکن چونکہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا لہٰذا بعض مفسرین کا یہنظر یہ ہے کہ اوپر والے جملے سے مراد یہ ہے کہ اس کی دیت و خون بہا صرف اس کے مسلمانوں کو دیا جائے نہ کہ کفار وارثوں کو بعض روایات میں بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن( من قوم بینکم و بینهم میثاق ) ( ایسے گروہ سے جو تمہارے ساتھ معاہدہ کرتے ( غور کیجئے گا ) ۔

آیت کے آخر میں ان لوگوں کے بارے میں میں جو غلام آزاد کرنے کے بارے میں دسترس نہیں رکھتے ( یعنی مالی طور پر استطاعت نہیں رکھتے یا آزاد کرنے کے لئے غلام ملتا ہی نہ ہو موجودہ زمانے کی طرح ۔ فرماتا ہے ایسے افراد کو چاہئیے کہ وہ مسلسل دو ماہ روزے رکھے( فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیامُ شَهْرَیْنِ مُتَتابِعَیْن )

آخر میں کہتا ہے: یہ غلام آزاد کرنے کی بجائے دو ماہ روزے رکھنے کا حکم ایک قسم کی تخفیف اور خدا کے حضور تو بہ ہے یا یہ کہ جو کچھ قتل اشتباہ کے کفارہ کے طور پر کہا گیا ہے اس سب کو خدا سے توبہ قرار دیا گیا ہے او رخدا ہمیشہ ہر چیز سے باخبر ہے اور اس کے تمام احکام حکمت کے مطابق ہیں

( تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَ کانَ اللَّهُ عَلیماً حَکیما ) ۔

چند اہم نکات

۱ -خسارے کی تلافی کے لئے احکام

۱۔ یہاں قتل اشتباہ کی تلافی کے لئے تین موضوع بیان کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک ایک طرح سے خسارے اورنقصان کی تلافی ہے جو اس عمل کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ پہلا غلام آزادکرنا ہے اصل میں ایک اجتماعی خسارے( ایک اہل ایمان کا قتل کی تلافی ہے دوسرا دیت کا ادا کرنا ہے جو اصل میں ایک طرح سے اقتصادی خسارے کی تلافی ہے جو کہ ایک شخص کے قتل ہونے سے ایک خاندان کو ہوتا ہے ورنہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ دیت ( خون بہا ) کبھی بھی ایک انسان کے خون کی حقیقی قیمت نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک بے گناہ انسان کو خون ہر طرح سے زیادہ قیمتی ہے بلکہ خاندان کے اقتصادی خسارے کی ایک طرح سے تلافی ہے ۔

اور تیسرا داماہ مسلسل روزے رکھنے کا مسئلہ ہے جو کہ اخلاقی اور روحانی خسارے کی تلافی ہے ، جو غلطی سے قتل کرنے والے کو کرنا ہوتی ہے ۔ البتہ خیال رکھنا چاہئیے کہ مسلسل دو ماہ روزے رکھنا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو کہ ایک با ایمان غلام کو آزاد نہیں کرسکتے تو روزے رکھنا ہوں گے لیکن غور کرناچاہئیے کہ غلام آزاد کرنا ایک طرح کی عبارت شمار ہوتا ہے لہٰذا اس عبادت کا اثر آزاد کرنے والے کی روح پر ضرورہو گا ۔

۲۔ مسلمانوں میں دیت سے صرف نظر

جس مقام پر مقتول کے پس ماندگان مسلمان ہو ں وہاں”الا ان یصدقوا“ مگر یہ کہ وہ دیت سے صرف نظر کرلیں ) کا ذکر آیاہے لیکن جس مقام پر وہ مسلمان نہ ہوں وہاں یہ بات نہیں ۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کیونکہ پہلے موقع پر اس کا م کی کوئی بنیاد ہے لیکن دوسری جگہ اس قسم کی بنیاد نہیں ہے اس کے علاوہ جہاں تک ہو سکے مسلمانو کو ایسے موقع پر غیر مسلموں کے احسان کا زیر بار نہیں ہونا چاہئیے ۔

۳۔ غیر مسلموں کے لئے دیت کا پہلے تذکرہ

قابل توجہ امر یہ ہے کہ پہلی صورت میں جبکہ پس ماندگان مسلمان ہوں پہلے ” ایک غلام آزاد کرے ‘ ‘ اورپھر ” دیت “ کا ذکر ہے ۔ جبکہ تیسری صورت میں جبکہ وہ مسلمان نہیں ہیں پہلے دیت کا تذکرہ ہے شاید تعبیر کا یہ اختلاف اس طرف اشارہ کرتا ہوکہ مسلمانوں کے معاملے میں دیت کی تاخیر کا زیادہ تر منفی ردّ عمل نہیں ہوتا جبکہ غیر مسلموں کے معاملے میں ہر چیز سے پہلے دیت ادا ہونا چاہئیے تاکہ نزاع اور جھگڑے کی آگ ٹھنڈی ہو سکے اور دشمن اسے معاہدے کی خلاف ورزی پرمحمول نہ کریں ۔

۴۔ اسلامی پیمانوں کی طبعی بنیاد

یہ آیت دیت کی مقدار نہیں بتائی گئی اور اس کی تفصیل سنت کے مطابق مقرر ہوتی ہے ۔ جس کی رو سے پوری دیت ہزار مثقال سونا یا ایک سو اونٹ ، یا دوسو گائیں ، اور اگر وارث راضی ہوں تو ان جانوروں کی قیمت ہے ( البتہ سونے یا بعض جانوروں کی دیت کے طور پر تعین اسلامی اصول کے مطابق ہے اور اسلام نے اپنے پیمانے اور میزان طبعی امور میں سے مقرر کئے ہیں نہ کہ بناوٹی مصنوئی اور وقتی طریقوں سے جو کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں ۔

۵۔ غلطی کی سزا؟

ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ اعتراض کریں کہ ” غلطی“ کی سزا نہیں ہوتی ،تو اسلام اس کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہے ، حالانکہ اس غلطی کا مرتکب کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ۔ اس کا جواب واضح ہے کیونکہ خون کا مسئلہ کوئی معمولی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسلام اس سخت حکم کے ذریعے چاہتا ہے کہ لوگ نہایت محتاط رہیں تاکہ کسی قسم کا قتل یہاں تک کہ اشتباہ اور غلطی سے بھی ان سے سرزدنہ ہو ۔ کیونکہ بہت سی غلطیاں بھی قابل گرفت ہیں علاوہ از یں اس لئے بھی کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ قتل اشتباہ کے دعویٰ سے اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں سمجھا جاسکتا آیت کا آخری جملہ (توبة من الله )ممکن ہے اسی مر کی طرف اشارہ ہو کہ عام طور پر اشتباہات کا مرکز پوری کو شش اور غورکرنا ہوتا ہے لہٰذا اہم معاملات میں ( مثلاً قتل نفس) کے سلسلے میں اس طرح تلافی ہونا چاہئیے کہ خدا سے تو بہ ان کے مرتکب ہونے والوں کے شامل حال ہو جائے ۔