تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 9%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28544 / ڈاؤنلوڈ: 4884
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۴

مؤلف:
اردو

آیت ۹۳

۹۳۔( وَ مَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فیها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهُ وَ اٴَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظیماً ) ۔

ترجمہ

۹۳۔جو شخص کسی صاحب ایمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ جس میں وہ ہمیشہ کے لئے رہے گا اور خدا اس پر غضب نازل کرتا ہے اور اسے اپنی رحمت سے محروم کردیتا ہے اور اس کے لئے اس نے عذاب عظیم مہیا کررکھا ہے ۔

شانِ نزول

مقیس بن صبا بہ کنانی ایک مسلمان تھا اس نے اپنے مقتول بھائی کی لاش محلہ” بنی نجار“ میں دیکھی ۔ اس نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں آکر یہ واقعہ بیان کیا رسول اکرم نے اسے قیس بن ہلا ل مہزی کے ساتھ نبی نجار کے سرداروں کے پاس بھیجا اور حکم دیاکہ اگر وہ ہشام کے قاتل کو پہچانتے ہیں تو اسے اس کے بھائی مقیس کے حوالے کر دیں اور اگر نہیں پہچانتے تو اس کا خون بہا اور دیت ادا کریں وہ چونکہ ہشام کے قاتل کو نہیں پہچانتے تھے لہٰذا انھوں نے مقتول کی دیت ادا کردی اور اس نے بھی قبول کرلی اور قبیس بن ہلال کی معیت میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔

اثنائے راہ میں زمانہ جاہلیت کے باقی رہنے والے افکار ے قبیس کے جذبات کو ابھارا اور وہ اپنے آپ سے کہنے لگا کہ دیت قبول کرنا شکست اور ذلت کا باعث ہے لہٰذا اپنے ہم سفر کو جو قبیلہ بنی نجار میں سے اپنے بھائی کے خون کے بدلے قتل کردیا او رمکہ کی طرف بھاگ گیا او راسلام سے بھی کنارہ کش ہو گیا ۔ پیغمبراکرم نے بھی اس خیانت کے بدلے اس کا خون مباح قرار دیا اور اوپر والی آیت اسی مناسبت سے نازل ہوئی جس میں قتل عمد( جان بوجھ کر قتل ) کی سزا بیان ہوئی ہے ۔

قتل عمد کی سزا

قتل اشتباہ کی سزا بیان کرنے کے بعد اس آیت میں اس شخص کی سزا بیان ہوئی ہے جو جان بوجھ کر کسی با ایمان شخص کو قتل کردے ۔ چونکہ انسان کشی ایک بہت بڑا جرم ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور اگر اسے روکا نہ جائے اور اس کا مقابلہ نہ کیا جائے تو امن و امان جو ایک صحیح معاشرے کی اہم ترین شرائط میں سے ہے بالکل ختم ہو جائے گا ۔ قرآن نے مختلف آیات میں اسے اہمیت دی ہے یہاں تک کہ ایک انسان کا قتل روئے زمین کے تمام لوگوں کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے :( من قتل نفساً بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعاً )

جو شخص کسی نفس کو (اگر وہ قاتل نہ ہو یا زمین پرفساد نہ پھیلائے ) قتل کردے گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا ہے ۔

اسی لئے زیربحث آیت میں ان لوگوں کے لئے جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیں ۔ چار سزائیں اور آخرت کے شدید عذاب کا ( علاوہ قصاص کے جو دنیا وی سزا ہے ) ذکر ہوا ہے ۔

۱۔ خلود یعنی ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا( وَ مَنْ یقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فیها ) ۔

۲۔ خشم و غضب الہٰی (و غضب الله علیه ) ۔

۳۔ رحمتِ خدا وندی سے محرومی (لعنه ) ۔

۴۔ عذاب عظیم میں مبتلا کیا جانا( وَ لَعَنَهُ وَ اٴَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظیماً ) ۔

اس طرح قتل عمد کے لئے اس قدر سخت ترین سزا کا ذکر ہوا ہے جس قدر سخت سزا قرآن میں کسی اور چیز کے متعلق بیان نہیں ہوئی اس کے علاوہ قتل عمد کی دنیاوی سزا وہی قصاص ہے جس کی تفصیل جلد اول میں سورہ بقرہ آیت ۱۷۹ کے ذیل میں بیان ہو چکی ہے ۔

کیا انسانی قتل ابدی سزا کا موجب ہے

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” خلود“ یعنی ہمیشہ کے لئے سزا تو ان لوگوں کو ملے گی جو ایمان لائے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائیں جبکہ قتل عمد کرنے والوں کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہوں اور یہاں تک امکان ہے کہ وہ پشمان ہو کر اس گناہ عظیم سے ( جو ان سے سرزد ہو چکا ہے ) حقیقی توبہ کرلیں اور گذشتہ گناہ کی جس قدر ممکن ہو تلافی کرلیں ۔

۱۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آیت میں مومن کے قتل سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کو ایمان لانے کی وجہ سے قتل کرے یا اس کے قتل کو جائز اور مباح قرار دے ۔ جان لینا چاہئیے کہ اس طرح کا قتل ، قاتل کے کفر کا ثبوت ہے اور اس کا لازمہ ابدی اور ہمیشہ کا عذاب ہے ۔

اسی مفہوم کی ایک حدیث حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔(۱)

۲۔ یہ احتمال بھی ہے کہ صاحب ایمان او ربے گناہ افراد کو قتل کرنے کی وجہ سے انسان بے ایمان ہو کر دنیا سے رخصت ہو اور اسے توبہ کی بھی توفیق نصیب نہ ہو اور اسی وجہ سے وہ ابدی او رہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوجائے ۔

۳۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خلود سے مراد اس آیت میں بہت طویل عذاب ہو نہ کہ ہمیشہ کا عذاب۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ اصولی طور پر کیا قتل عمد قابل ِ تو بہ ہے ؟

بعض مفسرین اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قتل عمد درج بالاآیت کے مطابق بنیادی طور پر قابلِ توجہ نہیں ہے اور چندایک روایات میں بھی جو آیت کے ذیل میں آئی ہے اس معنی کی طرف اشارہ موجود ہے کہ ” لا توبة لہ“ ( اس کی کوئی توبہ نہیں ) لیکن تعلیمات اسلام کی روح اور عظیم ہادیانِ حق کی روایات اور توبہ کے فلسفہ( جو تربیت کی بنیاد اور آیندہ کی زندگی میں گناہ سے محفوظ رہنا ہے ) سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی گناہ ایسا نہیں جو قابلِ توبہ نہ ہو ۔ اگر چہ گناہوں سے توبہ کی بہت سخت اور سنگین شرائط ہیں ۔

قرآن مجید کہتا ہے :

( ان الله لایغفر ان یشرک به و یغفر ما دون ذٰلک لمن یشاء ) ( نساء: ۴۸)

خدا صرف شرک کے گناہ کو نہیں بخشتا لیکن اس کے علاوہ جس کے لئے چاہتا اور مصلحت سمجھتا ہے ، اسے بخش دیتا ہے ۔

یہاں تک کہ اس آیت کے ذیل میں پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ آیت شفاعت اور گناہوں سے بخشش کے متعلق ہے ورنہ تو شرک کا گناہ بھی توبہ کرنے اور توحید و اسلام کی طرف پلٹ آنے سے قابل ِ بخشش ہے جیسا کہ صدر اسلام کے اکثر مسلمان ابتدا میں مشرک تھے اور پھر انھوں نے توبہ کی اور خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا ۔ اس وجہ سے صرف شرک ایسا گناہ ہے کہ جو توبہ کئے بغیر بخشا نہیں جاسکتا۔ لیکن توبہ کرنے سے تمام گناہ یہاں تک کہ شرک بھی قال ِ بخشش ہے جیسا کہ سورہ زمر کی آیہ ۵۳ اور ۵۴ میں ہے :

( ان اللّه یغفر الذنوب جمیعاً انه هو الغفورالرحیمو انیبوا الیٰ ربکم و اسلموا له ) ۔

خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا او رمہر بان ہے خد اکی طرف پلٹ آو اور توبہ کرلو اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرلو ۔

بعض مفسرین نے جو یہ کہا ہے کہ توبہ کے سایہ میں تمام گناہوں کی بخشش سے متعلق آیات، اصطلاح کے مطابق جو آیات عام تخصیص کے زمرے میں آئی ہیں ، صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ان آیات کی زبان جوکہ گناہ گاروں کو جہاں مناعی کرتی ہیں اور مختلف تاکید ات کے ساتھ ہیں ۔ قابل تخصیص نہیں ہے اور اصطلاح کے مطابق تخصیص سے انکار نہیں کرتی ہیں ۔ علاوہ از ین اگر واقعاًوہ شخص جس سے قتل عمد سر زد ہوا ہے مکمل طور پر ہمیشہ کے لئے خدا کی بخشش سے مایوس ہ وجائے ( یہاں تک کہ اپنے برے عمل کی بار بار معافی مانگے اور بہت سے نیک اعمال سے برائی کی تلافی بھی کرے) پھر بھی ہمیشہ کی لعنت اور عذاب میں مبتلا رہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی باقی ماندہ عمر میں خدا کی عبادت زیادہ کرے ، برے اعمال سے توبہ کرے اور یہاں تک کہ انسانوں کے بار بار قتل سے توبہ کرے ۔ یہ امر جو تعلیمات انبیاء کی روح کے منافی ہے کیونکہ وہ تو نوع بشر کی ہر مر حلہ میں تربیت کے لئے آئے ہیں تاریخ اسلام میں ہے کہ پیغمبراکرم نے خطر ناک قسم کے گناہ گاروں مثلاً حمزہ بن عبد المطلب کے وحشی قاتل تک کو معاف کردیا اور اور اس کی توبہ قبول کرلی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شرک اور ایمان کی مختلف حالتوں میں قتل اتنا مختلف سمجھا جائے کہ ایک حالت میں تو بخشا جائے اور دوسری حالت میں قابل بخشش نہ ہو ۔ اصولی طور پر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ہم کسی گناہ کو شرک سے بڑھ کر نہیں سمجھتے اور ہم جاتنے ہیں کہ یہ گناہ بھی توبہ اور قبول اسلام سے بخشا جا سکتا ہے ۔ اب کس طرح باور کرسکتے ہیں کہ قتل گناہ حقیقی توبہ کے ذریعے بھی قابل بخشش نہ ہو ۔

ہم نے جواوپر کہا ہے اس سے کوئی اشتباہ نہ ہو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ قتل عمد معمولی اور کم اہمیت کا حامل ہے یا اس سے توبہ بہت آسان ہے بلکہ اس کے برعکس اس گناہ سے حقیقی توبہ بہت ہی مشکل ہے اور یہ اس عمل کی تلافی کی محتاج ہے اور یہ تلافی کوئی آسان کام نہیں ہے ۔(۲)

____________________

۱- کافی تفسیر عیاشی میں اس آیت کے ذیل میں امام صادق سے اس طرح منقول ہے کہ آپ نے فرمایامن قتل مومناً علی دینه فذٰلک المتعمد الذی قال الله تعالیٰ عز و جل فی کتابه وَ اٴَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظیماً ۔

۲ - روایات میں بے گناہ صاحب ایمان افراد کے قتل کی اہمیت کے بارے میں ایسی تعبیرات بیان ہوئی ہیں جو انسان کو جھنجوڑ دیتی ہیں ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:” لزوال الدنیا اهون علی الله من قتل امرء مسلم“

” دنیا کا زوال اور ختم ہو جانا خدا کے ہاں ایک مرد مسلمان کے قتل ہونے سے کمتر ہے “ نیز فرماتے ہیں :” لو ان رجلا قتل بالمشرق و آخر رضی بالمغرب لا شرک فی دمه“

اگر ایک شخص مشرق میں قتل ہو جائے اور دوسرا مغرب میں ہو اور اس راضی ہو تو وہ اس کے خون میں شریک ہے “ ( المنارج ۵ ص ۲۶۱)

قتل کی اقسام

فقہی کتب میں فقہانے قصاص و دیت کے باب میں اسلامی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے قتل کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے :۔” قتل عمد“ ”قتل شبیہ عمد“ ” اور قتل اشتباہ “۔

قتل عمد

یہ قتل وہ ہوتا ہے جس میں پہلے سے پختہ ارادہ اور ذرائع قتل کو بروئے کار لایا جاتا ہے ( مثلاً کوئی شخص کسی کو قتل کرنے کے ارادے سے کسی ہتھیار، لکڑی ، پتھریا ہاتھ سے کام لے ) ۔

قتل شبیہ عمد

یہ وہ قتل ہے جس میں قتل کا رادہ نہ ہو لیکن مقتول کے خلاف ایسے اقدام کے لئے جائیں کہ بے خبری میں نوبت اس کے قتل تک پہنچ جائے ۔ مثلاً کسی کو قتل کے ارادے سے مار پیٹا جائے مگر یہ مار پیٹ اتفاقاً اس کے قتل کا سبب بن جائے ۔

قتل اشتباہ

یہ وہ قتل ہے جس میں قتل کا رادہ شامل نہ ہو مقتول کے خلاف کوئی اقدام کرنے کا ارادہ ہو بلکہ یہ ایسا قتل ہے جیسے ارادہ کسی جانور کو شکار کرنے کا ہو مگر غلطی سے تیر انسان کو جالگے اور وہ قتل ہو جائے ۔

ان میں سے ہر قسم کے تفصیلی احکام ہیں جو مکتبِ فقہ میں موجود ہیں ۔

آیت ۹۴

۹۴۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا ضَرَبْتُمْ فی سَبیلِ اللَّهِ فَتَبَیَّنُوا وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ اٴَلْقی إِلَیْکُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیاةِ الدُّنْیا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ کَثیرَةٌ کَذلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا إِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

ترجمہ

۹۴۔اے ایمان لانے والو! جس وقت تم راہِ خدا میں قدم اٹھاتے ہو ( اور جہاد کے لئے آمادہ ہوتے ہو) تو تحقیق کرواور اس شخص کو جو صلح اور اسلام کا اظہار کرتا ہے اسے ( فقط اس بناپر ) یہ نہ کہو کہ تو مسلمان ( مومن ) نہیں کہ دنیائے ناپائیدار کا سر مایہ ( او رمال غنیمت) حاصل کر سکو ۔ کیونکہ خدا کے ہاں (تمہارے لئے ) بڑی بڑی غنیمتیں ( موجود) ہیں تم پہلے ایسے ہی تھے اور خدا نے تم پر احسان کیا( اور تمہاری ہدایت کی ) اس بناپر ( اس عظیم شکرانے کے طورپر)تحقیق کرو، جو کچھ تم عمل کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ۔

شان ِنزول

درج بالاآیت کے بارے میں کئی ایک شان ِ نزول اسلامی روایات اور تفاسیر میں آئی ہیں جو کم و بیش ایک دوسرے سے مما ثلت رکھتی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبر اکرم نے جنگِ خیبر سے واپسی کے بعد اسامہ بن زید کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان یہودیوں کی طرف بھیجا جو فدک کی ایک بستی میں رہتے تھے تاکہ انھیں اسلام یاشرائط ذمہ قبول کرنے کی دعوت دی جائے ۔ ایک یہودی مرد جسے لشکراسلام کے آنے کی خبر ہو ئی تو اس نے اپنے مال اور اولاد کے ساتھ ایک پہاڑ کے دامن میں پناہ لی ۔ پھر خود مسلمانوں کے استقبال کے لئے دوڑآیا۔ اسامہ بن زید نے سوچا کہ یہ یہودی جان او رمال کے خوف سے قبول اسلام کررہا ہے اور دلی طور پر مسلمان نہیں اس پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا او راس کا مال اسباب ( بھیڑ بکریوں ) پر بطور غنیمت قبضہ کرلیا۔ جب یہ خبر پیغمبر کو ملی تو آپ اس واقعہ پر نہایت بر ہم او ررنجیدہ ہوئے اور فرمایا تو نے ایک مسلمان کو قتل کردیا اسامہ پریشان ہو کر کہنے لگا اس شخص نے جان و مال کی حفاظت کے لئے قبول اسلام کیا تھا پیغمبر نے کہا تم اس کے باطن سے آگاہ نہیں تھے تمہیں کیا معلوم شاید وہ حقیقی طور پر مسلمان ہوا ہو تو اس موقع پر اوپر والی آیت نال ہوئی او رمسلمانوں کو تنبیہ کی کہ جنگی غنائم کی وجہ سے کبھی ایسے لوگوں کو مت جھٹلاو جو قبولِ اسلام کرتے ہیں بلکہ جو شخص بھی قبولِ اسلام کرے اس کی بات کو مان لینا چاہئیے۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں بے گناہ افراد کی جان کی حفاظت کے سلسلہ میں ضروری تاکیدات ہو چکیں اب اس آیت میں ان بے گناہ افراد کی جان کی حفاظت کے لئے ایک احتیاطی حکم جو ممکن ہے تہمت کی زد میں آجائیں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : اے ایمان لانے والو! جس وقت جہاد کی راہ میں قدم اٹھاو تو تحقیق اورجستجوکرلو اور ایسے لوگوں کو جو قبول اسلام کریں نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا ضَرَبْتُمْ فی سَبیلِ اللَّهِ فَتَبَیَّنُوا وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ اٴَلْقی إِلَیْکُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً ) ۔

اور حکم دیتا ہے کہ جو لوگ ایمان کا قرار کرتے ہیں انھیں خندہ پیشانی سے قبول کرلو او ران کے قبول اسلام کے بارے میں ہر قسم کیک بد گمانی اور سوءِ ظن سے صرف نظر کر لو اس کے بعد مزید کہتا ہے : کہیں ایسا نہ ہو کہ جہانِ ناپائیدار کی ان نعمتوں کے لئے قبول اسلام کرنے والوں کو تہمت دو اور انھیں ایک دشمن سمجھ کر قتل کردو او ران کا مال و اسباب بطور غنیمت لے لو( تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیاةِ الدُّنْیا ) (۱)

جبکہ ہمیشہ رہنے والی گراں بہا غنیمتیں تو خداکے پاس ہیں( فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ کَثیرَةٌ )

اگر پہلے تم ایسے ہی تھے اور زمانہ جاہلیت میں تمہاری جنگیں غارت گری کی بناپر ہوتی تھیں( کَذلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ ) ۔(۲)

لیکن اب اسلام کے سائے میں اور اس احسان کی وجہ سے جو خدا نے تم پر کیا ہے ، اس کیفیت سے نجات پا چکے ہو اس بناپر اس عظیم نعمت کے شکرانے کے طور پر تمہارے لئے لازم ہے کہ تمام امور میں تحقیق کرو( فَمَنَّ اللَّهُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا ) اور یہ بات جان لو کہ خدا تمہارے اعمال اور نیتوں سے آگاہ ہے( إِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

اسلامی جہاد مادی پہلو نہیں رکھتادرج بالاآیت میں بڑے واضح طور پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ کسی مسلمان کو نہیں چاہئیے کہ وہ مادی مفاد حاصل کرنے کے لئے میدان ِ جہاد میں قدم رکھے اس لئے اسے کہا گیا ہے کہ دشمن کی طرف سے پہلی مرتبہ ہی اظہار ایمان کو مان لے اور اس کی صلح کی پیش رفت کا جواب دے ، چاہے کتنی ہی مادی نعمتوں سے محروم ہوناپڑے ۔ کیونکہ اسلامی جہاد کا مقصد توسع پسندی او رمالِ غنیمت جمع کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اور ہدف نوعِ انسانی کو انسانوں کی غلامی اور زور وزر کے خداوں کی بندگی سے نجات دلانا ہے ۔اور جس وقت امید کی یہ راہ نظر آئے تو فوراً اپنا لینی چاہیئے مندر جہ بالا آیت میں آیا ہے : تم بھی ایک دن اسی طرح پست افکار رکھتے تھے اور مادی فوائد کے لئے لوگوں کا خون بہاتے تھے لیکن آج وہ صورتِ حال بالکل بدل چکی ہے ۔علاوہ ازیں تم خود دائرہ اسلام میں داخل ہوتے وقت سوائے اظہار ایمان کے کیا کرتے تھے اس قانون سے دوسروں کے بارے میں کیوں اجتناب کرتے ہوجس سے تم خود مستفید ہوتے رہے ہو ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

اس آیت کے مضمون پر توجہ کرتے ہوئے ہو سکتا ہے یہ اعتراض پیدا ہوگیا ہو کہ اسلام لوگوں کو اس دین سے وابستہ ہونے کے ظاہری دعووں کو قبول کرکے اسلامی ماحول میں ” منافقین “ کے داخل ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔ اس لائحہ عمل سے ممکن ہے بہت سے لوگ غلط فائدہ اٹھائیں اور اسلام کی آڑ میں جاسوسی اور غیر اسلامی اعمال و افعال کے مرتکب ہوں ۔شاید دنیا میں کوئی ایسا قانون نہ ہو جس میں غلط فائدہ اٹھانے والوں کے لئے گنجائش نہ ہو ۔ اہم بات یہ ہے کہ قانون کو واضح مصلحتوں کا حامل ہو نا چاہئیے اب اگر اس بناپر کہا جائیے کہ قبولِ اسلام کرنے والے کی جب تک دلی کیفیت کا پتہ نہ لگایا جائے اس کے دعوے کو قبول نہ کیا جائے تو اس سے بہت سے مفاسد پیدا ہو جائیں گے جن کا نقصان کہیں زیادہ ہے اور انسانی فطرت و عواطف کے اصول نیست و نابود ہو جائیں گے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے سے کوئی گلہ اور شکایت ، کینہ اور حسد رکھتا ہو، وہ اسے تہمت لگا سکتا ہے کہ اس کا اسلام دکھاوے کا ہے اور اس کے دل کی گہرائیوں سے ہم آہنگ نہیں اس طرح بہت سے بے گناہ قتل کردئے جائیں گے اس کے علاوہ ہر دین اور مذہب کی طرف مائل اور راغب ہونے کی ابتدا میں ایسے افراد بھی موجود ہوتے ہیں جو بھول پن میں ، رکھ رکھاو کے لئے اور ظاہرہی طو ر پر مائل ہو تے ہیں لیکن وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اور اس دین سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان محکم اور مضبوط ہو جاتے ہیں اور ایمان کی جڑیں ان کے دلوں میں راسخ ہو جاتی ہیں اس وجہ سے ایسے لوگوں کو دھتکارا نہیں جاسکتا ۔

____________________

۱”عرض“ ( بر وزن مرض ) کا معنی ہے ایسی چیز جو ثبات اور پائیداری نہ رکھتی ہو ۔ اس بنا پر عوض الحیوة الدنیا کا معنی ہے دنیاوی زندگی کا سرمایہ جو بغیر استثناء کے سب ناپائیدار ہے ۔

۲ اس جملہ کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی بتا یا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم خود بھی اسلام لانے کی ابتدا میں یہی کیفیت رکھتے تھے یعنی زبان سے اسلام کی حقانیت کی گواہی دیتے تھے اور وہ تم سے قبول کرلی گئی جبکہ تمہارے دل میں چھپی ہوئی بات کسی پر واضح نہیں تھی ۔

آیت ۹۵

۹۵۔( لا یَسْتَوِی الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنینَ غَیْرُ اٴُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجاهِدُونَ فی سَبیلِ اللَّهِ بِاٴَمْوالِهِمْ وَ اٴَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدینَ بِاٴَمْوالِهِمْ وَ اٴَنْفُسِهِمْ عَلَی الْقاعِدینَ دَرَجَةً وَ کُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنی وَ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدینَ عَلَی الْقاعِدینَ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔

۹۶۔( دَرَجاتٍ مِنْهُ وَ مَغْفِرَةً وَ رَحْمَةً وَ کانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

ترجمہ

۹۵۔ وہ صاحب ایمان جو بغیر بیماری اور تکلیف کے جہاد سے دستبردار ہو گئے اور وہ مجاہد جنھوں نے اپنے مال اور جان کے ذریعے جہاد میں حصہ لیا برابر نہیں ہیں ۔ خدا نے ان مجاہدوں کو جنھوں نے جان اور مال سے جہاد کیا ہے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت او ربر تری دی ہے ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کو ( ان کے نیک اعمال پر ) خدا نیک جزا کا وعدہ کرتا ہے او ر مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت اور اجر عظیم بخشتا ہے ۔

۹۶۔ خدا کی طرف سے (اہم ) درجات اور بخشش و ررحمت( انھیں نصیب ہوگی ) اور( اگر ان سے کچھ لغزشیں ہوئی ہیں )تو خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں جہاد کے متعلق گفتگو ہو تھی یہ دو آیات مجاہدین اور غیر مجاہدین کا تقابل او رموازنہ کرتی ہیں ۔ خدا کہتا ہے : وہ ایمان کہ جو میدان جہاد میں شرکت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں جبکہ انھیں اسی خاص بیماری بھی لاحق نہیں کہ جو انھیں میدان جہاد میں شر کت کرنے سے مانع ہو کبھی ان مجاہدین کے ہم پلہ او ربرابر نہیں ہو سکتے جو راہ خدا میں اور اعلائے کلمہ حق کے لئے اپنی جان و مال سے جہاد کرتے ہیں( لا یَسْتَوِی الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنینَ غَیْرُ اٴُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجاهِدُونَ فی سَبیلِ اللَّهِ بِاٴَمْوالِهِمْ وَ اٴَنْفُسِهِمْ )

واضح ہے کہ ” قاعدون“ سے مراد یہاں وہ افراد ہیں جنھوں نے اصول ِ ایمان پر ایمان رکھنے کے باوجود ہمت اور جوانمردی نہ دکھانے کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہیں کی ۔ اگر چہ ان کے لئے یہ جہاد واجب عینی نہیں تھا کیونکہ اگر ان کے لئے واجب ہوتا تو قرآن ان کے بارے میں ایسے نرم اور ملائم لہجے میں بات نہ کرتا او را ٓیت کے آخر میں ان سے بدلے اور جزا کا وعدہ نہ کرتا اس وجہ سے جب یہ صورتحال ہو کہ جہاد واجب عینی نہ ہو” مجاہدین “ قاعدین “ کے مقابلے میں واضح طور پر برتر ہیں بہر حال اس آیت میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو نفاق یا دشمنی کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہوئے

ضمنی طور پر یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ” غیر اولی الضرر“کی تعبیر ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے ، جو ان تمام افراد کو ( جہاد سے ) مستثنیٰ قرار دیتی ہے جوکسی عضو کے نقص ، بیماری یا بہت زیادہ کمزوروی اور ضعف وغیرہ کے سبب جہاد میں شرکت کی سکت نہیں رکھتے اس کے بعد پھر مجاہدین کی بر تری اور فضیلت کو صراحت اور فصاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

خدا ان مجاہدین کو جو جان و مال سے اس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں ، ان لوگوں پر عظیم فضیلت بخشتا ہے جو میدان جہاد میں شرکت سے اجتناب او رکنارہ کشی کرتے ہیں( فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدینَ بِاٴَمْوالِهِمْ وَ اٴَنْفُسِهِمْ عَلَی الْقاعِدینَ دَرَجَةً ) (۱)

لیکن باوجود اس کے جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ مجاہدین کے گروہ کے مد مقابل وہ افراد ہیں جن پر جہاد ” واجب عینی “ نہیں تھا ۔ یا وہ بیماری، ناتوانی یا د یگر علل کی وجوہ سے میدان جہاد میں شرکت کی سکت نہیں رکھتے تھے ۔ لہٰذا اس وجہ سے کہ ان کی صالح نیت ایمان او رنیک اعمال نظرانداز نہ ہوں انھیں بھی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے : دونوں گروہوں ( مجاہدین وغیر مجاہدین ) سے اچھائی کا وعدہ کیا گیا ہے( وَ کُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنی ) لیکن واضح ہے کہ وہ اچھائی کا وعدہ دونوں سے کیا گیا ہے اس میں بہت زیادہ فرق ہے حقیقت میں قرآن اس بیان کے ذریعے نشاندہی کرتا ہے کہ ہر نیک کام کا حصہ اپنی جگہ پر محفوظ ہے اور بھولنے والا نہیں ۔ خصوصاًجبکہ بحث جہاد سے کنارہ کش ہونے والے ایسے افراد کے متعلق ہے جو جہاد میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اور اسے ایک بہت بڑی سعادت اور مقصد سمجھتے تھے لیکن چونکہ یہ واجب عینی نہ تھا اس بناپر وہ ایک بڑی سعادت سے محروم رہ گئے اس کے باوجود وہ جتنا لگاو اس کام ( جہاد) سے رکھتے ہیں اس قدر جزا پائیں گے اس طرح( اولی الضرر) افراد بھی جو ( بیماری یا کسی عضو کے ناقص ہونے کی وجہ سے میدانِ جہاد میں شریک نہیں ہوئے ) مکمل طور پر اس سے لگاو رکھتے تھے وہ بھی مجاہدین کی جزا او ربدلے میں سے قابلِ ذکر حصہ پائیں گے ۔

جیسا کہ پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے لشکر اسلام سے فرمایا:

لقد خلفتم فی المدینة اقواماً ماسرتم سیراً ولاقطعتم وادیاً الاکانوا معکم و هم الذین صحت نیانهم و نصحت جیوهم وهوت افئدتهم الیٰ الجهادو قد منعهم عن المسیر ضرر اوغیره

مدینہ میں تم کچھ لوگوں کو اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو کہ جو اس راہ میں قدم قدم پر تمہارے ساتھ تھے ( اور خدا ئی اجر اور صلے میں شریک تھے ) وہ ایسے لوگ ہیں جن کی نیت پاک ہے اور وہ بہت زیادہ خیر خواہی کرنے والے ہیں اور ان کے دل جہاد کے مشتاق تھے مگر کچھ مجبور یوں مثلاً بیماری اور نقص وغیرہ نے انھیں اس کام سے روک دیا ہے ۔(۲)

لیکن چونکہ اسلام میں جہاد کی اہمیت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے لہٰذا دوبارہ مجاہدین کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کرتا ہے :

خدا نے مجاہدین کو قاعدین پر اجر عظیم بخشا ہے( وَ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدینَ عَلَی الْقاعِدینَ اٴَجْراً عَظیماً ) ) ۔

بعد از آں آیت میں ” اجر عظیم “ کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو خدا کی طرف سے اہم درجات اور اس کی بخشش و رحمت ہے( دَرَجاتٍ مِنْهُ وَ مَغْفِرَةً وَ رَحْمَةً )

اور اگر اس دوران میں کچھ افراد فرائض کی انجام دہی کرتے کرتے ہوئے کچھ لغزشوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنے کئے پر پشمان ہیں تو خدانے انسے بھی بخشش ونجات کا وعدہ کیا ہے ۔ لہٰذا آیت کے آخر میں فرماتا ہے( وَ کانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

____________________

۱-درجہ کا لفظ بطور نکرہ آیا ہے جیساکہ کتب ادب میں ہے کہ ایسے موقع پر نکرہ وظمت و اہمیت ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے گویا اس قدر انکا درجہ بلند ہے جو مکمل طور پر پہچانا نہیں جاتا اور یہ اس طرح ہے کہ جب کسی چیز کی بہت زیادہ قدر و قیمت بیان کرنی ہو تو کہا جا تا ہے کہ ا س کی قیمت کو ئی نہیں جانتا۔

۲۔ تفسیر صافی، زیر نظر آیت کے ذیل میں ۔

چند اہم نکات

بلاغت کا ایک پہلو

۱۔ اوپر والی آیت میں تین مرتبہ مجاہدین کا نام آیا ہے پہلی دفعہ مجاہدین کا ذکر ہدف و مقصد اور وسیلہ و ذریعہ کے ساتھ ہوا ہے ( المجاہدین فی سبیل اللہ باموالھم ) اور دوسری دفعہ صرف وسیلہ جہاد کا ذکر ہوا ہے لیکن ہدف و مقصد کا تذکرہ نہیں ہے ( المجاہدین ماموالھم و انفسھم ) اور تیسرے مرحلے میں صرف مجاہدین کا نام آیتا ہے ( المجاہدین ) اور یہ بلاغت کلام کا ایک واضح نکتہ ہے کہ جب سننے والا مرحلہ بہ مرحلہ موضوع سے زیادہ آشنا ہوتاچلا جاتا ہے تو اس کی قیود او رمشخصات کو کم کرتے چلے جاتے ہیں اور آشنائی و شنا سائی کا معاملہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ صرف ایک اشارے ہی سے تما م چیزیں معلوم ہوجاتی ہیں ۔

”درجة“ ” درجات“

۲۔ آیت میں پہلے تو مجاہدین کی قاعدین پر فضیلت وبر تری کے لئے لفظ” درجة“ اور استعمال کیاگیا ہے جبکہ دوسری آیت میں جمع کی صورت میں لفظ” درجات“ استعمال ہوا ہے ظاہراً ان دوتعبیروں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ پہلی تعبیر میں مجاہدین کے مقصد کی اپنے غیر پر اصل فضیلت کا تذکرہ ہے لیکن دوسری طرف تعبیر میں اس برتری کی تفصیل بیان کی گئی ہے اس لئے رحمت و مغفرت کا ذکربھی ساتھ ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ان دونوں میں اجمال اور تفصیل والافرق ہے ضمنی طور پر ”درجات “ کی تعبیر سے یہ معنی بھی لیا جاسکتا ہے کہ سب مجاہدین ایک درجہ اور پایہ کے نہیں ہیں اور ان کے خلوص، جانثاری اور تکالیف برداشتکرنے کے لحاظ سے ان کے معنوی اور دنیاوی مقامات بھی مختلف ہیں کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ تمام مجاہدین جو ایک ہی صف میں دشمن کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں نہ وہ ایک جتنا جہاد کرتے ہیں اور نہ ہی ایک جیسا خلوص رکھتے ہیں ۔ اسی بناپر ہر ایک اپنے عمل اور نیت کی مناسبت سے جزا اور صلہ پائے گا۔

جہاد کی انتہائی تاکید

جہادعالم آب وگل کا ایک عمومی قانون ہے اور دنیا میں جو بھی چیز ہے چاہے وہ نباتات میں سے ہو یا حیوانات میں سے ۔

جہاد کے ذریعہ اپنا راستہ صاف کرتی ہے تاکہ اپنے مطلوبہ کمالات تک پہنچ جائے مثلاً ہم درخت کی جڑیں دیکھیں تووہ قوت اور غذا حاصل کرنے کے لئے ہر قوت فعال اور متحرک رہتی ہیں اگروہ یہ فعالیت اور سعی چھوڑدیں تو ان کے لئے زندہ رہنا ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ زمین میں اگر انھیں رکا وٹیں در پیش ہوں تو اگر ان میں اتنی طاقت ہو تو وہ ان میں سوراخ کرکے آگے بڑھ جاتی ہیں تعجب اس بات پر ہے کہ یہ لطیف اور نازک جڑین بعض اوقات فولادی اوزاروں کی طرح اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں سے ٹکراجاتی ہیں اور اگر یہ جڑیں کمزور ہو ں تو بھی راستہ بدل کر رکاوٹ عبور کرلیتی ہیں ۔

اگر ہم اپنے جسم کو دیکھیں تو اس کے اندر بھی رات دن بلکہ سوتے جاگتے ایک عجیب و غریب قسم کی جنگ جاری رہتی ہے یہ جنگ ہمارے خون کے سفید جرثوموں اور حملہ آور دشمن کے درمیان جاری رہتی ہے اگر ایک لمحے کے لئے بھی یہ جنگ رک جائے اور جسم کی حفاظت کرنے والے یہ محافظ جنگ سے دستبردار ہو جائیں تو طرح طرح کے مو ذی امراض ہمارے جسم کو گھیر لیں او رہماری سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے ۔

بالکل یہی صورت انسانی معاشروں ، قوموں او رملتوں کی ہے وہ لوگ جو ہمیشہ جہاد اور نگہبانی کی حالت میں رہتے ہیں ہمیشہ زندہ او رکامران رہتے ہیں اور وہ لوگ جو سوچتے ہیں کہ عیش و عشرت میں وقت گذارا جائے اور جو انفراد سطح پر زندہ رہنا چاہتے ہیں وہ جلد بدیر مٹ جا تے ہیں او ران کی جگہ زندہ او رمجاہد قوم لے لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ رسول خدا فرماتے ہیں :

فمن ترک الجهاد البسه ذلا و فقرا فی معیشة و محقاً فی دینه انّ الله اعزامتی بسنابک خیلها و مراکز و ماحها ۔(۱)

” جو شخص جہاد کو ترک کردیتا ہے خدا اسے ذلت کا لباس پہنا دیتا ہے اور فقر و فاقہ اس کی زندگی پر اور تاریکی و سیاہی اس کے دین پر منحوس سائے کی طرف چھا جاتی ہے ۔ خدا وند عالم میری امت کو گھوڑوں کے سموں کے ذریعے جوجہاد میں آگے جاتے ہیں اور نیزوں کی انیوں کے وسیلے سے عزت بخشتا ہے ۔“

رسول خدا ایک اور موقع پر فرما تے ہیں :

اغزوا تورثوا ابنآ ء کم مجداً ۔(۲)

” جہاد کرو تاکہ عظمت اپنی اولاد کو ورثے میں دے جاو“۔

حضرت علی امیر المومنین (علیه السلام)خطبہ جہاد میں اس طرح فرماتے ہیں :

فان الجهاد باب من ابواب الجنة فتحه الله لخاصة اولیائه وهو لباس التقوی و درع اللّه المعینة و جنة الوثیقه فمن ترکه رغبة عنه البسه الله ثوب الذل و شمه البلاء و دیث الصغار و القماء ة (۳)

” جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے خد انے اپنے مخصوص دوستوں کے لئے کھول رکھا ہے ، جہاد تقویٰ کا پر فضیلت لباس ہے ، جہاد خدا کی ناقابل شکست زرہ ہے ، جہاد پروردگار عالم کی سپر اور ڈھال ہے ، جو شخص جہاد کو تر ک کردیتا ہے خدا اس کے جسم پر ذلت اور مصیبت کا لباس پہنا دیتا ہے اور اسے لوگوں کی نگاہ میں ذلیل و خوار کردیتا ہے “۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاد صرف مسلح جنگ وجدال کا نام نہیں بلکہ جہاد میں ہر وہ کوشش اور شامل ہے جو خدا ئی مقدس اہداف و مقاصد کے حصول میں مدد گار ثابت ہو ۔ جہاد کا مفہوم دفاعی او رمسلح جنگوں کے علاوہ علمی ، منطقی ، اقتصادی اور سیاسی مقابلوں پربھی محیط ہے ۔

____________________

۱ ۔وسائل کتاب جہاد ابواب جہاد العددویناسبہ باب یکم حدیث ( ۱۶۰)

۲ ۔وسائل کتاب جہاد ابواب جہاد العددویناسبہ باب یکم حدیث ( ۱۶۰)

۳ ۔ نہج ا؛لبلاغة خطبہ ۲۷۔

اسی بنا پر ہم سیف کی ان دوگانہ تحریف میں سے کس کی تائید کریں گے ؟ کیا اس کی ان تحریفات کی تائید کریں جن میں اس نے بڑی شخصیتوں کے دفاع میں اصل تاریخی رودادوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے جبکہ خود طبری نے دوسرے راویوں سے ان واقعات کو دوسری طرح سے نقل کیا ہے یا اس کی داستانوں کی دوسری قسم کی تائید کریں جو توہمات اور خرافات پر مشتمل ہیں ، کیا اس قسم کی داستان سرائی کو روایات میں اجمال و تفصیل کہیں گے یا روایتوں میں الٹ پلٹ اور تحریف کا نام دیں گے؟

لیکن، جس دوسرے نکتہ کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ ایک خاص علاقہ کی تاریخ لکھنے والا گمنام افراد کا نام لیتا ہے اور جو عام تاریخ لکھتا ہے وہ اس قسم کے مطالب میں مداخلت نہیں کرتا ہے ۔

ہم جواب میں کہتے ہیں : کیا آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ عمرو کے دو بیٹے قعقاع اور عاصم جن کا سیف نے نام لیا ہے ، گمنام افراد تھے ؟ نہیں ، ہرگز ایسانہیں ہے سیف کہتا ہے کہ قعقاع رسول خدا کے اصحاب میں سے تھا اور اس نے حدیث نقل کی ہیں ،وہ سقیفہ میں حاضر تھا ، ابوبکر نے اسے خالد کی مدد کیلئے بھیجا ہے اور ا سکے بارے میں یوں کہا ہے : ”جس فوج میں قعقاع جیسے افراد موجود ہوں وہ فوج فرار نہیں کرے گی “ وہ عراق میں خالد کی جنگوں میں شریک تھا ، جب خالد، اسلام کے سپاہیوں کی مدد کیلئے شام کی طرف روانہ ہوا تو اسے اپنے ساتھ لے گیا ، دمشق کی فتح اور اس پر تسلط جمانے کا سبب قعقاع کا اپنے ساتھی کے ہمراہ قلعہ کی دیوار پر چڑھنا تھا اس کے بعد عمر نے اسے دوبار ہ جنگ قادسیہ میں سعد کی مدد کیلئے وہاں سے عراق کی طر ف لوٹا دیا اور اس نے سفید ہاتھی کی آنکھ کو نکال کر اسے اندھابنا دیا قادسیہ کی جنگ میں اس کی بہادریاں مسلمانوں کی فتح و کامرانی کا سبب بنیں ۔

سیف کے نام گزاری کئے گئے ایام : ” الاغواث“ ”عماس “ اور ” الامارث “ میں اس نے مدد کی ہے ۔

سعد نے اس جنگ میں اسکے بارے میں عمر کو یہ تعریفیں لکھیں کہ ”وہ شہسوار ترین سپاہی ہے “ اس جنگ کے بعد عمر نے اسے ایک بار پھر مسلمانوں کی نصرت کیلئے یرموک کی جنگ میں شام بھیجا ، وہاں پر مسلمانوں کی مدد کرنے کے بعد تیسری بار عراق کی طرف روانہ ہوا اور نہاوند کی جنگ میں شرکت کی ، وہاں پر وہ شہر کے اندرپناہ لئے ہوئے ایرانیوں کو باہر لا کر صحرا تک کھینچ لانے میں کامیاب ہوا ،ان کامیابیوں کے بعد عمر نے اسے عراق کی سرحدوں کے محافظوں کے سردار کے طور پر مقرر کرکے اسے سرحد کا نگہبان بنا دیا۔

اس بناء پر دونوں خلیفہ ابوبکر اور عمر قعقاع کو ہر نامناسب حادثہ روکنے کیلئے بھیجتے تھے ، لیکن عثمان نے اسے کوفہ کا سپہ سالار مقرر کیا اور وہ سبائیوں کی تحریک اور ان کی بغاوت تک اس عہدہ پر فائز رہا اور اس شورش کو کچلنے میں کوشش کی جب عثمان محاصرہ میں قرار پایا تو اس کی نصرت کیلئے ایک فوج کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا ، لیکن اس سے پہلے کہ مدد کرنے والے پہنچ جاتے عثمان قتل ہوچکے تھے لہذا وہ واپس کوفہ کی طرف لوٹا ۔

علی کی خلافت میں اس نے کوفہ کے لوگوں کو جنگ جمل میں علی سے ملحق ہونے پر آمادہ کیا اور علی و عائشہ اور اس کے حامیوں (طلحہ و زبیر) کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوا تھا ، اگر سبائی دھوکے میں جنگ کے شعلوں کو نہ بھڑکاتے جب جنگ چھڑ گئی تو وہی تھا جس نے عائشہ کے اونٹ کا تعاقب کرکے اس پر قابو پاکر جنگ کا خاتمہ کیا اور وہی تھا جس نے عائشہ کے لشکر کو امان دیدی۔

معاویہ کے زمانے میں وہ ان افراد میں سے تھا جنہیں معاویہ کے حکم سے فلسطین کی ” ایلیا “ نامی جگہ پر جلا وطن کیا گیا ، کیونکہ وہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے لئے مخصوص اصحاب میں سے تھا ۔

لیکن اس کا بھائی عاصم : اس کے بارے میں سیف یوں کہتا ہے کہ وہ ۱۲ ھئمیں خالد کے ساتھ یمامہ سے عراق کی طرف کوچ کیا، سیف نے اس کے بارے میں بہت سارے بہادری و شجاعت کے قصے جیسے جنگ قادسیہ میں ہاتھیوں کو اندھا بنانا وغیرہ نقل کی ہیں ۔ خلیفہ عمر نے اسے علاء کی مدد کیلئے فارس بھیجا ہے ، یہ وہی ہے جس کے ساتھ گائے نے گفتگو کی ، عمر نے سیستان کی جنگ کا پرچم اس کے ہاتھ میں دیا اس کے بعد اسے کرمان کی گورنری اور فرماں روائی سونپی اور اپنی وفات ۲۹ ھء تک وہا ں کی گورنری کے عہدہ پر فائز تھا ۔

سیف نے ان دو جنگجو بھائیوں کے بارے میں ا ن تمام اخلاقی خوبیوں کے علاوہ اشعار و مناقب بھی بیان کئے ہیں ۔

کیا بقول سیف جنگجو اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی دو بھائیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ گمنام افراد میں سے ہوں گے ؟ جبکہ سیف نے ان کیلئے اتنی خصوصیات بیان کی ہیں اور خلفاء کی طرف سے مختلف مراحل میں اتنی نوازشیں اور فرمان روائیاں عطا کی گئی ہیں اور ان سے اتنے اشعار نقل ہوئے ہیں کیا خالد بن ولید کیلئے اتنیشجاعت و بہادری کے قصے کتابوں میں بیان ہوئی ہیں جتنی سیف نے قعقاع کیلئے نقل کی ہیں ؟ اس کے باوجود کیا علت ہے کہ ان دو افراد کا نام صرف سیف کی روایتوں میں ذکر ہوا ہے ؟

طبری نے ۱۰ ھء سے ۲۹ ھء تک کی رودادوں کے بارے میں جو کچھ سیف سے نقل کیا ہے میں نے اسے اسی مدت کے بارے میں د وسروں کی روایتوں سے موازنہ اور تطبیق کیا اور اسی طرح جو کچھ ابن عساکر نے اپنی تاریخ دمشق کی ج ۱ و رج / ۲ میں سیف اور غیر سیف سے روایت کی ہے ، دونوں کی تطبیق کی، لیکن ان دو جنگجوؤں کا کہیں نام ونشان نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ ابن شہاب (وفات ۱۲۴ ھء) ، موسی بن عقبہ (پیدائش ۱۴۱ ھء) ، ابن اسحاق (پیدائش ۱۵۲ ھء) ، ابو مخنف (پیدائش ۱۵۷ ھء) ، محمد بن سائب (پیدائش ۱۴۶) ابن ہشام (پیدائش ۲۰۶ ھء) ، واقدی (پیدائش ۲۰۷ ھء) اور زبیر بن بکار (پیدائش ۲۴۷ ھء) کی روایتوں اور دوسرے راویوں کی روایتوں میں جس سے طبری اور ابن عساکر نے دسیوں روایتیں ان رودادوں کے بارے میں نقل کی ہیں کہ سیف نے ایسی ہی رودادوں میں ان دو بھائیوں کا نام ذکر کیا ہے لیکن ان دوبھائیوں کے بارے میں ا نہوں نے کہیں نام تک نہیں لیا ۔

میں نے اس موازنہ میں صرف اس پر اکتفاء کیا ہے جسے طبری نے سیف اور دوسروں سے نقل کیا ہے اور ابن عساکر کو صرف ایک گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے چونکہ میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنی بات کے تیسرے مرحلہ میں اس مطلب کے بارے میں یاددہانی کی ہے کہ ہم موازنہ اور مقابلہ میں تاریخ طبری پر اکتفاء کریں ، ورنہ میں آپ کے اس نظریہ سے اتفاق نہیں ر کھتا ہوں کہ صرف تاریخ طبری کو اہمیت دی جائے اور اسی پر اکتفاء کیا جائے (اگر آپ اس قسم کا اعتقاد رکھتے ہیں ؟)

آپ کے کہنے کے مطابق یاددہانی اور آگاہی کیلئے قعقاع اور عاصم کے بارے میں کیوں طبقات ابن سعد کی طرف رجوع نہ کریں ؟ کیا ابن سعد نے کوفہ میں رہنے والے اصحاب ، تابعین اور دانشوروں ،کی زندگی کے حالات پر روشنی نہیں ڈالی ہے ؟ اور یہ دو بہادر جنگجو کو سیف کے کہنے کے مطابق کوفہ کی معروف شخصتیں اور جنگجو تھے ؟!

کیا وجہ ہے کہ ہم آشنائی حاصل کرنے کیلئے کتاب ” الاصابہ “ کی طرف رجوع نہ کریں جبکہ ابن حجر بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں صورتوں میں سیف سے روایتیں نقل کرتے ہیں ؟

کیوں نہ ہم ” الاستعیاب “ ” اسد الغابہ “ اور ” التجرید “ کا مطالعہ کریں اور ان کے سیف سے نقل کئے گئے اصحاب کی زندگی کے حالات کو نہ پڑھیں ؟ کیا یہ کتابیں اصحاب کی زندگی کے حالات کی تشریح کرنے میں خصوصیت نہیں رکھتی ہیں ؟! ہم کیوں تاریخ ابن عساکر کی طرف رجوع نہ کریں اور اس کے ہر موضوع پر لکھے گئے مطالب کو نہ پڑھیں ،جو روایتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے اس نے حتی الامکان تمام روایتوں کو حتی سیف اور غیر سیف سے نقل کیا ہے ؟!

سیف کی فتوحات کی بحث میں ہم کتاب ” معجم البلدان “کا کیوں مطالعہ نہ کریں ؟ جبکہ اس کے مصنف کے پاس سیف کی کتا ب” فتوح “ کا تصحیح شدہ ابن خاضبہ کا لکھا ہوا قلمی نسخہ موجود تھا چنانچہ اس نے شہردں کی تاریخ لکھنے والے تمام مؤلفین کا ذکر کیا ہے کیوں نہ ہم ان کا مطالعہ کرکے موازنہ کریں ؟ اور اس بحث سے مربوط دوسری کتابوں کاکیوں ہم مطالعہ نہ کریں ؟ اس کی کیا دلیل ہے کہ ہم اپنی تحقیق، مطالعہ ، اور موازنہ کو طبری کی روایتوں تک محدود کرکے رکھیں ؟

میں واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ سچی روایتیں نہ لکھنے میں طبری کا تعمد اور اس کی خود غرضی شامل تھی میں اسے اس موضوع کے بارے میں ملزم جانتا ہوں ، کیا یہ شخص وہی نہیں ہے جو ۳۰ ھء کی رودادوں کو لکھتے ہوئے ابو ذر کی زندگی کے حالات کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

” اس سال یعنی ۳۰ ھء میں معاویہ اور ابوذر کا واقعہ پیش آیا اور معاویہ نے اسے شام سے مدینہ بھیج دیا ، اس جلاوطنی اور مدینہ بھیجنے کے بارے میں بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں کہ مجھے ان میں سے بہت سی چیزوں کا ذکر کرنا پسند ہے لیکن جو لوگ اس قضیہ میں معاویہ کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اس سلسلہ میں ایک داستان نقل کی ہے کہ سیر نے اسے لکھا ہے کہ شعیب نے اسے بقول سیف اس کیلئے نقل کیا ہے “(۱)

تاریخ طبری کا اس کے بعد والے افراد کیلئے قابل اعتماد بننے اور ان کا اس پر بھروسہ کرنے کا یہی موضوع سبب بنا ہے اس مطلب کی تفصیلات اور وضاحت کیلئے تاریخ ابن اثیر کا مقدمہ ، جہاں پر ۳۰ ھء میں ابوذر کی روداد بیان کی گئی ہے ،تاریخ ابن کثیر ،ج ۷ ص ۲۴۷ اور ابن خلدون جنگ جمل کی داستان کا آخری حصہ اور معاویہ کے ساتھ امام حسن کی صلح کا واقعہ مطالعہ کیا جائے(۲)

____________________

۱۔ طبری، ج ۴/ ص ۶۴

۲۔ اس کتاب کی ابتداء میں ” افسانہ کا سرچشمہ ”‘ نامی فصل ملاحظہ ہو

یہ طبری کا حال ہے نیز ان لوگوں کا جنہوں نے طبری پر اعتماد کر کے اس سے نقل کیا ہے لہذا یہکیسےممکن ہے کہ ہم اپنی تحقیقات اور چھان بین کو تاریخ طبری تک ہی محدود کر دیں ؟

آپ نے اپنے خط کے چوتھے بند میں لکھا تھا: سیف کی ان جگہوں کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں پر اس کی روایتیں دوسروں کی روایتوں کے ہم آہنگ اور بالکل ویسی ہی ہیں ؟ کیا اس صورت میں بھی آپ اسے حدیث جعل کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں ؟یہاں تک آپ نے لکھا کہ: ” میں امید کرتا ہوں آپ سیف کی روایتوں پر تحقیقات کرتے وقت معین کریں کہ کیا سیف کی ساری روایتوں کوکہ جو کچھ اس سے نقل ہوا ہے اس میں مکمل طور پر الگ کر دیا جائے یا کم از کم اس کی بعض روایتوں کو قبول کیا جائے ؟

اس کے جواب میں کہنا چاہتا ہوں : سیف کی تاریخی روایتوں کی میری نظر میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے میں اس کی وقعت ہارون رشید کے زمانے کی داستانوں پر مشتمل لکھی گئی کتاب ” الف لیلیٰ“ سے زیادہ نہیں سمجھتا جس طرح ہم کتاب ” الف لیلیٰ“ کو ہارون رشید کے زمانے کے بارے میں تاریخ کے ایک مآخذ اور نص کے طور پر مطالعہ نہیں کرتے بلکہ اسے ایک ادبی داستان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اسے تھکاوٹ دور کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے ایک وسیلہ کے طور پر جانتے ہیں حقیقت میں بعض اوقات ان داستانوں میں داستان لکھنے والے کی شخصیت کو پہچانا جاسکتا ہے اور اس کے ہم عصر لوگوں کی فکری سطح پر تحقیق کی جاسکتی ہے اور اسی طرح اس زمانے میں ملک کی ثقافت و تمدن کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کا خود داستان کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا ۔

میں سیف کی داستانوں کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور داستان کے اسلوب سے ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ہمارا یہ طاقتور داستان نویس اپنی داستانوں کیلئے مآخذ اور اسناد جعل کرنے کیلئے مجبور تھا تا کہ ان داستانوں کا سلسلہ اس زمانے تک پہنچ جائے جس کے بارے میں اس نے داستانیں لکھی ہیں کیونکہ اس کا زمانہ ” جرجی زیدان “ کا زمانہ تھا کہ اپنے تاریخی افسانوں کیلئے سند جعل کرنے کی ضرورت نہ رکھتا ہو ۔

میرے نزدیک سیف کی روایتوں کی حیثیت ایسی ہے کہ میں ان میں سے کسی ایک پر اعتماد نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ جس نے اتنا جھوٹ بولا ہو اس پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے دوسرے مواقع پر بھی جھوٹ نہ کہا ہوگا لہذا عقل حکم دیتی ہے کہ سیف کی کسی بھی روایت پر اعتماد نہ کیا جائے میں اگر سیف سے روایت کی گئی کسی داستان کو کسی دوسرے معتبر طریقے سے حاصل کروں تو اسے قبول کروں گا لیکن اس حالت میں ترجیح دوں گا کہ سیف کی روایت کو کالعدم قرار دوں ۔

اپنے خط کے پانچویں حصہ میں آپ نے ذکر کیا ہے: میں نے سیف کے توسط سے حوادث اور روئداد وں کے سالوں میں سیف پر تحریفات کی تہمت لگائی ہے اور لفظ تحریف سے روئیدادوں کے سال تعیین کرنے میں عمداً یہ کام انجام دینے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے ، جبکہ یہ صرف سیف نہیں تھا جس نے حوادث کے سالوں کے تعیین میں اختلاف کیا ہے ۔

میں اس کے جواب میں کہتا ہوں : اگر چہ سیف کے علاوہ دوسرے راوی بھی رودادوں کے بارے میں سال اور تاریخ معین کرنے میں آپس میں اختلافات رکھتے ہیں ، لیکن یہ کام ان کے یہاں اتنا عام اور مشہور نہیں ہے جتنا سیف کے یہاں پایا جاتا ہے یا اس نے اس کی عادت ڈال لی ہے اس کے علاوہ جس قدر ہم نے سیف کے یہاں تاریخی داستانوں میں تحریفات ، مداخلت اور الٹ پھیر دیکھی ہے اس قدر دوسروں کے یہاں مشاہدہ نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ ہم نے اکثر اس کی ان تحریفات کو مد نظر رکھا ہے کہ صرف اس نے عمداً یہ کام انجام دیا ہے اور دونوں راویوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تائید نہیں کی ہے یعنی اس نے دوسرے تمام راویوں کے بر عکس عمل کیا ہے ۔

لیکن آپ کا یہ کہنا کہ زمانے کے بعض اختلافات جو بذات خود ایسے اسباب ہیں کہ ان کا بد نیتی اور خود غرضی سے کوئی ربط نہیں ہے۔

جواب میں کہتا ہوں کہ : خوش فکر انسان جتنی بھی کوشش کرے زیادہ سے زیادہ سیف کی تحریفات کے چند خاص مواقع کی توجیہ کرسکتا ہے لیکن اس کی تحریفات کے اندر ایسے نمونے بھی ملتے ہیں کہ جس قدر بھی ہم حسن ظن رکھتے ہوں اور اس کے سوا چارہ ہی نظر نہیں آتا ہے کہ اس سے بد نیتی اور خود غرضی کی تعبیر کی جائے ،نمونہ کے طور پر اس امر کی طرف توجہ فرمائیے کہ : طبری نے ۱۲ ھء کی رودادوں کو نقل کرتے ہوئے ” ابلہ “ کی فتح و تسخیر کے بارے میں اپنی تاریخ کی ج(۴) ص ۵ ۔ ۶ میں لکھا ہے : ابوبکر نے خالد کو عراق بھیجا اور اسے حکم دیا کہ پہلے بندر سندھ اور ہند کو فتح کرے وہ جگہ ان دنوں ” ابلہ “ کے نام سے مشہور تھی خلاصہ یہ ہے کہ : اس نے مشرکین کو اس حالت میں دیکھا کہ انہوں نے فرار نہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھا تھا اور ان کے پاس پانی موجود تھا ، خالد نے ان کے مقابل میں ایک ایسی جگہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں پر پانی موجو نہ تھا اور ان کے درمیان جنگ چھڑ گئی خداوند عالم نے بادل کے ایک ٹکڑے کو بھیجدیا اور مسلمانوں کی فوج کے پیچھے موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خداوند عالم نے اسلام کے سپاہیوں کو طاقت بخشی ، سورج چڑھنے سے پہلے اس صحرا میں اس لشکر کا ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ، جنہوں نے اپنے کو زنجیروں سے باندھا تھا ، خالد نے ان سب کا قتل عام کیا اسی لئے اس جنگ کو جنگِ ” ذات السلاسل “ کہا گیا ہے ، یعنی زنجیر والوں کی جنگ، خالد نے اس فتح و نصرت کی خبر جنگ غنائم اور ایک ہاتھی سمیت ابوبکر کو بھیجا، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھمایا گیا تا کہ لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر آپس میں کہتی تھیں کیا یہ خدا کی مخلوق ہے جسے ہم دیکھتے ہیں ؟ اور خیال کرتی تھیں کہ اسے انسان نے خلق کیا ہے ۔ ابو بکر نے اس ہاتھی کو ” زر“ نامی ایک شخص کے ذریعہ واپس بھیج دیا ۔

اس داستان کے بعد طبری کہتا ہے : ” ابلہ “ اور اس کی فتح کے بارے میں یہ داستان جو سیف نے نقل کی ہے ، اس چیز کے بر عکس ہے جو سیرت لکھنے والوں نے نقل کیا ہے اور اس کے بر خلاف ہے جو صحیح مآخذ اور آثار میں ذکر ہوا ہے بلکہ ” ابلہ “ خلافت عمر کے زمانے میں عقبہ بن غزوان کے ہاتھوں ۱۴ ھء میں فتح ہوا ہے اس کے بعد طبری نے ۱۴ ھء کی روئیداد کے ضمن میں اپنی کتاب کی جلد ۴ ص ۱۴۸ سے ۱۵۲ تک سیف کے علاوہ دوسرے راویوں سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

” عمر نے عقبہ سے کہا: ” میں نے تجھے سرزمین ہند کی بندرگاہ کی ماموریت دیدی ہے اور اسے بندر ہند کی گورنری سونپی ، عتبہ روانہ ہوا اور سرزمین ” اجانہ “ کے نزدیک پہنچا ، تقریباً ایک مہینہ تک وہاں پر ٹھہرا ، شہر ” ابلہ “ کے باشندے اس کے پاس آگئے ، عتبہ نے ان سے جنگ کی ، وہ بھاگ گئے اور شہر کوترک کیا ، مسلمان اس شہر میں داخل ہو گئے عتبہ نے اس فتحیابی کی نوید جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کے ساتھ عمر کو بھیج دی

خدا آپ کی حفاظت کرے ! ذرا غور سے دیکھئے اور غائرانہ نظر ڈالیے کہ سیف نے کس طرح عمر کے زمانے میں عتبہ نامی سردار کے ہاتھوں واقع ہوئی ایک روداد کو تحریف کرکے اسے ابوبکر کے زمانے سے مربوط کرکے خالد بن ولید کے ہاتھوں رونما ہوتے دیکھا یاہے ، اختلاف صرف سال اور تاریخ ثبت کرنے میں نہیں تھا کہ صرف ۱۴ ھ ئکو ۱۲ ھء کہا ہوگا تا کہ اس کی تحریف کیلئے کوئی توجیہ تلاش کرتے !

اس کے علاوہ سیف نے اس روداد کو لکھتے ہوئے ایک اور چیز کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خالد اور اس کے سپاہی ایک ایسی جگہ پر اترے جہاں پر پانی موجود نہ تھا اور خداوند عالم نے ان کے محاذ کے پیچھے ایسا پانی برسایا جس سے وہاں پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خدا نے مسلمانوں کو طاقت بخشی سیف اس طرح چاہتا تھا کہ جو برتری اور فضیلت خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عنایت کی تھی اسے خالد اور اس کے لشکر کیلئے ثابت کرے جہاں پر خداوند عالم فرماتا ہے :

<و یُنَّزِلُ عَلَیْکُمْ مِنَّ السَّماءِ مَاءً لِیُطَهِّرَکُمْ بِهِ وَ یُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوبِکُمْ وَیُثَّبِتَ بِهِ الاَقْدَامَ >

اور آسمان سے پانی نازل کررہا تھاتاکہ تمہیں پاکیزہ بنا دے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو مطمئن بنادے اورتمہارے قدموں کو ثبات عطاکردے ۔ (سورہ انفال / ۱۱)

اس طرح سیف نے ایک اور مطلب کا اضافہ کیا ہے کہ خالد نے دشمن فوج سے غنیمت کے طور پر ہاتھ آئے ایک ہاتھی کو جنگی غنائم کے ساتھ مدینہ بھیجا تا کہ مدینہ کے لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھما یا گیا اور مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر کہتی تھی : کیا یہ خدا کی مخلوق ہے یا انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی کوئی چیز ہے ؟ کیا حقیقت میں ہاتھی پوری اس جعلی داستان کے ہم آہنگ نظر آتا ہے ؟ جسے سیف بن عمر نے خلق کیا ہے ، لیکن افسوس، کہ مناسب طریقے پر اسے جعل نہیں کیا ہے میں نہیں جانتا کہ سیف یہ بات کیوں بھول گیا ہے کہ حجاز کے عربوں نے سپاہ ابرھہ کی روداد میں ہاتھی کو دیکھا تھا کاروانوں نے اس خبر کو ہر بیابان تک پہنچا دیا تھا اور داستانیں لکھنے والوں نے اپنے افسانوں میں کافی حد تک اس کا ذکر کیا تھا مسلمان عورتوں نے قرآن مجید میں ان آیات کی کافی تلاوت بھی کی تھی

<اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیل اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَهُمْ فِی تَضْلِیلٍ >

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے کیا ان کے مکر کو بیکار نہیں کردیا ہے ۔ (سورہ فیل)

میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ سیف نے کس مقصد سے ان مسائل اور ایسے مطالب کا اس داستان میں اضافہ کیا ہے ؟ کیا وہ یہ چاہتا تھا کہ جو چیز خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے عطا کی تھی اسے خالد کیلئے ثابت کرے ؟ یا چاہتاتھا کہ خالد کے مرتبہ و مقام کو بلند کرکے اس کیلئے فتوحات اور کرامتیں بیان کرے تا کہ عراق کی سپہ سالاری سے اس کی معزولی اور سلب اعتماد کے بعد اسے عراق سے شام بھیج کر ایران کی فتوحات میں شرکت سے محروم کئے جانے کی بے چینی کی تلافی کرے یا ان باتوں کے علاوہ کوئی اور چیز اس کے مد نظر تھی ؟

لیکن آپ کے چھٹے مطلب کے بارے میں کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ سیف نے اپنی روایتوں میں جس سلسلہ سندکا ذکر کیا ہے اس کی تحقیق اور چھان بین کی جائے ۔

جواب میں عرض ہے کہ : اگر سیف کی روایتوں کے بارے میں ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیف نے جو نقل کیا ہے اس میں وہ منفرد ہے اور اس کے بعد ہمیں معلوم ہوجائے کہ سیف نے اس روایت کو روایوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے تو کیا ہم اس روایت کے گناہ کو اس شخص کی گردن پر ڈال سکتے ہیں جس سے سیف نے روایت نقل کی ہے ؟

مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ فرمائیں گے شاید ہم اس کتاب کی اگلی بحثوں میں آپ کے نظریہ سے استفادہ کریں(۱)

والسلام علیکم ور حمة اللہ و برکاتہ

کاظمین ، عراق

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ سیف کی روایتوں کی چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض روایتوں کو سیف نے خود جعل کیا ہے اور دیگر راویوں سے نقل کیا ہے ہم نے ان تحقیقات کے نتائج کو کتاب عبدا للہ بن سبا کے بعد والے طبع میں داخل کیا ہے اور ” رواة مختلقون“ نام کی کتاب زیر تالیف ہے

مطالعات کے نتائج

روایت جعل کرنے میں سیف کا مقصد

ہم نے سیف کی روایتوں کے بارے میں کافی حد تک مطالعہ و تحقیقات کا کام انجام د یا ہے مطالعات کی ابتداء میں ہم یہ تصور کرتے تھے کہ روایت جعل کرنے اور داستانیں گڑھنے میں اس کا صرف یہ مقصد تھا کہ طاقتور اور صاحب اقتدار اصحاب جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور تھی اور نفوذ رکھتے تھے، کا دفاع کرے اور ان کے مخالفین کو ذلیل و حقیر کرے اور ان کی عظمت کو گھٹا کر پیش کرے ، ہر چند وہ بلند ایمان اور بافضیلت ہی کیوں نہ ہوں ، اس لئے اس نے تاریخ کے واقعات کو الٹ پلٹ کر کے رکھدیا ہے بہت سے افسانوں اور داستانوں کر گڑھ کر انھیں تاریخ اسلام میں شامل کیا ہے اس طرح نیک اور مخلص اصحاب کو ظالم اور تنگ نظر کی حیثیت سے معرفی کیا ہے اور ظالموں اور آلودہ دامن والوں کو پاک ، دانا اور پرہیزگار کے طور پر پیش کیا ہے اور جعل و تحریف کی اس تلاش میں اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ کرکے بد صورت دکھایا ہے اس منحوس اور خطرناک منصوبہ اور نقشہ میں اس کی کامیابی کا راز اس میں تھا کہ اس نے اپنے برے اور تخریب کارانہ مقصد کو تمام اصحاب کی تجلیل اور تعریف کے ساتھ ممزوج کرکے رسول خدا کے تمام اصحاب کی حمایت و دفاع کے پردے میں چھپایا ہے ، اس کی یہ چالاکی اور مکر و فریب مسلسل ایک طولانی مدت تک دانشوروں کیلئے پوشیدہ رہا اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ سیف حسن ظن اورللہیت اور مقدس مقصد رکھتا ہے اور حدیث و افسانے گڑھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب کا دفاع کرنا چاہتا ہے اور ان کے فضائل کی تشہیر کرنا چاہتا ہے اسی غلط تصور کے تحت تاریخ اور حدیث کے علماء نے ----اس کے باوجود کہ اسے جھوٹا ا اس کی روایتوں کو جعلی اور خود اس کو افواہ باز و زندیق کہتے تھے --- اس کی روایتوں کو تمام راویوں پر ترجیح دے کر انھیں مقدم قرار دیا ہے ۔

اسی وجہ سے سیف کی جھوٹی روایتیں رائج ہوکر منتشر ہوگئیں اور اسلامی تاریخ اور مآخذ میں شامل ہوگئیں اور اس کے مقابلہ میں صحیح روایتیں فراموشی کی نذر ہوکر اپنی جگہ، سیف کی جھوٹی روایتوں کو دے بیٹھی ہیں اسلام اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کے بہانے اسلام کیلئے یہ سب سے بڑا نقصان اور پیکر اسلام پر کاری ضرب تھی جو پہلے سیف کی طرف سے اورپھر اس کے اس جرم میں شریک تاریخ نویسوں کے ایک گروہ کی طرف سے پڑی ہے ۔

چونکہ میں نے سیف کی کارکردگیوں کے اس سلسلہ کو اسلام و مسلمین کے بارے میں نقصان دہ اور انتہائی خطرناک پایا اس لئے میں نے تاریخ اسلام کا عمیق مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ پیغمبر اسلام کے نیک اور مخلص اصحاب کا دفاع کروں جن کا حق تاریخ اسلام میں ضائع اور پایمال ہوا ہے۔

اور ان کی ذات کو سیف کی تہمتوں سے پاک کروں اور تاریخ میں گزرے ہوئے ہر واقعہ کو اپنی جگہ پر قراردوں ، خاص کر اپنے مطالعہ کو سیف کی روایتوں کے بارے میں جاری رکھوں اور اس کی تحریفات اور اس کے شریک جرم حامیوں کے تعصبات کے ضخیم پردوں کے نیچے سے تاریخ کے فراموش شدہ حقائق کو نکال کر کما حقہ ،صورت میں پیش کروں ، میں نے اس تحقیقات اور مطالعات کے خلاصہ کو ایک کتاب کی صورت دیدی اور ۱۳۷۵ ھء میں اسے نجف اشرف میں ” عبد اللہ بن سبا “ کے نام پر شائع کردیا یہ تھے میرے مطالعات کے پہلے نتائج اور انکشافات ۔

اس کے بعد میں نے سیف اور اس کی روایتوں کے بارے میں مطالعہ اور تحقیقات کو جاری رکھا میں نے اس سلسلہ میں عمیق تحقیقات اور بیشتر دقت سے کام لیا سب سے پہلے میرے لئے یہ مطلب منکشف اور عیاں ہوگیا کہ ان سب جعل ، جھوٹ اور کذب بیانی کی تشہیر سے سیف کا صرف صاحب اقتدار اصحاب کا دفاع ہی مقصد نہ تھا بلکہ اس کے اور بھی مقاصد تھے جنہیں اس نے ظاہری طور پر تمام اصحاب کے دفاع کے پردے کے پیچھے چھپا رکھا ہے ۔

حقیقت میں سیف کے احادیث جعل کرنے اور افسانہ سازی میں بنیادی اور اصلی محرک کے طور پر درج ذیل دو عوامل تھے :

۱ ۔ خاندانی تعصب

سیف اپنے خاندان ” عدنان “ کے بارے میں انتہائی متعصب تھا اور ہمیشہ اپنے خاندان کے افراد کی خواہش کے مطابق تعریف و تمجید کرتا ہے اور اپنے قبیلہ کے افرادکیلئے فضائل و مناقب جعل کرکے ان کی تشہیر کرتا ہے اور تاریخ کی کتابوں میں انھیں شامل کرتا ہے چونکہ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور بنی امیہ کے تمام خلفاء اور ان کے زمانے کے حکام و فرمانروا سب قبیلہ عدنان سے تعلق رکھتے تھے ، اس طرح مہاجر اصحاب ،قریش سے تھے اور قریش بھی قبیلہ عدنان کا ایک خاندان تھا ، سیف ان سب کا خاندانی تعصب کی بناء پر کہ وہ اس کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے دفاع کرتا تھا چونکہ بزرگ صحابی اور طاقتور لوگ اس کے قبیلہ کے افراد تھے اسلئے یہ شبہہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ بزرگ اصحاب کا دفاع کرتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اپنے قبیلہ کے بزرگوں یعنی خاندان عدنان کے افراد کا دفاع کرتا تھا اس طرح ایسے خاندانی تعصب کی بناء پر قبیلہ قحطان کے افراد جو فخر و مباحات کے لحاظ سے قبیلہ عدنان کے ہم پلہ اور برابر تھے اس وقت کے حاکموں اور صاحبان اقتدار سے ---جو سب قبیلہ قریش اور عدناں سے تھے---- ----اچھے تعلقات نہیں رکھتے تھے(۱) شدید ملامت کرتا تھااور ان پر ناروا تہمتیں لگاتا تھا۔

چونکہ انصار قبیلہ قحطاں کا ایک خاندان تھا اس لئے سیف نے ان کی ملامت اور مذمت کرنے میں حد کر دی ہے اور انکی مذمت اور تنقید میں داستانیں گڑھ لی ہیں اور بہت سی روایتیں جعل کی ہیں ۔

۲ ۔ کفر و زندقہ

سیف کا اسلام میں جعل وتحریف کرنے کا دوسرا عامل اس کا کفر اور زندقہ تھا سیف اسی کفر و زندقہ اور دل میں اسلام سے عداوت رکھنے کی وجہ سے چاہتا تھاکہ تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اسلام کے چہرہ کو بد نما اور نفرت انگیز صورت میں پیش کرے ۔

یہی مقصد اور محرک تھا جس کی وجہ سے اس نے ایک طرف سے حدیث کے راویوں اور پیغمبر

____________________

۱۔خلفاء میں حضرت علی کی یہ خصوصیت تھی کہ ان کے مخالفین قریش و عدنان سے تھے اور ان کے دوست قحطانی تھے اس لئے سیف حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے میں بخل کرتا تھا لیکن امام اور ان کے طرفدارو(جو قحطانی تھے) کے بارے میں جھوٹ اور تہمتیں پھیلانے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا ۔

اسی بنا پر ہم سیف کی ان دوگانہ تحریف میں سے کس کی تائید کریں گے ؟ کیا اس کی ان تحریفات کی تائید کریں جن میں اس نے بڑی شخصیتوں کے دفاع میں اصل تاریخی رودادوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے جبکہ خود طبری نے دوسرے راویوں سے ان واقعات کو دوسری طرح سے نقل کیا ہے یا اس کی داستانوں کی دوسری قسم کی تائید کریں جو توہمات اور خرافات پر مشتمل ہیں ، کیا اس قسم کی داستان سرائی کو روایات میں اجمال و تفصیل کہیں گے یا روایتوں میں الٹ پلٹ اور تحریف کا نام دیں گے؟

لیکن، جس دوسرے نکتہ کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ ایک خاص علاقہ کی تاریخ لکھنے والا گمنام افراد کا نام لیتا ہے اور جو عام تاریخ لکھتا ہے وہ اس قسم کے مطالب میں مداخلت نہیں کرتا ہے ۔

ہم جواب میں کہتے ہیں : کیا آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ عمرو کے دو بیٹے قعقاع اور عاصم جن کا سیف نے نام لیا ہے ، گمنام افراد تھے ؟ نہیں ، ہرگز ایسانہیں ہے سیف کہتا ہے کہ قعقاع رسول خدا کے اصحاب میں سے تھا اور اس نے حدیث نقل کی ہیں ،وہ سقیفہ میں حاضر تھا ، ابوبکر نے اسے خالد کی مدد کیلئے بھیجا ہے اور ا سکے بارے میں یوں کہا ہے : ”جس فوج میں قعقاع جیسے افراد موجود ہوں وہ فوج فرار نہیں کرے گی “ وہ عراق میں خالد کی جنگوں میں شریک تھا ، جب خالد، اسلام کے سپاہیوں کی مدد کیلئے شام کی طرف روانہ ہوا تو اسے اپنے ساتھ لے گیا ، دمشق کی فتح اور اس پر تسلط جمانے کا سبب قعقاع کا اپنے ساتھی کے ہمراہ قلعہ کی دیوار پر چڑھنا تھا اس کے بعد عمر نے اسے دوبار ہ جنگ قادسیہ میں سعد کی مدد کیلئے وہاں سے عراق کی طر ف لوٹا دیا اور اس نے سفید ہاتھی کی آنکھ کو نکال کر اسے اندھابنا دیا قادسیہ کی جنگ میں اس کی بہادریاں مسلمانوں کی فتح و کامرانی کا سبب بنیں ۔

سیف کے نام گزاری کئے گئے ایام : ” الاغواث“ ”عماس “ اور ” الامارث “ میں اس نے مدد کی ہے ۔

سعد نے اس جنگ میں اسکے بارے میں عمر کو یہ تعریفیں لکھیں کہ ”وہ شہسوار ترین سپاہی ہے “ اس جنگ کے بعد عمر نے اسے ایک بار پھر مسلمانوں کی نصرت کیلئے یرموک کی جنگ میں شام بھیجا ، وہاں پر مسلمانوں کی مدد کرنے کے بعد تیسری بار عراق کی طرف روانہ ہوا اور نہاوند کی جنگ میں شرکت کی ، وہاں پر وہ شہر کے اندرپناہ لئے ہوئے ایرانیوں کو باہر لا کر صحرا تک کھینچ لانے میں کامیاب ہوا ،ان کامیابیوں کے بعد عمر نے اسے عراق کی سرحدوں کے محافظوں کے سردار کے طور پر مقرر کرکے اسے سرحد کا نگہبان بنا دیا۔

اس بناء پر دونوں خلیفہ ابوبکر اور عمر قعقاع کو ہر نامناسب حادثہ روکنے کیلئے بھیجتے تھے ، لیکن عثمان نے اسے کوفہ کا سپہ سالار مقرر کیا اور وہ سبائیوں کی تحریک اور ان کی بغاوت تک اس عہدہ پر فائز رہا اور اس شورش کو کچلنے میں کوشش کی جب عثمان محاصرہ میں قرار پایا تو اس کی نصرت کیلئے ایک فوج کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا ، لیکن اس سے پہلے کہ مدد کرنے والے پہنچ جاتے عثمان قتل ہوچکے تھے لہذا وہ واپس کوفہ کی طرف لوٹا ۔

علی کی خلافت میں اس نے کوفہ کے لوگوں کو جنگ جمل میں علی سے ملحق ہونے پر آمادہ کیا اور علی و عائشہ اور اس کے حامیوں (طلحہ و زبیر) کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوا تھا ، اگر سبائی دھوکے میں جنگ کے شعلوں کو نہ بھڑکاتے جب جنگ چھڑ گئی تو وہی تھا جس نے عائشہ کے اونٹ کا تعاقب کرکے اس پر قابو پاکر جنگ کا خاتمہ کیا اور وہی تھا جس نے عائشہ کے لشکر کو امان دیدی۔

معاویہ کے زمانے میں وہ ان افراد میں سے تھا جنہیں معاویہ کے حکم سے فلسطین کی ” ایلیا “ نامی جگہ پر جلا وطن کیا گیا ، کیونکہ وہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے لئے مخصوص اصحاب میں سے تھا ۔

لیکن اس کا بھائی عاصم : اس کے بارے میں سیف یوں کہتا ہے کہ وہ ۱۲ ھئمیں خالد کے ساتھ یمامہ سے عراق کی طرف کوچ کیا، سیف نے اس کے بارے میں بہت سارے بہادری و شجاعت کے قصے جیسے جنگ قادسیہ میں ہاتھیوں کو اندھا بنانا وغیرہ نقل کی ہیں ۔ خلیفہ عمر نے اسے علاء کی مدد کیلئے فارس بھیجا ہے ، یہ وہی ہے جس کے ساتھ گائے نے گفتگو کی ، عمر نے سیستان کی جنگ کا پرچم اس کے ہاتھ میں دیا اس کے بعد اسے کرمان کی گورنری اور فرماں روائی سونپی اور اپنی وفات ۲۹ ھء تک وہا ں کی گورنری کے عہدہ پر فائز تھا ۔

سیف نے ان دو جنگجو بھائیوں کے بارے میں ا ن تمام اخلاقی خوبیوں کے علاوہ اشعار و مناقب بھی بیان کئے ہیں ۔

کیا بقول سیف جنگجو اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی دو بھائیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ گمنام افراد میں سے ہوں گے ؟ جبکہ سیف نے ان کیلئے اتنی خصوصیات بیان کی ہیں اور خلفاء کی طرف سے مختلف مراحل میں اتنی نوازشیں اور فرمان روائیاں عطا کی گئی ہیں اور ان سے اتنے اشعار نقل ہوئے ہیں کیا خالد بن ولید کیلئے اتنیشجاعت و بہادری کے قصے کتابوں میں بیان ہوئی ہیں جتنی سیف نے قعقاع کیلئے نقل کی ہیں ؟ اس کے باوجود کیا علت ہے کہ ان دو افراد کا نام صرف سیف کی روایتوں میں ذکر ہوا ہے ؟

طبری نے ۱۰ ھء سے ۲۹ ھء تک کی رودادوں کے بارے میں جو کچھ سیف سے نقل کیا ہے میں نے اسے اسی مدت کے بارے میں د وسروں کی روایتوں سے موازنہ اور تطبیق کیا اور اسی طرح جو کچھ ابن عساکر نے اپنی تاریخ دمشق کی ج ۱ و رج / ۲ میں سیف اور غیر سیف سے روایت کی ہے ، دونوں کی تطبیق کی، لیکن ان دو جنگجوؤں کا کہیں نام ونشان نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ ابن شہاب (وفات ۱۲۴ ھء) ، موسی بن عقبہ (پیدائش ۱۴۱ ھء) ، ابن اسحاق (پیدائش ۱۵۲ ھء) ، ابو مخنف (پیدائش ۱۵۷ ھء) ، محمد بن سائب (پیدائش ۱۴۶) ابن ہشام (پیدائش ۲۰۶ ھء) ، واقدی (پیدائش ۲۰۷ ھء) اور زبیر بن بکار (پیدائش ۲۴۷ ھء) کی روایتوں اور دوسرے راویوں کی روایتوں میں جس سے طبری اور ابن عساکر نے دسیوں روایتیں ان رودادوں کے بارے میں نقل کی ہیں کہ سیف نے ایسی ہی رودادوں میں ان دو بھائیوں کا نام ذکر کیا ہے لیکن ان دوبھائیوں کے بارے میں ا نہوں نے کہیں نام تک نہیں لیا ۔

میں نے اس موازنہ میں صرف اس پر اکتفاء کیا ہے جسے طبری نے سیف اور دوسروں سے نقل کیا ہے اور ابن عساکر کو صرف ایک گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے چونکہ میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنی بات کے تیسرے مرحلہ میں اس مطلب کے بارے میں یاددہانی کی ہے کہ ہم موازنہ اور مقابلہ میں تاریخ طبری پر اکتفاء کریں ، ورنہ میں آپ کے اس نظریہ سے اتفاق نہیں ر کھتا ہوں کہ صرف تاریخ طبری کو اہمیت دی جائے اور اسی پر اکتفاء کیا جائے (اگر آپ اس قسم کا اعتقاد رکھتے ہیں ؟)

آپ کے کہنے کے مطابق یاددہانی اور آگاہی کیلئے قعقاع اور عاصم کے بارے میں کیوں طبقات ابن سعد کی طرف رجوع نہ کریں ؟ کیا ابن سعد نے کوفہ میں رہنے والے اصحاب ، تابعین اور دانشوروں ،کی زندگی کے حالات پر روشنی نہیں ڈالی ہے ؟ اور یہ دو بہادر جنگجو کو سیف کے کہنے کے مطابق کوفہ کی معروف شخصتیں اور جنگجو تھے ؟!

کیا وجہ ہے کہ ہم آشنائی حاصل کرنے کیلئے کتاب ” الاصابہ “ کی طرف رجوع نہ کریں جبکہ ابن حجر بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں صورتوں میں سیف سے روایتیں نقل کرتے ہیں ؟

کیوں نہ ہم ” الاستعیاب “ ” اسد الغابہ “ اور ” التجرید “ کا مطالعہ کریں اور ان کے سیف سے نقل کئے گئے اصحاب کی زندگی کے حالات کو نہ پڑھیں ؟ کیا یہ کتابیں اصحاب کی زندگی کے حالات کی تشریح کرنے میں خصوصیت نہیں رکھتی ہیں ؟! ہم کیوں تاریخ ابن عساکر کی طرف رجوع نہ کریں اور اس کے ہر موضوع پر لکھے گئے مطالب کو نہ پڑھیں ،جو روایتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے اس نے حتی الامکان تمام روایتوں کو حتی سیف اور غیر سیف سے نقل کیا ہے ؟!

سیف کی فتوحات کی بحث میں ہم کتاب ” معجم البلدان “کا کیوں مطالعہ نہ کریں ؟ جبکہ اس کے مصنف کے پاس سیف کی کتا ب” فتوح “ کا تصحیح شدہ ابن خاضبہ کا لکھا ہوا قلمی نسخہ موجود تھا چنانچہ اس نے شہردں کی تاریخ لکھنے والے تمام مؤلفین کا ذکر کیا ہے کیوں نہ ہم ان کا مطالعہ کرکے موازنہ کریں ؟ اور اس بحث سے مربوط دوسری کتابوں کاکیوں ہم مطالعہ نہ کریں ؟ اس کی کیا دلیل ہے کہ ہم اپنی تحقیق، مطالعہ ، اور موازنہ کو طبری کی روایتوں تک محدود کرکے رکھیں ؟

میں واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ سچی روایتیں نہ لکھنے میں طبری کا تعمد اور اس کی خود غرضی شامل تھی میں اسے اس موضوع کے بارے میں ملزم جانتا ہوں ، کیا یہ شخص وہی نہیں ہے جو ۳۰ ھء کی رودادوں کو لکھتے ہوئے ابو ذر کی زندگی کے حالات کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

” اس سال یعنی ۳۰ ھء میں معاویہ اور ابوذر کا واقعہ پیش آیا اور معاویہ نے اسے شام سے مدینہ بھیج دیا ، اس جلاوطنی اور مدینہ بھیجنے کے بارے میں بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں کہ مجھے ان میں سے بہت سی چیزوں کا ذکر کرنا پسند ہے لیکن جو لوگ اس قضیہ میں معاویہ کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اس سلسلہ میں ایک داستان نقل کی ہے کہ سیر نے اسے لکھا ہے کہ شعیب نے اسے بقول سیف اس کیلئے نقل کیا ہے “(۱)

تاریخ طبری کا اس کے بعد والے افراد کیلئے قابل اعتماد بننے اور ان کا اس پر بھروسہ کرنے کا یہی موضوع سبب بنا ہے اس مطلب کی تفصیلات اور وضاحت کیلئے تاریخ ابن اثیر کا مقدمہ ، جہاں پر ۳۰ ھء میں ابوذر کی روداد بیان کی گئی ہے ،تاریخ ابن کثیر ،ج ۷ ص ۲۴۷ اور ابن خلدون جنگ جمل کی داستان کا آخری حصہ اور معاویہ کے ساتھ امام حسن کی صلح کا واقعہ مطالعہ کیا جائے(۲)

____________________

۱۔ طبری، ج ۴/ ص ۶۴

۲۔ اس کتاب کی ابتداء میں ” افسانہ کا سرچشمہ ”‘ نامی فصل ملاحظہ ہو

یہ طبری کا حال ہے نیز ان لوگوں کا جنہوں نے طبری پر اعتماد کر کے اس سے نقل کیا ہے لہذا یہکیسےممکن ہے کہ ہم اپنی تحقیقات اور چھان بین کو تاریخ طبری تک ہی محدود کر دیں ؟

آپ نے اپنے خط کے چوتھے بند میں لکھا تھا: سیف کی ان جگہوں کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں پر اس کی روایتیں دوسروں کی روایتوں کے ہم آہنگ اور بالکل ویسی ہی ہیں ؟ کیا اس صورت میں بھی آپ اسے حدیث جعل کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں ؟یہاں تک آپ نے لکھا کہ: ” میں امید کرتا ہوں آپ سیف کی روایتوں پر تحقیقات کرتے وقت معین کریں کہ کیا سیف کی ساری روایتوں کوکہ جو کچھ اس سے نقل ہوا ہے اس میں مکمل طور پر الگ کر دیا جائے یا کم از کم اس کی بعض روایتوں کو قبول کیا جائے ؟

اس کے جواب میں کہنا چاہتا ہوں : سیف کی تاریخی روایتوں کی میری نظر میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے میں اس کی وقعت ہارون رشید کے زمانے کی داستانوں پر مشتمل لکھی گئی کتاب ” الف لیلیٰ“ سے زیادہ نہیں سمجھتا جس طرح ہم کتاب ” الف لیلیٰ“ کو ہارون رشید کے زمانے کے بارے میں تاریخ کے ایک مآخذ اور نص کے طور پر مطالعہ نہیں کرتے بلکہ اسے ایک ادبی داستان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اسے تھکاوٹ دور کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے ایک وسیلہ کے طور پر جانتے ہیں حقیقت میں بعض اوقات ان داستانوں میں داستان لکھنے والے کی شخصیت کو پہچانا جاسکتا ہے اور اس کے ہم عصر لوگوں کی فکری سطح پر تحقیق کی جاسکتی ہے اور اسی طرح اس زمانے میں ملک کی ثقافت و تمدن کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کا خود داستان کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا ۔

میں سیف کی داستانوں کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور داستان کے اسلوب سے ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ہمارا یہ طاقتور داستان نویس اپنی داستانوں کیلئے مآخذ اور اسناد جعل کرنے کیلئے مجبور تھا تا کہ ان داستانوں کا سلسلہ اس زمانے تک پہنچ جائے جس کے بارے میں اس نے داستانیں لکھی ہیں کیونکہ اس کا زمانہ ” جرجی زیدان “ کا زمانہ تھا کہ اپنے تاریخی افسانوں کیلئے سند جعل کرنے کی ضرورت نہ رکھتا ہو ۔

میرے نزدیک سیف کی روایتوں کی حیثیت ایسی ہے کہ میں ان میں سے کسی ایک پر اعتماد نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ جس نے اتنا جھوٹ بولا ہو اس پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے دوسرے مواقع پر بھی جھوٹ نہ کہا ہوگا لہذا عقل حکم دیتی ہے کہ سیف کی کسی بھی روایت پر اعتماد نہ کیا جائے میں اگر سیف سے روایت کی گئی کسی داستان کو کسی دوسرے معتبر طریقے سے حاصل کروں تو اسے قبول کروں گا لیکن اس حالت میں ترجیح دوں گا کہ سیف کی روایت کو کالعدم قرار دوں ۔

اپنے خط کے پانچویں حصہ میں آپ نے ذکر کیا ہے: میں نے سیف کے توسط سے حوادث اور روئداد وں کے سالوں میں سیف پر تحریفات کی تہمت لگائی ہے اور لفظ تحریف سے روئیدادوں کے سال تعیین کرنے میں عمداً یہ کام انجام دینے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے ، جبکہ یہ صرف سیف نہیں تھا جس نے حوادث کے سالوں کے تعیین میں اختلاف کیا ہے ۔

میں اس کے جواب میں کہتا ہوں : اگر چہ سیف کے علاوہ دوسرے راوی بھی رودادوں کے بارے میں سال اور تاریخ معین کرنے میں آپس میں اختلافات رکھتے ہیں ، لیکن یہ کام ان کے یہاں اتنا عام اور مشہور نہیں ہے جتنا سیف کے یہاں پایا جاتا ہے یا اس نے اس کی عادت ڈال لی ہے اس کے علاوہ جس قدر ہم نے سیف کے یہاں تاریخی داستانوں میں تحریفات ، مداخلت اور الٹ پھیر دیکھی ہے اس قدر دوسروں کے یہاں مشاہدہ نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ ہم نے اکثر اس کی ان تحریفات کو مد نظر رکھا ہے کہ صرف اس نے عمداً یہ کام انجام دیا ہے اور دونوں راویوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تائید نہیں کی ہے یعنی اس نے دوسرے تمام راویوں کے بر عکس عمل کیا ہے ۔

لیکن آپ کا یہ کہنا کہ زمانے کے بعض اختلافات جو بذات خود ایسے اسباب ہیں کہ ان کا بد نیتی اور خود غرضی سے کوئی ربط نہیں ہے۔

جواب میں کہتا ہوں کہ : خوش فکر انسان جتنی بھی کوشش کرے زیادہ سے زیادہ سیف کی تحریفات کے چند خاص مواقع کی توجیہ کرسکتا ہے لیکن اس کی تحریفات کے اندر ایسے نمونے بھی ملتے ہیں کہ جس قدر بھی ہم حسن ظن رکھتے ہوں اور اس کے سوا چارہ ہی نظر نہیں آتا ہے کہ اس سے بد نیتی اور خود غرضی کی تعبیر کی جائے ،نمونہ کے طور پر اس امر کی طرف توجہ فرمائیے کہ : طبری نے ۱۲ ھء کی رودادوں کو نقل کرتے ہوئے ” ابلہ “ کی فتح و تسخیر کے بارے میں اپنی تاریخ کی ج(۴) ص ۵ ۔ ۶ میں لکھا ہے : ابوبکر نے خالد کو عراق بھیجا اور اسے حکم دیا کہ پہلے بندر سندھ اور ہند کو فتح کرے وہ جگہ ان دنوں ” ابلہ “ کے نام سے مشہور تھی خلاصہ یہ ہے کہ : اس نے مشرکین کو اس حالت میں دیکھا کہ انہوں نے فرار نہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھا تھا اور ان کے پاس پانی موجود تھا ، خالد نے ان کے مقابل میں ایک ایسی جگہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں پر پانی موجو نہ تھا اور ان کے درمیان جنگ چھڑ گئی خداوند عالم نے بادل کے ایک ٹکڑے کو بھیجدیا اور مسلمانوں کی فوج کے پیچھے موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خداوند عالم نے اسلام کے سپاہیوں کو طاقت بخشی ، سورج چڑھنے سے پہلے اس صحرا میں اس لشکر کا ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ، جنہوں نے اپنے کو زنجیروں سے باندھا تھا ، خالد نے ان سب کا قتل عام کیا اسی لئے اس جنگ کو جنگِ ” ذات السلاسل “ کہا گیا ہے ، یعنی زنجیر والوں کی جنگ، خالد نے اس فتح و نصرت کی خبر جنگ غنائم اور ایک ہاتھی سمیت ابوبکر کو بھیجا، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھمایا گیا تا کہ لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر آپس میں کہتی تھیں کیا یہ خدا کی مخلوق ہے جسے ہم دیکھتے ہیں ؟ اور خیال کرتی تھیں کہ اسے انسان نے خلق کیا ہے ۔ ابو بکر نے اس ہاتھی کو ” زر“ نامی ایک شخص کے ذریعہ واپس بھیج دیا ۔

اس داستان کے بعد طبری کہتا ہے : ” ابلہ “ اور اس کی فتح کے بارے میں یہ داستان جو سیف نے نقل کی ہے ، اس چیز کے بر عکس ہے جو سیرت لکھنے والوں نے نقل کیا ہے اور اس کے بر خلاف ہے جو صحیح مآخذ اور آثار میں ذکر ہوا ہے بلکہ ” ابلہ “ خلافت عمر کے زمانے میں عقبہ بن غزوان کے ہاتھوں ۱۴ ھء میں فتح ہوا ہے اس کے بعد طبری نے ۱۴ ھء کی روئیداد کے ضمن میں اپنی کتاب کی جلد ۴ ص ۱۴۸ سے ۱۵۲ تک سیف کے علاوہ دوسرے راویوں سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

” عمر نے عقبہ سے کہا: ” میں نے تجھے سرزمین ہند کی بندرگاہ کی ماموریت دیدی ہے اور اسے بندر ہند کی گورنری سونپی ، عتبہ روانہ ہوا اور سرزمین ” اجانہ “ کے نزدیک پہنچا ، تقریباً ایک مہینہ تک وہاں پر ٹھہرا ، شہر ” ابلہ “ کے باشندے اس کے پاس آگئے ، عتبہ نے ان سے جنگ کی ، وہ بھاگ گئے اور شہر کوترک کیا ، مسلمان اس شہر میں داخل ہو گئے عتبہ نے اس فتحیابی کی نوید جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کے ساتھ عمر کو بھیج دی

خدا آپ کی حفاظت کرے ! ذرا غور سے دیکھئے اور غائرانہ نظر ڈالیے کہ سیف نے کس طرح عمر کے زمانے میں عتبہ نامی سردار کے ہاتھوں واقع ہوئی ایک روداد کو تحریف کرکے اسے ابوبکر کے زمانے سے مربوط کرکے خالد بن ولید کے ہاتھوں رونما ہوتے دیکھا یاہے ، اختلاف صرف سال اور تاریخ ثبت کرنے میں نہیں تھا کہ صرف ۱۴ ھ ئکو ۱۲ ھء کہا ہوگا تا کہ اس کی تحریف کیلئے کوئی توجیہ تلاش کرتے !

اس کے علاوہ سیف نے اس روداد کو لکھتے ہوئے ایک اور چیز کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خالد اور اس کے سپاہی ایک ایسی جگہ پر اترے جہاں پر پانی موجود نہ تھا اور خداوند عالم نے ان کے محاذ کے پیچھے ایسا پانی برسایا جس سے وہاں پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خدا نے مسلمانوں کو طاقت بخشی سیف اس طرح چاہتا تھا کہ جو برتری اور فضیلت خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عنایت کی تھی اسے خالد اور اس کے لشکر کیلئے ثابت کرے جہاں پر خداوند عالم فرماتا ہے :

<و یُنَّزِلُ عَلَیْکُمْ مِنَّ السَّماءِ مَاءً لِیُطَهِّرَکُمْ بِهِ وَ یُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوبِکُمْ وَیُثَّبِتَ بِهِ الاَقْدَامَ >

اور آسمان سے پانی نازل کررہا تھاتاکہ تمہیں پاکیزہ بنا دے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو مطمئن بنادے اورتمہارے قدموں کو ثبات عطاکردے ۔ (سورہ انفال / ۱۱)

اس طرح سیف نے ایک اور مطلب کا اضافہ کیا ہے کہ خالد نے دشمن فوج سے غنیمت کے طور پر ہاتھ آئے ایک ہاتھی کو جنگی غنائم کے ساتھ مدینہ بھیجا تا کہ مدینہ کے لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھما یا گیا اور مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر کہتی تھی : کیا یہ خدا کی مخلوق ہے یا انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی کوئی چیز ہے ؟ کیا حقیقت میں ہاتھی پوری اس جعلی داستان کے ہم آہنگ نظر آتا ہے ؟ جسے سیف بن عمر نے خلق کیا ہے ، لیکن افسوس، کہ مناسب طریقے پر اسے جعل نہیں کیا ہے میں نہیں جانتا کہ سیف یہ بات کیوں بھول گیا ہے کہ حجاز کے عربوں نے سپاہ ابرھہ کی روداد میں ہاتھی کو دیکھا تھا کاروانوں نے اس خبر کو ہر بیابان تک پہنچا دیا تھا اور داستانیں لکھنے والوں نے اپنے افسانوں میں کافی حد تک اس کا ذکر کیا تھا مسلمان عورتوں نے قرآن مجید میں ان آیات کی کافی تلاوت بھی کی تھی

<اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیل اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَهُمْ فِی تَضْلِیلٍ >

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے کیا ان کے مکر کو بیکار نہیں کردیا ہے ۔ (سورہ فیل)

میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ سیف نے کس مقصد سے ان مسائل اور ایسے مطالب کا اس داستان میں اضافہ کیا ہے ؟ کیا وہ یہ چاہتا تھا کہ جو چیز خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے عطا کی تھی اسے خالد کیلئے ثابت کرے ؟ یا چاہتاتھا کہ خالد کے مرتبہ و مقام کو بلند کرکے اس کیلئے فتوحات اور کرامتیں بیان کرے تا کہ عراق کی سپہ سالاری سے اس کی معزولی اور سلب اعتماد کے بعد اسے عراق سے شام بھیج کر ایران کی فتوحات میں شرکت سے محروم کئے جانے کی بے چینی کی تلافی کرے یا ان باتوں کے علاوہ کوئی اور چیز اس کے مد نظر تھی ؟

لیکن آپ کے چھٹے مطلب کے بارے میں کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ سیف نے اپنی روایتوں میں جس سلسلہ سندکا ذکر کیا ہے اس کی تحقیق اور چھان بین کی جائے ۔

جواب میں عرض ہے کہ : اگر سیف کی روایتوں کے بارے میں ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیف نے جو نقل کیا ہے اس میں وہ منفرد ہے اور اس کے بعد ہمیں معلوم ہوجائے کہ سیف نے اس روایت کو روایوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے تو کیا ہم اس روایت کے گناہ کو اس شخص کی گردن پر ڈال سکتے ہیں جس سے سیف نے روایت نقل کی ہے ؟

مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ فرمائیں گے شاید ہم اس کتاب کی اگلی بحثوں میں آپ کے نظریہ سے استفادہ کریں(۱)

والسلام علیکم ور حمة اللہ و برکاتہ

کاظمین ، عراق

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ سیف کی روایتوں کی چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض روایتوں کو سیف نے خود جعل کیا ہے اور دیگر راویوں سے نقل کیا ہے ہم نے ان تحقیقات کے نتائج کو کتاب عبدا للہ بن سبا کے بعد والے طبع میں داخل کیا ہے اور ” رواة مختلقون“ نام کی کتاب زیر تالیف ہے

مطالعات کے نتائج

روایت جعل کرنے میں سیف کا مقصد

ہم نے سیف کی روایتوں کے بارے میں کافی حد تک مطالعہ و تحقیقات کا کام انجام د یا ہے مطالعات کی ابتداء میں ہم یہ تصور کرتے تھے کہ روایت جعل کرنے اور داستانیں گڑھنے میں اس کا صرف یہ مقصد تھا کہ طاقتور اور صاحب اقتدار اصحاب جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور تھی اور نفوذ رکھتے تھے، کا دفاع کرے اور ان کے مخالفین کو ذلیل و حقیر کرے اور ان کی عظمت کو گھٹا کر پیش کرے ، ہر چند وہ بلند ایمان اور بافضیلت ہی کیوں نہ ہوں ، اس لئے اس نے تاریخ کے واقعات کو الٹ پلٹ کر کے رکھدیا ہے بہت سے افسانوں اور داستانوں کر گڑھ کر انھیں تاریخ اسلام میں شامل کیا ہے اس طرح نیک اور مخلص اصحاب کو ظالم اور تنگ نظر کی حیثیت سے معرفی کیا ہے اور ظالموں اور آلودہ دامن والوں کو پاک ، دانا اور پرہیزگار کے طور پر پیش کیا ہے اور جعل و تحریف کی اس تلاش میں اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ کرکے بد صورت دکھایا ہے اس منحوس اور خطرناک منصوبہ اور نقشہ میں اس کی کامیابی کا راز اس میں تھا کہ اس نے اپنے برے اور تخریب کارانہ مقصد کو تمام اصحاب کی تجلیل اور تعریف کے ساتھ ممزوج کرکے رسول خدا کے تمام اصحاب کی حمایت و دفاع کے پردے میں چھپایا ہے ، اس کی یہ چالاکی اور مکر و فریب مسلسل ایک طولانی مدت تک دانشوروں کیلئے پوشیدہ رہا اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ سیف حسن ظن اورللہیت اور مقدس مقصد رکھتا ہے اور حدیث و افسانے گڑھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب کا دفاع کرنا چاہتا ہے اور ان کے فضائل کی تشہیر کرنا چاہتا ہے اسی غلط تصور کے تحت تاریخ اور حدیث کے علماء نے ----اس کے باوجود کہ اسے جھوٹا ا اس کی روایتوں کو جعلی اور خود اس کو افواہ باز و زندیق کہتے تھے --- اس کی روایتوں کو تمام راویوں پر ترجیح دے کر انھیں مقدم قرار دیا ہے ۔

اسی وجہ سے سیف کی جھوٹی روایتیں رائج ہوکر منتشر ہوگئیں اور اسلامی تاریخ اور مآخذ میں شامل ہوگئیں اور اس کے مقابلہ میں صحیح روایتیں فراموشی کی نذر ہوکر اپنی جگہ، سیف کی جھوٹی روایتوں کو دے بیٹھی ہیں اسلام اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کے بہانے اسلام کیلئے یہ سب سے بڑا نقصان اور پیکر اسلام پر کاری ضرب تھی جو پہلے سیف کی طرف سے اورپھر اس کے اس جرم میں شریک تاریخ نویسوں کے ایک گروہ کی طرف سے پڑی ہے ۔

چونکہ میں نے سیف کی کارکردگیوں کے اس سلسلہ کو اسلام و مسلمین کے بارے میں نقصان دہ اور انتہائی خطرناک پایا اس لئے میں نے تاریخ اسلام کا عمیق مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ پیغمبر اسلام کے نیک اور مخلص اصحاب کا دفاع کروں جن کا حق تاریخ اسلام میں ضائع اور پایمال ہوا ہے۔

اور ان کی ذات کو سیف کی تہمتوں سے پاک کروں اور تاریخ میں گزرے ہوئے ہر واقعہ کو اپنی جگہ پر قراردوں ، خاص کر اپنے مطالعہ کو سیف کی روایتوں کے بارے میں جاری رکھوں اور اس کی تحریفات اور اس کے شریک جرم حامیوں کے تعصبات کے ضخیم پردوں کے نیچے سے تاریخ کے فراموش شدہ حقائق کو نکال کر کما حقہ ،صورت میں پیش کروں ، میں نے اس تحقیقات اور مطالعات کے خلاصہ کو ایک کتاب کی صورت دیدی اور ۱۳۷۵ ھء میں اسے نجف اشرف میں ” عبد اللہ بن سبا “ کے نام پر شائع کردیا یہ تھے میرے مطالعات کے پہلے نتائج اور انکشافات ۔

اس کے بعد میں نے سیف اور اس کی روایتوں کے بارے میں مطالعہ اور تحقیقات کو جاری رکھا میں نے اس سلسلہ میں عمیق تحقیقات اور بیشتر دقت سے کام لیا سب سے پہلے میرے لئے یہ مطلب منکشف اور عیاں ہوگیا کہ ان سب جعل ، جھوٹ اور کذب بیانی کی تشہیر سے سیف کا صرف صاحب اقتدار اصحاب کا دفاع ہی مقصد نہ تھا بلکہ اس کے اور بھی مقاصد تھے جنہیں اس نے ظاہری طور پر تمام اصحاب کے دفاع کے پردے کے پیچھے چھپا رکھا ہے ۔

حقیقت میں سیف کے احادیث جعل کرنے اور افسانہ سازی میں بنیادی اور اصلی محرک کے طور پر درج ذیل دو عوامل تھے :

۱ ۔ خاندانی تعصب

سیف اپنے خاندان ” عدنان “ کے بارے میں انتہائی متعصب تھا اور ہمیشہ اپنے خاندان کے افراد کی خواہش کے مطابق تعریف و تمجید کرتا ہے اور اپنے قبیلہ کے افرادکیلئے فضائل و مناقب جعل کرکے ان کی تشہیر کرتا ہے اور تاریخ کی کتابوں میں انھیں شامل کرتا ہے چونکہ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور بنی امیہ کے تمام خلفاء اور ان کے زمانے کے حکام و فرمانروا سب قبیلہ عدنان سے تعلق رکھتے تھے ، اس طرح مہاجر اصحاب ،قریش سے تھے اور قریش بھی قبیلہ عدنان کا ایک خاندان تھا ، سیف ان سب کا خاندانی تعصب کی بناء پر کہ وہ اس کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے دفاع کرتا تھا چونکہ بزرگ صحابی اور طاقتور لوگ اس کے قبیلہ کے افراد تھے اسلئے یہ شبہہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ بزرگ اصحاب کا دفاع کرتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اپنے قبیلہ کے بزرگوں یعنی خاندان عدنان کے افراد کا دفاع کرتا تھا اس طرح ایسے خاندانی تعصب کی بناء پر قبیلہ قحطان کے افراد جو فخر و مباحات کے لحاظ سے قبیلہ عدنان کے ہم پلہ اور برابر تھے اس وقت کے حاکموں اور صاحبان اقتدار سے ---جو سب قبیلہ قریش اور عدناں سے تھے---- ----اچھے تعلقات نہیں رکھتے تھے(۱) شدید ملامت کرتا تھااور ان پر ناروا تہمتیں لگاتا تھا۔

چونکہ انصار قبیلہ قحطاں کا ایک خاندان تھا اس لئے سیف نے ان کی ملامت اور مذمت کرنے میں حد کر دی ہے اور انکی مذمت اور تنقید میں داستانیں گڑھ لی ہیں اور بہت سی روایتیں جعل کی ہیں ۔

۲ ۔ کفر و زندقہ

سیف کا اسلام میں جعل وتحریف کرنے کا دوسرا عامل اس کا کفر اور زندقہ تھا سیف اسی کفر و زندقہ اور دل میں اسلام سے عداوت رکھنے کی وجہ سے چاہتا تھاکہ تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اسلام کے چہرہ کو بد نما اور نفرت انگیز صورت میں پیش کرے ۔

یہی مقصد اور محرک تھا جس کی وجہ سے اس نے ایک طرف سے حدیث کے راویوں اور پیغمبر

____________________

۱۔خلفاء میں حضرت علی کی یہ خصوصیت تھی کہ ان کے مخالفین قریش و عدنان سے تھے اور ان کے دوست قحطانی تھے اس لئے سیف حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے میں بخل کرتا تھا لیکن امام اور ان کے طرفدارو(جو قحطانی تھے) کے بارے میں جھوٹ اور تہمتیں پھیلانے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا ۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31