تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 6%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28567 / ڈاؤنلوڈ: 4890
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۴

مؤلف:
اردو

آیات ۹۷،۹۸،۹۹

۹۷ ۔إ( ِنَّ الَّذینَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِکَةُ ظالِمی اٴَنْفُسِهِمْ قالُوا فیمَ کُنْتُمْ قالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفینَ فِی الْاٴَرْضِ قالُوا اٴَ لَمْ تَکُنْ اٴَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فیها فَاٴُولئِکَ مَاٴْواهُمْ جَهَنَّمُ وَ ساء َتْ مَصیراً ) ۔

۹۸۔ا( ِٕلاَّ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّساء ِ وَ الْوِلْدانِ لا یَسْتَطیعُونَ حیلَةً وَ لا یَهْتَدُونَ سَبیلاً ) ۔

۹۹۔( فَاٴُولئِکَ عَسَی اللَّهُ اٴَنْ یَعْفُوَ عَنْهُمْ وَ کانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُوراً ) ۔

ترجمہ

۹۷۔وہ لوگ کہ جن کی روح ( قابض ارواح) فرشتوں نے قبض کی جب کہ وہ اوپر ظلم کرچکے تھے اور ان سے کہا کہ تم کس حالت میں تھے ( او رمسلمان ہونے کے باوجود کفار کی صف میں کیوں کھڑے ہوئے) تو انھوں نے کہا کہ ہم اپنی سر زمین پر انتشار اور دباو میں تھے تو ان ( فرشتوں ) نے کہا تو کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم ہجرت کرجاتے پس ان ( کے پاس کوئی عذر و معذرت نہیں تھی اور ان ) کے رہنے کی جگہ جہنم ہے اور ان کا انجام برا ہے ۔

۹۸۔ مگر ایسے مرد ، عورتیں اور بچے جو واقعاً دباو او رجبر کا شکار تھے کہ جن کے پاس ( اس آلود ہ ماحول سے نجات پانے کے لئے )نہ کوئی چارہ نہ تھا اور نہ کوئی راہ ۔

۹۹۔ممکن ہے خدا انھیں عفو کے قابل قرار دے اور خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔

شانِ نزول

جنگ بدر کی ابتدا سے قبل سر داران قریش نے یہ خطر ناک اعلان کیا تھا کہ مکہ کے تمام رہنے والے جو میدان جنگ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں ، مسلمانوں سے جنگ کرنے لئے نکل کھڑے ہو ں اور جو اس کام کی مخالفت کرے گا اس کا گھر ویران کردیاجائے گا اور اس کامال ضبط کرلیا جائے گا اس دھمکی کے بعد کچھ افراد جو بظاہر ایمان لاچکے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں گھر اور مال و متاع انتہائی عزیز تھا وہ ہجرت کے لئے تیار نہ ہوئے او ربت پرستوں کے ساتھ میدان جنگ کی طرف چل پڑے میدان جنگ میں انھوں نے مشرکین کا ساتھ دیا وہ مسلمانوں کی کم تعداد کو دیکھ کر شک و شبے میں مبتلا ہو گئے اورآخر کار میدانِ جنگ میں قتل ہو گئے درج بالا آیت اسی ضمن میں نازل ہو ئی جس میں ان کا عبرت ناک انجام بیان کیا گیا ہے ۔

تفسیر

جہادسے متعلق مباحث کے بعد ان آیات میں ایسے لوگوں کے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ کیا گیا جو اسلام کا دم بھر تے تھے لیکن انھوں نے اسلام کے اہم لائحہ حمل یعنی ” ہجرت“ کو حملاً نظر انداز کئے رکھا جس کے نتیجے میں وہ خطر ناک وادیوں میں پہنچ گئے او رمشرکین کی صفوں میں شامل ہوکر انھوں نے جانیں گنوادیں قرآن کہتا ہے : وہ لوگ کہ ( قبض روح کرنے والے ) فرشتوں نے جن کی روح اس حالت میں قبض کی کہ جب انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کررکھا تھا انھوں نے ان سے پوچھا کہ اگر تم لوگ مسلمان تھے تو پھر کفار کی صفوں میں شامل ہو کر تم نے مسلمانوں سے کیوں جنگ کی (ا( ِٕنَّ الَّذینَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِکَةُ ظالِمی اٴَنْفُسِهِمْ قالُوا فیمَ کُنْتُمْ ) ۔

وہ جواب میں معذرت خواہی سے کہتے ہیں : ہم اپنے ماحول میں جبر اور دباو میں تھے اس لئے ہم فرمان الہٰی پر عمل کی طاقت نہیں رکھتے تھے( قالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفینَ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

لیکن ان کی یہ معذرت قابل ِ قبول نہ ہوگی اور فوراً وہ خدا کے فرشتوں سے یہ جواب نسیں گے کہ کیا پروردگار کی زمین وسیع و عریض نہ تھی کہ تم ہجرت کرتے اور اپنے آپ کو اس آلودہ اور گھٹے ہوئے ماحول سے نکال کر لے جاتے( قالُوا اٴَ لَمْ تَکُنْ اٴَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فیها )

آخر میں اس کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : اس قسم کے لوگ جنھوں نے بیکار عذر داری اور ذاتی مصلحت اندیشوں کے سبب ہجرت نیہں کی اورانھوں نے اس گھٹے ہوئے ماحول میں زندگی گذارنے کو ترجیح دی ہے ان کا ٹھکا نہ جہنم ہے اور وہ بہت برا انجام ہے( فَاٴُولئِکَ مَاٴْواهُمْ جَهَنَّمُ وَ سائَتْ مَصیراً ) ۔

بعد والی آیت میں مستضعفین ، حقیقی کمزور اور عاجز افراد ( نہ کہ جھوٹے مستضعفین ) کے استثناء کے ساتھ فرماتا ہے : وہ مرد عورتیں اور بچے جو اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کا وئی راستہ نہیں پاتے وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ یہ لوگ حقیقتاً معذور ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ خدا ناقابل حمل ذمہ داری لاگو کردے( إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّساء ِ وَ الْوِلْدانِ لا یَسْتَطیعُونَ حیلَةً وَ لا یَهْتَدُونَ سَبیلاً ) ۔

آخری آیت میں فرماتا ہے : ہوسکتا ہے عفو خداوندی ان کے شامل حال ہو اور خدا ہمیشہ سے معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے( فَاٴُولئِکَ عَسَی اللَّهُ اٴَنْ یَعْفُوَ عَنْهُمْ وَ کانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُوراً ) ۔

یہ بھی سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر یہ افراد حقیقتاً معذور ہیں تو پھر کیوں نہیں فرماتا کہ خدا حتماً او ریقینا انھیں بخش دے گا وہ تو کہتا ہے ” عسیٰ “

( شاید ) اس سوال کا جواب وہی ہے جو اس سورہ کی آیت ۸۴ کے ذیل میں بیان ہو چکا ہے کہ اس طرح کی تعبیروں سے مراد کیا ہے ۔ اس آیت میں مذکورحکم چند شرائط کے ساتھ آیا ہے جن پر غور کرنے ضرورت ہے ۔

خدا اس قسم کے افراد سے عفو کرتا ہے جنھوں نے موقع ملنے پر ہجرت کے عمل سے تھوڑی سی کوتا ہی بھی نہ کی ہو ۔ اصطلاح کے مطابق اس کام کے ضمن میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو اور اب بھ موقع ملتے ہی ہجرت کرنے پر آمادہ اور تیار ہوں ۔

چند اہم نکات

۱۔ روح کی استقامت

اس آیت میں موت کی بجائے” توفیّٰ“ کا لفظ حقیقت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ موت کا معنی نابود او رفنا ہونا نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی” فرشتوں کی ایک جماعت اور روح انسانی کو پالینا“ ہے یعنی وہ اس کی روح کو جوکہ اس کے وجود کا سب سے بنیادی حصہ ہے نکال کر ایک دوسرے جہان میں لے جاتے ہیں ایسی تعبیر جو قرآن میں بار ہا آئی ہے در اصل قرآن مجید کا اس امر کی طرف ایک واضح ترین اشارہ ہے کہ موت کے بعد باقی رہتی ہے اس کی تفصیل مختلف آیات میں مناسب موقع پر آتی رہے گی یہ جواب ان لوگوں کے لئے ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن نے روح کا کہیں ذکر نہیں کیا۔

۲۔ روح قبض کرنے والے ، ایک یا ایک ست زائد فرشتے

قرآن میں کئی ایک مقامات ( ۱۲ مقامات) ہیں جن میں ”توفیّٰ“(۱)

اور موت کا تذکرہ ہے اس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے کے لئے ایک ہی فرشتہ متعین نہیں کیا گیا بلکہ بہت سے فرشتوں کے ذہ یہ کام ہے جو لوگوں کی ارواح کو اس جہاں سے دوسرے جہان میں لیجانے پر مامور ہیں ۔ درج بالا آیت میں فرشتوں کا ذکر جمع کے صیغے( الملائکہ ) کے ساتھ آیا ہے ۔

یہ بھی اس امر کا گواہ ہے سورہ انعام کی آیت ۶۱ میں ہے :

( حتی اذا جاء احدکم الموت توفته رسلنا )

” جب تم میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے ( فرشتے) اس کی روح قبض کرتے ہیں “۔

اب اگر ہم دیکھیں کہ بعض آیات میں یہ امر ملک الموت( موت کا فرشتہ) سے منسوب کیا گیا ہے(۲)

تو وہ اس مفہوم میں ہے کہ وہ ان تمام فرشتوں کو سر دار ہے جو ارواح قبض روح کرنے پر مامور ہیں اور اسی فرشتے کو احادیث میں ” عزرائیل“ کے نام سے یا کیا گیا ہے اس بناپر جب لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایک فرشتہ کس طرح ایک ہی وقت میں تمام مقامات پر حاضر ہو کر انسانوں کی روح قبض کرتا ہے تو اس کا جواب اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے ۔

اس کے علاوہ اگر فرض کریں کہ اور فرشتے نہیں ہیں اور صرف ایک فرشتہ ہے پھر بھی کوئی مشکل پید انہیں ہوتی کیونکہ اس کا اکیلا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا دائرہ کا ر بہت وسیع ہے کیونکہ ایک ایسا وجود جو مادے سے نہ بنا ہو اس کا میں مادی اشیاء کی نسبت وسیع احاطہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ملک الموت کے بارے میں امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم نے ملک الموت سے اس جہان پر احاطہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا:

مالدنیا کلها عندی فیما سخرها الله لی ومکنتی علیها الاکلدرهم فی کف الرجل یقبله کیف یشائ

یہ جہاں اور جو کچھ اس میں ہے اس تسلط اور احاطہ کے لحاظ سے جو خدا نے مجھے بخشا ہے میرے نزدیک اس درہم ( روپیہ) کی مانند ہے جو کسی شخص کے ہاتھ میں ہو کر کہ جس طرح چاہے الٹ پھیر کردے ۔(۳)

بعض آیات میں روح قبض کرنے کا تعلق خداسے وابستہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً

( الله یتوفی الانفس حین موتها )

” خدا موت کے وقت جانوں کو قبض کرتا ہے “ ( سورہ زمر ۴۲)

یہ گذشتہ آیات سے متضاد نہیں کیونکہ جن معاملات میں کام واسطوں کے ذریعے ہوتے ہیں وہاں بعض اوقات کاک کی نسبت وسیلوں کی طرف دی جاتی ہے او رکبھی اس طرف کہ جا اسباب اور وسیلے پیدا کرتا ہے دونوں نسبتیں صحیح ہیں بہتر نظریہ یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے حوادث کی نسبت قرآن مجید میں فرشتوں کی طرف دی گئی ہے جو خدا کی جانب سے عالم ہستی میں مامور ہیں ۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فرشتہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس مفہوم میں عاقل مجرد موجودات سے لے کر طبعی توانائیاں تک شامل ہیں ۔

۳۔ مستضعف کون ہے ؟

آیات قرآن اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو افراد فکری ، جسمانی یا اقتصادی طور پر اتنے ضعیف او رکمزور ہوں کہ حق و باطل میں تمیز نہ کر سکیں یا جو با وجود صحیح عقیدہ کھنے کے جسمانی یا مالی طور پر کمزوری کے باعث یا معاشرے کی نارواپابندیوں کے سبب اپنے فرائض ادا نہ کرسکتے ہوں اور نہ ہی ہجرت کے قابل ہوں انھیں مستضعف کہتے ہیں ۔ حضرت علی (علیه السلام) سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

ولا یقع اسم الاستضعاف علی من بلغة الحجة فسمعتها اذنه ووعا ها قلبه ۔

” وہ شخص مستضعف نہیں ہے جس پر حجت تمام ہو چکی ہو اس نے حق کو سنا ہو اور اس کے ذہن نے اس کا ادراک کیا ہو“۔(۴)

امام موسی ٰ بن جعفر (علیه السلام) سے پوچھا گیا: مستضعف کون ہے ؟ امام نے اس سوال کے جواب میں تحریر فرمایا:

الضعیف من لم ترفع له حجة ولم یعرف الاختلاف فاذا عرف الاختلاف فلیس بضعیف ۔

مستضعف وہ شخص ہے جس تک حجت اور دلیل نہ پہنچی ہو او روہ ( مذاہب اور عقائد کے بارے میں ) موجود اختلاف کو نہ سمجھ سکا ہو (جوکہ محرک تحریک ہے)اور اس چیز کو سمجھ چکا ہو وہ مستضعف نہیں ہے “۔( نور الثقلین جلد اول صفحہ ۵۳۹)

واضح ہے کہ اوپر والی دونوں احادیث میں مستضعف فکری اور عقیدہ کے لحاظ سے ہے لیکن زیر بحث آیت میں او راسی سورہ کی آیہ ۷۵ میں جو بیان ہو چکی ہے مستضعف سے مراد عملی مستضعف ہے یعنی وہ شخص جس نے حق کی تشخیص کرلی ہو لیکن ماحول کا جبر اور گھٹن اسے عمل کی اجازت نہ دیتا ہو ۔

____________________

۱”توفیّ“ کے معنی کے سلسلہ میں تفسیر نمونہ جلد دوم صفحہ ۳۴۱ کی طرف مراجعہ فرمائیں اردو ترجمہ

۲۔سورہ سجدہ آیت ۱۱

۳ ۔تفسیر برہان جلد ۲ صفحہ ۲۹۱ آیت ۱ سورہ اسرا کے ذیل میں ۔

۴ ۔نو ر الثقلین جلد اول صفحہ ۵۳۶۔

آیت ۱۰۰

۱۰۰۔( وَ مَنْ یُهاجِرْ فی سَبیلِ اللَّهِ یَجِدْ فِی الْاٴَرْضِ مُراغَماً کَثیراً وَ سَعَةً وَ مَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِهِ مُهاجِراً إِلَی اللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اٴَجْرُهُ عَلَی اللَّهِ وَ کانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

ترجمہ

۱۰۰۔ اور جو شخص راہ خدا میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے اور وسیع امن کے خطے پالے گا او رجو شخص اپنے شہر سے خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرے پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر و ثواب خد اپر ہے اور خدا بخشنے والا او رمہر بان ہے ۔

تفسیر

ہجرت. اسلام کا ایک اصلاحی حکم

جو لوگ ہجرت کے فریضہ سے کوتاہی کرکے طرح طرح کی ذلتوں او ربد بختیوں کا شکار ہو جاتء ہیں ان کے تذکرے کے بعداس آیت میں قطعی طور پر ہجرت کی اہمیت کے سلسلہ میں دو حصوں میں بحث ہوئی ہے ۔

سب سے پہلے دنیا وی زندگی میں ہجرت کے ثمرات اور بر کات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ( جو لوگ خدا کی راہ میں اور خدا کے لئے ہجرت کرتے ہیں انھیں خدا کے اس وسیع جہاں میں امن کی بہت سی اور وسیع جگہیں میسر آئیں گی جن میں رہ کر وہ حق کو فروغ دیں گے اور مخالفین کو زیر کرسکیں گے

( وَ مَنْ یُهاجِرْ فی سَبیلِ اللَّهِ یَجِدْ فِی الْاٴَرْضِ مُراغَماً کَثیراً وَ سَعَةً ) ۔

غو رکرنا چاہئیے کہ ” مراغم“ رغام ( بر وزن کلام ) کے مادہ سے بمعنی” خاک اور مٹی“ لیا گیا ہے ۔ ارغام کا کعنی ہے کسی کو مٹی میں رگیدنا اور ذلیل کرنا او رمراغم اسم مفعول بھی ہے اور اسم مکان بھی ۔ لیکن زیر نظر آیت میں اسم مکان کے معنی میں آیا ہے یعنی وہ مکان جہاں حق کا اجر اکر سکتے ہیں اور اگر کوئی شخص عناد کی وجہ سے حق کی مخالفت کرے تو اسے مغلوب کرکے اسے گھٹنے ٹیکنےپر مجبور کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد ہجرت کے معنوی اور آخروی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : اگر کچھ لوگ ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر اور وطن سے خدا اور پیغمبر کی طرف ہجرت کریں اور ہجرت کے مقام تک پہنچنے سے پہلے انھیں موت آجائے تو ان کا اجر اور ثواب خدا کے ذمہ ہے اور خدا ان کے گناہوں کو بخش دے گا( وَ مَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِهِ مُهاجِراً إِلَی اللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اٴَجْرُهُ عَلَی اللَّهِ وَ کانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

اس وجہ سے ہجرت کرنے والے ہر صورت میں ایک عظیم کامیابی حاصل کریں گے چاہے وہ اپنی منزل پر پہنچ جائیں اور حریت و آزادی کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی سے بہرہ ور ہوں اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اور چاہے وہ ایسا نہ کرسکیں اور اپنی جان اس راہ میں قربان کردیں ۔ اس کے باوجود ہر قسم کا اجر و ثواب خدا ہی کے ذمہ ہے ، لیکن یہاں خصوصیت کے ساتھ اس بات کا تذکرہ ہے ”فقد وقع اجره علی الله “ یعنی اس کا اجر خدا پر لازم ہو چکا ہے ، یہ امر ہجرت کرنے والوں کے اجر و ثواب کی انتہائی عظمت و اہمیت کا مظہر ہے ۔

اسلام اور ہجرت

اس آیت اور قرآن کی بہت سی دوسری آیات کے مطابق اسلام صراحت کے ساتھ حکم دیتا ہے کہ انسان اگر کسی ماحول میں کچھ عوامل و اسباب کی بناپر ذمہ داری نبھا نہ سکے تو دوسرے ماحول او رمقام امن کی طرف ہجرت کرے کیونکہ جہاں ہستی کے باوجود

نتواں مرد بہ ذلت کہ درینجا زادم

( یعنی اس وجہ سے ذلت کے ساتھ کسی جگہ نہیں مرنا چاہےئے کہ یہ میری جائے پیدا ئش ہے )

اور اس حکم کی علت او رسبب واضح ہے کیونکہ انسان کسی خاص مقام کا پابند نہیں ہے وہ کسی معین مقام او رماحول سے وابستہ اور اس میں محدود نہیں ہے اس طرح انسان کا اپنی جائے پیدائش او راس کے ماحول او رعلاقے سے انتہائی لگاو اسلام کے نقطہ نظر سے مسلمانوں کی ہجرت سے مانع نہیں ہوسکتے یہی وجہ ہے کہ صدر اسلام میں یہ تمام وابستگیاں اسلام کی حفاظت اور ترقی کے لئے منقطع کر ہی گئیں ایک مغربی مورخ کے بقول

قبیلہ او رخاندان و ہ اکیلا درخت سے جو صحرامیں اگتا ہے اور کوئی شخص اس کی پناہ اور سائے کے بغیر زندگی بسر نہیں کرسکتا لیکن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ہجرت کے ذریعے اس درخت کو جس نے ان کے خاندان کے لئے گوشت او رلہو سے پرورش پائی تھی اپنے پروردگار کے لئے کاٹ دیا

( اور قریش سے اپنا رابطہ ختم کردیا ) ۔ ( محمد خاتم پیامبران جلد اوّل ) ۔

علاوہ ازیں تمام زندہ موجودات میں یہ بات مشترک ہے کہ جب وہ اپنے وجود کو خطرے میں دیکھتے ہیں تو ہجرت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اس سے پہلے سے لوگوں نے کسی علاقے کے گرافیائی حالات کے متغیر ہونے کے بعد اپنی زندگی کی بقا کے لیے اپنے وطن اور جائے پیدائش سے دوسرے علاقوں کی طرف کوچ کیا ہے نہ صرف انسان بلکہ جانداروں میں بہت سی ایسی انواع ہیں جو مہاجر کے طور پر پہچانی گئی ہیں ۔ مثلاًبعض ہجرت کرنے والے پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی بقا کے لئے بعض اوقات پورے کرہ ارض کی سیر کرتے ہیں اور ان میں سے بعض تو قطب شمالی سے قطب جنوبی تک کا سفر طے کرتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کی بقا کے لئے تقریباً ۱۸ ہزار کلو میٹر تک پرواز کرتے ہیں اور یہ چیز اس بات کا ثبوت ہے کہ ہجرت حیات و زیست کو رواں دواں رکھنے کے قوانین میں سے ہے تو کیا ممکن ہے کہ انسان ایک پرندے سے بھی کم تر ہے ؟ یا یہ ہوسکتا ہے کہ جب مقدس مقاصد و اہداف اور حیات معنوی جن کی قدر و قیمت مادی زندگی سے کہیں زیادہ ہے ، خطرے میں پڑجائیں تو انسان اس عذر کی بناپر کہ یہ میری جائے پیدا ئش ہے اپنے اہداف و مقاصد کو چھوڑ دے اپنے آپ کو طرح طرح کی ذلت و خواری ، محرومی اور غلامی کے سپرد کر دے ، یا یہ کہ وہ اس عمومی قانون حیات کے مطابق اس علاقے سے ہجرت کرجانے او رکسی ایسی جگہ منتقل ہو جائے جو اس کی مادی و روحانی نشو ونما اور رشد کے لئے مناسب ہو ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ وہ ہجرت جو اپنی حفاظت کی بجائے دین اسلام کے تحفظ کے لئے ہوئی مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداہے اور یہ ہجرت ہمارے تمام سیاسی ،تبلیغی اور معاشرتی معاملات کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہے باقی رہا یہ سوال کہ ہجرت ِ پیغمبر اکرم کا سال اسلام کی تاریخ کے ابتداکے طور پر کیوں منتخب ہوا ہے ۔

تو یہ بات بھی قابل توجہ ہے ہم جانتے ہیں کہ ہر قوم و ملت کی اپنی ایک تاریخی ابتداہوتی ہے ، عیسائیوں نے اپنی تاریخ کی ابتدا حضرت مسیح (علیه السلام)کے سال پیدائش سے شمار کی ہے اسلام میں باوجودیکہ بہت سے اہم واقعات تھے ۔ مثلاً ولادت پیغمبر اسلام ، آپ کی بعثت ، فتح مکہ اور رحلت پیغمبراکرم ، پھر بھی ان میں سے کوئی واقعہ منتخب نہیں ہوااور صرف ہجرتِ رسولِ خدا تاریخ کی ابتدا کا عنوان ٹھہری ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خلیفہ دوم کے وقت جب اسلام طبعی طورپر وسعت حاصل کر چکا تھا مسلمانوں کو ایسی ابتدا ئے تاریخ کے تعین کی فکر لاحق ہوئی جو عمومی لحاظ سے سب کے لئے یکسان ہو ۔ بہت ردد قد کے بعد حضرت علی (علیه السلام) کے نظریہ کو قبول کرلیا گیا، حضرت علی (علیه السلام) نے ابتدائے تاریخ کے لئے ہجرت کا انتخاب کیا۔(۱)

حقیقت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا کیونکہ ہجرت وہ روشن قدم تھا جسے اسلام میں عملی جامہ پہنایا گیا اور جو تاریخ اسلام کی فصلِ نوکا آغاز بنا مسلمان جب تک مکہ میں تھے اپنی تعلیم و تربیت کےابتدائی دور سے گذرہے تھے ظاہراً وہاں وہ کسی قسم کی اجتماعی اور سیا سی طاقت نہ تھے لیکن ہجرت کے فوراً بعد اسلامی حکومت کی تشکیل ہوئی اور بڑی تیزی کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں ترقی ہوئی اور اگر مسلمان فرمان رسالت کے مطابق اس طرح ہجرت نہ کرتے تونہ صرف یہ کہ اسلام مکہ کے دائرے سے باہر نہ نکلنا بلکہ ممکن تھا کہ وہیں خاموش اور دفن ہو جاتا۔

واضح ہے کہ ہجرت کوئی ایسا حکم نہیں کہ جو زبان ِ پیغمبر اکرم کے ساتھ مخصوص ہو بلکہ ہر عہد اور زمانہ میں کسی جگہ بھی ایسے حالات ہوں تو مسلمانوں کی ذمہ داری فریضہ ہے کہ وہ ہجرت کریں ۔

بنیادی طور پر قرآن ہجرت کو آزادی اور سکون کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ جیسا کہ زیر بحث آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے ۔ سورہ نحل آیة ۴۱ میں بھی یہ حقیقت ایک اور طریقے سے بیان ہوئی ہے :

( و الذین هاجروا فی الله من بعد ماظلموا النبو ئنهم فی الدنیا حسنة )

اور وہ لوگ جن پر ظلم کئے گئے اور اس کے بعد انھوں نے راہِ خدا میں ہجرت اختیار کی وہ دنیا میں پاکیزہ مقام حاصل کریں گے ۔

اس نکتہ کاتذکرہ بھی ضروری ہے کہ ہجرت اسلام کی نگاہ میں صرف مکانی اور خارجی ہجرت نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس ہجرت سے پہلے اندر اور باطن سے ہجرت کا آغاز ہو اور اس ہجرت سے مراد ہجرت اور دوری ہے ان چیزوں سے کہ جو انسان کی اصالت ، اس کے مرتبے اور اعزاز سے ٹکراتی ہوں یہ ہجرت اس لئے ہے کہ تاکہ اس کے زیر اثر انسان خارجی اور مکانی ہجرت کے لئے آمادہ ہوسکے اور یہ ہجرت ضروری ہے تاکہ اگر ہجرت مکانی کی ضرورت پڑے تو اس باطنی ہجرت کے زیر اثر انسان راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو سکے اصولی طور پر روحِ ہجرت وہی ظلمت سے نور، کفر سے ایمان اور گناہ و نافرمانی سے اطاعتِ خدا وندی کے لئے دیوانہ وار نکل پڑنا ہے اسی لئے ہم احادیث میں پڑھتے ہیں کہ وہ مہاجرین جنھوں نے جسمانی طور پر ہجرت کی مگر روحانی ہجرت نہیں کی وہ مہاجرین کی صفوں میں شمار نہیں ہوتے اس کے مقابلے میں وہ لو گ جنھیں مکانی ہجرت کی ضرورت نہیں تھیں لیکن وہ باطنی طور پر ہجرت میں شامل تھے وہ مہاجرین کے زمرے میں داخل ہوگئے ۔ امیر المومنین حضرت علی (علیه السلام) فرماتے ہیں :۔

ویقول الرجل هاجرت، له یهاجر، انما المهاجرون الذین یهجرون السیئات و لم یاٴتو ابها

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ہجرت کی ہے حالانکہ حقیقت میں انھوں نے ہجرت نہیں حقیقی ہجرت کرنے والے وہ ہیں جو گناہوں سے ہجرت اختیار کرتے ہیں اور ان کے مرتکب نہیں ہوتے ۔( سفینة البحار ( ہجر)

پیغمبراکرم نے فرمایا:

من من قو بدینه من ارض الیٰ الارض و ان کان شبراً من الارض استوجب الجنة و کان رفیق محمد و ابراهیم علیهم السلام

جو شخص اپنے دین کی حفاظت کے لئے ایک سر زمین سے دوسری سر زمین کی طرف ایک بالشت برابر ہجرت کرے تو وہ جنت کا مستحق ہوجاتا ہے اور محمد و ابراہیم علیہہم السلام کیک رفاقت اور جانشینی اسے نصیب ہو گی( کیونکہ یہ دونوں عظیم پیغمبر عالمِ ہستی میں ہجرت کرنیوالوں کے پیشوا اور رہنما تھے )(نو ر الثقلین ،جلد اول صفحہ ۵۴۱) ۔

____________________

۱۔تاریخ طبری جلد دوم ص۱۱۲۔

آیت ۱۰۱

۱۰۱۔( وَ إِذا ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُناحٌ اٴَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ اٴَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذینَ کَفَرُوا إِنَّ الْکافِرینَ کانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبیناً ) ۔

ترجمہ

۱۰۱۔ اور جس وقت سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کرو، اگر تمہیں کافروں کے فتنے کا ڈر ہو ، کیونکہ کافر تمہارے واضح دشمن ہیں ۔

تفسیر

نماز ِ مُسافر

گذشتہ آیات” جہاد“ اور” ہجرت“ کے بارے میں بحث کررہی تھیں ۔ اب اس میں ” نماز مسافر“کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب سفر کرو تو کوئی حرج نہیں کہ نماز کو کم اور قصر کرلو، اگر کفارہ کی طرف سے تمہیں خدشہ ہو کیونکہ کافر تمہارے واضح دشمن ہیں( وَ إِذا ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُناحٌ اٴَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ اٴَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذینَ کَفَرُوا إِنَّ الْکافِرینَ کانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبیناً ) ۔

اس آیت میں سفر کو ”ضرب فی الارض“سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ مسافر سفر کرتے وقت زمین کو اپنے پاوں تلے روندتا ہے ۔(۱)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں نماز قصر کا مسئلہ دشمن کے خطرے کے ساتھ مشروط ہے جبکہ ہم فقہی مباحث میں پڑھتے ہیں کہ نماز قصر ایک عمومی حکم ہے اور اس میں پر خطر اور پر امن سفروں میں کوئی فرق نہیں ہے شیعہ او رہل سنت کی طرف سے کئی ایک روایات جو نماز قصر کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس عمومیت کی تائید کرتی ہیں ۔(۲)

اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے قصر والے حکم کو خوف سے مربوط کرنا مندرجہ ذیل چند وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر ہو ۔

الف: یہ پابندی اور شرط اسلام کے ابتدائی دنوں کی صورتِ حال سے متعلق ہے اور اصطلاح کے مطابق قید غالبی ہے یعنی غالباًان کے سفر خوف و خطر سے بھر پور ہوتے تھے اور جیسا کہ علم اصول میں کہا جا چکا ہے کہ قیود غالبی کا مفہوم نہیں ہوتا جیسا کہ :۔”( وربائبکم الاتی فی حجورکم ) “ تمہاری بیوی کی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں پلی بڑھی ہیں تم پر حرام ہیں ۔ ( نساء۔ ۳۲)

اس آیت میں بھی یہی مسئلہ در پیش ہے کیونکہ بیوی کی بیٹیاں محارم میں داخل ہیں چاہے وہ اس کی گود میں رہی ہوں یا نہ رہی ہوں غالبا ًجو طلاق یافتہ عورتیں دوسرا شوہر کرتی ہیں وہ جوان ہوتی ہیں اور چھوٹے بچے ان کے ساتھ ہوتے ہیں جو دوسرے شوہر کی گود میں پلتے ہیں اس لئے فی حجورکم (تمہاری گود میں ) کی قید اس آیت میں آئی ہے ۔

ب:۔ بعض مفسرین کا یہ نظر یہ ہے کہ نماز قصر کا مسئلہ پہلے تو خوف کے وقت سے متعلق تھا ( اوپر والی آیت کے مطابق) پھر اس حکم نے وسعت پیدا کی اور یہ تمام مواقع کے لئے عمومیت اختیا رکرگیا۔

ج:۔ ممکن ہے یہ پابندی تاکید پہلو رکھتی ہو یعنی نماز قصر مسافر کے لئے ہر جگہ لازم اور واجب ہے لیکن جب دشمن کا خدشہ ہو تو پھر اس کی زیادہ تاکید ہے ۔ بہرحال اس میں شک و شبہ نہیں کہ آیت کی تفسیر میں آنے والی بہت سی اسلامی روایات کی طرف دھیان دیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز مسافر حالتِ خوف سے مخصوص نہیں ہے اسی لئے تو پیغمبر اکرم بھی سفر کی حالت میں یہاں تک کہ مراسم ِ حج میں ( منیٰ کی سر زمین میں ) نماز قصر پڑھتے تھے ۔

ایک سوال جو پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے ” لاجناح علیکم “( تم پر کوئی گناہ نہیں ہے )اور قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا گیا کہ بس نماز قصر ہی پڑھو تو ایسے میں کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ نماز قصر واجب عینی ہے ، واجب ِ تخییری نہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل یہی سوال رہبران اسلام سے ہوا اور انھوں نے دو نکات کی طرف اشارہ کیا :

پہلا نکتہ یہ کہ ” لاجناح“ ( تم پر کوئی گناہ نہیں ) کی تعبیر خود قرآن مجید میں بعض مواقع پر وجوب کے معنی میں استعمال ہوئی ہے ، مثل....:

( ان الصفا و المروة من شعائر الله فمن حج البیت او اعتمر فلاجناح علیه ان یطوف بهما ) ( البقرہ: ۱۵۸)

صفا اور مروہ خدا کی شعائر اور نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص حج و عمرہ ادا کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے ( صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج و عمرہ دونوں میں واجب ہے اسی لئے تو پیغمبر اکرم اور تمام مسلمان یہ عمل کرتے تھے ۔ بالکل یہی مضمون ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام سے نقل ہو اہے ۔(۳)

دوسرے الفاظ میں ” لاجناح“ کی تعبیر زیر بحث آیت میں اور نیز آیت حج میں حرمت کے وہم کی نفی کے لئے ہے ، کیونکہ اسلام کی ابتداء میں صفا مروہ(پہاڑیوں )کے اوپر بت رکھے ہوئے تھے بعض مسلمانوں کا خیال تھا صفا او رمروہ کے درمیان سعی کرنا بت پرستوں کے آداب میں سے ہے حالانکہ ایسانہیں تھا لہٰذا خدا اس غلط فہمی کی نفی کے لئے فرماتا ہے ” کہ کوئی حرج نہیں کہ صفا او رمروہ کے درمیان سعی کرو“ اسی طرح مسار کے ذکر میں احتمال ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کریں کہ سفر میں نماز کو قصر کرنا ایک گناہ ہے لہٰذا لاجناح کی تعبیر کے ساتھ اس غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے ۔

دوسرا نکتہ کہ جس کی طرف بعض روایات میں بھی اشارہ ہواہے یہ ہے کہ سفر میں نماز کو قصر کرنا ایک قسم کی خدا کی طرف سے رعایت ہے لہٰذا ادب اور احترام کا تقاضا ہے کہ انسان اس تخفیف کو رد نہ کرے اور اس کی طرف سے بے اعتنائی نہ برتے ، اہل سنت کی

____________________.

____________________.

____________________.

مہیا کررکھا ہے ( ان اللہ اعد للکافرین عذاباً مھیناً)

چند اہم نکات

۱۔ نماز خوف ہر دور میں ہوسکتی ہے

واضح ہے کہ یہاں پیغمبر اکرم کے مسلمانوں کے درمیان نماز خوف کے موقع پر موجود ہونے سے یہ مراد نہیں کہ یہ نماز ذاتِ پیغمبراکرم کے وجود سے مشروط ہے بلکہ مراد سر فروشوں اور مجاہدین کے درمیان نماز باجماعت اداکرنے کے لئے امام ، پیشوا اور رہنما کا وجود ہے ۔ اسی لئے تو حضرت علی (علیه السلام) اور حضرت امام حسین (علیه السلام) نے بھی نماز خو ف ادا کی تھی یہاں تک بعض اسلامی لشکروں کے کمانڈروں ( مثلاً حضرت حذیفہ یمانی ) نے اسی اسلامی عمل کو ضرور کے وقت انجام دیا ۔(۴)

۲۔ دوران نمازِ خوف مسلح رہنے کے حکم میں فرق

آیت میں پہلے گروہ کو حکم ہوتا ہے کہ نماز خوف کے وقت ان کے پاس ہتھیار ہونے چاہئیں ۔ لیکن دوسرے گروہ سے کہتا ہے کہ دفاعی ساز و سامان( مثلا زرہ) اور ہتھیاروں کو زمین پر بالکل نہ رکھیں ممکن ہے کہ ان دونوں دستوں کا فرق اس وجہ سے ہو کہ پہلے گروہ کے نماز کو اداکرتے وقت دشمن ابھی تک اس لائحہ عمل سے بے خبر ہو لہٰذ ااس میں حملے کا احتمال بہت کم ہے لیکن دوسرے دستہ کے وقت جبکہ دشمن ادائیگی نماز پر متوجہ ہو جاتا ہے تو حملے کا احتمال بہت زیادہ ہے ۔

۳۔ مال و متاع کی حفاظت

مال و متاع کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اپنی حفاظت کے علاوہ دوسرے جنگی وسائل اور سفر کے ساز و سامان غذائی ذخیرے اور جو حیوانات تمہارے ساتھ ہیں ان کی نگرانی بھی تمہیں کرنا ہے ۔

۴۔ نماز با جماعت کی اہمیت

ہم جانتے ہیں کہ نماز با جماعت اسلام میں واجب نہیں ہے لیکن بہت زیادہ تاکیدی مستحبات میں ہے اور اوپر والی آیت اس کی ایک زندہ نشانی ہے اس اسلامی لائحہ عمل کی تاکید یہاں تک ہے کہ میدانِ جنگ میں بھی اس طریقے کی انجام دہی کے لئے نماز خوف سے استفادہ کیا جا سکتا ہے یہ امر اصل نماز او رجماعت دونوں کی اہمیت ظاہر کرتا ہے نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقی مجاہدین اپنے ہدف اور مقصد سے کس قدر وابستہ ہوتے ہیں نیز اس کام سے دشمنوں پربھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان میدانِ جنگ میں بھی اپنی ذمہ داریاں

____________________......

____________________.....

____________________.

قبیلہ بنی ابیرق نسبتاً ایک مشہور قبیلہ تھا اس قبیلہ کے تین بھائی ، بشر ، بشیر، مبشرنامی تھے ، بشیر ایک مسلمان رفاعہ کے گھر میں داخل ہوا اور تلوارہ ، زرہ او رکچھ خوراک چوری کر لیں ، اس کے بھتیجے” قتادہ“ نے جو مجاہدین بدر میں سے تھا یہ واقعہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں بیان کیا لیکن ان تین بھائیوں نے اپنے ایک پڑوسی صاحبِ ایمان مسلمان لبید پر اس معاملے میں تہمت لگائی ،لبید اس ناروا تہمت سے بہت زیادہ برہم ہوا اور تلوار نکال کر اس کے پاس آیا اور چیخ کر کہا : تم مجھ پر چوری کی تہمت لگاتے ہو، حالانکہ اس الزام کے زیادہ اہل تم ہو اورتم وہی منافق ہو جو پیغمبر خدا کی ہجو کہتے تھے اور پھر ہجو کے اشعار کو قریش سے منسوب کردیتے تھے یا تو اس تہمت کو جو تم نے مجھ پر لگائی ہے ثابت کرو ورنہ میں اپنی تلوار تمہیں گھونپ دوں گا چور کے بھائی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو لبید سے نرمی کا سلوک کیا لیکن جب انھیں یہ خبر ملکی کہ واقعہ قتادہ کے ذریعے پیغمبر اکرم کے گوش گزار ہو چکا ہے تو وہ اپنے قبیلے کے ایک خطیب کے پاس گئے کہ وہ چند افراد کے ساتھ پیغمبر اکرم نے ( ظاہر پر عمل کرنے کے فریضہ) کے مطابق اس گروہ کی شہادت کو قبول کرلیا اور قتادہ کو سزا کا مستحق قرار دیا ، قتادہ جو بے گناہ تھا اس سے بہت پریشان ہو ا اور اپنے چچا کے پاس لوٹ کر گیا اور بہت زیادہ افسوس کے ساتھ واقعہ بیان کیا تو اس کے چچا نے اس کی دلجوئی کی اور کہا کہ پریشان نہ ہو خدا ہمارا نگہبان ہے اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہو ئیں اور اس بے گناہ شخص کو بری الذمہ قرار دیا اور حقیقی خیانت کرنے والوں کی شدید سر زنش کی ۔

اس آیت کی ایک اور شانِ نزول ( بھی ) نقل ہوئی کہ ایک انصاری کی زرہ کسی جنگ میں چوری ہو گئی ۔ شک بنی ابیرق قبیلہ کے ایک شخص پر تھا ۔چور کو جب خطرہ نظر آیا تو اس نے وہ زرہ تو یک یہودی کے گھر میں پھینک دی اور اپنے قبیلہ والوں سے کہا کہ پیغمبر اکرم کے سامنے اس کی صفائی دیں اور کہیں کہ زرہ تو یہودی کے گھر میں ہے اس لئے وہ بر ی الذمہ ہے ۔

پیغمبر اکرم نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ظاہری طور پر اسے بر الذمہ قرار دیا اور یہودی کے خلاف فیصلہ دیا اس پر مندر جہ بالا آیات نازل ہوئیں اور حقیقیت کو واضح کیا۔

____________________

۱مفردات راغب مادہ ”ضرب“

۲مزید اطلاع کے لئے وسائل الشیعہ جلد پنجم اور سنن بیہقی جلد ۳ ص ۱۳۴ وغیرہ کی طرف رجوع کریں ۔

۳ نور الثقلین جلد اول ص۵۴۲۔

۴ کنز العرفان جلد اول صفحہ۱۹۱۔

آیات ۷۸،۷۹

۷۸۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

۷۹۔( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ترجمہ

۷۸۔ تم جہاں کہیں بھی رہو ، موت تمھیں پالے گی اگر چہ محکم بوجوں میں جار ہو او راگر انھیں ( منافقین کو ) حسنہ ( اور کامیابی) حاصل ہو تو کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہے اور سیئہ( اور شکست) سے دوچار ہوں تو کہتے ہیں یہ تمہاری طرف سے ہے کہہ دو کہ سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔ پس یہ گروہ کیوں تیار نہیں ہوتا کہ حقائق کا ادراک کرے ۔

۷۹۔ جو نیکیاں تجھ پر پہنچتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائی تجھے پہنچتی ہے وہ خود تیری طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے رسول بناکر بھبیجا ہے اور اس بارے میں خدا کی گواہی کافی ہے ۔

تفسیر

گذشتہ اور بعد کی آیات پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آیات بھی منافقین سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کی صفوں میں رہتے تھے جیساکہ آیات میں ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں شر کت کرنے سے ڈرتے تھے اور جب جہاد کا حکم صادر ہواتو انھیں تکلیف ہوئی ۔ قرآن ان کے اس طرزِ فکر کا دو طرح سے جواب دے رہا ہے پہلا جواب تو وہی تھا جو گذشتہ آیت کے آخر میں گزر چکا ہے( قل متاع الدنیا قلیل و الاخرة خیر لمن اتقی ) ” کہہ دو کہ دنیا وی زندگی بہت کم ہے لیکن پر ہیز گاروں کے لئے دوسرے جہان میں اس کا صلہ موجود ہے “۔

دوسرا جواب جو زیر بحث ہے کہ موت سے فرار اختیار کرنا تمہارے لئے مفید نہیں ” حالانکہ تم جہاں کہیں بھی ہو موت سے تم کو مفر نہیں آخر ایک تمھیں اس کا نوالہ بننا ہے یہاں تک کہ تم مضبوط گنبدوں میں کیوں نہ چھپ جاو” پس وہ موت جسے ضرور آنا ہے اور جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے کیون نہ اسے اصلاح اور سچائی کے لئے قبول کیا جائے جیسے جہاد کی صورت میں بجائے اس کے کہ بے کار اور لا حاصل موت قبول کی جائے ۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ ) ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات مثلاً حجر کی آیة ۹۹ ۔ اور مدثر کی آیت ۴۸ ۔ میں موت کو ” یقین “ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر قوم اور گروہ جو بھی عقیدہ رکھتا ہو وہ ہر چیز کا انکار کرسکتا ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ زندگی ایک دن ختم ہونے والی ہے وہ افرد جو زندگی سے عشق کرتے ہیں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ موت ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہونے کانام ہے اور اس کا نام لیتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں یہ آیات انھیں تنبیہ کرتی ہیں اور زیر بحث آیت میں ۔ یدرککم ۔ کے مفہوم سے انھیں متوجہ کیا گیا ہے کہ عالم ہستی کی اس حقیقت سے فرار اختیار کرنا ایک نامناسب فعل ہے کیونکہ ۔یدرککم ۔ کے مادہ کا معنی یہ ہے کہ کوئی کسی چیز سے فرار حاصل کرے اور وہ اس کے پیچھے دوڑے ۔ سورہ جمعہ کی آیت ۸ میں بھی یہ حقیقت زیادہ کھل کربیان کی گئی ہے :

قل ان الموت الذی تفرون منہ ملاقیکم کہیے کہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور تمہارے سامنے آئے گی ۔

جب یہ حقیقت مد نظر ہو تو کیا یہ عقل مندی ہے کہ انسان میدان جہاد میں جانے اور قابل فخر مرتبے پر فائز ہونے کی بجائے اس سے کنارہ کش ہ وکر گھر میں آرام کرتا رہے فرض کرلیں کہ جہاد سے کنارہ کش ہو کر وہ زندگی کے چند روز اور گذار لے اور وہی کام دہراتا رہے جو پہلے کرتا رہا ہے ۔راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے اجر و ثواب سے بے بہرہ ہو جائے تو کیا یہ عقل اور منطق کے مطابق صحیح ہے اصولی طور پر موت ایک عظیم حقیقت ہے اور موت کے استقبال کے لئے افتخار کے ساتھ آمادہ ہونا چاہئیے ۔دوسرا نکتہ جس پر توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ درج بالا آیت میں کہا گیا ہے کہ کوئی چیز یہاں تک کہ محکم برج ( بروج مشیدہ)(۱) بھی موت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا اور اس کی وجہ واضح یت اور وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت وجود انسانی سے باہر نفوذ کرتی ہے ۔ عملی طور پر موت کا سر چشمہ انسان کے اندر ہے ، کیونکہ بدن کے مختلف کل پر زوں ( اعضاء) کی استعداد یقینا محدود ہے ایک دن وہ ختم ہو جاتے ہیں ۔البتہ غیر طبیعی موت انسان کی تلاش میں باہر سے آتی ہے لیکن طبعی موت اس کے اندر سے آتی ہے ۔ مضبوط گنبد اور بھاری قلعے بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتے ۔یہ بجا ہے کہ مضبوط قلعے بعض اوقات غیر طبعی موت سے بچا لیتے ہیں ۔ مگر پھر بھی موت سے مکمل نجات نہیں دلاسکتے اورچند دنوں بعد طبعی موت انسان کو آلیتی ہے ۔

____________________

۱ - مشیدہ ۔ در اصل مادہ شید ( بر وزن شیر) سے ہے اور گچ اور دوسرے محکم مواد کے معنی میں ہے جنھیں کسی بنیاد کے استحکام کے لئے استعمال کرتے ہیں چونکہ اس زمانہ میں عام طور پر مضبوط بنیاد کے لئے محکم ترین مادہ گچ اور چونا تھا لہٰذا زیادہ تر اس مفہوم میں بولا جاتا تھا۔ لہٰذا بروج مشیدہ محکم قلعوں کے معنی میں ہے اور دیکھنے میں مشیدہ مرتفع اور بلند کے معنی میں آتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ چوناسے استفادہ کئے بغیر کسی طرح بھی بلند و بالا عمارت کی بنیادیں استوار نہیں ہوسکتیں ۔

کامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ

قرآن اس آیت کے ذیل میں منافقین کی کچھ اور بے بنیاد باتوں اور باطل خیالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :وہ جب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور نیکیاں اور حسنات ان کے ہاتھ آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے یعنی ہم اس قابل تھے کہ خدا نے ہمیں یہ شفقتیں اور نعمتیں عطا کی ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

لیکن جب انھیں شکست کا سامنا ہو یا میدان جنگ میں کوئی مشکل لاحق ہو تو کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر کی غلط تدبیر اور ان کی جنگی حکمت عملی کے خام ہونے کی وجہ سے تھا اس ضمن میں وہ جنگ احد کی شکست کا حوالہ دیتے ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ )

بعض مفسرین کا احتمال ہے کہ درج بالا آیت یہودیوں کے بارے میں ہے اور ” حسنہ“ اور ” سیئة“ سے مراد سارے اچھے اور برے حوادث و واقعات ہیں کیونکہ یہودی پیغمبر کے ظہور کے وقت اپنی زندگی کے اچھے حوادث کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے اور برے حوادث کو پیغمبر سے منسوب کردیتے تھے لیکن اس آیت کا ربط پہلے اور بعد کی ان آیات سے ہے جو منافقین کے بارے میں نشاندہی کرتی ہیں یہ آیت بھی زیادہ تر انہی سے مربوط ہے بہر حال قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ ایک موحد اور بالغ نظر خدا پرست کی نگاہ میں یہ تمام حوادث کامیابیاں اور شکستیں خدا کی طرف سے ہیں جولوگوں کی قابلیت اور اہلیت کے مطابق دی جاتی ہے ۔( قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

اور آیت کے آخر میں اعتراض کے طور پر ان منافقین کی زندگی کے مختلف پہلووں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ فکر اور غور نہیں کرتے” پس کیوں یہ لوگ حقائق کاادراک کرنے کو تیار نہیں ہوتے“

( فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

اس کے بعد اگلی آیت میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے کہ تمام نیکیاں ، کامیابیاں اور حسنات جو تمہیں ملتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائیاں اور شکستیں تمھیں در پیش ہوتی ہیں اور وہ خود تمہاری طرف سے ہیں ۔

( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ )

اور آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو اپنی شکستوں اور ناکامیوں کی نسبت پیغمبر سے دیتے ہیں اور اصطلاحاً پیغمبرکی وجہ سے سمجھتے تھے انھیں جواب دیا گیا ۔ ۔ پیغمبر سے ارشاد ہوتا ہے : ” اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے اپنا پیامبرقرار دیاہے اور خدا اس پر گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے “۔تو کایہ ممکن ہے کہ خدا کابھیجا ہوا لوگوں شکست، ناکامی او ربرائی کا سبب ہو؟( وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ایک اہم سوال کا جواب

ان دو آیات کا مطالعہ جو قرآن میں آگے پیچھے مربوط ہیں ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے کہ کیوں پہلی آیت میں تمام نیکیوں اور برائیوں (حسنات و سیئات ) کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے جب کہ دوسری آیت میں صرف نیکیوں کو خدا کی طرف اور برائیوں اور سیئات کو لوگوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ یقینا یہاں کوئی نکتہ پوشیدہ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ دو آیات جو کہ یکے بعد دیگرے آئی ہیں ان میں ایسا واضح اختلاف ہے ان دونو ں آیات پر غور و فکر کرنے سے چند نکات واضح ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک سوال کا علیحدہ جواب بن سکتا ہے ۔

۱۔ اگر سیئات اور برائیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دوپہلو رکھتی ہیں ۔ ایک مثبت پہلو اور ایک منفی پہلو ۔ یہی منفی پہلو ہے جو انھیں برائی کی شکل و صورت دیتا ہے اور انھیں نسبتی زبان یا مقابلتاً نقصان کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔

اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔

جو شخص گرم سر و ہتھیار کے ذریعہ کسی مسلمان کو قتل کردے ، مسلم ہے کہ وہ ایک برائی کا مرتکب ہوا ہے اب ہم اس برے کام کے عوامل پر غور و فکر کرتے ہیں ۔ ان عوامل میں انسان کی طاقت م اس کی فکر ، سرد یا گرم ہتھیار کی طاقت ، صحیح نشانہ، مناسب وقت سے استفادہ کرنا اور گولی کی تاثیر اور طاقت وغیرہ نظر آتے ہیں جو تمام واقعہ کے مثبت پہلو ہیں ۔ کیونکہ یہ سب مفید اور سود مندہ سکتے ہیں اور اگر انھیں بر مخل استعمال کیا جائے تو بڑی بڑی مشکلات کے موقع پر کام آتے ہیں صرف ایک منفی پہلو اس واقعہ کا یہ ہے کہ یہ تمام صلاحتیں اور توانائیاں بے محل استعمال ہوئی ہیں مثلاً بجائے اس کے کہ ان کے ذریعے ایک خطر ناک درنسدے کو مارا جاتا یا ایک جفا کار ظالم کو قتل پر انھیں استعمال کیا جاتا، ایک بے گناہ انسان کو نشانہ بنایا گیا بس یہی پہلو ،منفی ہے کہ ان صلاحیتوں کو برائی کے طور پر کام لایا گیا ، ورنہ نہ تو اچھے نشانے کی صلاحیت انسان کے لئے بری چیز ہے اور نہ ہی گولی او ربارود کا استعمال برا ہے ، یہ سب صلاحیت کو استعمال کرنے کے ذرائع ہیں اور اپنی جگہ بہت فوائد کے حامل ہیں ۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی آیت میں تمام حسنات اور سیئات کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت کے تمام ذرائع ، یہاں تک کہ وہ صلاحتیں کہ جن سے غلط فوائد حاصل کئے گئے ، خدا کی طرف سے ہیں اور اصلاحی اور مثبت اجراء کا سر چشمہ وہی ہیں اور اگر دوسری آیت میں سیئات کی نسبت لوگوں کی طرف دی گئی ہے تو واقعہ کے انھی منفی پہلووں اور خدا کی عنایات اور صلاحیتوں سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کی طرف اشارہ ہے یہ بالکل اسی مثال کی طرح ہے کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو ایک اچھا گھر بنانے کے لئے سرمایہ دے لیکن وہ اسے منشیات، فساد ، تباہ کاری میں صرف کردے اس میں شک نہیں ہے کہ سرمایہ کے لئے وہ اپنے باپ کا مقروض ہے لیکن سرمایے کے غلط استعمال کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے ۔

۲۔ ممکن ہے کہ آیہ مبارکہ ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتی ہو جس کی طرف خبر اور تفویض کی بحث میں اشارہ ہوا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام حوادث دنیا، یہاں تک ہمارے اعمال و افعال چاہے اچھے ہوں یا برے ، نیک ہوں یا بد ایک طرح سے خدا سے مربوط ہیں کیونکہ وہی جس نے ہمیں طاقت دی ہے اور اختیار و ارادہ کی آزادی ہمیں بخشی ہے لہٰذا ہم جو کچھ اختیار کرتے ہیں اور ارادے کی آزادی کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں وہ مشیت الہٰی کے برخلاف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اعمال ہم سے نسبت رکھتے ہیں اور ان کا سر چشمہ ہمارا وجود ہے کیونکہ عمل کے تعین کرنے کا عامل و سبب ہمارا ارادہ و اختیار ہے اور اسی بناپر ہم اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہیں اور خدا کی طرف ہمارے اعمال کی اسناد و نسبت، جیسا کہ اشارہ ہوا ہے ہماری ذمہ داری اور جوابدہی کو سلب نہیں کرتی اور عقیدہ جبر کا موجب اور سبب نہیں بنتی۔ لہٰذ ا خدا جہاں فرماتا ہے کہ ” حسنات و سیئات“ میری طرف سے ہیں تو وہاں اشارہ کرتا ہے کہ تمام چیزوں کی نسبت خدا کی اس فاعلیت ( اختیار) کی طرف ہے اور جہاں فرماتا ہے سیئات تمہاری طرف سے ہیں تو وہاں ہماری فاعلیت اور ہمارے ارادہ و اختیار کی طرف اشارہ ہے ، اور حقیق میں دو آیات کا مجموعہ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کو ثابت کرتا ہے ( یہ نکتہ غور طلب ہے )

۳۔ ایک اور تفسیر جو ان آیات کے لئے موجود ہے اور اہل بیت (علیه السلام) کی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ” سیئات“ سے مراد اعمال کی سزا و مجازات اور گناہوں کے عقوبات و نتائج ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سزائیں خدا کی طرف سے ہیں لیکن چونکہ یہ بندوں کے اعمال و افعال کا نتیجہ ہیں ۔ اس بناپر بعض اوقات ان کی نسبت بندوں کی طرف دی جاتی ہے اور بعض اوقات خدا کی طرف، اور دونوں صحیح ہیں ۔ مثلا یہ دونوں طرح سے صحیح و درست ہے کہ کہا جائے کہ قاضی چور کا ہاتھ کاٹتا ہے یا یہ کہ چور خود اپنے ہاتھ کو کاٹتا ہے ۔

آیات ۸۰،۸۱

۸۰۔( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

۸۱۔( وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللهُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۸۰۔جس شخص نے پیغمبر کی اطا عت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو گر دانی کرے تو تم اس کے جواب دِہ نہیں ہو ۔

۸۱۔وہ تیرے سامنے کہتے ہیں کہ ہم فر ما نبردار ہیں لیکن جب وہ تمھاری بز م سے باہرجاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمھاری گفتگو کے بر خلاف رات کو خفیہ میٹنگیں تشکیل دیتا ہے جو کچھ وہ ان میٹنگوں میں کہتے ہیں خدا اسے لکھتا ہے ۔

ان کی پر واہ نہ کرو (اور ان کے منصوبوں اور سا زشوں سے نہ ڈرو)اور خدا پر تو کل کرو اور کافی ہے کہ وہ تمھارا مدد گاراور حفاظت کرنے والا ہو ۔

تفسیر

اس آیت میں لوگو ں اور ان کے ”حسنات“اور ” سیئات“کے مقا بلہ میں رسول کی حیثیت بیان گئی ہے ۔خدا پہلے فر ماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی ۔

( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ )

لہٰذا خدا کی اطاعت پیغمبر کی اطاعت ہے جدا نہیں ہو سکتی کیونکہ پیغمبر کوئی قدم خدا کی مشیت کے خلاف نہیں اٹھاتا اس کی گفتار ، کردار، اعمال سب خدا کے فرمان کے مطابق ہیں ۔

اس کے بعد فرماتا ہے : اگر کچھ لوگ اعراض اور رو گردانی کرتے ہیں اور وہ تمہارے احکام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں تو تم ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں ہو اور یہ تمہارا کام نہیں کہ ان سے تکرار کرو یا نافرمانی کر نے سے انھیں جبراً روکو ۔ تمہارا فرض تبلیغ رسالت امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور گمراہ وبے خبر لوگوں کی رہنمائی کرنا

( وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

غور کرنا چاہئیے کہ لفظ ” حفیظ“ اس لحاظ سے کہ وہ شخص ہے کہ جو ہمیشہ کسی چیز کی نگرانی پر مامور ہو ۔ لہٰذا آیت کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ پیغمبر کی ذمہ داری رہبری کرنا، دعوت حق دینا، فتنہ اور مفاسد کا مقابلہ کرنا ہے لیکن اگر کچھ لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہو ں تو پیغمبر ان کی کجروی کے لئے جوابدہ نہیں ہیں کہ ہر جگہ موجود ہوں اور ہر گناہ و معصیت کا طاقت اور جبر سے مقابلہ کریں اور مروّج طریقوں سے بھی وہ اس طرح کی قدرت نہیں رکھتے ۔ اس بنا پر احد جیسی جنگ کے حوادث بھی شاید آیت کے پیش نظر ہوں کہ پیغمبر کا فرض تھا کہ فنون ِ حرب کے لحاظ سے زیادہ گہرائی اور غور و خوض سے جنگی حکمتِ عملی تیار کرتا اور دشمن کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھتا، اور یہ بات مسلم ہے کہ ان احکام و ضوابط میں پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے پیغمبر کے احکام کی حکم عدولی کی اور اس سبب سے وہ شکست سے دو چار ہو ئے تو اس کی جواب دہی ان سے منسوب ہو گی نہ کہ پیغمبرسے ۔ غور کرنا چاہئیے کہ یہ آیت قرآن کی واضح ترین آیات میں سے ہے جو سنتِ پیغمبر کے حجت ہونے اور آپ کی احادیث کو قبول کرنے کے لئے دلیل ہے ، لہٰذا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو قبول کرتا ہوں لیکن پیغمبر کی حدیث اور سنت کو قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ درج بالا آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ پیغمبر کی حدیث اور سنت کی اطاعت فرمانِ خدا کی اطاعت ہے ۔

جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر نے حدیث ثقلین کے مطابق جو کہ مشہور مآخذ اور کتب اسلامی میں مذکور ہے چاہے وہ کتب شیعہ ہوں یا کتب اہل سنت، صراحت کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کو سند اور حجت قرار دیا ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت (علیه السلام) کے فرمان کی اطاعت بھی فرمانِ خدا کی اطاعت سے الگ نہیں ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو تو قبول کرتا ہوں لیکن اہل بیت(علیه السلام) کے فرامین کو نہیں مانتا کیونکہ یہ بات درج بالا آیت اور اس کے مشابہ آیات کے برخلاف ہے ۔

اسی لئے بہت سی روایات جو تفسیر بر ہان میں اس آیت کے ضمن میں آئی ہےں میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے درج بالا آیت کے مطابق امر و نہی کا حق اپنے پیغمبر کو دیا ہے اور پیغمبر نے یہ حق حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ اہل بیت (علیه السلام) کو دیا ہے لہٰذا لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے امر و نہی سے رو گردانی نہ کریں کیونکہ ان کا امر و نہی ہمیشہ خدا کی طرف سے ہے نہ کہ خود ان کی طرف سے ( تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۳۹۶) اس کے ساتھ دوسری آیت میں منافقین کے ایک گروہ یا کمزور ایمان والے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” وہ لوگ جس وقت مسلمانوں کی صفوں میں پیغمبر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یا کسی ضرر سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے دوسروں کے ہم آواز ہوتے اور فرمانِ پیغمبر کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جان و دل سے پیغمبر کی پیروی کرنے کو تیار ہیں( وَیَقُولُونَ طَاعَة )

لیکن جب لوگ بزم رسالت سے نکلتے ہیں تو وہ منافقین اور کمزور ایمان والے افراد اپنے عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور خفیہ اجتماعات میں پیغمبر کے ارشادات کے خلاف پروگرام بناتے ہیں

( فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ )

اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین پیغمبر کے زمانہ میں نچلے نہیں بیٹھے تھے ، بلکہ وہ رات کو خفیہ اجتماعات میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے اور پیغمبر اکرم کے لائحہ عمل میں رخنہ اندازیاں کرتے تھے ، لیکن خدا اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سے منہ پھیر لیں اور ان کی سازشوں سے گھبرائیں نہیں اور اپنے لائحہ عمل کے لئے ان پر انحصار نہ کریں ۔ بلکہ فقط خدا پر بھروسہ رکھیں خدا جو سب سے زیادہ مدد اور حفاظت کرنے والا ہے ۔

( فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

آیت ۸۲

۸۲( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

ترجمہ

۸۲۔ کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ اختلافات پاتے ۔

تفسیر

اعجاز قرآن کی زندہ مثال

ان سر زنشوں کے بعد جو گزشتہ آیات میں منافقین کو کی گئی تھیں یہاں انھیں اور دوسرے تمام ان لوگوں کی طرف جو قرآن کی حقانیت میں شک و تردد کرتے ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کیا یہ لوگ قرآن کی مخصوص وضع و کیفیت پر غور و فکر نہیں کرتے اور اس کے نتائج کو نہیں دیکھتے ، قرآن اگر خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نازل ہوتا تو یقینا اس میں انھیں بہت سے تفاوت و اختلافات ملتے ا ب جب کہ اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے تو جان لینا چاہئیے کہ وہ خدا ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔

( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

”تدبر“ اصل میں مادہ دبر( بر وزن ابر) پشت سر اور کسی چیز کی عاقبت و انجام کے معنی میں ہے اس بنا پر تدبیر سے مراد نتائج ، عواقت اور کسی چیز کے آگے پیچھے دیکھنا ہے ۔ تفکر سے اس کا فرق یہ ہے کہ تفکر کا ربط کسی وموجود کے علل اور خصوصیات کے مطالعہ سے ہے لیکن ”تدبیر“ اس کے عواقب و نتائج کے مطالعے اور جائز سے مربوط ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصولِ دین اور ایسے مسائل مثلاً پیغمبر کے دعوے کی سچائی اور قرآن کی حقانیت کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کریں اور اندھی تقلید اور بغیر سوچے سمجھے فیصلوں سے اجتناب کریں ۔

۲۔ بعض لوگوں کے خیال کے برعکس قرآن سب لوگوں کے لئے قابل فہم و ادراک ہے کیونکہ اگر وہ قابل فہم و ادراک نہ ہوتا تو اس میں تدبر و فکر کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔

۳۔ قرآن کی حقانیت کی ایک اور دلیل اور یہ کہ وہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے یہ ہے کہ سارے قرآن میں تضاد اور اختلاف نہیں ہے ۔ اس حقیقت کے ادراک کے لیے حسبِ ذیل وضاحت کی طرف توجہ کریں ۔

” ہر شخص کی کیفیات اور نظر یات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں بعض استثنائی حالتیں چھوڑ کر عام حالات میں قانون تکامل و ارتقاء انسان اور اس کے افکار و نظر یات پر بھی موثر حاوی ہے ہمیشہ دن مہینے اور سال بدلنے سے لوگوں کی زبان ، فکر اور گفتار بھی بدلتی رہتی ہے اگر غور سے دیکھیں تو ایک لکھنے والے شخص کی تحریریں کبھی بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ ایک ہی کتاب کی ابتدا اور انتہا میں فرق ہوتا ہے خصوصاً اگر کوئی شخص عظیم حوادثسے گزرے اور حوادث بھی ایسے جو ایک فکری، اجتماعی ، نظر یاتی عقائدی انقلاب کی بنیاد بن جائیں تو وہ جتنا بھی کوشش کرے کہ اپنی گفتار کو ایک جیسا اور ایک طرز پر رکھے اور اسے اپنی گزشتہ باتوں سے مربوط کرلے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ خصوصاً اگر وہ ان پڑھ اور پس ماندہ ماحول میں پروان چڑھا ہو“۔

”لیکن قرآن جو ۲۲ سال کی مدت میں لوگوں کے تربیتی تقاضوں اور ضروریات کے مطابق بالکل مختلف حالات اور مواقع پر نازل ہوا، ایسی کتاب ہے جو مکمل طور پر مختلف موضوعات کو چھیڑتی ہے اور عام کتب کی طرح اس میں صرف ایک اجتماعی، سیاسی ، فلسفیانہ، حقوقِ انسانی یا تاریخی موضوع سے بحث نہیں ہے بلکہ قرآن کبھی توحید اور اسرار آفرینش کے بارے میں اور کبھی احکام قوانین اور آداب و سنن کے متعلق اور کسی وقت گذشتہ عبادات اوربندوں کے خدا سے رابطے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے ۔ ڈاکٹر گوستان دلبون کے بقول قرآن جوکہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب ہے صرف تعلیمات اور احکام مذہبی پر منحصر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی احکام کو بھی بیان کرتی ہے ایسی خصوصیات کی حامل کتاب کے لئے عام طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ تضاد، تناقض اور تضاد بیانی سے مبرا ہو ۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام جہات کے باوجود اس کی تمام آیات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اور ہر قسم کے تضاد، اختلافات، ناموزونیت سے خالی ہے تو ہم بہت بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب افکار انسانی کی تخلیق نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ خدا کی طرف سے ہے ۔ جیسا کہ قرآن خود اس حقیقت کو درج بالا آیت میں بیان کرتا ہے ۔“(۱)

____________________

۱ - کتاب قرآن و آخرین پیغمبر ص ۳۰۹ تالیف ناصر مکارم

آیت ۸۳

۸۳۔( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

ترجمہ

۸۳۔ اور جب کامیابی یا شکست کی خبر انہیں ملے تو وہ ( تحقیق کے بغیر) اسے مشہور کر دیتے ہیں لیکن اگر وہ پیغمبر اور صاحبان امر کی طر ف( جو تشخیص کی کافی اہلیت و قدرت رکھتے ہیں ) پلٹا دیں تو مسائل کی تہہ سے آگاہ ہو جائیں اور خدا کا فضل اور رحمت شاملِ حال نہ ہوتی تو سوائے قلیل گروہ کے سب کے سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے ۔

تفسیر

افواہیں پھیلانا

اس آیت میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے ایک اور منفی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب انھیں مسلمانوں کی فتح یا شکست کے متعلق خبریں پہنچتی ہیں تو وہ تحقیق کے بغیر انھیں لوگوں میں پھیلاتے ہیں جب کہ بیشتر یہ خبریں بے بنیاد ہوتی ہیں اور دشمنوں کی جانب سے خاص مقاصد کے لئے گھڑی جاتی ہیں ، ان کا شہرت پانا مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہوتا ہے

( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ )

حالانکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس قسم کی خبریں سب سے پہلے اپنے رہبروں اور پیشواوں کے سامنے رکھیں اور ان کی وسیع اطلاعات اور گہری فکر سے استفارہ کریں اور بلا وجہ نہ تو مسلمانوں کو اچھے نتائج کے غرور میں مبتلا کریں جو خیالی کامیابیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ شکست کی جھوٹی خبروں سے ان کی ہمتوں کو پست کریں ۔

( وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ )

” یستنبطونہ“ اصل میں نبط ( بر وزن فقط) کے مادے سے ہے اس سے مرادوہ پہلا پانی ہے جو کنویں سے نکالتے اور زمین کی تہہ سے حاصل کرتے ہیں اسی بناپر ہر حقیقت کے مختلف دلائل وشواہد سے استفادہ کرنے اور موجود مدارک سے استخراج کرنے کو ” استنباط“ کہا جاتا ہے چاہے یہ کام فقہی مسائل میں ہو یا فلسفانہ ، سیاسی اور علمی مسائل میں جو تشخیص کی قدرت رکھتے ہوں ، اور مختلف مسائل پر کافی دسترس رکھتے ہوں اور جو حقائق کو بے بنیاد افواہوں سے اور صحٰح مطالب کو غلط امر سے الگ کرکے لوگوں تک پہچائیں ، اس طرح کے لوگوں میں پہلا درجہ پیغمبراکرم اور آپ کے جانشین ائمہ اہل بیت(علیه السلام) کا ہے اور دوسرے درجہ میں ایسے علماء ہیں جو ان مسائل میں صاحبِ نظر ہیں ۔ جیسا کہ تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ضمن میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

” ھم الائمہ“ یعنی اس آیت سے مراد آئمہ اہلِ بیت ہیں ۔

اور اس مضمون کی دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں ممکن ہے اس طرح کی روایات پر لوگ اعتراض کریں کہ رسول اللہ تو آیت کے نزول کے وقت موجود تھے لیکن آئمہ اہل بیت (علیه السلام) کو منصبِ امامت نہیں ملا تھا اس اعتراض کا جواب واضح ہے کیونکہ یہ آیت پیغمبر اکرم کے زمانے کے ساتھ تو مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تو ایک مکمل قانون ، تمام ادوار اور زمانوں کے لئے ہے جو دشمنوں اور نادان مسلمانو کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان غلط خبروں کی اشاعت کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے کے نقصانات

مختلف معاشروں کو جو بڑے مسائل در پیش ہوتے ہیں اور جو معاشروں سے اجتماعی فکر ، افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کو ختم کر دیتے ہیں ان کا سبب جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت ہے اس طرح سے کہ بعض اوقات ایک منافق ایک غلط خبر گھڑ لیتا ہے وہ چند افراد تک پہنچاتا ہے اور وہ بلا تحقیق اس کی نشر و اشاعت کرنے لگتے ہیں اور شاید کچھ اس میں اپنی طرف سے اضافے بھی کرتے ہیں اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک لوگوں کی فکری توانائی ضائع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو اس طرف مشغول کرکے انھیں اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہیں اور معاشرے کو اہم فرائض کی انجام دہی سے سست روا اور متردد کردیتی ہیں ۔ اگر چہ وہ گروہ اور معاشرے جن میں جبر ہے اور ان کے گلے گھونٹ دیئے گئے ہیں ان میں بی جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت کرنا ایک قسم کے مقابل؛ے یا انتقام جوئی کے زمرے میں آتا ہے لیکن صحیح معاشروں میں غلط خبروں کی نشر و اشاعت بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ اگر اس قسم کی خبریں قابل، مشیتاور مفید افراد کے متعلق ہوں تو وہ انھیں خدمات اور کار نامے انجام دینے کے معاملے میں دلِ سرد اور سست کردیتی ہیں اور بعض اوقات ان کی برس ہا برس کی حیثیت کو بر باد کردیتی ہیں ۔ ولوگوں کو ان کے وجود کے فوائد سے محروم کردیتی ہیں ۔ اسی بنا پر اسلام صراحت کے ساتھ جھوٹی خبریں گھڑنے کے عمل سے جنگ کرتا ہے اور جعل سازی، جھوٹ اور تہمت گوئی اور اس کی نشر و اشاعت بھی ممنوع قرار دیتا ہے ۔ درج بالا آیت اس کا ایک نمونہ ہے ۔

اس کے بعد آیت کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی اور پر وردگار کے مقرر شدہ رہنماوں کے ذریعے تم اس قسم کی جھوٹی خبروں اور ان کے برے نتائج سے چھٹکارہ حاصل نہ کرتے تو تم میں سے بہت سے لوگ شیطانی راستوں پر چل پڑتے اور قلیل افراد ایسے رہ جاتے جو شیطان کی پیروی سے اجتناب کرتے( وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

یعنی پیغمبر اور صاحب نظر و اہل بصیرت علماء ہی جو غلط مشتہر ہونے والی خبروں کے وسوسو ں سے بچ سکتے ہیں لیکن معاشرے کی اکثریت اگر صحیح رہبری سے محروم رہ جائے تو من گھڑت خبروں اور ان کے ضرررساں اثرات سے نہیں بچ سکتی۔(۱)

____________________

۱- جو کچھ ہم نے کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ” الاقلیلاً“ ” اتبعھم “ کی ضمیر سے ” مستثنیٰ ہے اور آیت میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں ہے

(غور کیجئے گا) ۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31