تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 6%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28568 / ڈاؤنلوڈ: 4890
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۴

مؤلف:
اردو

خیانت کرنے والوں کی حمایت نہ کرو

خدا ان آیات میں پہلے تو پیغمبر اکرم کو وصیت کرتا ہے کہ اس آسمانی کتاب کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے اصول جاری ہوں :ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ اس کے ذریعے خدا نے تجھے جو علم دیا ہے لوگوں کے درمیان فیصلے کرو ۔

( إِنَّا اٴَنْزَلْنا إِلَیْکَ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِما اٴَراکَ اللَّهُ )

اس کے بعد کہتاہے کہ کبھی بھی خیانت کر نے والوں کی حمایت نہ کرو( وَ لا تَکُنْ لِلْخائِنینَ خَصیماً ) ۔

اگر چہ بظاہر روئے شخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے لیکن اس میں شک و شبہ نہیں کہ یہ ایک عمومی حکم ہے جو تمام قاضیوں اور فیصلہ کرنے والوں کے لئے ہے اس بنا پر اس قسم کے خطاب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ممکن ہے کہ اس قسم کا معاملہ پیغمبر اکرم کے ساتھ پیش آیا ہے کیونکہ اس مذکورہ حکم کا تعلق تمام افراد سے ہے ۔

بعد والی آیت میں پیغمبر اکرم کو بار گاہ ِ خدا وندی سے طلب مغفرت کے لئے کہا گیا ہے( وَ اسْتَغْفِرِ اللَّهَ ) کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے( إِنَّ اللَّهَ کانَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

یہ کہ یہاں استغفار کس لئے ہے اس میں کئی احتمال ہیں :

پہلا یہ کہ استغفار اس ترک اولیٰ کی بنا پر ہے جو فیصلہ میں جلدی کرنے کی وجہ سے آیات کی شانِ نزول کے بارے میں آیا ہے یعنی اگر چہ وہی اعتراف کی نوعیت اور طرفین کی گواہی تمہارے فیصلہ کرنے کے لئے کافی تھی لیکن بہتریہ تھا کہ پھر بھی اس معاملے میں مزیدتحقیق کی جاتی ۔

دوسرا یہ کہ پیغمبر اکرم نے اسی شانِ نزول کے متعلق اسلام کے قضائی قوانین میں مطابق فیصلہ کیا اور چونکہ خیانت کرنے والوں کی سند اور ثبوت ظاہری طور پر زیادہ مستحکم تھے لہٰذا انھیں حق بجانب قرار دیا گیا پھر حق کے سامنے آجانے اور حق داروں کو حق مل جانے کے بعد حکم دیتا ہے کہ خدا سے مغفرت طلب کرو نہ کہ اس بنا پر کہ کوئی گناہ سر زد ہوا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ بعض لوگوں کی سازش کی وجہ سے ایک مسلمان کا حق سلب ہو رہا تھا

( یعنی استغفارحکم واقعی ہے نہ کہ حکم ظاہری)

یہ احتمال بھی بیان ہوا ہے کہ یہاں استغفار کا حکم طرفین دعویٰ کو دیا گیا ہے جنہوں نے دعویٰ پیش کیا اور پھر اس سلسلے میں کئی غلط گواہیاں دیں ۔ پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں منقول ہوا ہے آپ نے فرمایا:

انما انا بشر و انکم تختصمون الیٰ و لعل بعضکم یکون الحن بحجة من بعض فاقضی بخومااسمع فمن قضیت له من حق اخیه مشیئا فلا یاخذه فانما اقطع له و قطعة من النار ۔

میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں ( ظاہری امور میں فیصلے کرنے پر مامور ہوں ) شاید تم میں سے بعض وہی دلیل بیان کرتے وقت بعض دوسروں سے زیادہ قوی ہوں اور میں بھی اسی دلیل کی بنا پر فیصلہ کروں گا با وجود اس کے جان لو کہ میرا فیصلہ جو طرفین کے دلائل کے سامنے آنے پر صادر ہوتا ہے وہ واقعی حق کو نہیں بدل سکتا لہٰذا اگر میں کسی کے حق میں (ظاہر کے مطابق) فیصلہ کردوں اور دوسرے کا حق اسے دے دوں تو میں جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا اسے دے رہاہوں اسے چاہئیے کہ وہ اس سے بچے او رنہ لے ۔(۱)

معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق اور دعویٰ کرنے والے طرفین کے دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں ۔ البتہ اس قسم کے فیصلوں سے عام طور پر حق دار کو حق مل جاتا ہے لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ بعض اوقات ظاہراًدلیل اور گواہوں کی گواہی واقع کے مطابق نہ ہوتو یہاں خیال کرنا چاہئیے کہ فیصلہ کرنے والے کا حکم واقع کو نہیں بدل سکتا اور اس سے حق ، باطل اورباطل حق نہیں ہوسکتا۔

____________________

۱- المنار ،ج۵ ص ۳۹۴منقول از صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

اس حدیث ۲

۲- پہلی احتمال اور شان نزول والی روایات اور اس روایت کا ظہور قواعد مذہب کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرت منصوص قرآن ترک اولیٰ سے بھی معصوم تھے

(مترجم )

آیات ۱۰۷،۱۰۸،۱۰۹

۱۰۷۔( وَ لا تُجادِلْ عَنِ الَّذینَ یَخْتانُونَ اٴَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا یُحِبُّ مَنْ کانَ خَوَّاناً اٴَثیماً ) ۔

۱۰۸۔( یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَ لا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ ما لا یَرْضی مِنَ الْقَوْلِ وَ کانَ اللَّهُ بِما یَعْمَلُونَ مُحیطاً )

۱۰۹۔( ها اٴَنْتُمْ هؤُلاء ِ جادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا فَمَنْ یُجادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ اٴَمْ مَنْ یَکُونُ عَلَیْهِمْ وَکیلاً ) ۔

ترجمہ

۱۰۷۔ اور جنہوں نے اپنے آپ سے خیانت کی ہے ان کا دفاع نہ کرو، کیونکہ خدا خیانت کرنے والے گنہ گاروں کو دوست نہیں رکھتا۔

۱۰۸۔ وہ اپنے برے کاموں کو لوگوں سے چھپا تے ہیں لیکن خدا سے نہیں چھپا تے اور رات کی مجالس میں ایسی باتیں کرتے تھے جن سے خدا راضٰ نہ تھا ان کے ساتھ تھا اور وہ جو عمل کرتے ہیں خدا اس پر محیط ہے ۔

۱۰۹۔جی ہاں تم تو وہی ہو جنہوں نے اس جہان کی زندگی میں ان کو بچا یا لیکن کون ہے جو خدا کے سامنے قیامت کے دن ان کا دفاع کرے گا یا کون ہے جو ان کا وکیل اور حامی ہوگا۔

تفسیر

خیانت کرنے والوں کی حمایت نہ کرنے کے احکامات کے بعد ان آیا ت میں اس سلسلہ کو یوں جاری رکھا گیا ہے : کسی وقت بھی خیانت کرنے والوں کی اور ان کی جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں حمایت نہ کرو ۔(وَ لا تُجادِلْ عَنِ الَّذینَ یَخْتانُونَ اٴَنْفُسَهُمْ ) ۔یونکہ خدا خیانت کرنے والے گنہ گاروں کو پسند نہیں کرتا

( إِنَّ اللَّهَ لا یُحِبُّ مَنْ کانَ خَوَّاناً اٴَثیماً ) ۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ خدا اس آیت میں فر ماتا ہے : وہ لوگ جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں ۔ حالانکہ ہم آیت کی شانِ نزول کے مطابق جانتے ہیں کہ انھوں نے دوسروں سے خیانت کی تھی یہ اسی لطیف معنی کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی قرآن نے با رہا یا دہانی کرائی ہے کہ انسان سے جو بھی عمل سر زد ہو اس کے اچھے یا برے آثار معنوی ہوں یا مادی ہرایک سے پہلے خود اس پر اثر انداز ہوں جیسا کہ دوسرے مقام پر فرماتا ہے :

( ان احسنتم احسنتم لانفسکم و ان اساٴتم فلها )

اگر نیک کام کرتے ہو تو اپنے نفسوس کے لئے کرتے ہو اور اگر برائی کرو تو بھی اپنے نفس کے لئے ہے ۔ ( بنی اسرائیل ۔ ۷)

یا یہ ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی قرآن تائید کرتا ہے اور وہ یہ کہ تمام افراد ایک جسم کے مختلف اعضاء کی طرح ہیں اگر ایک کسی دوسرے کوکوئی تکلیف پہچانا ہے تو اس طرح خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا تا ہے ۔ بعینہ اس شخص کی طرح جو اپنے ہا تھ سے اپنے منہ پر تھپیڑے مارے ۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ آیت ان افراد کے بارے میں نہیں کہ جو مثلاً ایک ہی دفعہ خیانت کے مرتکب ہو ئے ہیں اور پھر اس پر پشمان ہو گئے ہوں کیونکہ ایسے اشخاص کے بارے میں سختی نہیں بلکہ نرمی برتنی چاہئیے ۔ آیت تو ان افراد کے بارے میں ہے جن کی زندگی کا لائحہ عمل ہی خیانت ہے ” یختاتون “ کے قرینہ سے جو کہ فعل مضارع ہے اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے اور ” خوّان“ کے قرینہ سے بھی جو کہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور کا معنی ہے ” بہت خیانت کرنے والا“ ۔” اَثیم ٌ“کا معنی ” گنہ گار“ ہے یہ ”خوّان “کی تاکید کے طور پر ذکر ہوا ہے ۔ گذشتہ آیت میں بھی اسے خائن قرار دیا گیا ہے اور خائن اسم فاعل ہے اور وصفی معنی رکھتا ہے نیز تکرار عمل کی علامت ہے ۔ پھر ایسے خیانت کاروں کی سر زنش کرتے ہوئے کہتا ہے انھیں شرم آتی ہے کہ ان کے اعمال کا باطن لوگوں کے سامنے ظاہر ہو لیکن وہ خدا سے تو شرم نہیں کرتے( یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَ لا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ ) ۔

وہ خدا جو پر جگہ ان کے ساتھ ہے او رجس وقت رات کی تاریکی میں وہ خیانت کار سازشیں او رمنصوبے بناتے تھے اور وہ باتیں کرتے ہیں جن سے خدا راضی نہیں وہ ( خدا) ان کے ساتھ تھا اور وہ ان کے تمام اعمال پر محیط ہے( وَ هُوَ مَعَهُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ ما لا یَرْضی مِنَ الْقَوْلِ وَ کانَ اللَّهُ بِما یَعْمَلُونَ مُحیطاً ) ۔

اس کے بعد روئے سخن چور کے قبیلے کے ان افراد کی طرف ہے جنہوں نے اس کا دفاع کیا تھا ۔ خدا انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے تعجب ہے کہ تم اس جہان کی زندگی میں تو ان کا دفاع کرتے ہو ، لیکن کون ہے جو قیامت کے دن ان کا دفاع کرے یا وکیل بن کر ان کے کام آئے او ران کی مصیبتوں اور ابتلاوں کو ختم کرے( ها اٴَنْتُمْ هؤُلاء ِ جادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا فَمَنْ یُجادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ اٴَمْ مَنْ یَکُونُ عَلَیْهِمْ وَکیلاً ) ۔

اس وجہ سے تمہاری طرف سے ان کا دفاع معمولی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ دائمی زندگی میں خدا کے سامنے ان کا کوئی دفاع کرنے والا نہیں ہے ۔

حقیقت میں اوپر والی تین آیات میں پہلے تو پیغمبر اسلام اور سب قاضیوں کو حق کی وصیت کی گئی ہے کہ وہ مکمل طور پر نگرانی اور دھیان رکھیں کہ کچھ لوگ حیلہ سازی اور جھوٹے گواہوں کے ذریعے دوسروں کے حقوق پائمال نہ کریں پھر خیانت کر نے والوں او ربعد میں ان کا دفاع کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اس جہان اور دوسرے جہان میں اپنے اعمال کے برے نتائج پر نظر رکھیں ۔

اور یہ بلاغت قرآن کا ایک راز ہے کہ ہر واقعہ میں چاہے وہ ظاہراًجتنا معمولی اور چھوٹا ہو وہ ایک ذرہ بھر یا تھوڑے سے اناج کے گرد گھومتا ہو ۔ یا اس میں ایک یہودی اور دشمن اسلام کا ہاتھ ہو اس کے تمام پہلو وں پر کھوج اور تحقیق کرتے ہوئے پوری توجہ دلاتا ہے اور ہر موقع پر خطرہ سے آگاہ کرتا ہے ، خدا کے عظیم پیغمبر سے لے کر کہ جس کا دامن عصمت کی بناپر ہر قسم کے گناہ سے پاک ہے ، خیانت پیشہ گنہگار افراد اور ان لوگوں تک جو رشتہ داری کے تعصبات کی وجہ سسے اس قسم کے افراد کا دفاع کرتے ہیں ہر ایک پر اس کی مناسبت سے بحث کرتا ہے ۔

آیات ۱۱۰،۱۱۱،۱۱۲

۱۱۰۔( وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

۱۱۱۔( وَ مَنْ یَکْسِبْ إِثْماً فَإِنَّما یَکْسِبُهُ عَلی نَفْسِهِ وَ کانَ اللَّهُ عَلیماً حَکیماً ) ۔

۱۱۲۔( وَ مَنْ یَکْسِبْ خَطیئَةً اٴَوْ إِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِهِ بَریئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتاناً وَ إِثْماً مُبیناً ) ۔

ترجمہ

۱۱۰۔ جو شخص کوئی بر اکام کرے یا اپنے اوپر ظلم کرے پھر خدا سے مغفرت طلب کرے تو وہ خد اکو بخشنے والا اور مہربان پائے گا۔

۱۱۱۔ اور جو کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا تا ہے او رخدا دانا وحکیم ہے ۔

۱۱۲۔ جو شخص غلطی یا گناہ کا مرتکب ہو پھر بے گناہ پر الزام دھرے اس نے بہتان اور واضح گناہ کو بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیا ہے ۔

جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے

ان تین آیات میں خیانت او رتہمت سے متعلق بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں ہوچکی ہے تین مجموعی احکامات بیان ہوئے ہیں ۔

۱۔ پہلے تو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ تو بہ کی راہ بد کار لوگوں کے لئے بہر حال کھلی ہے اور جو شخص اپنے اوپر یا کسی دوسرے پ رظلم کرے اور بعد میں حقیقتاً پشیمان ہو اور خدا سے مغفرت طلب کرے او روہ اس کی تلافی کی کوشش بھی کرے تو خدا کو بخشنے والا او رمہر بان پائے گا۔

( وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

غور کرناچاہئیے کہ آیت میں دو چیزیں بیان ہوئی ہیں ایک ”سوء“ اور دوسری کسی پرظلم ۔ قرینہ مقابلہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور ” سوء“ کے اصل معنی” دوسرے کو نقصان پہچانا) سے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا گناہ جس سے انسان دوسرے کو نقصان پہنچائے یا اپنے کو) وہ حقیقی توبہ اور تلافی کی صورت میں قابلِ بخشش ہے ۔

ضمنی طور پر “ یجد اللہ غفوراً رحیماً“ ( خدا کو بخشنے والا ، مہربان پائے گا ) سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ یہ اثر رکھتی ہے کہ انسان اپنے نفس کے اندر ہی اس کا نتیجہ پالیتا ہے ایک طرف خدا کے غفور ہونے کے تصور سے گناہ کا پریشان کن اثر زائل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف وہ محسوس کرتا ہے کہ معصیت کے سبب وہ رحمت و الطاف الہٰی سے دور ہو گیا تھااور اب اس کی اہمیت کی وجہ سے دوریاں ختم ہو گئی ہیں او روہ خدا کے نزدیک ہو گیا ہے ۔

۲۔ دوسری آیت اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ جس کا اجمال گذشتہ آیات میں ہو چکا ہے او روہ یہ ہے کہ ” انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے نتیجة اس سے اپنے آپ کو ضرور نقصان میں مبتلا کرلیتا ہے( وَ مَنْ یَکْسِبْ إِثْماً فَإِنَّما یَکْسِبُهُ عَلی نَفْسِهِ ) ۔ اور آیت کے آخر میں فرماتاہے کہ خدا عالم ہے اور بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور وہ حکیم و دانا بھی ہے اور ہر شخص کو اس کے استحقاق کے مطابق سزا و جزا دیتا ہے( وَ کانَ اللَّهُ عَلیماً حَکیماً ) ۔

اس طرح گناہ اگر چہ ظاہر میں مختلف ہیں کبھی بھی کسی گناہ کا نقصان دوسروں کو پہنچتا ہے او رکبھی اس کا نقصان اپنے آپ کو ہوتا ہے ۔ لیکن اس کا حقیقی اور آخری نتیجہ بہر حال خود انسان کے اپنی طرف لوٹتا اور گناہ کے برے اثرات سب سے پہلے خود انسان کی روح اور نفس میں ظاہر ہوتے ہیں(۱)

۳۔ آخری آیت میں بے گناہ افراد پر تہمت لگانے کے گناہ کی شدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” جو شخص خطا یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپتا ہے اس نے بہتان باندھا ہے اور واضح گناہ کا ارتکاب کیا ہے

( وَ مَنْ یَکْسِبْ خَطیئَةً اٴَوْ إِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِهِ بَریئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتاناً وَ إِثْماً مُبیناً ) ۔

اس آیت میں وہ گناہ کہ جن کا انسان مرتکب ہوا ہو اور پھر انھیں دوسرے کے سر تھوپ دے ان کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک خطیئة اور دوسرا” اثم “ ان دونوں کے درمیان فرق کے سلسلہ میں مفسرین اور اہل لغت ،میں بہت اختلاف ہے جو معنی زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ” خطیئة“خطا“ سے ہے جو در اصل ان گناہوں اور لغزشوں کے معنی میں ہے جو انسان سے قصدارادہ کے بغیر سر زد ہو جائیں اور بعض اوقات ان کا کفارہ اور تاوان ادا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن بتدریج خطیئةکے معنی میں وسعت پید ا ہو گئی اور وہ ہر گناہ کے بارے میں استعما ل ہونے لگا چاہے وہ عمداً ہو یا بھول کر ۔ کیونکہ کسی قسم کا گناہ ( چاہے وہ عمداً ہو یا بھول کر ) انسان کی روحِ سلیم کے لئے مناسب نہیں ہے اور اگر اس سے سر زد ہو جائے تو حقیقت میں ایک قسم کی لغزش او رخطاہے جو اس کے مقام و مرتبے کے منافی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ خطیئہ کاایک وسیع مفہوم ہے جس میں عمدی اور غیر عمدی گناہ دونوں شامل ہیں ۔ لیکن اثم عموماً عمدی او راختیاری گناہوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ در اصل اثم ایسی چیز کے معنی میں ہے جو انسان کو کسی کام سے باز رکھے اور چونکہ گناہ انسان کو بھلائی کے اور اچھے کاموں سے دور رکھتے ہیں لہٰذا انھیں ” ا ثم “ کہا جاتا ہے ۔

ضمناً توجہ کرنی چاہئیے کہ آیت میں تہمت کے بارے میں ایک لطیف تعبیر استعمال کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ گناہ کو تیر کی طرح قرار دیا گیا ہے اور دوسرے کی طرف اس کی نسبت دینے کو تیر ہدف کی طرف چھوڑنے کی طرح قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جس طرح کسی کی طرف تیر پھینکنا ممکن ہے اسے ختم کردے ، اسی طرح گناہ کے تیر کو بھی ایسے شخص کی طرف چھوڑنا جو گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ممکن ہے کہ اس کی عزت اور آبرو کو بر باد کردے جو در اصل اس کے قتل کی طرح ہے ۔ واضح ہے اس عمل کا بوجھ ہمیشہ کے لئے ایسے شخص کے کندھے پر باقی رہے گا جس نے تہمت لگائی ہے اور” احتمل “ ( اپنے کندھے پر اٹھا تاہے ) یہ لفظ بھی اس ذمہ داری کی اہمیت او را س کے ہمیشہ قائم رہنے کی طرف اشارہ ہے ۔

جرم تہمت کسی بے گناہ پر تہمت باندھنا بد ترین افعال میں سے ہے کہ جس کی اسلام نے شدت سے مذمت کی ہے ، زیر نظر آیت اور متعدد اسلامی روایات جو اس ضمن میں ملتی ہیں اس کے لئے اسلام کا نظریہ واضح کرتی ہیں ۔ امام صادق (علیه السلام) ایک حکیم و دانا سے نقل کرتے ہیں :البهتان علیالبریٴ اثقل من جبال راسیات

بے گناہ پربہتان باندھنا عظیم پہاڑوں سے بھی زیاہ سنگین ہے ۔(۲)

بے گناہ افراد پر بہتان باندھنا روح ایمان کے منافی ہے جیسا کہ امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے :۔

اذا اتهم المومن اخاه انماث الایمانفی قلبه کم ینماث الملح فی السماء

جو شخص اپنے مومن بھائی پر تہمت ،لگا تا ہے تو ایمان اس کے دل میں اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔۳

حقیقت میں بہتان اور تہمت، جھوٹ کی بدترین اقسام میں سے ہے کہ کیونکہ اس میں جھوٹ کے عظیم مفاسد اور غیبت کے نقصانات بھی شامل ہیں اور یہ ظلم و ستم کی بد ترین قسم بھی ہے اس لئے پیغمبر اسلام سے منقول ہے ، آپنے فرمایا:

من بهت مومنة او قال فیهما مالیس فیه اقامه الله تعالیٰ یوم القیامة علی قل من نار حتی یخرج مماقاله

جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے یاان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جو ان میں نہ ہو تو خد اوند عالم اسے قیامت کے دن آپ کے ایک ٹیلے پر کھڑا کردے گا ۔ یہاں تک کہ وہ اس بات سے بری الذمہ ہو جائے جو اس نے کہی ہے ۔(۴)

حقیقت میں اس گھٹیا او ربز دلانہ کام کے رائج ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کا نظم و نسق اور اجتماعی او رانصاف برباد ہو جاتاہے حق اور باطل آپس میں غلط ملط ہو جاتے ہیں بے گناہ افراد گرفتار ِ بلا ہو جاتے ہیں گنہ گار افراد بچے رہتے ہیں اور باہمی اعتماد ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔

____________________

۱- شعلہ اول نصیبِ دامن ” آتش زنہ“ است۔ ۔۔این سزائے آں کہ بوسد آستانِ ظلم را۔ ۔۔ آگ کا پہلا شعلہ جلانے والے کے دامن کو جلاتا ہے ۔ آستانہ ظلم پربوسہ دینے کی یہی سزا ہے ۔

۲ -سفینة البحار، جلد اول مادہ” بھت“

۳ - اصول کافی جلد ۲ ص ۲۶۹ باب التھمة و سوء الظن

۴ - سفینة البحار جلد اوّل صفحہ ۱۱۱

آیت ۱۱۳

۱۱۳۔( وَ لَوْ لا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکَ وَ رَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ اٴَنْ یُضِلُّوکَ وَ ما یُضِلُّونَ إِلاَّ اٴَنْفُسَهُمْ وَ ما یَضُرُّونَکَ مِنْ شَیْء ٍ وَ اٴَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیْکَ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ عَلَّمَکَ ما لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکَ عَظیماً ) ۔

ترجمہ

۱۱۳۔ اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شاملِ حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ پختہ ارادہ کرچکا تھا وہ تمہیں گمراہ کردے، لیکن وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے اور وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور خدا نے کتاب و حکمت تم پر نازل کی اور تمہیں اس چیز کی تعلیم دی جو تم نہیں جانتے تھے اور تم پر خدا کا عظیم فضل تھا۔

اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو

یہ آیت بنی ابیرق کے حادثہ کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ قبل کی چند آیات کی شان نزول میں اس کی نشاندہی کی جاچکی ہے ۔

آیت کہتی ہے : اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو ( منافقین یا ان جیسے ) بعض لوگ مصمم ارادہ کرچکے تھے کہ تمہیں راہِ حق و عدالت سے منحرف کردیں لیکن لطفِ الہٰی تمہارے شامل حال رہا او راس نے تمہاری حفاظت کی( ولولا فضل الله علیک و رحمته لهمت طائفة منهم ای یضلوک ) ۔

وہ چاہتے تھے کہ ایک بے گناہ شخص پر تہمت لگائیں او رپھر پیغمبر کو اس واقعے میں ملوث کریں تاکہ اس طرح ایک پیغمبر اکرم کی اجتماعی اور معنوی حیثیت کو نقصان پہنچے اور دوسرا ایک بے گناہ مسلمان کے ذریعے اپنی بڑی اغراض پوری کرسکیں ۔ لیکن وہ خدا جو اپنے پیغمبر کا محافظ ہے اس نے ان کے منصوبوں کو نقش بر آب کردیا ۔

بعض نے اس آیت کی ایک اور شانِ نزول بھی ذکر کی ہے ، وہ یہ ہے کہ :

قبیلہ بنی ثقیف کا یک وفد پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا او ر کہنے لگا: ہم دو شرطوں کے ساتھ آپ کی بیعت کے لئے تیار ہیں پہلی یہ کہ ہم اپنے بت اپنے ہاتھ سے نہیں توڑیں گے اور دوسری یہ کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم مزید ایک سال تک عزیٰ بت کی پر ستش کرتے رہیں ۔

خد اتعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان تجاویز کے لئے کوئی میلان ظاہر نہ کریں ۔

اسی ضمن میں مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی جس میں پیغمبر اکرم سے کہا گیا کہ لطف ِ خدا آپ کو ان وسوسوں سے محفوظ کھے گا۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے : یہ لوگ صرف اپنے آپ کو گمراہ کرتے ہیں اور آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے( وما یضلون الا انفسهم و ما یضرونک من شیء ) ۔

آخر میں گمراہی ، خطا اور گناہ سے پیغمبر کے محفوظ رہنے اور پیغمبر کی معنویت کی علت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : آپ پر خدا نے کتاب و حکمت نازل کی او رجو آپ نہیں جانتے تھے آپ کو اس کی تعلیم دی( وانزل الله علیک الکتاب و الحکمة و علمک مالم تکن تعلم ) ۔

بعد از اں فرماتا ہے : آپ پر اللہ کا بہت ہی زیادہ فضل و کرم تھا( وکان فضل الله علیک عظیماً )

انبیاء کا چشمہ عصمت

مندرجہ بالاآیت ان آیات میں سے ہے جو نبی کے خطا ، اشتباہ اور گناہ سے محفوظ ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں ارشاد ہوتا ہے : اگر خدا کی امداد تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو وہ تمہیں گمراہ کردیتے لیکن امداد الہٰی کی وجہ سے وہ تمہیں گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور اس سلسلے میں تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔

اس طرح سے در اصل خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو خطا اور گناہ سے محفوظ رکھا ہے تاکہ :

.....پیغمبر امت کے لئے نمونہ عمل بن سکے او رنیکیوں اور بھلائیوں کے لئے امت کے واسطے ایک معیار قرار پا سکے ۔

..... ایک عظیم رہبر کی حیثیت سے لغزشوں کے المناک انجام اور نتیجے سے محفوظ رہ سکے ۔ یوں امت بھی اطاعتِ پیغمبر میں سر گردانی سے مامون رہے اور اطاعت و عدم اطاعت کے تضاد کا شکار نہ ہوجائے۔

..... لوگوں کو پیغمبر پر کامل اعتماد ہو سکے کیونکہ کامل اعتماد خدائی رہبری کی پہلی شرط ہے ۔

آیت میں مسئلہ عصمت کی ایک بنیادی دلیل اجمالی طور پر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے پیغمبر کو علوم تعلیم فرمائے جن کی وجہ سے وہ گناہ اور خطا سے بالکل مامون و محفوظ ہوگئے ہیں کیونکہ علم و دانش ( جب اپنے آخری مرحلے کو پہنچ جائے تو) موجب عصمت ہوتا ہے ، مثلاً ایک ڈاکٹر ایسے پانی کو ہرگز نہیں پی سکتا جس میں ملیریا او ردیگر بیسیوں بیماریوں کے جراثیم موجود ہوں اور جنھیں وہ خود لیبارٹری میں دیکھ چکا ہو او ران کے ہولناک اثرات سے بھی آگاہ ہو یعنی اس کا علم اسے ایسا عمل کرنے سے روکتا ہے جبکہ جہالت میں ممکن ہے وہ ایسا کام کرجاتا۔ اس بنا پر جو شخص وحی الہٰی اور پروردگا رکی تعلیم کے ذریعے مختلف مسائل کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتا ہو وہ لغزش و اشتباہ کا شکار ہو تا ہے نہ گمراہی و گناہ میں پڑتا ہے.....یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئیے کہ پیغمبرگناہ نہ کرنے پر مجبور ہے بلکہ پیغمبر کو خدا کی طرف سے علم تو ہوتا ہے لیکن وہ اس سے مجبور نہیں ہو جاتا ۔ یعنی پیغمبر کبھی اپنے علم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں ہوتا بلکہ اپنے اختیار سے اس علم پر عمل کرتا ہے جیسے مذکورہ مثال میں ڈاکٹر اس آلودہ پانی کی کیفیت سے آگاہی کے باوجود اسے نہ پینے پر مجبورنہیں ہے بلکہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے اسے نہیں پیتا۔

اور اگر کہاجائے کہ پیغمبر کے لئے یہ فضل الہٰی کیوں ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا رہبری کی اہم اور بھاری ذمہ داری کی بنا پر ہے جو ان کے کندھے پر رکھی گئی ہے اور دوسروں کے دوسش پر نہیں ہے کیونکہ خدا جتنی کسی پر مسولیت اور ذمہ داری ڈالتا ہے اتنی ہی اسے توانائی اور قدرت عطا کرتا ہے

( غور کیجئے گا) ۔

آیت ۱۱۴

۱۱۴( لا خَیْرَ فی کَثیرٍ مِنْ نَجْواهُمْ إِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَ مَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ ابْتِغاء َ مَرْضاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتیهِ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔

تر جمہ

۱۱۴۔ ان کی بہت سی سر گوشیوں ( اور خفیہ میٹنگوں ) میں خیر و سود مندی نہیں مگر یہ کہ کوئی شخص( اس طریقے سے ) دوسروں کی مدد، کوئی نیک کام یا لوگوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کرے اور جو شخص رضائے الہٰی کے لئے یہ سب کچھ کرے تو اسے ہم عظیم اجر دیں گے ۔

تفسیر

سر گوشیاں

گذشتہ آیات میں بعض منافقین یا ان جیسے لوگوں کے راتوں کے مخفی اور شیطانی جلسوں اور اور میٹنگوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اب اس آیت میں ”نجوی“کے زیر عنوان ذرا تفصیل سے بات کہی گئی ہے ۔

” نجویٰ“ کا معنی صرف کان میں باتیں کرنا یا سر گوشی ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی مخفی اور پوشیدہ میٹنگوں کو بھی ” نجویٰ“ کہتے ہیں کیونکہ اصل میں ” نجویٰ “ ” نجوة“ ( بر وزن دفعہ ) کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے اونچی زمین ، بلند زمینیں چونکہ اپنے اطراف سے جدا ہوتی ہیں اور خفیہ میٹنگیں اور سر گوشیاں بھی اطراف والوں سے جدا ہوتی ہیں لہٰذا انھیں ” نجویٰ “ کہتے ہیں ۔

بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ سب الفاظ ” نجات“ کے مادہ سے ہیں جس کا معنی ہے ” رہائی “ اور کیونکہ ایک بلند جگہ سیلاب کے حملے سے نجات ہوتی ہے اور خفیہ میٹنگ اور سر گوشی بھی دوسروں کی اطلاع سے دور ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔

بہر حال آیت کہتی ہے : ان کی زیادہ تر کفیہ میٹنگیں جو شیطانی سازشوں او رمنصوبوں کے تحت منعقد ہوتی ہیں ان میں سے کوئی بھلائی اور فائدہ نہیں ہے( لا خَیْرَ فی کَثیرٍ مِنْ نَجْواهُمْ ) ۔

اس کے بعد الئے کہ کہیں یہ گمان نہ ہو کہ ہر طرح کی سر گوشی اور مضفی میٹنگ مذموم و ممنوع ہے ایک کلی قانون میں استثنائی صورت کے مواقع بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : مگر یہ کہ کوئی شخص اس کے ذریعے صدقہ کی وصیت کرتا ہو، دوسروں کی مدد کا اقدام کرتا ہو، نیک کام انجام دیتا ہو، یا لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہو، (إ( ِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاحٍ بَیْنَ النَّاسِ ) ۔

ایسی سر گوشیاں او رمیٹنگیں اگر ریا کاری اور تظاہر کے لئے نہ ہوں بلکہ ان کا مقصد رضائے پروردگار ہو تو خدا ان کے لئے اجرعظیم مقرر فرمائے گا

( وَ مَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ ابْتِغاء َ مَرْضاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتیهِ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔

اصولی طور پر سر گوشیوں ، کانا پھوسیوں اور خفیہ میٹنگوں کو قرآن نے ایک شیطانی عمل قرار دیا ہے :

( انما النجویٰ من الشیطان )

یعنی ۔” نجویٰ ، شیطان کی طرف سے ہے ۔( مجادلہ۔ ۱۰)

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا عمل عموماً غلط کاموں کے لئے ہوتا ہے چونکہ نیک مفید او رمثبت کاموں کی انجام دہی کے لئے عموماً کوئی خفیہ اور پوشیدہ چیز نہیں ہوتی ہاں التبہ بعض اوقات خلاف معمول حالات کی کی وجہ سے انسان مجبورہوجاتا ہے کہ نیک کاموں کو مثبت طور پر مخفیانہ بجائے یہ استثنائی صورت بار ہا قرآن میں بیان کی گئی ہے مثلاً:

( یا ایها الذین اٰمنوا اذا تنا جیتم فلا تتناجوا بالاثم والعدوان و معصیة الرسول و تناجوا بالبر و التقویٰ )

اے ایمان والو! جب تم سر گوشی یا اخفاء کرو تو گناہ ، ظلم اور پیغمبرکی نافرمانی کے لئے نہ ہو اور صرف نیک کاموں اور پر ہیز گاری کے لئے ، نجویٰ کرو ۔ (مجادلہ۔ ۹)

بنیادی طور پر اگر سر گوشی او رنجویٰ بعض لوگ دوسرے لوگوں کی موجودگی میں کریں تو یہ دوسروں میں سوئے ظن پید اکرنے کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات دوستوں میں بد گمانی پیدا کردیتی ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ ضرورت کے بغیر یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے اور قرآن اور مذکورہ حکم کا فلسفہ بھی یہی ہے ۔ البتہ کبھی آبروئے انسانی کی حفاظت کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ مثلاً کسی کی چھپ کر مالی امداد کرنا ، جیسے زیر نظر آیت نے صدقہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔

اسی طرح کبھی امربالمعروف اگر کھلے بندوں کیا جائے تو دوسرے کی شرمندگی کا باعث ہوتاہے او رممکن ہے اس طرح سے وہ نصیحت قبول نہ کرے اور اپنے طریقہ کار پر ہٹ دھرمی دکھائے ۔ آیت میں اس کا ذکر ” معروف“ کے حوالے سے کیا گیا ہے ۔

اس کی ایک اور مثال لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کا موقع ہے ۔بعض اوقات مسائل کو علی الاعلان بیان کیا جائے تو اس سے مصالحت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں طرفین سے محرمانہ اور رازدارنہ طریقے سے گفتگو کرنا چاہئیے تاکہ مصالحت کا مقصد پایہ تکمیل کو پہنچ سکے ۔

مذکورہ تین مواقع پر او رایسے ہی دیگر مواقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ مثبت کام ” نجویٰ“ کے زیر سایہ انجام دیے جائیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تینوں کام ” صدقہ “ کے مفہوم میں آجاتے ہیں کیونکہ جو شخص امر بالمعروف کرتا ہے وہ علم کی زکوٰة ادا کرتا ہے اور جو صلح و مصالحت کرواتا ہے وہ لوگوں میں موجود اپنے اثر و رسوخ کی زکوٰة دیتا ہے ۔ چنانچہ حضرت علی (علیه السلام) سے منقول ہے :

ان الله فرض علیکم زکوٰة جاهکم کما فرض علیکم زکوٰة ما ملکت ایدیکم ۔

یعنی ۔ خدا نے تم پر فرض اور واجب قرار دیا ہے کہ اپنے اثر و رسوخ اور معاشرت حیثیت کی زکوٰة ادا کرو ۔ جیسا کہ اس نے واجب کیا ہے کہ مال زکوٰة اداکرو ۔

( نور الثقلین ، ج ۱ ،صفحہ۔ ۵۵۰ اور دیگر تفاسیر)

نیز پیغمبر اکرم سے منقول ہے :

الاادلک علی صدقة یحبها الله و رسوله تصلح بین الناس اذا تفاسدوا و تقرب بینهم تباعدوا

یعنی کیا تجھے ایسے صدقہ سے آگاہ کروں جسے خدا اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں ( اور وہ یہ ہے کہ ) جب لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں تو ان میں صلح کرو اور وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں تو انھیں نزدیک لاو۔(۱)

____________________

۱ - تفسیر قرطبی، جلد ۳ صفحہ ۱۹۵۵، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

آیات ۷۸،۷۹

۷۸۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

۷۹۔( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ترجمہ

۷۸۔ تم جہاں کہیں بھی رہو ، موت تمھیں پالے گی اگر چہ محکم بوجوں میں جار ہو او راگر انھیں ( منافقین کو ) حسنہ ( اور کامیابی) حاصل ہو تو کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہے اور سیئہ( اور شکست) سے دوچار ہوں تو کہتے ہیں یہ تمہاری طرف سے ہے کہہ دو کہ سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔ پس یہ گروہ کیوں تیار نہیں ہوتا کہ حقائق کا ادراک کرے ۔

۷۹۔ جو نیکیاں تجھ پر پہنچتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائی تجھے پہنچتی ہے وہ خود تیری طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے رسول بناکر بھبیجا ہے اور اس بارے میں خدا کی گواہی کافی ہے ۔

تفسیر

گذشتہ اور بعد کی آیات پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آیات بھی منافقین سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کی صفوں میں رہتے تھے جیساکہ آیات میں ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں شر کت کرنے سے ڈرتے تھے اور جب جہاد کا حکم صادر ہواتو انھیں تکلیف ہوئی ۔ قرآن ان کے اس طرزِ فکر کا دو طرح سے جواب دے رہا ہے پہلا جواب تو وہی تھا جو گذشتہ آیت کے آخر میں گزر چکا ہے( قل متاع الدنیا قلیل و الاخرة خیر لمن اتقی ) ” کہہ دو کہ دنیا وی زندگی بہت کم ہے لیکن پر ہیز گاروں کے لئے دوسرے جہان میں اس کا صلہ موجود ہے “۔

دوسرا جواب جو زیر بحث ہے کہ موت سے فرار اختیار کرنا تمہارے لئے مفید نہیں ” حالانکہ تم جہاں کہیں بھی ہو موت سے تم کو مفر نہیں آخر ایک تمھیں اس کا نوالہ بننا ہے یہاں تک کہ تم مضبوط گنبدوں میں کیوں نہ چھپ جاو” پس وہ موت جسے ضرور آنا ہے اور جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے کیون نہ اسے اصلاح اور سچائی کے لئے قبول کیا جائے جیسے جہاد کی صورت میں بجائے اس کے کہ بے کار اور لا حاصل موت قبول کی جائے ۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ ) ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات مثلاً حجر کی آیة ۹۹ ۔ اور مدثر کی آیت ۴۸ ۔ میں موت کو ” یقین “ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر قوم اور گروہ جو بھی عقیدہ رکھتا ہو وہ ہر چیز کا انکار کرسکتا ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ زندگی ایک دن ختم ہونے والی ہے وہ افرد جو زندگی سے عشق کرتے ہیں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ موت ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہونے کانام ہے اور اس کا نام لیتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں یہ آیات انھیں تنبیہ کرتی ہیں اور زیر بحث آیت میں ۔ یدرککم ۔ کے مفہوم سے انھیں متوجہ کیا گیا ہے کہ عالم ہستی کی اس حقیقت سے فرار اختیار کرنا ایک نامناسب فعل ہے کیونکہ ۔یدرککم ۔ کے مادہ کا معنی یہ ہے کہ کوئی کسی چیز سے فرار حاصل کرے اور وہ اس کے پیچھے دوڑے ۔ سورہ جمعہ کی آیت ۸ میں بھی یہ حقیقت زیادہ کھل کربیان کی گئی ہے :

قل ان الموت الذی تفرون منہ ملاقیکم کہیے کہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور تمہارے سامنے آئے گی ۔

جب یہ حقیقت مد نظر ہو تو کیا یہ عقل مندی ہے کہ انسان میدان جہاد میں جانے اور قابل فخر مرتبے پر فائز ہونے کی بجائے اس سے کنارہ کش ہ وکر گھر میں آرام کرتا رہے فرض کرلیں کہ جہاد سے کنارہ کش ہو کر وہ زندگی کے چند روز اور گذار لے اور وہی کام دہراتا رہے جو پہلے کرتا رہا ہے ۔راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے اجر و ثواب سے بے بہرہ ہو جائے تو کیا یہ عقل اور منطق کے مطابق صحیح ہے اصولی طور پر موت ایک عظیم حقیقت ہے اور موت کے استقبال کے لئے افتخار کے ساتھ آمادہ ہونا چاہئیے ۔دوسرا نکتہ جس پر توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ درج بالا آیت میں کہا گیا ہے کہ کوئی چیز یہاں تک کہ محکم برج ( بروج مشیدہ)(۱) بھی موت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا اور اس کی وجہ واضح یت اور وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت وجود انسانی سے باہر نفوذ کرتی ہے ۔ عملی طور پر موت کا سر چشمہ انسان کے اندر ہے ، کیونکہ بدن کے مختلف کل پر زوں ( اعضاء) کی استعداد یقینا محدود ہے ایک دن وہ ختم ہو جاتے ہیں ۔البتہ غیر طبیعی موت انسان کی تلاش میں باہر سے آتی ہے لیکن طبعی موت اس کے اندر سے آتی ہے ۔ مضبوط گنبد اور بھاری قلعے بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتے ۔یہ بجا ہے کہ مضبوط قلعے بعض اوقات غیر طبعی موت سے بچا لیتے ہیں ۔ مگر پھر بھی موت سے مکمل نجات نہیں دلاسکتے اورچند دنوں بعد طبعی موت انسان کو آلیتی ہے ۔

____________________

۱ - مشیدہ ۔ در اصل مادہ شید ( بر وزن شیر) سے ہے اور گچ اور دوسرے محکم مواد کے معنی میں ہے جنھیں کسی بنیاد کے استحکام کے لئے استعمال کرتے ہیں چونکہ اس زمانہ میں عام طور پر مضبوط بنیاد کے لئے محکم ترین مادہ گچ اور چونا تھا لہٰذا زیادہ تر اس مفہوم میں بولا جاتا تھا۔ لہٰذا بروج مشیدہ محکم قلعوں کے معنی میں ہے اور دیکھنے میں مشیدہ مرتفع اور بلند کے معنی میں آتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ چوناسے استفادہ کئے بغیر کسی طرح بھی بلند و بالا عمارت کی بنیادیں استوار نہیں ہوسکتیں ۔

کامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ

قرآن اس آیت کے ذیل میں منافقین کی کچھ اور بے بنیاد باتوں اور باطل خیالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :وہ جب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور نیکیاں اور حسنات ان کے ہاتھ آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے یعنی ہم اس قابل تھے کہ خدا نے ہمیں یہ شفقتیں اور نعمتیں عطا کی ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

لیکن جب انھیں شکست کا سامنا ہو یا میدان جنگ میں کوئی مشکل لاحق ہو تو کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر کی غلط تدبیر اور ان کی جنگی حکمت عملی کے خام ہونے کی وجہ سے تھا اس ضمن میں وہ جنگ احد کی شکست کا حوالہ دیتے ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ )

بعض مفسرین کا احتمال ہے کہ درج بالا آیت یہودیوں کے بارے میں ہے اور ” حسنہ“ اور ” سیئة“ سے مراد سارے اچھے اور برے حوادث و واقعات ہیں کیونکہ یہودی پیغمبر کے ظہور کے وقت اپنی زندگی کے اچھے حوادث کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے اور برے حوادث کو پیغمبر سے منسوب کردیتے تھے لیکن اس آیت کا ربط پہلے اور بعد کی ان آیات سے ہے جو منافقین کے بارے میں نشاندہی کرتی ہیں یہ آیت بھی زیادہ تر انہی سے مربوط ہے بہر حال قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ ایک موحد اور بالغ نظر خدا پرست کی نگاہ میں یہ تمام حوادث کامیابیاں اور شکستیں خدا کی طرف سے ہیں جولوگوں کی قابلیت اور اہلیت کے مطابق دی جاتی ہے ۔( قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

اور آیت کے آخر میں اعتراض کے طور پر ان منافقین کی زندگی کے مختلف پہلووں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ فکر اور غور نہیں کرتے” پس کیوں یہ لوگ حقائق کاادراک کرنے کو تیار نہیں ہوتے“

( فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

اس کے بعد اگلی آیت میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے کہ تمام نیکیاں ، کامیابیاں اور حسنات جو تمہیں ملتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائیاں اور شکستیں تمھیں در پیش ہوتی ہیں اور وہ خود تمہاری طرف سے ہیں ۔

( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ )

اور آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو اپنی شکستوں اور ناکامیوں کی نسبت پیغمبر سے دیتے ہیں اور اصطلاحاً پیغمبرکی وجہ سے سمجھتے تھے انھیں جواب دیا گیا ۔ ۔ پیغمبر سے ارشاد ہوتا ہے : ” اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے اپنا پیامبرقرار دیاہے اور خدا اس پر گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے “۔تو کایہ ممکن ہے کہ خدا کابھیجا ہوا لوگوں شکست، ناکامی او ربرائی کا سبب ہو؟( وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ایک اہم سوال کا جواب

ان دو آیات کا مطالعہ جو قرآن میں آگے پیچھے مربوط ہیں ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے کہ کیوں پہلی آیت میں تمام نیکیوں اور برائیوں (حسنات و سیئات ) کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے جب کہ دوسری آیت میں صرف نیکیوں کو خدا کی طرف اور برائیوں اور سیئات کو لوگوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ یقینا یہاں کوئی نکتہ پوشیدہ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ دو آیات جو کہ یکے بعد دیگرے آئی ہیں ان میں ایسا واضح اختلاف ہے ان دونو ں آیات پر غور و فکر کرنے سے چند نکات واضح ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک سوال کا علیحدہ جواب بن سکتا ہے ۔

۱۔ اگر سیئات اور برائیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دوپہلو رکھتی ہیں ۔ ایک مثبت پہلو اور ایک منفی پہلو ۔ یہی منفی پہلو ہے جو انھیں برائی کی شکل و صورت دیتا ہے اور انھیں نسبتی زبان یا مقابلتاً نقصان کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔

اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔

جو شخص گرم سر و ہتھیار کے ذریعہ کسی مسلمان کو قتل کردے ، مسلم ہے کہ وہ ایک برائی کا مرتکب ہوا ہے اب ہم اس برے کام کے عوامل پر غور و فکر کرتے ہیں ۔ ان عوامل میں انسان کی طاقت م اس کی فکر ، سرد یا گرم ہتھیار کی طاقت ، صحیح نشانہ، مناسب وقت سے استفادہ کرنا اور گولی کی تاثیر اور طاقت وغیرہ نظر آتے ہیں جو تمام واقعہ کے مثبت پہلو ہیں ۔ کیونکہ یہ سب مفید اور سود مندہ سکتے ہیں اور اگر انھیں بر مخل استعمال کیا جائے تو بڑی بڑی مشکلات کے موقع پر کام آتے ہیں صرف ایک منفی پہلو اس واقعہ کا یہ ہے کہ یہ تمام صلاحتیں اور توانائیاں بے محل استعمال ہوئی ہیں مثلاً بجائے اس کے کہ ان کے ذریعے ایک خطر ناک درنسدے کو مارا جاتا یا ایک جفا کار ظالم کو قتل پر انھیں استعمال کیا جاتا، ایک بے گناہ انسان کو نشانہ بنایا گیا بس یہی پہلو ،منفی ہے کہ ان صلاحیتوں کو برائی کے طور پر کام لایا گیا ، ورنہ نہ تو اچھے نشانے کی صلاحیت انسان کے لئے بری چیز ہے اور نہ ہی گولی او ربارود کا استعمال برا ہے ، یہ سب صلاحیت کو استعمال کرنے کے ذرائع ہیں اور اپنی جگہ بہت فوائد کے حامل ہیں ۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی آیت میں تمام حسنات اور سیئات کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت کے تمام ذرائع ، یہاں تک کہ وہ صلاحتیں کہ جن سے غلط فوائد حاصل کئے گئے ، خدا کی طرف سے ہیں اور اصلاحی اور مثبت اجراء کا سر چشمہ وہی ہیں اور اگر دوسری آیت میں سیئات کی نسبت لوگوں کی طرف دی گئی ہے تو واقعہ کے انھی منفی پہلووں اور خدا کی عنایات اور صلاحیتوں سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کی طرف اشارہ ہے یہ بالکل اسی مثال کی طرح ہے کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو ایک اچھا گھر بنانے کے لئے سرمایہ دے لیکن وہ اسے منشیات، فساد ، تباہ کاری میں صرف کردے اس میں شک نہیں ہے کہ سرمایہ کے لئے وہ اپنے باپ کا مقروض ہے لیکن سرمایے کے غلط استعمال کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے ۔

۲۔ ممکن ہے کہ آیہ مبارکہ ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتی ہو جس کی طرف خبر اور تفویض کی بحث میں اشارہ ہوا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام حوادث دنیا، یہاں تک ہمارے اعمال و افعال چاہے اچھے ہوں یا برے ، نیک ہوں یا بد ایک طرح سے خدا سے مربوط ہیں کیونکہ وہی جس نے ہمیں طاقت دی ہے اور اختیار و ارادہ کی آزادی ہمیں بخشی ہے لہٰذا ہم جو کچھ اختیار کرتے ہیں اور ارادے کی آزادی کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں وہ مشیت الہٰی کے برخلاف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اعمال ہم سے نسبت رکھتے ہیں اور ان کا سر چشمہ ہمارا وجود ہے کیونکہ عمل کے تعین کرنے کا عامل و سبب ہمارا ارادہ و اختیار ہے اور اسی بناپر ہم اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہیں اور خدا کی طرف ہمارے اعمال کی اسناد و نسبت، جیسا کہ اشارہ ہوا ہے ہماری ذمہ داری اور جوابدہی کو سلب نہیں کرتی اور عقیدہ جبر کا موجب اور سبب نہیں بنتی۔ لہٰذ ا خدا جہاں فرماتا ہے کہ ” حسنات و سیئات“ میری طرف سے ہیں تو وہاں اشارہ کرتا ہے کہ تمام چیزوں کی نسبت خدا کی اس فاعلیت ( اختیار) کی طرف ہے اور جہاں فرماتا ہے سیئات تمہاری طرف سے ہیں تو وہاں ہماری فاعلیت اور ہمارے ارادہ و اختیار کی طرف اشارہ ہے ، اور حقیق میں دو آیات کا مجموعہ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کو ثابت کرتا ہے ( یہ نکتہ غور طلب ہے )

۳۔ ایک اور تفسیر جو ان آیات کے لئے موجود ہے اور اہل بیت (علیه السلام) کی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ” سیئات“ سے مراد اعمال کی سزا و مجازات اور گناہوں کے عقوبات و نتائج ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سزائیں خدا کی طرف سے ہیں لیکن چونکہ یہ بندوں کے اعمال و افعال کا نتیجہ ہیں ۔ اس بناپر بعض اوقات ان کی نسبت بندوں کی طرف دی جاتی ہے اور بعض اوقات خدا کی طرف، اور دونوں صحیح ہیں ۔ مثلا یہ دونوں طرح سے صحیح و درست ہے کہ کہا جائے کہ قاضی چور کا ہاتھ کاٹتا ہے یا یہ کہ چور خود اپنے ہاتھ کو کاٹتا ہے ۔

آیات ۸۰،۸۱

۸۰۔( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

۸۱۔( وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللهُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۸۰۔جس شخص نے پیغمبر کی اطا عت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو گر دانی کرے تو تم اس کے جواب دِہ نہیں ہو ۔

۸۱۔وہ تیرے سامنے کہتے ہیں کہ ہم فر ما نبردار ہیں لیکن جب وہ تمھاری بز م سے باہرجاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمھاری گفتگو کے بر خلاف رات کو خفیہ میٹنگیں تشکیل دیتا ہے جو کچھ وہ ان میٹنگوں میں کہتے ہیں خدا اسے لکھتا ہے ۔

ان کی پر واہ نہ کرو (اور ان کے منصوبوں اور سا زشوں سے نہ ڈرو)اور خدا پر تو کل کرو اور کافی ہے کہ وہ تمھارا مدد گاراور حفاظت کرنے والا ہو ۔

تفسیر

اس آیت میں لوگو ں اور ان کے ”حسنات“اور ” سیئات“کے مقا بلہ میں رسول کی حیثیت بیان گئی ہے ۔خدا پہلے فر ماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی ۔

( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ )

لہٰذا خدا کی اطاعت پیغمبر کی اطاعت ہے جدا نہیں ہو سکتی کیونکہ پیغمبر کوئی قدم خدا کی مشیت کے خلاف نہیں اٹھاتا اس کی گفتار ، کردار، اعمال سب خدا کے فرمان کے مطابق ہیں ۔

اس کے بعد فرماتا ہے : اگر کچھ لوگ اعراض اور رو گردانی کرتے ہیں اور وہ تمہارے احکام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں تو تم ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں ہو اور یہ تمہارا کام نہیں کہ ان سے تکرار کرو یا نافرمانی کر نے سے انھیں جبراً روکو ۔ تمہارا فرض تبلیغ رسالت امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور گمراہ وبے خبر لوگوں کی رہنمائی کرنا

( وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

غور کرنا چاہئیے کہ لفظ ” حفیظ“ اس لحاظ سے کہ وہ شخص ہے کہ جو ہمیشہ کسی چیز کی نگرانی پر مامور ہو ۔ لہٰذا آیت کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ پیغمبر کی ذمہ داری رہبری کرنا، دعوت حق دینا، فتنہ اور مفاسد کا مقابلہ کرنا ہے لیکن اگر کچھ لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہو ں تو پیغمبر ان کی کجروی کے لئے جوابدہ نہیں ہیں کہ ہر جگہ موجود ہوں اور ہر گناہ و معصیت کا طاقت اور جبر سے مقابلہ کریں اور مروّج طریقوں سے بھی وہ اس طرح کی قدرت نہیں رکھتے ۔ اس بنا پر احد جیسی جنگ کے حوادث بھی شاید آیت کے پیش نظر ہوں کہ پیغمبر کا فرض تھا کہ فنون ِ حرب کے لحاظ سے زیادہ گہرائی اور غور و خوض سے جنگی حکمتِ عملی تیار کرتا اور دشمن کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھتا، اور یہ بات مسلم ہے کہ ان احکام و ضوابط میں پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے پیغمبر کے احکام کی حکم عدولی کی اور اس سبب سے وہ شکست سے دو چار ہو ئے تو اس کی جواب دہی ان سے منسوب ہو گی نہ کہ پیغمبرسے ۔ غور کرنا چاہئیے کہ یہ آیت قرآن کی واضح ترین آیات میں سے ہے جو سنتِ پیغمبر کے حجت ہونے اور آپ کی احادیث کو قبول کرنے کے لئے دلیل ہے ، لہٰذا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو قبول کرتا ہوں لیکن پیغمبر کی حدیث اور سنت کو قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ درج بالا آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ پیغمبر کی حدیث اور سنت کی اطاعت فرمانِ خدا کی اطاعت ہے ۔

جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر نے حدیث ثقلین کے مطابق جو کہ مشہور مآخذ اور کتب اسلامی میں مذکور ہے چاہے وہ کتب شیعہ ہوں یا کتب اہل سنت، صراحت کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کو سند اور حجت قرار دیا ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت (علیه السلام) کے فرمان کی اطاعت بھی فرمانِ خدا کی اطاعت سے الگ نہیں ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو تو قبول کرتا ہوں لیکن اہل بیت(علیه السلام) کے فرامین کو نہیں مانتا کیونکہ یہ بات درج بالا آیت اور اس کے مشابہ آیات کے برخلاف ہے ۔

اسی لئے بہت سی روایات جو تفسیر بر ہان میں اس آیت کے ضمن میں آئی ہےں میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے درج بالا آیت کے مطابق امر و نہی کا حق اپنے پیغمبر کو دیا ہے اور پیغمبر نے یہ حق حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ اہل بیت (علیه السلام) کو دیا ہے لہٰذا لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے امر و نہی سے رو گردانی نہ کریں کیونکہ ان کا امر و نہی ہمیشہ خدا کی طرف سے ہے نہ کہ خود ان کی طرف سے ( تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۳۹۶) اس کے ساتھ دوسری آیت میں منافقین کے ایک گروہ یا کمزور ایمان والے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” وہ لوگ جس وقت مسلمانوں کی صفوں میں پیغمبر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یا کسی ضرر سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے دوسروں کے ہم آواز ہوتے اور فرمانِ پیغمبر کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جان و دل سے پیغمبر کی پیروی کرنے کو تیار ہیں( وَیَقُولُونَ طَاعَة )

لیکن جب لوگ بزم رسالت سے نکلتے ہیں تو وہ منافقین اور کمزور ایمان والے افراد اپنے عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور خفیہ اجتماعات میں پیغمبر کے ارشادات کے خلاف پروگرام بناتے ہیں

( فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ )

اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین پیغمبر کے زمانہ میں نچلے نہیں بیٹھے تھے ، بلکہ وہ رات کو خفیہ اجتماعات میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے اور پیغمبر اکرم کے لائحہ عمل میں رخنہ اندازیاں کرتے تھے ، لیکن خدا اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سے منہ پھیر لیں اور ان کی سازشوں سے گھبرائیں نہیں اور اپنے لائحہ عمل کے لئے ان پر انحصار نہ کریں ۔ بلکہ فقط خدا پر بھروسہ رکھیں خدا جو سب سے زیادہ مدد اور حفاظت کرنے والا ہے ۔

( فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

آیت ۸۲

۸۲( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

ترجمہ

۸۲۔ کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ اختلافات پاتے ۔

تفسیر

اعجاز قرآن کی زندہ مثال

ان سر زنشوں کے بعد جو گزشتہ آیات میں منافقین کو کی گئی تھیں یہاں انھیں اور دوسرے تمام ان لوگوں کی طرف جو قرآن کی حقانیت میں شک و تردد کرتے ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کیا یہ لوگ قرآن کی مخصوص وضع و کیفیت پر غور و فکر نہیں کرتے اور اس کے نتائج کو نہیں دیکھتے ، قرآن اگر خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نازل ہوتا تو یقینا اس میں انھیں بہت سے تفاوت و اختلافات ملتے ا ب جب کہ اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے تو جان لینا چاہئیے کہ وہ خدا ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔

( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

”تدبر“ اصل میں مادہ دبر( بر وزن ابر) پشت سر اور کسی چیز کی عاقبت و انجام کے معنی میں ہے اس بنا پر تدبیر سے مراد نتائج ، عواقت اور کسی چیز کے آگے پیچھے دیکھنا ہے ۔ تفکر سے اس کا فرق یہ ہے کہ تفکر کا ربط کسی وموجود کے علل اور خصوصیات کے مطالعہ سے ہے لیکن ”تدبیر“ اس کے عواقب و نتائج کے مطالعے اور جائز سے مربوط ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصولِ دین اور ایسے مسائل مثلاً پیغمبر کے دعوے کی سچائی اور قرآن کی حقانیت کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کریں اور اندھی تقلید اور بغیر سوچے سمجھے فیصلوں سے اجتناب کریں ۔

۲۔ بعض لوگوں کے خیال کے برعکس قرآن سب لوگوں کے لئے قابل فہم و ادراک ہے کیونکہ اگر وہ قابل فہم و ادراک نہ ہوتا تو اس میں تدبر و فکر کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔

۳۔ قرآن کی حقانیت کی ایک اور دلیل اور یہ کہ وہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے یہ ہے کہ سارے قرآن میں تضاد اور اختلاف نہیں ہے ۔ اس حقیقت کے ادراک کے لیے حسبِ ذیل وضاحت کی طرف توجہ کریں ۔

” ہر شخص کی کیفیات اور نظر یات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں بعض استثنائی حالتیں چھوڑ کر عام حالات میں قانون تکامل و ارتقاء انسان اور اس کے افکار و نظر یات پر بھی موثر حاوی ہے ہمیشہ دن مہینے اور سال بدلنے سے لوگوں کی زبان ، فکر اور گفتار بھی بدلتی رہتی ہے اگر غور سے دیکھیں تو ایک لکھنے والے شخص کی تحریریں کبھی بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ ایک ہی کتاب کی ابتدا اور انتہا میں فرق ہوتا ہے خصوصاً اگر کوئی شخص عظیم حوادثسے گزرے اور حوادث بھی ایسے جو ایک فکری، اجتماعی ، نظر یاتی عقائدی انقلاب کی بنیاد بن جائیں تو وہ جتنا بھی کوشش کرے کہ اپنی گفتار کو ایک جیسا اور ایک طرز پر رکھے اور اسے اپنی گزشتہ باتوں سے مربوط کرلے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ خصوصاً اگر وہ ان پڑھ اور پس ماندہ ماحول میں پروان چڑھا ہو“۔

”لیکن قرآن جو ۲۲ سال کی مدت میں لوگوں کے تربیتی تقاضوں اور ضروریات کے مطابق بالکل مختلف حالات اور مواقع پر نازل ہوا، ایسی کتاب ہے جو مکمل طور پر مختلف موضوعات کو چھیڑتی ہے اور عام کتب کی طرح اس میں صرف ایک اجتماعی، سیاسی ، فلسفیانہ، حقوقِ انسانی یا تاریخی موضوع سے بحث نہیں ہے بلکہ قرآن کبھی توحید اور اسرار آفرینش کے بارے میں اور کبھی احکام قوانین اور آداب و سنن کے متعلق اور کسی وقت گذشتہ عبادات اوربندوں کے خدا سے رابطے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے ۔ ڈاکٹر گوستان دلبون کے بقول قرآن جوکہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب ہے صرف تعلیمات اور احکام مذہبی پر منحصر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی احکام کو بھی بیان کرتی ہے ایسی خصوصیات کی حامل کتاب کے لئے عام طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ تضاد، تناقض اور تضاد بیانی سے مبرا ہو ۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام جہات کے باوجود اس کی تمام آیات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اور ہر قسم کے تضاد، اختلافات، ناموزونیت سے خالی ہے تو ہم بہت بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب افکار انسانی کی تخلیق نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ خدا کی طرف سے ہے ۔ جیسا کہ قرآن خود اس حقیقت کو درج بالا آیت میں بیان کرتا ہے ۔“(۱)

____________________

۱ - کتاب قرآن و آخرین پیغمبر ص ۳۰۹ تالیف ناصر مکارم

آیت ۸۳

۸۳۔( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

ترجمہ

۸۳۔ اور جب کامیابی یا شکست کی خبر انہیں ملے تو وہ ( تحقیق کے بغیر) اسے مشہور کر دیتے ہیں لیکن اگر وہ پیغمبر اور صاحبان امر کی طر ف( جو تشخیص کی کافی اہلیت و قدرت رکھتے ہیں ) پلٹا دیں تو مسائل کی تہہ سے آگاہ ہو جائیں اور خدا کا فضل اور رحمت شاملِ حال نہ ہوتی تو سوائے قلیل گروہ کے سب کے سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے ۔

تفسیر

افواہیں پھیلانا

اس آیت میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے ایک اور منفی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب انھیں مسلمانوں کی فتح یا شکست کے متعلق خبریں پہنچتی ہیں تو وہ تحقیق کے بغیر انھیں لوگوں میں پھیلاتے ہیں جب کہ بیشتر یہ خبریں بے بنیاد ہوتی ہیں اور دشمنوں کی جانب سے خاص مقاصد کے لئے گھڑی جاتی ہیں ، ان کا شہرت پانا مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہوتا ہے

( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ )

حالانکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس قسم کی خبریں سب سے پہلے اپنے رہبروں اور پیشواوں کے سامنے رکھیں اور ان کی وسیع اطلاعات اور گہری فکر سے استفارہ کریں اور بلا وجہ نہ تو مسلمانوں کو اچھے نتائج کے غرور میں مبتلا کریں جو خیالی کامیابیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ شکست کی جھوٹی خبروں سے ان کی ہمتوں کو پست کریں ۔

( وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ )

” یستنبطونہ“ اصل میں نبط ( بر وزن فقط) کے مادے سے ہے اس سے مرادوہ پہلا پانی ہے جو کنویں سے نکالتے اور زمین کی تہہ سے حاصل کرتے ہیں اسی بناپر ہر حقیقت کے مختلف دلائل وشواہد سے استفادہ کرنے اور موجود مدارک سے استخراج کرنے کو ” استنباط“ کہا جاتا ہے چاہے یہ کام فقہی مسائل میں ہو یا فلسفانہ ، سیاسی اور علمی مسائل میں جو تشخیص کی قدرت رکھتے ہوں ، اور مختلف مسائل پر کافی دسترس رکھتے ہوں اور جو حقائق کو بے بنیاد افواہوں سے اور صحٰح مطالب کو غلط امر سے الگ کرکے لوگوں تک پہچائیں ، اس طرح کے لوگوں میں پہلا درجہ پیغمبراکرم اور آپ کے جانشین ائمہ اہل بیت(علیه السلام) کا ہے اور دوسرے درجہ میں ایسے علماء ہیں جو ان مسائل میں صاحبِ نظر ہیں ۔ جیسا کہ تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ضمن میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

” ھم الائمہ“ یعنی اس آیت سے مراد آئمہ اہلِ بیت ہیں ۔

اور اس مضمون کی دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں ممکن ہے اس طرح کی روایات پر لوگ اعتراض کریں کہ رسول اللہ تو آیت کے نزول کے وقت موجود تھے لیکن آئمہ اہل بیت (علیه السلام) کو منصبِ امامت نہیں ملا تھا اس اعتراض کا جواب واضح ہے کیونکہ یہ آیت پیغمبر اکرم کے زمانے کے ساتھ تو مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تو ایک مکمل قانون ، تمام ادوار اور زمانوں کے لئے ہے جو دشمنوں اور نادان مسلمانو کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان غلط خبروں کی اشاعت کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے کے نقصانات

مختلف معاشروں کو جو بڑے مسائل در پیش ہوتے ہیں اور جو معاشروں سے اجتماعی فکر ، افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کو ختم کر دیتے ہیں ان کا سبب جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت ہے اس طرح سے کہ بعض اوقات ایک منافق ایک غلط خبر گھڑ لیتا ہے وہ چند افراد تک پہنچاتا ہے اور وہ بلا تحقیق اس کی نشر و اشاعت کرنے لگتے ہیں اور شاید کچھ اس میں اپنی طرف سے اضافے بھی کرتے ہیں اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک لوگوں کی فکری توانائی ضائع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو اس طرف مشغول کرکے انھیں اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہیں اور معاشرے کو اہم فرائض کی انجام دہی سے سست روا اور متردد کردیتی ہیں ۔ اگر چہ وہ گروہ اور معاشرے جن میں جبر ہے اور ان کے گلے گھونٹ دیئے گئے ہیں ان میں بی جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت کرنا ایک قسم کے مقابل؛ے یا انتقام جوئی کے زمرے میں آتا ہے لیکن صحیح معاشروں میں غلط خبروں کی نشر و اشاعت بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ اگر اس قسم کی خبریں قابل، مشیتاور مفید افراد کے متعلق ہوں تو وہ انھیں خدمات اور کار نامے انجام دینے کے معاملے میں دلِ سرد اور سست کردیتی ہیں اور بعض اوقات ان کی برس ہا برس کی حیثیت کو بر باد کردیتی ہیں ۔ ولوگوں کو ان کے وجود کے فوائد سے محروم کردیتی ہیں ۔ اسی بنا پر اسلام صراحت کے ساتھ جھوٹی خبریں گھڑنے کے عمل سے جنگ کرتا ہے اور جعل سازی، جھوٹ اور تہمت گوئی اور اس کی نشر و اشاعت بھی ممنوع قرار دیتا ہے ۔ درج بالا آیت اس کا ایک نمونہ ہے ۔

اس کے بعد آیت کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی اور پر وردگار کے مقرر شدہ رہنماوں کے ذریعے تم اس قسم کی جھوٹی خبروں اور ان کے برے نتائج سے چھٹکارہ حاصل نہ کرتے تو تم میں سے بہت سے لوگ شیطانی راستوں پر چل پڑتے اور قلیل افراد ایسے رہ جاتے جو شیطان کی پیروی سے اجتناب کرتے( وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

یعنی پیغمبر اور صاحب نظر و اہل بصیرت علماء ہی جو غلط مشتہر ہونے والی خبروں کے وسوسو ں سے بچ سکتے ہیں لیکن معاشرے کی اکثریت اگر صحیح رہبری سے محروم رہ جائے تو من گھڑت خبروں اور ان کے ضرررساں اثرات سے نہیں بچ سکتی۔(۱)

____________________

۱- جو کچھ ہم نے کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ” الاقلیلاً“ ” اتبعھم “ کی ضمیر سے ” مستثنیٰ ہے اور آیت میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں ہے

(غور کیجئے گا) ۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31