تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23165
ڈاؤنلوڈ: 3087


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23165 / ڈاؤنلوڈ: 3087
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

خیانت کرنے والوں کی حمایت نہ کرو

خدا ان آیات میں پہلے تو پیغمبر اکرم کو وصیت کرتا ہے کہ اس آسمانی کتاب کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے اصول جاری ہوں :ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ اس کے ذریعے خدا نے تجھے جو علم دیا ہے لوگوں کے درمیان فیصلے کرو ۔

( إِنَّا اٴَنْزَلْنا إِلَیْکَ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِما اٴَراکَ اللَّهُ )

اس کے بعد کہتاہے کہ کبھی بھی خیانت کر نے والوں کی حمایت نہ کرو( وَ لا تَکُنْ لِلْخائِنینَ خَصیماً ) ۔

اگر چہ بظاہر روئے شخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے لیکن اس میں شک و شبہ نہیں کہ یہ ایک عمومی حکم ہے جو تمام قاضیوں اور فیصلہ کرنے والوں کے لئے ہے اس بنا پر اس قسم کے خطاب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ممکن ہے کہ اس قسم کا معاملہ پیغمبر اکرم کے ساتھ پیش آیا ہے کیونکہ اس مذکورہ حکم کا تعلق تمام افراد سے ہے ۔

بعد والی آیت میں پیغمبر اکرم کو بار گاہ ِ خدا وندی سے طلب مغفرت کے لئے کہا گیا ہے( وَ اسْتَغْفِرِ اللَّهَ ) کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے( إِنَّ اللَّهَ کانَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

یہ کہ یہاں استغفار کس لئے ہے اس میں کئی احتمال ہیں :

پہلا یہ کہ استغفار اس ترک اولیٰ کی بنا پر ہے جو فیصلہ میں جلدی کرنے کی وجہ سے آیات کی شانِ نزول کے بارے میں آیا ہے یعنی اگر چہ وہی اعتراف کی نوعیت اور طرفین کی گواہی تمہارے فیصلہ کرنے کے لئے کافی تھی لیکن بہتریہ تھا کہ پھر بھی اس معاملے میں مزیدتحقیق کی جاتی ۔

دوسرا یہ کہ پیغمبر اکرم نے اسی شانِ نزول کے متعلق اسلام کے قضائی قوانین میں مطابق فیصلہ کیا اور چونکہ خیانت کرنے والوں کی سند اور ثبوت ظاہری طور پر زیادہ مستحکم تھے لہٰذا انھیں حق بجانب قرار دیا گیا پھر حق کے سامنے آجانے اور حق داروں کو حق مل جانے کے بعد حکم دیتا ہے کہ خدا سے مغفرت طلب کرو نہ کہ اس بنا پر کہ کوئی گناہ سر زد ہوا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ بعض لوگوں کی سازش کی وجہ سے ایک مسلمان کا حق سلب ہو رہا تھا

( یعنی استغفارحکم واقعی ہے نہ کہ حکم ظاہری)

یہ احتمال بھی بیان ہوا ہے کہ یہاں استغفار کا حکم طرفین دعویٰ کو دیا گیا ہے جنہوں نے دعویٰ پیش کیا اور پھر اس سلسلے میں کئی غلط گواہیاں دیں ۔ پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں منقول ہوا ہے آپ نے فرمایا:

انما انا بشر و انکم تختصمون الیٰ و لعل بعضکم یکون الحن بحجة من بعض فاقضی بخومااسمع فمن قضیت له من حق اخیه مشیئا فلا یاخذه فانما اقطع له و قطعة من النار ۔

میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں ( ظاہری امور میں فیصلے کرنے پر مامور ہوں ) شاید تم میں سے بعض وہی دلیل بیان کرتے وقت بعض دوسروں سے زیادہ قوی ہوں اور میں بھی اسی دلیل کی بنا پر فیصلہ کروں گا با وجود اس کے جان لو کہ میرا فیصلہ جو طرفین کے دلائل کے سامنے آنے پر صادر ہوتا ہے وہ واقعی حق کو نہیں بدل سکتا لہٰذا اگر میں کسی کے حق میں (ظاہر کے مطابق) فیصلہ کردوں اور دوسرے کا حق اسے دے دوں تو میں جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا اسے دے رہاہوں اسے چاہئیے کہ وہ اس سے بچے او رنہ لے ۔(۱)

معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق اور دعویٰ کرنے والے طرفین کے دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں ۔ البتہ اس قسم کے فیصلوں سے عام طور پر حق دار کو حق مل جاتا ہے لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ بعض اوقات ظاہراًدلیل اور گواہوں کی گواہی واقع کے مطابق نہ ہوتو یہاں خیال کرنا چاہئیے کہ فیصلہ کرنے والے کا حکم واقع کو نہیں بدل سکتا اور اس سے حق ، باطل اورباطل حق نہیں ہوسکتا۔

____________________

۱- المنار ،ج۵ ص ۳۹۴منقول از صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

اس حدیث ۲

۲- پہلی احتمال اور شان نزول والی روایات اور اس روایت کا ظہور قواعد مذہب کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرت منصوص قرآن ترک اولیٰ سے بھی معصوم تھے

(مترجم )

آیات ۱۰۷،۱۰۸،۱۰۹

۱۰۷۔( وَ لا تُجادِلْ عَنِ الَّذینَ یَخْتانُونَ اٴَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا یُحِبُّ مَنْ کانَ خَوَّاناً اٴَثیماً ) ۔

۱۰۸۔( یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَ لا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ ما لا یَرْضی مِنَ الْقَوْلِ وَ کانَ اللَّهُ بِما یَعْمَلُونَ مُحیطاً )

۱۰۹۔( ها اٴَنْتُمْ هؤُلاء ِ جادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا فَمَنْ یُجادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ اٴَمْ مَنْ یَکُونُ عَلَیْهِمْ وَکیلاً ) ۔

ترجمہ

۱۰۷۔ اور جنہوں نے اپنے آپ سے خیانت کی ہے ان کا دفاع نہ کرو، کیونکہ خدا خیانت کرنے والے گنہ گاروں کو دوست نہیں رکھتا۔

۱۰۸۔ وہ اپنے برے کاموں کو لوگوں سے چھپا تے ہیں لیکن خدا سے نہیں چھپا تے اور رات کی مجالس میں ایسی باتیں کرتے تھے جن سے خدا راضٰ نہ تھا ان کے ساتھ تھا اور وہ جو عمل کرتے ہیں خدا اس پر محیط ہے ۔

۱۰۹۔جی ہاں تم تو وہی ہو جنہوں نے اس جہان کی زندگی میں ان کو بچا یا لیکن کون ہے جو خدا کے سامنے قیامت کے دن ان کا دفاع کرے گا یا کون ہے جو ان کا وکیل اور حامی ہوگا۔

تفسیر

خیانت کرنے والوں کی حمایت نہ کرنے کے احکامات کے بعد ان آیا ت میں اس سلسلہ کو یوں جاری رکھا گیا ہے : کسی وقت بھی خیانت کرنے والوں کی اور ان کی جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں حمایت نہ کرو ۔(وَ لا تُجادِلْ عَنِ الَّذینَ یَخْتانُونَ اٴَنْفُسَهُمْ ) ۔یونکہ خدا خیانت کرنے والے گنہ گاروں کو پسند نہیں کرتا

( إِنَّ اللَّهَ لا یُحِبُّ مَنْ کانَ خَوَّاناً اٴَثیماً ) ۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ خدا اس آیت میں فر ماتا ہے : وہ لوگ جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں ۔ حالانکہ ہم آیت کی شانِ نزول کے مطابق جانتے ہیں کہ انھوں نے دوسروں سے خیانت کی تھی یہ اسی لطیف معنی کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی قرآن نے با رہا یا دہانی کرائی ہے کہ انسان سے جو بھی عمل سر زد ہو اس کے اچھے یا برے آثار معنوی ہوں یا مادی ہرایک سے پہلے خود اس پر اثر انداز ہوں جیسا کہ دوسرے مقام پر فرماتا ہے :

( ان احسنتم احسنتم لانفسکم و ان اساٴتم فلها )

اگر نیک کام کرتے ہو تو اپنے نفسوس کے لئے کرتے ہو اور اگر برائی کرو تو بھی اپنے نفس کے لئے ہے ۔ ( بنی اسرائیل ۔ ۷)

یا یہ ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی قرآن تائید کرتا ہے اور وہ یہ کہ تمام افراد ایک جسم کے مختلف اعضاء کی طرح ہیں اگر ایک کسی دوسرے کوکوئی تکلیف پہچانا ہے تو اس طرح خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا تا ہے ۔ بعینہ اس شخص کی طرح جو اپنے ہا تھ سے اپنے منہ پر تھپیڑے مارے ۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ آیت ان افراد کے بارے میں نہیں کہ جو مثلاً ایک ہی دفعہ خیانت کے مرتکب ہو ئے ہیں اور پھر اس پر پشمان ہو گئے ہوں کیونکہ ایسے اشخاص کے بارے میں سختی نہیں بلکہ نرمی برتنی چاہئیے ۔ آیت تو ان افراد کے بارے میں ہے جن کی زندگی کا لائحہ عمل ہی خیانت ہے ” یختاتون “ کے قرینہ سے جو کہ فعل مضارع ہے اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے اور ” خوّان“ کے قرینہ سے بھی جو کہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور کا معنی ہے ” بہت خیانت کرنے والا“ ۔” اَثیم ٌ“کا معنی ” گنہ گار“ ہے یہ ”خوّان “کی تاکید کے طور پر ذکر ہوا ہے ۔ گذشتہ آیت میں بھی اسے خائن قرار دیا گیا ہے اور خائن اسم فاعل ہے اور وصفی معنی رکھتا ہے نیز تکرار عمل کی علامت ہے ۔ پھر ایسے خیانت کاروں کی سر زنش کرتے ہوئے کہتا ہے انھیں شرم آتی ہے کہ ان کے اعمال کا باطن لوگوں کے سامنے ظاہر ہو لیکن وہ خدا سے تو شرم نہیں کرتے( یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَ لا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ ) ۔

وہ خدا جو پر جگہ ان کے ساتھ ہے او رجس وقت رات کی تاریکی میں وہ خیانت کار سازشیں او رمنصوبے بناتے تھے اور وہ باتیں کرتے ہیں جن سے خدا راضی نہیں وہ ( خدا) ان کے ساتھ تھا اور وہ ان کے تمام اعمال پر محیط ہے( وَ هُوَ مَعَهُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ ما لا یَرْضی مِنَ الْقَوْلِ وَ کانَ اللَّهُ بِما یَعْمَلُونَ مُحیطاً ) ۔

اس کے بعد روئے سخن چور کے قبیلے کے ان افراد کی طرف ہے جنہوں نے اس کا دفاع کیا تھا ۔ خدا انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے تعجب ہے کہ تم اس جہان کی زندگی میں تو ان کا دفاع کرتے ہو ، لیکن کون ہے جو قیامت کے دن ان کا دفاع کرے یا وکیل بن کر ان کے کام آئے او ران کی مصیبتوں اور ابتلاوں کو ختم کرے( ها اٴَنْتُمْ هؤُلاء ِ جادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا فَمَنْ یُجادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ اٴَمْ مَنْ یَکُونُ عَلَیْهِمْ وَکیلاً ) ۔

اس وجہ سے تمہاری طرف سے ان کا دفاع معمولی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ دائمی زندگی میں خدا کے سامنے ان کا کوئی دفاع کرنے والا نہیں ہے ۔

حقیقت میں اوپر والی تین آیات میں پہلے تو پیغمبر اسلام اور سب قاضیوں کو حق کی وصیت کی گئی ہے کہ وہ مکمل طور پر نگرانی اور دھیان رکھیں کہ کچھ لوگ حیلہ سازی اور جھوٹے گواہوں کے ذریعے دوسروں کے حقوق پائمال نہ کریں پھر خیانت کر نے والوں او ربعد میں ان کا دفاع کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اس جہان اور دوسرے جہان میں اپنے اعمال کے برے نتائج پر نظر رکھیں ۔

اور یہ بلاغت قرآن کا ایک راز ہے کہ ہر واقعہ میں چاہے وہ ظاہراًجتنا معمولی اور چھوٹا ہو وہ ایک ذرہ بھر یا تھوڑے سے اناج کے گرد گھومتا ہو ۔ یا اس میں ایک یہودی اور دشمن اسلام کا ہاتھ ہو اس کے تمام پہلو وں پر کھوج اور تحقیق کرتے ہوئے پوری توجہ دلاتا ہے اور ہر موقع پر خطرہ سے آگاہ کرتا ہے ، خدا کے عظیم پیغمبر سے لے کر کہ جس کا دامن عصمت کی بناپر ہر قسم کے گناہ سے پاک ہے ، خیانت پیشہ گنہگار افراد اور ان لوگوں تک جو رشتہ داری کے تعصبات کی وجہ سسے اس قسم کے افراد کا دفاع کرتے ہیں ہر ایک پر اس کی مناسبت سے بحث کرتا ہے ۔

آیات ۱۱۰،۱۱۱،۱۱۲

۱۱۰۔( وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

۱۱۱۔( وَ مَنْ یَکْسِبْ إِثْماً فَإِنَّما یَکْسِبُهُ عَلی نَفْسِهِ وَ کانَ اللَّهُ عَلیماً حَکیماً ) ۔

۱۱۲۔( وَ مَنْ یَکْسِبْ خَطیئَةً اٴَوْ إِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِهِ بَریئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتاناً وَ إِثْماً مُبیناً ) ۔

ترجمہ

۱۱۰۔ جو شخص کوئی بر اکام کرے یا اپنے اوپر ظلم کرے پھر خدا سے مغفرت طلب کرے تو وہ خد اکو بخشنے والا اور مہربان پائے گا۔

۱۱۱۔ اور جو کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا تا ہے او رخدا دانا وحکیم ہے ۔

۱۱۲۔ جو شخص غلطی یا گناہ کا مرتکب ہو پھر بے گناہ پر الزام دھرے اس نے بہتان اور واضح گناہ کو بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیا ہے ۔

جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے

ان تین آیات میں خیانت او رتہمت سے متعلق بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں ہوچکی ہے تین مجموعی احکامات بیان ہوئے ہیں ۔

۱۔ پہلے تو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ تو بہ کی راہ بد کار لوگوں کے لئے بہر حال کھلی ہے اور جو شخص اپنے اوپر یا کسی دوسرے پ رظلم کرے اور بعد میں حقیقتاً پشیمان ہو اور خدا سے مغفرت طلب کرے او روہ اس کی تلافی کی کوشش بھی کرے تو خدا کو بخشنے والا او رمہر بان پائے گا۔

( وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

غور کرناچاہئیے کہ آیت میں دو چیزیں بیان ہوئی ہیں ایک ”سوء“ اور دوسری کسی پرظلم ۔ قرینہ مقابلہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور ” سوء“ کے اصل معنی” دوسرے کو نقصان پہچانا) سے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا گناہ جس سے انسان دوسرے کو نقصان پہنچائے یا اپنے کو) وہ حقیقی توبہ اور تلافی کی صورت میں قابلِ بخشش ہے ۔

ضمنی طور پر “ یجد اللہ غفوراً رحیماً“ ( خدا کو بخشنے والا ، مہربان پائے گا ) سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ یہ اثر رکھتی ہے کہ انسان اپنے نفس کے اندر ہی اس کا نتیجہ پالیتا ہے ایک طرف خدا کے غفور ہونے کے تصور سے گناہ کا پریشان کن اثر زائل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف وہ محسوس کرتا ہے کہ معصیت کے سبب وہ رحمت و الطاف الہٰی سے دور ہو گیا تھااور اب اس کی اہمیت کی وجہ سے دوریاں ختم ہو گئی ہیں او روہ خدا کے نزدیک ہو گیا ہے ۔

۲۔ دوسری آیت اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ جس کا اجمال گذشتہ آیات میں ہو چکا ہے او روہ یہ ہے کہ ” انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے نتیجة اس سے اپنے آپ کو ضرور نقصان میں مبتلا کرلیتا ہے( وَ مَنْ یَکْسِبْ إِثْماً فَإِنَّما یَکْسِبُهُ عَلی نَفْسِهِ ) ۔ اور آیت کے آخر میں فرماتاہے کہ خدا عالم ہے اور بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور وہ حکیم و دانا بھی ہے اور ہر شخص کو اس کے استحقاق کے مطابق سزا و جزا دیتا ہے( وَ کانَ اللَّهُ عَلیماً حَکیماً ) ۔

اس طرح گناہ اگر چہ ظاہر میں مختلف ہیں کبھی بھی کسی گناہ کا نقصان دوسروں کو پہنچتا ہے او رکبھی اس کا نقصان اپنے آپ کو ہوتا ہے ۔ لیکن اس کا حقیقی اور آخری نتیجہ بہر حال خود انسان کے اپنی طرف لوٹتا اور گناہ کے برے اثرات سب سے پہلے خود انسان کی روح اور نفس میں ظاہر ہوتے ہیں(۱)

۳۔ آخری آیت میں بے گناہ افراد پر تہمت لگانے کے گناہ کی شدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” جو شخص خطا یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپتا ہے اس نے بہتان باندھا ہے اور واضح گناہ کا ارتکاب کیا ہے

( وَ مَنْ یَکْسِبْ خَطیئَةً اٴَوْ إِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِهِ بَریئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتاناً وَ إِثْماً مُبیناً ) ۔

اس آیت میں وہ گناہ کہ جن کا انسان مرتکب ہوا ہو اور پھر انھیں دوسرے کے سر تھوپ دے ان کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک خطیئة اور دوسرا” اثم “ ان دونوں کے درمیان فرق کے سلسلہ میں مفسرین اور اہل لغت ،میں بہت اختلاف ہے جو معنی زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ” خطیئة“خطا“ سے ہے جو در اصل ان گناہوں اور لغزشوں کے معنی میں ہے جو انسان سے قصدارادہ کے بغیر سر زد ہو جائیں اور بعض اوقات ان کا کفارہ اور تاوان ادا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن بتدریج خطیئةکے معنی میں وسعت پید ا ہو گئی اور وہ ہر گناہ کے بارے میں استعما ل ہونے لگا چاہے وہ عمداً ہو یا بھول کر ۔ کیونکہ کسی قسم کا گناہ ( چاہے وہ عمداً ہو یا بھول کر ) انسان کی روحِ سلیم کے لئے مناسب نہیں ہے اور اگر اس سے سر زد ہو جائے تو حقیقت میں ایک قسم کی لغزش او رخطاہے جو اس کے مقام و مرتبے کے منافی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ خطیئہ کاایک وسیع مفہوم ہے جس میں عمدی اور غیر عمدی گناہ دونوں شامل ہیں ۔ لیکن اثم عموماً عمدی او راختیاری گناہوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ در اصل اثم ایسی چیز کے معنی میں ہے جو انسان کو کسی کام سے باز رکھے اور چونکہ گناہ انسان کو بھلائی کے اور اچھے کاموں سے دور رکھتے ہیں لہٰذا انھیں ” ا ثم “ کہا جاتا ہے ۔

ضمناً توجہ کرنی چاہئیے کہ آیت میں تہمت کے بارے میں ایک لطیف تعبیر استعمال کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ گناہ کو تیر کی طرح قرار دیا گیا ہے اور دوسرے کی طرف اس کی نسبت دینے کو تیر ہدف کی طرف چھوڑنے کی طرح قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جس طرح کسی کی طرف تیر پھینکنا ممکن ہے اسے ختم کردے ، اسی طرح گناہ کے تیر کو بھی ایسے شخص کی طرف چھوڑنا جو گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ممکن ہے کہ اس کی عزت اور آبرو کو بر باد کردے جو در اصل اس کے قتل کی طرح ہے ۔ واضح ہے اس عمل کا بوجھ ہمیشہ کے لئے ایسے شخص کے کندھے پر باقی رہے گا جس نے تہمت لگائی ہے اور” احتمل “ ( اپنے کندھے پر اٹھا تاہے ) یہ لفظ بھی اس ذمہ داری کی اہمیت او را س کے ہمیشہ قائم رہنے کی طرف اشارہ ہے ۔

جرم تہمت کسی بے گناہ پر تہمت باندھنا بد ترین افعال میں سے ہے کہ جس کی اسلام نے شدت سے مذمت کی ہے ، زیر نظر آیت اور متعدد اسلامی روایات جو اس ضمن میں ملتی ہیں اس کے لئے اسلام کا نظریہ واضح کرتی ہیں ۔ امام صادق (علیه السلام) ایک حکیم و دانا سے نقل کرتے ہیں :البهتان علیالبریٴ اثقل من جبال راسیات

بے گناہ پربہتان باندھنا عظیم پہاڑوں سے بھی زیاہ سنگین ہے ۔(۲)

بے گناہ افراد پر بہتان باندھنا روح ایمان کے منافی ہے جیسا کہ امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے :۔

اذا اتهم المومن اخاه انماث الایمانفی قلبه کم ینماث الملح فی السماء

جو شخص اپنے مومن بھائی پر تہمت ،لگا تا ہے تو ایمان اس کے دل میں اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔۳

حقیقت میں بہتان اور تہمت، جھوٹ کی بدترین اقسام میں سے ہے کہ کیونکہ اس میں جھوٹ کے عظیم مفاسد اور غیبت کے نقصانات بھی شامل ہیں اور یہ ظلم و ستم کی بد ترین قسم بھی ہے اس لئے پیغمبر اسلام سے منقول ہے ، آپنے فرمایا:

من بهت مومنة او قال فیهما مالیس فیه اقامه الله تعالیٰ یوم القیامة علی قل من نار حتی یخرج مماقاله

جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے یاان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جو ان میں نہ ہو تو خد اوند عالم اسے قیامت کے دن آپ کے ایک ٹیلے پر کھڑا کردے گا ۔ یہاں تک کہ وہ اس بات سے بری الذمہ ہو جائے جو اس نے کہی ہے ۔(۴)

حقیقت میں اس گھٹیا او ربز دلانہ کام کے رائج ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کا نظم و نسق اور اجتماعی او رانصاف برباد ہو جاتاہے حق اور باطل آپس میں غلط ملط ہو جاتے ہیں بے گناہ افراد گرفتار ِ بلا ہو جاتے ہیں گنہ گار افراد بچے رہتے ہیں اور باہمی اعتماد ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔

____________________

۱- شعلہ اول نصیبِ دامن ” آتش زنہ“ است۔ ۔۔این سزائے آں کہ بوسد آستانِ ظلم را۔ ۔۔ آگ کا پہلا شعلہ جلانے والے کے دامن کو جلاتا ہے ۔ آستانہ ظلم پربوسہ دینے کی یہی سزا ہے ۔

۲ -سفینة البحار، جلد اول مادہ” بھت“

۳ - اصول کافی جلد ۲ ص ۲۶۹ باب التھمة و سوء الظن

۴ - سفینة البحار جلد اوّل صفحہ ۱۱۱

آیت ۱۱۳

۱۱۳۔( وَ لَوْ لا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکَ وَ رَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ اٴَنْ یُضِلُّوکَ وَ ما یُضِلُّونَ إِلاَّ اٴَنْفُسَهُمْ وَ ما یَضُرُّونَکَ مِنْ شَیْء ٍ وَ اٴَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیْکَ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ عَلَّمَکَ ما لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکَ عَظیماً ) ۔

ترجمہ

۱۱۳۔ اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شاملِ حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ پختہ ارادہ کرچکا تھا وہ تمہیں گمراہ کردے، لیکن وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے اور وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور خدا نے کتاب و حکمت تم پر نازل کی اور تمہیں اس چیز کی تعلیم دی جو تم نہیں جانتے تھے اور تم پر خدا کا عظیم فضل تھا۔

اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو

یہ آیت بنی ابیرق کے حادثہ کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ قبل کی چند آیات کی شان نزول میں اس کی نشاندہی کی جاچکی ہے ۔

آیت کہتی ہے : اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو ( منافقین یا ان جیسے ) بعض لوگ مصمم ارادہ کرچکے تھے کہ تمہیں راہِ حق و عدالت سے منحرف کردیں لیکن لطفِ الہٰی تمہارے شامل حال رہا او راس نے تمہاری حفاظت کی( ولولا فضل الله علیک و رحمته لهمت طائفة منهم ای یضلوک ) ۔

وہ چاہتے تھے کہ ایک بے گناہ شخص پر تہمت لگائیں او رپھر پیغمبر کو اس واقعے میں ملوث کریں تاکہ اس طرح ایک پیغمبر اکرم کی اجتماعی اور معنوی حیثیت کو نقصان پہنچے اور دوسرا ایک بے گناہ مسلمان کے ذریعے اپنی بڑی اغراض پوری کرسکیں ۔ لیکن وہ خدا جو اپنے پیغمبر کا محافظ ہے اس نے ان کے منصوبوں کو نقش بر آب کردیا ۔

بعض نے اس آیت کی ایک اور شانِ نزول بھی ذکر کی ہے ، وہ یہ ہے کہ :

قبیلہ بنی ثقیف کا یک وفد پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا او ر کہنے لگا: ہم دو شرطوں کے ساتھ آپ کی بیعت کے لئے تیار ہیں پہلی یہ کہ ہم اپنے بت اپنے ہاتھ سے نہیں توڑیں گے اور دوسری یہ کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم مزید ایک سال تک عزیٰ بت کی پر ستش کرتے رہیں ۔

خد اتعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان تجاویز کے لئے کوئی میلان ظاہر نہ کریں ۔

اسی ضمن میں مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی جس میں پیغمبر اکرم سے کہا گیا کہ لطف ِ خدا آپ کو ان وسوسوں سے محفوظ کھے گا۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے : یہ لوگ صرف اپنے آپ کو گمراہ کرتے ہیں اور آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے( وما یضلون الا انفسهم و ما یضرونک من شیء ) ۔

آخر میں گمراہی ، خطا اور گناہ سے پیغمبر کے محفوظ رہنے اور پیغمبر کی معنویت کی علت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : آپ پر خدا نے کتاب و حکمت نازل کی او رجو آپ نہیں جانتے تھے آپ کو اس کی تعلیم دی( وانزل الله علیک الکتاب و الحکمة و علمک مالم تکن تعلم ) ۔

بعد از اں فرماتا ہے : آپ پر اللہ کا بہت ہی زیادہ فضل و کرم تھا( وکان فضل الله علیک عظیماً )

انبیاء کا چشمہ عصمت

مندرجہ بالاآیت ان آیات میں سے ہے جو نبی کے خطا ، اشتباہ اور گناہ سے محفوظ ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں ارشاد ہوتا ہے : اگر خدا کی امداد تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو وہ تمہیں گمراہ کردیتے لیکن امداد الہٰی کی وجہ سے وہ تمہیں گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور اس سلسلے میں تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔

اس طرح سے در اصل خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو خطا اور گناہ سے محفوظ رکھا ہے تاکہ :

.....پیغمبر امت کے لئے نمونہ عمل بن سکے او رنیکیوں اور بھلائیوں کے لئے امت کے واسطے ایک معیار قرار پا سکے ۔

..... ایک عظیم رہبر کی حیثیت سے لغزشوں کے المناک انجام اور نتیجے سے محفوظ رہ سکے ۔ یوں امت بھی اطاعتِ پیغمبر میں سر گردانی سے مامون رہے اور اطاعت و عدم اطاعت کے تضاد کا شکار نہ ہوجائے۔

..... لوگوں کو پیغمبر پر کامل اعتماد ہو سکے کیونکہ کامل اعتماد خدائی رہبری کی پہلی شرط ہے ۔

آیت میں مسئلہ عصمت کی ایک بنیادی دلیل اجمالی طور پر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے پیغمبر کو علوم تعلیم فرمائے جن کی وجہ سے وہ گناہ اور خطا سے بالکل مامون و محفوظ ہوگئے ہیں کیونکہ علم و دانش ( جب اپنے آخری مرحلے کو پہنچ جائے تو) موجب عصمت ہوتا ہے ، مثلاً ایک ڈاکٹر ایسے پانی کو ہرگز نہیں پی سکتا جس میں ملیریا او ردیگر بیسیوں بیماریوں کے جراثیم موجود ہوں اور جنھیں وہ خود لیبارٹری میں دیکھ چکا ہو او ران کے ہولناک اثرات سے بھی آگاہ ہو یعنی اس کا علم اسے ایسا عمل کرنے سے روکتا ہے جبکہ جہالت میں ممکن ہے وہ ایسا کام کرجاتا۔ اس بنا پر جو شخص وحی الہٰی اور پروردگا رکی تعلیم کے ذریعے مختلف مسائل کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتا ہو وہ لغزش و اشتباہ کا شکار ہو تا ہے نہ گمراہی و گناہ میں پڑتا ہے.....یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئیے کہ پیغمبرگناہ نہ کرنے پر مجبور ہے بلکہ پیغمبر کو خدا کی طرف سے علم تو ہوتا ہے لیکن وہ اس سے مجبور نہیں ہو جاتا ۔ یعنی پیغمبر کبھی اپنے علم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں ہوتا بلکہ اپنے اختیار سے اس علم پر عمل کرتا ہے جیسے مذکورہ مثال میں ڈاکٹر اس آلودہ پانی کی کیفیت سے آگاہی کے باوجود اسے نہ پینے پر مجبورنہیں ہے بلکہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے اسے نہیں پیتا۔

اور اگر کہاجائے کہ پیغمبر کے لئے یہ فضل الہٰی کیوں ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا رہبری کی اہم اور بھاری ذمہ داری کی بنا پر ہے جو ان کے کندھے پر رکھی گئی ہے اور دوسروں کے دوسش پر نہیں ہے کیونکہ خدا جتنی کسی پر مسولیت اور ذمہ داری ڈالتا ہے اتنی ہی اسے توانائی اور قدرت عطا کرتا ہے

( غور کیجئے گا) ۔

آیت ۱۱۴

۱۱۴( لا خَیْرَ فی کَثیرٍ مِنْ نَجْواهُمْ إِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَ مَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ ابْتِغاء َ مَرْضاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتیهِ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔

تر جمہ

۱۱۴۔ ان کی بہت سی سر گوشیوں ( اور خفیہ میٹنگوں ) میں خیر و سود مندی نہیں مگر یہ کہ کوئی شخص( اس طریقے سے ) دوسروں کی مدد، کوئی نیک کام یا لوگوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کرے اور جو شخص رضائے الہٰی کے لئے یہ سب کچھ کرے تو اسے ہم عظیم اجر دیں گے ۔

تفسیر

سر گوشیاں

گذشتہ آیات میں بعض منافقین یا ان جیسے لوگوں کے راتوں کے مخفی اور شیطانی جلسوں اور اور میٹنگوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اب اس آیت میں ”نجوی“کے زیر عنوان ذرا تفصیل سے بات کہی گئی ہے ۔

” نجویٰ“ کا معنی صرف کان میں باتیں کرنا یا سر گوشی ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی مخفی اور پوشیدہ میٹنگوں کو بھی ” نجویٰ“ کہتے ہیں کیونکہ اصل میں ” نجویٰ “ ” نجوة“ ( بر وزن دفعہ ) کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے اونچی زمین ، بلند زمینیں چونکہ اپنے اطراف سے جدا ہوتی ہیں اور خفیہ میٹنگیں اور سر گوشیاں بھی اطراف والوں سے جدا ہوتی ہیں لہٰذا انھیں ” نجویٰ “ کہتے ہیں ۔

بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ سب الفاظ ” نجات“ کے مادہ سے ہیں جس کا معنی ہے ” رہائی “ اور کیونکہ ایک بلند جگہ سیلاب کے حملے سے نجات ہوتی ہے اور خفیہ میٹنگ اور سر گوشی بھی دوسروں کی اطلاع سے دور ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔

بہر حال آیت کہتی ہے : ان کی زیادہ تر کفیہ میٹنگیں جو شیطانی سازشوں او رمنصوبوں کے تحت منعقد ہوتی ہیں ان میں سے کوئی بھلائی اور فائدہ نہیں ہے( لا خَیْرَ فی کَثیرٍ مِنْ نَجْواهُمْ ) ۔

اس کے بعد الئے کہ کہیں یہ گمان نہ ہو کہ ہر طرح کی سر گوشی اور مضفی میٹنگ مذموم و ممنوع ہے ایک کلی قانون میں استثنائی صورت کے مواقع بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : مگر یہ کہ کوئی شخص اس کے ذریعے صدقہ کی وصیت کرتا ہو، دوسروں کی مدد کا اقدام کرتا ہو، نیک کام انجام دیتا ہو، یا لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہو، (إ( ِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاحٍ بَیْنَ النَّاسِ ) ۔

ایسی سر گوشیاں او رمیٹنگیں اگر ریا کاری اور تظاہر کے لئے نہ ہوں بلکہ ان کا مقصد رضائے پروردگار ہو تو خدا ان کے لئے اجرعظیم مقرر فرمائے گا

( وَ مَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ ابْتِغاء َ مَرْضاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتیهِ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔

اصولی طور پر سر گوشیوں ، کانا پھوسیوں اور خفیہ میٹنگوں کو قرآن نے ایک شیطانی عمل قرار دیا ہے :

( انما النجویٰ من الشیطان )

یعنی ۔” نجویٰ ، شیطان کی طرف سے ہے ۔( مجادلہ۔ ۱۰)

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا عمل عموماً غلط کاموں کے لئے ہوتا ہے چونکہ نیک مفید او رمثبت کاموں کی انجام دہی کے لئے عموماً کوئی خفیہ اور پوشیدہ چیز نہیں ہوتی ہاں التبہ بعض اوقات خلاف معمول حالات کی کی وجہ سے انسان مجبورہوجاتا ہے کہ نیک کاموں کو مثبت طور پر مخفیانہ بجائے یہ استثنائی صورت بار ہا قرآن میں بیان کی گئی ہے مثلاً:

( یا ایها الذین اٰمنوا اذا تنا جیتم فلا تتناجوا بالاثم والعدوان و معصیة الرسول و تناجوا بالبر و التقویٰ )

اے ایمان والو! جب تم سر گوشی یا اخفاء کرو تو گناہ ، ظلم اور پیغمبرکی نافرمانی کے لئے نہ ہو اور صرف نیک کاموں اور پر ہیز گاری کے لئے ، نجویٰ کرو ۔ (مجادلہ۔ ۹)

بنیادی طور پر اگر سر گوشی او رنجویٰ بعض لوگ دوسرے لوگوں کی موجودگی میں کریں تو یہ دوسروں میں سوئے ظن پید اکرنے کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات دوستوں میں بد گمانی پیدا کردیتی ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ ضرورت کے بغیر یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے اور قرآن اور مذکورہ حکم کا فلسفہ بھی یہی ہے ۔ البتہ کبھی آبروئے انسانی کی حفاظت کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ مثلاً کسی کی چھپ کر مالی امداد کرنا ، جیسے زیر نظر آیت نے صدقہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔

اسی طرح کبھی امربالمعروف اگر کھلے بندوں کیا جائے تو دوسرے کی شرمندگی کا باعث ہوتاہے او رممکن ہے اس طرح سے وہ نصیحت قبول نہ کرے اور اپنے طریقہ کار پر ہٹ دھرمی دکھائے ۔ آیت میں اس کا ذکر ” معروف“ کے حوالے سے کیا گیا ہے ۔

اس کی ایک اور مثال لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کا موقع ہے ۔بعض اوقات مسائل کو علی الاعلان بیان کیا جائے تو اس سے مصالحت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں طرفین سے محرمانہ اور رازدارنہ طریقے سے گفتگو کرنا چاہئیے تاکہ مصالحت کا مقصد پایہ تکمیل کو پہنچ سکے ۔

مذکورہ تین مواقع پر او رایسے ہی دیگر مواقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ مثبت کام ” نجویٰ“ کے زیر سایہ انجام دیے جائیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تینوں کام ” صدقہ “ کے مفہوم میں آجاتے ہیں کیونکہ جو شخص امر بالمعروف کرتا ہے وہ علم کی زکوٰة ادا کرتا ہے اور جو صلح و مصالحت کرواتا ہے وہ لوگوں میں موجود اپنے اثر و رسوخ کی زکوٰة دیتا ہے ۔ چنانچہ حضرت علی (علیه السلام) سے منقول ہے :

ان الله فرض علیکم زکوٰة جاهکم کما فرض علیکم زکوٰة ما ملکت ایدیکم ۔

یعنی ۔ خدا نے تم پر فرض اور واجب قرار دیا ہے کہ اپنے اثر و رسوخ اور معاشرت حیثیت کی زکوٰة ادا کرو ۔ جیسا کہ اس نے واجب کیا ہے کہ مال زکوٰة اداکرو ۔

( نور الثقلین ، ج ۱ ،صفحہ۔ ۵۵۰ اور دیگر تفاسیر)

نیز پیغمبر اکرم سے منقول ہے :

الاادلک علی صدقة یحبها الله و رسوله تصلح بین الناس اذا تفاسدوا و تقرب بینهم تباعدوا

یعنی کیا تجھے ایسے صدقہ سے آگاہ کروں جسے خدا اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں ( اور وہ یہ ہے کہ ) جب لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں تو ان میں صلح کرو اور وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں تو انھیں نزدیک لاو۔(۱)

____________________

۱ - تفسیر قرطبی، جلد ۳ صفحہ ۱۹۵۵، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔