تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23284
ڈاؤنلوڈ: 3120


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23284 / ڈاؤنلوڈ: 3120
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۱۲۵،۱۲۶

۱۲۵۔( وَ مَنْ اٴَحْسَنُ دیناً مِمَّنْ اٴَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراهیمَ حَنیفاً وَ اتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهیمَ خَلیلاً ) ۔

۱۲۶۔( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّهُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطاً ) ۔

ترجمہ

۱۲۵۔ جو اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردے اس سے بہتر کس کا دین ہے اور پھر جو نیکو کار بھی ہو اور ابراہیم کے خالص او رپاک دین کا پیرو ہو اور خدا نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کرلیا ہے ۔

۱۲۶۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب خدا کا ہے او رخدا ہر چیز پر محیط ہے ۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں ایمان و عمل کی تاثیر کے بارے میں گفتگو تھی ۔ ان میں بتا یا گیا تھا کہ کسی دین و آئیں سے منسوب ہوجانا ہی کافی نہیں لیکن زیر نظر آیت میں اس بنا پرکہ کہیں گذشتہ بحث سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو ۔ دین اسلام کی تمام ادیان پر برتری کا اظہار یوں کیا گیا ہے : کون سا دین اس شخص کے دین سے بہتر ہے جو بار گاہ الہٰی میں سر پا تسلیم ہو او رنیک عمل سے دستبردار نہ ہو او رابراہیم کے پاک اور خالص دین کا پیرو کا ر ہو

( وَ مَنْ اٴَحْسَنُ دیناً مِمَّنْ اٴَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراهیمَ حَنیفاً ) ۔

البتہ آیت یہاں استفہامیہ صورت میں ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ سننے والے سے اس حقیقت کا اقرار لیاجائے ۔

اس آیت میں تین چیزوں کو نہترین دین کے مقیاس کے طور پر شمار کیاگیا ہے :۔

پہلی : پورے طور پر خدا کے حضور سپرد گی”( اسلم وجهه لله )(۱)

دوسری : نیکو کاری( وھو محسن)یہاں نیکو کاری سے مراد دل ، زبان اور عمل سے ہر طرح کی نیکی ہے ، تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اسلام سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے جو اس سوال کے جواب میں ہے کہ احسان سے کیا مراد ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :ان تعبد الله کانّک تراه فان لم تراه فان یراک

(ا س آیت میں )احسان سے مراد یہ ہے کہ جو کام بھی عبادت ِ خدا کے لئے انجام دو وہ اس طرح ہو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور وہ تم پر شاہد و ناظر ہے ۔

تیسری : ابراہیم کے پاک دین و آئین کی پیروی کرنا( وابتع ملة ابراهیم حنیفاً ) ۔(۲)

حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو ادیان باطل چھوڑ کر حق کی طرف مائل ہو اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے ۔ اس کی تشریح جلد دوم میں کی جا چکی ہے ( ۳۶۹ ار دو ترجمہ )

خلیل کِسے کہتے ہیں ؟

ہو سکتا ہے ” خلیل“ ” خلت“ ( بروزن ” حجت“ ) کے مادہ سے ہو جس کا معنی ہے دوستی ۔ یا پھر ” خلّت“ ( بر وزن” ضربت“) کے مادہ سے ہو جس کا مطلب ہے نیاز و احتیاج۔

مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ زیر نظر آیت میں کون سا معنی آیت کے مفہوم کے زیادہ قریب ہے ۔

بعض کے خیال میں دوسرا معنی حقیقت آیت کے قریب تر کیونکہ ابراہیم اچھی طرح سے محسوس کرتے تھے کہ وہ بلااستثنا تمام چیزوں میں خدا کے محتاج ہیں لیکن اوپ والی آیت کہتی ہے کہ خدا نے خود ابراہیم (علیه السلام) کو یہ مقام دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد دوستی ہے کیونکہ اگر یہ کہیں کہ خدا نے دوست کی حیثیت سے ابراہیم کو منتخب فرمایا تو یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

دوسری صورت میں مفہوم ہوسکتا ہے کہ خدا نے ابراہیم (علیه السلام) کا انتخاب اپنے محتاج کی حیثیت سے کیا ہے جبکہ باقی تمام مخلوق بھی خدا تعالیٰ کی محتاج اور نیاز مند ہے لہٰذا یہ بات ابراہیم سے مخصوص نہیں ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے :

( یا ایهاالناس انتم الفقراء الیٰ الله )

یعنی اے لوگو! تم سب الہ کے محتاج ہو ۔ (فاطر..... ۱۵)

امام جعفر صادق (علیه السلام) سے منقول ایک روایت میں ہے :خدا نے ابراہیم کو اپنا خلیل ( اور دوست) بنایا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ان کی دوستی کا محتاج تھا بلکہ یہ اس بنا پر تھا کہ خدا تعالیٰ کے مفید اور اس کی راہ میں کوشش کرنے والے بندے تھے ۔(۳)

یہ روایت بھی اس بات کی شاہد ہے کہ زیر بحث آیت میں خلیل کا مطلب دوست ہی ہے ۔

رہا یہ سوال کی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو یہ مقام کن خصوصیات کی بنا پر عطا فر مایا ہے تو اس سلسلے میں روایات میں کئی ایک وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ جو سب ابراہیم کے انتخاب کی دلیل بن سکتی ہیں ۔ ایک وجہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :

انمااتخذ الله ابراهیم خلیلا لانه لم یرد احداً ولم یسئل احداً اقط غیر الله ۔

یعنی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل اس لئے بنایا کیونکہ انھوں نے کبھی کسی سوال اور تقاضا کرنے والے کو محرام نہیں کیا اور کبھی کسی سے سوال اور تقاضا نہیں کیا۔(۴)

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کو یہ مقام زیادہ سجدہ کرنے ، بھوکوں کو کھا نا کھلانے اور رات کی تاریکی میں نماز پڑھنے یا پروردگار کی طاعت کے لئے کوشان رہنے کی وجہ سے حاصل ہوا۔

اگلی آیت میں پروردگار کی مالکیت مطلقہ اور تمام اشیاء پر اس کے احاطے کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کی ملکیت ہے کیونکہ خدا تمام چیزوں پر محیط ہے( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّهُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطاً ) یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا نے ابراہیم

(علیه السلام) کو اپنا دوست اس وجہ سے نہیں بنایا کہ خدا کسی چیز کی ضرورت اور احتیاج تھی بلکہ خدا تو سب سے بے نیاز ہے ۔ یہ انتخاب تو ابراہیم (علیه السلام) کی خوبیوں اور بہترین صفات کی وجہ سے ہے ۔

____________________

۱ ”وجہ “ لغت میں چہرے کو کہتے ہیں اور انسان کا چہرہ چونکہ اس کے قلب و روح کا آئینہ ہوتا ہے اور انسان کو خارجی دنیا سے مربوط کرنے والے حواس تقریبا ً سب چہرے میں واقع ہیں اس لئے یہ لفظ کبھی کبھی ذات کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ سورہ قصص آیت ۸۸ میں ہے ” کل شیء ھالک الا وجھہ “ ذات خدا کے علاوہ سب چیزیں ہلاک ہوجائیں گی ۔

۲ - ”ملت“ کا معنی“ ” دین “ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ملت کی اضافت خدا کی طرف نہیں ہوتی مثلا!”ملة اللہ “ نہیں کہتے بلکہ پیغمبر کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے جبکہ لفظ دین کی اضافت اللہ کی طرف بھی ، پیغمبر کی طرف بھی اور دیگر افراد کی طرف بھی ہوتی ہے ۔

۳ - یہ حدیث مجمع البیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں بیا ن کی گئی ہے ۔

۴ ۔تفسیر صافی اور تفسیر بر ہان ج۱ ، ص ۴۱۷، بحوالہ عیون الرضا ۔

آیت ۱۲۷

۱۲۷۔( وَ یَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّساء ِ قُلِ اللَّهُ یُفْتیکُمْ فیهِنَّ وَ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ فی یَتامَی النِّساء ِ اللاَّتی لا تُؤْتُونَهُنَّ ما کُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُونَ اٴَنْ تَنْکِحُوهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الْوِلْدانِ وَ اٴَنْ تَقُومُوا لِلْیَتامی بِالْقِسْطِ وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِهِ عَلیماً ) ۔

ترجمہ

۱۲۷۔ تجھ سے عورتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ کہہ دو کہ خدا اس بارے میں تمہیں جواب دیتا ہے او رجو کچھ قرآن میں یتیم عورتوں کے متعلق ، جن کے حقوق تم ادا نہیں کرتے اور ان سے شادی کرلینا چاہتے ہو اور اسی طرح چھوٹے بچوں او رناتوانوں کے متعلق تمہارے لئے بیان ہوا ہے ( اس سلسلے میں خدا کی کچھ وصیتیں ہیں او رخدا یہ بھی سفارش کرتا ہے ) کہ یتیموں کے ساتھ عادلانہ بر تاو کرو او رجو نیکیاں تم انجام دیتے ہو خدا ان سے آگاہ ہے (اور وہ تمہیں ان مناسب بدلہ دے گا ) ۔

حقوق نسواں کے بارے میں مزید گفتگو

زیر نظر آیت میں کچھ لوگوں کے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیا گیا ہے جو انھوں نے عورتوں ( خصوصاً یتیم لڑکیوں )کے متعلق کئے تھے ارشاد ہوتا ہے : اے پیغمبر! تم سے عورتوں سے متعلق احکام پوچھتے ہیں ۔ کہو کہ خدا اس سلسلے میں تمہیں جواب دیتا ہے( وَ یَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّساء ِ قُلِ اللَّهُ یُفْتیکُمْ فیهِن ) ۔

مزید ار شاد ہوتا ہے وہ یتیم لڑکیاں جن کے مال پرتم قبضہ کرلیتے تھے نہ ان سے شادی کرتے تھے او رنہ ان کا مال ان کے سپرد کرتے تھے تاکہ وہ کسی اور سے شادی کرلیں ۔ قرآن مجید ان کے بارے میں کچھ اور سوالوں کا جواب دیتا ہے اور اس ظالمانہ روش کی برائی کو واضح کرتا ہے

( وَ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ فی یَتامَی النِّساء ِ اللاَّتی لا تُؤْتُونَهُنَّ ما کُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُونَ اٴَنْ تَنْکِحُوهُنَّ ) ۔(۱)

اس کے چھوٹے بچوں کے ابرے میں وصیت کی گئی ہے جو کہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق میراث سے محروم رہتے تھے فرمایا گیا ہے : خد اتمہیں وصیت کرتا ہے کہ تم کمزور بچوں کے حقوق کا لحاظ رکھو( وَ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الْوِلْدانِ ) ۔

ایک مربتہ پھر یتیموں کے حقوق کے بارے میں ایک مجموعی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : خدا تمہیں وصیت کرتا ہے کہ یتیموں سے عدل کرو( وَ اٴَنْ تَقُومُوا لِلْیَتامی بِالْقِسْطِ ) ۔

آخرمیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جیسا عمل خصوصاً یتیموں او رکمزوروں سے متعلق تم سے سر از ہو وہ علم خدا کی نظر سے مخفی نہیں رہتا اور اس کی مناسبت جزا ملے گی( وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِهِ عَلیماً ) ۔

ضمناً اس طرف بھی توجہ رہے کہ ” تستفتونک“ در اصل ” فتویٰ “ اور ” فتیا“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے مشکل مسائل کا جواب دینا لغت میں ا س کی بنیاد چونکہ ” فتیٰ“ ہے جس معنی ہے ” نو جوان “ لہٰذا ممکن ہے پہلے پہل یہ لفظ ان مسائل کے لئے استعمال ہوتا ہو کہ جن کے جوابات جاذب اور تازہ ہوتے ہوں اور بعد ازں ہر طرح کے مسائل کے جواب کے لئے استعمال ہونے لگا ہو ۔

_____________________

۱۔اس جملے کی مذکورہ تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ ” مایتلیٰ “ مبتداء ہے اور ”یفتیکم فیهن “ اس کی خبر ہے جو آیت کے سابق حصے کے قرینہ سے محذوف ہے اور لفظ” ترغبون“ بھی یہاں مقابلہ نہ ہونے کے معنی میں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ” رغب“ کا مادہ اگر ” عن “ کے ساتھ متعدی ہو تو ہی عدم تما ئل اور اعراض کے معنی دیتا ہے اور اگر ” فی “ کے ساتھ متعدی ہو تو مائل اور و راغب ہونے کے معنی دیتاہے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ” عن“ مقدر ہے )

آیت ۱۲۸

۱۲۸۔( وَ إِنِ امْرَاٴَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاً اٴَوْ إِعْراضاً فَلا جُناحَ عَلَیْهِما اٴَنْ یُصْلِحا بَیْنَهُما صُلْحاً وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ وَ اٴُحْضِرَتِ الْاٴَنْفُسُ الشُّحَّ وَ إِنْ تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

ترجمہ

۱۲۸۔ اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے بارے میں اس بات سے خوف زدہ ہو کہ وہ سر کشی یا اعراض کا مرتکب ہو گا تو کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں صلح کریں ( اور عورت یا مرد صلح کی خاطر اپنے کچھ حقوق سے صرفِ نظر کرلیں ) اور صلح بہتر ہے اگر چہ یہ لوگ ( حبِّ ذات کی فطرت کے مطابق ایسے مواقع پر) بخل سے کام لیتے ہیں اور اگر نیکی کرو اور پر ہیز گاری اختیار کرو ( اور صلح کی وجہ سے در گذر کردو) تو خدا اس سے آگاہ ہے جو کچھ تم انجام دیتے ہو

( اور تمہیں مناسب جزا دے گا ) ۔

شانِ نزول

بہت سی اسلامی تفاسیر اور کتب احا دیث میں اس آیت کی شانِ نزول یو ں بیان ہوئی ہے :

رافع بن خدیج کی دو بیویاں تھیں ، ایک سن رسیدہ تھی اور دوسری جوان ۔ ( بعض اختلافات کی بنیاد پر) اس نے اپنی سن رسیدہ بیوی کو طلاق دے دی ابھی عدت کی مدت ختم نہ ہوئی تھی کہ رافع نے اس سے کہا: اگر تم چاہوتو میں تم سے مصالحت کرلیتا ہوں البتہ اگر میں نے دوسری بیویکو تجھ پرترجیح دی تو تمہیں صبر کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ چاہو تو پھر عدت کی مدت ختم ہونے تک صبر کرو تاکہ ہم ایک دوسر ے جد اہو جائیں ۔

اس عورت نے پہلی تجویز قبول کرلی، یوں ان کی آپس میں صلح ہو گئی ۔

اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، جس میں اس معاملے کے بارے میں حکم شریعت بیان کیا گیا ہے ۔

صلح بہتر ہے

جیسا کہ اس سورت می چونتیسویں اور پینتیسویں آیات کی تفسیر میں ہم کہہ چکے ہیں (تفسیر نمونہ جلد ۳) کہ ” نشوز“ اصل میں ”نشرز“ کے مادہ سے ہے اور اس کا مطلب ہے ” بلند زمین “ یہ لفظ جب عورت اور مرد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے تو کسی سرکشیاور طغیان کا مفہوم دیتا ہے ۔

گذشتہ آیات میں عورت کے ” نشوز“ سے مربوط احکام بیان ہوئے تھے او رزیر نظر آیت میں مرد کے ” نشوز“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جب عورت یہ محسوس کرے کہ اس کا شوہر سر کشی اور اعراض کا ارتکاب کررہا ہے توکوئی حرج نہں کہ حریم زوجیت کی حفاظت کے لئے اپنے کچھ حقوق سے صرف نظر کرتے ہوئے صلح کرلے( وَ إِنِ امْرَاٴَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاً اٴَوْ إِعْراضاً فَلا جُناحَ عَلَیْهِما اٴَنْ یُصْلِحا بَیْنَهُما صُلْحا ) ۔

عورت نے چونکہ اپنے حقوق سے اپنی رضا و رغبت سے اعراض کرلیا ہے او جبر و اکراہ والی کوئی بات نہیں ۔ لہٰذا اس کا کوئی گناہ نہیں ۔ اس کے لئے ” لاجناح “ ( کوئی حرج اور گناہ نہیں ) کا استعمال بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔

اس آیت کی شان نزول کی طرف توجہ کرنے سے ضمنی طور پر دو فقہی مسئلے معلوم ہوتے ہیں :

۱۔ دو بیویوں کے لئے ہفتہ بھر کے اوقات کی تقسیم جیسے احکام ، حقوق کے پہلو ہیں نہ کہ حکم کے حوالے سے ۔

اسی لئے عورت یہ حق رکھتی ہے کہ اپنے اراددہ و اختیار سے اپنے اس حق سے جزوی یاکلی طور پر صرفِ نظر کرلے ۔

۲۔ ضروری نہیں کہ صلح کا معاوضہ مال ہی ہو بلکہ صلح کا معاوضہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنا حق چھوڑ دیا جائے ۔

بعد ازاں صلح پر تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے : بہر حال صلح بہتر ہے ( و الصلح خیر) یہ ایک چھوٹا سا پر معنی اور مغز جملہ ہے ۔ اس آیت میں جملہ اگر چہ خانگی اختلافاتسے متعلق آیاہے لیکن واضح ہے کہ یہ ایک کلی اور عمومی قانون ہے ۔

جو ہر ایک کے لئے ہر مقام پر ہے صلح و صفائی ، دوستی اور محبت کوہر مقام پر پیش نظر رکھنا چاہئیے ۔ نزاع و کشمکش اور ایک دوسرے سے دوری انسان کی طبع سلیم اور پر سکون زندگی کے برخلاف ہے اس لئے استثنائی صورت میں جہاں ناگزیر ہو اس کے سوا نزوع اور دوری کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئیے ۔ اسلام کے حکم کے بر عکس بعض مادہ پرستوں کاخیال ہے کہ انسانی زندگی کی پہلی بنیاد دیگر جانوروں کی طرح بقا کی کشمکش اور تنازع ہے اور اسی طرح سے تکامل اور ارتقاء صورت پذیر ہوتا ہے ۔ شاید یہی طرز فکر گذشتہ صدیوں کی بہت سی جنگوں اور خوں ریزوں کا سر چشمہ ہے ۔ حالانکہ انسان اپنی عقل وہوش کے سبب دیگر جانوروں سے مختلف ہے اور اس کی ارتقاء او رتکمیل کاذریعہ تنازع نہیں تعاون ہے ۔(۱)

اصولی طور پر تنازع بقاء کا نظریہ تو جانوروں کے تکامل کے لئے بھی کوئی قابل قبول بنیاد نہیں رکھتا ۔

اس کے بعد بہت سے لڑائی جھگڑو ں اور در گذر نہ کرنے کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : لوگ ذاتی طور پر او رحب ذات کی فطرت کے باعث بخل کی موجوں میں پھنس کررہ جاتے ہیں اور ہر شخص کو شش کرتا ہے کہ اپنے حقوق بت کم و کاست وصول کرے اور یہی تمام لڑائی جھگڑوں کی بنیاد ہے (و احضرت الانفس الشح ) ۔

لہٰذا اگر عورت او رمرد اس حقیقت کی طرف توجہ کریں کہ بہت سے اختلافات کا سر چشمہ بخل ہے اور بخل ایک مذموم صفت ہے پھر وہ اپنی اصلاح کی کو شش کریں او ر درگذر کی راہ اختیار کریں تو نہ صرف یہ کہ خانگی اختلافات ختم ہو جائیں گے ۔

بلکہ بہت سے اجتماعی جھگڑے بھی جاتے رہیں گے ۔ اس کے باوجود ، اس بناء پر کہ مرد کہیں اس حکم سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں آیت کے آخر میں روئے سخص ان کی طرف کرتے ہوئے انھیں نیکی اور پر ہیز گاری کی وصیت کی گئی ہے اور انھیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار پر نگاہ رکھیں اور راہ حق و عدالت سے منحرف نہ ہوں ، کیونکہ خدا ان کے تمام اعمال سے آگاہ ہے ۔

( وَ إِنْ تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

____________________

۱-اس سلسلے میں تفسیر نمونہ دوم میں تنازع کے بقاء کے زیر عنوان تفصیلی گفتگوکی جاچکی ہے ( دیکھئے ص۱۴۴ اردو ترجمہ )

آیات ۱۲۹،۱۳۰

۱۲۹۔( وَ لَنْ تَسْتَطیعُوا اٴَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّساء ِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلا تَمیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوها کَالْمُعَلَّقَةِ وَ إِنْ تُصْلِحُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

۱۳۰۔( وَ إِنْ یَتَفَرَّقا یُغْنِ اللَّهُ کُلاًّ مِنْ سَعَتِهِ وَ کانَ اللَّهُ واسِعاً حَکیماً ) ۔

ترجمہ

۱۲۹۔ اور تم ہر گز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ ( دلی محبت کے اعتبار سے ) عورتوں کے درمیان عدالت کرسکو چاہے جتنی بھی کوشش کرو لیکن اپنا ایمان میلان بالکل ایک طرف نہ رکھو اور دوسری کو معلق نہ چھوڑو اور اگر اصلام اور پرہیز گاری کی راہ اختیار کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔

۱۳۰۔ اور اگر ( صلح صفائی کی کوئی صورت نہ ہو اور ) دوسرے سے جدائی ہو جائیں تو خدا جائیں تو خدا وندعالم ان میں سے ہرایک کو اپنے فضل و کرم سے مطمئن کردے گا اور خدا صاحب ِ فضل و کرم اور حکیم ہے ۔

ایک سے زیادہ شادیوں کے لئے عدالت شرط ہے ۔

گذشتہ آیت کے آخر میں جس جملے میں احسان ، تقویٰ او رپر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے ، وہ شوہروں کے بارے میں ایک طرح کی دھمکی بھی ہے کہ انھیں اپنے بیویوں کے بارے میں راہ ِ عدالت سے تھوڑا سا انحراف بھی نہیں کرنا چاہئیے اس مقام پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت تو دلی لگائی کے سلسلے میں بھی ممکن نہیں ہے لہٰذا متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں کیا جائے

زیر بحث آیت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے : محبت کے حوالے سے تو بیویوں کے درمیان عدالت ممکن نہیں چالے اس کے لئے کتنی بھی کوشش کیون کہ جائے۔( وَ لَنْ تَسْتَطیعُوا اٴَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّساء ِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ ) ۔

” ولو حرصتم “ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو اس سلسلے میں بہت کو شش کرتے تھے ۔شاید اس کی وجہ اسی سورہ کی آیت تھی جس میں فرمایا گیا ہے :( فان خفتم الا تعدلوا فواحدة )

یعنی اگر تم اس بات سے ڈرو کہ تم عدل قائم نہیں کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفاء کرو

یہ واضح ہے کہ ایک آسمانی قانون خلاف فطرت نہیں ہوسکتا اور ممکن نہیں کہ وہ ” تکلیف مالا یطاق“ یعنی ایسی ذمہ داری جس کی انسان میں طاقت نہ ہو ، کاحامل ہو ۔ دل کی محبت کے مختلف عوامل ہوتے ہیں جس میں سے بعض انسانی اختیار سے ماوراء ہیں لہٰذا ان کے بارے میں عدالت کا حکم نہیں دیا گیا ہے لیکن بیویوں سے بر تاو اور ان کے حقوق کا لحاظ رکھنے کے بارے میں انسان پر عدالت کے لئے زور دیا گیا ہے جوکہ انسان کے بس میں ہے ۔

اس بناء پر کہ مرد اس سے غلط فائدہ اٹھائیں اس جملے کے بعد فرمایا گیا ہے : جب کہ تم محبت کے حوالے سے بیویوں کے درمیان مساوات قائم نہیں کرسکتے تو پھر سارا رجحان او رقلبی لگاو تو ایک طرف نہ رکھو کہ جس سے دوسری بالکل معلق ہو کر ہی رہ جائے اور اس کے حقوق عملی طور پر ضائع ہو جائیں( فَلا تَمیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوها کَالْمُعَلَّقَةِ ) ۔

اس آیت کے آخر میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو اس حکم کے نزول سے قبل اپنی بیویوں کے درمیان عدل میں کوتاہی کرتے تھے: اگر وہ اصلاح او رتقویٰ کی راہ اپنائیں اور گذشتہ رویّے کی تلافی کریں تو خدا اپنی رحمت و بخشش ان کے شامل حال کردے گا( وَ إِنْ تُصْلِحُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

اسلامی روایات میں بیویوں کے درمیان عدالت ملحوظ رکھنے سے متعلق بہت سے مطالب مذکور ہیں جن سے قانون کی اہمیت اور عظمت ظاہر ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی (علیه السلام) جو دن کسی ایک بیوی سے تعلق رکھتے تھے ، اس دن وضو بھی دوسری کے گھر نہیں کرتے تھے ۔(۱)

پیغمبر اکرم کے بارے میں بھی ہے کہ آپ بیماری کے عالم میں بھی کسی ایک بیوی کے گھر قیام نہیں کرتے تھے(۲)

معاذبن جبل کے بارے میں منقول ہے کہ اس کی دو بیوبیاں تھیں وہ دونوں طاعون کی بیماری کے باعث اکٹھی مر گئیں ، تو معاذ نے ایک کو دوسرے پہلے دفن کرنے کے لئے قرعہ نکالا تاکہ اس سے کوئی خلاف عدالت کام نہ ہو جائے ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر تبیان ، ج۳ صفحہ۳۵۰۔

۲- تفسیر تبیان ج۳ صفحہ ۳۵۰۔

۳ - تفسیر تبیان ، ج۳ صفحہ ۳۵۰۔

ایک اہم سوال کا جواب

جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۳ کے ذیل میں ہم نے یاد دہانی کروائی ہے کہ بعض ناسمجھ لوگ اس آیت کو زیر بحث آیت سے ملا کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شاد یاں عدالت سے مشروط ہیں اور عدالت ممکن نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ ہوبیویاں کرنا اسلام میں ممنوع ہے ۔

اتفاق کی بات ہے کہ روایات ِ اسلامی سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ امام جعفر صادق (علیه السلام) کا ہم عصر تھا او رمادہ پرستوں میں سے تھا ۔ اس کانام ابن ابی العوجاء تھا ۔ اس نے یہ سوال اسلام کے ایک مجاہد عالم ہشام بن حکم سے کیا ۔ انھیں اس کا جواب معلوم نہ تھا لہٰذا وہ اپنے وطن جو ظاہراًکوفہ تھا مدینہ سے روانہ ہوئے تاکہ اس سوال کا جواب معلوم کر سکیں وہ امام صادق (علیه السلام) کی خدمت میں پہنچے ۔ حضرت (علیه السلام) کو تعجب ہو ا کہ وہ حج و عمرہ کے دنوں کے بغیر مدینہ کیوں چلے آئے تھے ۔ ہشام نے بیان کیا کہ اس قسم کا سوال پیش آیا ہے ۔

امام (علیه السلام) نے جواب میں فرمایا:

سورہ نساء کی تیسری آیت میں عدالت سے مراد نان نفقہ ( اور حقوقِ زوجیت کا لحاظ رکھنا اور بر تاو ) ہے لیکن آیت ۱۲۹ میں عدالت جسے امر محال شمار کیا گیا ہے ولی لگاو او رمیلان میں عدالت ہے ( اس لئے تعدد ازدواج شرائط اسلامی کے احترام کی صورت میں ممنوع ہے نہ محال) ۔

ہشام سفر سے لوٹ کر آئے او ریہ جواب ابن ابی العوجاء کو پیش کیا تو اس نے قسم کھا کر کہا : یہ جواب خود تمہاری طرف سے نہیں ہے ۔(۱)

واضح ہے کہ اگر اہم دو آیات میں ” عدالت“ کا الگ الگ مفہوم بیان کرتے ہیں تو یہ آیات میں موجود واضح قرینہ کی بناء پر ہے ۔ محل بحث آیت میں صریحاً فرمایا گیا ہے کہ تمام قلبی لگاو ایک بیوی کی طر ف نہ رکھو ۔ لہٰذا دو بیویاں ہونا جائز شمار کیا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اس شرط کے ساتھ عملی طور پر ان میں سے کسی پر ظلم ہو اگر چہ دلی لگاو میں فرق ہو ۔ نیز اسی صورت کی آیت ۳ میں صراحت کے ساتھ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے ۔

پھر بعدکی آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر ازدواجی زندگی کوباقی رکھنا طرفین کے لئے مشکل ہو گیا ہے اور ایسی وجوہ پید اہوگئی ہیں کہ جن سے افقِ حیات ان کے لئے تاریک ہوگیا ہے او رکسی طرح مصالحت نہیں ہوسکتی تو وہ مجبورنہیں ہیں کہ ایسی ازدواجی زندگی کو باقی رکھیں اور آخر دم تک خانگی زندان کے ماحول میں تلخ کامی سے رہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں ۔

ایسے عالم میں انھیں چاہئیے کہ جرات سے اقدام کریں اور آنے والے حالات سے خوف زدہ نہ ہوں کیونکہ اگر وہ ان حالات میں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو خدا وند بزرگ و برتر دونوں کو اپنے فضل و کرم سے مطمئن کرکر دے گا اور امید ہے کہ وہ ان حالات میں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو خدا وند بزرگ و بر تر دونوں کو اپنے فضل و کرم سے مطمئن کردے گا اور امید ہے کہ بہتر جیون ساتھی اور روشن تر زندگی ان کے انتظار میں ہو( وَ إِنْ یَتَفَرَّقا یُغْنِ اللَّهُ کُلاًّ مِنْ سَعَتِهِ ) ۔ کیونکہ خدا کی حکمت آمیز رحمت بہت وسیع ہے( وَ کانَ اللَّهُ واسِعاً حَکیماً ) ۔

____________________

۱ ۔تفسیر بر ہان جلد اول صفحہ ۴۲۰۔