تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 6%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28562 / ڈاؤنلوڈ: 4889
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۴

مؤلف:
اردو

آیات ۱۲۵،۱۲۶

۱۲۵۔( وَ مَنْ اٴَحْسَنُ دیناً مِمَّنْ اٴَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراهیمَ حَنیفاً وَ اتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهیمَ خَلیلاً ) ۔

۱۲۶۔( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّهُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطاً ) ۔

ترجمہ

۱۲۵۔ جو اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردے اس سے بہتر کس کا دین ہے اور پھر جو نیکو کار بھی ہو اور ابراہیم کے خالص او رپاک دین کا پیرو ہو اور خدا نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کرلیا ہے ۔

۱۲۶۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب خدا کا ہے او رخدا ہر چیز پر محیط ہے ۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں ایمان و عمل کی تاثیر کے بارے میں گفتگو تھی ۔ ان میں بتا یا گیا تھا کہ کسی دین و آئیں سے منسوب ہوجانا ہی کافی نہیں لیکن زیر نظر آیت میں اس بنا پرکہ کہیں گذشتہ بحث سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو ۔ دین اسلام کی تمام ادیان پر برتری کا اظہار یوں کیا گیا ہے : کون سا دین اس شخص کے دین سے بہتر ہے جو بار گاہ الہٰی میں سر پا تسلیم ہو او رنیک عمل سے دستبردار نہ ہو او رابراہیم کے پاک اور خالص دین کا پیرو کا ر ہو

( وَ مَنْ اٴَحْسَنُ دیناً مِمَّنْ اٴَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراهیمَ حَنیفاً ) ۔

البتہ آیت یہاں استفہامیہ صورت میں ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ سننے والے سے اس حقیقت کا اقرار لیاجائے ۔

اس آیت میں تین چیزوں کو نہترین دین کے مقیاس کے طور پر شمار کیاگیا ہے :۔

پہلی : پورے طور پر خدا کے حضور سپرد گی”( اسلم وجهه لله )(۱)

دوسری : نیکو کاری( وھو محسن)یہاں نیکو کاری سے مراد دل ، زبان اور عمل سے ہر طرح کی نیکی ہے ، تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اسلام سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے جو اس سوال کے جواب میں ہے کہ احسان سے کیا مراد ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :ان تعبد الله کانّک تراه فان لم تراه فان یراک

(ا س آیت میں )احسان سے مراد یہ ہے کہ جو کام بھی عبادت ِ خدا کے لئے انجام دو وہ اس طرح ہو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور وہ تم پر شاہد و ناظر ہے ۔

تیسری : ابراہیم کے پاک دین و آئین کی پیروی کرنا( وابتع ملة ابراهیم حنیفاً ) ۔(۲)

حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو ادیان باطل چھوڑ کر حق کی طرف مائل ہو اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے ۔ اس کی تشریح جلد دوم میں کی جا چکی ہے ( ۳۶۹ ار دو ترجمہ )

خلیل کِسے کہتے ہیں ؟

ہو سکتا ہے ” خلیل“ ” خلت“ ( بروزن ” حجت“ ) کے مادہ سے ہو جس کا معنی ہے دوستی ۔ یا پھر ” خلّت“ ( بر وزن” ضربت“) کے مادہ سے ہو جس کا مطلب ہے نیاز و احتیاج۔

مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ زیر نظر آیت میں کون سا معنی آیت کے مفہوم کے زیادہ قریب ہے ۔

بعض کے خیال میں دوسرا معنی حقیقت آیت کے قریب تر کیونکہ ابراہیم اچھی طرح سے محسوس کرتے تھے کہ وہ بلااستثنا تمام چیزوں میں خدا کے محتاج ہیں لیکن اوپ والی آیت کہتی ہے کہ خدا نے خود ابراہیم (علیه السلام) کو یہ مقام دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد دوستی ہے کیونکہ اگر یہ کہیں کہ خدا نے دوست کی حیثیت سے ابراہیم کو منتخب فرمایا تو یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

دوسری صورت میں مفہوم ہوسکتا ہے کہ خدا نے ابراہیم (علیه السلام) کا انتخاب اپنے محتاج کی حیثیت سے کیا ہے جبکہ باقی تمام مخلوق بھی خدا تعالیٰ کی محتاج اور نیاز مند ہے لہٰذا یہ بات ابراہیم سے مخصوص نہیں ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے :

( یا ایهاالناس انتم الفقراء الیٰ الله )

یعنی اے لوگو! تم سب الہ کے محتاج ہو ۔ (فاطر..... ۱۵)

امام جعفر صادق (علیه السلام) سے منقول ایک روایت میں ہے :خدا نے ابراہیم کو اپنا خلیل ( اور دوست) بنایا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ان کی دوستی کا محتاج تھا بلکہ یہ اس بنا پر تھا کہ خدا تعالیٰ کے مفید اور اس کی راہ میں کوشش کرنے والے بندے تھے ۔(۳)

یہ روایت بھی اس بات کی شاہد ہے کہ زیر بحث آیت میں خلیل کا مطلب دوست ہی ہے ۔

رہا یہ سوال کی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو یہ مقام کن خصوصیات کی بنا پر عطا فر مایا ہے تو اس سلسلے میں روایات میں کئی ایک وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ جو سب ابراہیم کے انتخاب کی دلیل بن سکتی ہیں ۔ ایک وجہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے :

انمااتخذ الله ابراهیم خلیلا لانه لم یرد احداً ولم یسئل احداً اقط غیر الله ۔

یعنی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل اس لئے بنایا کیونکہ انھوں نے کبھی کسی سوال اور تقاضا کرنے والے کو محرام نہیں کیا اور کبھی کسی سے سوال اور تقاضا نہیں کیا۔(۴)

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کو یہ مقام زیادہ سجدہ کرنے ، بھوکوں کو کھا نا کھلانے اور رات کی تاریکی میں نماز پڑھنے یا پروردگار کی طاعت کے لئے کوشان رہنے کی وجہ سے حاصل ہوا۔

اگلی آیت میں پروردگار کی مالکیت مطلقہ اور تمام اشیاء پر اس کے احاطے کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کی ملکیت ہے کیونکہ خدا تمام چیزوں پر محیط ہے( وَ لِلَّهِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّهُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطاً ) یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا نے ابراہیم

(علیه السلام) کو اپنا دوست اس وجہ سے نہیں بنایا کہ خدا کسی چیز کی ضرورت اور احتیاج تھی بلکہ خدا تو سب سے بے نیاز ہے ۔ یہ انتخاب تو ابراہیم (علیه السلام) کی خوبیوں اور بہترین صفات کی وجہ سے ہے ۔

____________________

۱ ”وجہ “ لغت میں چہرے کو کہتے ہیں اور انسان کا چہرہ چونکہ اس کے قلب و روح کا آئینہ ہوتا ہے اور انسان کو خارجی دنیا سے مربوط کرنے والے حواس تقریبا ً سب چہرے میں واقع ہیں اس لئے یہ لفظ کبھی کبھی ذات کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ سورہ قصص آیت ۸۸ میں ہے ” کل شیء ھالک الا وجھہ “ ذات خدا کے علاوہ سب چیزیں ہلاک ہوجائیں گی ۔

۲ - ”ملت“ کا معنی“ ” دین “ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ملت کی اضافت خدا کی طرف نہیں ہوتی مثلا!”ملة اللہ “ نہیں کہتے بلکہ پیغمبر کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے جبکہ لفظ دین کی اضافت اللہ کی طرف بھی ، پیغمبر کی طرف بھی اور دیگر افراد کی طرف بھی ہوتی ہے ۔

۳ - یہ حدیث مجمع البیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں بیا ن کی گئی ہے ۔

۴ ۔تفسیر صافی اور تفسیر بر ہان ج۱ ، ص ۴۱۷، بحوالہ عیون الرضا ۔

آیت ۱۲۷

۱۲۷۔( وَ یَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّساء ِ قُلِ اللَّهُ یُفْتیکُمْ فیهِنَّ وَ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ فی یَتامَی النِّساء ِ اللاَّتی لا تُؤْتُونَهُنَّ ما کُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُونَ اٴَنْ تَنْکِحُوهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الْوِلْدانِ وَ اٴَنْ تَقُومُوا لِلْیَتامی بِالْقِسْطِ وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِهِ عَلیماً ) ۔

ترجمہ

۱۲۷۔ تجھ سے عورتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ کہہ دو کہ خدا اس بارے میں تمہیں جواب دیتا ہے او رجو کچھ قرآن میں یتیم عورتوں کے متعلق ، جن کے حقوق تم ادا نہیں کرتے اور ان سے شادی کرلینا چاہتے ہو اور اسی طرح چھوٹے بچوں او رناتوانوں کے متعلق تمہارے لئے بیان ہوا ہے ( اس سلسلے میں خدا کی کچھ وصیتیں ہیں او رخدا یہ بھی سفارش کرتا ہے ) کہ یتیموں کے ساتھ عادلانہ بر تاو کرو او رجو نیکیاں تم انجام دیتے ہو خدا ان سے آگاہ ہے (اور وہ تمہیں ان مناسب بدلہ دے گا ) ۔

حقوق نسواں کے بارے میں مزید گفتگو

زیر نظر آیت میں کچھ لوگوں کے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیا گیا ہے جو انھوں نے عورتوں ( خصوصاً یتیم لڑکیوں )کے متعلق کئے تھے ارشاد ہوتا ہے : اے پیغمبر! تم سے عورتوں سے متعلق احکام پوچھتے ہیں ۔ کہو کہ خدا اس سلسلے میں تمہیں جواب دیتا ہے( وَ یَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّساء ِ قُلِ اللَّهُ یُفْتیکُمْ فیهِن ) ۔

مزید ار شاد ہوتا ہے وہ یتیم لڑکیاں جن کے مال پرتم قبضہ کرلیتے تھے نہ ان سے شادی کرتے تھے او رنہ ان کا مال ان کے سپرد کرتے تھے تاکہ وہ کسی اور سے شادی کرلیں ۔ قرآن مجید ان کے بارے میں کچھ اور سوالوں کا جواب دیتا ہے اور اس ظالمانہ روش کی برائی کو واضح کرتا ہے

( وَ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ فی یَتامَی النِّساء ِ اللاَّتی لا تُؤْتُونَهُنَّ ما کُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُونَ اٴَنْ تَنْکِحُوهُنَّ ) ۔(۱)

اس کے چھوٹے بچوں کے ابرے میں وصیت کی گئی ہے جو کہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق میراث سے محروم رہتے تھے فرمایا گیا ہے : خد اتمہیں وصیت کرتا ہے کہ تم کمزور بچوں کے حقوق کا لحاظ رکھو( وَ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الْوِلْدانِ ) ۔

ایک مربتہ پھر یتیموں کے حقوق کے بارے میں ایک مجموعی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : خدا تمہیں وصیت کرتا ہے کہ یتیموں سے عدل کرو( وَ اٴَنْ تَقُومُوا لِلْیَتامی بِالْقِسْطِ ) ۔

آخرمیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جیسا عمل خصوصاً یتیموں او رکمزوروں سے متعلق تم سے سر از ہو وہ علم خدا کی نظر سے مخفی نہیں رہتا اور اس کی مناسبت جزا ملے گی( وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِهِ عَلیماً ) ۔

ضمناً اس طرف بھی توجہ رہے کہ ” تستفتونک“ در اصل ” فتویٰ “ اور ” فتیا“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے مشکل مسائل کا جواب دینا لغت میں ا س کی بنیاد چونکہ ” فتیٰ“ ہے جس معنی ہے ” نو جوان “ لہٰذا ممکن ہے پہلے پہل یہ لفظ ان مسائل کے لئے استعمال ہوتا ہو کہ جن کے جوابات جاذب اور تازہ ہوتے ہوں اور بعد ازں ہر طرح کے مسائل کے جواب کے لئے استعمال ہونے لگا ہو ۔

_____________________

۱۔اس جملے کی مذکورہ تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ ” مایتلیٰ “ مبتداء ہے اور ”یفتیکم فیهن “ اس کی خبر ہے جو آیت کے سابق حصے کے قرینہ سے محذوف ہے اور لفظ” ترغبون“ بھی یہاں مقابلہ نہ ہونے کے معنی میں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ” رغب“ کا مادہ اگر ” عن “ کے ساتھ متعدی ہو تو ہی عدم تما ئل اور اعراض کے معنی دیتا ہے اور اگر ” فی “ کے ساتھ متعدی ہو تو مائل اور و راغب ہونے کے معنی دیتاہے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ” عن“ مقدر ہے )

آیت ۱۲۸

۱۲۸۔( وَ إِنِ امْرَاٴَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاً اٴَوْ إِعْراضاً فَلا جُناحَ عَلَیْهِما اٴَنْ یُصْلِحا بَیْنَهُما صُلْحاً وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ وَ اٴُحْضِرَتِ الْاٴَنْفُسُ الشُّحَّ وَ إِنْ تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

ترجمہ

۱۲۸۔ اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے بارے میں اس بات سے خوف زدہ ہو کہ وہ سر کشی یا اعراض کا مرتکب ہو گا تو کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں صلح کریں ( اور عورت یا مرد صلح کی خاطر اپنے کچھ حقوق سے صرفِ نظر کرلیں ) اور صلح بہتر ہے اگر چہ یہ لوگ ( حبِّ ذات کی فطرت کے مطابق ایسے مواقع پر) بخل سے کام لیتے ہیں اور اگر نیکی کرو اور پر ہیز گاری اختیار کرو ( اور صلح کی وجہ سے در گذر کردو) تو خدا اس سے آگاہ ہے جو کچھ تم انجام دیتے ہو

( اور تمہیں مناسب جزا دے گا ) ۔

شانِ نزول

بہت سی اسلامی تفاسیر اور کتب احا دیث میں اس آیت کی شانِ نزول یو ں بیان ہوئی ہے :

رافع بن خدیج کی دو بیویاں تھیں ، ایک سن رسیدہ تھی اور دوسری جوان ۔ ( بعض اختلافات کی بنیاد پر) اس نے اپنی سن رسیدہ بیوی کو طلاق دے دی ابھی عدت کی مدت ختم نہ ہوئی تھی کہ رافع نے اس سے کہا: اگر تم چاہوتو میں تم سے مصالحت کرلیتا ہوں البتہ اگر میں نے دوسری بیویکو تجھ پرترجیح دی تو تمہیں صبر کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ چاہو تو پھر عدت کی مدت ختم ہونے تک صبر کرو تاکہ ہم ایک دوسر ے جد اہو جائیں ۔

اس عورت نے پہلی تجویز قبول کرلی، یوں ان کی آپس میں صلح ہو گئی ۔

اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، جس میں اس معاملے کے بارے میں حکم شریعت بیان کیا گیا ہے ۔

صلح بہتر ہے

جیسا کہ اس سورت می چونتیسویں اور پینتیسویں آیات کی تفسیر میں ہم کہہ چکے ہیں (تفسیر نمونہ جلد ۳) کہ ” نشوز“ اصل میں ”نشرز“ کے مادہ سے ہے اور اس کا مطلب ہے ” بلند زمین “ یہ لفظ جب عورت اور مرد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے تو کسی سرکشیاور طغیان کا مفہوم دیتا ہے ۔

گذشتہ آیات میں عورت کے ” نشوز“ سے مربوط احکام بیان ہوئے تھے او رزیر نظر آیت میں مرد کے ” نشوز“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جب عورت یہ محسوس کرے کہ اس کا شوہر سر کشی اور اعراض کا ارتکاب کررہا ہے توکوئی حرج نہں کہ حریم زوجیت کی حفاظت کے لئے اپنے کچھ حقوق سے صرف نظر کرتے ہوئے صلح کرلے( وَ إِنِ امْرَاٴَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاً اٴَوْ إِعْراضاً فَلا جُناحَ عَلَیْهِما اٴَنْ یُصْلِحا بَیْنَهُما صُلْحا ) ۔

عورت نے چونکہ اپنے حقوق سے اپنی رضا و رغبت سے اعراض کرلیا ہے او جبر و اکراہ والی کوئی بات نہیں ۔ لہٰذا اس کا کوئی گناہ نہیں ۔ اس کے لئے ” لاجناح “ ( کوئی حرج اور گناہ نہیں ) کا استعمال بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔

اس آیت کی شان نزول کی طرف توجہ کرنے سے ضمنی طور پر دو فقہی مسئلے معلوم ہوتے ہیں :

۱۔ دو بیویوں کے لئے ہفتہ بھر کے اوقات کی تقسیم جیسے احکام ، حقوق کے پہلو ہیں نہ کہ حکم کے حوالے سے ۔

اسی لئے عورت یہ حق رکھتی ہے کہ اپنے اراددہ و اختیار سے اپنے اس حق سے جزوی یاکلی طور پر صرفِ نظر کرلے ۔

۲۔ ضروری نہیں کہ صلح کا معاوضہ مال ہی ہو بلکہ صلح کا معاوضہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنا حق چھوڑ دیا جائے ۔

بعد ازاں صلح پر تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے : بہر حال صلح بہتر ہے ( و الصلح خیر) یہ ایک چھوٹا سا پر معنی اور مغز جملہ ہے ۔ اس آیت میں جملہ اگر چہ خانگی اختلافاتسے متعلق آیاہے لیکن واضح ہے کہ یہ ایک کلی اور عمومی قانون ہے ۔

جو ہر ایک کے لئے ہر مقام پر ہے صلح و صفائی ، دوستی اور محبت کوہر مقام پر پیش نظر رکھنا چاہئیے ۔ نزاع و کشمکش اور ایک دوسرے سے دوری انسان کی طبع سلیم اور پر سکون زندگی کے برخلاف ہے اس لئے استثنائی صورت میں جہاں ناگزیر ہو اس کے سوا نزوع اور دوری کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئیے ۔ اسلام کے حکم کے بر عکس بعض مادہ پرستوں کاخیال ہے کہ انسانی زندگی کی پہلی بنیاد دیگر جانوروں کی طرح بقا کی کشمکش اور تنازع ہے اور اسی طرح سے تکامل اور ارتقاء صورت پذیر ہوتا ہے ۔ شاید یہی طرز فکر گذشتہ صدیوں کی بہت سی جنگوں اور خوں ریزوں کا سر چشمہ ہے ۔ حالانکہ انسان اپنی عقل وہوش کے سبب دیگر جانوروں سے مختلف ہے اور اس کی ارتقاء او رتکمیل کاذریعہ تنازع نہیں تعاون ہے ۔(۱)

اصولی طور پر تنازع بقاء کا نظریہ تو جانوروں کے تکامل کے لئے بھی کوئی قابل قبول بنیاد نہیں رکھتا ۔

اس کے بعد بہت سے لڑائی جھگڑو ں اور در گذر نہ کرنے کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : لوگ ذاتی طور پر او رحب ذات کی فطرت کے باعث بخل کی موجوں میں پھنس کررہ جاتے ہیں اور ہر شخص کو شش کرتا ہے کہ اپنے حقوق بت کم و کاست وصول کرے اور یہی تمام لڑائی جھگڑوں کی بنیاد ہے (و احضرت الانفس الشح ) ۔

لہٰذا اگر عورت او رمرد اس حقیقت کی طرف توجہ کریں کہ بہت سے اختلافات کا سر چشمہ بخل ہے اور بخل ایک مذموم صفت ہے پھر وہ اپنی اصلاح کی کو شش کریں او ر درگذر کی راہ اختیار کریں تو نہ صرف یہ کہ خانگی اختلافات ختم ہو جائیں گے ۔

بلکہ بہت سے اجتماعی جھگڑے بھی جاتے رہیں گے ۔ اس کے باوجود ، اس بناء پر کہ مرد کہیں اس حکم سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں آیت کے آخر میں روئے سخص ان کی طرف کرتے ہوئے انھیں نیکی اور پر ہیز گاری کی وصیت کی گئی ہے اور انھیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار پر نگاہ رکھیں اور راہ حق و عدالت سے منحرف نہ ہوں ، کیونکہ خدا ان کے تمام اعمال سے آگاہ ہے ۔

( وَ إِنْ تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ) ۔

____________________

۱-اس سلسلے میں تفسیر نمونہ دوم میں تنازع کے بقاء کے زیر عنوان تفصیلی گفتگوکی جاچکی ہے ( دیکھئے ص۱۴۴ اردو ترجمہ )

آیات ۱۲۹،۱۳۰

۱۲۹۔( وَ لَنْ تَسْتَطیعُوا اٴَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّساء ِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلا تَمیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوها کَالْمُعَلَّقَةِ وَ إِنْ تُصْلِحُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

۱۳۰۔( وَ إِنْ یَتَفَرَّقا یُغْنِ اللَّهُ کُلاًّ مِنْ سَعَتِهِ وَ کانَ اللَّهُ واسِعاً حَکیماً ) ۔

ترجمہ

۱۲۹۔ اور تم ہر گز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ ( دلی محبت کے اعتبار سے ) عورتوں کے درمیان عدالت کرسکو چاہے جتنی بھی کوشش کرو لیکن اپنا ایمان میلان بالکل ایک طرف نہ رکھو اور دوسری کو معلق نہ چھوڑو اور اگر اصلام اور پرہیز گاری کی راہ اختیار کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔

۱۳۰۔ اور اگر ( صلح صفائی کی کوئی صورت نہ ہو اور ) دوسرے سے جدائی ہو جائیں تو خدا جائیں تو خدا وندعالم ان میں سے ہرایک کو اپنے فضل و کرم سے مطمئن کردے گا اور خدا صاحب ِ فضل و کرم اور حکیم ہے ۔

ایک سے زیادہ شادیوں کے لئے عدالت شرط ہے ۔

گذشتہ آیت کے آخر میں جس جملے میں احسان ، تقویٰ او رپر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے ، وہ شوہروں کے بارے میں ایک طرح کی دھمکی بھی ہے کہ انھیں اپنے بیویوں کے بارے میں راہ ِ عدالت سے تھوڑا سا انحراف بھی نہیں کرنا چاہئیے اس مقام پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت تو دلی لگائی کے سلسلے میں بھی ممکن نہیں ہے لہٰذا متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں کیا جائے

زیر بحث آیت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے : محبت کے حوالے سے تو بیویوں کے درمیان عدالت ممکن نہیں چالے اس کے لئے کتنی بھی کوشش کیون کہ جائے۔( وَ لَنْ تَسْتَطیعُوا اٴَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّساء ِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ ) ۔

” ولو حرصتم “ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو اس سلسلے میں بہت کو شش کرتے تھے ۔شاید اس کی وجہ اسی سورہ کی آیت تھی جس میں فرمایا گیا ہے :( فان خفتم الا تعدلوا فواحدة )

یعنی اگر تم اس بات سے ڈرو کہ تم عدل قائم نہیں کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفاء کرو

یہ واضح ہے کہ ایک آسمانی قانون خلاف فطرت نہیں ہوسکتا اور ممکن نہیں کہ وہ ” تکلیف مالا یطاق“ یعنی ایسی ذمہ داری جس کی انسان میں طاقت نہ ہو ، کاحامل ہو ۔ دل کی محبت کے مختلف عوامل ہوتے ہیں جس میں سے بعض انسانی اختیار سے ماوراء ہیں لہٰذا ان کے بارے میں عدالت کا حکم نہیں دیا گیا ہے لیکن بیویوں سے بر تاو اور ان کے حقوق کا لحاظ رکھنے کے بارے میں انسان پر عدالت کے لئے زور دیا گیا ہے جوکہ انسان کے بس میں ہے ۔

اس بناء پر کہ مرد اس سے غلط فائدہ اٹھائیں اس جملے کے بعد فرمایا گیا ہے : جب کہ تم محبت کے حوالے سے بیویوں کے درمیان مساوات قائم نہیں کرسکتے تو پھر سارا رجحان او رقلبی لگاو تو ایک طرف نہ رکھو کہ جس سے دوسری بالکل معلق ہو کر ہی رہ جائے اور اس کے حقوق عملی طور پر ضائع ہو جائیں( فَلا تَمیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوها کَالْمُعَلَّقَةِ ) ۔

اس آیت کے آخر میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو اس حکم کے نزول سے قبل اپنی بیویوں کے درمیان عدل میں کوتاہی کرتے تھے: اگر وہ اصلاح او رتقویٰ کی راہ اپنائیں اور گذشتہ رویّے کی تلافی کریں تو خدا اپنی رحمت و بخشش ان کے شامل حال کردے گا( وَ إِنْ تُصْلِحُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔

اسلامی روایات میں بیویوں کے درمیان عدالت ملحوظ رکھنے سے متعلق بہت سے مطالب مذکور ہیں جن سے قانون کی اہمیت اور عظمت ظاہر ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی (علیه السلام) جو دن کسی ایک بیوی سے تعلق رکھتے تھے ، اس دن وضو بھی دوسری کے گھر نہیں کرتے تھے ۔(۱)

پیغمبر اکرم کے بارے میں بھی ہے کہ آپ بیماری کے عالم میں بھی کسی ایک بیوی کے گھر قیام نہیں کرتے تھے(۲)

معاذبن جبل کے بارے میں منقول ہے کہ اس کی دو بیوبیاں تھیں وہ دونوں طاعون کی بیماری کے باعث اکٹھی مر گئیں ، تو معاذ نے ایک کو دوسرے پہلے دفن کرنے کے لئے قرعہ نکالا تاکہ اس سے کوئی خلاف عدالت کام نہ ہو جائے ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر تبیان ، ج۳ صفحہ۳۵۰۔

۲- تفسیر تبیان ج۳ صفحہ ۳۵۰۔

۳ - تفسیر تبیان ، ج۳ صفحہ ۳۵۰۔

ایک اہم سوال کا جواب

جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۳ کے ذیل میں ہم نے یاد دہانی کروائی ہے کہ بعض ناسمجھ لوگ اس آیت کو زیر بحث آیت سے ملا کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شاد یاں عدالت سے مشروط ہیں اور عدالت ممکن نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ ہوبیویاں کرنا اسلام میں ممنوع ہے ۔

اتفاق کی بات ہے کہ روایات ِ اسلامی سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ امام جعفر صادق (علیه السلام) کا ہم عصر تھا او رمادہ پرستوں میں سے تھا ۔ اس کانام ابن ابی العوجاء تھا ۔ اس نے یہ سوال اسلام کے ایک مجاہد عالم ہشام بن حکم سے کیا ۔ انھیں اس کا جواب معلوم نہ تھا لہٰذا وہ اپنے وطن جو ظاہراًکوفہ تھا مدینہ سے روانہ ہوئے تاکہ اس سوال کا جواب معلوم کر سکیں وہ امام صادق (علیه السلام) کی خدمت میں پہنچے ۔ حضرت (علیه السلام) کو تعجب ہو ا کہ وہ حج و عمرہ کے دنوں کے بغیر مدینہ کیوں چلے آئے تھے ۔ ہشام نے بیان کیا کہ اس قسم کا سوال پیش آیا ہے ۔

امام (علیه السلام) نے جواب میں فرمایا:

سورہ نساء کی تیسری آیت میں عدالت سے مراد نان نفقہ ( اور حقوقِ زوجیت کا لحاظ رکھنا اور بر تاو ) ہے لیکن آیت ۱۲۹ میں عدالت جسے امر محال شمار کیا گیا ہے ولی لگاو او رمیلان میں عدالت ہے ( اس لئے تعدد ازدواج شرائط اسلامی کے احترام کی صورت میں ممنوع ہے نہ محال) ۔

ہشام سفر سے لوٹ کر آئے او ریہ جواب ابن ابی العوجاء کو پیش کیا تو اس نے قسم کھا کر کہا : یہ جواب خود تمہاری طرف سے نہیں ہے ۔(۱)

واضح ہے کہ اگر اہم دو آیات میں ” عدالت“ کا الگ الگ مفہوم بیان کرتے ہیں تو یہ آیات میں موجود واضح قرینہ کی بناء پر ہے ۔ محل بحث آیت میں صریحاً فرمایا گیا ہے کہ تمام قلبی لگاو ایک بیوی کی طر ف نہ رکھو ۔ لہٰذا دو بیویاں ہونا جائز شمار کیا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اس شرط کے ساتھ عملی طور پر ان میں سے کسی پر ظلم ہو اگر چہ دلی لگاو میں فرق ہو ۔ نیز اسی صورت کی آیت ۳ میں صراحت کے ساتھ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے ۔

پھر بعدکی آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر ازدواجی زندگی کوباقی رکھنا طرفین کے لئے مشکل ہو گیا ہے اور ایسی وجوہ پید اہوگئی ہیں کہ جن سے افقِ حیات ان کے لئے تاریک ہوگیا ہے او رکسی طرح مصالحت نہیں ہوسکتی تو وہ مجبورنہیں ہیں کہ ایسی ازدواجی زندگی کو باقی رکھیں اور آخر دم تک خانگی زندان کے ماحول میں تلخ کامی سے رہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں ۔

ایسے عالم میں انھیں چاہئیے کہ جرات سے اقدام کریں اور آنے والے حالات سے خوف زدہ نہ ہوں کیونکہ اگر وہ ان حالات میں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو خدا وند بزرگ و برتر دونوں کو اپنے فضل و کرم سے مطمئن کرکر دے گا اور امید ہے کہ وہ ان حالات میں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو خدا وند بزرگ و بر تر دونوں کو اپنے فضل و کرم سے مطمئن کردے گا اور امید ہے کہ بہتر جیون ساتھی اور روشن تر زندگی ان کے انتظار میں ہو( وَ إِنْ یَتَفَرَّقا یُغْنِ اللَّهُ کُلاًّ مِنْ سَعَتِهِ ) ۔ کیونکہ خدا کی حکمت آمیز رحمت بہت وسیع ہے( وَ کانَ اللَّهُ واسِعاً حَکیماً ) ۔

____________________

۱ ۔تفسیر بر ہان جلد اول صفحہ ۴۲۰۔

آیات ۷۸،۷۹

۷۸۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

۷۹۔( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ترجمہ

۷۸۔ تم جہاں کہیں بھی رہو ، موت تمھیں پالے گی اگر چہ محکم بوجوں میں جار ہو او راگر انھیں ( منافقین کو ) حسنہ ( اور کامیابی) حاصل ہو تو کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہے اور سیئہ( اور شکست) سے دوچار ہوں تو کہتے ہیں یہ تمہاری طرف سے ہے کہہ دو کہ سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔ پس یہ گروہ کیوں تیار نہیں ہوتا کہ حقائق کا ادراک کرے ۔

۷۹۔ جو نیکیاں تجھ پر پہنچتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائی تجھے پہنچتی ہے وہ خود تیری طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے رسول بناکر بھبیجا ہے اور اس بارے میں خدا کی گواہی کافی ہے ۔

تفسیر

گذشتہ اور بعد کی آیات پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آیات بھی منافقین سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کی صفوں میں رہتے تھے جیساکہ آیات میں ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں شر کت کرنے سے ڈرتے تھے اور جب جہاد کا حکم صادر ہواتو انھیں تکلیف ہوئی ۔ قرآن ان کے اس طرزِ فکر کا دو طرح سے جواب دے رہا ہے پہلا جواب تو وہی تھا جو گذشتہ آیت کے آخر میں گزر چکا ہے( قل متاع الدنیا قلیل و الاخرة خیر لمن اتقی ) ” کہہ دو کہ دنیا وی زندگی بہت کم ہے لیکن پر ہیز گاروں کے لئے دوسرے جہان میں اس کا صلہ موجود ہے “۔

دوسرا جواب جو زیر بحث ہے کہ موت سے فرار اختیار کرنا تمہارے لئے مفید نہیں ” حالانکہ تم جہاں کہیں بھی ہو موت سے تم کو مفر نہیں آخر ایک تمھیں اس کا نوالہ بننا ہے یہاں تک کہ تم مضبوط گنبدوں میں کیوں نہ چھپ جاو” پس وہ موت جسے ضرور آنا ہے اور جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے کیون نہ اسے اصلاح اور سچائی کے لئے قبول کیا جائے جیسے جہاد کی صورت میں بجائے اس کے کہ بے کار اور لا حاصل موت قبول کی جائے ۔( اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ ) ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات مثلاً حجر کی آیة ۹۹ ۔ اور مدثر کی آیت ۴۸ ۔ میں موت کو ” یقین “ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر قوم اور گروہ جو بھی عقیدہ رکھتا ہو وہ ہر چیز کا انکار کرسکتا ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ زندگی ایک دن ختم ہونے والی ہے وہ افرد جو زندگی سے عشق کرتے ہیں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ موت ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہونے کانام ہے اور اس کا نام لیتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں یہ آیات انھیں تنبیہ کرتی ہیں اور زیر بحث آیت میں ۔ یدرککم ۔ کے مفہوم سے انھیں متوجہ کیا گیا ہے کہ عالم ہستی کی اس حقیقت سے فرار اختیار کرنا ایک نامناسب فعل ہے کیونکہ ۔یدرککم ۔ کے مادہ کا معنی یہ ہے کہ کوئی کسی چیز سے فرار حاصل کرے اور وہ اس کے پیچھے دوڑے ۔ سورہ جمعہ کی آیت ۸ میں بھی یہ حقیقت زیادہ کھل کربیان کی گئی ہے :

قل ان الموت الذی تفرون منہ ملاقیکم کہیے کہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور تمہارے سامنے آئے گی ۔

جب یہ حقیقت مد نظر ہو تو کیا یہ عقل مندی ہے کہ انسان میدان جہاد میں جانے اور قابل فخر مرتبے پر فائز ہونے کی بجائے اس سے کنارہ کش ہ وکر گھر میں آرام کرتا رہے فرض کرلیں کہ جہاد سے کنارہ کش ہو کر وہ زندگی کے چند روز اور گذار لے اور وہی کام دہراتا رہے جو پہلے کرتا رہا ہے ۔راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے اجر و ثواب سے بے بہرہ ہو جائے تو کیا یہ عقل اور منطق کے مطابق صحیح ہے اصولی طور پر موت ایک عظیم حقیقت ہے اور موت کے استقبال کے لئے افتخار کے ساتھ آمادہ ہونا چاہئیے ۔دوسرا نکتہ جس پر توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ درج بالا آیت میں کہا گیا ہے کہ کوئی چیز یہاں تک کہ محکم برج ( بروج مشیدہ)(۱) بھی موت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا اور اس کی وجہ واضح یت اور وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت وجود انسانی سے باہر نفوذ کرتی ہے ۔ عملی طور پر موت کا سر چشمہ انسان کے اندر ہے ، کیونکہ بدن کے مختلف کل پر زوں ( اعضاء) کی استعداد یقینا محدود ہے ایک دن وہ ختم ہو جاتے ہیں ۔البتہ غیر طبیعی موت انسان کی تلاش میں باہر سے آتی ہے لیکن طبعی موت اس کے اندر سے آتی ہے ۔ مضبوط گنبد اور بھاری قلعے بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتے ۔یہ بجا ہے کہ مضبوط قلعے بعض اوقات غیر طبعی موت سے بچا لیتے ہیں ۔ مگر پھر بھی موت سے مکمل نجات نہیں دلاسکتے اورچند دنوں بعد طبعی موت انسان کو آلیتی ہے ۔

____________________

۱ - مشیدہ ۔ در اصل مادہ شید ( بر وزن شیر) سے ہے اور گچ اور دوسرے محکم مواد کے معنی میں ہے جنھیں کسی بنیاد کے استحکام کے لئے استعمال کرتے ہیں چونکہ اس زمانہ میں عام طور پر مضبوط بنیاد کے لئے محکم ترین مادہ گچ اور چونا تھا لہٰذا زیادہ تر اس مفہوم میں بولا جاتا تھا۔ لہٰذا بروج مشیدہ محکم قلعوں کے معنی میں ہے اور دیکھنے میں مشیدہ مرتفع اور بلند کے معنی میں آتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ چوناسے استفادہ کئے بغیر کسی طرح بھی بلند و بالا عمارت کی بنیادیں استوار نہیں ہوسکتیں ۔

کامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ

قرآن اس آیت کے ذیل میں منافقین کی کچھ اور بے بنیاد باتوں اور باطل خیالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :وہ جب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور نیکیاں اور حسنات ان کے ہاتھ آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے یعنی ہم اس قابل تھے کہ خدا نے ہمیں یہ شفقتیں اور نعمتیں عطا کی ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

لیکن جب انھیں شکست کا سامنا ہو یا میدان جنگ میں کوئی مشکل لاحق ہو تو کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر کی غلط تدبیر اور ان کی جنگی حکمت عملی کے خام ہونے کی وجہ سے تھا اس ضمن میں وہ جنگ احد کی شکست کا حوالہ دیتے ہیں ۔

( وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِکَ )

بعض مفسرین کا احتمال ہے کہ درج بالا آیت یہودیوں کے بارے میں ہے اور ” حسنہ“ اور ” سیئة“ سے مراد سارے اچھے اور برے حوادث و واقعات ہیں کیونکہ یہودی پیغمبر کے ظہور کے وقت اپنی زندگی کے اچھے حوادث کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے اور برے حوادث کو پیغمبر سے منسوب کردیتے تھے لیکن اس آیت کا ربط پہلے اور بعد کی ان آیات سے ہے جو منافقین کے بارے میں نشاندہی کرتی ہیں یہ آیت بھی زیادہ تر انہی سے مربوط ہے بہر حال قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ ایک موحد اور بالغ نظر خدا پرست کی نگاہ میں یہ تمام حوادث کامیابیاں اور شکستیں خدا کی طرف سے ہیں جولوگوں کی قابلیت اور اہلیت کے مطابق دی جاتی ہے ۔( قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ )

اور آیت کے آخر میں اعتراض کے طور پر ان منافقین کی زندگی کے مختلف پہلووں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ فکر اور غور نہیں کرتے” پس کیوں یہ لوگ حقائق کاادراک کرنے کو تیار نہیں ہوتے“

( فَمَالِ هَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَهُونَ حَدِیثًا ) ۔

اس کے بعد اگلی آیت میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے کہ تمام نیکیاں ، کامیابیاں اور حسنات جو تمہیں ملتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائیاں اور شکستیں تمھیں در پیش ہوتی ہیں اور وہ خود تمہاری طرف سے ہیں ۔

( مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ )

اور آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو اپنی شکستوں اور ناکامیوں کی نسبت پیغمبر سے دیتے ہیں اور اصطلاحاً پیغمبرکی وجہ سے سمجھتے تھے انھیں جواب دیا گیا ۔ ۔ پیغمبر سے ارشاد ہوتا ہے : ” اور ہم نے تجھے لوگوں کے لئے اپنا پیامبرقرار دیاہے اور خدا اس پر گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے “۔تو کایہ ممکن ہے کہ خدا کابھیجا ہوا لوگوں شکست، ناکامی او ربرائی کا سبب ہو؟( وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا ) ۔

ایک اہم سوال کا جواب

ان دو آیات کا مطالعہ جو قرآن میں آگے پیچھے مربوط ہیں ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے کہ کیوں پہلی آیت میں تمام نیکیوں اور برائیوں (حسنات و سیئات ) کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے جب کہ دوسری آیت میں صرف نیکیوں کو خدا کی طرف اور برائیوں اور سیئات کو لوگوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ یقینا یہاں کوئی نکتہ پوشیدہ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ دو آیات جو کہ یکے بعد دیگرے آئی ہیں ان میں ایسا واضح اختلاف ہے ان دونو ں آیات پر غور و فکر کرنے سے چند نکات واضح ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک سوال کا علیحدہ جواب بن سکتا ہے ۔

۱۔ اگر سیئات اور برائیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دوپہلو رکھتی ہیں ۔ ایک مثبت پہلو اور ایک منفی پہلو ۔ یہی منفی پہلو ہے جو انھیں برائی کی شکل و صورت دیتا ہے اور انھیں نسبتی زبان یا مقابلتاً نقصان کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔

اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔

جو شخص گرم سر و ہتھیار کے ذریعہ کسی مسلمان کو قتل کردے ، مسلم ہے کہ وہ ایک برائی کا مرتکب ہوا ہے اب ہم اس برے کام کے عوامل پر غور و فکر کرتے ہیں ۔ ان عوامل میں انسان کی طاقت م اس کی فکر ، سرد یا گرم ہتھیار کی طاقت ، صحیح نشانہ، مناسب وقت سے استفادہ کرنا اور گولی کی تاثیر اور طاقت وغیرہ نظر آتے ہیں جو تمام واقعہ کے مثبت پہلو ہیں ۔ کیونکہ یہ سب مفید اور سود مندہ سکتے ہیں اور اگر انھیں بر مخل استعمال کیا جائے تو بڑی بڑی مشکلات کے موقع پر کام آتے ہیں صرف ایک منفی پہلو اس واقعہ کا یہ ہے کہ یہ تمام صلاحتیں اور توانائیاں بے محل استعمال ہوئی ہیں مثلاً بجائے اس کے کہ ان کے ذریعے ایک خطر ناک درنسدے کو مارا جاتا یا ایک جفا کار ظالم کو قتل پر انھیں استعمال کیا جاتا، ایک بے گناہ انسان کو نشانہ بنایا گیا بس یہی پہلو ،منفی ہے کہ ان صلاحیتوں کو برائی کے طور پر کام لایا گیا ، ورنہ نہ تو اچھے نشانے کی صلاحیت انسان کے لئے بری چیز ہے اور نہ ہی گولی او ربارود کا استعمال برا ہے ، یہ سب صلاحیت کو استعمال کرنے کے ذرائع ہیں اور اپنی جگہ بہت فوائد کے حامل ہیں ۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی آیت میں تمام حسنات اور سیئات کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت کے تمام ذرائع ، یہاں تک کہ وہ صلاحتیں کہ جن سے غلط فوائد حاصل کئے گئے ، خدا کی طرف سے ہیں اور اصلاحی اور مثبت اجراء کا سر چشمہ وہی ہیں اور اگر دوسری آیت میں سیئات کی نسبت لوگوں کی طرف دی گئی ہے تو واقعہ کے انھی منفی پہلووں اور خدا کی عنایات اور صلاحیتوں سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کی طرف اشارہ ہے یہ بالکل اسی مثال کی طرح ہے کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو ایک اچھا گھر بنانے کے لئے سرمایہ دے لیکن وہ اسے منشیات، فساد ، تباہ کاری میں صرف کردے اس میں شک نہیں ہے کہ سرمایہ کے لئے وہ اپنے باپ کا مقروض ہے لیکن سرمایے کے غلط استعمال کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے ۔

۲۔ ممکن ہے کہ آیہ مبارکہ ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتی ہو جس کی طرف خبر اور تفویض کی بحث میں اشارہ ہوا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام حوادث دنیا، یہاں تک ہمارے اعمال و افعال چاہے اچھے ہوں یا برے ، نیک ہوں یا بد ایک طرح سے خدا سے مربوط ہیں کیونکہ وہی جس نے ہمیں طاقت دی ہے اور اختیار و ارادہ کی آزادی ہمیں بخشی ہے لہٰذا ہم جو کچھ اختیار کرتے ہیں اور ارادے کی آزادی کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں وہ مشیت الہٰی کے برخلاف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اعمال ہم سے نسبت رکھتے ہیں اور ان کا سر چشمہ ہمارا وجود ہے کیونکہ عمل کے تعین کرنے کا عامل و سبب ہمارا ارادہ و اختیار ہے اور اسی بناپر ہم اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہیں اور خدا کی طرف ہمارے اعمال کی اسناد و نسبت، جیسا کہ اشارہ ہوا ہے ہماری ذمہ داری اور جوابدہی کو سلب نہیں کرتی اور عقیدہ جبر کا موجب اور سبب نہیں بنتی۔ لہٰذ ا خدا جہاں فرماتا ہے کہ ” حسنات و سیئات“ میری طرف سے ہیں تو وہاں اشارہ کرتا ہے کہ تمام چیزوں کی نسبت خدا کی اس فاعلیت ( اختیار) کی طرف ہے اور جہاں فرماتا ہے سیئات تمہاری طرف سے ہیں تو وہاں ہماری فاعلیت اور ہمارے ارادہ و اختیار کی طرف اشارہ ہے ، اور حقیق میں دو آیات کا مجموعہ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کو ثابت کرتا ہے ( یہ نکتہ غور طلب ہے )

۳۔ ایک اور تفسیر جو ان آیات کے لئے موجود ہے اور اہل بیت (علیه السلام) کی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ” سیئات“ سے مراد اعمال کی سزا و مجازات اور گناہوں کے عقوبات و نتائج ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سزائیں خدا کی طرف سے ہیں لیکن چونکہ یہ بندوں کے اعمال و افعال کا نتیجہ ہیں ۔ اس بناپر بعض اوقات ان کی نسبت بندوں کی طرف دی جاتی ہے اور بعض اوقات خدا کی طرف، اور دونوں صحیح ہیں ۔ مثلا یہ دونوں طرح سے صحیح و درست ہے کہ کہا جائے کہ قاضی چور کا ہاتھ کاٹتا ہے یا یہ کہ چور خود اپنے ہاتھ کو کاٹتا ہے ۔

آیات ۸۰،۸۱

۸۰۔( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

۸۱۔( وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللهُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۸۰۔جس شخص نے پیغمبر کی اطا عت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو گر دانی کرے تو تم اس کے جواب دِہ نہیں ہو ۔

۸۱۔وہ تیرے سامنے کہتے ہیں کہ ہم فر ما نبردار ہیں لیکن جب وہ تمھاری بز م سے باہرجاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمھاری گفتگو کے بر خلاف رات کو خفیہ میٹنگیں تشکیل دیتا ہے جو کچھ وہ ان میٹنگوں میں کہتے ہیں خدا اسے لکھتا ہے ۔

ان کی پر واہ نہ کرو (اور ان کے منصوبوں اور سا زشوں سے نہ ڈرو)اور خدا پر تو کل کرو اور کافی ہے کہ وہ تمھارا مدد گاراور حفاظت کرنے والا ہو ۔

تفسیر

اس آیت میں لوگو ں اور ان کے ”حسنات“اور ” سیئات“کے مقا بلہ میں رسول کی حیثیت بیان گئی ہے ۔خدا پہلے فر ماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی ۔

( مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ )

لہٰذا خدا کی اطاعت پیغمبر کی اطاعت ہے جدا نہیں ہو سکتی کیونکہ پیغمبر کوئی قدم خدا کی مشیت کے خلاف نہیں اٹھاتا اس کی گفتار ، کردار، اعمال سب خدا کے فرمان کے مطابق ہیں ۔

اس کے بعد فرماتا ہے : اگر کچھ لوگ اعراض اور رو گردانی کرتے ہیں اور وہ تمہارے احکام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں تو تم ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں ہو اور یہ تمہارا کام نہیں کہ ان سے تکرار کرو یا نافرمانی کر نے سے انھیں جبراً روکو ۔ تمہارا فرض تبلیغ رسالت امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور گمراہ وبے خبر لوگوں کی رہنمائی کرنا

( وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

غور کرنا چاہئیے کہ لفظ ” حفیظ“ اس لحاظ سے کہ وہ شخص ہے کہ جو ہمیشہ کسی چیز کی نگرانی پر مامور ہو ۔ لہٰذا آیت کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ پیغمبر کی ذمہ داری رہبری کرنا، دعوت حق دینا، فتنہ اور مفاسد کا مقابلہ کرنا ہے لیکن اگر کچھ لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہو ں تو پیغمبر ان کی کجروی کے لئے جوابدہ نہیں ہیں کہ ہر جگہ موجود ہوں اور ہر گناہ و معصیت کا طاقت اور جبر سے مقابلہ کریں اور مروّج طریقوں سے بھی وہ اس طرح کی قدرت نہیں رکھتے ۔ اس بنا پر احد جیسی جنگ کے حوادث بھی شاید آیت کے پیش نظر ہوں کہ پیغمبر کا فرض تھا کہ فنون ِ حرب کے لحاظ سے زیادہ گہرائی اور غور و خوض سے جنگی حکمتِ عملی تیار کرتا اور دشمن کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھتا، اور یہ بات مسلم ہے کہ ان احکام و ضوابط میں پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے پیغمبر کے احکام کی حکم عدولی کی اور اس سبب سے وہ شکست سے دو چار ہو ئے تو اس کی جواب دہی ان سے منسوب ہو گی نہ کہ پیغمبرسے ۔ غور کرنا چاہئیے کہ یہ آیت قرآن کی واضح ترین آیات میں سے ہے جو سنتِ پیغمبر کے حجت ہونے اور آپ کی احادیث کو قبول کرنے کے لئے دلیل ہے ، لہٰذا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو قبول کرتا ہوں لیکن پیغمبر کی حدیث اور سنت کو قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ درج بالا آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ پیغمبر کی حدیث اور سنت کی اطاعت فرمانِ خدا کی اطاعت ہے ۔

جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر نے حدیث ثقلین کے مطابق جو کہ مشہور مآخذ اور کتب اسلامی میں مذکور ہے چاہے وہ کتب شیعہ ہوں یا کتب اہل سنت، صراحت کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کو سند اور حجت قرار دیا ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت (علیه السلام) کے فرمان کی اطاعت بھی فرمانِ خدا کی اطاعت سے الگ نہیں ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو تو قبول کرتا ہوں لیکن اہل بیت(علیه السلام) کے فرامین کو نہیں مانتا کیونکہ یہ بات درج بالا آیت اور اس کے مشابہ آیات کے برخلاف ہے ۔

اسی لئے بہت سی روایات جو تفسیر بر ہان میں اس آیت کے ضمن میں آئی ہےں میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے درج بالا آیت کے مطابق امر و نہی کا حق اپنے پیغمبر کو دیا ہے اور پیغمبر نے یہ حق حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ اہل بیت (علیه السلام) کو دیا ہے لہٰذا لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے امر و نہی سے رو گردانی نہ کریں کیونکہ ان کا امر و نہی ہمیشہ خدا کی طرف سے ہے نہ کہ خود ان کی طرف سے ( تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۳۹۶) اس کے ساتھ دوسری آیت میں منافقین کے ایک گروہ یا کمزور ایمان والے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” وہ لوگ جس وقت مسلمانوں کی صفوں میں پیغمبر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یا کسی ضرر سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے دوسروں کے ہم آواز ہوتے اور فرمانِ پیغمبر کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جان و دل سے پیغمبر کی پیروی کرنے کو تیار ہیں( وَیَقُولُونَ طَاعَة )

لیکن جب لوگ بزم رسالت سے نکلتے ہیں تو وہ منافقین اور کمزور ایمان والے افراد اپنے عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور خفیہ اجتماعات میں پیغمبر کے ارشادات کے خلاف پروگرام بناتے ہیں

( فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ )

اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین پیغمبر کے زمانہ میں نچلے نہیں بیٹھے تھے ، بلکہ وہ رات کو خفیہ اجتماعات میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے اور پیغمبر اکرم کے لائحہ عمل میں رخنہ اندازیاں کرتے تھے ، لیکن خدا اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سے منہ پھیر لیں اور ان کی سازشوں سے گھبرائیں نہیں اور اپنے لائحہ عمل کے لئے ان پر انحصار نہ کریں ۔ بلکہ فقط خدا پر بھروسہ رکھیں خدا جو سب سے زیادہ مدد اور حفاظت کرنے والا ہے ۔

( فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

آیت ۸۲

۸۲( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

ترجمہ

۸۲۔ کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ اختلافات پاتے ۔

تفسیر

اعجاز قرآن کی زندہ مثال

ان سر زنشوں کے بعد جو گزشتہ آیات میں منافقین کو کی گئی تھیں یہاں انھیں اور دوسرے تمام ان لوگوں کی طرف جو قرآن کی حقانیت میں شک و تردد کرتے ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کیا یہ لوگ قرآن کی مخصوص وضع و کیفیت پر غور و فکر نہیں کرتے اور اس کے نتائج کو نہیں دیکھتے ، قرآن اگر خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نازل ہوتا تو یقینا اس میں انھیں بہت سے تفاوت و اختلافات ملتے ا ب جب کہ اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے تو جان لینا چاہئیے کہ وہ خدا ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔

( اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ) ۔

”تدبر“ اصل میں مادہ دبر( بر وزن ابر) پشت سر اور کسی چیز کی عاقبت و انجام کے معنی میں ہے اس بنا پر تدبیر سے مراد نتائج ، عواقت اور کسی چیز کے آگے پیچھے دیکھنا ہے ۔ تفکر سے اس کا فرق یہ ہے کہ تفکر کا ربط کسی وموجود کے علل اور خصوصیات کے مطالعہ سے ہے لیکن ”تدبیر“ اس کے عواقب و نتائج کے مطالعے اور جائز سے مربوط ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصولِ دین اور ایسے مسائل مثلاً پیغمبر کے دعوے کی سچائی اور قرآن کی حقانیت کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کریں اور اندھی تقلید اور بغیر سوچے سمجھے فیصلوں سے اجتناب کریں ۔

۲۔ بعض لوگوں کے خیال کے برعکس قرآن سب لوگوں کے لئے قابل فہم و ادراک ہے کیونکہ اگر وہ قابل فہم و ادراک نہ ہوتا تو اس میں تدبر و فکر کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔

۳۔ قرآن کی حقانیت کی ایک اور دلیل اور یہ کہ وہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے یہ ہے کہ سارے قرآن میں تضاد اور اختلاف نہیں ہے ۔ اس حقیقت کے ادراک کے لیے حسبِ ذیل وضاحت کی طرف توجہ کریں ۔

” ہر شخص کی کیفیات اور نظر یات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں بعض استثنائی حالتیں چھوڑ کر عام حالات میں قانون تکامل و ارتقاء انسان اور اس کے افکار و نظر یات پر بھی موثر حاوی ہے ہمیشہ دن مہینے اور سال بدلنے سے لوگوں کی زبان ، فکر اور گفتار بھی بدلتی رہتی ہے اگر غور سے دیکھیں تو ایک لکھنے والے شخص کی تحریریں کبھی بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ ایک ہی کتاب کی ابتدا اور انتہا میں فرق ہوتا ہے خصوصاً اگر کوئی شخص عظیم حوادثسے گزرے اور حوادث بھی ایسے جو ایک فکری، اجتماعی ، نظر یاتی عقائدی انقلاب کی بنیاد بن جائیں تو وہ جتنا بھی کوشش کرے کہ اپنی گفتار کو ایک جیسا اور ایک طرز پر رکھے اور اسے اپنی گزشتہ باتوں سے مربوط کرلے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ خصوصاً اگر وہ ان پڑھ اور پس ماندہ ماحول میں پروان چڑھا ہو“۔

”لیکن قرآن جو ۲۲ سال کی مدت میں لوگوں کے تربیتی تقاضوں اور ضروریات کے مطابق بالکل مختلف حالات اور مواقع پر نازل ہوا، ایسی کتاب ہے جو مکمل طور پر مختلف موضوعات کو چھیڑتی ہے اور عام کتب کی طرح اس میں صرف ایک اجتماعی، سیاسی ، فلسفیانہ، حقوقِ انسانی یا تاریخی موضوع سے بحث نہیں ہے بلکہ قرآن کبھی توحید اور اسرار آفرینش کے بارے میں اور کبھی احکام قوانین اور آداب و سنن کے متعلق اور کسی وقت گذشتہ عبادات اوربندوں کے خدا سے رابطے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے ۔ ڈاکٹر گوستان دلبون کے بقول قرآن جوکہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب ہے صرف تعلیمات اور احکام مذہبی پر منحصر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی احکام کو بھی بیان کرتی ہے ایسی خصوصیات کی حامل کتاب کے لئے عام طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ تضاد، تناقض اور تضاد بیانی سے مبرا ہو ۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام جہات کے باوجود اس کی تمام آیات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اور ہر قسم کے تضاد، اختلافات، ناموزونیت سے خالی ہے تو ہم بہت بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب افکار انسانی کی تخلیق نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ خدا کی طرف سے ہے ۔ جیسا کہ قرآن خود اس حقیقت کو درج بالا آیت میں بیان کرتا ہے ۔“(۱)

____________________

۱ - کتاب قرآن و آخرین پیغمبر ص ۳۰۹ تالیف ناصر مکارم

آیت ۸۳

۸۳۔( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

ترجمہ

۸۳۔ اور جب کامیابی یا شکست کی خبر انہیں ملے تو وہ ( تحقیق کے بغیر) اسے مشہور کر دیتے ہیں لیکن اگر وہ پیغمبر اور صاحبان امر کی طر ف( جو تشخیص کی کافی اہلیت و قدرت رکھتے ہیں ) پلٹا دیں تو مسائل کی تہہ سے آگاہ ہو جائیں اور خدا کا فضل اور رحمت شاملِ حال نہ ہوتی تو سوائے قلیل گروہ کے سب کے سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے ۔

تفسیر

افواہیں پھیلانا

اس آیت میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے ایک اور منفی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب انھیں مسلمانوں کی فتح یا شکست کے متعلق خبریں پہنچتی ہیں تو وہ تحقیق کے بغیر انھیں لوگوں میں پھیلاتے ہیں جب کہ بیشتر یہ خبریں بے بنیاد ہوتی ہیں اور دشمنوں کی جانب سے خاص مقاصد کے لئے گھڑی جاتی ہیں ، ان کا شہرت پانا مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہوتا ہے

( وَإِذَا جَائَهُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِهِ )

حالانکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس قسم کی خبریں سب سے پہلے اپنے رہبروں اور پیشواوں کے سامنے رکھیں اور ان کی وسیع اطلاعات اور گہری فکر سے استفارہ کریں اور بلا وجہ نہ تو مسلمانوں کو اچھے نتائج کے غرور میں مبتلا کریں جو خیالی کامیابیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ شکست کی جھوٹی خبروں سے ان کی ہمتوں کو پست کریں ۔

( وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ )

” یستنبطونہ“ اصل میں نبط ( بر وزن فقط) کے مادے سے ہے اس سے مرادوہ پہلا پانی ہے جو کنویں سے نکالتے اور زمین کی تہہ سے حاصل کرتے ہیں اسی بناپر ہر حقیقت کے مختلف دلائل وشواہد سے استفادہ کرنے اور موجود مدارک سے استخراج کرنے کو ” استنباط“ کہا جاتا ہے چاہے یہ کام فقہی مسائل میں ہو یا فلسفانہ ، سیاسی اور علمی مسائل میں جو تشخیص کی قدرت رکھتے ہوں ، اور مختلف مسائل پر کافی دسترس رکھتے ہوں اور جو حقائق کو بے بنیاد افواہوں سے اور صحٰح مطالب کو غلط امر سے الگ کرکے لوگوں تک پہچائیں ، اس طرح کے لوگوں میں پہلا درجہ پیغمبراکرم اور آپ کے جانشین ائمہ اہل بیت(علیه السلام) کا ہے اور دوسرے درجہ میں ایسے علماء ہیں جو ان مسائل میں صاحبِ نظر ہیں ۔ جیسا کہ تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ضمن میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

” ھم الائمہ“ یعنی اس آیت سے مراد آئمہ اہلِ بیت ہیں ۔

اور اس مضمون کی دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں ممکن ہے اس طرح کی روایات پر لوگ اعتراض کریں کہ رسول اللہ تو آیت کے نزول کے وقت موجود تھے لیکن آئمہ اہل بیت (علیه السلام) کو منصبِ امامت نہیں ملا تھا اس اعتراض کا جواب واضح ہے کیونکہ یہ آیت پیغمبر اکرم کے زمانے کے ساتھ تو مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تو ایک مکمل قانون ، تمام ادوار اور زمانوں کے لئے ہے جو دشمنوں اور نادان مسلمانو کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان غلط خبروں کی اشاعت کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے کے نقصانات

مختلف معاشروں کو جو بڑے مسائل در پیش ہوتے ہیں اور جو معاشروں سے اجتماعی فکر ، افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کو ختم کر دیتے ہیں ان کا سبب جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت ہے اس طرح سے کہ بعض اوقات ایک منافق ایک غلط خبر گھڑ لیتا ہے وہ چند افراد تک پہنچاتا ہے اور وہ بلا تحقیق اس کی نشر و اشاعت کرنے لگتے ہیں اور شاید کچھ اس میں اپنی طرف سے اضافے بھی کرتے ہیں اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک لوگوں کی فکری توانائی ضائع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو اس طرف مشغول کرکے انھیں اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہیں اور معاشرے کو اہم فرائض کی انجام دہی سے سست روا اور متردد کردیتی ہیں ۔ اگر چہ وہ گروہ اور معاشرے جن میں جبر ہے اور ان کے گلے گھونٹ دیئے گئے ہیں ان میں بی جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت کرنا ایک قسم کے مقابل؛ے یا انتقام جوئی کے زمرے میں آتا ہے لیکن صحیح معاشروں میں غلط خبروں کی نشر و اشاعت بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ اگر اس قسم کی خبریں قابل، مشیتاور مفید افراد کے متعلق ہوں تو وہ انھیں خدمات اور کار نامے انجام دینے کے معاملے میں دلِ سرد اور سست کردیتی ہیں اور بعض اوقات ان کی برس ہا برس کی حیثیت کو بر باد کردیتی ہیں ۔ ولوگوں کو ان کے وجود کے فوائد سے محروم کردیتی ہیں ۔ اسی بنا پر اسلام صراحت کے ساتھ جھوٹی خبریں گھڑنے کے عمل سے جنگ کرتا ہے اور جعل سازی، جھوٹ اور تہمت گوئی اور اس کی نشر و اشاعت بھی ممنوع قرار دیتا ہے ۔ درج بالا آیت اس کا ایک نمونہ ہے ۔

اس کے بعد آیت کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی اور پر وردگار کے مقرر شدہ رہنماوں کے ذریعے تم اس قسم کی جھوٹی خبروں اور ان کے برے نتائج سے چھٹکارہ حاصل نہ کرتے تو تم میں سے بہت سے لوگ شیطانی راستوں پر چل پڑتے اور قلیل افراد ایسے رہ جاتے جو شیطان کی پیروی سے اجتناب کرتے( وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً ) ۔

یعنی پیغمبر اور صاحب نظر و اہل بصیرت علماء ہی جو غلط مشتہر ہونے والی خبروں کے وسوسو ں سے بچ سکتے ہیں لیکن معاشرے کی اکثریت اگر صحیح رہبری سے محروم رہ جائے تو من گھڑت خبروں اور ان کے ضرررساں اثرات سے نہیں بچ سکتی۔(۱)

____________________

۱- جو کچھ ہم نے کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ” الاقلیلاً“ ” اتبعھم “ کی ضمیر سے ” مستثنیٰ ہے اور آیت میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں ہے

(غور کیجئے گا) ۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31