استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)11%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44174 / ڈاؤنلوڈ: 5713
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب: استعاذہ (اللہ تعالی کے حضور پناہ طلبی)

منصنف: شہید محراب حضرت آیت اللہ سید عبد الحسین دستغیب شیرازی

مترجم: سید غضنفر حسین البخاری

تعداد: ۵۰۰۰

طع اول: محرم الحرام ۱۲۰۷ ہجری

ناشر: سازمان تبلیغات اسلامی روابط بین المللی

بسم اللہ الرحمن ارحیم

مقدمہ:

حقیقی پنا صرف وہی دے سکتاہے جو خود نجات یافتہ ہو.

حضرت شیہد محراب جناب آیت اللہ دستغیب کی یہ بے مثال تصنیف استعاذہ کے عنوان سے پیش خدمت ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے شیطان لعین کے شر سے خدا ئے تعالی کے حضور پناہ طلبی اس کا موضوع ہے بے مثال تجرہ علمی اور آیات و اخبار پر کامل دسترس کے بل پر اہل بیت اطہار(ع) کی روایات صحیحہ کے حوالوں سے آپ نے صرف اسی ایک موضوع پر پینتیس مجالس ارشاد فرمائی ہیں استعاذہ کی حقیقت و اہمیت اس کے معنی و مفہوم اور اس کے ارکان پنجگانہ تقوی،تذکر،توکل،اخلاص اور تضرع پر اپ کے یہ ایمان افروز خطبات بڑے دلچسپ اور فکر انگیز ہیں اور بہت سے بصیرت افروز اور روشن نکات کے ححامل ہیں استدلال میں آپ نے آیات و اخباار و حکایات سے بکمال خوابی و خوش اسلوبی استفادہ کیا ہے اور حقائق کو بڑی سلیس اور سادہ زبان میں پوری تفصیل سے ایسے انداز میں بیان فرمایا ہے کہ ہر ذہن بآسانی سمجھ لے.

لیکن جو حقیقت خاص طور پر قابل توجہ اور غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ آپ کس طرح اور کیونکر اپنی زندگی میں اس قدر مرجع خلائق تھے کہ بوقت شہادت بھی اور اس کے بعد بھی دنیاآپ کے لئے سوگ نشین ہوئی اور سب نے آپ کے فراق میں نوحہ خوانی- اور آپ کی عظیم تصنیفات کو پھول کی پتیوں کی صورت خریدا اور دوسروں کو ہدیہ کیا.در اصل آپ خود صحیح معنوں میں استعاذہ پر عمل پیرا تھے عمر بھر آپ نے نفس امارہ اور ہوائے نفسانی کے خلاف مجاہدہ کیا اور ملکات فاضلہ کے حصول کے لئے جدوجہد کی،شیطان ملعون کے ساتھ طولانی جہاد میں مصروف رہے اور بالآخر اس پر فتحیاب ہوئے یہی وجہ ہے کہ آپ نہایت ہی دل نشین اور موثرانداز میں شیطان خبیث کی شناخت کرواتے ہیں اور انسان کو اس کے دام تزویر سے رہائی پانے کی کامیاب تدابی راو خود کو اس کے شرسے محفوظ رکھنے کے لئےاللہ تعال کی پناہ طلب کرنے کے مفصل طرق و اطوار بتاتے ہیں یہ کتاب اس مقدس بزرگ کے متبرک ترین آثار میں یے ہے جسے خاص و عام نے متعدد جریدوں اور مجلوں میں بے دریغ خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کتاب کے مضامیں فکر انگیز روایات اور دلکش حکایات سے مزین و مرضع میں.ان کی وجہ سے قاری کو تھکن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اس کے انہماک و اشتیاق میں اضافہ ہوجاتاہے.

مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ جب ایک فلم بردار اپ کی کسی کتاب کے آفسٹ کے لئے اس کی فلم بنانے لگا تو اس کے مطالعہ میں کھوگیا خود اس کا بیان ہے کہ: مطالعے کخ دوران دفعتاً مجھے احساس ہوا کہ سٹڈیوبند کرنے کا وقت ہوگیا ہے در آنحالیکہ میں نے ایک صفحے کی بھی فلم نہیں لی تھی. اس کے بعد بھی کبھی دوران فلم بندی میری نظر کسی مضمون پر پڑگئی تو وہیں تک گئی اور پھر مجھے احساس نہ رہا کہ میںن کتنی دیر اس کے مطالعے میں محور ہا.

اےت رب غفار!ان کی روح کو اپنی رحمت کے سایہ میں رکھ اور ان کے نواسہ عزیز کی روح کو ان کے جملہ شہید رفقاء کے ساتھ غریق رحمت فرما-

۵/۱۳۶۰ شمسی ہجری

مطابق ۲۴/۲/۱۹۸ میلادی

سید محمد ہاشم دستغیب

مجلس ۱

( بسم الله الرحمن الر حیم.وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ. وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ) ‏-(۲۳/۹۸)

قرآن و اخبار میں استعاذہ کی اہمیت:

قرآن مجید اور اخبار اہل بیت رسول(ص) میں موضوع پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے وہ استعاہ ہے یعنی شیطان لعین کے شرسے اللہ تعالی کے حضور پر پناہ طلبی جو اعوذ بااللہ من الشطیطان الرجیم کے مقدس الفاظ سے کی جاتی ہے لیکن یہ نہایت ضوری ہے کہ قلب انسان ہمیں سچی کیفیت اس کے لئے پیدا ہوتا کہ اسے صحیح معنوں میں استعاذہ کہا جاسکے.

استعاذہ کی اہمیت واضح کرنے کے لئے اللہ تعالی نے کلام پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

( فَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِیم ) ‏”

(پس حب تو قرآن پاک کی تلاوت شروع کرلے تو شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے)

نماز میں تکبیرة الا حرام کے بعد بھی استعاذہ کا حکم وارد ہواہے لیکن وہاں اسے آہستہ پڑھنا چاہئے مفسرین کرام نے آہستہ خوانی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ پناہ طلب اس شخص کی مانند ہے جو موقعہ سے فرار کرکے خود کو پوشیدہ رکھنا چاہتاہے، اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ اسے پناہ طلب !تو اپنے عدوئے مبین سے حالت فرار میں ہے جوکہ ہ رلحظ تیری گھات میں ہے پس اپنے آپ کو حتی الامکان اس سے پوشیدہ رکھ کر آاہستگی سے عظیم پناہ کا دروازہ کھٹکھٹا.

عبادت کی ابتدا میں استعاذہ:

استعاذہ کا ایک نہایت ضروی وقت عبادت کی ابتداء کا ہے.انسان جو بھی عبادت کرے اس پر لازم ہے کہ شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ مانگ لے کیونکہ جوجنس بشر کے ہر فرد کو گمراہ کرنے کے لئے ہر۳وقت گھات میں ہے.انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ انسان کے عمل خی رکو برباد کرے اور یا تو اسے پوراہی نہ ہونے دے کہ وہ اس کے ثواب سے محروم رہے اور یا کم از کم عبادت کے بارے میں اسے ریاء و غرور میں مبتلا کردے.

مثلاًآپ نے چاہا کہ وضو کریں تو آپ پر لازم ہے کہ پہلے استعاذہ کریں،ابلیس لعین سے خدا کی پناہت مانگیں. اس کے بعد وضو کریں آپ نے بارہا دیکھا ہے کہ یہی وضو شیطان کی بازی گاہ بن گیا کیونکہ بعض اوقات ان وسوسوں کی وجہ سے جو وہ انسان کے دل میں ڈالتاہے، ساری کی ساری عبادت اکارت ہوجاتی ہے اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے.

غرضیکہ استعاذہ امور عبادی میں سے ہے جنہیں صحیح معنوں میں اور کماحقہ بجالانے کے لئے ضروری ہے کہ شیطان ملعون کے شراور اس کے عمل دخل سے اللہ تعال کی پناہ حاصل کر لی جائے.

مباح امور میں استعاذہ کی تاکید:

مباح امور مثلاً کھانے پینے اور پہنے و غیرہ میں بھی استعاذہ کا حکم ہے اور ہر عمل کے لئے مخصوص دعائیں منقول میں مثلاً لباس پوشی کے وقت کہے:

اللَّهُم‏ اسْتُرْ عَوْرَتِی وَ لَا تَجْعَلْ لِلشَّيْطَانِ فِیهِ نَصِیبا

(خداوند میری جائے ستر کو پوشیدہ رکھ اور اسے شیطان کے عمل دخل سے محفوظ فرما)

ہر پست و ذلیل اور ہر بلند و عزیز مقام پر شیطان سے پناہ مانگنی چاہئے اگر مسجد میں جائیں تو استعاذہ کریں کہ مبادا یہ دشمن عنید و ہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑے حتی کہ یہ بیت الخلال جاتے وقت بھی استعاذہ کی تاکید وارد ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں،

اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخَبِیثِ الْمُخْبِثِ الرِّجْسِ النِّجْسِ الشَّيْطَانِ الرَّجِیم

(پروردگار میں شیطان خبیث و خباثت کار نجس و پلید سے آپ پناخ مانگتاہوں)

شیطان مسجد کے دوازے پر:

ایک متقی شخص کا بیان ہے: میں نے مکاشفہ میں شیطان لعین کو مسجد کے دروازے پر کھڑاپایا میں مے اس سے کہا:اے ملعون ازل یتو یہاں کیا کررہاہے؟اس نے جواب دیا:میرے ساتھی ادھرادھر ہوگئے ہیں،ان کا انتظار کرتاہوں.

میں سمجھ گیا کہ صاحبان عقل و شعور ہوں گے کر یہ ملعون کے ساتھ نہیں جاسکا.اور اتنی احتیاط انہوں نے ضرور کی ہوگی اور مسجد پر استعاذہ کیا ہوگا.

گھرسے نکلتے وقت استعاذہ :

پس استعاذہ ہرحال میں لازم ہے جب آپ گھر سے باہر جارہے ہوں تو شیاطین دروازے پر آپ کے منتظر ہوتے ہیں اس وقت آپ استعاذہ کیجئے اور یہ داعائے ماثور پڑھئے:

بِسْمِ اللَّهِ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ

(اللہ تعال کے نام سے اور اسی کی توفیق سے میں اپنے کام سے جارہاہوں میرا اس ذات اقدس پر ایمان ہے اور اسی پر بڑ توکل ہے اور کوئی بھی طاقت وقوت اس ذات بزرگ و بر تر کے سوا(امور کائنات کی مدبر و مدیر نہیں.)

کلام پاک میں تاکیداً ارشا ہواہے:

إِنَّهُ يَراكُمْ هُوَ وَ قَبیلُهُ مِنْ حَيْثُ لا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّیاطینَ أَوْلِیاءَ لِلَّذینَ لا يُؤْمِنُونَ

‏(شیطان اور اس کے قبیلہ والے تمہیں دیکھ رہے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھ رہے ہو بیشک ہم نے شیاطین کو بے ایمان انسانوں کا دوست بنادیا ہے).

شیطان ملعون سے صرف ایک چیز اپ کو بچاسکتی ہے اور وہ استعاذہ ہے اللہ تعاليٰ کی پناہ کے علاوہ اس سے محفوظ رہنے کی اور کوئی راہ نہیں.

اس شخص کی طرح جوکسی بڑے آدمی کے خمیہ پر آنا چاہ رہاہوں جس کے دروازے پر ایک خونخوار کتابیٹھا ہے جو آپ کو اندر نہیں جانے دے رہا آپ کا فرض ہے کہ صاحب خیمہ سے پاناہ طلب کریں کہ میں آپ کی خدمت میں حاضرہونا چاہتاہوں براہ کرم اس جان لیوارکاوٹ کو دور فرمائیے۔یہ بہر حال ایک مثال تھی جوبیان کی گئی۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو استعاذہ کا حکم:

انسان تو بھی چاہتاہے کہ بارگاہ قدس تک رسائی حاصل کرلے درآنحالیکہ شیطان کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ توہاں تک پہنچنے پائے وہ تیرے کام میں اس قدر خرابی اور رکاوٹ ڈالتاہے کہ تیرے لئےاپنی منزل مقصودتک رسائی محال ہوجاتی ہے اس صورت سے نجات کی واحد صورت خداسے استعاذہ ہے.

اللہ تعالی نے بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا:

( وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ. وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ) ‏ اور کہئے اے حبیب:صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :“اے اللہ میں شیطانوں کے وسوسوں اور قلب وروح پر ان کے دور و تسلط سے تیری پنان طلب کرتاہوں”۔

اسی طرح سورۀ معوذتین میں( قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ، مَلِكِ النَّاسِ ، إِلهِ النَّاسِ ، مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ ،الَّذِی يُوَسْوِسُ فِی صُدُورِ النَّاسِ ، مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ ) فرمایاہے۔

پس جب دشمن اس قدر جری اور قوی ہو تو آپ کو اور مجمے آرام نہیں کرنا چاہیئے اور اس سے غافل نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اپنے تمام قويٰ کو مجتمع کرے اس سے بچنے کی تدبیر اللہ تعاليٰ کی پناہ میں رہ کرکرنی چاہیئےورنہ دفعتاً آپ محسوس کریں گے کہ جس آستانہ پرآپ مدتوں سراطاعت وعقیدت خم کئے پڑے رہے وہ تو شیطان کا ہے جسے آپ نادانی اور بخیبری سے اللہ کا سمجھتے رہے اس مدت میں آپ پکارتے تو آپ خداکو تھے لیکن در اصل مخاطب آپ کا شیطان تھا منہ سے تو آپ یا اللہ کہتے تھے لیکن اطاعت آپ کی شیطان کی تھی۔

پوری عمر شیطان کی تھی:

منتخب التواریخ میں ایک حکایت نقل کی گئی ہے ،میرے استاد مرحوم سید علی الحائری نے اپنے ایک درس می فرمایا:“اصفہان کے کس گاؤں میں ایک مریض حالت نزع میں تھا گاؤں کے زاہد عالم سے درخواست کی گئی کہ اس کے سراہانے آکر تلقین کریں تلقین کے دروان جب وہ مریض“لاالہ الااللہ” کہہ کر خداے تعاليٰ کی وحدانیت کی شہادت دیتاتھا تو کمرے کے گوشے میں آوازآتی تھی،“صدقت عبدی”میرے بنے تونے سچ کہا،اور جب وہ یا اللہ کہتا تو کونے سے آوازآتی“لبیک عبدی”میرے بندے میں حاضرہوں۔عالم نے پوچھا:“اے صاحب آواز توکون ہے؟توجواب میں آواز بولی:

“میں اس کا معبود ہوں جس کی اس نے ساری عمرپرستش کی ہے میں شیطان ہوں”۔

جی ہاں حقیقت یہی ہے کہ اس کا معبود شیطان ہی تھا جس کی ہرصدا پر اس نے لبیک کہا صبح وشام اسی کے حکم پر ناچتا رہا زبان اس کی اسی کی تلقین سے گویا تھی آنکھ اس کی اسی کے ارادے سے دیکھتی تھی اور دل اس کا اسی کی خواہیش پر عمل پیرا تھا ساری عمر جب وہ اسی حالت میں رہاتو اب وہ “یارب” کہے یا “یاابلیس”مخاطب اور مجیب اس کا شیطان ہی ہوگا اور اگر دم نزع پر پردہ اٹھ بھی گیا تو سوائے حسرت وحرمان کے کیا حاصل ہوسکتاہے اور افسوس و ندامت کا کیافائدہ ہے،!۔

اہل ایمان کو شش کیجئے کی استعاذہ پر عمل پیرارہیں دشمن کو کمزور،اور اس کے کام کو معمولی نہ سمجھئے یہ خیال نہ کیجئے کہ “اغوذ باللہ من الشیطان الرجیم”کے الفاظ اداکردینا کافی ہے یادرکھئے کہ جب تک آپ ان کلمات کی حقیقت پر عمل پیرانہیں ہوں گے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

حکومت- نامحرموں سے خلوت- غصہ:

روایات اہل بیت علیہم السلام میں چند مواقع پراستعاذہ کی خصوصی تاکید وارد ہوئی ہے:

۱- قضاوت: قاضی کے لئے فریادرسی اور انصاف کے نازک موقعہ پر استعاذہ کے بغیر چارہ نہیں ۔

۲- خلوت یانامحرم:پرائی عورت کے ساتھ خلوت اتنانازک اورخطرناک موعقہ ہوتاہے کہ شیطان خواہ مخواہ سلط ہوجاتاہے اور ایسے انداز میں ظاہر ہوکر وسوسہ انداز ہوتاہے کہ انسان چاہ ہلاکت میں گرجاتاہے۔

۳- قضاوت اور خلوت یانامحرم تو اتفاق کی بات ہے لیکن غیظ وغضب کی حالت انسان کے لئے سخت ابتلاء کا وقت ہوتا ہے جب انسان غضبناک ہوتاہے تو اس کے خون میں جوش آتاہے اور شیطان پوری قوت سے اس پر سوار ہوجاتاہے۔

چونکہ شیطان اپنی خلقت کے اعتبار سے آتشی اور لطیف ہے لہذا بجلی کی سی قوت و سرعت سے انسان میں نفوذ کرجاتاہے۔

آپ اسی مثال سے جوشیطان نے حضرت نوحعليه‌السلام سے بیان کی ،حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے شیطان کے الفاظ یہ ہیں:غیظ وغضب کے وقت انسان کی میرے ہاتھ وہ حالت ہوتی ہے جوبچے کے ہاتھ میں گیند کی ہوتی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ بچہ گیند کو جس طرح چاہیئے ،جس طرف چاہیئے بآسانی پھینکتاہے اسی طرح شیطان بھی انسان پر غیظ وغضب کے عالم میں ایسا مسلط ہوجاتاہے کہ اس سے ہرحرام کام کرواتاہے اور تعجب نہیں اگر اس کے زیر اثر انسان سے کفر بھی سرزدہوجائے ۔اس خطرناک صورت احوال سے صرف وہ خوش قسمت افراد بچ سکتے ہیں جن پر اللہ تعاليٰ کی نظر خاص ہو۔

مجلس ۲

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏،وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ. وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ‏ ) (۲۳؛ ۹۸)

شب گذشتہ کی گذارشات کا خلاصہ یہ ہوا کہ مومنین کو چاہیئے کہ مسئلہ استعاذہ کو اہمیت دیں اور نص قرآنی کے مطابق ہر حال میں شیطان کے شرے سے اللہ تعاليٰ کی پناہ مانگیں کیونکہ انہوں نے نہ کبھی انسان کو اس کے اپنے حال پر آزاد چھوڑا ہے اور نہ کبھی چھوڑیں گے ان کی انتہائی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انسان سے فعل خیرسرزد نہ ہو اور اگر کبھی وہ اس کی کوشش کرے تو اسے ناکام بندیں اور اسے خراب کرکے تکمیل تک نہ پہنچنے دیں۔

بعض مواقع پر ان کی یہ کوشش بہت ہی سخت ہوتی ہے اور بالخصوص تین مواقع ،قضاوت ،خلوت بانامحرم اور غیظ وغضب پر تو،جیسا کہ شب گذشتہ مثالوں سے واضح کیاگیا،وہ ہر ممکن طریق سے انسان کو تباہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

دام شیطان:

آج رات تین مزید اعمال خیر،عہد،نذر اور صدقہ کا ذکرکیاجائے گا جن کی انجام دہی میں شیطان فریب واغوا کی پوری توانائیوں کے ساتھ رخنہ انداز ہوتاہے۔

اگرکوئی شخص اللہ تعاليٰ سے کسی عمل کے کرنے یا اسے ترک کردینے کاعہد کرے یا ایسی نزر مانے جوفقہی اعتبار سے کتب اعمال میں مذکور شرائط صحت پوری اترتی ہو تو شیطان ہر ممکن طریقے سے اسے بار رکھنے کی سعی کرتاہے اور اس کی شکست کے لئے سرتوڑکوشش کرتاہے۔

اسی طرح جب کوئی راہ خدامیں صدقہ دینا چاہتاہے توشیطان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ صدقہ نہ دے سکے کیونکہ مومن کے صدقہ دینے سے شیطان کی کمر ٹوت جاتی ہے چنانچہ اخبار میں آیاہے کہ جونہی کوئی مومن صدقہ دینے کے ارادے سے اپناہاتھ جیب کی طرف لے جاتاہے تو شیطان ستر۷۰ چلیے اس کے ہاتھ سے چمٹ جاتے ہیں اور ہر ممکن وسوسہ سے اسے بازرکھنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی وہ جب تنبیہ خداوندی( الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشاء ) شیطان تمہیں غریبی اور مفلس سے ڈراتاہے اور فواہش کے ارتکاب پر اکساتاہے۔

آپ کو اس بات سے ڈرائیں گے کہ صدقہ کی یہ رقم دے دینے کے بعد آپ مفلس ومحتاج ہوجائیں گے او رکبھی یہ وسوسہ آپ کے دل میں ڈرالےگاکہ اس کے بعد اگر کوئی ضروری ترموقعہ خرچ کرنے کا آگیا تو آپ پیسے کہاں سے لاائیں گے لہذا اس صدقہ سے بازرہے غرضیکہ اس کی انتہائی کوشش یہ ہوگی کہ آپ راہ خدا میں کوئی پیسہ خرخ نہ کریں۔

صدقہ کرکے اسے جتاؤنہیں:

اور اگر آپ نے صدقہ دے ہی دیا تو اب شیطان کی ہر ممکن کوشش یہ ہوگی اس کو کسی نہ کسی طرح سے باطل کردے اور اس کا ثواب آپ کو نہ مل سکے چنانچہ آپ کو احسان جتانے پر اکسائے گامثلاًآپ کے دل میں ڈالے گا کہ آپ صدقہ کرنے والے سے کہیں:“یہ میں ہی تھا جس نے رحم کھاکر اس آڑےوقت میں تمہاری مدد کردی ورنہ کوئی دوسراتمہاری دستگیری نہ کرتا”اورآپ ی زبان سے کہلواکرصدقہ وصولت کرنے والے کو ذہنی اذیت دلائی کہ اب تویہ لے لولیکن آیندہ کے لئے اس کامت سے بازآو... اور دوبارہ میرےپاس نہ آنا وغیرہ.

چنانچہ کلام پاک میں واضح ارشاد ہے کہ( لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْأَذى‏ ) اپنے صدقہ کو احسان جتاکر اور ذہنی اذیت دیکر باطل نہ کرو.

بہرحال چونکہ آپ کادشمن ازلی شیطان یہی چاہےگا کہ آپ کاکارخیربےاثر ہوجائے لہذا آپ کو بھی اس کی منحوس کوشش کوباطل کرنے کی سعی بلیغ کرنی چاہیئے.

شیطان کی نظردل پر ہے:

سب تفاسیر میں خصوصاًمجمع البیان میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ شیطان ہمیشہ مومن کے دل پر نظر رکھتاہے اور جب اسے عبادت خدا میں مصروف پاتاہے تو فرارکرجاتاہے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاارشاد ہے:“ إن الشّیطان واضع خطمہ على قلب ابن آدم. فإذا ذکر اللّہ خنس، و إذا نسی التقم قلبہ، فذلک الوسواس الخنّاس”. شیطان نے انسان کے دل پر نکیل ڈالی ہوئی ہے لیکن جب انسان اللہ کاذکر کرتاہے توشیطان وہاں سے کھسک جاتاے لیکن جب انسان اللہ کاذکر بھلادیتاہے توت شیطان اس کے دل کو نگل لیتاہے.

ان الشیطان یلتقم الی قلب المومن فاذا ذکر لله هرب ” شیطان مومن کے دل کو نگل لینے کا ارادہ کرتاہے لیکن جب مومن اللہ کاذکرکرتاہے توشیطان بھاگ جاتاہے.

غرضیکہ شیطان آخردم تک انسان کا پچھیا نہیں چھوڑتا اس موضوع کو کلام پاک نے بھی بڑی اہمیت دی ہے اور انسان سے عہدلیاہے کہ وہ شیطان کی پیروی سےبازرہےگا اللہ تعاليٰ نے واضح الفاظ میں شیطان کو انسان کاکھلا دشمن قرار دیاہے کلام پاک میں ارشاد ہے:( أَ لَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ یا بَنِی آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِین‏ ) اے اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کِھلا ہوا دشمن ہے.

اللہ تعاليٰ نے انسان کو اپنے ازلی دشمن کی دوستی سے منع فرمایاہے اور اس کی پیروی کے خلاف اسے خبردار کیاہے.

شیطان کیاہے وہ کیوں پیداکیاگا:؟

دوموضوع ہمیشہ سے مورد بحث چلے آئے ہیں ایک یہ کہ شیطان کون ہے اور کیاہے اور اس کی خلقت میں کیا حکمت ومصلحت پوشیدہ ہے اور دوسرایہ کہ اس کے ہتھکنڈوں اور وسوسوں سے بچنے کی کیا صورت ہے.یہ دونوں بحثیں تفصیل طلب ہیں اور ان کے جوعلمی جواب دئے گئے ہیں وہ عوام کے لئے مفید نہیں ہیں اور چونکہ تفصیل ان کی کچھ مفید نہیں لہذا مختصر اًان کے جواب دے جاتے ہیں.

شیطان شناسی کاکیافائدہ ہے:

محققین کے بقول اگر کسی سچے مخبر نے آپ کو خبردی کہ آج رات مسلح چوروں کا ایک گروہ آپ کے گھر میں نقب لگائے گا آپ کے گھرویران کردے گا .آپ کا مال و دولت لوٹ لے گا اور آپ اور آپ کے اہل خاندان کو ہلاک کرے گا تو اگر آپ صاحب عقل وشعور ہوں گے تو اپنے کچھ حامی تلاش کریں گے دروازوں کو مضبوط و مستحکم کریں گڈ جن راہوں سے ان چوروں کے آنے کا اندشیہ ہو ان میں رکاوٹیں کھڑی کرں گے اور موچہ بندی کریں گے لیکن بصورت دیگر آپ صرف یہی پوچھنے پر اکتفاء کریں گے کہ یہ چورکون ہیں کہاں کے رہنے والے ہیں کیسا لباس پہنتے ہیں بوڑھے ہیں یاجوان ان کی نفری کتنی ہے وہ لُرہیں یا ترک...؟ توجب تک آپ کی یہ تحقیقا مکمل ہوگی،وہ لوگ اپناکام کرچکے ہونگےجوچیزآپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ شیطان سے بچنے کی راہ تلاش کریں اب اس کی خلقت کی کیفیت کیاہے اور اس کی وسوسہ اندازی کے انداز و اطوار کیا ہیں یا اس کی خلقت کی حکمت ومصلحت کیاہے،ان باتوں سے آپ کوکیامطلب ہے؟ آپ پرصرف یہ فر ض عائد ہوتاہے کہ اس سے بہر صورت بچیں.

اور اب جبکہ مخبر صاقد نے خبردے دی ہے کہ آپ کا دشمن ازلی دشمن شیطان آپ کی گھات میں ہے آپ کو چاہیئے کہ بے فائدہ باتوں میں وقت ضائع نہ کریں او راس سے نجات کاکوئی حیلہ تلاش کریں لیکن چونکہ اس قسم کے سوالات عموما ہوتے رہتے ہیں، ان کا جواب مختصراًپیش خدمت ہے.

شیطان آگ سے خلق ہواہے اورلطیف مخلوق ہے:

انسان اگرچہ چار عناصر ،آگ،پانی،مٹی،ہوا سے خلق کیاگیاہے لیکن اس کا خاکی جنبہ دوسرے تین جنبوں سے مقدار میں زیادہ اور ماہیت میں قوی ترہے اس لئے ثقل رکھتا ہے اور وزن دار ہے اور اسی وجہ سے اس کے ادارکات اور قوت عمل بہت محدود ہے.

اس کے برعکس شیطان کی خلقت میں آگ اور ہواکاعنصر غالب ہے اس لئے اس کی ساخت بہت لطیف او ردائرہ تصرف اس کا بہت وسیع ہے.

انسان خود کو بڑی طاقت اور قدرت ولاسمجھتاہے لیکن شیطان کو ایسی قدرت حاصل ہے کہ مثلاً وہ اپنے بدن کو اتنا چھوٹاکرسکتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے سوراخ میں داخل ہوسکیں یااتنا بڑابناسکتے ہیں کہ وسیع جگہ پر محیط ہوجائیں وہ فاصلے جن کو انسان ایک ماہ میں بمشکل طے کرسکتاہے وہ ایک لحظ میں طے کرلیتے ہیں اورجن چیزوں کے اٹھآنے پر انسان ہرگز قادر نہیں ہوسکتا وہ بآسانی اٹھالیتے ہیں.

سورہ نمل میں اللہ تعاليٰ نے قصہ سلیمان اور تخت بلقیس کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایاہے:( قالَ عِفْریتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتیكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ وَ إِنِّی عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمین‏ ) تو جّنات میں سے ایک دیو نے کہا کہ میں اتنی جلدی لے آؤں گا کہ آپ اپنی جگہ سے بھی نہ اٹھیں گے میں بڑا صاحبِ قوت اور ذمہ دار ہوں.

شیطان آپ کو دیکھتاہے:

پس یہ اغراض کہ اگرشیطان موجود ہے تو ہم اس کو کیوں نہیں دیکھ سکتے بے جاہے،آپ کی آنکھ صرف کثیف جسم کودیکھ سکتی ہے،لطیف چیزکونہیں آپ ہواکو نہیں دیکھ سکتے،اس کی لہروں کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ لطیف ہیں آپ کی آنکھ خاکی ہے او رصرف مجسم اشیاء ہی کو دیکھ سکتی ہے اسی لے کلام پاک میں ارشاد خداوندی ہے:( إِنَّهُ يَراكُمْ هُوَ وَ قَبیلُهُ مِنْ حَيْثُ لا تَرَوْنَهُم‏‏ ) وہ اور اس کے قبیلہ والے تمہیں دیکھ رہے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھ رہے.

ہاں بعض اوقات شیاطین اپنے آپ کو مجسم بھی کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے انسان انہیں دیکھ سکتاہے چنانچہ بہت سے انبیاء مثلاً حضرت نوحعليه‌السلام ،حضرت یحییعليه‌السلام اور جناب خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بعض دوسرے صالح بندوں نے شیطان کو دیکھا ہے اور اب بھی دیکھتے ہیں.

شیطان کی خلقت اور انسان کی سعادت:

جہاں تک اس کی خلقت کی حکمت کا تعلق ہے خالق علیم وحکیم جس چیزکی بھی تخلیق کاارادہ فرمائے ،درست ہے چنانچہ اس میں وہی حکمت کار فرماہے جو تخلیق بنی آدم اور حیوانات میں کار فرما ہے خواہ ہم اس کو سمجھیں یا نہ سمجھیں.

شیطان کی تخلیق میں بھی بڑی حکمت ہے لیکن اس کی تفصیل بہت علمی اور طولانی ہے او رعوام کو سمجھنے کی نہیں،جوکچھ امکانی طورپر بیان کیا جاسکتاہے وہ یہ ہے کہ:

تخلیق شیاطین کی حکمت ومصلحت اتنی ہی کافی ہے کہ انسان کی سعادت بھی ظاہر ہوسکے اور اس کی بدبختی بھی آشکار ہوسکے اور اس کے داخل بہشت ہونے یا واصل جہنم ہونے کا استحقاق بھی واضح ہوسکے.

خدانے حکم دیا صدقہ دو،شیطان کہتاہے نہ دو اگر دو گے تو تمہارا مال کم ہوجائے گا آگر آپ صاحب عقل ورشد ہیں اور صاحب ایمان وعزم ہیں تو اس منہ پر تھوکیں گے کہ ملعون !اللہ تعاليٰ توفرماتاہے صدقہ دو،مال میں برکت کاباعث ہے،تمہارے مال میں واقع ہونے والی کمی کو ہم پورا کریں گے( وَ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَ هُوَ خَيْرُ الرَّازِقِینَ‏ ) اور تم جو کچھ خرچ کروگے ہم پوار فرمائیں گے ہم( خَيْرُ الرَّازِقِینَ ) ہیں.!

اگر آپ عزم واستقلا میں پہاڑکی طرح مستحکم ہوں گے تو عقل ورشد آپ ا س مقام پر ثابت ہوجائے گا لیکن اگرخدانخواستہ کم عقل وضعیف العزم ہوں گے تو ایک ہی شیطان وسوسہ آپ کے قدم اکھیڑدے گا.

یہ شیاطین کی تخلیق کی برکت ہی ہے کہ اس سے سعادتمندوں کی سعادت اور اصحاب عقل و تمیز کی معقولیت نکھرکر سامنے آتی ہے.

شیاطین کی تخلیق کا مقصد انسان کی آزمائش ہے:

ہم سب خداوآخرت کا ذکر کرتے ہیں لیکن ہم دل سے ان پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں یہ صرف شیاطین ہی ہیں جہن کے ذریعے ہمارے جھوٹ کی ہمارے سچ سے تمیز ہوسکتی ہے.

اگر آپ اللہ کا نام پورے ایمان سے لیتے ہیں تو پھر اس کے وعدے پر کیوں ایمان نہیں رکھتے ،اگر خدانخواستہ آپ نے شیطان کے وسوسے کو قبول کرلیا تو آپ صرف زبان کے مومن ٹھہرے اگر آپ واقعی بہشت پر ایمان رکھتے ہیں تو اس کو خرید اور اس کے اہل بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے اور جہنم سے بچنے کی تدبیر کیوں نہیں کرتے.

( وَ ما کانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُلْطانٍ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْها فی‏ شَكٍّ ) اور شیطان کو ان پر اختیار حاصل نہ ہوتا مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہے.

آپ دیکھتے ہیں کہ فلان خاتوں دیندار کی مدعی ہے ایک شیطان بصورت انسان اس تک پہنچتاہے اور کہتاہے کہ:وہ آپ بمی خرافاتی اور دقیانوسی ہوگئی ہیں کہ اتنی بڑی چادر سرپر اوڑھ رکھی ہے؛اورجب آپ دوسری بار اسے دیکھیں گے تو مردوں سے کچھ مختلف نظرنہ آئے گی شیطان کے اسی قسم کے وسوسوں اورتمسخرسے انسان گمراہ ہوجاتاہے.

یقیناً شیاطین کی خلیق کا مقصد یہی ہے کہ معلوم ہوجائے کہ کون صاحب عزم واستقامت ہے اور کون نہیں اس کی تخلق کی سب سے بڑی حکمت مومن وفاجر کی تمیزہے.

اللہ کا وعدہ اور شیطان کاوعدہ:

انسان کیونکہ شیطان کے وعدے کو اہمیت دیتاہے اس کی اسی قسم کی وسوسہ اندازی کی وجہ سے کہ خداکی راہ میں خرچ نہ کر وغریب ہوجاؤں گے اور اگر اس ضروری ترموقعہ خرچ کرنے کا پیش آیاتوکیا کروگے؟

لیکن خداکے وعدے کوانسان ایک غیرمحسوس وعدہ سمجھتاہے کہ خدا کی راہ میں ایک روپے تک خرچ نہیں کرتا لیکن شیطان کی خدمت میں اس کی طرف سے اپنی معمولی سی مدح ثنا پر اور اخبارات یاریڈیوپر اپنانام سن کر ہزاورن روپیہ ہدیہ کردیتاہے.

خدا کے ساتھ معاملے میں توجب وہ فرماتاہے کہ اپنے غریب ہمسائے کے ساتھ اپنے مفلس رشتہ دار کے ساتھ نیکی کرو ارو اس کی مالی مددکرو،ہم کہتے ہیں کہ ہماری مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی ،لیکن اگر معاملہ شیطان کے ساتھ ہو اور خالص دنیاوی ہو تو کس طرح دوسروں سے بڑھ چڑھ کر خرچ کرتے ہیں.

صدائے رحمانی اور صدائے شیطانی:

شیطان انسا ن کے امتحان کے لئے خلق فرمایاگیاہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیئے وہ سینما بھی کھولتاہے اور انسانی شیطانوں کی تربیت بھی کرتاہے اور اس طرح وہ اس حیوان دوپایہ کو اپنے دام فریب میں پھنساتاہے.

کیاسینما کے برابر میں مغرف کے وقت اللہ تعاليٰ کاوعدہ بخشش “حی عليٰ الفلاح”کے الفاظ میں بلندنہیں ہورہا؟

یہ دونوں منظر ساتھ ساتھ ہونے ہی چاہتیں تاکہ “لیمیز الله الخبیث من الطیب ”نیکوکار کی بدکردار سے تمیز ہوسکے.کل ہی محشربپا ہوگا جس کے لئے ثواب وعقاب کی بیناد اور استحقاقات کی فراہمی آج مرتب ہونی چاہیئے.

شیطان کسی کو مجبور نہیں کرتا:

لیکن شیطان کسی کو طاقت سڈ حرام کاری پر مجبور نہیں کرتا اور کسی کے اختیار پر اس کا کوئی قابو نہیں یعنی وہ اس قدر قدرت نہیں رکھتاکہ اسنان کے عزم کواپنا محکوم بنالے“وماکان لی علیکم من سلطان”مجھے تم پر کوئی حکومت حاصل نہ تھی۔اس کا کام صرف وسوسہ و تحریک ہے اگر کوئی مسجد میں آتاہے تو اپنے اختیار اور مرضی سے آتاہے اور جوسینماجاتاہے وہ بھی اپنی مرضی ہی سے جاتاہے وہ تجھ پر حاکم نہیں ہے کہ تجھے مجبور کرے بلکہ خود تو اپنے پاؤں سے جہاں چاہتاہے جاتاہے۔

یہ قصور تیراہے کہ اس کے فریب ووسوسہ کاشکار ہوجاتاہے اور کل قیامت کے روزجب لوگ اس کے گرد جمع ہونگے اور اس سے جھگڑیں گے تووہ بالکل عقلی اور منطقی جواب دیگا اورکہے گا:میں تمہیں کھنیچ کردوزخ میں نہیں لے گیامیں نے صرف تمہیں دعوت گناہ دی تھی اور وسوسے میں مبتلاکیا تھا یہ قصور تمہارا ہے کہ تم نے دعوت قبول کی اب مجھے ملامت کیوں کرتے ہو اپنے آپ کو ملامت کرو میری تم پر کوئی حکومت توتھی نہیں کہ تمہیں مجبور کرتا۔

وَ ما کانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطانٍ إِلاَّ أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لی‏ فَلا تَلُومُونی‏ وَ لُومُوا أَنْفُسَكُم‏

مجلس۳

( بسم الله الرحمن الر حیم.وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ. وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ) ‏-(۲۳/۹۸)

ابلیس کی حاسدانہ روش:

شیطان حاسد ہے چونکہ خود درگاہ خداوندی سے اند ہ جاچکا ہے اس لئے برداشت نہیں کرسکتاکہ انسان کو مقام قرب الہيٰ تک پہنچا ہوادیکھے وہی بشر جسے یہ ملعون حقیر جانتاتھا اور ارزوئے تفاخر واستحقا رکہتا تھا۔

( خَلَقْتَنِی مِنْ نارٍ وَ خَلَقْتَهُ مِنْ طِین‏ ) مراز آتش اور ا زخاک آفریدی

تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں خاک سے بنایا ہے.اور آگ مٹی سے برترہے (اس لئے تیرامجھے اس کے لئے سجدے کا حکم انصاف پر مبنی نہیں).

لیکن وہی بشر ایسے مقام تک رسائی حال کرتاہے جہاں سے اس بدبخت کودھتکار دیاگیا اورکہا گیا:( فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِیها فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِین‏ ) نکل جا یہاں سے کہ تو پست و ذلیل ہے تجھے یہاں بڑائی جتانے کا کوئی حق نہیں۔

انسان چاہتاہے کہ عبادت کے ذریعے سے مقام قرب خداوندی حاصل کرلے لیکن شیطان اپنے پورے قويٰ و وسائل اور پوری توانائیوں کے ساتھ یہ کوشش کرتاہے کہ اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالے اور اسے اس مقام بلند تک نہ پہنچنے دے.تاکہ اپنے جذبہ حسد کی تسکین کرسکے اورایساملعون ہے کہ اگر بڑی برائی پر قادر نہ ہو تو چھوٹی ہی پر قناعت کرلیتاہے مثلاً اگر کفروشرک پر قادرنہ ہوسکا تو حرام ومکرہ یا اس سے کم درجہ کی برائی پر قانع ہوجائے گا.

حاسد اور متکبرکاجنت سے کوئی واسطہ نہیں:

حضرت امیرالمؤمنینعليه‌السلام نہیج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں ارشاد فرماتے ہیں“اے لوگو!شیطان حسد کی وجہ سے ملعون ہوا اور بہشت سے نکالاگیا ایسانہ ہو کہ تم بھی حسد میں مبتلاہوکر ولیسے ہی ہوجاؤ شیطان کو اللہ تعاليٰ نے تکبرکی وجہ سے جنت بدر کیا جب وہ کبر وحسد کی وجہ سے راندۀ ہوا تو تم کبروحسدکی وجہ سے جنت میں کیسے جاسکتے ہو؟ناممکن ہے کہ فرشتوں کے استاد کو تو اس حرکت کی وجہ سے جنت سے نکال دیاجائے اور تمہیں اسی حرکت کی وجہ سے جنت میں داخلہ مل جائے...”.

باوجود اس ے کہ وہ ملعونمدتوں خدا کی عبادت میں مصروف رہا لیکن آخر میں اس نے تکبرکیا اور خود کو ہلاک کرلیا عظمت اور بڑائی صرف ذات واجب کوزیباہے“العظمة والکبریا ردای”عظمت و کبریا صرف مجھے (ذات خالق) کو زیباہے تو اے انسان !تجھے بڑہانکنے سےکیا حاصل؟آقائ وکبیریائ ترا لباس نہیں ہے .بڑائی جتانا تجھے سچا نہیں میں،مین کرنا تجھے چچتا نہیں تکبر تجھے زیب نہیں دیتا سب انسان اللہ تعاليٰ کے سامنے فقیر ومحتاج ہیں( یا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ وَ اللَّهُ هُوَ الْغَنِی‏ ) “غنی مطلق ،سلطان مطلق صرف اللہ تعاليٰ ہے وہ خود فرماتاہے.

( لا إِلهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِی ) صرف میری عبادت کرو کہ میرے سواکوئی معبود نہیں.

غرضیکہ اگر انسان بڑائی اور تکبر کرے گا توشیطان کا ساتھی بن جائے گا.

ابلیس کی خواہش پوری ہوگئی:

روایت میں آیا ہے کہ جب شیطان لعین جنت سے نکال دیاگیا تو اللہ تعاليٰ سے یوں عرض گذار ہوا:

“خداوندا میری چھ ہزار سال عبادت کیا ہوئی؟”جواب ملا:

“اس کے بدلے میں جوچاہوہم دیں گے”کہنے لگا:

“مجھے قیامت تک مہلت دے”( َ أَنْظِرْنِی إِلى‏ يَوْمِ يُبْعَثُون‏ ) فرمایا:“تو مہلت یافتہ ہے”( فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ إِلى‏ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوم‏ ) کہنے لگا :“میری دوسری خواہش یہ ہے کہ مجھے قدرت عطافرماکہ انسان کے دلوں میں شبہ اوروسوسہ ڈال سکوں.”

اس کی یہ خواہش بھی منظور ہوئی کیونکہ کئی الہيٰ حکمتوں اور مصلحتوں کی حامل تھی.

ابوالبشر حضرت آدمعليه‌السلام بارگاہ احدیت میں گڑگڑائے کہ اے پروردگار!میری غریب اولاد پر مسلط یہ بدترین دشمن پہلے ہی کیا کم طاقتور تھا کہ آب آپ نے اسے قیامت تک مہلت عطا کرنے کے علاوہ اسے ان کے قلب وروح میں شبہ آفرینی اور وسوسہ اندازی کی قدرت بھی دے دی میری اولاد تواب بے بس ہوکررہ جائے گی.”جواب ملا:“اے آدم ماوس نہ ہو.ہم ہرشیطان کے ساتھ ایک فرشتے کوبھی پیدا کریں گے”جوشیطان وسوسہ انادزی کی خلاف تیری اولاد کے عزم کا معاون ہوگا.

ملائکہ میں بھی الہام کی طاقت ہے:

جب بھی شیطان انسان کے دل میں وسوسہ پیداکرتاہے تو فرشتہ اس کے مقابلے میں نیکی کاالہام کرتاہے شیطان کہتاہے“مسجد میں نہ جا فرشتہ الہام کرتاہے کہ ضرورجا”شیطان کہاتاہے فلاں فعل حرام کاارتکاب کر،بعد میں توبہ کرلینا ،فرشتہ کہتاہے ایسامت کرناممکن ہے کہ تجھے موت آجائے اور توتوبہ نہ کرسکے اوربالفرض ار توبہ کربھی سکاتوکیا ضروری ہے کہ تیر توبہ قبول ہی ہوجائے اور توبخشابھی جائے.

اپنے دل کی طرف توجہ کیجئے اس میں خیرکی خواہش پیدا ہویاشرک ،آپ ہمیشہ اس ے بارےمیں ششوپنج کی حالت میں ہوتے ہیں اگرشیطان آپ کو کسی بدی پراکساتاہے تو فرشتہ بھی آپ کو اس کی بدانجامی سے متنبہ کرتاہے اور اگر شیطان آپ کو کسی نیکی کے ترک پر آمادہ کرتاہے تو اس کے مقابلے میں فرشتہ آپ کو اس کی ترغیب دیتاہے.

دوراہے پر:

غرضیکہ اے انسان تو دوراہے، پرہے خواہ نفس کی پیروی میں ہويٰ وہوس کھوجا،یاعقل وروح او رفرشتہ خیر کی پیروی کرکے رستگار ہوجا قدرت وطاقت کو اللہ تعاليٰ نے پورے نظم وعدل سے خلق فرمایا ہے لیکن انسان خود اپنے آپ پرظلم کرتاہے چنانچہ کلام پاک میں واضح ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعاليٰ توانسانوں پر کبھی کوئی ظلم نہیں کرتا یہ انسان ہی ہے جوخود پر ظلم کرتاہے.

( وَ ما کانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَ لكِنْ کانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُون‏ ) .

توبہ کادروازہ کھلاہے:

مزید ارشاد خداوندی ہوا:اگر ہم نة نمہاری اولاد پر ابلیس کو غالب کیاہے اور اسے قیامت تک کی مہلت دی ہے تو اس کےعوض تمہاری اولاد کے لئے توبہ کادروازہ ہمیشہ کےلئےکھول دیاہے اگر آپ شیطان کے دام فریب میں گرفتار ہوگئے ہیں تو اپنے دادبزرگوار حضرت آدمعليه‌السلام کی طرف جوتوبہ کریں اور ارگاہ خداوندی میں عاجزی اور زاری کریں تاکہ جناب آدمعليه‌السلام کی طرح جو توبہ کی قبولیت کے بعد بالاتر اوربزرگ تر مقام پرپہنچ کردرجہ اصطفاء تک پہنچ( إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى‏ آدَمَ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهِیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمِین‏ ) آپ بھی توابین کے مرتبہ پرفائز ہوکر اللہ تعاليٰ کےمحبوب بن جائیں کیونکہ( إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِین‏ ) اللہ تعاليٰ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتاہے.

رحمت کادامن آخری دم تک وسیع ہے:

ساری امم سابقہ کے لئے بھی توبہ کادروازہ کھلاتھا لیکن اس کی قبولیت کی شرطیں بہت تھیں یہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود اقدس کی برکت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے لئے جوامت مرحومہ کہلاتی ہے توبہ کادروازہ بہت وسیع وکشادہ ہے کیونکہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمة اللعاملین ہیں اور توبہ بھی شعبہ ہائے رحمت میں سے ایک ہے.

بحارالانوار جلد سوم کی ایک روایت کے مطابق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہروہ شخص جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرلے بخش دیاجاتاہے پھرفرمایا:ایک سال توزیادہ ہے اگر ایک مہینہ ہی قبل ازمرگ توبہ کرلے تو اللہ تعاليٰ اسے معاف فرمادیتے ہیں،پھرفرمایا: ایک مہینہ زیادہ اگر ایک دن بھی موت سے پہلے توبہ کرے توبخش دیاجاتاہے پھرفرمایا: ایک روز بھی زیادہ ہے ،برزخ اور عزارائیل کوآنکھوں سے دیکھ لینے سے پہلے توبہ کرلےتو اللہ تعاليٰ بخش دینگے ،غرضیکہ اگرکوئی مسلمان زندگی کے آخری لحظے پر بھی اپنے گناہوں پر نادم و پشیمان ہو تو اللہ تعاليٰ اسے معاف فرمادیتے ہیں.

خوشاحال اس دل کا جواللہ تعاليٰ کی یاد میں رہے کیاعجیب نظام ہے؟آیارحمت اس سے بھی زیادہ وسیع ہوسکتی ہے؟دیکھ لیجئے کہ شیطان کے وسوسوں کے مقابلے میں خدا کی رحمت کتنی بے پایاں ہے.

حسن بصری کاسوال امام زین العابدینعليه‌السلام کاجواب:

روایت ہے کہ ایک دفعہ حج کے دوران حسن بصری نے کہا: العجب کل العجب ممن نجيٰ کیف نجيٰ “نہایت حیرانی کی بات ہے کہ بچنے ولاکیسے بچ گیا”بڑے تعجب کی بات ہے کہ انسان ابلیس کے اسقدر طاقتور دام فریب سے نجات پالے،حسن بصری کی یہ بات جناب سیدالساجدینعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچیں توآپ نے فرمایا:“العجب کل العجب ممن ہلک کیف ہلک ”تعجب ہے ہلاک ہونے والے سے کہ وہ کیسے ہلاک ہوا،تعجب ہے اس بدبخت پر جواللہ تعاليٰ کی اس قدر وسیع رحمت سے محروم ہوکر ہلاک ہوا جوکائنات کی ہرمخلوق پرمحیط ہے.

موت سے پہلے بیماری کوورودنعمت ہے:

ایک عمرہم نے گناہ میں گذاری اب کوچ کاوقت ہے غالباً موت سے پہلے اللہ تعاليٰ کے لطف وکرم ہی کا یہ ایک کرشمہ ہے کہ انسان بیماری میں مبتلا ہو اور کچھ مدت صاحب فراش رہ کراللہ تعاليٰ کی ملاقات کے لئے تیاری کرے.

یہی وجہ ہے کہ اچانک موت عام پور پر ایک مصیبت سمجھی گئی ہے.

اے رخصت ہونے والے کتنی زندگی تم نے شیطان کی پیروی میں گذاری ہے اب لحظہ بہ لحظہ موت قریب ہورہی ہے ،حقیقتا یہ چیز بڑی ہی عجیب ہوگی کہ پورا مہینہ بستر میں رہ کی بھی تم بیدا نہ ہوسکو.

مجلس ۴

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏،وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ. وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ‏ ) (۲۳؛ ۹۸)

شرشیطان سے بچاؤکی صورت صر استعاذہ ہے:

شیطان کے وسوسہ اور وہ مصائب وآلام و انسان کو اس بدذات سے پہنچتے ہیں کسی سے پوشیدہ نہیں سب جانتے ہیں کہ یہ انسان کا شدیدترین دشمن ہے جو آخری سانس تک اس کا پیچھانہیں چھوڑتا اس کا مقصد وحید یہ ہے کہ اسنان خدا اور آخرت پر ایمان نہ لائے یاکم ازکم کوئی نیکی اس سے سرزد نہ ہو بلکہ ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہے.

سب سے ضروری امر یہ ہے کہ انسان شیطا سےنجات حاصل کرے لیکن اس قدر طاقتور اورجھتے والے دشمن سے نجات کی سبیل ہے کیا؟کلام پاک اس کاواحد علاج “استعاذہ ”تجویز کرتاہے،اس میں واضح ارشاد ہے:( فَاسْتَعِذْ بِاللَّه‏ ) خداکی پناہ طلب کر،کیونکہ اس کے سوا حق تک رسائی ممکن نہیں.

خیمہ سلطان اورخونخوار کتا:

ایک مثال میں نے عرض کیتھی کہ شیطان ایک ایسے خونخوار کتے کی مانند ہے جو خمیہ سلطانی کے دروازے پر بیٹھا ہوا ور جب بھی کوئی اندر جانا چاہے توہ اس پر لپکتاہے تاکہ وہ داخل نہ ہوسکے یہ ایسا کیمنہ خصلت دربان ہے جس کے شرسے سلطان کے خاص دوستوں کے علاوہ کوئی بھی محفوظ نہیں (صرف خاصان خداہی اس بدخودشمن سے بے نیاز ہوکر حریم قدس میں جاسکتے ہیں).بہرحال خیمہ میں داخل ہونے کے لئے ہمیں صاحب خیمہ سے اس دشمن ازلی کےشروعناسے پناہ مانگنی چاہیئے اور اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے لئے اسی سے ہمت اور توفیق طلب کرنی چاہیئے کیونکہ صرف اسی کی قہر بھری تنبیہ سے یہ وحشی دشمن رام ہوسکتاہے اس کے علاوہ ہرگز کوئی چارہ کار نہیں.

پس ضروری ہے کہ اللہ تعاليٰ کی پناہ طلب کی جائے تاکہ اس کی توجہ خاص سے شیطان کے شرسے امان ملے سکے اسی ضمن میں اللہ تعاليٰ نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:( وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ) کہئے اے حبیبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :اےپروردگا میں شیاطین ے وسوسوں سے اور اپنے قلب وروح پرکے غلبے اور ورود سے آپ کی پناہ مانگتاہوں.

خصوصاًتنہائی کے وقت جب تک لطف وکرم ایزدی آپ کے شامل حال نہ وساوس شیطانی سےسے آپ کابچنا ممکن نہیں آپ کو پکار ناچاہیئے “يَا غِيَاثَ الْمُسْتَغِیثِین‏يَا مَلَاذَ اللَّائِذِین ‏”اے فریادیوں کی فریاد سننے والے اے پناہ طلبوں کی پناہ گاہ! مجھے شرشیطان سے محفوظ رکھ،کیونکہ اگر اللہ تعاليٰ کاحفظ و امان اور اس کی پناہ نہ ہو تو شیطان کے شرسے بچنا ممکن نہیں.

استعاذہ دل سے ہونہ کہ زبان سے:

لیک حقیقت استعاذہ کو سمجھنا چاہیئے کہ کیا صر ف زبان سے “اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم” یافارسی یااردو میں اس کا ترجمہ ادا کردینا کافی ہے،یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ استعاذہ ایک معنوی اور روحانی کیفیت ہے جس کا اظہار ان الفاظ سے ہوتاہے اگر دلی کیفیت استعاذہ ی ہے تو استعاذہ مفیدہے ورنہ بارہا ایساہوا کہ استعاذہ کے یہ الفاظ شیطان کابازیچہ بنگئے ہیں کیونکہ استعاذے کی حقیقی قلبی کیفیت کے بغیر یہ الفاظ سراسر تکلف ہین جن کی ادائیگی شیطان کی انگیخت پرہوتی ہے.

استعاذہ کی تین قسمیں:

۱- نہ استعاذے کی کیفیت ہوتی ہے اور نہ ہی استعاذہ کے الفاظ کے مفہوم کا علم ہوتاہے مثلاً“اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم”کی ادائیگی اس صورت میں کہ نہ تہ دل سے یہ الفاظ نکلیں اور نہ ذہن کو ان کے معانی معلوم ہوں یہ صورت خالصتاً شیطانی مذاق ہے.

۲- استعاذہ کے الفاظ کے معنيٰ اور مفہوم کا علم ہو اور ان کی ادائیگی بھی درست ہو لیکن دل استعاذہ کی کیفیت سے بیگانہ ہو اور اعمال میں شیطان کی اطاعت صا ف نظرآتی ہو،اگرچہ زبان سے“لعنت بر شیطان”کہے لیکن درحقیقت استعاذہ اس کا اللہ کے حضور نہیں بلکہ شیطان سے ہوگا.

۳- استعاذے کے الفاظ کاپورا پورا احساس وادراک ہو اور انہیں تہ دل سے پوری سمجھ،سنجیدگی اور اخلاص سے اداکیا جائے اور دل اللہ تعاليٰ کی عظمت وجبروت کی معرفت سے سرشار ہو.استعاذہ کی صرف یہی صورت صحیح ومقبول ہے.

اللہ تعاليٰ کی اطاعت میں پناہ طلبی:

گناہ کے ہرمرتکب شخص کا اللہ تعاليٰ کی نافرمانی کے دوران معبود و مسجود شیطان ہوتاہے خواہ زبان سے وہ شیطان پرہزال لعنت ونفرین ہی کیوں نہ کرے اس سے واضح تر الفاظ میں کہوں کہ جب کوئی شخص منہ سے تو اعوذ باللہ من شیطان الرجیم کہے اور کردار اس کا یہ ہو کہ کسی پردہ تہمت لگائے کسی کو فحش بکے،کسی کی عزت کے ساتھ کھیلئے دوسروں کے رازون کوفاش کرے غرضیکہ کسی بھی گناہ صغیرہ یاکبیرہ سے اسے باک اور دریغ نہ ہو وہ کہتاہے تو“اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم”ہے لیکن علمی طور پر مقصود اس کا“اعوذ بالشیطان من الرحمان” ہوتاہے کہ میں“نعوذباللہ” خداسے فرار کرکے شیطان کی پناہ میں آتاہوں زبان سے تووہ کہتاہے کہ میں اللہ تعاليٰ کی اطاعت میں پناہ لیتاہوں لیکن عمل اس کا اس سے بالکل الٹ ہوتاہے اور جب نافہمی کاپردہ اٹھ جاتاہے توپتہ چلتاہے کہ اعوذباللہ کے الفاظ در اصل شیطان ہی نے اس کی زبان سے کہلوائے تھے تاکہ اس کے ناقص عقیدے اور کمزور ایمان کامذاق اڑاے.

شیطان کے ردمیں شیطانی تصنیف:

روایت ہے کہ ایک عالم نے شیطان کے وساوس ،اس کے ہتھکنڈوں اور اس کے ہاتھوں فریب خوری کے خلاف تنبیہ کی حامل ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا انہیں دنوں ایک پارسانے عالم مکاشفہ میں شیطان سے کہا:ملعون !اب دیکھنا کسی طرح تیری رسوائی اور روسیاہی ہوتی ہے فلاں مولانا عنقریب تیرے دجل وفریب کا تارپود بکھیردینگے اور دنیا کی نظروں میں تو ذلیل وخوار اور رسواہوجائے گا.شیطان نے استہزا سے ہسن کر جوابدیا: بڑی خوش فہمی میں مبتلاہو یہ کتاب تو میرے ہی امیاء پر لکھی جارہی ہے.انہوں پوچھا یہ کیسے ممکن ہے؟توشیطان نے جواب دیا :میں نے ہی اس کے دل میں وسوسہ ڈالاہے کہ تم بڑے عالم فاضل ہو اپنے علم کی نمائش کرو،اس کوتوشعورہی نہیں کہ نام تو کتاب کا اس نے“ردشیطان”رکھا ہ لیکن دراصل اس سے اس کاارادہ اپنےعلم وفضل کی نمائش اور اپنی عظمت کے اظہار کاہے.

وہ خود انسان کو اکساتاہے کہ اس پر لعنت کرے یا اس کی زبان غیرارادی طور پر “اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم”کہلواکر اسے بیوقوف بنائے.

استعماری طاقتوں کی سیاست:

معاون ومددگا ہوتتے ہیں بعض اوقات اپنے سیاسی مصالح کی وجہ سے وہ انہیں ہدایت کرتے ہیں کہ ان کو برابھلا کہیں گالیاں دیں اور استعمار کی مذمت کریں لیکن یہ سب کچھ وہ اپنی سیاست کی پردہ پوشی اور اصلیت کو چھپانے کے لئے کرتے ہیں تاکہ ان افراد کے توسط سے اپنے استعماری منصوبوں کی تعمیل وتکمیل و بہترانداز میں کرسکیں.

شیطان کی سیاست کتنی عجیب ہے سب سے پہلا سیاستدان اور سب سیاستدانوں کااستاذ اور پیرو مرشدیہی ملعون ہے سیاست کامعنی ہی درپردہ کام کرنا ہے یہ ہر ایک کوبے وقوف بناتاہے لیکن اپنا نقش یاکہیں بھی نہیں چھوڑتاہرخراب اس کے اشارے سے ہوتی ہے لیکن کسی کو محسوس نہیں ہوتاکہ انگیخت اس کی تھی.

استعاذہ کی حقیقت گناہ سے فرار ہے:

پروردگارا!ہمیں ہمت دے کہ شیطان ملعون سے گریزکرسکیں گناہ سے فرار کرسکیں اور جرائم سے محفوظ رہ سکیں اللہ تعاليٰ سے یہ استعاذہ ہمیں گناہوں سے دورکھتاہے اور ہماری زبانوں کولگام میں رکھتاہے کہ لغوبات نہ کریں بلکہ اس کی بجائے اعوذ باللہ کہیں.خداوندعالم کے حضور شرورابلیس سے پناہ مانگیں بالفاظ دیگر اعوذ باللہ کامطلب ہواکہ:

“اعوذ بطاعة الله من طاعة الشیطان”

میں شیطان لعین کی جرم وگناہ سے بھر پور اطاعت سے فرار کرکے اطاعت الہيٰ کی پناہ میں آتاہوں.

ہاتھ شیرکے منہ میں اورپیروں سے فرار:

اگر کوئی شخص اپناہاتھ توشیرکے منہ میں ڈال دے اور زبان سے کہے کہ میں شیرسے بہت ڈرتاہوں اور اس سے کسی مستحکم ومضبوط قلعہ میں پناہ طلب کرتاہوں یہی مثال اس شخص کی ہے جومنہ سے توشرابلیس سے اللہ کی پناہ مانگتاہو لیکن بندہ مطیع وفرمابردار ی طرح پوری عاجزی کے ساتھ شیطان کے دام تزدویر میں جکڑاہواہو.

تازہربدزبانت کو تہ نیست

یک اعوذت اعوذ باللہ نیست

جب تک کسی کی زبان پر لغوجاری رہے گاوہ شیطان کاحلقہ بگوش غلام رہے گا اس صورت میں اس کا لعنت پر شیطان کہنا دروغ محض ہوگا “اعوذ باللہ گوئی”سے اسے استغفار کرنا چاہئیے.

بلکہ آن نزد صاحب عرفاں

نیست الااعوذ بالشیطان

گاہ گوئی اعوذ دگہ لاحول

لیک فعلت بود مکذب قول

لغوگوانسان کا عوذ باللہ کہنا صاحب عرفان کے نزدیک اعوذ بالشیطان ہے زبان سے کبھی وہ اعوذ کہتاہے اور کبھی لاحول لیکن اس کے عمل سے اس کے قول کی تکذیب ہوتی ہے.

اگر شیرآپ کے پیچھے لگا ہو تو آپ کو چاہیئے کہ کسی مضبوط پناہ گاہ میں خود کو محفوظ کریں نہ کہ مزید اس کے نزدیک ہوں اور اپنا ہاتھ تو اس کے منہ میں ڈال دیں اور زبان سے پناہ کے لئے چیخ وپکار کریں استعاذہ کی حقیقت در اصل یہی ہے کہ شرشیطان سے اللہ تعاليٰ کی حفاظت کے مضبوط ومحکم قلعے میں پناہ لی جائے.

سچا خواب اور شیطان کادام فریب:

جناب شیخ انصاری کے کسی شاگردسے روایت ہے کہ جس زمانے میں میں ان کے پاکیزہ درس کے فرشتگانہ ماحول میں زیر تعلیم تھا تو ایک رات میں نے عالم واقعہ میں شیطان ملعون کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں چند لگامیں پکڑے ہوئے ہے میں نے اس سے پوچھا یہ کسی لئے تونے پکڑی ہوئی ہیں؟کہنے لگا ان کو لوگوں کی گردنوں میں ڈال کر انہیں اپنی طرف کھینچتاہوں کل میں نے ایک شیخ مرتضيٰ انصاری کی گردن میں ڈال دی اور انہیں ان کے کمرے سے نکال کران کے گھر کے دروازے کے سامنے تک باہرگلی میں لے آیا لیکن وہ گلی کے نصف میں مجھ سے چھوٹ کرواپس چلے گئے.

جب میں بیدا ہوا تو شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا خواب ان سے بیان کیا.

شیخ نے فرمایا: شیطان نے تم سے ٹھیک کہا کیونکہ کل اس ملعون نے چاہا تھا کہ اپنے دلفریب بہانوں سے مجھے اپنے دام پھانسے در اصل ہوایہ کہ گھر میں کوئی چیزدرکار تھی لیکن میرے پاس اس کے لئے پیسے نہ تھے دل میں آئی کہ سہم امامعليه‌السلام میں سے کلام پاک کا ایک نسخہ جو میرے پاس بے مصرف پڑاہے اسے قرض کے ارادسے بیچ کر اس کی قیمت لے وہ حاجت پوری کروں اور بعد میں وہ قرض ادا کردوں.

اس کلام پاک کے نسخہ کو لے کر گھرسے باہر آیاحتيٰ گلی میں پہنچ گیا اور جب جنس خریدن نے لگا تو عین وقت پر مجھے خیال آیا کہ اس قسم کی حرکت کیوں کروں؟پس اپنے اس ارادے پر پچھتایا اورشرمندہ ہوکر گھرواپس آگیا اور قرآن پاک کو اس کی جگہ پرواپس رکھ دیا.

بعض لوگوں نے اس واقعے کو یوں بیان کیاہے کہ اس شاگرد نے بہت رسیاں شیطان کے ہاتھ میں دیکھیں ان میں سے ایک رسی بہت مضبوط اور موٹی تھی اس نے ملعون ازلی سے پوچھاکہ یہ رسیاں کسی لئے ہیں تو اس نے جوابدیا ان سے آدم کی اوراد کو اپنی طرف کھینچتاہوں اور انہیں گناہ میں گرفتار کرتا ہوں، اس نے پوچھا یہ بڑی رسی کس کے لئے ہے؟تو اس نے جواب دیا:یہ تمہارے استاد شیخ انصاری کے لئے کل اس سے میں انہیں بازارتک لے آیا تھا لیکن وہ اسے توڑکر آزادہوگئے اور واپس گئے،اس نے پوچھا :میرے لئے ان میں سے کونسی رسی ہے؟اس نے جواب دیا :تمہارے لئے رسی کی ضرورت نہیں تم باتوں ہی سے بآسانی شکار ہوسکتے ہو.


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18