استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40503
ڈاؤنلوڈ: 3642

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40503 / ڈاؤنلوڈ: 3642
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۲۳

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏. انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون ) .

امور آخرت میں توکل:

عام طورپرجب توکل کی بات ہوتی ہے تو ذہن دناوی امور کو اللہ تعاليٰ کی مشئیت کے حوالے کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتاہے.حالانکہ مومن کاتوکل ہر امر میں خواہ وہ دنیاوی ہو یا دینی اللہ تعاليٰ پر ہوتا ہے اور صرف دنیاوی زندگی ہی تک محدود نہیں ہوتابلکہ چونکہ اخروی ابدی ہے اورزیادہ اہمیت والی ہے اس لئے انسان کافرض ہے کہ دونوں زندگیون کے بارے میں اللہ تعاليٰ پر توکل سے اور بالخصوص اخروی زندگی کے لئے تو یہ توکل بہت ضروری ہے.

جس طرح دنیاوی مادی امور میں حصول نفع اور دفع ضرر کے لئے خدا پر توکل ضروری ہے اور سبب کو اللہ تعاليٰ کی مشئیت کے تابع جاننا اور اسےتاثیر میں غیر مستقل سمجھنا لازمی ہے تاکہ شرک سے حفاظت رہے اسی طرح روحانی اور اخلاقی امور میں بھی اسباب کو اللہ تعاليٰ کے توکل پر اختیار کرنا چاہئے.

اخلاقی سعادت کے اسباب:

اخلاقی او رروحانی سعادت کے اسباب جو تہذیب نفس ،تحصیل علم ویقین اور اعمال صالحہ.....(یعنی وہ اعمال جو انسان کو جنت اور درجات عالیہ سے قریب اورجہنم او راللہ تعاليٰ کی عدم رضا سے باز رکھتے‌ہیں)سےعبارت ہیں،انہیں اختیار کرنے میں بھی اللہ تعاليٰ پرتوکل اور اس کے حسن مشئیت پربھروسہ لازمی ہے مثلاً جنتی ہونے کی توقع عمل صالح کے بغیر بے جاہے.لیکن نماز یاحج یا روزہ یا راہ خدامیں خرچ کرنے کو یا کسی بھی عمل صالح کو مستقل تاثیرکا حامل نہیں سمجھنا چاہئے .اگر ان اعمال صالحہ کو اللہ تعاليٰ کی ضرورت سمجھا گیا اور ان کی قبولیت کے لئے اس کے لطف وکرم پربھروسہ نہ کیا گیا تو یہ اعمال بے اثر ہوجائیں گے اور انسان کو غرور میں مبتلا کرکے برعکس نتائج پیدا کریں گے .پس آپ کی امید اللہ تعاليٰ پرہونی چاہئے کہ آپ کا عمل مثلا آپ کی نماز اس کے فضل وکرم سے قبول ہوجائے کیونکہ غیر مقبول عمل کی بناء پر بہشت میں جانے کی امید خود فریبی ہے جس طرح گنہ گار ہونے کی صورت میں جہنم سے بچ جانے کی توقع غلط فہمی ہے یہ آپ کی پسند یاناپسند پرمنحصر ہے بلکہ یہ خدائی فیصلہ ہے کہ فعل بدکرنے ولااسزاپائے اور نیکوکارجزائے خیر کا مستحق ہولیکن بالکل دو اجیسی صورت ہے کہ مریض اس کے استعمال سے صرف اللہ تعاليٰ کی مشئیت ہی سے صحتیاب ہوسکتاہے اسی طرح حج بھی انسان کو جتنی بناسکتا ہے بشرطیکہ اللہ تعاليٰ کی رضاہو.

صرف عمل پر تکیہ ہلاکت کا موجب ہے:

اگر انسان کاتمام تر بھروسہ اپنے عمل پر ہو تو ہلاکت اس کا مقدرہے اگر کوئی نجات کاطالب ہو تو نجات دہندہ صرف اللہ تعاليٰ ہےنہ اس کا عمل!یہ درست ہے کہ اس نے عمل کیا لیکن اس میں اثر پیدا کرنے والا صرف اللہ تعاليٰ ہے اور تاوقیتکہ اس کی رضا ومشئیت نہ ہو یہ ممکن نہیں.

جیساکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ جس طرح مادیات میں آپ کو صرف اپنی ہوشیاری و چالاکی،اپنے زوربازو،اپنے زور قلم یا فصاحت زبان پرنزا نہیں ہونا چاہئے کہ اسی طرح اخلاقیات وروحانیات میں بھی صرف نماز و روزہ کے عمل پر اعتماد درست نہیں انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ آتش دوزخ سے نجات صرف اس کی پارسائی اور پرہیزگاری پرنہیں بلکہ محض اللہ کی مشئیت اور اس کے لطف خاص پرمنحصر ہے کہ وہ اسے اس محفوظ فرمادیتاہے.اسی طرح بہشت کے حصول کےلئے انجام دئے ہوئے اعمال کی توفیق اور ان اعمال کی قبولیت بھی اس کی نظر کرم کانتیجہ ہے.

کبھی ایساہوتاہے کہ انسان اپنے خیال کے مطابق پہاڑوں جیسے عظیم اعمال کاذخیرہ اپنے پاس رکھتا ہے درانحالیکہ حقیقت میں ان کا وزن ایک ناچیز تنکے جتنا بھی نہیں ہوتا.لہذات امور مادی ہوں یا اخلاقی وروحانی،ان میں کامیابی کا دارو مدار اسبا ب پر نہیں بلکہ ہر حال میں اللہ تعاليٰ کے لطف و احسان پر ہے.

عمل اور رحمت خداوندی:

نبی اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آخری خطبہ مبارکہ جو بحارالانوار کی چھٹی جلد میں نقل کیا گیاہے،ایک جملہ کے الفاظ یہ ہیں: کوئی شخص غلط دعويٰ نہ کرے اور بے ہودہ آرزونہ کرے نجات عمل صالح او ررحمت خداوندی پر منحصر ہے.

لہذا انسان یہ تصور نہ کرے کہ اس نے راہ خدا میں کوئی عمل کیا تو بہر حال جنت میں جائے گا او ربصورت دیگر جہنم اس کا مقدر ہوگا یہ غلط ہے بلکہ ہر حال میں اس کا بھروسہ ذات خالق پرہونا چاہئے بالکل اس کسان کی طرح جوکھیتی میں ہل چلاکر ،بیچ بوکر اور آبپاشی کرکے اللہ تعاليٰ کی رحمت کامنتظر ہوجاتاہے.طالبعلم کی امید بھی اللہ تعاليٰ پرہونی چاہئے کہ اسے فہم عطا ہو صرف سبق پڑھ لینے سے اسے فہم نہیں مل جائے گا .کسی علوم میں بھی کہ جوبہت محنت طلب ہیں صرف کسب کافی نہیں کیونکہ بعض لوگ کسب علم میں بڑا جوش وخروش دکھانے کے باوجود کورے رہتے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ سبق نہ پڑھیں بلکہ ہماراطلب یہ ہے کہ صرف فہم وحافظہ اور مطالعے پرانحصار غلط ہے.کامیابی کے لئے اللہ تعاليٰ پرتوکل کرنا چاہئے.

عجیب حادثہ:

کوئی چالیس سال پہلے جب اس درسگاہ کے انہی حجروں میں مشیر الملک شیرازی بھی مقیم تھے ایک نامور استاد جن کانام میں مصلحتاً ظاہر نہیں کررہا فقہ اور فلسفہ کادرس دیتے تھے اور اپنے حافظہ اور تبحر علمی کی وجہ سے مشہور تھے،رات کو بھلے چنگےاور صبح جب بیدار ہوئے تو معلوم ہوا کہ حافظہ کھو بیٹھے ہیں حتيٰ فجر کی نماز کے لئے سورہ فاتحہ بھی بھول چکے ہیں.سترسال نماز پڑھی لیکن اب یاد نہیں ہے .قرآن کوکھول کرپڑھنا چاہا لیکن پڑھ نہ سکے غرضیکہ پورے طور پر حافظہ سے محروم ہوگئے حتيٰ کہ الضباء بھی بھول گئے اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا.

محروم تکلم:

اے وہ لوگ جواپنے نطق اور زور بیان پر پھولے نہیں سماتے.برسوں ایک شخص نے جو خرم شہر سے آیاتھا بیان کیا کہ ایک صاحب (جنہیں اتفاق سے میں بھی جانتاہوں)دوماہ سے قوت گویائی سے محروم ہوچکے ہیں اور نوآموز بچے کی طرح توتلے پن سے بات کرتے ہیں اور اپنی اس حالت سے اتنے پریشان ہیں کہ بولنے سے گریز کرتے‌ہیں .تہران جاکر انہوں نے اس بارے میں اطباء سے مشہور کیا ہے جس کےمطابق دوما ہسپتال میں رہیں گے شاید صحتیاب ہوجائیں.

یہ کچھ اس لئے بینا کررہاہوں کہ کوئی شبہ میں مبتلا نہ ہوجائے او رجوشبہے میں‌مبتلا ہے وہ شبہے سےآزاد ہوجائےاور ہر حال میں‌اللہ تعاليٰ کو یادر کھے .مختصر یہ کہ علوم کسبی میں درس ومطالعہ میں کوشش ضرور کریں لیکن اس کے فہم کی امید صرف اللہ تعاليٰ سے رکھیں.

نوریقین کسبی نہیں ہے:

حدیث شریف“ “لیس العلم بکثرة التعلم إنما هو نور یقذفه الله فی قلب من یشاء أن یهدیه ”علم بہت زیادہ بڑھنے پڑھنا سے نہیں آتا بلکہ وہ ایک نور ہے جسے اللہ تعاليٰ اس شخص کے دل میں ڈال دیتاہے جسے وہ ہدایت کرنا چاہے.مقام یقین اور اللہ تعاليٰ اس کے اسماء وصفات اور رورز جزاء کا علم غرض کہ علوم الہيٰ کاخزانہ صرف اللہ تعاليٰ کے فیضان کرم سے حاصل ہوتاہے‌اور محنت اور کوشش جتنی بھی آپ کرلیں علم کا وہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ صرف عطیہ خداوندی ہے جو بقدر ظرف طالب کو ملتاہے.“فسالت اودیة بقدرہا”وادیاں اپنی وسعت کےمطابق پانی کی مقدار لیتی ہیں.

اللہ تعاليٰ بندہ پر ورہے:

آپ کے سب کام ایسے ہونے چاہئیں کہ اللہ تعاليٰ ہرحال میں یادر ہے آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ آپ کا عمل اثروالاہے .دعائے افتاح میں کیا خوبصورت جملہ ہے کہ “اعطانا فوق رقبتا”اس نے ہمیں ہماری طلب سے زیادہ عطافرمایا،نماز جماعت آپ اس کی رحمت کی امید اور اس کے توکل پر ادا کرتے ہیں حج کو جاتے ہیں توبھی اسی کے فضل وکرم کے بھروسے پرلیکن اگر نماز جماعت ادا کرنے اور چند بارحج کرنے سےآپ نے خود کو جنت کامالک سمجھ لیا اور جنت کو لازمی طور پرنماز جماعت اور حج کامعاوضہ سمجھاتو جان لیجئے کہ کام خراب کرلیا کیونکہ یہ مزدوری نہیں جوعمل کی مقدار کے مقالے میں لاماً ملتی ہے بلکہ یہ اللہ تعاليٰ کی رضا اور اس کی مشئیت پرمنحصر ہے کہ کسی کی محنت قبول ہوتی ہے.

روایت ہےکہ جنت کی ایک بالشت کی قیمت ساری دنیا ومافیہا ہے بہشت ایسی چیز نہیں ہے کہ جو آپ کےخیال کے مطابق اتنے سےعمل اور اس پر جاہلانہ غرور کےمعاوضےمیں خرید ی جاسکتی ہے .یہ بھی بحث طلب ہے کہ کیا جنت آپ کےکوہ نما عظیم اور صحیح اعمال کے بدلے میں بھی عدل الہيٰ کے مطابق آپ کو مل سکتی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ آپ اور آپ کی ہرچیز اور آپ کی توفیق اطاعت بھی کچھ اسی کادیاہواہے اور اگر بالفرض معاوضہ بھی ہوتوکسی ایسی چیزکا ہو جوآپ کی اپنی ہو آپ کا یہ انداز فکر درست نہیں. پس چاہئے کہ آپ کی امید اور آپ کا توکل خداپر ہو.پروردگار!بحق محمد وآل محمد ہمیں ہمیت عطا فرما اور ہر مقام پر ہماری مدد فرما اور ہمیں صحیح معنوں میں اہل توکل و اخلاص بنا.

رکن چہارم

اخلاص

مجلس۲۴

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ - قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى‏ شاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدى‏ سَبیلا

عمل اور خلوص نیت:

بارگاہ خداوندی میں اگر کسی چیزکی کوئی قیمت ہے توصرف خلوص نیت کی.ارشاد نبوی ہے“انماالاعمال بالنیات”اگر نیت رضائے الہيٰ کے حصول کی ہے اور عمل بھی اسی کی خوشنودی کے لئے انجام دیا جارہا ہے تو یہ چیز بلندمقام تک رسائی کی ضامن ہے.لیکن اگر نیست شیطانی ہو یا خالصتاً رحمانی نہ ہو تو دل و زبان پر رکھ“قربةالی اللہ”کاورد ہو اور ظاہریت بھی متاثر کن ہو،اس سے کوئی فائدہ نہیں ایساشخص کل قبر سے خالی ہاتھ اٹھے گا اور نامہ اعمال بھی اس کا کورا ہوگا.لیکن اگر صرف انسان کی نیت اخلاص پرمبنی ہوتو باقی سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجاتاہے.

اس موضوع پر جو آیہ شریفہ ہم نے پیش کی ہے اس کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب فرمادیجئے کہ ہرشخص کاعمل اس کے شاکلہ کے مطابق ہوتاہے .آپ کا پروردگار خوب جانتاہے کہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ کون ہے...

اب “شاکلة”کے معنی پر غور کیجئے اس کامعنی خصلت یا افتاد طبع ہے تو مطلب اس آیہ شریفہ کا یہ ہوا کہ ہرشخص اپنی خصلت یا افتادطبع کے مطابق کام کرتاہے جیسی اس کی خصلت یاافتاد طبع ہوگی ویسا ہی عمل بھی اس سے سرزد ہوگا اگر اس کی خصلت طبع رحمانیت اور صالحیت سے متاثر ہے تو اس کے بارے اعمال خیرورحمت ہوں گے اور پھر اگر ان میں کوئی کمی بھی رہ گئی ہو تو بھی وہ بارگاہر الہيٰ میں مقبول ہوجائیں گے لیکن اگر اس کی خصلت “شاکلہ ”خبرا ب اور شیطانی ہوئی اور مادہ پرستی ،دنیا طلبی اوربداندیشی پرمبنی ہوئی تو اس کے سارے اعمال ضائع اور سب دعوے ناکارہ ہوجائیں گے .لہذا سب سے پہلے اس شاکلہ یا افتاد طبع کو درست کرنا ضروری ہے تا کہ اس پر جس عمل کی بھی بنیاد رکھی جائے اس کاانجام اچھاہو.

اب آئیے غور کرتے ہیں کہ انسانی شاکلہ کو درست کرنے کا کیا طریقہ ہے اور کہ یہ شاکلہ کس وسیلے سےرحمانی بنتاہے ہم اسے سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں.

دوراہے پر:

ہر انسان فطری طورپر خیزوشر کے دوراہے پر خلق کیاگیا ہے.اپنی ذات میں نہ وہ نیک ہے نہ بد بلکہ ایک صاف،بے نقش اور کرے صفحے کی مانند ہے جس پر جس طرح بہترین تحریر لکھنا یا حسین ترین نقش بناناممکن ہے اسی طرح اس پربدترین شکلیں،شیطانی تحریریں یامکروہ ترین ڈھانچے بھی نقش کئے جاسکتے ہیں مفید و ہدایت بخش مضامین بھی لکھے جاسکتے ہیں .اورمضر اور گمراہ کن باتیں بھی تحریر کی جاسکتی ہیں.انسان ابتداہیں سے رحمانی وشیطان .دنیاوی واخروی او رمادی وروحانی اعمال کے دوراہے پر ہے جس طرف بھی وہ راغب ہوتاہے اس کا شاکلہ بھی اسی طرف مائل ہوجاتاہے ہر حرکت جو اس سے سزد ہوتی ہے،ہر چیز جسے وہ دیکھتاہے یاکانوں سے سنتاہے حتيٰ کہ وہ لقمہ بھی جواس کے حلق سے نیچے اترتاہے ،سب کی سب چیزیں اس کی شاکلہ سازی کرتی ہیں ہر لفظ جوزبان سے نکلتاہے شاکلہ پراثر انداز ہوتاہے اور حقیقت ذات اس سے متاثر ہوتی ہے ہرچیز کا اولین اثر انسان کے نفس پرہی ہوتاہے.

اگر آپ نے کسی کے ساتھ بدزبانی کی یاآپ کسی کی اذیت کا خیال دل میں لائے تو اس سے سب سے پہلے آپ کی اپنی ذات متاثر ہوگی اس علم سے آپ حق وحقیقت سے دور ہوجائیں گے اور اپنےشاکلہ میں شرکو اثر اندا ہونے کاموقع فراہم کریں گے پھر آپ چاہئے کتنی ہی نماز یں پڑھیں لیکن نیت خالص اور اہتمام صادق کے ساتھ پورےحسن وخوبی سے ادا کی گئی نماز جیسی نہ ہونگی کیونکہ جب شاکلہ ہی خراب ہو تو نیت صادق سے اس پیدا نہیں ہوسکتی

روٹی کا ٹکڑا حلال ہو یاحرام،پاک ہو یا ناپاک جب آپ کے حلق سے نیچےاترتا ہے ،آپ کے شاکلہ پرپوری قوت سے‌اثر اندااز ہوتاہے اور اگروہ لقمہ حرام ہے تو رفتہ رفتہ شاکلہ طبع کو شیطانی بنادے گا او رجب شاکلہ شیطنت پر متشکل ہوگیا تو پھر ہرصادر ہونے والافعل شیطانی بن جائے گا.

قعر جہنم یا درجات بہشت:

انسانی اعمال سے شاکلہ کی تاثیر پذیر ی ابتداء میں اگرچہ بہت معمولی ہوتی ہے لیکن سن بلوغ کو پہنچ کر اس کی باقاعدہ تشکیل شروع ہوجاتی ہے اگر اس وقت زبان آنکھ،کان،پیٹ وغیرہ بند ہدایت سے‌آزاد ہو گئے اور ہوائے نفسانی کی انہونے اطاعت اختیار کرلی شاکلہ شیطانی سانچے میں ڈھل جائے گا ایساانسان اس دنیاسے رخصت ہوکر عالم ملکوت کے شیاطین کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہےاور اس کاٹھکانا دوزخ کاآخری مقام اسفل اسافلین ہوتاہے لیکن اگر اس نے اپنی اصلاح کی کوشش کی اور چھوٹی چھوٹی حرکات پرکڑی نظر رکھی ،زبان کو قابومیں رکھا اور آنکھ یاکان کورضائےخداوندی کے علاوہ کسی امر میں نہ کھو لاتو وہ فرشتوں سے بلند مقام پاتاہے اور جنت کے اعليٰ درجات تک پہنچتاہے جہاں فرشتے اس کی غلامی پرفخر کرتے ہیں.

اس میں آپ ہی کی بہتری ہے:

یہ جو اسلامی تعلیمات میں‌اتنی تاکیدہے کہ مسلمان ہوس پرستی سے بازرہیں حدود شریعت کا احترام کریں اوربے لگام نہ ہوجائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالٰی کو آپ کی خوشی اچھی نہیں لگتی یا اسے آپ کی تفریح گوارا نہیں .ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ چونکہ اس سے آپ کے شاکلہ کو ضر پہچتاہے جس کے نتیجے میں آپ کے اسفل السافلین میں گرنے کا اندیشہ ہوتاہ اس لئے آپ کو نتائج بدکے حامل اعمال سے بازرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.ہر نظر جوآپ ٹیلیویژیاسیمنار کے کسی ہیجان خیز منظر پر ڈالیں گے،آپ کے نفس پر اثربد جھوڑے گی اوررفتہ رفتہ آپ شیطان کے تسلط میں گرفتار ہوجائیں گے.اگر جلدی ہی آپ نے اس صورت حال کو درست کرلیا تو خیر ورنہ چالیس سال کی عمر کے بعد شاکلہ کا اصلاح پذیر ہونا بہت مشکل ہے.

شیطان کے کلیجے میں ٹھنڈک:

روایت ہے کہ شیطان اس چالس سال ہ انسان کی پیشانی کو چومتاہے جس کا شاکلہ بگڑچکا ہو اور کہتاہے قربان ہوجاؤں اس پر کہ جس کی اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہی ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسے شخص کاسدھرنا ممکن نہیں.لیکن بہت مشکل ضرور ہے.یہ اگل بات ہے کہ لطف ایزدی شامل حال ہو اور دفعتاً ہی اس کا کاپاپلٹ جائے اور وہ اصلاح پذیر ہوجائے.

لہذا خود پر بھی رحم کیجئے اور دوسروں کو بھی سمجھائیے کہ شہوت پرستی اور ہوس رانی سے بچیں اور خود پر ظلم کرکے( وَ لكِنْ کانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُون‏ ) کے مصداق نہ بنیں.

جب شاکلہ بگڑجائے تو نوبت یہان تک پہنچ جاتی ہے کہ انسان حج وزیارت سے بھی مشر ف ہوتا ہے .عزاداری امام مظلومعليه‌السلام بھی کرتاہے لیکن رحمانی تقاضے سے نہیں بلکہ شیطان کی ایک اہٹ پر کرتاہے.مجالس عزا بپاکرتاہے لیکن نمودو نمائش کی یا کسی دوسری غرض سے حج و زیارات کو جاتاہے. لیکن تفریح وسیاحت یا تجارت کی غرض سے قصہ مختصر یہ کہ پھر اس ے کوئی کام بھی اخلاص سے‌سرزد نہیں ہوتا.

جہاد اکبر:

لہذا جہاد بالنفس کے لئے اور ہوا وہوس کی مخالفت میں یہ جو اتنی تاکید واردہوئی ہے بلاسبب نہیں ہے.اصول کافی میں مکرر نقل ہونے والی حدیث شریف آپ نے سنی ہوگی کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے واپسی پر صحابہ سے فرمایاکہ ہم جہاد اصغر سے تو فارغ ہوگئے ہیں لیکن جہاد اکبر ابھی باقی ہے صحابہ نے عرض کیا حضور وہ کونسا جہاد ہے تو آصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: وہ اپنے نفس سے جہاد ہے.

یعنی وہ جہاد کہ جس کا تحمل محاذ جنگ پر پہنچنے والے تیر وشمشیر کے سخت زخموں سے بھی بدرجہاد مشکل ہے اور اسی نسبت سے اس کا اجر بھی زیادہ ہے وہ یہی جہاد نفس ہے جسے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاد آکبر سے تعبیر فرمایا ہے.کیونکہ حرص و ہوس اور شہوات نفسانی کے طوفان میں ثابت قدم رہنے اور ان پر قابو پانے کے لئے محاذ جنگ سے کہیں زیادہ مردانگی اور ہمت وشجاعت درکار ہے.

لیکن جوانسان جہاد بالنفس میں اتنا کمزور ہو کہ حرام لقمے یا حرام نظر تک سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکے اس میں اپنے شاکلہ اصلاح ناممکن اور مقام اخلاص تک اس کی رسائی محال محض ہے.

اصلاح شاکلہ خواہشات نفسانی پر پابندی کے بغیر ممکن نہیں.اگر آپ جاہتے ہیں کہ دل کے مضبوط قلعے کو فتح کرکے عرض الٰہی تک پہچیں(قلب المومن عرش الرحمان )تو آپ کافرض ہے کہ ہر حرام اور ہر مکروہ سے اجتناب کریں اور ہر واجب بلکہ ہر مستحب کو بھی بجالائیں(اس ضروری شرط کے ساتھ کہ آپ سے کوئی عمل ان کے منافی سرزد نہ ہو).

شاکلہ اور شریعت:

شاکلہ کی اصلاح یقیناً بہت محنت طلب کام ہے لیکن اگر شرع متین کے قوانین کی پیروی کریں اور بالکل ابتداءہی سے مثلاً والدین کے ازدواجی اختلاط،انعقاد نطفہ ،مدت حمل کےت دوران او راس کے بعد مولود کی صحیح تربیت شریعت کے احکام کے مطابق کریں تو منزل نجات ک پہنچنے کے لئے اس کی راہ آسان کرسکتے ہیں.

والدین کا فرض ہے کہ بچے کو کوئی ایسی غذا نہ دیں جس کے بارے میں انہیں یقین کامل نہ کہ حلال و طیب ہے اگر اس کےلئے دایہ کی خدمات حاصل کریں تو پہلے پوری تحقیقات کرلیں کہ وہ واقعی نیک اور پاکدامن ہے پھر جب بچہ سن تمز کو پہنچے تو پوری احتیاط کی جائے کہ اس کے سامنے بدزبانی ہو او رکوئی فعل ایسا سرزد نہ ہوجو حیا کے منافی ہو اور اس سے اس کے‌ذہن پر برااثر مرتب ہونے کا اندیشہ ہو.

حتی کہ اگر والدین کے درمیان سوء تفاہم ہوجائے تووالدبچے کے سامنے اس کی والدہ سے ناراضگی کا اظہار نہ کرے ابتداء ہی سے کوشش کریں کہ کوئی بے ہودہ لفظ اس کےکانوں تک نہ پہنچے اسے اپنی نیکوکاری کے سائے میں رکھیں تاکہ اس کی عمر کے ساتھ کوئی برائی پروان نہ چڑھے.

بچہ سن رشد کو پہنچے تو اسے جائز خرچ کی مشق کرائیں تاکہ اسے سخاوت کی عادت پڑے اور آنے والی زندگی میں مال دنیا پر لوگوں سے جھگڑتانہ بھرے نئے لباس اور پیسوں وغیرہ کی اہمیت اس کے دل میں نہ بٹھائیں .اسے سمجھائیں کہ لباس کا مقصد صرف باعزت اور شریفانہ تن پوشی ہے.نیایا پرانا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.

اسے ناپاک غذا نہ دیں یہ نہ خیال کریں کہ بچہ ہے اس پرکوئی تکلیف نہیں ہے .سخت افسوس کامقام ہے کہ اسے حرام غذادی جائے.خداایسے والدین پر لعنت فرمائے جو شراب نوشی پربچے کی ہمیت افزائی کرتے ہیں.کیامعلوم کل وہ اللہ تعالٰی کو کیا جوا دیں گے .وہ لوگ جو پاں بچوں کو سنیما یا فواحش کے مراکزمیں لے جاتے ہیں ان کو جان لینا چاہئے کہ بچے کے شاکلہ کی تشکیلیل و تعمیر کے لئے جو ذمہ داری اللہ تعالٰی نے ان کے سرپر ڈالی ہےت وہ اس سے مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں.

عفت و پاکدامنی کے منافی ہر منظر بچے کی حیاکو کم کرتاہے اسے گستاخ اور لوگوں کی توہین پربے باک بناتاہے.ایسا بدبخت بچہ بڑاہوکر اپنے نفس میں اپنے بے مروقت باپ کے چھوڑے ہوئے مفاسد کیسے دور کرسکے گا.!

جب بچہ آٹھ سال کا ہوجائے تو اسے نماز کاپابند بنائیں.اور جب دس سال کا ہو جائے تو وہ اپنے کسی بھائی یابیہ کے ساتھ ایک بستر میں نہ سوئےت اگر بارہ سال کا ہوکر بھی نمازی نہ بنے تو اس کی تادیب ضروری ہے اور اسے جسمانی سزادینی چاہئے لیکن صرف اس قدر کہ جوت اس کے شاکلۀرحمانی کی نشوونما میں معاون ہو.

آداب زناشوئ:

رحم مادر میں نطفہ قرار پانے کے وقت ہی سے احکام شرع کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے.والدین لقمۀ حرام سے پورا پرہیز کریں تاکہ نطفہ پربرا اثر نہ پڑے .وظیفہ زوجیت کے دوران خداکی یاد میں مصروف رہیں شروع میں بسم اللہ پڑیں تاکہ شیطان نطفہ میں شامل نہ ہو ماں اور باپ دونوں کے خیالات اس دوران میں رحمانی ہوں تاکہ پیدا ہونے ولاے بچے کا شاکلہ قبول رحمانیت کے لئے بہتر طور پر مستعد ہو .اگر انعقاد نطفہ کے وقت باپ پر شیطانیت غالب ہوئی تو بچے پر ضرور اثر اندزا ہوگی اور پھر اس بچے کو رحمانی سا بچے میں ڈھالئے کے لئے بہت طویل محنت در کار ہوگی لہذا والدین جتنے زیادہ رحمانی ہوں اتنا ہی بہتر ہے.

جناب زہرا سلام اللہ علیہا:

روح مجسم،صدیقہ کبری جناب فاطمہ زہرا صلواة اللہ علیما کے نطفہ طاہرہت کے انعقاد کی کیفیت کی حامل روایات پر غور کیجئے لکھاہے کہ جب اللہ تعالی کا ارادہ گیارہ ائمہ طاہرین علیہم السلا م کی والدہ محترمہ وماجدہ مخدومہ کونین حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو دنیا میں بھیجنے کا ہوا تو اس نے اس نے اپنی قدرت کاملہ سے ایسا اہتمام فرمایا: کہ آپؑ کا جسم مقدس اتنا روحانی اور حمانی ہوجائے کہ روح کلی الٰہی کا متحمل ہوسکے .اور لطافت میں انسانی روح کے برابر ہو مخفی نہ رہے کہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجسام مومنین کی ارواح جیسے لطیف ہیں.

اور چونکہ جناب سرورکونینصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جسم مبارک سراسر نور ولطافت ہے اور پورے طورپر رحمانی ہے اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاشاکلہ انتہائی سفا ونورانیت اور جلا ولطافت کاحامل ہوگا.

روایت ہے کہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایکدن البطح میں تشریف فرماتھے،علیعليه‌السلام اور عمار یاسر خدمت اقدس میں موجود تھے حضرت ابوبکر و حضرت عمر بھی موجود تھے جبرئیل ناز ل ہوئے اور اللہ تعالٰی کافرمان حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گوش گذرا کیا کہ آج رات سے گھر تشریف نہ لے جائیں چالیس دن تک مباح خواہشات نفسانی یعنی دن کو کھانے اور رات کو سونے اورزوجہ طاہرہ سے قربت سے بھی منع فرمادیاتاکہ شاکلہ محمديؐ لطیف سے لطیف تر،پاک سے پاک تر اور روحانی سے روحانی تر ہوجائے

حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار سے فرمایا خدیجہ ؑکے پاس جاؤ انہیں ہماری طرف سے سلام کے بعد پیغام دو کہ ہم چالیس دن گھر نہیں آئیں گے اور کہہ یہ غیر حاضری کسی رنجش کی بناء پر نہیں بلکہ حکم خداسے‌ہے.

عمار نے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاپیغام پہنچایا جناب خدیجهؑ نے جواب میں امر الہی پر اظہار تسلیم فرمایا اور جدائی پر صبر اختیار کرنے پر رضامندی کا پیغام بھیجا.وہ چالیس روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عمہ محترمہ جناب فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی جناب امیر کے ہاں شب وروز عبادت الٰہی میں گذارے.

چالیسویں دن شام کو جبرئیل نازلؑ ہوئے اور اللہ تعالٰی کا حکم عرض کیا کہ آج افطار میں تاخیر فرمائیں حتٰی کہ غیب سےت افطاری کاسامان آئے نماز کےبعد جبرئیلؑ(اوران کے‌ہمراہ میکائل اور اسرافیل بھی جومعمولاًانبیاء پر نازل نہیں ہوتے)آئے اور طعام جنت جوانگور ،کھجور اور چشمہ ہائے جنت کے پانی پر مشتمل تھا،لائے.

جناب امیرعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ کھانے کے‌وقت ہمیشہ آنحضرت مجھے گھر کادروازہ کھلارکھنے کی ہدایت فرماتے تھے تاکہ ہر آنے والا آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوسکے لیکن اس رات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خاص طور پر حکم دیا کہ کسی کو آپ کے پاس نہ آ نےدوں کہ اس کھانے میں کسی کو شرکت کا حق نہیں .کھانے کے‌بعد جبرئیل نے آپ کے ہاتھ دھالئے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارادہ فرمایا کہ روزانہ کی طرح آج بھی نافلہ شب کے لئے اٹھیں لیکن جبرئیل نے عرض کیا کہ آج نافلہ شب کی ضرورت نہیں.آپ اسی وقت(کہ مادہ بہشتی بدن مبارک میں تشکیل پاچکا ہے)خدیجهؑ کے پاس تشریف لے جائے.

جناب خدیجهؑ فرماتی ہیں کہ میں ابھی سوئی نہ تھی کہ دروازے پردستک ہوئی میں نے کہا کون ہے اس دروازے کو کھٹکھٹانے والا جسے محمدؐکے سوا کوئی نہیں کھٹکھٹا سکتا.حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں ہوں دروازہ کھولو.قصہ مختصر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے میں معمولاً آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وضوکے لئے پانی لاتی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دورکعت نماز ادا فرماکر بستر میں تشریف لاتے .لیکن اس رات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وضو نہ فرمایا اوربستر میں تشریف لے آئے.

اس طرح نورانی پیکر سے‌خالص روحانی مادہ پاکیزہ ترین رحم میں منتقل ہوا.

اس پاکیزہ نطفے کی حقیقت یقیناًعجیب ہے.جناب خدیجهؑ فرماتی ہیں میں نے فوراً محسوس کرلیا کہ استقرار حمل ہوگی ہے.دوسرے ہی دن سے جنین پاک نے اپنی مادر گرامی سے مخاطب اور حمد وتسبیح باری کا آغاز کردیا.یہ واقعات خوارق عادت ہیں اور صرف ارادہ ازدی پرمنحصر ہیں.

ہمارے مذہب کےمسلمات میں سے‌ہے کہ روزقیامت شفاعت کبريٰ جناب زہراؑکے ہاتھ میں‌ہوگی.

ولها جلال لیس فوق جلالها

الاجلال الله جل جلاله