استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40507
ڈاؤنلوڈ: 3648

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40507 / ڈاؤنلوڈ: 3648
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۲۷

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ قالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ. إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِین‏

خلوص ا و رعمل خالص:

خالص وہ چیز ہوتی ہے جو کھری اور بے کھوٹ ہو اور اس میں اس کے غیر کی آمیزش نہ ہو مثلاً خالص ہونا جوصرف سونا ہوتاہے اورسونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا.نہ اس میں تانبے کی اور نہ ہی کسی اور چیز کی کی ملاوٹ ہوتی ہے.یامثلاً خالص دودھ جس کاوصف قرآن مجید میں یوں فرمایاگیا ہے:( نُسْقِیكُمْ مِمَّا فِی بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَ دَمٍ لَبَناً خالِصاً سائِغاً لِلشَّارِبِین‏ )

کہ ہم ان کے شکم سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکالتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے.

یعنی باوجوداس کے کہ وہ خون اور فضلات شکم میں گھراہواہے پھر بھی نہ فضلات کی بوسےمتاثر ہے نہ ان کی گندگی سے مکد رہے اور نہ خون ہی کے رنگ سےمتغیر ہے.

اسی طرح عمل بھی کدورتہائے نفسانی سے غیر متاثرہونا چاہئے اور خالصتاً اللہ تعالٰی کے لئے ہونا چاہئے لہذا اللہ تعالٰی کے تقرب کے ساتھ دنیاوی طلب کی شرکت جائز نہیں ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک روحانی ارم ہے جوزبان سے‌ادا کرنے یا دل میں لانے پرمنحصر نہیں.

دنیاوی آبروبھی اسی کے ہاتھ میں‌ہے:

عمل کے محرک کو دریافت کرنا ضروری ہے کہ کیا تقرب خالق اس کا محرک ہے یاتقرب مخلوق مثلاًاگر آپ منبر پرہو عظمت کےلئے جارہے ہیں تو کیا اللہ تعالٰی کے تقرب کے لئے جارہے ہیں یا حصول مال وجاہ کے لئے یادونوں یاتینوں کےلئے.یقین کیجئے کہ ان کا یکجا ہوناممکن نہیں کیونکہ کوئی کام یا اللہ کے لئے یاغیر اللہ کے لئے.یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے لئے بھی ہو اور غیر اللہ کے لئے بھی اور اگر پورے خلوص نیت کے ساتھ صرف اسی کے لئے انجام نہ دیاجائے اور اس میں اس کے غیر کی بھی شرکت ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کے حضور قبول نہیں ہوتا بلکہ دنیاوی مقصد بھی اس سے پورا نہیں ہوتا کیونکہ تمام انسانوں کے دل اللہ تعالٰی ے ہاتھ میں ہیں ارگ وہ چاہئے تو دنیاوی عزت بھی حاصل ہوسکتی ہے اور اگر اس کی مشئیت میں نہ ہو تو سوائے ذات کے کچھ ہاتھ نہیں آتا.

مالک دینار کاقصہ:

ابتدائےت عمرمیں ملاک دینار کاپیشہ صرافی تھا اور گذر اوقات بھی ان کی اچھی تھی.

مال میں زیادتی کےلالچ میں انہیں شام کی جامع مسجد اموی کی تولیت کی خواہش ہوئی ظاہر ہےکہ اس تولیت کے حصول سے بڑی بڑی رقوم ان کے ہاتھ لگتیں لیکن متولی بننے کے لئے از حد خلق یعنی سب سے زیادہ زاہد اور پرہیز گار ہونا شرط ہے‌انہیں نے تولیت کی ہوس میں اپنی ساری جائداد غرباء میں تقیسم کردی اور جامع مسجد میں گوشہ نشین ہوگئے اور جب دیکھتے کہ کوئی شخص مسجدمیں داخل ہوا ہے فوراً نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور خود پر خشوع وخصوع کی حالت طاری کرلیتے.

تعجب کی بات یہ تھی کہ ان کے پاس سے ہرگزرنے ولاان سے پوچھتاکہ اے مالک کیا ارادے ہیں کس چکر میں ہو،اسی حالت میں کافی زمانہ گذر گیا.ایک رات وہ اس سوچ میں پڑگئے کہ یہ میں نے کیا کیا او رمال دنیا کی حرص میں متبلا ہواکر میں کس حالت و پہنچ گیا .اپنا سارامال و متاع ہوس کی نذر کرکے آخر مجھے کیاملا.اب تو سب لوگ بھی میرے بھید سے واقف ہوگئے‌ہیں اور مجھے جینے نہیں دے رہے میں نہ دین کا رہا نہ دنیا کا .اب تو خسرالدنیا والاخرة میرا مقدر ہوچگاہے....

اس رات انہوں نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ سچی نیت سے استغفار کیا.نمائشی عبادت سے توبہ کی او رصبح تک اللہ تعالٰی سے گڑگڑکر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے.دوسرے دن وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ مسجد میں آنے والاہر شخص ان سے احترام سے پیش آتا اور ان سے التماس دعاکرتاہے او رسارے لوگ ان سے اظہار عقیدت وارادیت کرتے ہیں.رفتہ رفتہ سارے شام میں مشہور ہوگیا کہ مالک دینار ازہدخلق ہیں.اب لوگ ان کے پاس آئے اور انہیں مسجد اموی کے اوقاف کی تولیت انہوں پیش کی.لیکن انہوں نے جواب دیا نہ بابا بڑی مشکل سے اللہ تعالٰی کی کچھ ضا مجھے حاصل ہوئی ہے ،میرے حالات خوب سدھرگے ہیں،مجھے اب کسی چیزی کی احتیاج نہیں رہی.

وہ بدبخت انسان جو خلوص سے محروم ہو واقعی خسرالدنیا والآخرة سے دوچار ہوتاہے.

بے فائدہ عبادت:

ہم کہہ چکے ہیں کہ عبادت کی قبولیت خلوص سے مشروط ہے اور وہ عبادت جو خلوص سے عاری ہو قطعا بیکار ہے.پست ترین اور بدترین عبادت وہ ہے جس کے ذریعے انسان خالق اور مخلوق دونوں کا تقرب چاہئے .اسی میں وہ مبطل ایمان اعمال شرک دریابھی شامل ہیں جوگناہان کبیرہ میں شما ر ہوتے ہیں.اس سے بھی نچلے درجے کی عبادات وہ ہے جو حظِ نفس کے لئے بھی نہ ہو.

کبھی انسان کی نیت میں اس کی طبعیت کامیلان کارفرماہوتاہے مثلاً جمعہ کا دن ہو او رموسم گرم ہو تو اس کے دل میں آئے کہ چل کر سوئمنگ پول (حوض)میں نہاؤں جسم بھی ٹھنڈاہوجائے گا اور غسل جمعہ بھی ہوجائے گا.اب کون جانے کہ حقیقت میں وہ اپنا جسم ٹھنڈا کرنا چاہتاہے یا غسل جمعہ بجالانا چاہتاہے.یا مثلاً ہوا سرد ہے اور وہ گرم ہونا چاہ رہا ہے اس کے دل میں آتی ہے کہ حمام چلوں بدن میں گرمی بھی آجائے گی اور غسل جمعہ بھی ہوجائے گا .یہ عمل اخلاص سے عاری ہے.اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا عمل مکمل طور پر مخلصانہ ہو تو آپ کی نیت میں ذراسابھی شائبہ حظِ نفس کا نہیں ہونا چاہئے.

علاوہ از ایں کسی عمل کا ضیمہ اگرچہ مباح ہے لیکن اس کا دائمی طورت پر ضمنی صورت اختیار کرجانا بھی نفس علم کو باطل کردیتاہے .اخلاص سے ہمار امقصود یہ ہےت کہ عمل کے ساتھ اس کا کوئی ذیلی یاضمنی لاحقہ بھی موجود ہو مثلاً اگر کوئی شخص حقیقت میں تو غسل جمعہ ہی کرنا چاہتاہے لیکن ضمنا ٹھنڈا یا گرم بھی ہونا چاہتاہے تویہ غسل صحیح ہوگا لیکن اخلاص سے خالی ہوگا اور اگر غسل جمعہ کی نیت اور ٹھنڈایاگرم ہونے کی خواہش دونوں مساوی طور پر اس طرح غسل کے محرک ہوں کہ اان میں ایک اکیلا اسے غسل پرآمادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو غسل ہی باطل ہے.

تحسین وآفرین خلق:

بڑا ناازک مقام ہے.اللہ تعالٰی سے پناہ طلب کرنی چاہئے بعض اوقات انسان کو محسوس تک نہیں ہوتا اور دنیا کے ایک نعرۀ تحسین پر وہ اللہ تعالٰی کونظر انداز کرکے اپنی عاقبت خراب کربیٹھتا ہے.اللہ تعالٰی کے ساتھ بقائے دوام کا معاملہ تو کرتانہیں لیکن دنیا کی ایک عارضی “واہ وا” پر اپنی عاقبت کاسودا کرلیتاہے اور پھر اسی کا ہوجاتاہے.

اس سے بدتر یہ ہے کہ اپنی موت کے بعد صرف دعائے مغفرت پر قناعت و اکتفاء نہیں کرتا بلکہ ایسے کام کرتاہے کہ دنیا موت کے بعد بھی اس یادرکھے اور اس کی تعریف کرے.وہم وخیال میں ایسا جکڑا ہواہے او رجب جاہ اس کا اتنا بڑاھاہواہے کہ سمجھتا ہے کہ موت کے بعد بھی جب وہ اس دنیا میں موجود نہ ہوگا تو اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے اس دنیا کی تعریف وتوصیف سے محفوظ ومستفید ہوگا.سچارہ موت کے بعد بھی جاہ مقام کابھوکا ہے.

موت کے بعد نیک نامی البتہ مقید ہے بشرطیکہ اپنے اعمال سے انسان کا مقصد دنیاوی نیک نامی نہیں بلکہ محض اللہ تعالٰی کی رضا کا حصول ہو.یہ نیک نامی اچھی ہے بشرطیکہ آپ خود بھی نیک رہے ہوں وگرنہ اگر آپ کانفس خراب اور نیت آپ کی فاسد ہوئی تو دنیا چاہے آپ کی کتنی ہی تعریف کرے آپ کو اس سے کچھ نہیں ملیےگا.

کیا مدح مفید ہے؟:

اگرکوئی شخص دنیا میں غلط کردار کامالک ہو او رکسی مغالطے کے بناء پر لوگ اس کی تعریف ومدح کریں اور اس کے معتقد ہوں تو کیا یہ تعریفیں اس کے لئے سوئی کی نوک برابر کوئی فائدہ رکھتی ہیں یا اتنی ہی تخفیف اس کے عذاب میں کرسکتی ہیں.؟

دنیا کی نیک نامی اس شخص کے لئے جوبرزخ میں ہو کی فائدہ رکھتی ہے جوشخص عالم ملکوت میں ہواسے عالم ملک یعنی عالم محسوسات طبیعی سے کیا واسطہ ؟دونوں جگہوں کی اوضاع آپس میں مختلف ہیں.اگر کوئی یہاں سے ایمان کی سلامتی کے ساتھ رخصت ہو ا ہے اور اپنی زندگی میں نیکوکار اور بااخلاص کے لئے انسان یقیناً نیک اجرپائے گا لیکن بصورت دیگر خواہ اس کی قبر پر چراغاں ہوتی رہے یا خاک اڑتی رہے اسے کیا فرق پڑتاہے.

احمدبن طولون وقاری قرآن:

اگر کوئی اس دنیا سے باایمان رخصت ہوا ہے اور قرآن مجید پر اس کا ایمان کامل رہاہے تو بعد مرگ اس کی قبر پر قرآن خوانی کا اسے فائدہ پہنچ سکتاہے ورنہ احمدبن طولون کا قصہ آپ نے سنا ہوگا جسے علامہ دمیری نے حیواة الحیوان میں لکھا ہے.وہ شخص مصر کابادشاہ تھا.

جب اس کی وفات ہوئی تو حکومت مصر کی طر ف سے ایک قاری کو اس کی قبر پر تلاوت کے لئے مامور کیا گیا اور اس کی معقول تنخواہ مقرر کردی گئی.وہ ہر وقت اس کی قبر پر تلاوت میں مصروف رہتا.

ایک دن خبر ملی کہ قاری کہیں غائب ہوگیا ہے.کافی تلاش کے بعد سپاہیوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور اس سے اچانک فرارکا سبب پوچھا .جواب کی جرات اسے نہیں ہوئی تھی بس استعفاء کامطالبہ کئے جارہا تھا ارباب حکومت نے اس سے کہا اگر تنخواہ کم سمجھتے ہو تو جتنا کہوہم اس میں اضافہ کئے دیتے ہیں .اس نے کہا کتنے ہی گنا بڑھا دو مجھے منظور نہیں.انہوں نے حیران ہوکر کہا جب تک حقیقت بیان نہیں کرے گا ہم تجھے نہیں چھوڑ یں گے.

کہنے لگا چند روز قبل صاحب قبر مجھ سے معترض ہوا اس نے میراگریبان پکڑلیا اور کہنے لگا میری قبر پر قرآنی خوانی کیوں کرتاہے.میں نے کہا مجھے اس پر مامور کیا گیا ہے تاکہ تمہاری روح کو ثواب پہنچے اس نے کہا مجھے اس سے فائدہ تو کوئی نہیںت پہنچا البتہ تمہاری تلاوت کردہ ہر آیت میرے عذاب کی آگ کو مزید بھڑکادیتی ہے اور مجھ سے کہا جاتاہے اب سن رہاہے؟دنیاوی زندگی میں اسے کیوں نہیں سنا اور کیوں اس پر عمل نہیں ہوا.لہذا مجھے معاف کریں میں اس خدمت سے باز آیا.

بارگاہ خداوی میں سچائی اور اخلاص کے سواکوئی چیزفائدہ نہیں پہنچاتی .اپ زبان سے لاکھ “قربة الی اللہ” کا ورد کریں لیکن اگر آپ کی نیت میں خلوص موجود ہے تو فبہا ورنہ صرف الفاظ بول دینا قطعا مفید نہیں.

غرضیکہ نفس انسانی عام طور یا تو دنیا والوں کے درمیان عزت حاصل کرنے کے لئے اور یاحظ نفس کی خاطر نیک کام انجام دیتاہے اور سمجھتا ہے کہ بڑاپارسا اور پرہیزگار ہوں.لیکن روزقیامت جب اپنا سیاہ نامہ دیکھے گا تو پتہ چلے گا کہ سب کچھ ریاکاری یا اغراض نفسانی کی وجہ سے تھا.

اگر عمل اخلاص کے ساتھ انجام دیاجائے تو اس کا ذرہ بھی انسان کے درجات میں بلندی کاسبب بن سکتاہے اور اس کی نجات کا باعث ہوسکتاہے .انسان دورکعت نماز بھی بہشتی بن سکتاہے بشرطیکہ پورے اخلاص ارو حضور قلب سے پڑھی ہو.ورنہ ساری عمر کی بے حضور نمائشی نمازوں سے کچھ حاصل نہیں.

سید بن طاوس فرماتے ہیں کہ وہ عبادت بھی جو دوزخ کے ڈرسے یابہشت کے طمع میں کی جائے حظ نفس میں شمار ہے.وہ عمل جوخلوص سے کی ہو اور صرف حظ نفس کے لئے کیا جائے البتہ شرعاًصحیح ہوگا اور دوسرے اعمال سے بہتر ہوگا لیکن درجات عالیہ کی نسبت سے جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنینعليه‌السلام نے فرمایا:“ مَا عَبَدْتُكَ خَوْفاً مِنْ نَارِكَ وَ لَا طَمَعاً فِی جَنَّتِكَ لَكِنْ وَجَدْتُكَ أَهْلًا لِلْعِبَادَةِ ”میں تیر عبادت دوزخ کے ڈریا جنت کے لالچ میں نہیں کرتا بلکہ صرف اس لئے کہ تو واقعی عبادت کے لائق ہے.وہ عمل بہت کم درجے کا ہوگا.

عالم کی عبادت:

آپ نے سناہوگا کہ عالم کی دورکعت نماز جاہل کی ایک سالہ عبادت سے بہتر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم انسان حقائق کو جاننا اور ان کاا دراک رکھتا ہے.اور حظ نفس کی سب صورتوں کو سمجھتاہے لیکن جاہل نہیں جانتاہے کہ اس کے کسی عمل کا کیا مقصد ہے.وہ عموماً یا تو خود اپنی عبادت کرتاہے یا کسی دوسری کی لیکن سمجھتاہے کہ خدا کی عبادت کررہاہے.

اس طرح آپ نے یہ بھی سنا ہے کہ عالم امام کے پیچھے نماز جماعت ادا کرنے کاثواب عام نماز کے ثواب سے ہزار گنا ہوتاہے.کیونکہ وہ آفات نفس کادانا ہوتاہے اور اخلاص سے کبھی جدانہیں ہوتا جودین کی اصل حقیقت ہے.

باپ بیٹا:

سفر کربلاکے دوران ایک منزل پر جناب امام حسینعليه‌السلام کو اونگھ آگئی اس کے بعد آپ نے اپنے رفقاء سے فرمایا میں نے ایک منادی کو سنا جوفضائے آسمانی میں باآواز بلند کہہ رہا تھا کہ یہ جماعت جارہی ہے اور موت ان کے ہمراہ چل ری ہے .علی اکبرعليه‌السلام نے پوچھا بابا جان کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہماری موت اس کی راہ میں نہیں ہوگی.آپعليه‌السلام نے جواب دیا .ہاں تو علی اکبرعليه‌السلام نے عرض کیا“اذالانبالی بالموت ” پھر موت کی ہمیں کوئی پروانہیں ہے.کیونکہ اس سے بڑی سعادتت اور کیا ہے کہ حق کے لئے حق کی راہ میں شہید ہوں.یہ الفاظ ایک عبد مخلص کی دلی کیفیت کے آئنہ دار ہیں.“انما جعل الکلام علی فواد دلیلاً ” اللہ تعالٰی نے الفاظ کو دل کا ترجمان بنایا ہے. یہ اخلاص کابلند ترین مقام ہے اور یہاں مقصود صرف ذات خداہے.نہ یہاں حظ نفس کاکوئی خفیق ترین شائبہ موجود ہے اور نہ نام ونمود یاجاہ ومقام کی ذرہ بھر کوئی خواہش کارفرماہے کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ شہادت مقدر ہو چکی ہے.

مجلس ۲۸

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ قالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ. إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِین‏

امید جنت وخوف دوزخ:

عمل واجب ہویا مستحب بہر حال اخلاص کے ساتھ ہونا چاہئے کیونکہ اس کی قدر وقیمت اخلاص ہی سے ہے او ر اخلاص کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں اخلاص کا ادنيٰ درجہ یہ ہے کہ انسان کے علم کامحرک دکھاوا یانمائش کا جذبہ نہ ہو بلکہ خوف عذاب یا طلب ثواب ہو.مثلاً جب وہ نماز فجر کے لئے آٹھے اور وضو کرے تو اس کا محرک یہ اندیشہ ہو کہ نما زواجب ہے اگر نہ پڑھی توترک صلواة کامجرم ہوکرکافر نبوں گا اور اس کی سزا میں پندرہ قسم کے عذاب ہائے خداوندی کانشانہ بنونگا.یا مثلاًجب وہ روزہ رکھے تو اس کے فاقہ بردشت کرنےت اور چودہ گھنٹے کے‌لئے خود کوروزہ شکن امور اور دگیر خواہشات نفسانی سے بازرکھنے کا محرک ثواب کاوہ وعدہ ہو جوروزہ دار کودیاگیاہے.

یہ دانی یا پہلا درجہ اخلاص کا ہے جس میں انسان کاعمل صحیح شمار ہوتاہے ،جس عذاب سے وہ ڈرتاہے اللہ تعالٰی اسے‌اس سے امان میں رکھتاہے اور جس ثواب کاوہ امید وارہوتاہے اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے اسے نوازتاہے.

لیکن اگر انسان کے عمل کامحرک محض دنیاوالوں کی نظروں میں برتری کاشوق یافضحیت کاخوفف ہو،مثلاً حج کو جانے سےاس کا مقصد طلب ثواب نہ ہو بلکہ اصل محرک دنیاکی نظرون میں برتری کی خواہش ہو یا اندیشہ ہو کہ اگر حج نہ کیا تو دنیا والے بخیل یا کنجوس کہیں گے.تواس کا عمل باطل او رحرام ہے.

یہ بڑا مشکل مقام ہے بعض اوقات انسان اپنی ذات میں الجھ جاتاہے ارو اپنا آپ اس کی نظروں میں مشکوک ہوجاتاہے.مثلاًوہ افعال بدسے بیزاری اورنفرت کااظہار کرتاہے یاامربالمعروف کرتاہے اور سمجھتاہے کہ اس نے اللہ تعالٰی کی طرف سے عائد کردہ ایک ضروری اور واجب عمل انجام دیاہو لیکن اصل محرک اس کے اس عمل کا محض دکھاوا اور دوسروں کو یہ بارو کرانا ہوتاہے کہ اس کے دل میں دین کابڑا دردہے اور ہر چند کہ یہ عمل بظاہر اچھا ہے لیکن اس کے گناہان کبیرہ میں شمار ہوتاہے.

تیس سالہ عبادت کا اعادہ:

یہ ایک عبادت گذار کا قصہ ہے جس میں خوب غور کرنا چاہئے کہ مباد ہمارابھی وہی انجام نہ ہو.

ایک صاحب تقويٰ شخص نماز با جماعت ادا کرنےت کی غرض سے ہمیشہ سب سے پہلے مسجد میں پہنچتا سب سے اگلی صف میں کھڑا ہوتا اور سب سے آخر میں مسجدسےنکلتا تھا.پورے تیس سال اس کا یہ رویہ رہا اور ایک وقت کابھی اس میں ناغہ واقع نہ ہوا.ایک دن اسے کوئی بہت ہی ضروری کام پیش آگیا جس کی وجہ سے اسے دیرہوگئی اور وہ مسجد میں اپنے وقت پرنہ پہنچ سکا.جب آیا تو نماز شروع ہوچکی تھی لہذا ناچار اسے آخری صف میں کھڑا ہونا پڑانماز سےفراغت کے بعد لوگ مسجدسے رخصت ہوتے وقت اسےتعجب سے‌دیکھتے تھے.اسے بہت دکھ ہوا کہ نمازیوں نےاسے آخری صف میں کیوں دیکھا ارووہ شرم سے پانی پانی ہوگیا.

پھر اسے خیال آیا کہ شرمندہ ہونے کی کیابات ہے اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکرکہنے لگا اے بدبخت یہ جو تیس سال توصف اول میں کھڑا ہوتاہامعلوم ہوتاہے کہ ثواب کے لئے نہ تھا بلکہ صرف دنیا کے سامنے نمائش کے‌ارادے سے تھا ورنہ اگر خدا کے لئے تھا تو آج اسے منظور نہ رہا ہوگا کہ توصف اول میں کھڑا ہو.اس کی مشئیت پرناراض ہونے کی جرأت تجھے کیسے ہوتی ...؟

آخر کار وہ تائب ہوا اور تیس سالوں کی نمازیں اس نے قضاکیں.

امراض نفسانی کاعلاج کیجئے:

یہ دستان ہم سب کے لئے باعث عبرت ہونی چاہئے ہم یہ نہیں کہتے کہ نماز کے لئے مسجد میں صف اول میں کھڑے نہ ہوں .ضرور کھڑے ہوں لیکن فضیلت اور ثواب کے حصول کے‌لئے نہ کہ دنیا کے دکھا وےکے لئے اگر کسی دن پہلی صف میں جگہ نہ ملی اور آپ کو دوسری ،تیسری یا آخریصف میں کھڑا ہونا پڑا تو اس میں توہین کی کوئی بات نہیں.یہ نہ کہیں کہ میں عالم ہوں مجھے ضرورہی صف اول میں جگہ ملنی چاہئے ،پچھلی صفیں میرے شایان شان نہیں بلکہ آپ کو پچھلی صفوف میں کسی بچے یا کسی جاہل کے ساتھ بھی کھڑاہونا پڑے تو آپ کو ترددلاحق نہیں ہونا چاہئے.

یہ نفسانی امراض ہیں جو انسان کو ہلاک کردیتے ہیں.امام جماعت کابھی فرض ہے کہ مقتدیوں کی تعداد کو اہمیت نہ دےت ورنہ گناہ گارہوگا.مقتدی خواہ ایک ہو یا دس ہزار ہوں اس کے لئے برابر ہونا چاہئے.

ریاء اور ذیلی محرکات سےتوبہ:

لہذا یہ ضروری ہے کہ انسان کے عمل کاادنيٰ محرک خوف عذاب یاامید ثواب ہو اس سے بہتر اور مکمل ترصورت یہ ہے کہ محرک خود ذات خداوندی ہو اس کے سوا جوکچھ بھی ہے ریا ہے او رباطل وحرام ہے اور اگر وہ عمل واجب تھا تو اس کا اعادہ او رضاءضروری ہے اور توبہ توہر حال میں لازم ہے خواہ وہ عمل واجب ہویامستحب.

اسی طرح ذیلی محرکات بھی ریاء ہی کے حکم میں داخل ہیں مثلاً کوئی شخص مشہد مقدس کی زیارت کو جائے لیکن اس کا محرک وہاںکی آب وہوا یا پھلون کی فراوانی یاسیاحت ہو کہ زیارت ثانوی حیثیت اختیار کرجائے.

کشتہ راہ خر:

پس اگر انسان سے کوئی نیک علم سرزدہو تو غرور وفریب میں نہ آجائے کہ میں نےخدا کی راہ میں یہ کام کیا بلکہ اسے چاہئے کہ اس کا م کےمحرک کی تعین کرے کیونکہ حقیقی ہدف اس کا وہی چیزہے جس نے اسے عمل پر اکسایا ارو اس کوخدا کی راہ میں قرار دینا صرف اس صورت میں ممکن ومعقول ہے کہ آپ نے پورے عزم سچی نیت اور دلی ارادہ سے محض اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے لئے اسے‌انجام دیاہو.

روایت ہے کہ عہد رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ایک محاذ جہاد پر ایک کافر ایک خوبصورت سفید خچرپر سوار جنگ میں مصروف تھا ایک مسلمان کی نظرجو اس سفید راہوار پرپڑی تو اس پر لٹوہوگیا اور دل میں کہنے لگا اس کافر کوقتل کرکے اس خچر کوحاصل کرنا چاہئے.اس نیت سے وہ آگے بڑھا لیکن پیشتر اس کے کہ وہ اس کافر پر حملہ آور ہو اس کافر نے سبقت کی اور اسے قتل کردیا.صحابہ میں وہ مسلمان “قتیل الحمار” (کشتہ راہ خر)مشہور ہوگیا.

ملاحظہ کیا آپ نے کہ اس نےکس نیت سے حرکت کی اور اس سے اسےکیا حاصل ہوا.اس بازار میں صرف حق وحقیقت کالین دین ہوتاہے.ظاہر داری جیسے کھوٹے مال کی یہاں کوئی پرسش نہیں.پس وائے ہو اس بدبخت انسان پر جواپنے نفس کی غلامی میں جان دے کر“خسرالدنیا والاخرة” حاصل کرے اگر کوئی شخص اپنے نفس کی غلامی میں جان دے کر“خسر الدنیاا والآخرہ”حاصل کرکے.اگر کوئی شخص اپنے نفس کی خاطر سرگرم عمل ہوتو سکتاہے کہ اللہ تعالٰی کی حکمت و مشئیت سے بعض اوقات اپنے مقصد کو پابھی لے لیکن اس کا یقینی حصول صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عمل کو پورے اخلاص نیت سے صرف اللہ تعالٰی کی خاطر انجام دیا جارہے .اس طرح سے نہ صرف یہ کہ حصول مقصد میں کامیابی حتمی ہوگی بلکہ اس کے فضل و کرم سے توقعات سے بڑھ کر چڑھ کر نتائج حاصل ہوں گے جیساکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ:( مَنْ کانَ يُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِی حَرْثِهِ وَ مَنْ کانَ يُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیا نُؤْتِهِ مِنْها وَ ما لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ نَصِیب‏ ) جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلبگار ہے اسے اسی میں سے عطا کردیتے ہیں اور پھر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے.

ضمنی محرکات مبطل عمل نہیں:

اس مقام پر یہ یاددہانی ضروری ہے کہ ضمنی محرکات مبطل عمل نہیں ہیں مثلا ایک شخص حصول ثواب کی نیت سے حضرت امام رضاعليه‌السلام کی زیارت کے لئے مشہدمقدس جاتاہے کیونکہ امام رضاعليه‌السلام کاوعدہ ہے کہ وہ میزان اصراط اور نامہ اعمال کی تقسیم کے وقت اپنے محبین کی مدد کو پہنچنگے اسی وعدے کے وثوق میں وہ جاتاہے کہ امامعليه‌السلام کی شفاعت سے اللہ تعالٰی اسے حج وغیرہ کا ثواب عطا فرمائے گا.

ضمناًوہ یہ سوچتاہے کہ ذارایک ہفتہ ٹھہرجاؤں تاکہ مشہد کی خوبانی خوب یا خبربوزے نے سفر مشہد پرآمادہ نہیں کیا بلکہ حقیقی محرک اس کے سفر کازیارت امامعليه‌السلام ہے اور خوبانی خربوزہ یا ہواخوری اس کے ذیلی محرکات ہیں.

خانہ کعبہ تپتی سرزمین پر:

نہج البلاغہ میں حج اور اس کی حکمت کے بارم میں جناب امیرعليه‌السلام نے اپنے خطبہ جلیلہ میں فرمایاہے کہ اللہ تعالٰی نے خانہ کعبہ شریف و تپتی سرزمین پر قرار دیا جس میں جسمانی آسائش کاسامان نہیں کیونکہ اس کے اطراف میں تپتے ہوئے پہاڑ ہیں اور زمین وہاں کی بنجرہے.اگر اللہ تعالٰی کی مشئیت ہوتی تو وہ اپنے مقدس گھر کو دنیا کے خوش موسم ترین خطہ میں قرار دیتالیکن ایسا کرنے سے لوگوں کی آزمائش نہ ہوسکتی

مثلاً اگر خانہ کعبہ لبنان میں ہوتا تو لوگ خوشکوار آب وہوا اور خوبصورت باغوں اور سبزہ زاروں کے فرحت بخش مناظرسے لطف اندوز ہونے کے لئے وہاں جاتے اور اس طرح تقرب خداوند ی سے محروم رہتےت کیونکہ اللہ تعالٰی کی عبادت سے زیادہ حظِ نفس ہوتا اور اس کا محرک اخلاص عبادت نہ ہوتا.

کچھ نہیں کہا جاسکتاہےھ کہ حالیہ سالوں میں عربستان میں نعمت کی جوفراوانی واقع ہوئی ہے او رسفرکی آسانی اور وسائل کی کثرت جوبہترین طریقے سے صورت پذیر ہوئی ہے ،آیا اس نے لوگوں کی نیتوں پر بھی کچھ اثر کیا ہے یا نہیں اور وہاں کا سفر بھی تجارت اورتفریح وغیرہ کا ذریعہ بناہے یا نہیں.خدانہ کرے کہ ایسی عظیم عبادت کامحرک حظِ نفس ہوسکے.

زاد سفر:

کسی کو ہماری باتوں سے بدگمانی نہیں ہونی چاہئے ہم یہ نہیں کہتے کہ مکہ معظمہ جاکر اچھی غذا نہ کھائیں ،زیو سفرسے غفلت برتیں اور کوئی تحفہ وغیرہ نہ خریدیں بلکہ بہترہے بہتر زادسفر کی فراہمی ایک مستحب فعل ہے اور اسی طرح سے گھر کی طرف لوٹنے والامسافر تحفہ یا سوغات بھی لاتاہے، اس میں بھی کوئی قباحت نہیں.ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ سفر حج کے لئے صرف یہی امور آپ کے محرک نہیں ہونے چاہئیں .بلکہ آپ کو حج کاشوق دلانے والی چیزکم ازکم یاخوف عذاب یاطلب ثواب ہوکیونکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ جوشخص خوف عذاب سے یاطلب ثواب کے لئے کوئی نیک عمل بجالاتا ہے تو اللہ تعالٰی اسے مایوس نہیں فرماتا.لیکن اگرنیت ہی خالص نہیں تو عمل بیکارہے.

معانی الاخبار میں روایت ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیعليه‌السلام اپنے ایک شیعہ کے سرہانےت تشریف لائے جو حالت نزع میں تھا آپعليه‌السلام نے احوال پرسی فرمائی تو اس نے جواب دیا“اخاف ذنبی وارجورحمة ربی” اپنے گناہوں کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہوں اور اللہ تعالٰی کی رحمت کاامید وارہوں.آپ نے فرمایایہ امیدوہمت جس دل میں ہو اللہ تعالٰی اسے اس چیزسے امان میں رکھتاہے جس سے وہ اندیشہ ناک ہو اور جس چیز کاوہ امید وارہو اسے عطافرماتا ہے.

خداسے معاملہ:

یہ معاملہ ایسا ہے جس میں نقصان کااندیشہ نہیں،اورنہ ہی اس میں دنیاوی معاملات کی طرح “لمن نشاء” کی شرط ہوتی ہے بلکہ یہاں قطعی وعدہ دیاگیا ہے او رنیک عمل کی کوشش کو سعی مشکور فرمایاگیاہے.وہ ہواوہوس والامعاملہ ہے جومتزلزل ہوتاہے. اللہ تعالٰی کے ساتھ معاملہ قطعی اور یقینی ہے اور اس میں کسی قسم کےنقصان کاکوئی اندیشہ نہیں.

سورۀ اسراء میں ارشاد باری ہے:

( مَنْ کانَ يُریدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فیها ما نَشاءُ لِمَنْ نُریدُ ثُمَّ جَعَلْنا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلاها مَذْمُوماً مَدْحُوراً ،وَ مَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَ سَعى‏ لَها سَعْيَها وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ کانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً ) جو شخص بھی دنیا کا طلب گار ہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنمّ ہے جس میں وہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا ،اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ویسی ہی سعی بھی کرتا ہے اور صاحب ہایمان بھی ہے تو اس کی سعی یقینا مقبول قرار دی جائے گی.