استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40499
ڈاؤنلوڈ: 3641

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40499 / ڈاؤنلوڈ: 3641
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

فرشتہ مقابل شیطان:

لیکن اگر ایک طرف شیطان انسان کے دل میں ایمان شکن وسوسے ڈالتا ہے تو دوسری طرف اللہ تعالٰی کی طرف سے مامور فرشتہ رحمت افکار رحمانی بھی اس کےدل میں القاء کرتاہے.یقیناً اگرشیطان کسی انسان کو کہتاہے کہ خودکشی کرلے ،دیناکی مصیبتوں سے نجات پالے گا.تو فرشتہ بھی اسے کہتاہے ایسا نہ کر بدبخت ہوجائے گا اور اپنی عاقبت برباد کرےگا.لیکن جس شخص نے ساری عمر شیطان کی اطاعت کی ہواس پر رحمانی ترغیبات اثر نہیں کرسکتیں.( أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَکانٍ بَعِید ) شیطان کے حملے کی ایک اور قسم وہ افکار ہیں جوابتداء میں خیرخوبی کے حامل نظرآتے ہیں لیکن نتیجہ ان کاشرو ہلاکت ہوتاہے .مثلاًانسان کے دل میں کوئی مستحب امر ڈالتا ہے تاکہ اس سے کوئی واجب فوت ہوجائے یافعل حرام سرزد ہوجائے اور یافعل حرام یاگناہ کو عبادت واطاعت کی شکل میں اس کے سامنے پیش کرتاہے جسے وہ کرگذرتاہے اور یا پھراسے کسی واجب پرآمادہ کرتاہے لیکن خود اس پر سوار رہتاہے حتی کہ ریاء اور غیرور کواس کے عمل داخل کرکے اسے اس کے گناہوں کا حصہ بنادیتاہے.

چونکہ اس طرح کے شیطانی ہتھکنڈے بہت خفیہ اور پوشیدہ ہوتے ہیں اور انسان عموماً ان میں گرفتار ہوجاتا ہے اس لئے ان کاجاننا بہت ضروری ہے وضاحت کے لئے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں.

۱- نہی عن المنکر میں ارتکاب منکر:

ایک شخص کسی کو قبلہ روپیشاب کرتے ہوئے دیکھتا ہے بجائے اس کے کہ یہ سمجھے کہ ممکن ہے اسے اس عمل کہ حرمت کہ علم نہ ہویاعین ممکن ہے کہ اسے صحیح سمت کااندازہ نہ رہا ہو اور اسے اخلاق کے ساتھ مہذب اندا ز میں سمجھاجائے کہ روبقبلہ یا پشت بقبلہ پیشاب کرنا حرام ہے اور اگر اسےسمت کاندازہ نہ تو صحیح سمت بتائے الٹاشیطان کی انگیخت سے اسے ڈانٹنا شروع کردے خوش خلاتی سے پیش آنے کی بجائے اس کے ساتھ بداخلاقی کرے اور بجائےاس کے کہ اسے سمجھاجائے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے چھینٹے اڑ کر لباس کو نجس کردیتے ہیں ،یہ کہے کہ کتے کی طرح کیوں پیشاب کررہاہےت یاڈانٹ ڈپٹ یابد زبانی اور گالی گلوچ کے ساتھ اس سے مخاطب ہوتو گناہ کبیرہ کا مجرم ہوگا او رنہی عن المنکر کرتا کرتا خود منکر کامرتکب ہوجائیگا.

۲- اولاد کی دینی تربیت:

ایک شخص کابیٹانماز نہیں پڑھتا.اس کا سب سے پہلے یہ فرض ہے کہ اسے نصحیت کرے اور نرمی اور شفقت سے‌اسے نماز پرآمادہ کرے اور اگر ابتداء ہی سے اس نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی ،جسمانی سزادی یا گھرسے نکال دیا،یا اس کا خرچ بند کردیا تو وہ چوری کرنے لگے گا اور آوارہ واوباش لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا.ایسی صورت میں باپ گناہ گار ہوگا بلکہ عبادت اور نہیں عن المنکر کے نقطہ نگاہ سے گناہ کبیرہ کا مجرم ہوگا.

۳- ریاکارانہ تلاوت:

ایک شخص کی آواز اچھی ہے اور تجوید کے اصول کے مطابق خوش الحانی سے تلاوت کرتاہے .شیطان اسے اکساتاہے کے کہ بآواز بلند پڑھ تاکہ لوگ زیادہ مستفید ہوں اور طرفین کوثواب حاصل ہو.لیکن چونکہ اس کہ یہ تلاوت شیطان کی اکساہٹ کی وجہ سے ہے اور وہ تلاوت کے دوران اس کے نفس پر سوار رہتاہے لہذا بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالٰی کی قربت جوئی کے لئے تلاوت کرے،اپنی خوش آوازی کی نمائش اورلوگوں کی تحسین وآفرین سے لذت اندوزی کے لئے قرآن پاک پڑھتاہے.اس طرح نہ صرف وہ ایک نہایت مستحب عمل کے ثواب سے محروم ہوجاتاہے بلکہ شیطان کی انگیخت پرریا،کامرتکب ہوکر گناہگار و مردود ہوجاتاہے.

۴- منبر ومحراب – بازی گاہ ابلیس:

ایک شخص علوم دینی سے بہرہ مندہے.شیطان اسے تلقین کرتا ہے کہ قلم کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی کراو ر مشکل سوالات کے جواب دے .لیکن اس کے دل میں شہرت طلبی اور اپنے علم کی نمائش کاداعیہ پیدا کردیتاہے.وہ کتاب لکھتاہے جو یقیناً ایک دینی خدمت ہے لیکن اللہ تعالٰی کے حضور اس کی خدمت قطعا ناقبول ہے اور اس کی عاقبت کے لئے مضر ہے.

ایک دوسرے عالم سے جو اہل نطق وبیان ہے،ابلیس کہتاہے کہ محراب ومنبر بنی اور امام کامقام ہے اور توانہیں کاجانشین ہے.تجھے چاہئے کہ دنیاکی راہنمائی کرے،انہیں نماز اور دیگر عبادات کے ثواب سے آگاہ کرے اور خداترسی، تقويٰ اور توکل پرآمادہ کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے نفس میں جاہ طلبی مال اندوزی ،مرید سازی اور دنیا کی تحسین وآفرین کی محبت راسخ کردیتاہے .اس طرح جوں جوں محراب ومنبر میں اس کی دلچسپی میں اضافہ ہوتاہے،توں توں اس کے درجات میں تنزل واقع ہوتاہے اور نتیجتاً مبری کی سیڑھیاں ہی اس کے لئے درکات جہنم بن جاتی ہیں.اور محراب اس کے لئے دوزخ کا گڑھاثابت ہوتاہے.

۵- زن بیگانہ کے ساتھ خلوت:

نامحرم عورت سے تنہائی میں ہر قابل تصور گناہ ممکن ہے شیطان ہمیشہ اس موقعے کی تاک میں رہتاہے کیونکہ یہ صورت حال انسان کی تباہی کی کوششوں میں کامیابی کے لئے اس کی بڑی معاون ثابت ہوتی ہے اور وہ اسے حرام وہلاکت میں مبتلا کئے بغیر نہیں چھوڑتا.

انسان کو سمجھنا چاہئے کہ نامحرم کے ساتھ خلوت جہاں فساد کا اندیشہ ہو قطعا حرام ہےخواہ وہ عبادت ہی کے لئے یکجا ہوں.ایسی صورت میں ان کی نماز بھی باطل ہے.

اجنبی عوت کے ساتھ خلوت کے فساد کو سمجھنے کے لئے مجلس ہشتم میں داستان برصیصائے عابد پرغور کریں.

خیروشرکا میزان شرع مقدس ہے:

اگر کہا جائے کہ اس طرح تو کسی بھی فکر پر جوانسان کے دل میں گذرے عمل نہیں کرناچاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شیطانی ہو.یا اگر وہ رحمانی بھی ہو تو بھی احتمال ہے کہ وہ انسان کے نفس پرتسلط پاکر اس کے عمل کو فاسد کرکے اسے گناہ بنادے.

جواب یہ ہے کہ ان گذارشات کا مقصد خدانخواستہ یہ نہیں ہے کہ اعمال صالحہ اور عبادات واطاعت خداوندی کو ترک کیاجائے بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ شرشیطان سے اللہ تعالٰی کے حضور استعاذہ کی حالت وکیفیت پیدا کی جائے.اس مطلب کی وضاحت کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہروہ فکر جوانسانی دل پروارد ہواسےمیزان شریعت میں تولنا چاہئے اگر امر خداکے مطابق ثابت ہو توپھر وسوسہ شیطانی سے خبردار رہ کر خالصتاً اللہ تعالٰی کی رضاجوئی کے لئے اسے انجام دینا چاہئے .یہ بہت ضروری ہے کیونکہ شیطان ہمیشہ انسان کی گھات میں ہےوہ کبھی گوار نہیں کرسکتاکہ وہ عبادت کے ذریعے اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کرسکے.

علاج استعاذہ حقیقی ہے:

اس کاعلاج صرف یہ ہے کہ شیطان سے دوری اور فرار اختیار کیاجائے اور اللہ تعالٰی کے حضور اس کے شرسے پناہ طلب کی جائے.لہذا انسان پرلازم ہے کہ ہر عمل خیر کی ابتداء میں خواہ وہ مستحب ہو یاواجب تہ دل سے استعاذہ کرے اوراعوذباللہ من الشیطان الرجیم”اس طریقے سےکہے کہ دل بھی پورے طور پرزبان کے ساتھ ہمنوا ہو.خلاصہ یہ کہ خوش انجام علم جس کے شرعی ہونے کے بارے میں انسان کو پورا یقین ہو،فوری طور پر بلاپس وپیش انجام دینا چاہئے لیکن دوران عمل میں شرشیطان سے اللہ تعالٰی کے حضور پناہ طلبی جاری رہے تاکہ عمل کا صحیح طریقے سے سر انجام ہو اور اللہ تعالٰی کے قربت اور ثواب آخرت حاصل ہو.

قرآن مجید میں شیطان کی پہچان:

پروردگار عالم نے قرآن میں کئی جگہ شیطان کو انسان کے دشمن کی حیثیت سے روشناس کرایا ہے اور انسا ن کو اس کے مکروفریب سے خبردار کرکے اسےاس دور رہنے اور اسے اپنا دشمن سمجھنے کی ہدایت فرمائی ہے

إِنَّما يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَ الْفَحْشاءِ وَ أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعْلَمُون‏

وہ بس تمہیں بدعملی اور بدکاری کا حکم دیتا ہے اوراس بات پر آمادہ کرتاہے کہ خدا کے خلاف جہالت کی باتیں کرتے رہو.

( ِ أَ فَتَتَّخِذُونَهُ وَ ذُرِّيَّتَهُ أَوْلِیاءَ مِنْ دُونی‏ وَ هُمْ لَكُمْ عَدُو ) کیا تم لوگ مجھے چھوڑ کر شیطان اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست بنا رہے ہو جب کہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں.

( إِنَّ الشَّيْطانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ) بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو.

( أَ لَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ یا بَنی‏ آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبینٌ ) اے اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کِھلا ہوا دشمن ہے.

لہذا جوشخص خدا ور سولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن پرایمان رکھتاہے اسے چاہئے شیطان کی دشمنی کو اپنی ذات پر واجب سمجھے اور اس کی دوستی کو مہلک جانے.

ان بیانات سے بخوبی واضح ہے کہ شیطان کی دوستی سے مراد اس کی وسوسہ اندازی اور اس کے احکام کی تعمیل ہے اور اس کی دشمنی سے مراد اس کی جملہ انگخیتوں کی مخالفت اور اس کے احکام و وساوس سے سرکشی ہے.

شیطان کی مخالفت بہت مشکل کام ہے:

چونکہ شیطان کی انگخیتیں اور اس کے احکام ووساس انسان کی نفسانی خواہشات،اس کے فطری تقاضوں اور حیوانی شہوات کے مطابق ہوتے ہیں اس لئے ان کی مخالفت سخت مشکل اور نفس پربڑی ناگوار ہوتی ہے.

مثلاًاگر کوئی شخص شہد کا بہت رسیاہو اور شہد اس کے پاس موجودبھی ہو.لیکن جب وہ اسے کھانا چاہئے تو ایک حاذق حکیم جو اتفاقاًوہاں موجود ہے اسے بتائے کہ شہد اس کے لئے مضرہے او راس سے پرہیز کرنے کی ہدایت کرے لیکن کوئی دوسرا شخص کہے کہ یہ کہاں کا طبیب ہے اور کیسی اس کی تشخیص ہے کہ شہد سے منع کرتاہے.

در اصل وہ شہد کے بارے میں تم سے حسد کرتاہے.میرےخیال میں شہد تمہارے لئے نعمت سے کم نہیں ...وغیرہ..تو ایسی صورت میں طبیب کی باتوں پہ کون کان دھرے گا.

یا کوئی جوان آدمی کسی بیگانہ جوان عورت کے ساتھ آزادا نہ خلوت میں بیٹھا ہو اور ادھر سے شیطان ملعون بھی دونوں کو فعل حرام کی ترغیب وتحریض میں اپنی قوت صرف کررہاہو تو ایسی حالت میں شیطان کی مخالفت اورفکر رحمانی کی پیروی بہت مشکل کام ہے.

عمرسعد او رشیطانی ورحمانی فکر:

چنانچہ عمربن سعد نے جوسخت دنیادار اور حکومت وریاست کالالچی تھا شیطانی فکر کو کہ امام حسینعليه‌السلام کے ساتھ جنگ کے عوض رے کی حکومت ملے گی،انسانی شیطان عبیداللہ ابن زیاد کے‌ذریعے قبول کرلیا لیکن رحمانی فکر یعنی سیدالشہداء کے ساتھ جنگ سے بازرہنے کو جیساکہ اس کے باپ سعدوقاص کے‌دوست کامل کے ذریعے اسے اشارہ ہوا،قبول نہ کیا(کتب مقاتل میں اس کی تفصیل موجودہے)اور اس کی نصحیتوں کو جو اس کے اپنے میلان طبع کے خلاف تھیں ردکردیا.

شیطان کاکام شہوات پراکسانا ہے:

جس طرح بھوکا کتا اس جگہ کو نہیں چھوڑتاجہاں مردار اور ہڈیاں ہوں اسی طرح وہ دل جس میں حب دنیا اور شہوات نفسانی کی گندگی ہوگی شیطان اسے نہیں چھوڑےگا.اور اس سے صحت واخلاص کے ساتھ کوئی عمل سرزد نہیں ہونے دے گا.

ہمارے اس بیان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ انسان کی ہلاکت کاباعث اس کی ہوائے نفس ہے او رشیطان کاکام یہ ہے کہ اس کی تکمیل و تعمیل پر اسے اکسائے اور اس کے شوق ورغبت میں شدت پیدا کرے.

( وَ قالَ الشَّيْطانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَ ما کانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطانٍ إِلاَّ أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لی‏ فَلا تَلُومُونی‏ وَ لُومُوا أَنْفُسَكُمْ ما أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَ ما أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّی كَفَرْتُ بِما أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمینَ لَهُمْ عَذابٌ أَلیمٌ ) رز حشر جب سب فیصلے ہوچکیں گے (اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا اور بیشک ظالمین کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے

مختصر یہ کہ انسان کی ہلاکت میں شیطان کے عمل دخل کابڑا سبب انسان کی اپنی نفسانی خواہشات ہیں.

دوسرے الفاظ میں انسان کا داخلی دشمن یعنی اس کا نفس اور اس کا خارجی دشمن شیطان دونوں مل کر انسان کو بے بس اور مجبور کردیتے ہیں.

فریادرس بے چارگان:

لیکن اگر اس حال میں انسان اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو،اسے اپنی بے بسی وبے چارگی کاواسطہ دے کر شیطان سے اس کی پناہ طلب کرے اور اس کے مقابلے کی طاقت مانگے تو اللہ تعالٰی یقیناً اس کی فریاد سنے گا اور اسےدشمن پر غالب آنے کی ہمت وتوفیق عطافرمائے گا.( أَمَّنْ يُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوءَ ) اللہ تعالٰی بیچاروں کی فریاد سنتاہے او رانہیں مصیبت سے نجات دیتاہے.

سید سجادعليه‌السلام کی دعا کے الفاظ یہ ہیں:

وَ لا يُجِیرُ مِنْ عِقَابِكَ إِلَّا رَحْمَتُكَ، وَ لَا يُنْجِینِی مِنْكَ إِلَّا التَّضَرُّعُ إِلَيْكَ وَ بَيْنَ يَدَيْكَ ” تیرے عذاب سے مجھے صرف تیری رحمت بچاسکتی ہے یا میری عاجزی وزاری نجات دے سکتی ہے.(صحیفہ سجادیہ:دعائے جمعہ)

ایک دوسری عاد میں عرض کرتے ہیں:“نَحْنُ الْمُضْطَرُّونَ الَّذِینَ أَوْجَبْتَ إِجَابَتَهُمْ، وَ أَهْلُ السُّوءِ الَّذِینَ وَعَدْتَ الْكَشْفَ عَنْهُم ‏”ہم وہ بے بس ہیں جنکی فریاد رسی تونے خود پر واجب فرمائی ہے اور وہ مصیبت زدہ ہیں جنکی نجات کا تونے وعدہ فرمایاہے.

پھر ایک دعا کی الفاظ یوں ہیں:

قَدْ مَلَكَ الشَّيْطَانُ عِنَانِی فِی سُوءِ الظَّنِّ وَ ضَعْفِ الْيَقِینِ، فَأَنَا أَشْكُو سُوءَ مُجَاوَرَتِهِ لِی، وَ طَاعَةَ نَفْسِی لَهُ، وَ أَسْتَعْصِمُكَ مِنْ مَلَكَتِهِ، وَ أَتَضَرَّعُ إِلَيْكَ فِی صَرْفِ كَيْدِهِ عَنِّی.”

بدکمانی اور صعف یقین کی وجہ سے شیطان نےمیری مہارت لی ہےمیں اس کی بڑی ہمسائیگی سے نالاں ہوں اور قریاد کرتاہوں میرا نفس اس کی اطاعت میں قیدہوگیا ہے،اس کے تسلط سےمیں تیری پنا ہ کا طالب ہوں اور عاجزانہ لتجاء کرتاہوں کہ اس دام فریب سے مجھے رہائی عطا فرما.

عجز ونیاز بدرگارہ ایزدی:

شرشیطان سے نجات کاتنہا ذریعہ بارگاہ الٰی میں تضرع وزاری ہے اوراللہ تعالٰی عاجزی سے فریاد کرنے والے کی ضرور دستگیری فرماتاہے.ارشاد ب العزت ہے:.

( فَلَوْ لا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا وَ لكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ ما کانُوا يَعْمَلُون‏ ) پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے.

یعنی اگر گرفتار بلاہوتے وقت اللہ تعالی و یاد کرتے اورخودکواس کا محتاج ونیازمند سمجھ کر اس کےحضور عاجزی اورزاری کرتے تووہضرور انہیں نجات بخشتالیکن شیطان نےان کویاد سےبازرکھا اور وہ شہوات نفسانی میں سرگرم ہوگئے.

جوشخص اللہ تعاليٰ کو فراموش کردیتاہے ،حصول منفعت اور دفع مضرت کے لئے صرف اسباب پر بھروسہ کرتاہے اور اللہ تعالٰی کے حضور تضرع وزاری کو غیر ضروری سمجھتاہے وہ بوقت مصیبت اللہ تعالٰی کی نظر کرم سےمحروم ہوجاتاہے اپنے دشمن کے شرسے خود کومحفوظ نہیں رکھ سکتا.

سرگذشت یوسفعليه‌السلام :

حضرت یوسفعليه‌السلام کی داستان اور آپ کازلیخا کے ساتھ خلوت میں گرفتار ہوجانا اہل نظر کے لئے ملحہ فکریہ مہا کرنے والاواقعہ ہے.زلیخا کےدام تیزوتیرسے بچنے کے لئے آپ انتہائی بے بس کے عالم میں اللہ تعالٰی کے حضور پناہ طلب ہوئے اور ذات باری تعالٰی نے انہیں عجیب طریقے سے نجات بخشی اور قرآن مجید کا ایک پورا سورہ ان کے ذکر کے لئے مخصوص فرمایا تاکہ مسلمان اس سے نصیب وعبرت حاصل کریں.اور مصیبت کے وقت ان کے نقش قدم پر چل کر نجات پاسکیں یہ سورۀ شریفہ سعادت اورنیک بختی تک پہنچنے کےلئے ایک رہنمادستور ہے .اللہ تعالٰی نے ایسی داستانوں کو صاحبان عقل کےلئے وجہ عبرت بنایاہے( لَقَدْ کانَ فی‏ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِی الْأَلْباب‏ ) یقینا ان کے واقعات میں صاحبانِ عقل کے لئے سامان عبرت ہے.(یوسف:۱۱۱)

مناسب ہے کہ داستان یوسفعليه‌السلام کے اس موضوع سےمتعلق حصے کامختصر ذکر کیاجائے.

عشق کےسامنے بےبس:

ہرچند کہ یوسفعليه‌السلام بظاہر عزیز مصر کے زرخرید غلام تھے لیکن حسن صورت ،پر وقار شخصیت اور عظمت کرداری کی وجہ سے عزیز مصر کی نظروں میں بہت مکرم ومحترم تھے عزت واکرام کے ساتھ قصر شاہی میں رہتے تھے اور وہیں سن رشد کو پہنچے اور جوان ہوئے عزیز نے اپنی ملکہ زلیخا سے ان کے بارے میں نیک رفتاری کی سفارش کی ہوئی تھی.

زلیخا اپنے شوہر کی سفارض کے علاوہ بھی ان کے حسن و جمال اور خوش سیرتی کی وجہ سے ان پر فریفتہ تھی اور انہیں بہت محبوب رکھتی تھی اور جب وہ جوان ہوئے تو ان پر مرمٹی اور اپنے جذبات پر قابونہ رکھ سکی اور ان کے عشق میں دیوانی ہوگئی محبت کا طوفان سلطنت کے رعب وجلال کو خس وخاشاک کی طرح بہالے گیا اور وہ اپنے نام نہاد غلام کے آگے بےبس ہوگئی .اور ہر لحظہ وصال کی تدبیروں میں مصرف رہنے لگی لیکن جتنی بھی اس نے کوشش کی کہ دلربایا نہ کہ شموں ،شہوت انگیز اشاروں اور اپنے حسن کی نمائش سے یوسفعليه‌السلام کے دل کو شکار کرلے کامیاب نہ ہوسکی اور آپ کی طرف سے اسے خاموشی اوربے التفاتی کے سواکچھ بھی حاصل نہ ہوا.

دلدادہ حسن حقیقی:

حضرت یوسفعليه‌السلام شہوات حیوانی سے آزاد وبے نیاز اورعشق خداندی سے سرشار تھے اور حسن مطلق کے نظاورں میں اتنے وارفتہ تھے کہ جزئ،عارضی اورفانی حسن سےمتاثر نہیں ہوسکتےتھے.

زلیخا ان کی ترغیب و تحریص کی انتہائی کوششوں میں شکست فاش کھاکر بے تاب ہوگئی ا س میں تاب صبر وشکیبا نہ رہی اور جذبات کے‌ہاتھوں لاچار ہوکر اس نے آخر ی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا.

اپنے محل کے ایک دوسرے کے ساتھ ملحق کمروں میں سے آخری کمرے کواس نے تخلیہ گہ بنایا اور اسے انتہائی زینت وآرائش دیکر اس میں شہوت انگیزی کے پورے محرکات مہیا کئے پھر خود کو انتہائی حسن اور جوانی کے بھرپور جوبن میں تھی شہوت انگیزانہ انداز میں پورے آراستہ کرکے کمرے کے پردے لٹکادیے اور یوسفعليه‌السلام کو اپنے پاس بلایا.اسے پورایقین او رعتماد تھا کہ یوسفعليه‌السلام آج ضرور اس کے حسن کی چکاچوندسے مسحور ہوجائیں گے اوراس کی خواہش کی تکمیل سے‌سرتابینہ کرسکیں گے.اور پھر وہ اس کے زرخرید غلام بھی توتھے.!

آپ کے داخل ہوتے ہی اس نے کمرے کے دروازے بندکرلئے اور اپنا آپ پوری اشتغال انگیزیوں اور عنائیوں کے ساتھ انہیں پیش کیا اور پھر حاکمانہ انداز میں انہیں کہا “وَ غَلَّقَتِ الْأَبْوابَ وَ قالَتْ هَيْتَ لَک‏”آو میر خواہش پوری کرو.

اللہ کے سواکوئی مدد گار نہیں:

اس مقام پر یوسفعليه‌السلام کے حال پر غور کریں کہ آپ کتنی بڑی ہلاکت ،تباہ کن حادثے سے‌دوچار اور کتنے عظیم الشان اور سخت امتحان میں مبتلا ہوگئے تھے .ایک طرف حسن وشباب سے کمک یافتہ صف بستہ فطری حیوانی تقاضے ، شہوانی انگیختیں اور دشمن صبر وشیکب ماحول اور دوسری طرف عزیز مصر کی خوبروبیوی کی بے باکانہ وبے تکلفانہ ارو مالکانہ تحکم کے ساتھ بے دریغ دعوت گناہ اور کسی مانع کی غیر موجودگی سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی قوت وقدرت کے سواکوئی بچانے والانہیں تھا.

لیکن یوسفعليه‌السلام کہ جن کادل ایمان باللہ سے لبریز اور اس کی محبت میں سرشار ہے،مخلوق کی شریرخواہش کو خاطر میں نہیں لاتے اور اس لغزش ناک حادثہ سے ان کا پائے ثبات متاثر نہیں ہوتا خود کو پوری شعور ی کوشش سے قابومیں رکھتے ہیں اور اللہ تعالٰی کے حضور شیطان کے اس شرعظیم سے پناہ طلب ہوتےہیں.

اللہ تعالٰی کےحضور آپ کااستعاذہ:

اس مقام پر آپعليه‌السلام نے فرمایا:( َ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوايَ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) (یوسف :۲۳) یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے.(نہ تو ہے اے زلیخا اور نہ تیرا شوہر)وہی میرے جملہ امور کا مالک ہے اس نےمیرے مقام کو عزت بنایا اور مجھے خوش بخت اور نجات یافتہ قراردیا وہ ظالموں کو کبھی سرخرونہیں کرتا).یعنی تیری اور تیرے شوہر کی طرف سے میرااکرام واحترام اور عزت افزائی درحقیقت اللہ تعالٰی ہی کی مشئیت وتدبیر سم ہے اور اسی نے تم لوگوں کو اس پر مائل فرمایا ہے لہذا مجھے اسی کی فرمابرداری اور اطاعت کرنی چاہئے اور تیرے دام فریب حسن سے نجات پانے کے لئے اسی کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور چونکہ تیری خواشہ شیطانی ہے اور اللہ تعالٰی کی نافرمانی کو مستلزم ہے لہذا مجھ سے ہرگز پوری نہ ہوگی.کیونکہ اس منعم حقیقی کے اتنے احسانات کےبعد جو اس نے بلاواسطہ یاتم لوگوں کے ذریعےت سے مجھ پرفرمائے ہیں اس کے احکام سے سرتابی بہت ظلم ہے جومجھ سے‌ہرگز سرزدنہ ہوگا کیونکہ ظالم لوگ اللہ تعالٰی کے دشمن ہیں اور وہ نجات سے قطعا محروم رہیں گے.

حقیقی پناہ گاہ:

یوسفعليه‌السلام جو اللہ تعالٰی کے مخلص بندے اور اس کے عاشق صادق تھے اس پر لغزش حادثے پر اللہ تعالٰی کے حصور پناہ طلب ہوئے اور اسی سے اس شرعظیم کے‌دفعیئے کے لئے مدد خواہ ہوئے ذات باری نے بھی ان کے نورایمان ومعرفت سے پردل کو ایسی قوت بخشی کہ نہ صرف یہ کہ وہ گناہ کے نزدیک نہ گئے بلکہ اس کے قصد وارادہ سے بھی محفوظ رہے ارو زلیخا کی تمام ترہیجان انگیز کوششیں،ایمان وتقويٰ شکن تدبیریں مالکانہ تحکم ،کوئی حربہ بھی ان پر کارگر نہ ہوا بلکہ اس کے شرسے بچنے کے لئے وہ دروازے کی طرف دوڑے.زلیخا نے ان کا پیچھا کیالیکن آپ اس سے پہلے دروازے تک پہنچ گئے .مست مے شہوت زلیخا نے آپ کا قمیص پکڑلیا تاکہ آپ کا ہاتھ دروازے تک نہ پہنچ جائے.اس کھینچاتانی میں آپعليه‌السلام کے تعاقب میں دوڑی لیکن رستے میں عزیز مصر کھڑا تھا...

زلیخا نے پہلی کرتے ہوئے خود کو شوہر کے سامنے بےگناہ ثابت کرنے کے لئے یوسفعليه‌السلام پربدنیتی اور دست درازی کا الزام لگادیا .اور عزیز سے آپ کی سزایاقید کامطالبہ کیا.

اب یوسفعليه‌السلام کو حقیقت بتانی پڑی .آپ نے عزیز مصر کو بتادیا کہ خود زلیخا کااردہ انکے ساتھ بدی کا تھا.

پنگوڑے میں موجود ایک شیرخوار بچے کو اللہ تعالٰی نے گویائی عطافرمائی اس نے کہا اگر یوسف کا قمیص آگے سے پھٹا ہم‌تو یوسف قصوروار ہیں اور اگر وہ پیچھے سے پھٹا ہو اہے تو زلیخا مجرم ہے .یہ گواہی یوسفعليه‌السلام کے حق میں گئی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو مصیبت سے نجات دی.( كَذلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَ الْفَحْشاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصینَ ) ) یوسف:۲۴) یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے.

مزید امتحان:

اشراف مصر کی چند بگیات نے زلیخا کو ایک غلام کے عشق میں متبلا ہوجانے پر ملامت کی زلیخانے ان پر یہ ثابت کرنے کی تدبیر کی کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں بلکہ یوسف کے مردانہ حسن وجمال کے سامنے کوئی بھی مغرور سےمغرور عورت اپنے ہوش وحواس قائم نہیں رکھ سکتی ،اور اگر وہ خود بھی انہیں ایک نظر دیکھ لیں گی تو ان کا ساراغرور حسن خاک میں مل جائے گا اور وہ یوسف کے عشق میں‌اندھی ہوجائیں گی.

اس نے سب ملامت کرنے والیوں کی دعوت کی اورضیافت کے عین درمیان یوسفعليه‌السلام کو بلابھیجا جب آپ آئے تو انہوں نے آپ کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں ہوش وحواس کھودے اور ان کے عشق میں مبتلا ہوکر اسقدر بد حواس ہوگیئں کہ ہاتھوں میں پکڑی ہوئی نارنجیوں کو کاٹنے کی بجائے اپنےہاتھ زخمی کرلئے یہاں یوسفعليه‌السلام پرابتلاء سخت ترہوگئی .اگر پہلے صرف زلیخا کاسامنا تھا تو آپ محفل ضیافت میں موجود تمام حسین وجوان عورتوں کے چنگل میں پھنس گئے کیونکہ انہوں نے بھی آپ سے‌زلیخا ہی والامطالبہ کردیا.آپ نے بے بس ہوکر اللہ تعالٰی کے حضور تضرع و زاری کی کہ ائے پروردگار ان عورتوں کے شرسے مجھے محفوظ فرمااگر تونے(میرے نور علم اور یقین قلبی کو) نہ بچایا تومیں اس دام میں پھنس کر جاہلوں میں سے ہوجاوں گا.( ِ وَ إِلَّا تَصْرِفْ عَنِّی كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَ أَكُنْ مِنَ الْجاهِلِین‏ ) اور اگر تو ان کے مکر کو میری طرف سے موڑ نہ دے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوسکتا ہوں اور میرا شمار بھی جاہلوں میں ہوسکتا ہے.

اللہ تعالٰی نے آپ کو شرشیطان سے اپنی پناہ میں رکھا اور آپ کے دل کو نوریقین سے‌ایسی قوت عطافرمائی کہ وہ ان سب پر غالب آئے اور ان کا فریب ناکام ہوا حتی کہ آپ زندان خانے میں جانے کے لئے توتیار ہوگئے لیکن ان عورتوں کی خواہش کے آگے نہیں جھکے( فَاسْتَجابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمیعُ الْعَلیمُ ) تو ان کے پروردگار نے ان کی بات قبول کرلی اور ان عورتوں کے مکر کو پھیر دیا کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا جاننے والا ہے(فریاد دیوں کی فریادسنتا ہے اور پوشیدہ امور کا دانا ہے).

داستان عبرت:

اگر اس داستان کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو ہر وہ شخص جو اللہ تعالٰی پر کامل ایمان رکھتاہے،جب بھی اس پرہوائے نفس یاشیاطین جن و انس کےوسوسوں کا غلبہ او ردباؤہو اور وہ اسے اللہ تعالٰی کین نافرمانی پر اکسائیں تو وہ اپنے پزوردگار کے حضور پناہ کا طالب ہوگا اور اس سے شرشیطان سےنجات کی دعاکرے گا .اور اللہ تعالٰی اس کی دعا کوشرف قبولیت سے نواز تے ہوئے اس شرسے اس کی حفاظت فرمائے گا.

اس بحث کے خاتمے پر ہم آپ کو جناب امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام کی ایک سفارش کی طرف متوجہ کرتے ہیں.

استعاذہ علیعليه‌السلام :

نوف بکالی کہتے ہیں میں نے جناب امیرعليه‌السلام کو دیکھا کہ شہر سے نکل کرتیزتیز قدم اٹھاتے ہوئے صحراء کو تشریف لے جارہے ہیں میں نےعرض کیا مولا کہاں کا ارادہ ہے تو آپ نے فرمایا اے نوف مجھے جانے دے میری تمنائیں ارو احتیاجات مجھے محبوب حقیقی کی طرف بلارہی ہیں.

میں نے عرض کیا مولاآپ کی آرزوئیں کیا ہیں. تو آپ نے فرمایا اللہ تعالٰی جومیری امید وآرزوکا مرکزہیں وہ خود انہیں خوب جانتاہے اور اس کے غیرکوان کا بتانا ضروری نہیں اورباادب بندے کو نہ چاہئے کہ اپنی ینازمند یوں کے بارے میں کسی دوسرے کو اپنے پروردگار کے ساتھ شریک ٹھہرئے.

پس میں عرض کیا اے امیرالمؤمنینعليه‌السلام میں اپنے آپ میں اندیشہ ناک ہوں کہ ہروقت دنیا اور مال دنیا کےجمع کرنے اور اپنی توجہات کو دنیا کے نمودونمائش پرمرکوز کرنے میں سرگرم رہنے کی وجہ سے سعادت اخروی سے محروم نہ ہوجاؤں.

آپ نے فرمایا:اس رب کریم کے دامن رحمت سے وابستہ ہوجوخو فزدوں کامحافظ او رعارفوں کی پناہ گاہ ہے

میں نے عرض کیا مولا: اس کی بارگاہ کرم تک میری زہنمائی فرمائیے.

آپ نے فرمایا:

وہ خدا رحیم وبزرگ وبرترکسی کومایوس نہیں کرتا پس صدق دل اور پورے عزم وارادہ کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتاکہ اس کے فضل عمیم اور لطف کریم سے تو اپنے مقصدتک رسائی حاصل کرے.

(بحارالانوار :جلد۱۹،کتاب الدعا،باب ادعیة المناجاة)

(اللهم صلى على محمد و آله الطاهرین )

فہرست

مقدمہ: ۴

حقیقی پنا صرف وہی دے سکتاہے جو خود نجات یافتہ ہو ۴

مجلس ۱ ۶

قرآن و اخبار میں استعاذہ کی اہمیت: ۶

عبادت کی ابتدا میں استعاذہ: ۶

مباح امور میں استعاذہ کی تاکید: ۷

شیطان مسجد کے دوازے پر: ۷

گھرسے نکلتے وقت استعاذہ : ۷

پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو استعاذہ کا حکم: ۸

اللہ تعالی نے بنی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا: ۸

پوری عمر شیطان کی تھی: ۹

حکومت- نامحرموں سے خلوت- غصہ: ۹

مجلس ۲ ۱۱

دام شیطان: ۱۱

صدقہ کرکے اسے جتاؤنہیں: ۱۲

شیطان کی نظردل پر ہے: ۱۲

شیطان کیاہے وہ کیوں پیداکیاگا:؟ ۱۳

شیطان شناسی کاکیافائدہ ہے: ۱۳

شیطان آگ سے خلق ہواہے اورلطیف مخلوق ہے: ۱۳

شیطان آپ کو دیکھتاہے: ۱۴

شیطان کی خلقت اور انسان کی سعادت: ۱۴

شیاطین کی تخلیق کا مقصد انسان کی آزمائش ہے: ۱۵

اللہ کا وعدہ اور شیطان کاوعدہ: ۱۶

صدائے رحمانی اور صدائے شیطانی: ۱۶

شیطان کسی کو مجبور نہیں کرتا: ۱۶

مجلس۳ ۱۸

ابلیس کی حاسدانہ روش: ۱۸

حاسد اور متکبرکاجنت سے کوئی واسطہ نہیں: ۱۸

ابلیس کی خواہش پوری ہوگئی: ۱۹

ملائکہ میں بھی الہام کی طاقت ہے: ۱۹

دوراہے پر: ۲۰

توبہ کادروازہ کھلاہے: ۲۰

رحمت کادامن آخری دم تک وسیع ہے: ۲۱

حسن بصری کاسوال امام زین العابدین عليه‌السلام کاجواب: ۲۱

موت سے پہلے بیماری کوورودنعمت ہے: ۲۱

مجلس ۴ ۲۲

شرشیطان سے بچاؤکی صورت صر استعاذہ ہے: ۲۲

خیمہ سلطان اورخونخوار کتا: ۲۲

استعاذہ دل سے ہونہ کہ زبان سے: ۲۳