استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40568
ڈاؤنلوڈ: 3686

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40568 / ڈاؤنلوڈ: 3686
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس۳

( بسم الله الرحمن الر حیم.وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ. وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ) ‏-(۲۳/۹۸)

ابلیس کی حاسدانہ روش:

شیطان حاسد ہے چونکہ خود درگاہ خداوندی سے اند ہ جاچکا ہے اس لئے برداشت نہیں کرسکتاکہ انسان کو مقام قرب الہيٰ تک پہنچا ہوادیکھے وہی بشر جسے یہ ملعون حقیر جانتاتھا اور ارزوئے تفاخر واستحقا رکہتا تھا۔

( خَلَقْتَنِی مِنْ نارٍ وَ خَلَقْتَهُ مِنْ طِین‏ ) مراز آتش اور ا زخاک آفریدی

تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں خاک سے بنایا ہے.اور آگ مٹی سے برترہے (اس لئے تیرامجھے اس کے لئے سجدے کا حکم انصاف پر مبنی نہیں).

لیکن وہی بشر ایسے مقام تک رسائی حال کرتاہے جہاں سے اس بدبخت کودھتکار دیاگیا اورکہا گیا:( فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِیها فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِین‏ ) نکل جا یہاں سے کہ تو پست و ذلیل ہے تجھے یہاں بڑائی جتانے کا کوئی حق نہیں۔

انسان چاہتاہے کہ عبادت کے ذریعے سے مقام قرب خداوندی حاصل کرلے لیکن شیطان اپنے پورے قويٰ و وسائل اور پوری توانائیوں کے ساتھ یہ کوشش کرتاہے کہ اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالے اور اسے اس مقام بلند تک نہ پہنچنے دے.تاکہ اپنے جذبہ حسد کی تسکین کرسکے اورایساملعون ہے کہ اگر بڑی برائی پر قادر نہ ہو تو چھوٹی ہی پر قناعت کرلیتاہے مثلاً اگر کفروشرک پر قادرنہ ہوسکا تو حرام ومکرہ یا اس سے کم درجہ کی برائی پر قانع ہوجائے گا.

حاسد اور متکبرکاجنت سے کوئی واسطہ نہیں:

حضرت امیرالمؤمنینعليه‌السلام نہیج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں ارشاد فرماتے ہیں“اے لوگو!شیطان حسد کی وجہ سے ملعون ہوا اور بہشت سے نکالاگیا ایسانہ ہو کہ تم بھی حسد میں مبتلاہوکر ولیسے ہی ہوجاؤ شیطان کو اللہ تعاليٰ نے تکبرکی وجہ سے جنت بدر کیا جب وہ کبر وحسد کی وجہ سے راندۀ ہوا تو تم کبروحسدکی وجہ سے جنت میں کیسے جاسکتے ہو؟ناممکن ہے کہ فرشتوں کے استاد کو تو اس حرکت کی وجہ سے جنت سے نکال دیاجائے اور تمہیں اسی حرکت کی وجہ سے جنت میں داخلہ مل جائے...”.

باوجود اس ے کہ وہ ملعونمدتوں خدا کی عبادت میں مصروف رہا لیکن آخر میں اس نے تکبرکیا اور خود کو ہلاک کرلیا عظمت اور بڑائی صرف ذات واجب کوزیباہے“العظمة والکبریا ردای”عظمت و کبریا صرف مجھے (ذات خالق) کو زیباہے تو اے انسان !تجھے بڑہانکنے سےکیا حاصل؟آقائ وکبیریائ ترا لباس نہیں ہے .بڑائی جتانا تجھے سچا نہیں میں،مین کرنا تجھے چچتا نہیں تکبر تجھے زیب نہیں دیتا سب انسان اللہ تعاليٰ کے سامنے فقیر ومحتاج ہیں( یا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ وَ اللَّهُ هُوَ الْغَنِی‏ ) “غنی مطلق ،سلطان مطلق صرف اللہ تعاليٰ ہے وہ خود فرماتاہے.

( لا إِلهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِی ) صرف میری عبادت کرو کہ میرے سواکوئی معبود نہیں.

غرضیکہ اگر انسان بڑائی اور تکبر کرے گا توشیطان کا ساتھی بن جائے گا.

ابلیس کی خواہش پوری ہوگئی:

روایت میں آیا ہے کہ جب شیطان لعین جنت سے نکال دیاگیا تو اللہ تعاليٰ سے یوں عرض گذار ہوا:

“خداوندا میری چھ ہزار سال عبادت کیا ہوئی؟”جواب ملا:

“اس کے بدلے میں جوچاہوہم دیں گے”کہنے لگا:

“مجھے قیامت تک مہلت دے”( َ أَنْظِرْنِی إِلى‏ يَوْمِ يُبْعَثُون‏ ) فرمایا:“تو مہلت یافتہ ہے”( فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ إِلى‏ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوم‏ ) کہنے لگا :“میری دوسری خواہش یہ ہے کہ مجھے قدرت عطافرماکہ انسان کے دلوں میں شبہ اوروسوسہ ڈال سکوں.”

اس کی یہ خواہش بھی منظور ہوئی کیونکہ کئی الہيٰ حکمتوں اور مصلحتوں کی حامل تھی.

ابوالبشر حضرت آدمعليه‌السلام بارگاہ احدیت میں گڑگڑائے کہ اے پروردگار!میری غریب اولاد پر مسلط یہ بدترین دشمن پہلے ہی کیا کم طاقتور تھا کہ آب آپ نے اسے قیامت تک مہلت عطا کرنے کے علاوہ اسے ان کے قلب وروح میں شبہ آفرینی اور وسوسہ اندازی کی قدرت بھی دے دی میری اولاد تواب بے بس ہوکررہ جائے گی.”جواب ملا:“اے آدم ماوس نہ ہو.ہم ہرشیطان کے ساتھ ایک فرشتے کوبھی پیدا کریں گے”جوشیطان وسوسہ انادزی کی خلاف تیری اولاد کے عزم کا معاون ہوگا.

ملائکہ میں بھی الہام کی طاقت ہے:

جب بھی شیطان انسان کے دل میں وسوسہ پیداکرتاہے تو فرشتہ اس کے مقابلے میں نیکی کاالہام کرتاہے شیطان کہتاہے“مسجد میں نہ جا فرشتہ الہام کرتاہے کہ ضرورجا”شیطان کہاتاہے فلاں فعل حرام کاارتکاب کر،بعد میں توبہ کرلینا ،فرشتہ کہتاہے ایسامت کرناممکن ہے کہ تجھے موت آجائے اور توتوبہ نہ کرسکے اوربالفرض ار توبہ کربھی سکاتوکیا ضروری ہے کہ تیر توبہ قبول ہی ہوجائے اور توبخشابھی جائے.

اپنے دل کی طرف توجہ کیجئے اس میں خیرکی خواہش پیدا ہویاشرک ،آپ ہمیشہ اس ے بارےمیں ششوپنج کی حالت میں ہوتے ہیں اگرشیطان آپ کو کسی بدی پراکساتاہے تو فرشتہ بھی آپ کو اس کی بدانجامی سے متنبہ کرتاہے اور اگر شیطان آپ کو کسی نیکی کے ترک پر آمادہ کرتاہے تو اس کے مقابلے میں فرشتہ آپ کو اس کی ترغیب دیتاہے.

دوراہے پر:

غرضیکہ اے انسان تو دوراہے، پرہے خواہ نفس کی پیروی میں ہويٰ وہوس کھوجا،یاعقل وروح او رفرشتہ خیر کی پیروی کرکے رستگار ہوجا قدرت وطاقت کو اللہ تعاليٰ نے پورے نظم وعدل سے خلق فرمایا ہے لیکن انسان خود اپنے آپ پرظلم کرتاہے چنانچہ کلام پاک میں واضح ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعاليٰ توانسانوں پر کبھی کوئی ظلم نہیں کرتا یہ انسان ہی ہے جوخود پر ظلم کرتاہے.

( وَ ما کانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَ لكِنْ کانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُون‏ ) .

توبہ کادروازہ کھلاہے:

مزید ارشاد خداوندی ہوا:اگر ہم نة نمہاری اولاد پر ابلیس کو غالب کیاہے اور اسے قیامت تک کی مہلت دی ہے تو اس کےعوض تمہاری اولاد کے لئے توبہ کادروازہ ہمیشہ کےلئےکھول دیاہے اگر آپ شیطان کے دام فریب میں گرفتار ہوگئے ہیں تو اپنے دادبزرگوار حضرت آدمعليه‌السلام کی طرف جوتوبہ کریں اور ارگاہ خداوندی میں عاجزی اور زاری کریں تاکہ جناب آدمعليه‌السلام کی طرح جو توبہ کی قبولیت کے بعد بالاتر اوربزرگ تر مقام پرپہنچ کردرجہ اصطفاء تک پہنچ( إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى‏ آدَمَ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهِیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمِین‏ ) آپ بھی توابین کے مرتبہ پرفائز ہوکر اللہ تعاليٰ کےمحبوب بن جائیں کیونکہ( إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِین‏ ) اللہ تعاليٰ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتاہے.

رحمت کادامن آخری دم تک وسیع ہے:

ساری امم سابقہ کے لئے بھی توبہ کادروازہ کھلاتھا لیکن اس کی قبولیت کی شرطیں بہت تھیں یہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود اقدس کی برکت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے لئے جوامت مرحومہ کہلاتی ہے توبہ کادروازہ بہت وسیع وکشادہ ہے کیونکہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمة اللعاملین ہیں اور توبہ بھی شعبہ ہائے رحمت میں سے ایک ہے.

بحارالانوار جلد سوم کی ایک روایت کے مطابق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ہروہ شخص جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرلے بخش دیاجاتاہے پھرفرمایا:ایک سال توزیادہ ہے اگر ایک مہینہ ہی قبل ازمرگ توبہ کرلے تو اللہ تعاليٰ اسے معاف فرمادیتے ہیں،پھرفرمایا: ایک مہینہ زیادہ اگر ایک دن بھی موت سے پہلے توبہ کرے توبخش دیاجاتاہے پھرفرمایا: ایک روز بھی زیادہ ہے ،برزخ اور عزارائیل کوآنکھوں سے دیکھ لینے سے پہلے توبہ کرلےتو اللہ تعاليٰ بخش دینگے ،غرضیکہ اگرکوئی مسلمان زندگی کے آخری لحظے پر بھی اپنے گناہوں پر نادم و پشیمان ہو تو اللہ تعاليٰ اسے معاف فرمادیتے ہیں.

خوشاحال اس دل کا جواللہ تعاليٰ کی یاد میں رہے کیاعجیب نظام ہے؟آیارحمت اس سے بھی زیادہ وسیع ہوسکتی ہے؟دیکھ لیجئے کہ شیطان کے وسوسوں کے مقابلے میں خدا کی رحمت کتنی بے پایاں ہے.

حسن بصری کاسوال امام زین العابدینعليه‌السلام کاجواب:

روایت ہے کہ ایک دفعہ حج کے دوران حسن بصری نے کہا: العجب کل العجب ممن نجيٰ کیف نجيٰ “نہایت حیرانی کی بات ہے کہ بچنے ولاکیسے بچ گیا”بڑے تعجب کی بات ہے کہ انسان ابلیس کے اسقدر طاقتور دام فریب سے نجات پالے،حسن بصری کی یہ بات جناب سیدالساجدینعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچیں توآپ نے فرمایا:“العجب کل العجب ممن ہلک کیف ہلک ”تعجب ہے ہلاک ہونے والے سے کہ وہ کیسے ہلاک ہوا،تعجب ہے اس بدبخت پر جواللہ تعاليٰ کی اس قدر وسیع رحمت سے محروم ہوکر ہلاک ہوا جوکائنات کی ہرمخلوق پرمحیط ہے.

موت سے پہلے بیماری کوورودنعمت ہے:

ایک عمرہم نے گناہ میں گذاری اب کوچ کاوقت ہے غالباً موت سے پہلے اللہ تعاليٰ کے لطف وکرم ہی کا یہ ایک کرشمہ ہے کہ انسان بیماری میں مبتلا ہو اور کچھ مدت صاحب فراش رہ کراللہ تعاليٰ کی ملاقات کے لئے تیاری کرے.

یہی وجہ ہے کہ اچانک موت عام پور پر ایک مصیبت سمجھی گئی ہے.

اے رخصت ہونے والے کتنی زندگی تم نے شیطان کی پیروی میں گذاری ہے اب لحظہ بہ لحظہ موت قریب ہورہی ہے ،حقیقتا یہ چیز بڑی ہی عجیب ہوگی کہ پورا مہینہ بستر میں رہ کی بھی تم بیدا نہ ہوسکو.

مجلس ۴

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏،وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ. وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ‏ ) (۲۳؛ ۹۸)

شرشیطان سے بچاؤکی صورت صر استعاذہ ہے:

شیطان کے وسوسہ اور وہ مصائب وآلام و انسان کو اس بدذات سے پہنچتے ہیں کسی سے پوشیدہ نہیں سب جانتے ہیں کہ یہ انسان کا شدیدترین دشمن ہے جو آخری سانس تک اس کا پیچھانہیں چھوڑتا اس کا مقصد وحید یہ ہے کہ اسنان خدا اور آخرت پر ایمان نہ لائے یاکم ازکم کوئی نیکی اس سے سرزد نہ ہو بلکہ ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہے.

سب سے ضروری امر یہ ہے کہ انسان شیطا سےنجات حاصل کرے لیکن اس قدر طاقتور اورجھتے والے دشمن سے نجات کی سبیل ہے کیا؟کلام پاک اس کاواحد علاج “استعاذہ ”تجویز کرتاہے،اس میں واضح ارشاد ہے:( فَاسْتَعِذْ بِاللَّه‏ ) خداکی پناہ طلب کر،کیونکہ اس کے سوا حق تک رسائی ممکن نہیں.

خیمہ سلطان اورخونخوار کتا:

ایک مثال میں نے عرض کیتھی کہ شیطان ایک ایسے خونخوار کتے کی مانند ہے جو خمیہ سلطانی کے دروازے پر بیٹھا ہوا ور جب بھی کوئی اندر جانا چاہے توہ اس پر لپکتاہے تاکہ وہ داخل نہ ہوسکے یہ ایسا کیمنہ خصلت دربان ہے جس کے شرسے سلطان کے خاص دوستوں کے علاوہ کوئی بھی محفوظ نہیں (صرف خاصان خداہی اس بدخودشمن سے بے نیاز ہوکر حریم قدس میں جاسکتے ہیں).بہرحال خیمہ میں داخل ہونے کے لئے ہمیں صاحب خیمہ سے اس دشمن ازلی کےشروعناسے پناہ مانگنی چاہیئے اور اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے لئے اسی سے ہمت اور توفیق طلب کرنی چاہیئے کیونکہ صرف اسی کی قہر بھری تنبیہ سے یہ وحشی دشمن رام ہوسکتاہے اس کے علاوہ ہرگز کوئی چارہ کار نہیں.

پس ضروری ہے کہ اللہ تعاليٰ کی پناہ طلب کی جائے تاکہ اس کی توجہ خاص سے شیطان کے شرسے امان ملے سکے اسی ضمن میں اللہ تعاليٰ نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:( وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّیاطِینِ وَ أَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ) کہئے اے حبیبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :اےپروردگا میں شیاطین ے وسوسوں سے اور اپنے قلب وروح پرکے غلبے اور ورود سے آپ کی پناہ مانگتاہوں.

خصوصاًتنہائی کے وقت جب تک لطف وکرم ایزدی آپ کے شامل حال نہ وساوس شیطانی سےسے آپ کابچنا ممکن نہیں آپ کو پکار ناچاہیئے “يَا غِيَاثَ الْمُسْتَغِیثِین‏يَا مَلَاذَ اللَّائِذِین ‏”اے فریادیوں کی فریاد سننے والے اے پناہ طلبوں کی پناہ گاہ! مجھے شرشیطان سے محفوظ رکھ،کیونکہ اگر اللہ تعاليٰ کاحفظ و امان اور اس کی پناہ نہ ہو تو شیطان کے شرسے بچنا ممکن نہیں.

استعاذہ دل سے ہونہ کہ زبان سے:

لیک حقیقت استعاذہ کو سمجھنا چاہیئے کہ کیا صر ف زبان سے “اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم” یافارسی یااردو میں اس کا ترجمہ ادا کردینا کافی ہے،یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ استعاذہ ایک معنوی اور روحانی کیفیت ہے جس کا اظہار ان الفاظ سے ہوتاہے اگر دلی کیفیت استعاذہ ی ہے تو استعاذہ مفیدہے ورنہ بارہا ایساہوا کہ استعاذہ کے یہ الفاظ شیطان کابازیچہ بنگئے ہیں کیونکہ استعاذے کی حقیقی قلبی کیفیت کے بغیر یہ الفاظ سراسر تکلف ہین جن کی ادائیگی شیطان کی انگیخت پرہوتی ہے.

استعاذہ کی تین قسمیں:

۱- نہ استعاذے کی کیفیت ہوتی ہے اور نہ ہی استعاذہ کے الفاظ کے مفہوم کا علم ہوتاہے مثلاً“اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم”کی ادائیگی اس صورت میں کہ نہ تہ دل سے یہ الفاظ نکلیں اور نہ ذہن کو ان کے معانی معلوم ہوں یہ صورت خالصتاً شیطانی مذاق ہے.

۲- استعاذہ کے الفاظ کے معنيٰ اور مفہوم کا علم ہو اور ان کی ادائیگی بھی درست ہو لیکن دل استعاذہ کی کیفیت سے بیگانہ ہو اور اعمال میں شیطان کی اطاعت صا ف نظرآتی ہو،اگرچہ زبان سے“لعنت بر شیطان”کہے لیکن درحقیقت استعاذہ اس کا اللہ کے حضور نہیں بلکہ شیطان سے ہوگا.

۳- استعاذے کے الفاظ کاپورا پورا احساس وادراک ہو اور انہیں تہ دل سے پوری سمجھ،سنجیدگی اور اخلاص سے اداکیا جائے اور دل اللہ تعاليٰ کی عظمت وجبروت کی معرفت سے سرشار ہو.استعاذہ کی صرف یہی صورت صحیح ومقبول ہے.

اللہ تعاليٰ کی اطاعت میں پناہ طلبی:

گناہ کے ہرمرتکب شخص کا اللہ تعاليٰ کی نافرمانی کے دوران معبود و مسجود شیطان ہوتاہے خواہ زبان سے وہ شیطان پرہزال لعنت ونفرین ہی کیوں نہ کرے اس سے واضح تر الفاظ میں کہوں کہ جب کوئی شخص منہ سے تو اعوذ باللہ من شیطان الرجیم کہے اور کردار اس کا یہ ہو کہ کسی پردہ تہمت لگائے کسی کو فحش بکے،کسی کی عزت کے ساتھ کھیلئے دوسروں کے رازون کوفاش کرے غرضیکہ کسی بھی گناہ صغیرہ یاکبیرہ سے اسے باک اور دریغ نہ ہو وہ کہتاہے تو“اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم”ہے لیکن علمی طور پر مقصود اس کا“اعوذ بالشیطان من الرحمان” ہوتاہے کہ میں“نعوذباللہ” خداسے فرار کرکے شیطان کی پناہ میں آتاہوں زبان سے تووہ کہتاہے کہ میں اللہ تعاليٰ کی اطاعت میں پناہ لیتاہوں لیکن عمل اس کا اس سے بالکل الٹ ہوتاہے اور جب نافہمی کاپردہ اٹھ جاتاہے توپتہ چلتاہے کہ اعوذباللہ کے الفاظ در اصل شیطان ہی نے اس کی زبان سے کہلوائے تھے تاکہ اس کے ناقص عقیدے اور کمزور ایمان کامذاق اڑاے.

شیطان کے ردمیں شیطانی تصنیف:

روایت ہے کہ ایک عالم نے شیطان کے وساوس ،اس کے ہتھکنڈوں اور اس کے ہاتھوں فریب خوری کے خلاف تنبیہ کی حامل ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا انہیں دنوں ایک پارسانے عالم مکاشفہ میں شیطان سے کہا:ملعون !اب دیکھنا کسی طرح تیری رسوائی اور روسیاہی ہوتی ہے فلاں مولانا عنقریب تیرے دجل وفریب کا تارپود بکھیردینگے اور دنیا کی نظروں میں تو ذلیل وخوار اور رسواہوجائے گا.شیطان نے استہزا سے ہسن کر جوابدیا: بڑی خوش فہمی میں مبتلاہو یہ کتاب تو میرے ہی امیاء پر لکھی جارہی ہے.انہوں پوچھا یہ کیسے ممکن ہے؟توشیطان نے جواب دیا :میں نے ہی اس کے دل میں وسوسہ ڈالاہے کہ تم بڑے عالم فاضل ہو اپنے علم کی نمائش کرو،اس کوتوشعورہی نہیں کہ نام تو کتاب کا اس نے“ردشیطان”رکھا ہ لیکن دراصل اس سے اس کاارادہ اپنےعلم وفضل کی نمائش اور اپنی عظمت کے اظہار کاہے.

وہ خود انسان کو اکساتاہے کہ اس پر لعنت کرے یا اس کی زبان غیرارادی طور پر “اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم”کہلواکر اسے بیوقوف بنائے.

استعماری طاقتوں کی سیاست:

معاون ومددگا ہوتتے ہیں بعض اوقات اپنے سیاسی مصالح کی وجہ سے وہ انہیں ہدایت کرتے ہیں کہ ان کو برابھلا کہیں گالیاں دیں اور استعمار کی مذمت کریں لیکن یہ سب کچھ وہ اپنی سیاست کی پردہ پوشی اور اصلیت کو چھپانے کے لئے کرتے ہیں تاکہ ان افراد کے توسط سے اپنے استعماری منصوبوں کی تعمیل وتکمیل و بہترانداز میں کرسکیں.

شیطان کی سیاست کتنی عجیب ہے سب سے پہلا سیاستدان اور سب سیاستدانوں کااستاذ اور پیرو مرشدیہی ملعون ہے سیاست کامعنی ہی درپردہ کام کرنا ہے یہ ہر ایک کوبے وقوف بناتاہے لیکن اپنا نقش یاکہیں بھی نہیں چھوڑتاہرخراب اس کے اشارے سے ہوتی ہے لیکن کسی کو محسوس نہیں ہوتاکہ انگیخت اس کی تھی.

استعاذہ کی حقیقت گناہ سے فرار ہے:

پروردگارا!ہمیں ہمت دے کہ شیطان ملعون سے گریزکرسکیں گناہ سے فرار کرسکیں اور جرائم سے محفوظ رہ سکیں اللہ تعاليٰ سے یہ استعاذہ ہمیں گناہوں سے دورکھتاہے اور ہماری زبانوں کولگام میں رکھتاہے کہ لغوبات نہ کریں بلکہ اس کی بجائے اعوذ باللہ کہیں.خداوندعالم کے حضور شرورابلیس سے پناہ مانگیں بالفاظ دیگر اعوذ باللہ کامطلب ہواکہ:

“اعوذ بطاعة الله من طاعة الشیطان”

میں شیطان لعین کی جرم وگناہ سے بھر پور اطاعت سے فرار کرکے اطاعت الہيٰ کی پناہ میں آتاہوں.

ہاتھ شیرکے منہ میں اورپیروں سے فرار:

اگر کوئی شخص اپناہاتھ توشیرکے منہ میں ڈال دے اور زبان سے کہے کہ میں شیرسے بہت ڈرتاہوں اور اس سے کسی مستحکم ومضبوط قلعہ میں پناہ طلب کرتاہوں یہی مثال اس شخص کی ہے جومنہ سے توشرابلیس سے اللہ کی پناہ مانگتاہو لیکن بندہ مطیع وفرمابردار ی طرح پوری عاجزی کے ساتھ شیطان کے دام تزدویر میں جکڑاہواہو.

تازہربدزبانت کو تہ نیست

یک اعوذت اعوذ باللہ نیست

جب تک کسی کی زبان پر لغوجاری رہے گاوہ شیطان کاحلقہ بگوش غلام رہے گا اس صورت میں اس کا لعنت پر شیطان کہنا دروغ محض ہوگا “اعوذ باللہ گوئی”سے اسے استغفار کرنا چاہئیے.

بلکہ آن نزد صاحب عرفاں

نیست الااعوذ بالشیطان

گاہ گوئی اعوذ دگہ لاحول

لیک فعلت بود مکذب قول

لغوگوانسان کا عوذ باللہ کہنا صاحب عرفان کے نزدیک اعوذ بالشیطان ہے زبان سے کبھی وہ اعوذ کہتاہے اور کبھی لاحول لیکن اس کے عمل سے اس کے قول کی تکذیب ہوتی ہے.

اگر شیرآپ کے پیچھے لگا ہو تو آپ کو چاہیئے کہ کسی مضبوط پناہ گاہ میں خود کو محفوظ کریں نہ کہ مزید اس کے نزدیک ہوں اور اپنا ہاتھ تو اس کے منہ میں ڈال دیں اور زبان سے پناہ کے لئے چیخ وپکار کریں استعاذہ کی حقیقت در اصل یہی ہے کہ شرشیطان سے اللہ تعاليٰ کی حفاظت کے مضبوط ومحکم قلعے میں پناہ لی جائے.

سچا خواب اور شیطان کادام فریب:

جناب شیخ انصاری کے کسی شاگردسے روایت ہے کہ جس زمانے میں میں ان کے پاکیزہ درس کے فرشتگانہ ماحول میں زیر تعلیم تھا تو ایک رات میں نے عالم واقعہ میں شیطان ملعون کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں چند لگامیں پکڑے ہوئے ہے میں نے اس سے پوچھا یہ کسی لئے تونے پکڑی ہوئی ہیں؟کہنے لگا ان کو لوگوں کی گردنوں میں ڈال کر انہیں اپنی طرف کھینچتاہوں کل میں نے ایک شیخ مرتضيٰ انصاری کی گردن میں ڈال دی اور انہیں ان کے کمرے سے نکال کران کے گھر کے دروازے کے سامنے تک باہرگلی میں لے آیا لیکن وہ گلی کے نصف میں مجھ سے چھوٹ کرواپس چلے گئے.

جب میں بیدا ہوا تو شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا خواب ان سے بیان کیا.

شیخ نے فرمایا: شیطان نے تم سے ٹھیک کہا کیونکہ کل اس ملعون نے چاہا تھا کہ اپنے دلفریب بہانوں سے مجھے اپنے دام پھانسے در اصل ہوایہ کہ گھر میں کوئی چیزدرکار تھی لیکن میرے پاس اس کے لئے پیسے نہ تھے دل میں آئی کہ سہم امامعليه‌السلام میں سے کلام پاک کا ایک نسخہ جو میرے پاس بے مصرف پڑاہے اسے قرض کے ارادسے بیچ کر اس کی قیمت لے وہ حاجت پوری کروں اور بعد میں وہ قرض ادا کردوں.

اس کلام پاک کے نسخہ کو لے کر گھرسے باہر آیاحتيٰ گلی میں پہنچ گیا اور جب جنس خریدن نے لگا تو عین وقت پر مجھے خیال آیا کہ اس قسم کی حرکت کیوں کروں؟پس اپنے اس ارادے پر پچھتایا اورشرمندہ ہوکر گھرواپس آگیا اور قرآن پاک کو اس کی جگہ پرواپس رکھ دیا.

بعض لوگوں نے اس واقعے کو یوں بیان کیاہے کہ اس شاگرد نے بہت رسیاں شیطان کے ہاتھ میں دیکھیں ان میں سے ایک رسی بہت مضبوط اور موٹی تھی اس نے ملعون ازلی سے پوچھاکہ یہ رسیاں کسی لئے ہیں تو اس نے جوابدیا ان سے آدم کی اوراد کو اپنی طرف کھینچتاہوں اور انہیں گناہ میں گرفتار کرتا ہوں، اس نے پوچھا یہ بڑی رسی کس کے لئے ہے؟تو اس نے جواب دیا:یہ تمہارے استاد شیخ انصاری کے لئے کل اس سے میں انہیں بازارتک لے آیا تھا لیکن وہ اسے توڑکر آزادہوگئے اور واپس گئے،اس نے پوچھا :میرے لئے ان میں سے کونسی رسی ہے؟اس نے جواب دیا :تمہارے لئے رسی کی ضرورت نہیں تم باتوں ہی سے بآسانی شکار ہوسکتے ہو.