استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40502
ڈاؤنلوڈ: 3642

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40502 / ڈاؤنلوڈ: 3642
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

ارکان پنجگانہ استعاذہ

مجلس۵

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ )

لفظ سے مفہوم واضح ہونا چاہیئے:

استعاذہ دینی مقامات میں سے ایک مقام ہے اور ہر مسلمان پر واجب ہے او رجیساکہ عرض کیاگیا پورے عزم وارادہ سے اور اپنی پوری روح کے ساتھ ہونا چاہیئے نہ کہ صرف زبان سے کیونکہ صر ف لفظ ادا کردینا تو پڑھ دینا ہی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں اور جو قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ( فَاسْتَعِذْ بِاللَّه‏ ) اللہ تعاليٰ کی پناہ طلب کرو،اس سے مراد ان الفاظ کی حقیقت ہے نہ کہ ان کاظاہر محض او رحقیقت دو امروں کی متقاضی ہے:ایک شیطان لعین سے فرار اور دوسرے خدائے رحمان کے حضور اس راندہ درگاہ ایزدی سے پناہ طلبی اگر یہ دو مقصد حاصل ہوتے ہوں تو استعاذہ واقعی استعاذہ ہے ورنہ محض سخن گتری ہے غرضیکہ لفظ سے مفہوم واضح ہونا چاہیئے اور اس میں اس کی روح کی حقیقت جھلکنی چاہیئے.

استعاذہ کی حقیقت پر غور کرنے اور کلام پاک کے مطالعہ سے اس کے بارے میں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ استعاذہ کے پانچ بنیادی رکن ہیں:

رکن اور جوشیطان لعین سے فرار ہے،تقويٰ پر مبنی ہے.

اس کےدوسرے ارکان:تذکر،توکل،اخلاص اور اللہ کے حضور عاجزی ہیں.اور ان کے مجموعی طور پر حاصل ہوجانے سے استعاذہ کی حقیقی کیفیت پیدا ہوتی ہے جب مومن ان ارکانت پنچگانہ پر عمل پیرا ہوتاہے تو شیطان لعین اس سے کوسوں دور ہوجاتاہے خواہ وہ زبان سے پر “اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم”کہے یا نہ کہے اور اس کی سچی اور بہترین صورت یہ ہے کہ شیطان مومن کے نزدیک آکر اسی طرح“آدم زدہ ”ہوجائے جس طرح ایک عام انسان جن کی نزدیکی سے“جن زدہ” ہوجاتاہے اس صورت میں ابلیس ملعون ہرگز مومن انسان کے قریب پھٹکنے کی جرات نہیں کرے گا.

شیطان پرہیزگاروں سے دوربھاگتاہے:

ارکان استعاذہہ کے شواہد کلام پاک سے مختصراً پیش کئے جاتے ہیں( إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُون‏‏ ) “پرہیزگاروں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس ہوتاہے تو وہ خدا کے ذکر میں مشغول ہوجاتے ہیں پس یکایک ان کی بصیرت روشن ہوجاتی ہے. ”

پس اولین شرط ابلیس کے شرے سے خود کو محفوظ رکھنے کی یہ ہے کہ تقويٰ اختیار کیا جائے.جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی جوہنی کوئی وسوسہ ان کے دل میں وارد ہوا،وہ یاد خدامیں مشغول ہوگئے اور اللہ تعاليٰ سے مدد طلب کی،فوراًان پر روشن ہوگیا کہ یہ شیطان کی حرکت تھی چنانچہ اس سے فرار کرکے وہ حق تعاليٰ کی پناہ میں آگئے چنانچہ اس آیہ شریفہ میں تقويٰ و ذکر خداکی طرف اشارہ ہوا.

توکل اللہ تعاليٰ پر ہونا چاہئے:

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:( فَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِیم‏،إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون‏ ) “قرآن پڑھتے وقت شیطان ملعون و مردود سے اللہ تعاليٰ کی پناہ مانگ لیاکرو ایمان والوں اور خدا پر توکل کرنے والوں پر اسے کوئی غلبہ ونفوذ حاصل نہیں”.

جوشخص اللہ تعاليٰ پر توکل کرتاہے شیطان کو اس پر کوئی تسلط و اختیار حاصل نہیں شیطان کی حکومت صرف ان لوگوں پر ہے جو اللہ تعاليٰ پربھروسہ نہیں کرتے ان کا سرابھروسہ مادی اسباب اور دنیاوی امور پر ہوتاہے لیکن اگر بھروسہ فقط ذات الہيٰ پر ہو تو یقین کیجئے کہ شیطانت بے چارہ بے بس اورناکارہ ہے.

اگر کسی شخص کو دل سے اللہ تعالی ٰ پر بھروسہ ہو تو زبان سے لاکھ کہتارہے میں اللہ تعاليٰ کی پناہ مانگتاہوں لیکن در اصل وہ مادی اسباب دنیاوی طاقت ، اثر ورسوخ ،مال و دولت اور رشتہ داریوں وغیرہ سے پناہ مانگ رہا ہوتا ہے، چنانچہ آیہ شریفہ مذکورہ کے مطابق شیطان اس پر مسلط ہے بعد کی آیہ مبارکہ میں اسی مفہوم کی طرف اشارہے.

( إِنَّما سُلْطانُهُ عَلَى الَّذِینَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَ الَّذِینَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُون‏ ) شیطان کا تسلط ان پر ہے جو اس کی دوستی کادم بھرتے ہیں اور اس کے فرمان بردار ہیں اور اس کی حکومت ان پر ہے جو اسے اللہ تعاليٰ کا شریک گرادنتے ہیں.

وہ شخص جوذات باری مسبب الاسباب کو بھلاچکاہے وہ شیطان کا دوست ہے،اسے استعاذہ یا شیطان ملعون سے فرار سے کیاسروکار؟.

شیطان کا اہل اخلاص سے کوئی تعلق نہیں:

استعاذہ کا ایک رکن “اخلاص” ہے قرآن مجید میں شیطان کے یہ الفاظ مذکور ہیں:

قالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ. إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ‏

تیر ی عزت کی قسم اے پروردگار میں تیرے بااخلاص بندوں کے سوا سب انسانوں کو بہکاوں گا.

اخلاص کامعنيٰ کلام پاک الہی میں متعدد جگہ بیان کیاگیاہے ہم نے بقدر ضرورت تفسیر آیات میں متعدد مقامات پر اس سے بحث کی ہے اورہمارے خیال میں مزید تکرار کی ضرورت نہیں.

غرضیکہ استعاذہ صرف با اخلاص بندوں ہی کا درست اور انہیں کو زیباہے کیونکہ شیطان کا ان پر کوئی تسلط نہیں اور اس سے فرار کی صلاحیت انہیں میں ہے.

کیاہم تقويٰ اور تذکر کی صلاحیت رکھتے ہیں:

اتنی لمبی عمریں گذارنے کے باوجود ہم نے دینی تعلیمات سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا اب اللہ کرے کہ کم از کم جہل مرکب کا شکار تونہ ہوں استعاذہ کااولین رکن ہم نے عرض کیا کہ“تقويٰ”ہے جوشخص صاحب تقويٰ نہیں وہ شیطان سے کسے فرار کرسکتاہے کیونکہ صرف تقويٰ ہی سے شیطان کی اطاعت ترک کی جاسکتی ہے.

جوعورت بے پردہ کوچہ بازارمیں آتی ہے وہ سراپا شیطان ہے.اس کا ظاہر باطن شیطنت ہے.اور جونامرد اپنے ہمراہ ایسی عورت کو گھرسے باہر لاتاہے اور ادھر ادھر پھراتا اور کھیل تماشے دکھاتاہے وہ شیطان سے کیسے فرار کرسکتاہے؟مختصر یہ کہ جوشخص حرام سے نہیں بچتات وہ شیطان سے بھی دوری نہیں اختیار کرسکتا.استعاذہ اس کے نزدیک ایک مہمل لفظ ہے لاکھ منہ سے( اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ) کاورد کرتا پھرے شیطان اس پر بہرحال غالب وتسلط ہےاگر کوئی شخص کسی غصب کردہ مکان میں رہتاہو توتاوقتیکہ وہ اس سکونت کو ترک نہیں کرتا، شیطانت سے فرار نہیں کرسکتااور اگر کوئی شخص فواحش کاعادی ہو ،تو جب تک ان عادات کو ترک نہ کرے استعاذہ نہیں کرسکتا.

حرام خوری سب سے برامانع استعاذہ فعل ہے:

استعاذہ کے مسالہ میں کامل تقويٰ اور مکمل طور پر ترک حرام اور بالخصوص حرام خوری کو ترک کرنا نہایت ضروری ہے جس شخص کاکھانا پینا حرام ہو اس کا گوشت پوست شیطانی ہے اور وہ ہمیشہ ابلیس کے ساتھ متصل ہے کیونکہ “إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِی مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّم‏”شیطان خون بن کر اس کی رگوں میں دوڑتاہے.

جس زبان سے وہ( اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ) کہتاہے وہ شیطان ہی کی ہے کیونکہ حرام ہی کی خوارک سے اس کی زبان بنی ہے اور اسی کی طاقت سے وہ گویاہوکر( اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ) کہتی ہے یہ استعاذہ بھی کوئی استعاذہ ہے؟

مادرون را بنگریم وحال را

مابرون راننگریم وقال را

شہید ثانی نے“ آسرارالصلوة ”میں خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت کی ہے:“ إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَ أَعْمَالِكُمْ وَ إِنَّمَا يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ ”اللہ تعاليٰ تمہارے دلوں اور اعمالوں کو دیکھتے ہیں تمہاری شکلوں کو نہیں دیکھتے.

یہاں یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ بے حقیقت زباںبازی اور سخن آرائی کی مخلوق کے نزدیک تو کچھ اہمیت ہو تو لیکن عالم الغیب اور علیم و خبیر خدا کے نزدیک جس کے لئے پنہاں و آشکار برابر ہیں سوائے حقیقت کے کوئی چیز مفید نہیں.

چنانچہ قرباینوں کے بارے میں جو آپ عموماً راہ خدا میں کرتے ہیں کلام پاک میں صاف صاف ارشاد ہے:( لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَ لا دِماؤُها وَ لكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى‏ مِنْكُم‏ ) ان قربانیوں کا گوشت یا خون اللہ تعاليٰ کو نہیں پہنچتا بلکہ صرف تمہارا تقويٰ اس کی بارگاہ میںت پہنچتاہے.

جب تک حرام کے آثار برطرف نہیں ہوتے استعاذہ ممکن نہیں:

جب تک لقمۀ حرام انسان کے بدن میں ہے اس کی حیثیت شیطان کی ہے شیطان سے فرار کاڈھنڈورہ پٹینا اس کا دروغ محض ہے جب تک اس کے اثرات اس کی ذات سے زائل نہیں ہوتے اس سے فرار کی حالت اس میں پیدا نہیں ہوسکتی .اس صورت میں اس کی ساری عبادت محض ڈھونگ اور نمائشی ہوں گی.

بالخصوص رزق حلال کے بارے میں بہت سی روایات اہلبیت علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں.

رزق حلال ایک بیج کی مانند ہے جس پر پورے درخت کے وجود کا انحصار ہوتاہے اسے خراب نہ کرو تاکہ درخت بھی درست انداز سے اور صحت مندانہ طور پر پروان چھڑھے.

کلام پاک میں اراشاد خداوند ی ہے:

( یا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلالًا طَيِّباً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطان‏ ) اے لوگو پاکیزہ اور حلال خوارک کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو.

یہ نہیں کہا کہ مرغ وگوشت اور پلاؤ وبریانی نہ کھاؤ خوب کھاؤلیکن حلال کھاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو.

مشکوک ومشتبہ غذا سے پرہیز :

جس غذا کے حلال ہونے میں شبہ ہو اس سے بھی پرہیز واجب ہے جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ آپ کی خوراک اور آپ کا لباس حلال میں ان کے استعمال سے پرہیزکریں.اس کا اتنا اثر ہوتاہے کہ نوبت یہان تک پہنچ جاتی ہے کہ حق اپنے کمال ظہور کے باوجود شک میں مبتلا انسان کے وسوسہ کی آماجگاہ بن جاتاہے.

ایسا شخص اللہ تعاليٰ کی ذات میں شک کرنے لگتاہے جوخود اس کا اور کائنات کا خالق ہے:( أَ فِی اللَّهِ شَكٌّ فاطِرِ السَّماواتِ وَ الْأَرْض‏ ) اور اس کے اس کمال ظہور اور وجوب کے باوجود اس کے ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں شک کاشکار ہوجاتاہے.یہاں شیطان کہاں ہے جس نے اس کو اس گومگومیں ڈالا؛وہ شیطان یقیناً اس حرام و مشتبہ لقمے کے اندر تھا جسے اس نے کھایا اور جو غذا کے ذریعے اس کے ذہن کا حصہ بنا.

شیطان سے فرار نہ کرکے اس نے یہ روزبد دیکھا یعنی اپنے ہاتھوں سے شیطان کو اپنے گوشت پوست اور رگ و خون میں جگہ دی.

مجلس ۶

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

پچھلی راتوں کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ استعاذہ کی حقیقت در اصل شیطان ملعون سے فرار کرکے اللہ تعاليٰ کی پناہ میں آتاہے لہذا اس کا لازمہ تقويٰ ہے.شیطان سے پرہیز کامطلب یہ ہے کہ انسان سے واجبات فوت نہ ہوں اور حرام اس سے سرزد نہ ہو اور اگر وہ بے پرواہے تو شیطان سے فرار نہیں کرسکتا.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص جسمانی طور پر تو کسی وحشی درندے سے گھتے گتھاہولیکن زبان سے کہتاہے جائےکہ میں اس درندے سے فرار کررہاہوں.

زبان سے کہتے رہتے( اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ) یعنی میں شیطان سے فرار کرکے اللہ تعاليٰ کی پناہ میں آتاہوں لیکن استعاذہ کے آداب سے بے پروا ہوکر آپ کیسے اس سے فرار کرسکتے ہیں.

( إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا ) جولوگ گناہ سے فرار کی حالت میں ہیں گرشیاطین ان پر غلبہ پانا چاہیں تووہ فوراًذکرالہيٰ میں مشغول ہوجاتے ہیں اور اس کی برکت سے غفلت کاپردہ ان کی نگاہوں سے اٹھ جاتاہے اور ان کی آنکھیں بیناہوکر شیاطین کی نقل و حرکت کو واضح طور پر دیکھنے‌لگتی ہیں اس لئے وہ اس کے دام فریب سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں.

اگر کوئی شخص شیطان کےدام سے بچ سکتاہے تو صرف اہل تقويٰ ورنہ دام اس کا ہمیشہ ہرجگہ موجود ہے.

ہم نے عرض کیا کہ تقويٰ کو خصوصاًکھانے پینے میں ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ خوارک بمنزلہ بیج کے ہے جس سے بدن شیطانی یارحمانی نفس کے ساتھ مرکب ہورک پروان چڑھتاہے .اگر یہ تخم شیطانی ہوا تو بدن پر شیطان کی حاکمیت ہوگی.اگر لقمۀ حرام حقل سےنیچے اترگیا تو جس کی حکومت شیطان لعین کے ہاتھ آگئی اور جب تک بدن میں اس لقمۀ کا اثر رہے گابدن میں شیطان موجود رہیگا.

روایات میں آیاہے کہ صرف ایک لقمۀ حرام کھالینے سے پورے چالیس دن انسان کی نماز قبول نہیں ہوتی اور چالیس روز تک اس کی کوئی دعا درگاہ ایزدی میں بار نہیں پاتی .کیونکہ دعا کرنے والی زبان تو شیطان ہی کی ہے.اگر قرآن پڑھے گاتوشیطان ہی کی زبان سےاور اگر اعوذ باللہ کہے گا توبھی اسی کی زبان سے.

لقمۀ حرام کی پہچان:

ہروہ چیز جوآپ کے ہاتھ میں حرام ذریعے سے پہنچے وہ حرام ہے اگر روٹی آپ کے پاس ناجائز مال سے آئی ہے کسی کو دھوکا دے کے آپ نے پائی ہے یا اسے کسی سے غصب کیاہے وہ مال سود کا تھا یا کسی دوسرے حرام وناجائز طریقے سے اسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر تصرف میں لایاگیا تھا یا شرع مقدس کے قوانین کی خلاف ورزی کرکے حاصل کیاگیا تھا.تویہ سب حرام ہے.

اس کے بعد حرکت میں مردار کا درجہ ہے ہروہ چیز جسے مردار کہہ سکیں خواہ وہ حیوان حلال گوشت ہو لیکن باطبعی موت مرا ہو یا اسے شرع مقدس کے قانون کے مطابق ذبح نہ کیا گیا مثلاً ارادةً اور عمداً اس پر بسم اللہ نہ کہی گئی ہو اور اللہ کا نام بوقت ذبح نہ لیاگیاہو اس کا کھانا حرام ہے.( وَ لا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ ) مت کھاؤ وہ چیز جس پر اللہ تعاليٰ کانام نہ لیاگیاہو.

اگر کسی حلال جانورکاسر بسم اللہ کہے بغیر کاٹاگیا ہو تووہ مردار ہے اور شیطانی بیج ہے جسے آپ کے حلق سے نیچے نہ اترناچاہئے.

آیت کے مفہوم سے استعاذہ کی عمومیت:

سیدابن طاووس نے اس آیہ شریفہ کو عموم کے معنی میں لیا ہے ہرچند کہ اس سے مراد حلال جانورکاگوشت ہے لیکن سید نے اسے عموم کے معنی دئے ہیں جن کے رعایت بہرحال خوب ہے اور مستحسن ہے .آپ فرماتے ہیں:“ہروہ خوارک جواللہ تعاليٰ کانام لئے بغیر بسم اللہ کہے بغیر تیار کی جائے میں اسے نہیں کھاتاوہ روٹی جس پر نانبائی نے پکاتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا ،مومن اسے کھاسکتاہے؟!

نانبائی کا تنور اور شیطانی راگ:

عجب زمانہ تھا اور عجیب انداز میں وہ بدلاہے .اگر سید آج زندہ ہوں تو دیکھیں مجھے وہ بھی زمانہ یاد ہے جب کسی نانبائی کو لاتے تھے توہ تنورپر وارد ہو کر پہلھ حدیث کساء پڑھتااور پھر دعا کرتاتھا تاکہ اللہ تعاليٰ کی برکتیں اس کے شامل حال ہوں.

اور آج یہ زمانہ ہے کہ روٹی کو موسقی کی دھنوں اور نغمہ کے‌تال پر پکایاجاتاہے.“اناللہ وانا الیہ راجعون” روٹی کو شیطان کے ذکر کےت ساتھ پکاتے ہیں اور اسی شیطنت سرشتہ لقمے کو ہم اور آپ کھاتے ہیں.

ہم بے بس اور مجبور ہیں:

اگر کبھی کوئ یان حقائق پر غور کرے تو یقیناً پکار اٹھے گا.( أَمَّنْ يُجِیبُ الْمُضْطَر ) پروردگا یکا کریں؛یہ کھانے سراسرظلمت و تاریکی ہیں،ان میں‌کوئی روشنی نہیں جوروح کی تقویت کرم ہماری زبانیں بھی اسی سے متاثر ہیں اور جھوٹ ،لغو گمراہ کن لہو،غیبت ان کا شعار ہے ہمار ی آنکھیں اس کے زیر اثر خیانت کیش اور کان اس کے اثر سے لغو ولہو اور غیبت کے رساہوچکے ہیں.غرضیکہ ہمارے سب اعضائے جسمانی اس کے اثر سے حرام زدہ یا مکروہ ہوچکے ہیں یا کم از کم حرام وحلال کی تمیز کھوچکے ہیں کہ نفس کو ذکر خدا اور یاد الہيٰ سے انہوں نے غافل کردیاہے ہمارے تمام اعضاء وجوارح شیطان کی بازی گاہ بن گئے ہیں.

خوارک کی طہارت و نجاست:

اس کے علاوہ حرام خوارک کی ایک صورت نجس یا نجاست زدہ کھاناہےاگرناپاک خوارک حلق سے نیچے اترے گی توشیطانی بیج کی طرح اپنا اثر سارے بدن میں پھیلائے گی.

حتيٰکہ چھوٹے بچوں کو بھی نجس خوراک نہیں کھلانی چاہئے یہ کہیں کہ بچہ تکلیف شرعی سے‌آزاد ہے آپ تو آزاد نہیں آپ کا فرض ہے کہ اپنے بچے کے گوشتت وپوست کی پرورش حلا ل وپاک غذاسے کریں .کیونکہ باآلاخر اسی سے اس کی شخصیت کی تعمیر ہوگی اور حرام یا نجس خوراک اس کے بدن میں منفی ،غیر اسلامی اور غیر انسانی رجحانات پیدا کرے گی.ہاں حیوانات غیر ظاہر غذاکھاسکتے ہیں.

جن بعض مواقع پر حلال اور پاکیزہ خوارک سے بھی پرہیز واجب ہےت ان میں سے ایک سیری کی حالت میں کھانا ہے یہ سخت مکروہ اور شیطانی عمل ہے اور ایسے اوقات میں تو کہ جب یہ کھلے نقصان اورضرر فاحش کاباعث بن سکتاہو قطعی طور پر حرام ہے.