استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40248
ڈاؤنلوڈ: 3488

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40248 / ڈاؤنلوڈ: 3488
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس۷

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

شیطان سے‌دشمنی رکھو:

ہم نے عرض کیا کہ جب تک کوئی شخص شیطان سے‌دوری اختیار نہیں کرے گا حقیقت استعاذہ اس میں پیدانہیں ہوگی.گناہ کا مرتکب انسان کا اطاعتت گذارہےاللہ تعاليٰ( فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ) اسے اپنا دشمن جانو،وہ تمہارا ازلی دشمن ہے‌تم بھی اس سے دشمنی کرو،اس کے دوست نہ بنو .لیکن اگر تم گناہ کروگے تو یہ اس کی عین اطاعت ہوگی اور اطاعت دوستی کالازمہ ہے ہمیشہ خبردار ہورکہ یہ کینہ دشمن تمہاری گھات میں ہے.ایک لحظ بھی انسان سے غافل نہیں اور نہ انسان اس کے شرسے کوئی لحظ محفوظ ہے .اگر آپ خود کو اس سے امان میں سمجھتے ہیں تو یہ آپ کی بے خبری اور بھول ہے.

کیاشیطان سوتاہے:

کسی نے ایک خدارسیدہ عالم سے دریافت کیاکہ کیا روایات میں شیطان کے بارے میں کہیں آیاہے کہ وہ سوتا اور آرام کرتاہے؛عالم عارف نے مسکرابڑاپرلطف جواب دیا فرمانے لگے:اگراس ملعون پر کبھی نیند طاری ہوسکتی تو ہمیں کچھ آرام مل جاتا.

جب آپ محوخواب ہوتے ہیں تویہ ملعون پوری طرح بیداہوتاہے وہ کبھی نہیں سوتا.بلکہ ہمیشہ آپ کی نگرانی کرتا ہے اور آپ کی ضرررسانی کے لئے آپ کی گھات میں رہتاہے.( إِنَّهُ يَراكُمْ هُوَ وَ قَبِیلُهُ مِنْ حَيْثُ لا تَرَوْنَهُم‏ ) وہ اور اس کے کارندے ایسی جگہ سے آپ کو دیکھتے جہاں سے آپ نہیں دیکھ سکتے،وہ آخردم تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتاا.

آپ کو مسلح رہنا چاہیئے:

پھر ہمیں کیا کرنا چاہیئے اور جب دشمن اس قدر قوی و چالاک ہے اور ہر ظاہر اور مخفی طریقے سے ہمارے درپے ہے تو ہم پر کیا فرض عائد ہوتاہے یہی تاکہ ہم پورے طور پر مسلح ہوں اور ہمیشہ مسلح رہیں اور جب دشمن ہر لحظہ آپ کی معمولی سی غفلت کامنتظر ہے تو آپ کو بھی چاہیئے کہ کسی لحظہ اپنا اسلحہ نہ اتاریں اگر آپ نے ایک لحظہ کے لئے بھی اپنا اسلحہ اتاریا ایک لمحہ کے لئے بھی غافل ہوئے تو آپ کی خیر نہیں.

انسان کا اسلحہ تقويٰ ہے ابلیس کے مقابل آپ کو ہمیشہ خبردار اور مسلح رہنا چاہئیے.

مومن کا اسلحہ مستحبات اور ترک مکروہات:

اپنی قوت و استطاعت کے مطابق مستحبات انجام دینادفع دشمن اور اس کے رفع شرکے لئے بہت موثر ہے .اسی طرح ترک مکروہات حتيٰ کہ ترک غفلت بھی اس مقصد کے لئے بہت مفید ہے.

جتنا انسان دشمن سے غافل ہوگا اور گناہوں پر عمل پیراہوگا اتناہی خود کو اژدھا کے منہ سے قریب لے جائے گا اور اسی اندازے سے شیطان کا تقریب بھی حاصل کریگا لیکن اتنی دوستی اور قربت کے باوجود بھی اگر شیطانت بوقت مکافات عمل اس کے سرسے ہاتھ اٹھالے اور دوستی کا کوئی پاس نہ کرے تواس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے؟!

شیطان تدریجااپنے جملوں میں شدت لاتاہے:

اس کی ابتدائی کوشش یہ ہوتی ہےت کہ مومن کومکروہات کے ارتکاب پر اکسائے اس کے بعد وہ اس کے سامنے گناہاں صغیرہ کی راہ کھولتا ہے پھر ان پر اصرار پر اور انہیں معمولی سمجھنے پر جوخود ایک گناہ کبیرہ ہے.جناب مصنف کی کتاب “گناہاں کبیرہ” اور اسی طرح “قلب سلیم” میں یہ موضوع پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اسے مجبور کرتاہے اس کے بعد اسے گناہاں کبیرہ پر لگادیتاہے اور آخرمیں اس کے قلب وروح پر غلبہ وتسلط حاصل کرکے اس کے ایمان پر حملہ آور ہوتاہے اور مومن کو وسوسہ اور شک میں مبتلا کرکے اسے اپنا صید زبوں بنالیتاہے کہ اس بچارے کویہ سمجھنے کے قابل بھی نہیں رہنے دیتا کہ وہ کس دام میں پھنس گیاہے.

صرف اہل تقويٰ ہی اپنے کاری اسلحہ کی مدد سے خود کو شیطان کے شرسے محفوظ کرسکتے ہیں بچارے نہتے لوگوں کی کیا مجال کہ ملعون دشمن کے مقابلے میں‌آئیں.

وضو مومن کا تیز دھار اسلحہ ہے:

بہت سے مستحبات ہیں جودفع دشمن کے لئے ضروری اسلحہ میں شمار ہوتے ہیں ان میں سے ایک وضوء ہے،حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے“الوضوء سلاح المؤمن”وضوء مومن کا ہتھیار ہے،مومن کا فرض ہے کہ شیطان کے سامنے خود کو یوں سمجھے کہ دشمن کے مقابلے میں صف آرا ہے لہذا لازمی طورپر وضوء رہے اور جسم کو ہمیشہ پاک وطاہر رکھے.

اور سب سے بہتریہ ہے کہ ہمیشہ باوضوء رہے اور جب وضو کئے ہوئے کافی وقت گذرجائے ہرچند وضو نہ ٹوٹا ہو تو اس کی تجدید کرے کیونکہ“الوضوء نور والوضوء علی الوضوء نور علی نور”وضو نور ہے اور وضو پر وضو نور علی نور ہے،یہی وضو وہ نور ہے جوشیطانت کی افریدہ ظلمت کو دور کرکے ضلالت سے بازرکھتاہے.

سوتے وقت بھی وضو کرکے بستر پر جانا مستحب ہے آپ کو چاہئے کہ مسلح ہو کر سوئیں تاکہ آپ کے وضو کا نور نیند کے دوران شیطان کی ظلمت کو آپ سے درور کھے.

روزہ اور صدقہ سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے:

اس اسلحہ میں چند ہتھیار ایسے ہیں جن سے مسلح رہنے کی تاکید سرور عالم خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمائی ہے:“وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِأَصْحَابِهِ أَ لَا أُخْبِرُكُمْ بِشَيْ‏ءٍ إِنْ أَنْتُمْ فَعَلْتُمُوهُ تَبَاعَدَ الشَّيْطَانُ عَنْكُمْ كَمَا تَبَاعَدَ الْمَشْرِقُ مِنَ الْمَغْرِبِ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الصَّوْمُ يُسَوِّدُ وَجْهَهُ وَ الصَّدَقَةُ تَكْسِرُ ظَهْرَهُ وَ الْحُبُّ فِی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمُؤَازَرَةُ عَلَى الْعَمَلِ الصَّالِحِ يَقْطَعُ دَابِرَه ‏” “حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا...روزہ سے شیطان کامنہ کالا ہوتاہے صدقہ سے اس کی کمر توڑ تاہے استغفار سے اس کی رگ حیات کٹتی ہے اور اللہ تعاليٰ کی محبت اور عمل صالح سے اس کی جڑاکھڑجاتی ہے”.

روزہ سے،اگر آپ اس کی سکت رکھتے ہوں،آپ کے دشمن کو روسیاہی ملتی ہے.اگر غیب کے پردے آپ کی آنکھوں سے اٹھالئے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ شیطان ملعون کا مکروہ چہرہ آپ کے روزے کے اثر سے سیاہ ہوگیاہے.

لیکن شیطان اتنا کمز ورناتوان بھی نہیں ہے کہ آسانی سے ایک روزہ رکھت کر آپ اس ک منہ کالاکردیں گے اور صدقہ کی ایک ہی ضرب سے اس کی کمر توڑدیں گے انسان کو چاہیئے کہ ہر عمل پورے اخلاص سے انجام دے اور ہفت حجاب سے گذرابلیس کی کمر توڑکراسے خاک ملادے.

پھر صدقہ ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارشاد کے مطابق شیطان کی کمر توڑتاہے ضرور توڑتاہے لیکن اس کے لئے اس کا بارگاہ الہيٰ میں مقبول ہونا شرط ہے.

میں نے شیطان کی ماں کو دیکھا:

انوراجزائری میں منقول ہے ایک دفعہ قحط سای کے دوران ایک واعظ مسجد کے منبر پر بیٹھا کہہ رہا تھا :اگر کوئی چاہئے کہ صدقہ دے تو ستر شیطان کے ہاتھ سے چمٹ جاتے ہیں اور اس سے باز رکھنےم کی کوشش کرتے ہیں.

ایک مومن جومنبر کے پائے کے ساتھ بیٹھا یہ سن کر تعجب سے‌اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا:بھلا صدقہ سے شیطان کا کی تعلق ہے لومیرے پاس گھرمیں گندم موجود ہے میں‌ابھی جاتاہوں اور اسے مسجد میں لاکر فقراء میں تقسیم کرتاہوں بھلادیکھوں شیاطین مجھے کیسے روکتے ہیں.پس اٹھا اور گھر چلاگیا.

جب گھر پہنچا اور اس کی بیوی اس کے ارادے سے آگاہ ہوئی تو اسے سرزنش کرنے اور ڈانٹنے لگی کہ اس قحط کے زمانے میں اپنی اور اپنے بیوی بچوںت کی پروا نہیں کرتے ہو شاید یہ قحط طول پکڑجائے تو ہم بھوکے مریں گے.وغیرہ وغیرہ..بہرحال وسوسہ میں مبتلا ہوکر وہ مرد مومن خالی ہاتھ مسجد میں اپنے ساتھیوں میں واپس آگیا.

دوستوں نے پوچھا :کیاہوا خالی ہاتھ لوٹ آئے ہو دیکھا !آخر وہ شیطان تمہارے ہاتھ سے چمٹ ہی گئے او رانہوں نے تمہیں صدقہ نہیں دینے دیا.اس نے جواب دیا:“شیطان تو مجھے نظر نہیں آئے البتہ ان کی ماں کو میں نے ضرور دیکھا جو اس کارخیر میں رکاوٹ بنی”.

الغرض انسان چاہتاہے کہ شیطان کا مقابلہ کرے لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات بیوی یا اس کی دوست عورتوں کی مصلحت بینی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکتا.

اور صدقہ یہ بھی نہیں ہے کہ جب کوٹٹول کھرچ کر ایک دورروپیہ نکاال کردے دیں کیونکہ( لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون‏ ) تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو.

آپ کی مالی قوت کیا ہے؟اگر آپ واقعی مال دار ہیں تو تاوقتیکہ پانچ سو یا ہزار روپیہ کا چک جیب سے نہ نکالیں گے شیطان کی کمز نہیں ٹوٹے گی.اور وہ بھی اس شرط پر کہ اس عطئے کو جتلا کر یا اس کے بارے میں دوسرے شخص کو اذیت دیکر باطل نہیں کردیں گے.نمائش اور شہرت کا تو ذکر ہی کیا؟!

توبہ بھی ایک طاقتور ہتھیار ہے:

شیطان اپنی ہر ممکن کوشش سے انسان کو گناہ کی دلدل میں ڈالتاہے اس وقت اگر انسان سچے دل سے توبہ کرلے تو شیطان کا دل ٹکڑےٹکڑے ہوجاتاہے.

لیکن دشمن بہت ہوشیار ہےاور اپنی سی انتہائی کوشش کرتاہے کہ انسان توبہ تک نہ پہنچ سکے،وہ اس کے دل میں القاء کرتاہے آخر ہواکیا ؟کون اس اتنا بڑا گناہ تم نے کرلیا ہے کہ اب نادم ہو .نہیں دیکھتے کہ دوسرے کیا کچھ کرتے پھر تے ہیں ابھی تو تم جوان ہو اتنی جلدی بھی کیا ہے .اگر توبہ ضروی ہی کرنی ہے تو بڑھاپے میں کرلینا.اس وقت تو بہ ٹھیک رہے گی کیونکہ کمزوری اور ناتوان کی وجہ سے توبہ توڑنہیں سکو گے اور وہ قائم رہے گی.اب جوانی کے عالم میں کی ہوئی توبہ اس توبہ شکن دنیا میں کیسے قائم رہ سکتی ہے...

دوطاقتور شیطان کش ہتھیار:

مزید طاقتور ہتھیار جوکہ بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کے مطابق شیطان کونابود کرسکتے ہیں دو ہیں : ایک خداکی مخلصانہ اطاعت اور دوسرے عمل صالح پر مداومت.

ہم نفس کے ماروں کو بہ ہنگام قیامت

افسوس بہت ہوگا کہ کیوں نفس نہ مارا

یہ جہاد اکبر ہے کہ اللہ تعاليٰ سے محض اسی کی ذات کے لئے اپنے منافع و مصالح اور خواہش نفس کو یکسر نظر انداز کرکے دوستی کی جائے یہ جہاد کفار کے ساتھ جہاد سے افضل ہے .کیونکہ اپنے حقیقی داخلی دشمن نفس امارہ سے ہے.اگر جہاد کامیاب نہ ہواتو کفار کے ساتھ جہاد بھی ناکام رہے گا بلکہ شیطان ہی کی انگیخت پر ہوگا جس میں جان بھی بہر حال جائیگی اور عاقبت بھی برباد ہوگی.

حضرت امام سجادعليه‌السلام اپنی دعامیں یوں عرض کرتے ہیں:“اے پروردگار میں اس دشمن سے تیری پناہ طلب کرتاہوں.اے گھر کے مالک یہ کتامجھ پر حملہ آورہوتاہے میری فریاد کو پہنچ اور مجھے اس سے بچا”.

واغوثاه من عدو استکلب علی

ابلیس پائے امام سجادعليه‌السلام کوکاٹتاہے:

“مدینة المعاجز” میں مذکور ہے کہ جناب سید ساجدینعليه‌السلام ایک روز نماز میں مصروف تھے ابلیس نے چاہا کہ امامعليه‌السلام کی استغراق کی کیفیت می کمی ہوجائے .انپے ایک چیلے کو اس نے حکم دیا کہ امامعليه‌السلام کو کوئی جسمانی اذیت پہنچا کر آپ کی توجہ الی اللہ استغراق فی اللہ میں خلل ڈالدے.وہ راضی ہوگیا اور روایت میں‌آیا ہے کہ اس نے ایک بڑے سے اژدھاکی شکل اختیار کی“ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں کہ شیطاطین کوئی بھی شکل اختیار کرسکتے ہیں اور امامعليه‌السلام کے پاس آیا آپ بدستور بے حس و حرکت عبادت میں مصروف رہے.اس ملعون نے پائے مبارک امامعليه‌السلام کے انگوٹھے کو کاٹ لیا لیکن آپ کو اس کا ہر گز کوئی احساس نہ ہوا پس آسمان سے قہر الہيٰ کی ایک خوفناک گونج نے اس لعین کے اس فعل کو قطع کیا اور زمین وآسمان کے درمیان آواز بلندہوئی“انت زین العابدین” آپ واقعی عبادت گذاروں کی زینت اور ان کے لئے سرمایۀ فخر ونازہیں”.اس وصف عظیم کے مالک یہ فخر عبادت گذاران عالم اللہ کے حضور التجاء فرماتے ہیں کہ اے پروردگار مجھے ا س کتے سے اپنی پناہ میں رکھ اے صاحب آستانہ قدس مجھے اس کے حملے سے محفوظ رکھ.

شیطانی ہتھکنڈوں سے لوگوں کو آگاہ کرو:

سید الساجدین حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام کا حال بیان کیا گیا تو ہم ناچیز کس شمار قطار میں ہیں جو جہل میں اسیر اپنی ذات سے بھی بے خبر ہیں جس کی وجہ سے ہم شیطان کی ادانيٰ سی انگیخت پرراہ راست سے بھٹک جاتے ہیں.

اے اہل عقل شیطانی ہتھکنڈوں سے عوام کو رشناس کراؤ .فسا اخلاق کے ان اسباب نے شیطان کی آنکھیں آگے ہی بہت ٹھنڈی کردی ہیں تم مزید اس کے شیطانی کارناموں پر مہر تصدیق ثبت نہ کر نہی عن المنکر ہر انسان پر واجب ہے کم از کم ان شیطانی کاموں سے نفرت کا اظہار کرو.اس کے لئے تو کوئی شرط نہیں ہم سب کا فرض ہے کہاس غلط اور نازیبا صورت احوال سے نجات حاصل کریں.

ہروہ شخص جوکسی کے فعل بد کودیکھے اور اس پر ناراضگی کا اظہار ن کرے بلکہ اس سے خوش ہو،اس کے گناہ میں شریک سمجھاجائے گا.کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک شخص صرف معاشرہ کی نظروں میں گرجانے کےخوف سے سینماتھیڑیا فسق وفجور کے دوسرے مقامات میں نہیں جاتا .لیکن ان جگہوں سے دلی طور پر نفرت نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا سے زیادہ بندوں سے ڈرتاہے.وہ بھی یقیناً گناہوں میں برابر کا شریک ہے.

بال سے باریک اور تلوار سے تیز:

کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی شیطان ملعون کے ہی ساتھی ہوں اور وہ ہمارے رگ و پے او رگوشت پوست میں رچابسا ہواہو.ایسا نہ ہو کہ اپنے‌خیال کے مطابق توہم کار خیر انجام دےرہے ہوں اور بزعم خود حسنات بجالارہے ہوں لیکن در اصل یہ سب کچھ شیطان ہی کی انگیخت پر ہورہاہو.یہ مقام اتنانازک ہے کہ بال سے باریک اور تلوار سے تیزہے آپ کو معلوم ہی ہے کہ صرف ایک نقط کے اضافے سے محروم بن جاتاہے.

بقول حاجی نوری ،بعضی لوگ اسی غرور میں ہلاک ہوجاتے ہیں کہ وہ حضرت علیعليه‌السلام کے محب ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ محبت کا صرف زبانی دعويٰ انہیں جنت میں لے جانے کے لئے کافی ہے.اگر دل سے حب علیعليه‌السلام پرقائم ہوں تودین کے جملہ احکام کی پوری اخلاص سے تعمل کریں اور نہ عین ممکن ہے کہ حب علیعليه‌السلام کے کھوکھلے دعوے بھی شیطان ہی کی انگیخت کے مرہون منت ہوں.

ایے بچارہ وبے بس مسلمان خبردار ہو کہ تیرے ایمان کی اصل خطرے میں ہے اگر شیطان نے تجھے وقت مرگ وسوسے میں مبتلا کردیاتو کیا کرے گا.اپنے زعم میں تو تُوعلیعليه‌السلام کامحب ہے.

یہ زبان کیاہے تیرادل کس کے سامنے جھکاہواہے.کہاں جارہارہے ،کس کی اطاعت میں مبتلا ہے بس وہی تیرا محبوب و مطلوب بھی ہے خدانے چاہا تو حب علیعليه‌السلام بھی موجود ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی اور محبت غالب آجائے سچ بتاتُواپنی نفسانی خواہشات کو دوست رکھتاہے یا علیعليه‌السلام کو اپنی دنیاسے زیادہ پیار کرتاہے یا دین سے اگرتیری دنیادرست ہوجائے تو کیا تجھے آخرت کی کوئی فکر باقی نہیں رہے گی.....

امور آخرت بہ نیت دنیوی:

دلوں کو شیاطین شکار کرچکے ہیں.آخرت کی فکر کسے ہے جب حضرت ابوالفضل عباسعليه‌السلام کی مجلس میں تو سل کے لئے جاتے ہیں کہ فلان دنیوی حاجت پوری ہوجائے پس یہ عبادت کار دنیا کے سدھرنے کی عرض سے کرتے ہیں اور بہانہ اس کا“توسل” کوبنالیتے ہیں.اگر بلاتوسل آپ کا یہ کام ہوجاتا تو جناب ابولفضل عباسعليه‌السلام سے آپ کو کوئی سروکار نہ ہوتا.

کیا کبھی ایسا بھی ہواہے کہ اس ارادے سے آپ نے توسل کیا ہو کہ حب علیعليه‌السلام پرزندگی کاانجام ہو ایسا نہ ہو کہ یہ مختصرسی دوستی دم نزع شیطانی تصرفات کی وجہ سے ہو.

تین لاکھ کافاصلہ:

روایات میں‌آیا ہے کہ بعضی محبان علیعليه‌السلام تین لاکھ سال (کےعذاب کے)بعد حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام تک پہنچیں گے.

یہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ آپ کا دل کاہزاروان حصہ علیعليه‌السلام کے لئے تھا خدمت امام میں پہنچنے سے قبل یہ حجابات دور ہونے ضروری ہیں پہلے غیر کی بے حقیقت محبت کارنگ دل سے برطرف ہوگا تو علیعليه‌السلام پہنچنا ممکن ہوگا اے‌امیرالمؤمنینعليه‌السلام آپ خودہی نظر کرم فرمادیں.

ہمیں امید کرنی چاہئے کہ ہماری موت حب اہل بیت علیہم السلام پر ہو اور حق تعاليٰ کا فضل و کرم ہمارے شامل حال رہے.

رکن اول

تقويٰ

مجلس ۸

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

تقويٰ استعاذہ کاپہلا رکن:

ہماری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ استعاذہ کا اولین رکن تقويٰ ہے تو سب سے پہلے ستوں کو درست اور مضبوط ہونا چاہئے تاکہ عمارت اس پر قائم رہ سکے.

تقويٰ“وقایة” سے ہے جس کا معنی نگہداشت اور حفاظت ہے شرعی اصطلاح میں اللہ تعاليٰ کے اوامر ونواہی کی مخالفت سے پرہیز کو تقويٰ کہتے ہیں.

یہ بہت ضروری ہے کہ تقويٰ ایک عادت اور ایک ملکہ کی طرح ہمارے اخلاق میں اتنا راسخ ہوجائے کہ گناہ ہمیں تلخ محسوس ہونے لگے اور مثلاً اگر سب لوگ مل کر بھی اگر چاہیں کہ ہمیں کسی کی غیبت پر آمادہ کریں تو کامیاب نہ ہوسکیں یعنی ایسی حالت ہمارے نفوس میں پیدا ہوجائے کہ اس کا برطرف کرنا محال یا کم از کم سخت مشکل ہو اور مداومت کی وجہ سے اپنے نفس اور شیطان ملعون پر قدرت وتسلط حاصل ہوجائے .اس کو ملکۀ تقويٰ کہتے ہیں.

ترک مکروہات برای محرمات:

اس مقام تک پہنچنے کے لئے مکروہات کا ترک کرنا بہت ضروری ہے تاکہ حرام کا ترک کرنا ہمارے لئے آسان ہوجائے اور اس پر تکرار ومداومت سےتقويٰ کا ملکۀ اور عادت ہم میں پیدا ہوجائے اور جب ہم مکروہات کو کہ جن کے‌ارتکاب کی کوئی سزا نہیں ،ترک کردیں گے تو ترک حرام ہمارے لئے بہت آسان ہوجائے گا اور پھر بالتدریج ہماری عادت بن جائے گی.

اور جہان تک ممکن ہو ہمیں چاہئے کہ مستحبات کو ترک نہ کریں کیونکہ مستحبات کی انجام دہی کی برکت سے واجب کو ترک کرنا ہمارے لئے محال ہوجائے گا .ظاہر ہے کہ جوشخص نماز نافلہ کو ترک نہ کرتا ہو،نمازواجب اس سے کبھی فوت نہیں ہوسکتی.

پرخار جنگل اور پابرہنہ مسافر:

کسی عالم عارف نے تقويٰ کی بہت پرلطف تعریف فرمائی ہے اور بڑی دلچسپ مثال سے اسے واضح کیاہے فرماتے ہیں:

جب آپ کسی کانٹوں بھر سے جنگل میں نگے پاؤں چل رہے ہوں تو راستہ کیسے طے کریں گے کیا اسی طرح اٹھاکرنظریں افق میں جمائے چلتے رہیں گے یا پوری توجہ واحتیاط سے پھونک کرقدم رکھیں گے تاکہ پیرمیں کانٹا نہ لگ جائے اور آپ اذیت سے دورچانہ ہوجائیں.

بس تقويٰ کا یہی معنيٰ ہے کہ زندگی راہ میں قدم قدم پر شیطان کے بکھرے ہوئے کانٹوں سے آپ بچ جائیں.اور سلامتی کے ساتھ راہ حیات طے کریں.

دانہ ودام ابلیس:

یہ احتیاط اتنی ضروری ہے کہ حضرت امام سیدالساجدین زین العابدینعليه‌السلام سے صحیفہ سجادیہ میں یہ دعا منقول ہے:اےپروردگار میں ابلیس کے پھندوں اور دام ہائے فریب سے آپ کی پناہ طلب کررہاہوں آپ نے بارہا دیکھا ہے کہ شکاری اپنے جال کو پوشیدہ کرکے یا اسے ہم رنگ زمین بناکر اس پر دانہ بکھیرتاہے.اس کا شکار دانے کو دیکھ لیتاہے لیکن دام اس کی نظروں سے پوشیدہ رہتاہے.دانے کے لالچ میں‌آتاہے لیکن اس تک پہنچنے سے پہلے ہی دام میں پھنس جاتاہے.

ابلیس لعین کے دام بے شمار ہیں گناہ ومعصیت کے بے شمارگڑھے‌اس نے کھودکران کو خاشاک فریب سے پوشیدہ کیا ہواہے‌اور ترغیب و تحریص کے دانے ان پر ڈالے ہوئے ہیں تاکہ ناسمجھ انسان سے کےدلرباظاہر پر فریفتہ ہوکر دام پھنس جائے.

تقويٰ دام ابلیس کودیکھ لینے کی صلاحیت ہے:

تقويٰ کامقتضایہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں نگاہ کوکسی چیز کے خیرہ کن زرق برق ظاہر سے فریب نہ کھانے دیں دام ابلیس کو دیکھیں بندہ خوش بخت بس وہ ہے جو آخرین ہے.

اللہ تعاليٰ سے دعا کریں کہ ہمیں بصیرت دینی عطاہوتا کہ ہم ابلیس کے پھندوں اور اس کےدام ہائے فریب کو دیکھ سکیں نہ کہ دارنہ دنیاکے طمع میں اندھے ہوکر اس میں جاگریں.

کچھ ناگزیر مثالیں بازار دام شیطان ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ بازار ابلیس کامیدان ہے:“عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَرَّ بِقَاعِ الْأَرْضِ الْأَسْوَاقُ وَ هُوَ مَيْدَانُ إِبْلِیسَ يَغْدُو بِرَايَتِهِ وَ يَضَعُ كُرْسِيَّهُ وَ يَبُثُّ ذُرِّيَّتَهُ فَبَيْنَ مُطَفِّفٍ فِی قَفِیزٍ أَوْ طَائِشٍ فِی مِیزَانٍ أَوْ سَارِقٍ فِی ذِرَاعٍ أَوْ كَاذِبٍ فِی سِلْعَةٍ ” روئے زمین کا بدترین حصہ بازار ہے،یہ شیطان کامیدان ہے جہاں وہ صبح کے وقت اپناجھنڈا گاڑدیتا اور اپنی کرسی لگالیتاہے اور بساط فریب بچھا کرناپ ،تول اور پیمائش میں بددیانتی کرتا اور ناخالص مال بیچتاہے.

یہی وجہ ہے کہ ازروئے فرمودات معصومین علیہم السلام بازار میں زیادہ دیرتک ٹھہرانا مکروہ ہے .کیونکہ بازار صرف جاجائے معاملات ہے اور بازار کے ساتھ خصوصی نسبت صاحبان فہم کے نزدیک پسندیدہ نہیں.

نیزسب سے پہلے بازرا میں داخل ہونا اور سب کے بعد وہاں سے نکلنا بہت مکروہ ہے کیونکہ اس دوران میں شیطان انسان کارفیق ہوتاہے چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ جناب امیرالمؤمنین علیعليه‌السلام نے۱۸رمضان المبارک کے دن عبدالرحمن ابن ملجم کو کوفہ کے بازار میں گھومتے دیکھا تو اس سے فرمایا:“یہاں کیا کررہے ہو”اس نےعرض کیا:گھوم رہاہوں ،آپ نے فرمایا: بازار شیطانوں کی جگہ ہے.

یعنی بازرا میں بلاضرورت گھومنا خواہ مخواہ قابل اعتراض سرگرمیوں میں مصروفیت کو مستلزم ہے چنانچہ آج بھی بازار میں بلاوجہ گھومنا معیوب سمجھاجاتاہے.اگر آپ تقويٰ چاہتے ہیں تو آپ کو اسی طرح احتیاط کرناہوگی جس طرح راہ پرخارکامسافر کرتا ہے.

بازار میں داخلے کے وقت استعاذہ:

جب آپ بازار میں داخل ہوں تو اللہ تعاليٰ سے پناہ کی یوں التجاکیجئے :

پروردگار میری حفاظت فرماکہ گناہ میں نہ پھنس جاؤں،معاملے میں بددیانتی کامرتکب نہ ہوں جھوٹ نہ بولوں کسی کی بے عزتی اور توہین نہ کروں دھوکے اور فریب سے بچوں،غلط قسم کے خیالات کی تبلیغ نہ کروں اور حرص اورلالچ کا شکار نہ ہوں یہ سارے کے سارے شیطانی فریب اور ابلیسی ہتھکنڈے ہیں.

میں یہ نہیں کہتا کہ بازار مت جائیے اور لین دین نہ کیجئے بلکہ مقصد میراصرف یہ ہے کہ اپنے خداداد عقل وجود اس سے کام لیجئے اور محتاط رہئیے.

ایک شخص امام جعفرصادقعليه‌السلام سے روایت کرتاہے:“میں نے آنجناب سے پوچھا میراایک عورت سے لین دین ہے مجھے ناچار اس کا چہرہ دیکھنا پڑتاہے.کیا مجھے اسے‌دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟آ نے فرمایا:اتقی اللہ،بس خدا کا خوف دل میں رکھ اور احتیاط کر”.

ملاحظہ فرمائیں یہی نگاہ بار باراس عورت کےچہرے پر پڑنے سے شہوت زدہ ہوسکتی ہے اور حفظ نفس کاباعث بنکر اس کی بدبختی کی وجہ بن سکتی ہے.

بازار کےاندر شیطان کا پھندا:

حتی کہ آپ کو رستہ چلتے ہوئے بھی متوجہ ومحتاط رہناچاہئے اگر آپ سمجھتے کہ ایک راہ میں دام شیطان موجودہے تو دوسرا راست اختیار کیجئے خواہ وہ کتناہی دور ہو مثلاً اگر آپ کے رستے میں سینمایا دوسرے فواحش کاکوئی مرکز ہے،بازاری یا عریان وبے پردہ عورتیں یا ان کی تصویریں جوہیجان شہوت کاباعث ہوسکتی ہیں تودوسرا رستہ اختیار کریں تاکہ آپ کی نگاہ ایسے حرام مناظرپر نہ پڑے آپ یہ نہ کہیں کہ ہم ایسے فریب میں پڑنے والے نہیں ہیں لیکن پھربھی احتیاط بہت ضروری ہے کیونکہ کم ازکم ایسےمناظروں کو خدائے تعاليٰ سے غافل تو کرہی سکتےہیں.

رفیق سفر خطرناک پھندا:

کبھی کبھی خود انسان کار فیق سفر بھی ابلیس کادام ثابت ہوسکتاہے وہ بد زبان غیبت کرنے والااور نااہل ہوسکتاہے ایسے ساتھی کو فوراً بدل دینا چاہیئے.

دوہم نشینوں کابالخصوص جب وہ عورتیں ہوں جوعموماً کم حوصلہ ہوتی ہیں شیطان فریب میں پھنس جانے کا زیادہ اندیشہ ہے جب آپس میں باتیں کرتے کرتے دوسروں کا ذکر درمیان میں آتاہے تو کبھی کسی کااورکبھی کسی کاذکر کرتی ہیں اور رفتہ رفتہ مباح باتوں سے گذرکرغیبت ،تہمت ،افترا،استہزا،اور افشائے راز اورہتک حرمت تک پہنچ جاتی ہیں.

دام ابلیس ایسا ہی ہے ہ پہلے توخوش کلامی ،خوش گپیوں اور احوال پرسیوں کادانہ دکھاتاہے اور پھران کے نیچے چھپے ہوئے فعل حرام کے جال میں انہیں پھنسادیتاہے.

کئی بار آپ نے مشاہدہ کیاہے کہ دوشخص بڑی دوستانہ صحبت میں بیٹھ گئے،ان کی باتوں میں ابتداء میں کوئی عیب یاخرابی نہ تھی لیکن ایک گھنٹے ہی کے اندران کی باہمی باتوں نے انہیں دوزخ کے گہرے گڑھے‌میں دھکیل دیا.اب وہاں سےنکلنا ایک طویل محنت ہی سے ممکن ہے .اس صورت میں اگروہ دونوں مسجد میں بھی جائیں گے تو یہ خیال نہ کیجئے کہ خداپرست ہوگئے کیونکہ شیطان بدستور ان کے‌ہمراہ ہے.

اپنے آپ کو پہچانئیے:

الغرض ابلیس کے پاس اتنے دام ہیں کہ اگر انسان صاحب تقويٰ یا محتاط ہو تو اس کو اس طرح جکڑتاہے کہ جب تک جہنم میں نہ پہنچادے چھوڑتانہیں.

اے اہل عقل !احتیاط کیجئے اور خصوصاًزبان کو پورے قابومیں رکھے آپ کو دوسروں میں کیڑے نکالن سے کیا مطلب ؛!ہرشخص اپنے اعمال وافعال کے حساب کا ذمہ دارہے کسی ایک کابوجھ دوسرے کی گردن میں نہیں ڈالاجائے گا

. وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى‏

یادر کھے کہ ایک دوسرے کےخلاف باتیں کرنا ،چغلی کھانا یا غیبت کرنا شیطان کادام ہے جب آپ دوسروں کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھے ہوں تو اس دام سے محتاط رہئیے.

عورت سب سے خطرناک دام ہے:

سب سے اہم اور بقول صحیح شیطان کا خطرناک ترین دام عورت ہے ماسوائے ان عورتوں کے جنہوں نے‌عمر بھر شیطان سے مردانہ وار مقابلہ کیا.

مرد کے شکار میں تو کچھ وقت لگتاہے لیکن عورت بہت جلد شیطان کاشکار ہوکر مردبیچار ے کے لئے اس کا دام بن جاتی ہے .کیا آپ نے سنا نہیں کہ شیطان اپنے تمام قويٰ کے بھر پور استعمال کے باوجود جناب آدمعليه‌السلام کو نہ بہکاسکا اور بالآخر حوا علیہا السلام کو اپنے دام فریب میں پھنسا کر ان کے ذریعے سے آدمعليه‌السلام کو فریب دیا.

روایت میں آیا ہے کہ شیطانت نے جناب یحیی سے کہا:“جب کبھی بھی میں کسی کو اپنے دام میں لانے سے عاجز ہوجاتاہوں تو اپنی مقصد براری کے لئے کسی عورت کادامن پکڑتاہوں”.

جی ہاں عورت کی مددسے وہ اپنے مقصد کی طرف بڑھتاہے اور اس کی برکت سے اپنی مراد کو پہنچتاہے.

وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِیسُ ظَنَّه‏

یقیناًابلیس نے ان کے بارے میں اپنے گمان کو سچ کر دکھایا.

عورت کی ہمنشینی گناہ کا مقدمہ:

یہی وجہ ہے کہ روایات اہل بیت ؑ میں وارد ہواہے کہ عورت کی زیادہ ہمنشینی انسان کو سخت دل بنادیتی ہے.

اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورت سے کنارہ کش ہوجانا چاہئے بلکہ احتیاط ضروری ہے کیونکہ اس کی قربت شیطان کے داموں میں سے ایک دام ہے چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اس کا ایک حرف آپ کی فکر کی راہیں بدل دیتاہے ، آپ کو جذباتی کردیتاہے اور بہت سے گناہوں کی وجہ بن جاتاہے.

اور بہت افسوس کامقام ہے اگر عورت بیگانہ ونامحرم ہو اور اس پرمستزادا گروہ آپ کے ساتھ اکیلی ہو تو پھر شیطان بڑاہی سخت اور خطرناک ہے.

بیگانہ یا اجنبی عورت سے مصافحہ یا اس کے ہاتھ میں لینا حرام ہے.ان غیر متقی حیوانوں کو ذاردیکھو کس قدر شیطان کے‌دام میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ عورت کے بدن کامرد کے بدن سے چھوجانا بھی شیطان کاایک دام ہے.

برصیصائے عابد کاواقعہ:

ایک عابد گوشہ نشین جس کانام برصیصا تھا،ہمیشہ عبادت الہی میں مصروف رہتاتھا لوگ اس کو مستجاب الدعوة کہتے تھے کہ اس کی دعا ہمیشہ بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت پاتی تھی بادشاہ وقت کی بیٹی کسی سخت مرض میں مبتلا ہوگئی اور کوئی علاج بھی اس پر کارگرثابت نہ ہوا آخر کار اس کے علاج اور شفایابی کو برصیصائے عابد کی دعا پر منحصر سمجھا گیا لیکن وہ اپنی عبادت کی خلوت کو چھوڑ کر شہر یا قصر شاہی میں جانے پرراضی نہ ہوا.

آخر کار لوگ مجبور ہوکر بیمار شہزادی کو برصیصا کی عبادت گاہ میں لائے تاکہ اس کی دعا سے وہ صحتیاب ہوجائے اور اسے اس کے پاس چھوڑکرچلے گئے.

یہ بدبخت عابد اگر واقعی صاحب تقويٰ ہوتا تو فریاد کرتا ،شورمچاتا کہ اجنبی لڑکی کو میرے عبادت خانے میں چھوڑناجائز نہیں اسے لے جاؤمیں اس کے لئے دعاکروں گاوہ صحتیاب ہوجائے گی...اس مقام پر اس نے احتیاط نہ کی تقويٰ کا تقاضا یہ تھا کہ بے گانہ لڑکی کے ساتھ خلوت میں نہ رہے لیکن ا س نے حقیقت کو اہمیت نہ دی اورشیطان کے‌دام میں پھنس گیا...

اس نے لڑکی کی طرف دیکھا اس کے حسن بیمارنے اس کی تماتر توجہ کو اپنی طرف مرکوز کرلیا وہ ساری عمر ایسی صورت حال سے دوچار نہ ہواتھا یہاں ذہنی اور جذباتی دلالی شیطان جیسا جغادری فریب کار کررہاتھا اتنے سالوں کی عبادت اس عابد کی شہوت کو قابو میں نہ رکھ سکی اور بالآخر اس نے منہ کالاکرہی لیا او رفعل حرام کامرتکب ہوگیا.

لیکن شیطان نے اس پر اکتفا نہ کی اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالاکہ ظالم تونے خود کو رسواکرڈالا کل جب لوگوں کوپتہ چلے گا کہ تونے بادشاہ کی بیٹی سے زناکیا ہے تو تجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے اگرتوموت سے بچنا چاہتاہے تو اس لڑکی کو قتل کرکے زمین میں دفن کردے اور جب تجھ سے پوچھیں کہ لڑکی کہاں ہے تو کہنا کہ مجھے کیا خبر کہاں چلی گئی.

قصہ مختصر کہ اس اتنا وسوسہ زدہ کیا کہ اس نے لڑکی کوسوتے میں گلا گھونت کرہلاک کردیا پھر اس کو ایک گڑھے میں دفن کردیا اور اس پر مٹی وپتھر ڈال کر اسے ڈھک دیا.

یہ ملعون دشمن ایک ہی دام پر اکتفا نہیں کرتا اورتاوقتے کہ خود اپنے مقام پر نہ پہنچائے دم نہیں لیتا تاکہ ایمان وانسانیت کی اگرذرہ بھر بھی کوئی رمق اس میں باقی رہ گئی ہے تو اس سے بھی اسے محروم کردے.

دوسرے دن جب بادشاہ کے لوگ برصیصا ءکےپاس لڑکی کی خبر کو آئے تو اس نے تجاہل کیا اور کہا !میں نے دعا کی اور وہ ٹھیک ہوگئی،اس کے بعد کا مجھے کوئی علم نہیں.

روایت ہے کہ ابلیس لڑکی کو تلااش کرنے والوں میں سے ایک کے سامنے انسان کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس سے کہنے لگا :میں جانتاہوں کہ لڑکی کہاں ہے.پھر ان سب کو اس کے مقام دفن پر لے گیا اور ان کو قبر کی جگہ دکھائی.

لوگوں نے برصیصاکاعبادت خانہ ڈھاڈالااور اس کو گھسیٹ کر بادشاہ کے پاس لے گئے سب اس کی شکل پر تھوکتے تھے

دیکھا آپ نے ایک لحظہ ہوس رانی یک عمر پشیمانی ایک لمحہ کی لذت نفس اور اس کے بعد مفاسد کاطوفان !

غرضیکہ بادشاہ نے اس کے قتل کاحکم صادر کیا اور اسے پھانسی دے دی گئی.

پرانے زمانے کی پھانسی آج جیسی نہیں ہوتی تھی کہ فوراً گلاگھونٹ کے ماردیابلکہ وہ کافی دیر لٹکارہا اور تڑپ کرہلاک ہوا بدبخت برصیصا کے پاس تختہ دار پر کوئی فریاد نہیں تھی جس وقت انتہائی فشار کے عالم میں اس کی جان نکلنے لگی تو شیطان اس کے سامنے نمودار ہوا اور کہنے لگا اگر اس وقت تو مجھے سجدہ کرلے تو تجھے بچالوں .جان بچانے کی خواہش میں وہ اس پر بھی راضی ہوگیا اس طرح شیطان نے دم آخر کو ایمان سے بھی محروم کردیا تاکہ اسفل السافلین میں اسے اپنا ہمنشین بنائے.