استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40259
ڈاؤنلوڈ: 3494

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40259 / ڈاؤنلوڈ: 3494
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۹

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

استعاذہ صرف تقويٰ کے ساتھ مفید ہے:

رات کی بحث کال خلاصہ یہ ہے کہ استعاذہ کارکن اول تقويٰ ہے.اگر تقويٰ موجود ہو تو استعاذہ کی حالت وکیفیت اور شرابلیس سے اللہ تعاليٰ کے حضور پناہ طلبی اور جملہ( اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ) کی زبان سے ادائیگی نتیجہ خیز ہیں ورنہ آپ ہزار بار اعوز باللہ کہیں اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا.

آج رات سے ایک اور مطلب جو اس آیہ شریفہ سے مستفاد ہوتاہے عرض کرتاہوں.

بے تقويٰ دل شیطان کا گھر:

جودل تقويٰ سے بےنصیب ہے یقین جانے کہ وہ شیطان کاڈیراہے ایسے دل سے شیطان آسانی سے رخصت نہیں ہوتا.

بے تقويٰ دل وہ دل ہے جس میں یادخدا نہیں ہے بلکہ وہ دنیوی شہوات،نفسانی خواہشات ،عارضی امیدوں،ہو ا وہوس حرص وآز،خودپسندی ،خودنگری اور شیطانی وسوسوں کی آماجگاہ ہے اور دنیا کی چند روزہ زینت وآرائش کی بے مصرف آروزوگاہ ہے ایسادل شیطان کی اقامت گاہ اور اس کی اخلاق سوزسرگرمیوں کامرکز ہے اور جب تک ان امراض سے یہ شفایاب نہ ہو اور شیطانی اہداف ومقاصد کی تحقیق میں تعاون سےدست بردار نہ ہونا ممکن ہے کہ ہمیں حقیقت استعاذہ پیداہو.

مرغن غذا اور بھوکاکتا:

آپ نے تجربہ کیا ہوگاکہ اگر کوئی بھوکا کتا درانحالیکہ آپ کے پاس روٹی اور گوشت ہو،آپ کی طرف رخ کرے تو کیاوہ صرف آپ کےدھتکار نے اور“ چیخ ”کہنے سے‌آپ کا پیچھا چھوڑدے گا .اگر آپ اس کو دفع کرنے کی غرض سے ڈنڈابھی اٹھائیں گے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا اگروہ بھوکا ہے اور آپ کے پاس موجود خوراک پر اس کی نظر ہے تو اسے ڈنڈابھی مارلیجئے وہ دور نہیں ہوگا اور حصول غذا کے ارادے سے دست بردار نہیں ہوگا.

لیکن جب آپ کے پاس کچھ ہوگاہی نہیں تو اگر کتاآپ کی رخ کر یگا تو آپ کے صرف“ چیخ” کہنے سےدفع ہوجائے گا کیونکہ اس کی تیز قوت شامہ اسے بتادے گی کہ آپ کا پیچھا کرنے کی زحمت سے کوئی فائدہ نہیں.

بیمار دل شیطان کی ضیافت گاہ:

آپ کادل شیطان کی نظر میں ہے.اگر وہ دیکھتاہے کہ اس میں اس کی خو راک موجود ہے یعین اس میں جب جاہ ومال وزروزیوراور شہرت دنیوی کی آرزو موجود ہے تو سمجھ لیجئے یہ اس کا پسندیدہ اقامت خانہ ہے جب وہ دیکھتاہے اس میں ایسی حرص موجود ہے کہ سب کچھ پالینے کے باوجود کم نہیں ہوتی،اس میں ایسا بخل موجود ہے ہے جوہاتھ سے کچھ نہ دینے کے باوجود قائم رہتاہے اور بغض و حسد بھی اس میں فراواں مقدار میں موجود ہے تو بہت خوش ہوتا ہے کہ واہ واکیاخوب مزید ار جگہ ہے کہ ہر مومن بھائی چیزیہاں موجود ہے.چنانچہ وہیں براجمان ہوجاتاہے.لاکھ اعوذ باللہ من اشیطان الرجیم کا ورد کریں.اس معمولی سی“چیخ ”کا اس پر قطعا کوئی اثر نہیں ہوگا. یہ دشمن بڑاضدی ہے( إِنَّ لشَّيْطانَ ُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِین‏ ، إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِین‏ ) یہ آپ کا کھلا دشمن ہے ، اس سے نجات پانے کے صرف ایک ہی صورت ہے کہ اس کی خوارک اور اس کی سب من بھاتی چیز یں وہاں سے نکلا دیں پھریہ ایک ہی( اعوذبالله ) سے بھاگ جائے گا .ایک ہی استعاذہ سے آپ جان چھڑاوے گا کیونکہ جس دل میں حب جاہ ومال ومنال دینا نہیں ہے اس ملعون ازلی کو وہاں سے کیامل سکتاہے.

اکثریت گرفتار ہے:

روایت ہے کہ ایک دفعہ جب شیطان جناب یحیی کے سامنے نمودار ہوا تو آپ نے بنی آدم کے ساتھ اس کے سلوک کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب میں بتایا کہ انسان تین گروہوں میں منقسم ہیں.

پہلاگروہ تو ان برگزیدگان ایزدی کاہے جن پر ہماری کوئی دسترس نہیں .وہ گروہ انبیاء ومعصومین علیہم السلام کا ہے.

دوسراگروہ ان انسانوں کا ہے کہ ہم پوری قوت اور عزم وارادے سے اور بڑی زحمت اٹھا کر ان کو منحرف تو کرلیتے ہیں لیکن وہ توبہ و استغفار سے ہماری محنتوں پر پانی پھیردیتے ہیں اور اللہ تعاليٰ کے حضور تلافی مافات کرلیتے ہیں.اور پھر خرد ہوجاتے ہیں.

تیسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں کہ جن کےدلوں میں ہما بسیراہے اور یہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں.

تو اے اہل ایمان ایسے اعمال بجالاؤ کہ شیطان تمہارے دلوں میں راہ نہ پاسکے ورنہ صرف زبانی طور پر استعاذے کا کوئی فائدہ نہیں.

چور نقیب کی فکر میں:

شیطان کو دل میں جاگزین ہونے سے باز رکھنے کے لئے سب سے پہلے تقويٰ کی ضرورت ہے یعنی ہر اس چیز سے جو اللہ تعاليٰ کی رضا کے خلاف ہے.از قسم ہو اوہوس ،رذیل اخلاق،کمینہ خصائل اور ایسی تمام صفات قبیحہ جو انسان کو حرام کاری اور حرام خوری پر اکساتی ہیں.دل پاک وصاف ہو.

جب دل ان رذائل سے پاک ہوگیا تو پھر اس میں تقويٰ ہوگا اور خوف خدا اور خوف روز آخرت اس میں ہوگا تو پھر شیطان کچھ نہیں کرسکتا لیکن اس کی یہ انتہائی خواہیش و کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرف سے کسی طرح سے اس دل میں راہ پالے لیکن اسے راہ ملتی نہیں یہ یاسے چور کی طرح ہے جو کسی قلعے میں داخل ہونے کے لئے اس کی مضبوط فصیل میں پاؤں رکھنے کی جگہ یا کسی سوراخ کی تلاش میں سرگردان ہو،لیکن جب وہ دیکھتاہےت کہ قلعے کے محافظ بیدا اور خبردار ہیں تو باہرہی سے کھسک جاتاہے.

ابلیس خانہ دل کے گرد:

( إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا ) یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے دل ہر گناہ سے پاک ہیں.اور دل پاک ہو تو سب اعضاء وجوارح کی اصلاح ہوجاتی ہے اور ان سے کوئی شریابدی سرزد نہیں ہوتی چنانچہ ان کی زبان آنکھ ،کان،ہاتھ اور پیرسب گناہ سے پاک ہوجاتے ہیں.

( إِذا مَسَّهُمْ طائِف‏ ) طائف یعنی طواف کرنے والا.چکر لگانے والا.یہاں مراد خانہ دل کے گردنقیب زنی کے لئے سوراخ وغیرہ کی تلاش میں گھومنے والے شیطانوں کا کوئی فرد ہے.

( مِنَ الشَّيْطان‏ ) گروہ ابلیس سے یہ ان چوروں کذکر ہے جو خانہ دل کے گردنقب زنی کے لئے سوراخ کی تلاش میں سرگردان رہتے ہیں.لیکن یک بار گی.

( ِ تَذَكَّرُوا ) خانہ دل کا مالک مومن یا دخدا میں مشغول ہوجاتاہے اور کہتاہے “یا اللہ استغفر اللہ”“ اعوذ باللہ من الشیطاالرجیم”!پروردگار شرابلیس سے مجھے پناہ عطا فرما!

چنانچہ

( فَإِذا هُمْ مُبْصِرُون‏ ) فوراً ان کی آنکھیں نور بصیرت سے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ چور سے خبردار ہوجاتے ہیں.

یہاں میری غرض طائف من الشیطان کے الفاظ سے ہے یعنی مومن کے دل گرد اس میں وسوسہ اندازی کےاراد ے سے چکر لگانے والاشیطانی گروہ کافرد.

یادرکھئے اگردل میں اللہ تعاليٰ کا تقويٰ ہو تووہ پاک وپراخلاص ہوتاہے.اور تقويٰ کا چراغ اپنی تیز ورشنی کے جھماکوں سے چور کو رسوا کردیتاہے اور وہ وہاں سے فرار کرجاتاہے.افسوس ہے اس دل پر جس میں تقويٰ نہ ہو بلکہ اس کی بجائے حب دنیا ہو جس کی وجہ سے وہ شیطان کے چنگل سے کبھی رہائی نہ پاسکے اور آخرکار اس کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے.

خودکشی کیوں کی؟!:

خوف خداسے محروم حریص تاجرنے اپنا تیس ہزار روپے کا مال ایک لاکھ میں بیج دیا اور بڑاخوش تھا کہ بہت نفع کمایا لیکن جب تیسرے ہی روزوہی مال تین لاکھ روپے میں فروخت ہوا تووہ دکھ سے بے حال ہوگیا کہ کیوں جلدی کرکے دولاکھ روپے کے نفع سے بے نصیب رہا اپنے ساتھی تاجروں کے حسدمیں انگاروں پر لوت گیا اور آہ وزاری میں مبتلارہا نہ دن کو چین نہ رات کو نیند نہ کھانا نہ پینا یہی حسرت اس کی جان کار روگ بنگئی کہ دولاکھ روپے کھودئے آخر کار چونا اور گندھک پھانک کرزندگی کے عذاب سے رہا ہوا اور شیطانی گروہ میں جاملا.اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کا دل مال دنیاکی محبت میں مبتلاتھا اور وہ ہزار جان سے اس پرفداتھا .حب دنیا اس کے قلب وروح پر ایسا سوار تھا کہ اس کےلئے اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا.

استعاذہ کیوں کار گرنہیں؟:

ہم سب کو خواب غفلت سے بیدا ہونا چاہئے کیونکہ“ حب الدنیا راس کل خطیة”ہرگناہ کی جرحب دنیاہے.

آپ اپنے دل کو ہر آلودگی سے پاک رکھیں کیونکہ ارگ صرف زبان کی حرکت ہی کافی ہوتی تو کیاآپ ہر نماز کی ابتداء( اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ) سے نہی کرتے.؟

آخر وجہ کیا ہے کہ نماز کے دوران آپ کے حواس سوائے نماز کے ہرجگہ موجود ہوتے ہیں حالانکہ دوران نماز آپ کی زبان پر بہر حال ذکر خداجاری ہوتاہے.اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ تنہا زبان کسی کام کی نہیں.

ایک شخص کابٹواکھوکیا،وہ صبح سے شام تک اس کی تلاش میں سرگدان رہا مغرب کے وقت نماز کے دران سے یاد آیا کہ بٹوا اس نے فلاں جگہ رکھا تھا چنانچہ سلام کے فوراً بعد اس نے نوکر کو بلاکر اس جگہ سے بٹوالانے کا حکم دیا .غلام نے عرض کیا حضورآپ نماز پڑھ رہے تھے یابٹواڈنڈرہے تھے.

یاد رکھئے کہ دل میں نور کی آمد کوروکنے والی چار چیزیں ہیں:

جب تک ہم ان سے نہیں بچیں گے دل پرتاریکی کاغلبہ رہے گا سب سے پہلی چیزجس کا دورکرنالازمی ہے،نجاست بدنی ہے.دوسری خداکی نافرمانی ،تیسری شراور وسوسہ شیطانی اور چوتھی چیز جس سے احتراز ضروری ہے،اخلاق رذیلہ ہیں جو انسان کو حیوان جیسا بنادیتے ہیں اور جب تک دلی اخلاقی رذیلہ میں گرفتار رہے گا.استعاذہ کی حقیقت سے بے بہرہ رہے گا.

ایسا انسان موت کےوقت بھی شیطان ہی کے تصرف میں اور اللہ تعاليٰ سے دور ہوتاہے حدیث شریف میں آیاہے:“یحشرالناس علی نیاتہم”انسان اپنی نیتوں پر محشور ہوں گے،کیونکہ اللہ تعاليٰ ظاہر کو نہیں دیکھتا بلکہ باطن اور نیت کو دیکھتاہے چنانچہ ارشاد فرمایاگیاہے:( ان لله ینظر الی قلوبکم لاالی صورکم ) اللہ تعاليٰ تمہارے دلوں کو دیکھتاہے ،تمہارے چہروں کو نہیں دیکھتا.

مومت کی یاد حقیقت نماہے:

نہج البلاغہ میں جناب امیرالمؤمنینعليه‌السلام کے بہت کم خطبے ایسے ہیں جن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ موجود نہیں. آپ کا ارشاد ہے:“موت کو مت بھولو کیونکہ یہ قلب وروح کے امراض کاسب سم بڑا علاج ہے جو شخص اس حقیقت کو ہمیشہ نظر میں رکھتاہے یوں سمجھو کہ اپنی ہدایت واصلاح کادروازہ اس نے کھول لیاہے”.

دن کے کام کاج کے بعد جب شام کو گھر جاؤ تویہ یادر کھو کہ عین ممکن ہے کہ صبح تمہارا جنازہ اس گھر سے برآمدہو اور صبح کے وقت جب رزق کی تلاش میں گھر سے نکلو تو اس امکان کونظر انداز نہ کرو کہ گھر میں واپسی نصیب نہ ہوگی.

اگر انسان اس انداز فکر کو خود میں راسخ کرلے تو رفتہ رفتہ حسد،بخ ،حرص،نفاق،کینہ،وساس شیطانی ،غفلت وغیرہ جیسی بے وقعت اور فضول چیزوں سے نجات پالیتاہے.

مجھےجب معلوم ہی نہیں کہ کل تک میں زندہ بھی رہوں گا یا نہیں تو پھر میں حرص کیوں کر کروں اور خواہ مخواہ اپنی بے اعتدالیوں سے دوسروں کو ناراض کیوں کروں.

شہدکے گرد مکھیاں:

ایک دوسری مثال ملاحظہ فرمائیے:آپ نے بارہا دیکھا ہے کہ کڑے مکوڑے اور مکھیاں کس طرح مٹھاس اور چکنائی کے گرد موجود رہتے ہیں .کتنا ہی آپ چکھوں سے انہیں اڑائیں اور دور کریں وہ دور نہیں ہوں گے انہیں دفع کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ شرینی اور چربی وغیرہ کو اٹھا لیں تاکہ یہ حشرات مایوس ہوکر خودبخود وہاں سے چلے جائیں یا پھر آپ کے ہلکے سے اشارے سے وہ جگہ چھوڑدیں.

اے مومن اپنے دل کو جملہ کشافتوں سے پاک کرتاکہ شیاطین ترے ایک ہی استعاذے سے اس سے دور ہوجائیں سیدسجاد جناب امام زین العابدینعليه‌السلام دعائے حزین میں جسے آپ نماز شب کے بعد قرائت فرماتے (حاشیہ مفاتیح الجنان۷۷۲ )اللہ تعاليٰ کے حضور یوں عرض گذار ہیں :“فیاغوثاہ ثم واغوثاہ یا اللہ من ہوی قد غلبنی ومن کعدو قد استکلب علی”پرورددگا!میری مدد فرما شیطان میرے دل پر حملہ آور ہے.جب مومن کےدل میں شیطان کی خوراک بننے والی کوئی چیزہے ہی نہیں تو اگر وہ اہل ذکرت ہے تو اللہ تعاليٰ اس کے ایک ہی استعاذے سے شیطان لعین کو دفع فرمادے گا.

شیطان توبہ میں بڑی رکاوٹ ہے:

روایت ہے کہ جب ایہ( وَ الَّذِینَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِم...‏ ) گناہ کا ارتکاب کرکے بعد میں توبہ کرنے والوں کو اللہ تعاليٰ معاف فرمادیتاہے ،نازل ہوئی شیطان چخیا اس کے چلیے اس کے گرد اکٹھے ہوگئے اور پوچھنے لگے: کیاہوا کیوں چیخ رہے ہو؟تو اس ملعون ازلی نے جواب دیا:

کیونکہ رنرچیخوں ہم اتنی زحمت اور کوشش سے انسان سے گناہ کراواتے ہیں اور وہ توبہ کرکے ہماری تمام محنتوں پر پانی پھیردیتاہے.

ہر شیطان نے اس بارے میں اپنی رائم دی لیکن کوئی بھی رائے تسلی بخش ثابت نہ ہوئی خناس نے کہا:اس کا صرف ایک راستہ ہے کہ انسان کو درتوبہ تک نہ پہنچنےت دیں اور اسے اس کی توفیق سے محروم رکھیں.

ابلیس بولا:ٹھیک ہے ،تیری رائے بالکل صحیح ہے یقیناً اس کا اگر کوئی علاج ہے تو صرف یہی ہے.

امام سجادعليه‌السلام کا اسوہ:

آپعليه‌السلام اللہ تعاليٰ کے حضور یوں فریاد کرتےہیں:“ومن عدو قداستکلب علی”خداوندا مجھے اس دشمن سے اپنی پناہ میں رکھنا جومیری ہلاکت کے درپے ہے.

“یاعون کل ضعیف” اے ہردرماندہ وبے چارہ کےمدگار!میں بے چارہ اور بے بس ہوں میری مددفرما.ایک طرف سے یہ کتامجھ پر حملہ اور ہے اور دوسری طرف سے دنیا اپنی تمام تر آرائشوں ،نیرنگیوں اور فریب کاریوں سے رجھارہی ہے جبکہ میرے قلب وباطن پرہوی ٰوہوس کاغلبہ ہے.“واغوثاہ من ہوی قد غلبنی”میں تجھ سے اس کے خلاف مددکار طالب ہوں.

زمان غیبت میں دعائے غریق:

جناب امام جعفرصادقعليه‌السلام جب حضرت قائم آل محمدعليه‌السلام کے زمانہ غیبت کی خبرد یتے ہوئے فرماتے ہیں:“ اس پرفتنہ زمانے کے مفاسد اتنے شدید اور عام ہوں گے کہ حالت ایمان میں مرنے والے پر فرشتے تعجب کریں گے”.

روای نے عرض کیا کہ اس عہد پرفتن کے لوگوں کو کیا کرنا چاہئے؟توآپعليه‌السلام نے فرمایا:“انہیں چاہئے کہ دعائے غریق پڑھا کریں:“یااللہ یارحمن یارحیم یامقلب القول ثبت قلبی علی دینک”اے رحمان ورحیم اے‌دلوں کوہدایت دینے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ.

انسان کو چاہئے کہ خود کو واقعی بے بس اور بے چارہ سمجھےبالخصوص اس عہد میں جبکہ شیاطین دندناتے پھررہے یہں کوئی دل ان کا شکار ہونے سے بچاہوا نہیں پروردگار توہمارے دلوں کو شرشیاطین سے اپنے حفظ وامان میں رکھ.

مجلس۱۰

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

شب گذشتہ کےعروضات سے یہ ثابت ہوگیا کہ استعاذہ کارکن اعظم تقويٰ ہے اور اگر کوئی شخص شیطان کی مخالفت اور رحمان کی مطابعت کی توفیق سے محروم ہے تووہ دام شیطان میں گرفتار ہے اور اس کا استعاذہ بے معنی ہے.

استعاذہ کیوں؟:

یہاں یہ پوچھا جاسکتاہے کہ تقويٰ کی موجودگی میں استعاذہ کی کیا ضرورت ہے.اگر ایک شخص گناہ ہی نہیں کرتااورت اس سے کوئی خطا سرزدہی نہیں ہوتی تو پھر شرشیطان سے اللہ تعاليٰ کی پناہ طلب کرنے کی کیا ضرورت ہے.

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال ہی الٹاہے کیونکہ استعاذہ ہے ہی اہل تقويٰ کے لئے جوشخص اہل تقويٰ ہوگا ہمیشہ اللہ تعاليٰ کی بارگاہ سے پناہ کا طالب رہے گا کہ مباداشیطان اس کےدل و ضمیر پر غلبہ پالے کیونکہ اگر شیطان اس کے دل میں موجود ہے تو اس کے تمام افعال وحرکات کی انگیخت سے عمل میں آئیں گے.

اور وہ شخص جس کے دل پر شیطان کا تصرف نہیں اور جواللہ تعاليٰ سے لولگا ئے ہوئے ہے اس پر لازم ہے کہ شیاطین کے وسوسوںت سے اللہ تعاليٰ کی پناہ طلب کرے کیونکہ ان کی دست بردے کوئی شخص محفوظ نہیں اوروہ ہر وقت گھات میں رہتے ہیں کہ موقعہ ملے اور دل پر حملہ آور ہوکر اس پر قبضہ جمالیں.مومن کو محتاط رہنا چاہنا چاہئے کہ مبادا وہ اچانک اس کے دل پر قابو پالین اگر وہ ایک لحظہ کے لئے بھی غافل ہوا تو عین ممکن ہے کہ یہ موذی اور طاقتور دشمن اسی لحظہ میں اس کے دل پر قابض ہوجائے.

کارہائے خیررہنمائے شر:

شیطان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح مومن کے دل میں راہ پالے روایت میں آیاہے کہ مومن متقی ننانوے بار شیطان کو زک دیکر خیر کی توفیق سے ہمکنار ہوکر دسوویں بار بھی اس کے شرمیں مبتلا ہوسکتاہے او رعین ممکن ہے کہ ان ننانوے کارہائے خیر کی انگیخت بھی اسی کی ہو اور اسی نے اس کے سامنے ان کی راہ کھولی ہوتا کہ دسوویں بارا سے کسی ہلاکت خیر شرمیں مبتلا کرکے اس کا کیا کرایا خاک میں ملادے در اصل خیرا ور شرمیں فاصلہ اتنا تھوڑاہے کہ بے بصیرت انسان کو وہ نظر ہی آتا.اسی لئے امامعليه‌السلام اللہ تعاليٰ کے حضور اپنی دعامیں عرض کرتے ہیں“َ هَبْ لِی‏بَصِیرَةً فِی دِینِی‏”پروردگار مجھے دین میں بصیرت عطا فرما ،تاکہ کارخیر کی انجام دہی کےدوران شیطان مجھے وسوسہ میں مبتلا کرکے شرمیں نہ دھکیل دے.

شربراہ خیر:

کسی کے عزیزوں کے ہاں کوئی محفل برپا ہے شیطان اسے ترغیب دیتاہے کہ صلہ رحم ایک کارخیر ہے تمہیں چاہئے کہ وہاں ضرور پہنچولیکن جب وہ شخص وہاں پہنچتاہے تو دیکھتاہے کہ زن و مرد یکجا ہیں محفل رقص و سرورجمی ہے،شراب کا دور چل رہاہے...اس کاذہن اس صورت حال کو پسند نہیں کرتا اس کی عقل کہتی ہے یہاں سے فوراً اٹھ چل ایسی محفلوں میں شرکت حرام ہے“لیکن شیطان کہتاہے” ان کی رونق خراب ہوگی،وہ ناراض ہوں گے او رتمہارا یہ اقدام قطع رحم کے مترادف ہوگا...

خیر کی راہ سے وہ انسان کو شرکی منزل کی طرف لے جاتا ہے اور آخرکار اسے گناہ کی دلدل میں پھنسادیتاہے.

ترک واجب کے لئے مستحبات کی ترغیب:

بعض اوقات شیطان انسان کو مستحب عمل پر اکساتاہے تاکہ اسے فعل واجب سے بازرکھے مثلاً وہ اس کے دل میں ڈالتاہے کہ زیارت حضرت امام رضاعليه‌السلام بڑے ثواب کاکام ہے اور اتنے اصرا ر کے ساتھ اس مستحب عمل پر اسے اکساتاہے کہ وہ ماں باپ یابال بچوں کے نفقہ کی جو اس پر واجب ہے ،پروانہ کرتے ہوئے زیارت شریف کو چلاجاتاہے.

یا ایسے فعل واجب پر وہ آپ کو اکسائے گا کہ اہم ترواجب آپ سے فوت ہوجائے.

عبادت سے نفرت کی اکساہٹ:

بعض اوقات وہ انسان کو کسی مستحب عمل پر اس اندازسے اکساتاہے کہ اس کے دل میں واجبات سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے مثلاً وہ اس کے دل میں ڈالتاہے کہ کربلا معلی کی زیات کو جاتیرے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور جان ومال کی خیروبرکت او رسعادت دینا وآخرت تجھے حاصل ہوگی اور اگر غیر قانونی طور پر جائے تو ثواب دوگنا ملے بس اب دیر نہ کر جناب ابی عبداللہ الحسینعليه‌السلام کی زیارت کو سدھار.

وہ وہاں پہنچ کر جب قانوں کی گرفت میں آکر قیدخانہ مین چلاجاتاہے توپچھتاتاہے کہ کاش میرے پاؤں ہی ٹوٹ جاتے اور میں یہاں نہ آتا.

دیکھا آپ نے ملعون ازلی نے پہلے تو اس کو فعل مستحب پر اکسایا اور پھر اسے اس عظیم عبادت سے متنفر کردیا.

پروردگار دین میں بصیرت عطافرما:

استعاذہ سے اہل تقويٰ کو کوئی چارہ نہیں.وہ شیطان کے تصرفات سے ہمیشہ ترساں رہتے ہیں کیونکہ وہ انہیں عبادت الہی سے منحرف کرتاہے اللہ تعاليٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطافرما ئے کہ جوبظاہر فعل خیر ہم انجام دے رہے ہیں،حقیقت میں شیطانی یا رحمانی .کیونکہ عام طور پر دیکھنے میں آیاہے کہ ایک کام بظاہر بہت اچھا ہو تا ہے لیکن حقیقت میں وہ براہوتاہے.

عبادت کے ذریعے شیطان کی فریب دہی کے امکان کی وضاحت کے لئے ایک روایت پیش کرتاہوں.

شیطان کافضا میں قیام نماز:

بحارالانوار میں اصول کافی سے جناب امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ زمانہ سلف میں ایک شخص ہر وقت اللہ تعاليٰ کی عبادت میں مصروف رہتاتھا اور اس کے انہماک کا یہ عالم تھا کہ شیطان اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود اس کی توجہ میں خلل ڈالنے سے عاجز رہا ناکامی سے زچ ہو کر اس نے اپنے چلیون کو اپنے گرد اکٹھا کیا اور کہنے لگا:

میں اپنی انتہا ئی کوششوں کے باوجود اس عابد کو ورغلانے میں ناکام رہا ہوں کیا تم میں سے کسی کے پاس اس کی شکست کی کوئی سبیل ہے؟ایک کہنے لگا:

میں وسوسہ اندازی سے اس میں زناکی خواہش پیدا کروں گا.

شیطان نے جوا ب دیا.

اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عورت کی خواہش اس میں ختم ہوچکی ہے.

دوسرا بولا:

اس کو لذیذکھانوں کے‌زریعے فریب دونگا کہ حرامخوری اور شراب نوشی سے ہلاک ہو.

اس نے کہا :اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اتنے سالوں کی عبادت کے بعد کھانے کی خواہش بھی اس کے دل سم رخصت ہوچکی ہے.

تیسرے نے کہا: عبادت ہی کی راہ سے کہ جس کاوہ راہی ہے میں اس کو فریب دے سکتاہوں.

شیطان نے جواب دیا:ہاں اگر تقدس کی راہ سے کچھ کرے تو کامیابی ممکن ہے.

بہر حال اس شوريٰ کانتیجہ یہ ہوا کہ وہی شیطان اس کام پر مامور ہوا(اکثر عبادت گذاروں کے بارے میں یہ مثال صادق آتی ہے)اس نے انسان کی شکل اختیار کی اور اس عبادت گذار کے سامنے زمین وآسمان کے درمیان فضامیں مصليٰ بچھا لیا اور نماز مشغول ہوگیاعبادت گذارنے دیکھا کہ عجیب انسان ہے کہ عبادت میں اس سے بدرجہابڑھا ہواہے اور فضا میں معلق مصلا پر قیام نماز میں کھڑا ہے اور کسی قسم کی تھکاوٹ یاخستگی محسوس نہیں کرتا.

آخرکار اس کےدل میں آئی کہ کیوں نہ اس کے پاس جاؤں اور اس سے پوچھوں کہ کونسے عمل کی برکت سے تو اس مقام تک پہنچا لیکن شیطان اپنی عبادت میں اتنا منہمک تھا کہ اس نے ذراسی بھی توجہ اس کی طرف نہ کی اور جونہی سلام نماز سے فارغ ہوتا فوراً دوسری نماز کی نیت کرکے اس میں مشغول ہوجاتا.

زچ ہوکر عابد نے اسے قسم دی کہ میرے صرف ایک سوال کاجواب دے دے شیطان نے نماز سے توقف کیا عابد نے پوچھا وہ کونسا عظیم کام تونے کیا ہے کہ جس کی دولت اس بلند مقام پر فائز ہے.

اس نے جواب دیا میں اس مقام تک ایک گناہ کے ذریعے سے پہنچا ہوں میں نے اس کا ارتکاب کرکے بعد میں توبہ کی اور اب ہر وقت اپنے کئے ہوئے گناہ کے لئے توبہ میں مصروف ہون اور روزبروز عبادت میں قوی ترہورہاہوں.اور تیری بھی بہتری (اگر تو اس مقامت کو حاصل کرنا چاہتاہے تو)اسی میں دیکھتاہوں کہ زناکا ارتکاب کر اور پھر میری طرح توبہ کراور عبادت میں مشغول ہوجاتا کہ اس مقام تک پہنچ سکے.

عابد نے کہا میں کیسے زنا کرسکتاہوں جبکہ میں اس کام سے واقف ہی نہیں اور نہ ہیں میرے پاس مال دنیا ہے.

شیطان نے اسے دودرہم دئے اور ایک فاحشہ عورت کے گھر کاپتہ دے دیا.

عابد پہاڑسے اترا اور شہر میں داخل ہوا او رلوگوں سے اس فاحشہ کے گھر کا پتہ پوچھنے لگا لوگوں نے سمجھا کہ فاحشہ کے پاس جاکراسے وعظ ونصیحت کرناچاہتاہے .فاحشہ کے پاس پہنچ کر اس نے پیسے پیش کئے اور اسے اس فعل حرام کا تقاضا کیا.

یہاں اللہ کی توفیق اس کی مدد کوآئی اور اس نے فاحشہ کے دل کو اس کی ہددات پر آمادہ کیا.

اس عورت نے دیکھا کہ اس شخص کے چہرے پرزہدوتقويٰ کا نور برس برہاہے اور وہ ایسی جگہوں پرآنے کاعادی نہیں لگتا.

اس سے پوچھنے لگی کہ تویہان کیسے آگیا ہے اسنے کہا تجھے اس سے کی مطلب ہے تو اپنی اجرت لے اور اپنا آپ کو میرے حوالے کر.

عورت نے کہا جب تک تجھ سے حقیقت دریافت نہ کرلوں گی،ہرگزراضی نہیں ہوں گی.آخر کارمجبور ہوکر عابدنے پوری صورت احوال اس کم گوش گذار کردی .فاحشہ نے کہا ے زاہد اگرچہ اس میں میرا نقصان ہی ہے لیکن خوب سمجھ لے کہ تجھے مجھ تک پہنچانے والا صرف شیطان ملعون ہے.

عابد نے کہا تو غلط کہتی ہے کیونکہ اس نے میرے ساتھ وعدہ کی ہے کہ میں اس فعل کے ارتکاب سے اس کے مقام تک پہنچ جاؤں گا.

عورت نے کہا اے عابد ہوش کے ناخوں لے تجھے کیسے یقین ہے کہ زنا کے بعد تجھے توبہ کی توفیق ملیگی یاتیری توبہ قبول ہی ہوجائیگی علاوہ از ین کپڑاسالم اچھا ہے یا پھاڑکر سیاہوا،یقین کر ہ توشیطان کم بہکاوےمیں آگیاہے.

لیکن جب عابد کو پھر بھی سمجھ نہ آئی تو فاحشہ نے اس سے کہا،اچھا میں تیارہوں لیکن تو ایک دفعہ واپس جااگر وہ شخص تجھے ویساہی عبادت میں مشغول ملاتوواپس آجانا میں تیری منتظرہوں گی اور اگروہ وہاں موجود نہ ہوا تویقین کرلینا کہ وہ شیطان ملعون تھا.چور جب پہچانا جائے تو فرار کرجاتاہے جب مومن شیطانی وسوسے کا ادراک کرلیتاہے توہلاکت سے بچ جاتاہے

جب عابد واپس آیاتو اس نے دیکھا کہ وہاں کوئی نہیں ہے پس اسے معلوم ہوگیا کہ شیطان ملعون اسے اپنے دام فریب میں الجھاکر ہلاک کرناچاہتاتھا.

چنانچہ اس نے اس فاحشہ کے لئے دعاکی .روایت میں آیاہے کہ جب اپنی زندگی کی آخری رات میں فاحشہ نے انتقال کیاتو صبح کے وقت اس زمانے کے پیغمبر کووحی ہوئی کہ اس کے جنازے میں شرکت کریں پیغمبر نے عرض کی پروردگار وہ تو ایک مشہور فاحشہ تھی جواب ملاہاں لیکن اس نے ہماری بارگاہ سے بھاگے ہوئے ہمارے ایک بندے کو واپس ہمارے دروازے تک پہنچایااور اس کی نجات کا سبب بنی ہے.

وعظ ونصیحت بڑی قیمتی شے ہے ہر ممکن کوشش کریں کہ گناہ گار گناہ سے باز رہے.اسے توبہ کی ترغیب دی اللہ تعاليٰ جزائے خیردے گا اور آپ کو بھی پاک کردے گا.

بڑی حیرانی کامقام ہے .اگر ہم شیطان ملعون کےوسوسوں اور فریبوں اور اپنی اخلاقی کمزوریوں کو دیکھیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا انجام کیاہوگا کیااپنی جان ہی بچاکر اس کے حضور میں پہچ سکیں گے یانہیں بس اس کا فضل وکرم شامل حال ہو تو امید ہے‌کہ نجات ہوجائے “یاراحم کل ضعیف”اے ہرکزور پر رحم فرمانے والے.ہم پر رحم فرما اور اپنی توفیق سے ہمیں محروم نہ رکھ.

إِذَا رَأَيْتُ مَوْلَايَ ذُنُوبِی فَزِعْتُ وَ إِذَا رَأَيْتُ كَرْمَک‏طَمِعْت‏”

پروردگار اپنے گناہوں کو دیکھ کر مجھے ڈرلگتاہے لیکن جب ترے کرم عمیم دیکھتاہوں تو مجھے ڈھارس ہوتی ہے.