استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 40246
ڈاؤنلوڈ: 3488

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40246 / ڈاؤنلوڈ: 3488
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس۱۱

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

شیطان محرک افعال:

گفتگو کاموضوع استعاذہ تھا کہ استعاذہ اہل تقويٰ کاخاصہ ہے ورنہ جولوگ پرہیزگار نہیں ہیں،شیطان خود ان کے وجود میں متمکن ہے اور ان کی جملہ حرکات وسکنات اسی کی انگیخت پرہوتی ہیں وہ کس سے فرار کریں گے اور کس سے اللہ تعاليٰ کی پناہ جائیں گے شیطان سے فرار تو وہی چاہے گا جو اہل تقويٰ ہوکر جونہی شیطان اس کےدل سے قریب ہوتاہے،وہ فوراًذکر خدامیں مصروف ہوکر اس ملعون کی وسوسہ اندازی پر مطلع ہوجاتاہے اور استعاذہ کی قوت سے اسے فرار پر مجبور کردیتاہے.

اہل تقويٰ ہمیشہ محتاط ہوتے ہیں کہ ان سے حرام سزد نہ ہو او رکوئی واجب ان سے فوت نہ ہو اگر شیطانی گروہ کا کوئی فرد ان کے دل سے نزدیک ہوتاہے تو انہیں فوراً خبرہوجاتی ہے اور وہ استعاذہ میں مصروف ہوجاتے ہیں اور جب شیطان دیکھتاہے کہ یہان اس کی خیر نہیں تو بھاگ جاتاہے.

اہل تقويٰ جب ذکر خدا میں مشغول ہوتے ہیں تو اپنے نور بصیرت ومعرفت سے دام ابلیس کو دیکھ لیتے ہیں.

میری عرض یہاں لفظ “مبصرون” سے ہے یعنی اہل تقويٰ ذکر خداسے بصیرت حاصل کرکے دام ابلیس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور جب اسےاپنی شامت نظر آتی ہے تووہ وہاں سے نودوگیارہ ہوجاتاہے.یہ بہت مبارک بات ہے کہ مومن شیطانی وسوسوں کے بارے میں صاحب بصیرت ہو خواہ وہ وسوسے عقائد کے ضمن میں ہوں یا اخلاقیات یاعبادات کے ضمن میں.

انبیاءعليه‌السلام سے بھی باز نہیں آتا:

کچھ وسوسے اس کے اعتقادی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اس باب میں وہ انبیاء کے دلوں میں بھی وسوسہ اندازی سے نہیں چوکتا.

روایت ہے کہ شیطان جناب عیسيٰعليه‌السلام پر ظاہر ہوا جبکہ آنحضرت ایک پہاڑکی چوٹی پر کھڑے تھے اس نے آپعليه‌السلام سے مخاطب ہوکر کہاائے روح اللہ اگر آپ اس پہاڑ پرسے نیچے گرجائیں تو کیا آپ کی جان بچاسکتاہے آپ نے فرمایا:ہاں میں اپنی بصیرت ومعرفت کی بناء پر پورے یقین سے کہہ سکتاہوں کہ وہ مجھے ضرور بچاسکتاہے. کہنے لگا اگر آپ کا کہنا درست ہے تو آپ کو گرادیجئے تاکہ وہ آپ کو بچالے.

عیسيٰ سمجھ گئے کہ اس ملعون کا کام ہی مغالطہ کاری اور وسوسہ انداز ہے لہذا جوا ب میں‌فرمایا: اسے ملعون تو یہ چاہتاہے کہ میں اللہ تعاليٰ کا امتحان کروں یہ تولفظ ہی غلط اور شیطانی ہے.جب میراایمان ہے کہ وہ ذات قدیر یقیناً مجھے بچاسکتی تو اس آزمائش کی غرض سے کہ آیا یہ ممکن ہے یا نہیں تو چاہتاہے کہ میں اپنے آپ کو گرادوں؟.

علاوہ از ین میرے خالق نے مجھے اس کام سے نہی فرمائی ہے کیونکہ خودکشی فعل حرام ہے.ہاں اگر توبے اختیار گرجائے اور اللہ تعاليٰ کی مشيّت یہ ہو کہ توبچ جائے توہ تجھے بچانے پر قادر ہے.

حضرت مسیحعليه‌السلام کی شیطان لعین سے گفتگو:

روایت ہے کہ ایک دفعہ شیطان نے حضرت عیسيٰعليه‌السلام سے کہا:اے روح اللہ آپ ہی خدائے محی وممیت ہیں.آپ ہی خدائے علیم وخیبر ہیں...جناب عیسيٰعليه‌السلام نے فوراً ڈانٹ دیا کہ ملعون کیابکتاہے میں تو اس کا بنددہ اور غلام ہوں جس کی عاپر وہ ذات اقدس مردوں کو زندہ کرتی ہے.

جب جناب مسیحعليه‌السلام نے اس طرح اس ملعون کے وسوسوں کو ردکیا تووہ فریاد کرتاہوا آپ کے پاس سے بھاگ گیا اس قسم کے اعتقادی وسوسے وہ اہل تقويٰ کے دل میں ڈالتاہے لیکن وہ ذکر الہی کے نورسے سمجھ جاتے ہیں کہ یہ شیطانی وساوس ہیں مثلاًکبھی وہ کسی مومن متقی کے دل میں یہ بات ڈالتاہے کہ فلان آدمی جوان وتوانا ہے،گدا کیسے بن گیا ایسی وسوسہ کاری سے اس کامقصد یہ ہوتاہے کہ حکمت وقضائم الہی کے بارے میں مومن کےدل کو شک میں مبتلا کردے.لیکن ذکر الہيٰ سے شرفیاب مومن اس کے جواب میں کہے گا:استغفراللہ میری کیا مجال کہ حکمت ومشيّت خداوندی میں داخل انداز ہوں.منہ چھوٹا اور بڑی بات !میراایمان ہے کہ اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا.

ابراہیمعليه‌السلام اور شیطان کی وسوسہ اندازی:

اعمال کے بارے میں بھی چونکہ صاحب تقويٰ کی یہ تمناہوتی ہے کہ کاخیر انجام دے شیطان کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ اس سے کوئی نیک کام سزد نہ او راگر ہوجائے تو بعد میں اسے خراب کی کوشش کرتاہے مثلاً یہ کہ فاعل خیر کو تکبر یار یا وغیرہ میں مبتلا کردیتاہے قصہ مختصر یہ کہ یہ ملعون ہرنکی کا دشمن ہے.

مثال کے طور پر پھر ایک مثال اللہ تعاليٰ کے ایک برگزیدہ نبی کی پیش کی جاتی ہے.

آپ نے حضرت ابراہیمعليه‌السلام کے بارے میں سناہوگا کہ جب آپ کو اللہ تعاليٰ کی طرف سے حکم ملاکہ اپنے نوجوان تیرہ سالہ جمال ظاہر وباطنی وار ایمان ومعرفت کے حاصل نورنظر اسماعیل کو منی پر لے جاکر قربان کرو تو شیطان سراسیمہ ہوگیا کیونکہ اسے خوب معلوم تھا کہ اگر ابراہیمعليه‌السلام یہ کام کر گذرے تومقام خلّت پر فائز ہوجائیں گے لیکن کرے تو کیا کرے!

سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا جناب ہاجرہ کےدل میں وسوسہ ڈالا اور ان سے کہا: میں نے ایک سن رسیدہ انسان کو دیکھا ہے کہ ایک لڑکے کو ہمراہ لئے جارہاتھا آپ کاوہ کیا لگتاہے؟ہاجرہ نے فرمایاوہ میرے شوہر ہے کہنے لگا آپ جانتی ہیں کہ ان کا ارادہ کیا ہے وہ آپ کے بچے کاسرکاٹیں گے جناب ہاجرہ نے فرمایا:ابراہیمعليه‌السلام نے کبھی کسی دشمن کوبھی تکلیف نہیں پہنچائی ،بھلا اپنے ہی بیٹے کاسروہ کیوں کاٹنے لگا .ابلیس نے کہاان کاخیال ہے کہ انہیں اللہ تعاليٰ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے یہ عظیم خاتون نے فوراً سمجھ گیئں کہ یہ شیطان ہے اور انہیں وسوسے میں مبتلا کررہاہے فرمانے لگیں ملعون دور ہو اگر اللہ کا حکم ہے تو سب ٹھیک ہے.

ابلیس ایمان کی آزمایش:

ابلیس کی خلقت کا مقصد اس امر کا امتحان ہے کہ اللہ تعاليٰ اور روزجزاء پر ایمان میں کون ثابت قدم ہے اور کون کشمکش اور تذبذب کاشکار.چنانچہ واضح طور پر کلام پاک میں ارشادہے:( وَ ما کانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُلْطانٍ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْها فِی شَک‏ ) اور شیطان کو ان پر اختیار حاصل نہ ہوتا مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہے

اگرچہ جنبا ہاجرہ عورت ہیں لیکن ان کے ایمان کی پختگی اور ضبط نفس کا یہ عالم ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو جوجمال ظاہری حسن باطن اور مکارم اخلاق کے اعليٰ مقام پر فائز ہے ،اللہ تعاليٰ کے نام پر قربان کرنے کے لئم بلاتوقف وتذبذب راضی ہوجاتی ہیں اور امرخدا کے سامنے اپنی ماتا کو ایک بے حقیت چیزسمجھ نظرانداز کردیتی ہے.

حضرت ابراہیمعليه‌السلام پر شیطان کی وسوسہ اندازی:

اس کے بع ابراہیمعليه‌السلام کے پاس آیا اور کہنے گلا آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟آپ نے فرمایا:اسماعلی کو قربان کرونگا شیطان کہنے لگا اس نے کوئی جرم توکیا نہیں ابراہیمعليه‌السلام نے جواب دیا : اللہ کا حکمت ہے.شیطان نے کہا: اگرآپ اسے قتل کریں گے تو کیا خدا کی خوشنودی کے حصول کی غرض سے آپ کا یہ عمل دوسرں کے لئے سنت قرار نہیں پاجائے گا؛ابراہیمعليه‌السلام نے پھر اپنا جواب دہرایا کہ خداکا حکم یہی ہے.شیطان بولا گیا یہ ممکن نہیں کہ یہ امر خداوندی نہ ہو اس پر حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے اس ملعون کو پتھر مارا اور اسی مناسبت پر دوران حج رمی جمرات سنت قرار پائی.

یہ چند مثالیں ہیں شیطان کی وسوسہ اندازی کی مومن کو چاہئے کہ ذکر خدا میں مصروف رہے تاکہ اس کے وساوس اس پر اثر انداز ہوسکیں بالخصوص خداکی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں تو اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ یہ فعل محل میں نہ آئے پھر یہ ملعون ازلی اسماعیلعليه‌السلام کی طرف متوجہ ہوا جو اپنے والد محترم کے پیچھے پیچھے جارہے تھے اور کہنے لگا صاحبزادے!جانتے ہو کہ تمہارے والد تمہیں کہاں لے جارہے ہیں اسماعیلعليه‌السلام نے فرمایا:نہیں کہنےت لگا ان کا ارادہ ہے تمہیں ذبح کرنے کا ہے اسماعیلعليه‌السلام نے پوچھا وہ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں شیطان نے کہا ان کا کہناہے کہ یہ خدا کا حکم ہےت حضرت اسماعیلعليه‌السلام نے جواب دیا اگر خدا کا حکمت ہے تو میری جان اس پر فدا ہے لیکن اس کے باجود جب شیطان وسوسہ اندازی پر مصر رہا تو جناب اسماعیلعليه‌السلام نے فرمایا کہ باباجان یہ دیکھئے کون ہے جومیرے پیچھے پڑاہواہے آپعليه‌السلام نے فرمایا شیطان ہے اسماعیلعليه‌السلام نے بھی اس ملعون پر سنگ باری کی.

کیاہم نے بھی کبھی شیطانت کو دھتکار اہے:

جناب حاجی صاحب آپ نے جو حضرت ابراہیمعليه‌السلام کی اقتداء میں شیطانت پررمی جمرات کیا یہ رمی جمرات صرف مناسک حج میں ہی منحصر نہیں ہوناچاہئے بلکہ آپ کی ساری عمر اسے اپنی لعنت کا نشانہ بنانا چاہئے.

کہااں میں وہ لوگ جوہروسوسہ شیطانی کم موقعہ پر اس پر لعنت کے پتھر برساتے ہیں مردانہ وار اس کے مقابلے میں قائم رہتے ہیں غیظ وغضب کے عالم میں خود کو قابومیں رکھتے ہیں اور فعل حرام کی خواہش کے جوش کے وقت اپنے اپ میں رہتے ہیں.

کبھی ایساہوتاہے کہ انسان کوئی کارخیر انجام دینا چاہتاہے تو شیطان دوسرے انداز سے کہتاہے فلان کام اس سےبدر جہابہتر ہے وہ شخص تردد میں متبلا ہوجاتاہے اور دونوںت میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتا اور فعل خیرسے بھی محروم ہوجاتاہے

عظیم ترکون؟:

روایت ہے کہ جب دونوں باپ بیٹے نے امر الہيٰ کی تعمیل کے لئے مستعد ہوئے باپ بیٹے کو قربان کرنے کے لئے اوربیٹا خداکی راہ میں قربان ہونے کے لئے اور بوڑھے‌باپ نے بیٹے کے جوان چہر کو خاک پر اور تیز چھری کو اس کے گلے پر رکھا تو ملائکہت حیران ہوگئے اورآپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے باپ بیٹے سے عظیم ترہے یابیٹا باپ سے؛باپ عظیم ترہے جواپنی زندگی کے ثمر کو اس طرح قربان کررہاہے یابیٹا جوعنفوان شباب میں اپنی عزیز جان خدا کے حضور پیش کررہاہے.

دونوں اپنے امتحان میں کامیاب ہوئے لیکن( وَ فَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِیم‏ ) اللہ تعاليٰ کی تقدیر یہ تھی کہ اسماعیل ذبح نہ ہو.

اے مومنت !حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے فرزند کی قربانی آمادہ ہوگے،اسماعیلعليه‌السلام نے راہ خدا میں اپنی عزیزجان سے صرف نظر کردیا تو صرف اجنبی عورت کے جسم کو چھونے،نظر حرام اور لقمہ حرام ہی سے صرف نظر کرلے روحانی مقام اور الہيٰ درجات مفت نہیں ملتے.

رنج و محن بغیر نہ گنج گراں ملے

یہ میری اور آپ کی مرضی پر منحصر نہیں ہے کہ بدکارانسان جزا کا حقدار ہوجائے( لَيْسَ بِأَمانِيِّكُمْ وَ لا أَمانِيِّ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِه‏ ) کوئی کام نہ تمہاری امیدوں سے بنے گا نہ اہلِ کتاب کی امیدوں سے- جو بھی کام کرے گا اس کی سزا بہرحال ملے گی.

خداکے نیک بندوں کے مقام اور ہمنشینی انبیاء مقربین کو پانےت کے لئے عمل مجاہدہ نفس اور نفس امارہ پر پورے قابوکی ضرورت ہے.

گریہ ابراہیمعليه‌السلام :

روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے دیکھا کہ چھری کاٹ نہیں رہی اور پھر جب معلوم ہوا کہ قربانی کا حکم منسوخ ہوگیا ہے تو انہیں بہت افسوس ہوا اور ان پرگریہ طاری ہوگیا جبرئیلعليه‌السلام نازل ہوئے اور انہوں نے پوچھا آپ کیوں گریہ کررہے ہیں؛آپ نے جواب دیا معلوم ہوتاہے کہ میں اس قابل نہ تھا کی میری قربانی بارگاہ ایزدی میں قبول ہو جبرئیلعليه‌السلام نے کہا :آپ نے امتحان کی ساری شرطین پور ی کردیں اوراس میں خوب کامیاب ہوئے پھر اس مقصد کے لئے آپ کے دل پر رقت طاری ہو اور بیٹے کے ذبح ہونے کا اجر آپ کو ملے ،جبرئیلعليه‌السلام نے آپ کے سامنے مصائب سیدالشہدا امام حسینعليه‌السلام بیان کئے.

مجلس۱۲

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

اس آیہ شریفہ میں حقیقت استعاذہ:

اگر اس آیہ شریفہ میں جوہماری بحث کاعنوان ہے،غور کیاجائے اور اس میں مذکورہ حقائق میں فکر کی جائے تو معلوم ہوگا یہی آیت حقیقت استعاذہ کی پورے طور سے آئینہ دار ہے.

وہ لوگ جنہوں نے‌ہوس پرستی چھوڑ کر خدا پرستی اختیار کی وہ گویا شیطان کے‌گھر سے نکل کر حریم خداونددی میں پہنچ گئے .وہ لوگ جن کے دلوں میں شیطان کابسیرانہیں ہے،جب بھی شیطان ان کے دل پر حملہ آور ہونے کے لئے ان کے گرد گھومتاہے تووہ ذکر خدا میں مشغول ہوجاتے ہیں جس سے ان کے دل میں روشنی آجاتی ہے اور وہ اس کی وسوسہ اندازی پر مطلع ہوکر استعاذہ کی قوت سے اسے بھگادیتے ہیں.

دعائے حضرت امام سجادعليه‌السلام :

حضرت زین العابدینعليه‌السلام صحیفہ سجادیہ میں اللہ تعاليٰ کے حضور یوں عرض گذار ہیں:

وَ إِذَا هَمَمْنَا بِهَمَّيْنِ يُرْضِیكَ أَحَدُهُمَا عَنَّا، وَ يُسْخِطُكَ الْآخَرُ عَلَيْنَا، فَمِلْ بِنَا إِلَى مَا يُرْضِیكَ عَنَّا ”اے پروردگار جس وقت ہمارے سامنے دو مقصد ہوں کہ ایک میں تیری رضا اور دوسرا تیری ناراضگی کاباعث ہو.ایک تیری خوشنودی اور دوسرا تیرے غیظ وغضب کاموجب ہو تو ہمارے دل کو اس کی طرف پھیردے جس میں تیری رضا اور خوشنودی ہو اور اس سے متفرق فرمادے جس سے توناراض اور ناخوش ہو.

جب اللہ تعاليٰ دل کو کس طرف متوجہ کردے تو انسان اپنی سوچ بدل دیتاہے لیکن جب تک ہم تقويٰ کو اپنا شعار نہ بنائیں گے ہمارے دلوں پر شیطان کی حکومت رہے گی ایسی حالت مین ذکر الہيٰ سے ہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا جب دل پر شیطان کا غلبہ و تسلط ہو تو انسان کیسے اپنی راہ عمل متعین کرسکتاہے.

اس مطلب کی وضاحت کے لئے پھر ایک حکایت پیش کرتاہوں.

بتی بجھا نے والاچور:

کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں جب گھروں میں روشنی کے لئے موم یا چربی وغیرہ جلانے کا رواج تھا ایک رات ایک چور کسی گھر میں گھس گیا اور کمرے میں داخل ہو کر چیزیں اکٹھی کرنے لگا.

گھرکے مالک نے پیر کی آہٹ سنی تو اسے چوری کی موجودگی کا شک ہوا بستر پرسے اٹھا او رچراغ جلانے لگا چور کو جب معلوم ہوا کہ مالک بیدار ہوچگا ہے تو اس کے سرہانے کی طرف کھڑا ہواگیا اور جب اس نے چراغ کو دیا سلائی دکھائی تو آہستگی سے پھونک مارکر اسے بجھادیا.

جب اس نے دوبارہ چراغ جلانا چاہاتو چورنے اپنی انکلی لعاب دہن سے ترکرکے اس سے چراغ کی بتی کو گیلا کردیا تاکہت جل ہی نہ سکے.

نادان صاحب خانہ نہ سمجھ سکا کہ کوئی موجود ہے جو یہ حرکت کررہاہے وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہواہے جوچراغ کو روشن نہیں ہونے دیتی آخر کار جب چراغ روشن ہوا اور پیروں کی آہٹ بھی اس کے بعد سنائی نہ دی تو مطمئن ہوکر سوگیا اور چور اپنا کام کرکے رخصت ہوا.

خانہ دل میں چور:

یقین کیجئے کہ عالم باطنی کی بھی یہی صورت ہے اگر شیطان دل میں جاگزین ہوجائے تو انسان کو اس قابل نہیں رہنے دیتاکہ وہ ذکر خدا کرسکے کیونکہ ذکر الہيٰ صرف اہل تقويٰ کا خاصہ ہے اگر تقويٰ نہ ہو تو انسان ہزرا ذکر کرے بصیرت حاصل نہیں کرسکےگا.

آپ نے ملاحظہ نہیں فرکایا کہ جھگڑسے فسادکے دروا ن غیظ و غضب کے عالم میں ذکر خدا کےت باوجود انسان نہیں سمجھتا کہ وہ شیطان کے دام فریب میں جکڑاہواہے اور اس کے قلب وروح پر اس کا تسلط و تصرف ہےت .اس حالت میں کتناہی اس کے لئے اللہ رسول اور ائمہ کا نام لیں،کوئی فائدہ نہ ہوگا شیطان اسے ذکر الہيٰ پر آنے ہی نہیں دے گا کیونکہ وہ صاحب تقويٰ نہیں.

حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے بچئے:

حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاارشاد ہے کہ حق پرہوتے ہوئے بھی اگر کوئی جھگڑے سے بچے گا تومیں اس کے جنت میں اعليٰ مقام کا ضامن ہوں اور اگروہ حق پر نہیں اور جھگڑابھی نہیں کرتا تو جنت کے پست ترین درجہ میں اس کا مقامت ہوگا.

جھگڑے کو ترک کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان ہوس پرست نہ ہو ورنہ شیطان اسے کبھی بچنے دے گا.اور وہ اسی حالت میں مرجائے تو شیطان کےبندوں میں مشہور ہوگا.

نماز کے دوران بھی کیا پتہ ہے کہ انسان کس کے حکم سے حرکات نماز بجالاتا رہا اور کیا معلوم کہ اللہ کے گھر میں شیطان کی انگیخت پر ارکان عبادت نہیں ادا کرتارہا کیا وہ واقعی امر خداوندی سے مسجد میں آیا اگر اللہ ہی کے حکم سے مسجد میں آیا تو خود پرستی کیوں جھگڑے سے بچے گا ہی تو تقويٰ کی کیفیت اس میں پیدا ہوگی اور اس کی بصیرت ونجات کا سبب بنے گی.

ذوالکفل کا پیمان:

حضرت ذوالکفلعليه‌السلام انبیائے سلف میں سے تھے ان کی قبر شریف حلہ کے قریب ہے اور ان کا ذکر کلام پاک الہيٰ میں موجود ہے بحار الانوار میں آپ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یہ روایت بیان کی گئی ہے.

ان سے پہلے ایک پیغمبر تھے جن کانامت یسع تھا ان کا ذکر بھی کلام مجید میں موجود ہے( وَ الْيَسَعَ وَ ذَا الْكِفْل‏ ) جناب ذوالکفل حضرت یسععليه‌السلام کے اصحاب اور حواریوں میں سے تھے اپنی زندگی کے آخر ی ایام میں جناب یسع نے اپنے اصحاب سے کہا: آپ میں سے وہ شخص جو اس عہد پر جو میں‌آپ لوگوں سے کررہاہوں اللہ تعاليٰ کو حاضر ناضر جان کر قائم رہے گا،میرا وصی وجانشین ہوگا.میرا عہد یہ ہے کہ غصے کے وقت اپنے آ پ پر قابور کھؤ اپنے آپے میں رہو اور شیطان کی انگیخت کاشکار نہ ہوجاؤ .جناب ذوالکفل نے پورے یقین و اعتماد سے وعدہ دیا اور دل میں عہد کرلیا کہ کبھی غضب شیطانی میں مبتلا نہ ہونگے یہی وجہ تھی کہ وہ منصب نبوت پر فائز ہوئے اور اس کے بعد پیش آنے والے امتحانات سے بھی بخوبی عہدہ برہوئے.

یہ بھی ملحوظ رہے کہ جتناز یادہ کوئی انسان اپنے عہد پرسختی سے قائم رہتاہے ،شیطان ملعون اتنا ہی زیادہ دباؤ اس پر اس عہد کو توڑنے کے لئے ڈالتا ہے حضرت ذوالکفل نے غضب شیطانیت سے ہر قیمت پر دوررہنے کا عہدت کیا ہوا تھا لہذا شیطان نے بھی اس عہد کو توڑ نے کے لئے بڑی چوٹی کازورلگایا لیکن آپ اس کی ہرکوشش کے سامنے پہاڑکی طرح ثابت قدم رہے.

شیطان مدد طلب کرتاہے:

ایک روز شیطان نے اپنے چیلوں کو پکار جب وہ اس کے گرد اکٹھے ہوگئے تو ان سے کہنے لگا ذو الکفل کے ہاتھوں عاجز ہوگیا ہوں جو کوشش بھی میں انہیں غیظ وغضب میں لاکر ان کے عہد کو توڑ نے کے لئے کرتاہوں ،ناکام ہوجاتی ہے.

ایک شیطان جس کانام ابیض تھا بولا میں ذوالکفل کو غصے میں لاؤں گا شیطان نے اسے اس کام پر مامور کردیا.

جناب ذوالکفل کی یہ خاص عادت تھی کہ رات کوسوتے نہیں تھے اور ساری رات ذکر خدا میں مشغول رہتے تھے دن کو بھی ظہر سے پہلے اپنے اور دوسرے لوگوں کے کاموں میں مصروف رہتے ظہر سم ذراپہلے سوجاتے اور عصر کے وقت بیدار ہوکر پھر خلق خدا کےکاموں میں مصروف ہوجاتے.

شیطان کا دق الباب:

ایک دن جبکہ آپ قبل ظہر سوئے ہوئے تھے اس شیطان نے دروازہ پیٹا دربان نے پوچھا تجھے کیا کام ہے ؟کہنے لگا میری ایک فریاد ہے دربان نے کہا صبح آنا اس وقت وہ سوئے ہیں

شیطان نے چیخ وپکار اور فریاد شروع کردی کہ میں دور رہتاہوں کل نہیں‌آسکتا آخر کار جناب ذوالکفل اس شورسے بیدار ہوگئے اور انہوں نے نہایت ٹھنڈے دل سے اسے کہا اب چلاجا اپنے مدعا علیہ سے کہدے کہ کل آجائے میں بھی پہنچ جاوں گا.

شیطان کہنے لگا وہ نہیں آئے گا آپ نے فرمایا یہ میری انگوٹھی نشانی کے طورپر لے جا اور اسے کہہ کہ ذوالکفل نے تجھے بلایا ہے ا س دن آپ نہیں سوسکے.

شیطان چلاگیا اور دوسرے روزپھر اسی وقت جبکہ حضرت ذوالکفل ابھی سوئے تھے آکر پھر اس نے چیخ وپکالر شروع کردی جناب پھر نیندسے بیدا ہوئے اور بڑی نرمی اور ملامت سے اس کے ساتھ پیش آئے اور اسے مدعا علیہ کے نام ایک چھٹی لکھ دی کہ اسے بلالائے.

ابیض چلاگیا اور اس دن بھی آپ نہ سوسکے اور ساری رات بھی جب معمول عبادت میں مشغول رہے.

شیطان عاجز ہوگیا:

جب کوئی انسان تین دن رات نہ سوئے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا چڑچڑا اوربد مزاج ہوجاتاہے لیکن تیسرے روزبھی شیطان نے عین اسی وقت جناب ذیالکفل کی نیند میں خلل ڈالا اورشور مچانے لگا کہ اس شخص نے آپ کے خط کی بخی کوئی پروانہیں کی اور یہاں آنے سے انکار کردیا .اور پھر آپ کے سامنے بے تحاشا چیخنےلگا کہ آپعليه‌السلام کو غصہ دلائے اور غیظ و غضب میں لائے آخر کار کہنے لگا اگر آپ خود اس وقت میرے ساتھ چلیں تو میراکام ہوسکتاہے

روایت میں ہے کہ اس دن دھوپ اتنی سخت تیز تھی کہ گوشت کاٹکڑا اس میں جل کے کباب ہوجائے .اس نے اتنا شور مچایا کہ کہ آخر کار آپ اس کے ساتھ جانے پر رضامند ہوگئے.

اس جلادینے ولای دھوپ میں جب انہوں نے کچھ راستہ طے کیا توشیطان کو یقین ہوگیا کہ آپعليه‌السلام کو غصہ میں لانا ناممکن ہے.

چنانچہ وہ فریاد زناں وہاں سے فرار ہوگیا.

بے تقويٰ دل میں ذکر الہيٰ کاالٹااثر ہوتاہے:

کبھی ذکر الہيٰ بے تقويٰ دل کی حالت کومزید خراب کردیتاہے اور اس کی بے دینی کو اشکار کردیتاہے.

کیا آپ نے سنا نہیں کہ ملعوں شقی ابن زیاد جب سرمقدس جناب سید الشہداعليه‌السلام کو پکڑ اہواتھا تو سراقدس سے ایک خون کا قطرہ ٹپکا اور اس ملعون کی ران کو چھیدتا ہوا دوسری طرف نکل گیا اس ملعون نے سرکو نیچے رکھ دیا اور ہاتھ میں جو چڑری پکڑی تھی اس سے‌آپعليه‌السلام کے لب ودندان سے گستاخی کرنے لگا.

زیدبن ارقم صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہادت دی کی اے ابن زیاد میں بارہا بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان لب و ندان کو چومتے ہوئے دیکھا ہے اس سے بڑھ کر یاد دہانی اور کیا ہوسکتی ہے لیکن یہ ملعون بجائے اس کے کہ اس گواہی سے نصیحت حاصل کرے ہنے لگا افسوس ہے ہ توبوڑھا ہوچکا ہے ورنہ اسی وقت تیری گردن اڑادیتا اور زیدبن ارقم کو اپنے دربار سے نکا ل دیا.

ابن زیاد ہیں پر منحصر نہیں ہر وہ شخص جودل کاندھا اور بہرا ہوتاہے اس کی یہی کیفیت ہوتی ہے اور اللہ تعاليٰ کے ذکر کی یاد دہانی کی نابینائی اور بہرے پن میں اضافے کا سبب بنتی ہے.

مجلس۱۳

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

تقويٰ مشق سے پیدا ہوتاہے:

جب ہم بچے کو مدرسے میں داخل کرتے ہیں تو پہلے روزنہ وہ کچھ پڑھ سکتاہے اور نہ ہی لکھ سکتاہے بلکہ کام کی ابتداء اس کے لئے سخت مشکل اور مشقت طلب ہوتی ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ پڑھنے لکھنے سے مانوس ہوجاتاہے اور پڑھائی لکھائی اس کی عادت بن جاتی ہے تو پھر اس کے لئے اس میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی.

بالکل یہی حقیقت تقويٰ کی بھی ہے اہل تقويٰ ہونا ترک گناہ پر منحصر ہے.

انسان کو چاہئے کہ وہ باربار گناہ ترک کرے جب بھی گناہ کاموقعہ ملے تو اس کے ارتکاب سے بچے جس طرح بچے کے لئے ابتداء میں لکھنا پڑھنا دشوار ہوتاہے لیکن مشق سےآسان ہوجاتاہے اور اس کی عادت بن جاتی ہے اس طرح اگر انسان پورے عزم وارادہ سے گناہ کوترک کرے اور اس سے ہرممکن کوشش سے اپنے نفس کو بچائے تو رفتہ رفتہ کچھ مدت کی مشق کے بعد اللہ تعاليٰ اس کے دل میں ایک نور روشن فرماتا ہے جس کی وجہ سے ترک گناہ اس کے لئے آسان ہوجاتاہے اور اپنی زبان پر اسے اتنی قدرت حاصل ہوجاتی ہے کہ ساری دنیا کی بادشاہت کے عوض میں بھی وہ جھوٹ کبھی نہ بولے گا.

وہی گناہ جس کا ترک کرنا اس کے لئے جان جوکھم تھا اب اس کاانجام دینا اس کےلئے سخت مشکل ہوجاتاہے انسان کو چاہیئے کہ خودمیں ایسی قوت وقدرت پیدا کرے کہ ہرگناہ کو آسانی تر ک کرسکے اس سے اس کے دل میں اطمینان اور لذت کی کیفیت پیدا ہوگی.

ترک گنہ میں لذت قلبی جسے ملےوہ لذت حیات سے بیگانہ ہوگیا.

یقیناً اللہ تعاليٰ:( وَ لا يَرْضى‏ لِعِبادِهِ الْكُفْر ) اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں فرماتا:( وَ لكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِیمانَ وَ زَيَّنَهُ فِی قُلُوبِكُمْ وَ كَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوقَ وَ الْعِصْیانَ‏ ) لیکن خدا نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے اور کفر, فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دے دیا ہے.

آخر کار گناہگار کو گناہ سے گھن آنے لگتی ہم اور وہ تقويٰ کے اس مقام کو پالیتاہے جہاں گناہ اسے ہرتلخی سے تلخ تراور ہر بدی سم بدتر نظر آنے لگتاہے اور ہر گناہ بلالحاظ شدت وخفت اس کے نزدیک قابل صد نفرین ہوجاتاہے.

تقويٰ کا ملکہ انسان میں بڑی محنت اور مشق سے پیدا ہوتاہے اور اس کے کچھ درجات و مراتب ہیں.

ترک مشتبہات:

جب انسان میں ترک حرام کا ملکہ پیدا ہوجاتاہے تو وہ ایک قدم آگے بڑھتاہےت اور مزید کوشش سے ترک مشتبہات کا ملکہ حاصل کرلیتاہے گویاوہ نہ صرف حرام سے مجتنب رہتاہے بلکہ جس چیز کے حرام ہونے کا شبہ بھی ہو اس سے بھی پرہیز کرتاہے اور احتیاط کرتاہے کہ شاید حرام ہو.

وہ ایسے بھی الفاظ سے پرہیز کرتاہے جن کے بارے میں اسے شبہ ہو کہ اللہ تعاليٰ کی رضا کے خلاف ہیں اور ان سے احتیاط کرتاہے کہ کہیں خلاف واقعہ نہ ہوں اس طرح رفتہ رفتہ اس میں ملکہ ترک مشتبہات راسخ ہوجاتاہے.

ترک مکروہات:

اس کےبعد وہ تقويٰ کے اس مقام کو پالیتاہے جہاں مکروہات بھی ترک ہوجاتے ہیں اور مستحبات کی انجام دہی کا پوراپورا اہتمام ہوتاہے یہاں پہنچ کر وہ مستحب کو غیرواجب سمجھ کراس کی کم اہمیتی کا قابل نہیں رہتا اور یہ نہیں کہتا کہ فلان کام اگر نہ کیا تو کیا حرج ہے مستحب ہی تو ہے !یا یہ کہ فعل مکروہ کا ترک جائز ہی تو واجب نہیں کیونکہ بظاہر تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا ذراباطنی ہی سے کراہت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ منہیات ضروریہ کے ذیل میں نہیں‌آتا .بہرحال مشق اور محنت سے راہ تقويٰ کا سالک ترک مکروہات کے ملکہ کوبھی حاصل کرلیتاہے.

ترک حرام کی غرض سے‌ترک مباح:

بلکہ وہ ایسے مباحات سے بھی مجتنب ہوجاتاہے جن سے اسے اندیشہ ہوتاہے کہ ترک واجبات بن سکتےہیں.

مثلاً آدھی رات تک جاگتے رہنا او رخوش گپیاں کرنا مباح ہے اور اس دوران میں دوتین بار کھانا پینا اور پرخوری بھی شرعا ناجائز نہیں لیکن شکم پری کی حالت میں دیرسے سونا صبح کی نماز کے فوت ہونے کا سبب ہوسکتاہے اور ایک واجب سے محرومی کاباعث بن سکتاہے چنانچہ یہ ملکہ اس میں اتنا طاقتورت ہوجاتاہے کہ وہ ہر اس فعل مباح سے بھی پرہیز کرتاہے جس کےبارے میں اسے اندیشہ ہوکر فوت واجب کاسبب بن سکتاہے.

رمضان کے لئے روزانہ ایک پیسہ:

ایک نابنائی ہمار دوست تھا جو اپنے کام میں بہت سیانا اور کماؤ تھااتفاق سےاس سال روزے گرمیوں میں آئے اس نے پوری ماہ رمضان کام سے چھٹی کی ااس کا کہنا تھا کہ میں تنور کاماہر ہوںت لیکن گرمیوں مین تنور پر بیٹھ کر روزہ نہیں رکھ سکتا.اس مقصد کے لئے میں‌گیارہ مہنے تک ہرورز ایک پیسہ پس انداز کرتا ہوں تاکہ رمضان کا پورا مہینہ کام سے چھٹی کرکے روزہ رکھ سکوں.

اگرچہ ایک پیسہ ہروز خرچ کرنا مباح تھا لیکن با تقويٰ شخص اس مباح کامرتکب نہ ہوا کہ مبادا رمضان کاروزہ اس سے فوت ہوجائے اور وہ فعل واجب اس سے چھوٹ جائے.

ترک واجب کاسبب سفر:

روایت ہے کہ ایک شخص امامعليه‌السلام کی خدمت حاضر ہوا او رکہنے لگا:مجھے ایک سردملک کاسفر درپیش ہے،ان دنوں وہاں اتنی برفباری ہوتی ہے کہ ساراملک برف سے ڈھک جاتاہے اور نہ وضو کے لئے پانی ملتاہے اور نہ تیمم کےلئے مٹی دستیاب ہوتی ہے ایسی حالت میں نماز کے بارے میں مجھ پر کیا حکم ہے؟

امامعليه‌السلام نے اس پرعتبا فرمایا کہ ایسا سفر تو کیوں کرتاہے جس کی وجہ سے دین کےت ضروری واجبات کو انجام نہ دے سکے جب تجھے علم ہے کہ تیرے اس عمل سے تیری نماز فوت ہوجائے گی تو تجھے تقويٰ اختیار کرنا چاہئے اور اس ارادے سے بازرہنا چاہئے.

جب کسی محفل میں جانا مباح تو ہو لیکن وہاں گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ بھی موجود ہوتو آپ کو شروع ہی سے خبردار رہنا چاہئے کہ کہیں اس فعل مباح یا مستحب کے اقدام سے‌آپ ترک واجب کے مرتکب تونہیں ہورہے اور کوئی فعل حرام تو اس کی وجہ سے آپ سے سرزد نہ ہوگا.

لیکن یہ سب اندیشے ضعیف الاعتقاد اور کم تقويٰ لوگوں کے بارے میں ہیں اہل تقويٰ انسان کبھی ایسی لغزش نہ کھائے گاوہ جوبھی کرنا چاہئے گا پہلے اس کے انجام پر غور کرے گا اور یہ دیکھے گا کہ اس کا لازمی نتیجہ کیا ہے.

بیناہے وہ جودیکھ لے انجام کارکو

مادی وسعت:

بہت سے اسے مباحات ہیں جوانسان کو فعل حرام تک لے جات ہیں وہ سمجھتاہے کہ مادی لحاظ سے ان میں کافی وسعت ہے اور اگرچہ کوئی کام مستحب یا مباح ہو،اہل تقويٰ کی نظر اس کے لوازم اور انجام ونتائج پر بھی ہوتی ہے وہ خوب غور کرتاہے کہ اس کے ارتکاب سے اسے کس صورت حال سے دوچار ہونا پڑےگا.

اسباب دینوی میں فضول خرچی اور اسراف کیوں؟اورعمر کوفضول کاموں میں تلف کرنے سے کیا حاصل؟ جب انسان واجب خراجات سے صرف نظر کرے،اپنے غریب ومفلس اور محتاج ونادار اعزاکی مدنہ کرے اورنمائشی کاموں کو قرض لے کر بھی انجام دے تو اس کی عبادت ریا اور اس کی نماز بے کیف وبے حضور ہوجاتی ہے،وہ صرف اسی دنیاکا ہو کررہ جاتاہے اور حسن عاقبت سے بے نصیب ہوجاتاہے.

زندگی کے سارزوسامان یمں دلچسپی حرام نہیں بلکہ شرعاً جائز اور مباح ہے لیکن جب اسے غیر معمول اہمیت دی جائے گی توی ہ قطع رحمت کا ارتکاب کرائے گا فسود پر قرض لینے کی انگیخت کرے گا اور حرام پر حرام کے ارتکاب پر مجبور کردے گا.

دوسری مثال :خوشی مزاجی اور بذلہ سنجی جائز اور مباح ہے او ربعض اوقات کسی اچھے مقصد کے لئے مستحب بھی ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں‌کہ حد اعتدال سے متجاوز ہوکر یہی مستحب فعل فریق ثانی کی دل آزاری کاسبب بن جاتاہے اور ایذائے مومن کاباعث بنکر حرام مطلق ہوجاتاہے.

لہذا تقويٰ اختیار کرنا چاہئے او روضع مادی میں نارواوسعت سے اور غیر معتدل شوخی اور ہنسی مذاق سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ کسی برادار ایمانی کادل توڑکر حرام کے مرتکب نہ ہوں.

خلاصہ یہ کہ تقويٰ کے تین مراتب ہیں:

اولا:ملکہ ترک گنا.

ثانیا: ملکہ ترک مشتبہات ومکروہات .اور

ثالثاً: ایسے مباحات کے ترک کاملکہ جوترک واجب کاباعث یا ارتکاب حرام کاسبب بن سکتے ہوں.