تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31052
ڈاؤنلوڈ: 2760


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31052 / ڈاؤنلوڈ: 2760
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب:تفسیر نمونہ جلد پنجم

تالیف : آیۃ اللہ مکارم شیرازی

آیت ۶۷

۶۷( یَااٴَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ )

ترجمہ:

شروع الله کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے ۔

۶۷ ۔ اے پیغمبر! جو کچھ تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوا ہے اسے کامل طور سے (لوگوں تک) پہنچادو اور اگر تم نے (ایسا) نہ کیا تو گویا تم نے اس کا (کوئی) کار رسالت سرانجام ہی نہیں دیا اور خداوندتعالیٰ تمھیں لوگوں کے (ان تمام) خطرات سے (جن کا احتمال ہے)محفوظ رکھے گا اور خداوندتعالیٰ (ہٹ دھرم) کفار کی ہدایت نہیں کرتا ۔

انتخابِ جانشین پیغمبر ہی آخری کار سالت تھا

اس آیت کا ایک مخصوص لب ولہجہ ہے جو اسے اس سے پہلی آیات اور اس کے بعد کی آیات سے ممتاز کرتا ہے ۔ اس آیت میں روئے سخن صرف پیغمبر کی طرف ہے اور یہ آیت صرف انہی کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے ۔( یَااٴَیُّهَا الرَّسُولُ ) اے پیغمبر! سے اس آیت کی ابتدا ہورہی ہے اور یہ آیت صراحت اور تاکید کے ساتھ پیغمبر کو حکم دے رہی ہے کہ جو کچھ اُ ن پر اُن کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اُسے لوگوں تک پہنچادیں( بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک ) (۱) اس کے بعد (اس حکم کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے) تاکید مزید کے طور پر اس خطرے سے متنبّہ کرتا ہے کہ اگر تم نے یہ کام نہ کیا (حالانکہ وہ ہرگز اس کام کی سرانجام دہی کو ترک نہ کرتے ) تویہ ایسا ہوگا گویا تم نے (کوئی) کار رسالت سرانجام ہی نہیں دیا( وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ) ۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم کے اضطراب وپریشانی کو دور کرنے کے لئے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے: اس رسالت اور پیغام کی ادائیگی کے بارے میں تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خدا تمھیں اُن خطرات سے محفوظ رکھے گا( وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس ) ۔

اور آیت کے آخر میں اُن لوگوں سے جو اس مخصوص پیغام کا انکار کریں اور اس کے خلاف ہٹ دھرمی کرتے ہوئے کفر اختیار کرلیں ایک تہدید اور سزا کے عنوان سے یوں کہتا ہے: خدا ہٹ دھرمی کرنے والے کافروں کو ہدایت نہیں کرتا( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ) ۔

آیت کے جملوں کی بندش، اس کا مخصوص لب ولہجہ اور اس میں پے در پے تاکیدوں پر تاکیدیں اور آیت کا ”یا ایہا الرسل“ سے شروع ہونا جو تمام قرآن مجید میں صرف دو مقام پر ہے اور اس حکم کی تعمیل اور اس رسالت کی تبلیغ نہ کرنے کی صورت میں پیغمبر کو یہ تہدید کہ اگر تم نے اس حکم کے پہنچانے میں کوتاہی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے کوئی رسالت سرانجام ہی نہیں دیا جو قرآن میں صرف اسی آیت میں ہے، اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ گفتگو کسی ایسے اہم امر کے متعلق ہورہی ہے کہ جس کی تبلیغ نہ کرنا کوئی بھی کارِ رسالت سرانجام نہ دینے کے برابر ہے ۔

اس کے علاوہ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ موضوع ایسا تھا جس پر شدّت کے ساتھ مخالفت پیدا ہوچکی تھی اور اس موضوع کے مخالفین اتنے سخت تھے کہ اُن کی مخالفت کے پیش نظر پیغمبر بہت ہی پریشان تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس اعلان کو سن کر اسلام اور مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کردیں اسی لئے خداوندتعالیٰ انھیں تسلی دیتا ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسا ایسا اہم مقصد ومطلب تھا جس کے پہنچانے کے لئے خداوندتعالیٰ اپنے پیغمبر کو اتنی تاکید کے ساتھ حکم دے رہا ہے؟ در آں حالیکہ جب ہم اس سورہ کے نزول کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ مسلّماً پیغمبر کی عمر کے آخری دنوں میں نازل ہوئی ہے ۔

کیا یہ توحید اور شرک وبت پرستی سے مربوط مسائل تھے جو برسوں پہلے پیغمبر اور مسلمانوں کے لئے حل ہوچکے تھے؟

یا یہ مسائل احکام شرع اور قوانین اسلام سے متعلق تھے؛ جبکہ اس وقت تک اُن کے اہم ترین مسائل بیان ہوچکے تھے ۔

یا یہ مسائل اہلِ کتاب ویہود ونصاریٰ سے مربوط تھے؛ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ بنی النضیر، بنی قریضہ اور بنی قینقاع نیز خیبر وفدک اور نصارائے نجران کے واقعہ کے بعد اہلِ کتاب کا کوئی مسئلہ مسلمانوں کے لئے مشکل نہیں سمجھا جاتا تھا ۔

یا اس کا رابطہ منافقین کے ساتھ تھا ؟ در آنحالیکہ ہمیں معلوم ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب اسلام کا پورے جزیرے نمائے عرب پر تسلط اور نفوذ ہوگیا تھا تو منافقین کا معاشرے میں کوئی مقام ہی نہیں رہا تھا اور ان کی قوت بالکل ٹوٹ چکی تھی اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ ان کے باطن میں تھا ۔

حقیقتاًاب وہ کونسا اہم مسئلہ تھا جو پیغمبر کی زندگی کے آخری دنوں میں باقی رہ گیا تھا کہ مذکورہ بالا آیات جس کے بارے میں اس قسم کی تاکید کررہی ہے ۔

اس حقیقت میں بھی تردید کی گنجائش نہیں ہے کہ پیغمبر کا اضطراب اور پریشانی اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے نہیں تھی بلکہ مخالفین کی طرف سے ان احتمالی کارشکنیوں اور مخالفین کے بارے میں تھی جن کا نتیجہ مسلمانوں کے لئے خطرات اور نقصانات کی صورت میں نکلتا ۔

تو کیا پیغمبر کے جانشین کے تعین اور اسلام ومسلمین کی آئندہ سرنوشت کے سوا کوئی مسئلہ ایسا ہوسکتا ہے جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں ۔

اب ہم اُن مختلف روایات کی طرف لوٹتے ہیں جو اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کی متعدد کتابوں میں آیتِ مذکور بالا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان روایات سے مذکورہ احتمال کے ثابت کرنے میں کہاں تک استفادہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ہم اُن اعتراضات اور سوالات پر بحث کریں گے جو اس تفسیر کے بارے میں اہل سنت کے بہت سے مفسّرین کی طرف سے ظاہر کئے گئے ہیں ۔

آیت کی شان نزول

اگرچہ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس آیت سے مربوط حقائق کسی قسم کی پردہ پوشی کے بغیر تمام مسلمانوں کے ہاتھوں تک نہیں پہنچائے گئے اور پہلے سے کئے گئے اور مذہبی تعصّبات اس کے اظہار سے مانع ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اہلِ سنت کے علماء کی تحریر کردہ مختلف کتابوں میں خواہ وہ تفسیر کی کتابیں ہوں یاحدیث وتاریخ کی، اُن میں بہت زیادہ روایات ایسی ملتی ہیں جو صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ آیت مذکورہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ان روایات کو بہت سے اصحاب پیغمبر نے نقل کیا ہے ۔ مثلاًز ید ابن ارقم، ابوسعید خُدری، ابن عباس، جابر ابن عبد الله انصاری، ابوہریرہ، برآء ابن عازب، حذیفہ، عامر بن لیلی بن ضرہ اور ابن مسعود۔ یہ سب کے سب اصحاب پیغمبر اس بات پر متفق ہیں کہ آیت مذکور حضرت علی علیہ السلام اور واقعہ غدیر کے متعلق ہی نازل ہوئی ہے ۔

یہ احادیث مذکورہ اصحاب پیغمبر سے مختلف طرق سے،

ابوسعید خدری کی بیان کردہ حدیث گیارہ طرق سے،

ابن عباس کی بیان کردہ حدیث گیارہ طرق سے اور برآء بن عازب کی بیان کردہ حدیث تین طرق سے نقل کی گئی ہے ۔

جن علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو تصریح کے ساتھ بیان کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں جن میں سے بعض کے نام نمونہ کے طور پر ذکر کررہے ہیں :

۱ ۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے اپنی کتاب ”مانزل من القرآن فی علی“ میں بحوا لہ خصائص ص/ ۲۹ یہ روایت درج کی ہے ۔

۲ ۔ ابوالحسن واحدی نیشاپوری نے ”اسباب النزول“ ص/ ۱۵۰ میں ۔

۳ ۔ حافظ ابو سعید سجستانی نے کتاب ”الولایہ“ میں کتاب ”طرائف“ کے حوالے سے ۔

۴ ابن عساکر شافعی نے ”درمنثور“ ج ۲/ ص ۲۹۰ کے حوالے سے ۔

۵ ۔ فخر الدین رازی نے ”تفسیر کبیر“ ،ج ۳ ، ص ۶۳۶ میں ۔

۶ ۔ ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“ میں ۔

۷ ۔ ابن صباغ مالکی نے ”فصول المہمہ“، ص ۲۷ پر ۔

۸ ۔ جلال الدین سیوطی نے ”درّ منثور“، ج ۲ ، ص ۲۹۸ میں ۔

۹ ۔ قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“، ج ۳ ، ص ۵۷ میں ۔

۱۰ ۔ شہاب الدین آلوسی نے ”روح المعانی“ ج ۶ ، ص ۱۷۲ پر ۔

۱۱ ۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے”بیابیع المودة“ میں ص ۱۲۰ پر ۔

۱۲ ۔ بدرالدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح البخاری“ ج ۸ ، ص ۵۸۶ پر ۔

۱۳ ۔ شیخ محمد عبدہ مصری نے تفسیر المنار، ج ۶ ، ص ۴۶۳ پر ۔

۱۴ ۔ حافظ ابن مردویہ (متوفی ۴۱۶) نے سیوطی کے حوالے سے ۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء اہل سنت نے آیت مذکورہ کی یہی شان نزول بیان کی ہے اس سے یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ مذکورہ علماء ومفسّرین نے آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شان نزول کو قبول بھی کرلیا ہے بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اُنھوں نے اس مطلب سے مربوط روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔

اگرچہ اس معاشرے کے مخصوص حالات کے خوف سے یا پہلے سے کئے ہوئے غلط فیصلے کی بناپر صحیح فیصلہ کرنے میں حائل ہوتی ہے، بعض نے تو یہ کوشش کی ہے کہ جتنا بھی ہوسکے اس کی اہمیت کو گھٹاکر پیش کیا جائے ۔ مثلاً فخرالدین رازی نے جس کا تعصّب مخصوص مذہبی مسائل میں مشہور ومعروف ہے، اس شان نزول کی اہمیت کم کرنے کے لئے اسے آیت کا دسواں احتمال قرار دیا ہے اور دوسرے نو احتمال جو انتہائی کمزور اور بہت ہی بے ہودہ اور بے وقعت ہیں انھیں پہلے بیان کیا ہے ۔

فخرالدین رازی پر زیادہ تعجب نہیں کیونکہ اس کی تو ہر جگہ یہی روش ہے لیکن تعجب تو اُن روشن فکرلکھنے والوں پر ہوتا ہے جنہوں نے اس آیت کی شان نزول کے بارے میں کہ جس سے مختلف قسم کی کتابیں بھری پڑی ہیں مطقاً کوئی گفتگو ہی نہیں کی یا اِس کو اتنی کم اہمیت دی ہے کہ کسی کی اس طرف توجہ ہی نہ جائے، جیسا کہ سید قطب نے ”فی ظلال“ میں اور رشید رضا نے ”المنار“ میں اس کی شان نزول کو بالکل بیان ہی نہیں کیا ۔

ہمیں نہیں معلوم کہ آیا ان کا ماحول اس حقیقت کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا یا تعصب آمیز فکری حجاب اتنا زیادہ تھے کہ روشن فکری کی بجلی کی چمک اُن پَردوں کو ہٹاکر اس حقیقت کی گہرائی تک نہ پہنچ سکی ۔

البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس آیت کی شان نزول کو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں برملا طور پر تسلیم کیا ہے ۔ لیکن انھوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ آیت مسئلہ ولایت و خلافت پر ولایت کرتی ہے ہم ان کے اعتراضات اور جوابات انشاء اللہ آگے چل کر بیان کریں گے ۔

بہر حال جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ وہ روایات جو اس بارے میں شیعہ کتب ہی میں نہیں بلکہ اہل سنت کی معروف کتابوں میں بھی ہیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا انکار کیا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی انھیں آسانی کے ساتھ نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔

ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن مجید کی دوسری آیات کی شان نزول میں تو ایک دو احادیث پر ہی اِکتفا کر لیا جاتا ہے لیکن اِس آیت کی شان نزول کے بارے میں اتنی کثیر روایات کو بھی کیوں کافی نہیں سمجھا جاتا؟ کیا یہ آیت ایسی خصوصیت رکھتی ہے جو دوسری آیات نہیں رکھتیں ؟ اور کیا اس آیت کے سلسلے میں اس سخت رویّے کے متعلق کوئی منطقی دلیل مل سکتی ہے؟

دوسری بات جس کی یاد دہانی اس مقام پر ضروری ہے یہ ہے کہ جو روایات ہم نے اوپر بیان کی ہیں وہ تو صرف وہ تھیں جو اس آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں (یعنی وہ روایات تھیں جو اس آیت کی شانِ نزول کے متعلق تھیں ) ورنہ وہ روایات جو غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اکرم (ص) کے خطبہ پڑھنے اور حضرت علی علیہ السلام کا بطور وصی و ولی کے تعارف کرانے کے بارے میں منقول ہیں وہ تو اُن سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔ چنانچہ علامہ امینی نے اپنی کتاب ”الغدیر“کو ۱۱۰ اصحاب پیغمبر سے اور ۸۴ تابعین سے اور ۳۶۰ علماء سے اور مشہور کتب اسلامی سے اسناد و مدارک کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ یہ صورتِ حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مذکورہ حدیث قطعی ترین متواتر احادیث میں سے ہے اور اگر کوئی شخص ایسی حدیث و روایت کے قطعی و یقینی ہونے میں بھی شک و شبہ کرے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ وہ کسی بھی متواتر حدیث کو قبول نہیں کرسکتا ۔ ان تمام روایات کے متعلق بحث کرنا جو آیت کی شانِ نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور اسی طرح اُن تمام روایات کے سلسلہ میں گفتگو کرنا جو حدیث غدیر کے متعلق نقل ہوئی ہیں ایک ضخیم کتاب کا محتاج ہے ۔ ان کا تفصیلی بیان ہمیں تفسیر کے دائرے سے خارج کردے گا لہٰذا ہم اسی مقدار پر قناعت کرتے ہیں اور ان اشخاص کو جو اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ سیوطی کی ”درمنثور“، علامہ کی ”الغدیر“، نور اللہ شوستری کی ”احقاق الحق“، شرف الدین کی ”المراجعات“ اور محمد حسن مظفر کی ”دلائل الصدق“ جیسی کتابوں کی طرف رجوع کرے ۔

____________________

۱۔ لفظ ”بلّغ“ جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہے ”ابلغ“ کی نسبت زیادہ تاکید ظاہر کرتا ہے ۔

واقعہ غدیر کا خلاصہ

بہت سی روایات جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں باوجودیکہ سب کی سب ایک ہی واقعہ کے گرد گھومتی ہیں پھر بھی طرح طرح کی تعبیرات کی حامل ہیں ۔ بعض روایات بہت مفصل اور طویل ہیں ، بعض مختصر لیکن نپی تلی ہیں ، بعض روایات اس واقعہ کا ایک گوشہ بیان کرتی ہیں تو دوسری روایات اس واقعہ کے دوسرے پہلو پروشنی ڈالتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن ان تمام روایات کے مجموعے اور اسلامی تواریخ، قرائن وحالات اور ماحول ومقامِ واقعہ کے مطالعہ سے یہ واقعہ سامنے آتا ہے:

پیغمبر اکرم کی زندگی کا آخری سال تھا ۔ حجة الوداع کے مراسم جس قدر باوقار وپرشکوہ ہوسکتے اُس قدر پیغمبر اکرم کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے ۔ سب کے دل روحانیت سے شرسار تھے ابھی اُن کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذّت کا ذائقہ محسوس کررہی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیضیاب ہونے اور اس سعادت کے حاصل ہونے پر جامے میں پھولے نہیں سماتے تھے(۱)

نہ صرف مدینے کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصّوں کے مسلمان بھی یہ تاریخی اعزاز وافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے ۔

سرزمین حجازکا سورج درّوں اور پہاڑوں پر آگ بر سار ہا تھا لیکن اس سفر کی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارہی تھی ۔ زوال کا وقت نزدیک تھا ۔ آہستہ آہستہ جحفہ کی سرزمین اور اس کے بعد خشک اور جلانے والے ”غدیر خم“ کے بیابان نظر آنے لگے ۔

در اصل یہاں پر ایک چوراہا ہے جو حجاز کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے ۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف، دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف، تیسرا راستہ مغربی ممالک اور مصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر آخری مقصد اور اس عظیم سفر کا اہم ترین کام انجام پذیر ہونا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اہم ذمہ داریوں میں سے اُن کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔

جمعرات کا دن تھا اور ہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ہمراہیوں کو ٹھہرجانے کا حکم دیا گیا ۔ مسلمانوں نے بلند آواز سے اُن لوگوں کو جو قافلہ کے آگے آگے چل رہے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اور اتنی دیر کے لئے ٹھہر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں ۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موذّن نے الله اکبر کی صدا کے ساتھ لوگوں کو نمازِظہر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصّہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں ۔ ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہے تھے ۔ اس صحرا میں نہ کوئی سائبان نظر آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یا گھاس صرف چند بے برگ وباربیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے کچھ لوگ اُنہی چند درختوں کاسہارا لئے ہوئے تھے اور انھوں نے اُن برہنہ درختوں پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنارکھا تھا لیکن گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی ہوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اُس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رہی تھی ۔ بہرحال ظہر کی نماز پڑھ لی گئی ۔

مسلمان ارادہ کررہے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو اُنھوں نے اپنے ساتھ اٹھارکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا ۔

جو لوگ رسول اللہ سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چہرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے نہیں دیکھ پارہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا ۔ پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے ۔ پہلے پروردگار عالم کی حمد و ثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا: میں عنقریب خداوندتعالیٰ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے جارہا ہوں میں بھی جوابدہ ہوں اور تم بھی جوابدہ ہو تم میرے بارے میں کیا گواہی دوگے؟ لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ”نشہد انک قد بلغت ونصحت وجہدت فجزاک الله خیراً“ یعنی ہم گواہی دیں گے آپ نے فریضہ رسالت انجام دیا اور خیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی وکوشش کی، خدا آپ کو جزائے خیر دے ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت، میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اور اُ س دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟

سب نے کہا: کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں ۔

آپ نے فرمایا: خداوندا گواہ رہنا ۔

آپ نے مزید فرمایا: لوگو! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟

انھوں نے کہا: جی ہاں ۔

اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا ۔ سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی ۔

پیغمبر نے فرمایا: دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار کے چھوڑے جارہا ہوں تم اُن کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟

حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا: یا رسول الله! وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ہیں ؟

تو پیغمبر اکرم نے فرمایا: پہلی چیز تو الله تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے ۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمھارے ہاتھ میں ہے، اس سے ہاتھ نہ چھڑانا ورنہ تم گمراہ ہوجاؤگے اور دوسری گرانقدر یادگار میرے اہلِ بیت ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے ۔

ان دونوں سے آگے بڑھنے( اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی اُن سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں تم ہلاک ہوجاؤگے ۔

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ رسول الله اپنے اردگرد نگاہیں دوڑا رہے ہیں گویا کسی کو تلاش کررہے ہیں جو نہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً اُن کا ہاتھ پکڑ لیا اور اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منھ نہیں دیکھا ۔

اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اور بلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:

ایها الناس من اولی الناس بالمومنین من انفسهم

یعنی ۔ اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود اُن سے زیادہ اولویت رکھتا ہے؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں ۔

تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا ورہبر ہے اور میں مومنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود اُن سے زیاد حق رکھتا ہوں (اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ہے)۔

اس کے بعد فرمایا:

”فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“ یعنی جس جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس اس کا مولا ورہبر ہے ۔

پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی اور بعض روایوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اُس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کرکے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:

”اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحب من احبه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وادر الحق معه حیث دار“

یعنی ”بارالٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر اور اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ، جو اس کی مدد کرے تو اُس کی مدد کر، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھر پھیر دے جدھر وہ رُخ کرے“۔

اس کے بعد فرمایا:” الا فلیبلغ الشاهد الغائب “ یعنی : تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو اُن لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اور اس وقت موجود نہیں ہیں ۔ پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا ۔ پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نہائے ہوئے تھے ۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہ رہا تھا ۔ ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی :

”الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی الخ.“

”آج کے دن میں نے تمہارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔

اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:

”الله اکبرالله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة ورضی الرب برسالتی و الولایة لعلی من بعدی“

ہر طرح کی بزرگی و بڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت و رسالت اور میرے بعد کے لئے علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا ۔

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سُن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا ہوا، لوگ بڑھ چڑھ کر اُس اعزاز و منصب پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنی طرف سے مبارک مباد پیش کررہے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انھوں نے کہا:

”بِخٍّ بِخٍّ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولا کل مومن ومومنة“

مبارک ہو! مبارک ہو! اسے فرزند ابی طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اور عورتوں کے مولا ورہبر ہوگئے ۔

اس وقت ابن عباس نے کہا: بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا ۔ عرب کے مشہور شاعر مدّاح رسول ”حسان بن ثابت“ نے پیغمبر سے اجازت لے کر اس موقع کی مناسبت سے ایک قصیدہ پڑھا جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں :

ینادیهمِ یَومَ الغدیرِ نبیهّم

بِخُمٍّ وَاسمَعْ بالرّسولِ مُنادیاً

فقال: فمن مولاکم و نبیّکم

فقالوا ولم یَبْدُوا هناک التّعامیا

الٰهک مولنا وانت نَبِیُّنَا

لَم تلق منّا فی الولایةِ عاصیا

فقال له: قُم یا علیُّ فاننّی

رضیتُکَ من یعدی اماماً و هادیا

فمن کنتُ مولاه فهذاولیّه

فکونوا لهُ اتباع صِدقِ موالیاً

هناک دعا: اللهُمّ و ال ولیّه

و کُن لِلّذی عادا علیًا معادیاً

”یعنی پیغمبر نے غدیر کے دن خم کے مقام پر اُنھیں ندا دی اور پکارا اور یہ پکارنے والا کس قدر گرامی قدر تھا“۔

”فرمایا: تمھارا مولا اور تمھارا نبی کون ہے؟ تو انھوں نے بلاتردّد صراحت کے ساتھ جواب دیا“

”کہ آپ کا خدا ہمارا مولا اور آپ ہمارے پیغمبر ہیں اور ہم آپ کی ولایت کے قبول کرنے سے روگردانی نہیں کریں گے“

”اس پر پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: کھڑے ہوجاؤ کیونکہ میں نے تمھیں اپنے بعد امام اور رہبر منتخب کیا ہے“

”اس کے بعد فرمایا: جس شخص کا میں مولا ورہبر ہوں یہ علی اس کے مولا ورہبر ہیں پس تم سچے دل سے ان کی پیروی کرنا“

”اس وقت پیغمبر نے عرض کیا: بارالٰہا! اس کے دوست کو دوست اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ نا“(۲)

یہ تھا مشہور حدیث غدیر کا خلاصہ جو اہل سنت اور شیعہ کتب میں موجود ہے ۔

____________________

۱۔ پیغمبر اکرم کے ہمراہ جانے والوں کی تعداد بعض نے ۹۰ ہزار،بعض نے ۱۱۴ ہزار، بعض نے ۱۲۰ ہزار اور بعض نے ۱۲۴ ہزار لکھی ہے ۔

۲۔ یہ اشعار اہل سنت کے بہت سے علماء نے نقل کئے ہیں ان میں حافظ ابونعیم اصفہانی، حافظ ابو سعید سجستانی، خوارزمی مالکی، حافظ ابو عبدالله مرزبانی گنجی شافعی، جلال الدین سیوطی، سبط ابن جوزی اور صدر الدین حموی کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔