تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31220
ڈاؤنلوڈ: 2811


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31220 / ڈاؤنلوڈ: 2811
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،

۲۱( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا اٴَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِهِ إِنَّهُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) ۔

۲۲( وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا اٴَیْنَ شُرَکَاؤُکُمْ الَّذِینَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ ) ۔

۲۳( ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ ) ۔

۲۴( انظُرْ کَیْفَ کَذَبُوا عَلَی اٴَنفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۲۱ ۔ اس شخص سے زیادہ وہ اور کون ظالم ہوگا کہ جس نے خدا پر جھوٹ باندھا (اور اس کے لئے شریک قائل ہوا) یا اس کی آیات کو جھٹلایا، یقینا ظالم نجات کا منہ نہ دیکھ پائیں گے ۔

۲۲ ۔ وہ دن کہ جس میں ہم ان سب کو محشور کریں گے تو مشرکین سے کہیں گے کہ تمھارے وہ معبود کہاں ہیں کہ جنھیں تم خدا کا شریک خیال کیا کرتے تھے( وہ تمھاری مدد کو کیوں نہیں آتے) ۔

۲۳ ۔ پھر ان کا جواب اور عذر اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ کہیں گے کہ اس خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم مشرک نہیں تھے ۔

۲۴ ۔ دیکھو وہ کس طرح خود اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور جسے جھوٹ موٹ خدا کا شریک سمجھتے تھے اسے چھوڑ بیٹھیں گے ۔

سب سے بڑا ظلم

شرک وبت پرستی کی ہر طرح سے بیخ کنی کا پروگرام دینے کے بعد اوپر والی آےات میں سے پہلی آیت میں صراحت کے ساتھ استفہام انکاری کی صورت میں کہتا ہے: ان مشرکین سے بڑھ کر اور کون ظالم ہے کہ جنھوں نے خدا پر جھوٹ باندھا اور اس کا شرک قرار دیااس کی آیات کی تکذیب کی ہے

( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا اٴَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِه )

در حقیقت پہلا جملہ انکار توحید کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا جملہ انکار نبوت کی طرف اشارہ ہے اور واقعا اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا کہ انسان بے قدر جمادات کو یا ناتواں انسان کو ایک لامحدود وجود کے مساوی قرار دے جو سارے عالم پر حکومت کرتا ہے، یہ کام تین جہت سے ظلم شمار ہوتا ہے ۔

ایک ظلم اس کی ذات پاک کے ساتھ کہ اس کے لئے شریک کا قائل ہوا ۔

دوسرا اپنے اور ظلم کہ اپنی حیثیت کو یہاں تک گرا دیا کہ اسے پتھر کے ایک ٹکڑے اور لکڑی کی پرستش تک نیچے لے لیا ۔

تیسرے ایک معاشرے اور سوسائٹی پر ظلم کہ شرک کے زیر اثر تفرقہ وپراکندگی اور روح وحدت ویگانگی سے دوری میں گرفتار ہوا ۔

مسلمہ طور پر کوئی بھی ظلم خاص طور پر ایسے ظلم کہ جن کاظلم ہر پہلو سے نمایاں ہے ، سعادت ورستگاری اور نجات وفلاح کامنہ نہیں دیکھے گے( إِنَّهُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) ۔

البتہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ لفظ شرک ذکر نہیں ہوا لیکن قبل وبعد کی آیات پر توجہ کرتے ہوئے کہ جو سب کی سب شرک کے بارے میں گفتگو کررہی ہے واضح ہوتا ہے کہ لفظ ”افتری“ سے اس آیت میں مراد وہی ذات الٰہی کے لئے شرک کی تہمت ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ۱۵ مواقع پر کچھ لوگوں کا ظالم ترین اور ستمگار ترین کے عنوان سے تعارف کرایا گیا ہے اور وہ سب کے سب جملہ استفہامیہ ”ومن اظلم“ یا”فمن اظلم“ (کون زیادہ ظالم ہے) کے ساتھ شروع ہوئے ہیں اگر چہ ان آیات میں سے اکثر شرک وبت پرستی اور آیات الٰہی کے انکار کے بارے میں ہی گفتگو کرتی ہیں یعنی ان میں اصل توحید ہی پیش نظر ہے لیکن ان میں سے بعض دوسرے مسائل کے بارے می بھی ہے مثلا :

( وَمَن اَظْلَمَ مِمَّن مَنَعَ مَسٰجِدَاللّٰه اَنْ یذکر فِیهَا اسْمه )

ان سے زیادہ اور کون شخص ظالم ہے جو مساجد میں ذکر خدا سے روکتے ہیں ؟(سورہ بقرہ، ۱۱۴) ۔

ایک اور مقام پر ہے:”( وَمَن اَظْلَمَ مِمَّن کَتَمَ شَهَادَة عِندَهُ مِنَ اللّٰه )

ان سے بڑھ کر اور کون ظالم ہیں جو شہادت کو چھپاتے ہیں (بقرہ ، ۱۴۰) ۔

اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ گروہوں میں سے ہر گروہ ہی سب سے بڑھ کر ظالم ہوں جب کہ ”ظالم ترین“ کا لفظ تو ان میں سے صرف ایک گروہ پر ہی صادق آتا ہے ۔

اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ ان سب امور کی حقیقت میں ایک ہی جڑ ہے اور وہ ہے شرک ،کفر اور عناد۔ کیوں کہ لوگوں کو مساجد میں ذکر خدا سے منع کرنا اور انھیں ویران وبرباد کرنے کی کوشش کرنا کفر وشرک کی نشانی ہے، اسی طرح شہادت کو چھپا نا ہے کہ ظاہری طور پر اس سے مراد حقائق پر شہادت کو چھپانا ہے جو وادی کفر میں لوگوں کے بھٹکنے کا سبب بنتا ہے لہٰذا یہ بات بھی شرک وکفر اور خدائے یگانہ کے انکار کی مختلف قسموں میں ہے ۔

بعد والی آیت میں مشرکین کے انجام کے سلسلے میں بحث ہوگہ، تاکہ واضح ہوجائے کہ انھوں نے بتوں جیسی کمزور مخلوق پر بھروسہ کرکے نہ اس دنیا میں اطمینان وراحت حاصل کیا ہے اور نہ ہی دوسرے جہاں میں ،ارشاد الٰہی ہے:

اس روز جب ہم ان سب کو ایک ہی جگہ مب(علیه السلام)وث کریں ،اور مشرکین سے کہیں گے کہ تمھارے وہ بناوٹی معبود جنھیں تم خدا کا شریک خیال کرتے تھے کہاں ہیں ؟ اور وہ تمھاری مدد کے لئے کیوں نہیں آتے؟ اور کسی قسم کا اثر ان کی قدرت نمائی کااس وحشتناک عرصہ قیامت میں کیوں نظر نہیں آتا( وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا اٴَیْنَ شُرَکَاؤُکُمْ الَّذِینَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ ) ۔

کیا اصل بنیاد یہی نہ تھی کہ وہ مشکلات میں تمھاری مدد کریں گے ؟ اورکیا تم نے بھی اسی امید پر ان کی پناہ حاصل نہیں کی تھ؟ تو پھر ان کا یہاں پر کوئی معمولی سے معمولی اثر بھی کیوں دکھائی نہیں دیتا؟۔

وہ ہکا بکا رہ جائیں گے اور عجیب وغریب وحشت وحیرت میں ڈوب جائیں گے اور اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا ،سوائے اس کے کہ قسم کھاکر کہنے لگےں کہ: ”خدا کی قسم ہم کبھی مشرک نہیں تھے“ ان کا گمان یہ ہوگاجیسے وہاں بھی حقائق کا انکار کیا جاسکتا ہے( ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ ) اس بارے میں کہ اوپر والی آیت میں لفظ ”فتنہ“ کس معنی میں ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض اسے فروتنی اور معذرت کے معنی میں لیتے ہیں ،بعض جواب کے معنی میں لےتے ہیں اور بعض نے شرک کے معنی میں لیا ہے(۱) ۔

آیت کی تفسیر میں یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ ”فتنہ وافتنان“ سے مراد ان کا وہی دلی میلان ہو،یعنی ان کے شرک وبت پرستی سے ان کے لگاؤ کا نتیجہ کہ جس نے ان کی عقل وفہم پر پردہ ڈال رکھا ہوگا کہ قیامت کے دن جب پردے ہٹ جائیں گے تو اس وقت وہ اپنی بڑی خطا کی طرف متوجہ ہوں گے اور اپنے اعمال سے بیزاری اختیار کریں گے اور ان سے کلی طور پر انکار کردیں گے ۔

لغت میں ” فتنہ “کا اصل معنی جیسا کہ ”راغب“ مفردات“ میں کہتا ہے کہ سونے کو آگ میں ڈال دیں اور اسے تیز آنچ دیں تاکہ اس کا باطن ظاہر ہوجائے اور معلوم ہوجائے کہ وہ کھرا ہے کہ کھوٹا، اس معنی کو اوپر والی آیت میں تفسیر کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے کیوں کہ وہ لوگ جب قیامت کے دن سخت پریشانی اور اس دن کی وحشتوں میں غرق ہوں گے تو پھر انھیں ہوش آئے گا اور وہ اپنی غلطی پر آگاہ ہوں گے اور اپنی نجات کے لئے اپنے گذشتہ اعمال کا انکار کریں گے ۔

بعد والی آیت میں اس مقصد سے کہ لوگ ان کے رسوا کن انجام سے عبرت حاصل کریں کہا گیا کہ: اچھی طرح غور کرو اور دیکھو کہ ان کا معاملہ کہاں تک پہنچ گیا ہے کہ انھوں نے اپنی روش اور مسلک سے کاملا بیزاری اختیار کرلی ہے اور اس کا انکار کرتے ہیں یہاں تک کہ خود اپنی ذات سے جھوٹ بولتے ہیں( انظُرْ کَیْفَ کَذَبُوا عَلَی اٴَنفُسِهِم ) ۔

اور تمام سہارے جو انھوں نے اپنے لئے اختیار کئے ہوئے تھے اور انھیں خدا کا شریک سمجھتے تھے ہاتھ سے دیں بیٹھے گے اور ان کی کہیں بھہ رسائی نہیں ہوگی( وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”انظر“ سے مراد مسلمہ طور پر عقل کی آنکھوں سے دیکھنا ہے، نہ کہ ظاہری آنکھوں سے دیکھنا، کیوں کہ قیامت کا میدان اس دنیا میں ظاہری نہیں دیکھا جاسکتا ۔

۲ ۔ یہ جو کچھ کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر جھوٹ باندھا تو اس کا معنی کہ انھوں نے دنیا میں اپنے آپ کو فریب دیا اور راہ حق سے نکل گئے، یا یہ کہ دوسرے جہاں میں جو قسم کھا رہیں ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے تو یہ حقیقت میں وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ مسلمہ طور پر وہ مشرک تھے ۔

۳ ۔یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اوپر والی آیت سے معلوم ہوتا کہ مشرکین اپنے سابقہ شرک کا قیامت کا دن انکار کردیں گے جب کہ روز قیامت کی کیفیت اور حقائق کا حسی طور پر مشاہدہ اس طرح سے ہوگا کہ کسی شخص کو یہ مجال نہ ہوگی کہ حق کے خلاف کوئی بات کرے، بالکل اس طرح سے جیسے کوئی جھوٹے سے جھوٹا آدمی بھی ہمیں ایسا دیکھائی نہیں دیتا جو روز روشن میں سورج کے سامنے کھڑا ہو کر یہ کہے کہ فضا تاریک ہے، اس کے علاوہ بعض دوسری آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ روز قیامت صراحت کے ساتھ اپنے شرک کا اقرار کرلیں گے اور کسی حقیقت کو نہیں چھپائیں گے مثلا:”( ولایکتمون اللّٰه حدیثا ) “(نساء ۴۲) ۔

اس سوال کے دو جواب دئے جاسکتے ہیں :

پہلا جواب: یہ ہے کہ قیامت کے کئے مراحل ہوں گے، ابتدائی مراحل میں مشرکین خیال کریں گے کہ جھوٹ بول کر بھی خدا کے دردناک عذاب اور سزا سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے لیکن وہ اپنی پرانی عادت کے مطابق جھوٹ بولیں گے لیکن بعد کے مراحل میں جب وہ یہ سمجھ لیں گے کہ اس طریقہ سے بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو پھر اپنے اعمال کا اعتراف کرلیں گے حقیقت میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے رفتہ رفتہ پردے ہٹےں گے، ابتدا میں جب کہ مشرکوں نے اپنے نامہ اعمال کاغور سے مطالعہ نہیں کیا ہوگا تو جھوٹ کا سہارا لیں گے لیکن بعد کے مراحل میں جب پردے پوری طرح اٹھ جائیں گے اور تمام چیزیں نظروں کے سامنے ہوں گی تو پھر انھیں اعتراف کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آئے گا ۔

ٹھیک مجرموں کی طرح جو ابتدائی تفتیش میں تمام باتوں سے، یہاں تک کہ اپنے دوستوں سے شناسائی کا بھی انکار کردیتے ہیں لیکن جب ان کی جرم کی اسناد اور منہ بولتی دستاویزات دیکھائی جاتی ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ معاملہ اتنا واضح ہے کہ انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں لہٰذا پھر وہ اعتراف بھی کر لیتے ہیں اور سب کچھ اگل دیتے ہیں ۔

یہ جواب امیرالمومنین (علیه السلام) سے ایک حدیث میں نقل ہوا ہے(۲) ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اوپر والی آیت ان افراد کے بارے میں ہے جو حقیقت میں اپنے آپ کو مشرک نہیں سمجھے تھے، مثلا عیسائی ، جو تین خداؤں کے قائل ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو موحد خیال کرتے ہیں ، یا یہ آیت ایسے اشخاص کے بارے میں ہے جو تو حید کے نعرے لگاتے تھے، لیکن ان کے عمل سے شرک کی بو آتی تھے کیوں کہ وہ انبیاء کرام کے احکام پائیوں کے نیچے روندتے تھے، غیر خدا پر بھروسہ رکھتے اور خدا کے اولیاء کا انکار کرتے تھے لیکن اس کے باوجود خود کو موحد سمجھتے تھے، یہ لوگ قیامت کے دن قسم کھائیں گے کہ ہم تو موحد تھے لیکن بہت جلدہی انھیں سمجھا دیا جائے گا کہ وہ باطن میں مشرکین میں داخل تھے، یہ جواب بھی کئی ایک روایات میں حضرت علی علیہ اسلام اور حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے(۳)

اور دونوں جواب قابل قبول ہیں ۔

____________________

۱۔ جب یہ لفظ معذرت اورجواب کے معنی میں لیا جائے گا تو اس صورت میں آیت کسی لفظ کے مقدر ہونے کی محتاج نہیں ہوگی ، لیکن اگر شرک کے معنی میں ہوتو ضروری ہے کہ لفظ ”نتیجہ“ کو مقدر مانا جائے یعنی ان کے شرک کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ قسم کھائیں گے کہ وہ مشرک نہیں تھے ۔

۲۔ نور الثقلین، جلد اول، صفحہ ۷۰۸-

۳۔ نور الثقلین ،جلد اول،صفحہ ۷۰۸-

آیات ۲۵،۲۶

۲۵( وَمِنْهُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ إِلَیْکَ وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِهِمْ اٴَکِنَّةً اٴَنْ یَفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِنْ یَرَوْا کُلَّ آیَةٍ لاَیُؤْمِنُوا بِهَا حَتَّی إِذَا جَائُوکَ یُجَادِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔

۲۶( وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْاٴَوْنَ عَنْهُ وَإِنْ یُهْلِکُونَ إِلاَّ اٴَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۲۵ ۔ ان میں سے کچھ لوگ تےری بات تو سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئےے ہیں تاکہ وہ انھیں نہ سمجھے، اورہم نے کانوں کو بوجھل کردیا ہے اور وہ (اس قدر ہٹ دھرم ہیں ) کہ اگر حق کی تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ وہ جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے جھگڑنے لگتے ہیں اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو پرانے لوگوں کے افسانے ہیں ۔

۲۶ ۔ وہ دوسروں کو اس سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دوری اختیار کرتے ہیں ، اپنے سوا وہ کسی کو ہلاک نہیں کرتے لیکن سمجھتے نہیں ۔

حق قبول نہ کرنے والوں کا طرز عمل

اس آیت میں بعض مشرکین کی نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ حقائق سننے کے لئے خود سے ذرہ بھر توجہ بھی نہیں دیتے، یہ تو ایک معمولی سی بات ہے، وہ تو اس سے دشمنی پر بھی اتر آتے ہیں اور تہمتوں کے ذریعہ خود کو اور دوسروں کو بھی اس سے دور رکھتے ہیں ، ان کے بارے میں یوں کہا گیا ہے :ان میں سے بعض تیری بات تو سنتے ہیں لیکن ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دئےے ہیں ، تاکہ وہ اسے سمجھ نہ سکیں ، اور ان کے کانوں میں ہم نے بوجھل پن پیدا کردیا ہے تاکہ وہ اسے نہ سنے( وَمِنْهُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ إِلَیْکَ وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِهِمْ اٴَکِنَّةً اٴَنْ یَفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا ) (۱)

حقیقت میں زمانہ جاہلیت کے اندھے تعصبات اور مادی منافع میں غرق ہوتے چلے جانا اور ہوا وہوس کی پیروی کرنا ان کے عقل وہوش ہر اس طرح غالب آگیا ہے کہ گویا وہ پردے کے نیچے آگئے ہیں ( جس کی وجہ ) ناتو وہ کسی حقیقت کو سن سکتے ہیں اور نہ ہی مسائل کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں ۔

ہم یہ بات کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ اگر اس قسم کے مسائل کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے تو یہ حقیقت میں قانون ”علیت“ اورخاصیت عمل کی طرف اشارہ ہوتا ہے ،کج روی میں تسلسل اور ہٹ دھرمی اور بے دینی پر اصرار کا اثر یہ ہے کہ انسان کی روح بھی اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور یہ اعمال انسان کو ٹیڑھے آئینے کی طرح بنا دیتے ہیں کہ (اس ٹیڑھے آئینے میں ) ہر چیز کج اور ٹیڑھی ہی نظر آتی ، تجربے نے اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے کہ بدکار اور گناہگار افراد ابتدا میں اپنے برے کام سے پریشان اور بے آرام ہوتے ہیں لیکن پھر تدریجا اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور شاید ایسا دن بھی آجائے کہ وہ اپنے برے اعمال کو واجب اور ضروری سمجھنے لگ جاتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں یہ ان کی حق سے مخالفت اور کرنے اور گناہ پر ہٹ دھرمی اور اصرار کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے کہ جو ہٹ دھرم گناہگاروں کے دامن سے چمٹ جاتی ہے ۔

اسی لئے ارشاد ہوتا ہے کہ ان کا معاملہ اس حدکو پہنچ گیا ہے کہ :اگر وہ تمام آیات خدا اور اس کی نشانیوں کو بھی دیکھ لیں تو پھر بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے( وَإِنْ یَرَوْا کُلَّ آیَةٍ لاَیُؤْمِنُوا بِهَا ) ۔

اور اس بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے دل کے کانوں کو تیری باتوں کی طرف متوجہ کریں اور کم اسے کم ایک حق کے متلاشی کی طرح کوئی نہ کوئی حقیقت معلوم ہوجانے کے احتمال میں بھی اس کے بارے میں کچھ غور کریں ، وہ منفی روح اور منفی فکر کے ساتھ تیرے سامنے آتے ہیں اور لڑنے ،جھگڑنے اور اعتراض کرنے کے سوا ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا( حَتَّی إِذَا جَائُوکَ یُجَادِلُونَکَ ) ۔

وہ تیری باتوں کو سن کر جو چشم وحی سے وحی سے نکلی ہے اور تیری حق گو زبان پر جاری ہوئی ہے تجھ پر تہمت لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات گذشتہ انسانوں کے گھڑے ہوئے قصوں اور افسانوں کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی( یقولُ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔

بعد والی آیت میں کہا گیا ہے کہ وہ صرف اتنی بات پر ہی قناعت نہیں کرتے اور باوجود اس کے کہ وہ خود گمراہ ہیں ہمیشہ اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ حق کے متلاشی لوگوں کو اپنی طرح طرح کی زہر افشانیوں کے ذریعے اس راستے پر چلنے سے روک لیں لہٰذا وہ انھیں پیغمبر کے قریب جانے سے منع کرتے ہیں( وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ )

اور خود بھی اس سے دور دور ہی رہتے ہیں( وَیَنْاٴَوْنَ عَنْهُ ) (۲) ۔

وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جو شخص حق کے سامنے الجھے اور اس سے بیر رکھے اس نے خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے اور انجام کار قانون آفرینش کے مسلمہ اصول کے مطابق حق کا چہرہ باطل کے بادلوں اوٹ سے نمایا ہوجاتا ہے اور ”حق“ میں جو قوت جاذبہ پائی جاتی ہے اس سے وہ کامیاب ہوکر رہے گا اور باطل اس بے قدروقیمت چھاگ کی طرح جو پانی کے اوپر آجاتا ہے نابود ہوکررہے گا، اس بنا پر ان کی کوشش اورفعالیت ان کی اپنی ہی شکست پر انجام پذیر ہوگی اور وہ خود اپنے سوا اور کسی کو بھی ہلاک نہیں کریں گے لیکن ان میں اس حقیقت کو سمجھنے کی طاقت نہیں ہے( وَإِنْ یُهْلِکُونَ إِلاَّ اٴَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ) ۔

____________________

۱۔ اکنہ ”جمع“ ”کنان“بروزن”کتاب“پردہ کے معنی میں ہے،یا ہر وہ چیزجو چھپا دے اور”وقر“ کان کے بوجھل ہونے کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ینئون ”ناٴی “ کے مادہ سے ہے جو بروزن ”سعی“ ہے دوری اختیار کرنے کے معنی میں ہے ۔