تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31219
ڈاؤنلوڈ: 2811


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31219 / ڈاؤنلوڈ: 2811
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۲۹،۳۰،۳۱،۳۲

۲۹( وَقَالُوا إِنْ هِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ ) ۔

۳۰( وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُوا عَلَی رَبِّهِمْ قَالَ اٴَلَیْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَی وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ ) ۔

۳۱( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللّٰهِ حَتَّی إِذَا جَائَتْهُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا یَاحَسْرَتَنَا عَلَی مَا فَرَّطْنَا فِیهَا وَهُمْ یَحْمِلُونَ اٴَوْزَارَهُمْ عَلَی ظُهُورِهِمْ اٴَلاَسَاءَ مَا یَزِرُونَ ) ۔

۳۲( وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ) ۔

ترجمہ:

۲۹ ۔ انھوں نے کہا : اس دنیاوی زندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور ہم ہرگز دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے نہیں جائیں گے ۔

۳۰ ۔اگر تم انہیں اس وقت دیکھو جب وہ اپنے پروردگار (کی عدالت)کے سامنے کھڑے ہوں گے تو انھیں کہا جائے گا:کیا یہ حق نہیں ہے-؟تو وہ اس کے جواب میں کہیں گے:جی ہاں ،ہمارے پروردگار کی قسم(یہ حق ہے)،تو وہ کہے گا:جس بات کا تم انکار کیا کرتے تھے اس کی سزا میں اب عذاب کا مزہ چکھو ۔

۳۱ ۔جنھوں نے لقائے پروردگار کا انکار کیامسلمہ طور پر انہوں نے نقصان اٹھایا(اور یہ انکار ہمیشہ رہے گا)یہاں تک کہ قیامت آجائے گی تو وہ کہیں گے ہائے افسوس کہ ہم نے اس کے بارے میں کوتاہی کی،وہ اپنے گناہوں کا(بھاری بوجھ)اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوں گے اور کیسا برُا بوجھ ہے جو انھوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہوگا ۔

۳۲ ۔ اور دنیاوی زندگی سوائے کھیل کود کے اور کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو پرہیزگار ہیں ،کیا تم سوچتے نہیں ہو ۔

تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر

پہلی آیت کی تفسیرمیں دو احتمال ہیں ،ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم اور سخت قسم کے مشرکین کی گفتگو کے بعد ہونے والی حالت کی نشاندہی ہے جو قیامت کا منظر دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں اور تلافی کریں ، لیکن قرآن کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ پلٹ بھی جائیں تو نہ صرف یہ کہ تلافی کی فکر نہیں کریں گے اور اپنے کاموں کو جاری رکھیں گے بلکہ اصلا دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے اور قیامت ہی کا انکار کردیں گے اور بڑے تعجب کے ساتھ کہیں گے تو زندگی تو صرف یہ دنیاوی زندگی ہی ہے اور اب ہم کبھی دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے نہیں جائیں گئے( وَقَالُوا إِنْ هِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ ) (۱)

دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین کے ایک ایسے گروہ کے بارے میں جو معاد کا بالکل ہی انکار کرتے تھے اور یہ ایک جدا بحث بیان کر رہی ہے کیوں کہ مشرکین عرب میں ایک ایسی جماعت بھی تھی جو معادکا عقیدہ نہیں رکھتی تھی جب کہ بعض ایسے لوگ بھی تھے جو کسی نہ کسی طرح معاد پر ایمان رکھتے تھے ۔

بعد کی آیت میں قیامت کے دن ان کے انجام کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے قرآن یوں کہتا ہے: اگر تم اس وقت انھیں دیکھو کہ جب وہ اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا کیا یہ حق نہیں ہے( وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُوا عَلَی رَبِّهِمْ قَالَ اٴَلَیْسَ هَذَا بِالْحَقِّ ) تو وہ جواب میں کہیں گے: جی ہاں ! ہمارے پروردگار کی قسم یہ حق ہے( قَالُوا بَلَی وَرَبِّنَا ) ۔

دوبارہ ان سے کہا جائے گا: پس تم عذاب اور سزا کا مزہ چکھو، کیوں کہ تم اس کا انکار کیا کرتے تھے اور کفر کرتے تھے( قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ ) ۔

مسلمہ طور پر(پرور دگار کے سامنے کھڑے ہونا ) یہ نہیں ہے کہ خدا کوئی مکان رکھتا ہو بلکہ یہ اس کی سزا کے سامنے کھڑے ہونے کے معنی میں ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے یا یہ عدالت الٰہی میں حاضر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ نماز کے وقت انسان یہ کہتا ہے کہ میں خدا کے سامنے کھڑا ہوں ۔

بعد والی آیت میں معاد وقیامت کا انکار کرنے والوں کے نقصان اور گھاٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ لوگ جنھوں نے پرور دگار کی ملاقات کا انکار کیا ہے مسلمہ طور پر نقصان میں گرفتار ہے( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللّٰهِ ) ۔

جیسا کہ پہلے اشارتا بیان کیا جاچکا ہے پروردگار کی ملاقات سے مراد یاتو ملاقات معنوی اور ایمان شہودی(شہود باطنی)یا میدان قیامت اور اس کی جزا وسزا کے مناظر سے ملاقات ہے ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ انکار ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہے گا اور یہ صرف اس وقت تک ہوگا جب اچانک قیامت پربا ہوجائے اور وہ وحشتناک مناظر کا سامنا کریں اور اپنے اعمال کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، اس موقع پر ان کی فریاد بلند ہوگی : ہائے افسوس! ہم نے ایسے دن کے لئے کس قدرکوتاہی کی تھی( حَتَّی إِذَا جَائَتْهُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا یَاحَسْرَتَنَا عَلَی مَا فَرَّطْنَا فِیهَا ) ” ساعة“ سے مراد ہے قیامت کا دن، اور ”بغتة “ کا معنی ہے بطور ناگہانی اور اچانک کہ جس کے وقت کو خدا کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا، واقع ہوجائی گی اور قیامت کے دن کے لئے اس نام”ساعة“ کے انتخاب کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس گھڑی لوگوں کا حساب بڑی تیزی کے ساتھ انجام پائے گا اور یا یہ اس کے ناگہانی طور پر وقوع پذیر ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ لوگ عالم برزخ سے عالم قیامت کی طرف منتقل ہوجائیں گے ۔

”حسرت“ کا معنی ”کسی چیز پر افسوس کرنا“ ہے لیکن عرب جب زیادہ متاثر ہوتو خود حسرت کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ”یا حسرتنا“ گویا حسرت کی شدت و سختی اس قدر ہے جیسے وہ ایک موجود چیز کی شکل ہے میں اس کے سامنے مجسم کھڑی ہے ۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہ گناہوں کا بوجھ اپنے دوش پر لئے ہیں( وَهُمْ یَحْمِلُونَ اٴَوْزَارَهُمْ عَلَی ظُهُورِهِمْ ) ۔

”اوزار “ جمع ہے ”وزر“ کی جس کا معنی ہے سنگین بوجھ ، اور یہاں اس سے مراد گناہ ہے اور یہ آیت تجسم اعمال کی ایک دلیل بن سکتی ہے کیوں کہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذمہ داری اور جوابدہی کے بارکی سنگینی مراد ہو، کیوں کہ ذمہ داریوں کو ہمیشہ بھاری بوجھ سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔

اور آیت کے آخر میں فرمایا ہے کیسا برا بوجھ وہ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوں گے( اٴَلاَسَاءَ مَا یَزِرُونَ ) ۔

مندرجہ بالا آیت میں منکرین معاد کے خسارہ اور نقصان کی کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں اس بات کی دلیل واضح ہے کہ ان کے معاد پر ایمان رکھنا علاوہ اس کے کہ انسان کو ہمیشہ کی سعادت بخش زندگی کے لئے آمادہ کرتا ہے او ر اسے کمالات علمی وعملی کی تحصیل کی دعوت دیتا ہے، آلودگیوں اور گناہوں کے مقابلے میں انسان کو کنٹرول کرنے میں بھی گہرا اثر رکھتا ہے، ہم معاد سے مربوط مباحثہ میں انشاء اللہ انفرادی واجتماعی نظر سے اس کی اصلاحی اثر کا وضاحت سے بیان کریں گے ۔

اس کے بعد آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کی حیثیت بیان کرنے کے لئے یوں ارشاد ہوتا ہے:دنیاوی زندگی سوائے کھیل کود کے اور کچھ نہیں( وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْو ) ۔

اس بنا پر وہ لوگ جنھوں نے صرف دنیا سے دل باندھا ہوا ہے اور اس کے علاوہ اور کسی چیز کے نہ وہ خواہش مند ہی اور نہ ہی طلبگار ہیں درحقیقت یہ ایسے ہوس باز بچے ہیں کہ جنھوں نے عمر کا ایک حصہ کھیل کود میں گذار دیا ہے اور ہر چیزسے بے خبر رہے ہیں ۔

دنیاوی زندگی کو لہو ولعب سے تشبیہ اس وجہ سے دی گئی ہے کیوں کہ عام طور پر کھیل کود کے کام اندر سے خالی اور بے بنیاد ہوتے ہیں ، جو حقیقی زندگی کے تن سے دور ہیں ، نہ تو وہ شکست کھتاتے ہیں ،جنھون نے فی الحقیقت شکست کھائی ہے اور نہ ہی وہ چکست یافتہ ہوتے ہیں جنھوں نے بازی کو جیت لیا ہے کیوں کہ کھیل کے ختم ہونے پر ہر چیز اپنی جگہ لوٹ جاتے ہے ۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے ایک دوسرے کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور کھیل شروع کردیتے ہیں ایک کو”امیر“ اور دوسرے کو”وزیر“ ایک کو ”چور“ اور ایک کو”قافلہ“ بناتے ہیں ، لیکن تھوڑی سی دیر نہیں گزرتی کہ نہ کوئی امیر رہتا ہے نہ وزیر، نہ چور رہتا اور نہ قافلہ۔

یا نمائش جو کھیل کود کے طور پر انجام پاتی ہے ان میں جنگ، عشق یا دشمنی کے مناظر مجسم ہوتے ہیں لیکن گھڑی بھر کے بعد کسی چیز کا کوئی پتہ نہیں ہوتا ۔

دنیا ایک ڈرامے کی طرح ہی ہے کہ جس کے کردار، اس دنیا کے لوگ ہیں اور کبھی یہ بچکانہ کھیل ہمارے عقلمندوں اور فہمیدہ لوگوں تک کوبھی اپنے میں مشغول رکھتا ہے لیکن بہت جلد ی کھیل اور ڈرامہ ختم ہونے کا اعلان ہوجاتا ہے ۔

”لعب “ (بروزن لزج)اصل میں مادہ لعاب (غبار) لعاب دہن اور رالوں کے معنی میں ہے جو لبوں سے گرتی ہیں اور یہ جو کھیل کو لعب کہتے ہیں اس بنا پر کہ وہ بھی منہ سے رال کے گرنے کی طرح ہے، جو بغیر کسی مقصد انجام پاتا ہے ۔

اس کے بعد آخرت کی زندگی کا اس سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: آخرت کا گھر متقی لوگوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم فکر نہیں کرتے اور عقل سے کام نہیں لیتے ہو( وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ) ۔

کیوں کہ وہ فنا نہ ہونے والی اور ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے ، جس کا جہاں بہت وسیع ہے، اور جس کی سطح بہت ہی اونچی ہے، وہ ایک ایسے عالم میں ہے جس کا تعلق حقیقت کے ساتھ ہے نہ کہ مجاز کے ساتھ، وہ ایک واقعیت ہے خیال نہیں ہے، وہ ایک اسیا جہان ہے جس کی نعمتیں درد ورنج کے ساتھ ملی ہوئی نہیں ہے اور سراسر خالی نعمتیں ہی نعمتیں ہے جن میں دکھ تکلیف نہیں ہے ۔

چونکہ ان واقعات کو صحیح طور پر سمجھنا، دنیا کے فریب دینے والے مظاہر کو پیش نظر رکھتے ہوئے، غور وفکر کرنے والے لوگوں کے سوا دوسروں کے لئے ممکن نہیں ہے لہٰذا آیت کے آخر میں روئے سخن ایسے ہی افراد کی طرف ہے ۔

ایک حدیث میں جو ہشام بن حکم کے واسطے سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے آپ نے یوں فرمایا ہے:

اے ہشام! خدا نے عقلمند لوگوں کو نصیحت کی ہے اور آخرت کے لئے تعلق رکھنے والا بنایا ہے ، اور کہا ہے کہ دنیاوی زندگی سوائے کھیل کود کے اور کچھ نہیں ہے اور دار آخرت متقی اور پرہیزگار لوگوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم اپنی عقل اور فکر کو کام میں نہیں لاتے ہو ۔

شاید یہ بات ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہو کہ ان آیات کا ہدف اور اصل مقصد مادی دنیا کے مظاہر کے ساتھ دل لگانے اور وابستگی اختیار کرنے اور اس کے آخری مقصد کو بھلا دینے کے خلاف جہاد ہے، ورنہ وہ لوگ جنھوں نے دنیا کوحصول سعادت کا وسیلہ قرار دیا ہے وہ حقیقت میں آخرت کے متلاشی ہیں نہ کہ دنیا کے ۔

____________________

۱۔ اس احتمال کے مطابق ”وقالوا“عطف ہے ”عادوا“ اور اس احتمال کو تفسیر” المنار “کے مولف نے اختیار کیا ہے ۔

۱۔ نور الثقلین،جلد ۱،صفحہ ۷۱۱-

آیات ۳۳،۳۴

۳۳( قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِی یَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَیُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللّٰهِ یَجْحَدُونَ ) ۔

۳۴( وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوا عَلَی مَا کُذِّبُوا وَاٴُوذُوا حَتَّی اٴَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰهِ وَلَقَدْ جَائَکَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِینَ ) ۔

ترجمہ:

۳۳ ۔ہم جانتے ہیں کہ تجھے ان لوگوں کی گفتگو غمگین کردیتی ہے (مگر تم غم نہ کھاؤ اور جان لو) کہ وہ تمھاری تکذیب نہیں کرتے بلکہ وہ ظالم تو آیات خدا کا انکار کرتے ہیں ۔

۳۴ ۔تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر انھوں نے ان تکذیبو ں کے مقابلہ میں صبر کیا ہے او استقامت سے کام لیا ہے اور (اس راہ میں ) انھوں نے رنج وتکلیف اٹھائی ، یہاں تک کہ ہماری مدد ان تک آن پہنچی (تم بھی اسی طرح رہو اور یہ اللہ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے) اور کوئی چیز اللہ کی سنتوں بدل نہیں سکتی اور تمھیں گذشتہ پیغمبروں کی خبریں تو پہنچ ہی گئی ہیں ۔

مصلحین کے راستے میں ہمیشہ مشکلات رہی ہیں

اس میں شک نہی ہے کہ پیغمبر اپنی منطقی گفتگو اور فکری مبارزات میں جو وہ ہٹ دھرم اور سخت مشرکین کے ساتھ رہتے تھے بعض اوقات ان کی ہٹ دھرمی سے اور اپنی باتوں سے ان کی روح میں اثر نہ ہونے سے اور بعض اوقات ان کی ان غیر مناسب نسبتوں سے وہ جو حضرت کی طرف دیتے تھے غمگین اور اندوہناک ہوجاتے تھے، خدا وند تعالیٰ بارہا قرآن مجید میں اپنے پیغمبر کو ایسے موقع پر تسلی اور دلاسا دیا کرتا تھا تاکہ آنحضرت زیادہ گرمجوشی اور صبر واستقامت کے ساتھ اپنے پروگرام میں مشغول رہیں ، انھیں میں سے مندرجہ بالا ٓیات بھی ہیں ، پہلی آیت میں فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تجھے محزون ومغموم کردیتی ہیں( قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَیَحْزُنُکَ الّذِی یَقُولُونَ ) ۔

لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہےے کہ وہ تمھاری تکذیب نہیں کرتے وہ تو درحقیقت ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں ، لہٰذا ان کے اصل مخالف تو حقیقت میں ہم ہیں نہ کہ تم( فَإِنَّهُمْ لاَیُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللّٰهِ یَجْحَدُونَ ) ۔

اور اس بات کی نظیر ہمارے درمیان گفتگو میں بھی نظر آتی ہے جب کہ بعض اوقات بزرگ تر شخصیت اپنے نمائندہ کے ناراحت ہونے کے وقت اس سے کہتی ہے کہ تم کوئی غم نہ کرو یہ اصل میں تو انھوں نے میری مخالفت کی ہے، لہٰذا اگر کوئی مشکل پیدا ہوگی تو وہ میرے لئے ہوگی نہ کہ تمھارے لئے اور اس طرح سے وہ شخصیت اس کی تسلی وتشفی کے اسباب مہیا کرتی ہے ۔

زیر نظر آیت میں مفسرین نے کچھ احتمالات بھی پیش کئے ہیں ، لیکن ظاہر مفہوم وہی ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ۔

یہ احتمال بھی ایک جہت سے قابل ملاحظہ ہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ :تیرے مخالفین حقیقت میں تو تیرے صدق ودرستی کے معتقد ہیں اور تیری دعوت کے حق ہونے میں شک نہیں رکھتے اگر چہ ان کے منافع خطرے میں پڑ جانے کا خوف ان کے لئے حق کو تسلیم کرنے میں مانع ہوجاتا ہے یا تعصب اور ہٹ دھر می اسے قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔

تاریخ اسلامی سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سخت ترین دشمن تک باطنا آپ کی صداقت اور راست بازی سے معتقد تھے، ان میں سے ایک یہ واقعہ ہے کہ ایک دن ابو جہل نے پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ملاقات کی اورآپ سے مصافحہ کیا ، تو کسی نے اس پر اعتراض کیا: تم اس شخص سے مصافحہ کیوں کررہے ہو ، اس نے کہا: خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ پیغمبر ہیں لیکن کیا ہم کسی زمانے میں ”عبد مناف“ کے تابع اور پیرو رہے ہیں ! یعنی اس کی دعوت کو قبول کرنا اس بات کا سبب بن جائے گا کہ ہم ان کے قبیلہ کے تابع ہوجائےں (اور یہ بھی تاریخوں میں لکھا ہے کہ) ایک رات ابو جہل ، ابوسفیان اور اخنس بن شریق، جو مشرکین مکہ کے سردار اور رئیس تھے، میں سے باہر ہر ایک ایسے مخفی طریقے سے کہ کوئی شخص ان کی طرف متوجہ نہ ہو، یہاں تک یہ تینوں افراد بھی ایک دوسرے کی حالت سے باخبر نہیں تھے پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ارشادات سننے کے لئے ایک گوشے میں چھپ کر بیٹھ گئے اور صبح تک آیت قرآن کی تلاوت سنتے رہے، جب صبح کی سفیدی نمودار ہوئی تو وہاں سے چلتے بنے لیکن لوٹتے وقت راستہ میں ایک دوسرے کا آمناسامنا ہوگیا تو ہر ایک اپنا عذر دوسرے سے بیان کرنے لگا، پھر انھوں نے عہد کیا کہ اب دوبارہ یہ کام نہیں کریں گے کیوں کہ اگر قریش کے جوانوں کو اس بات کی خبر ہوگئی تو یہ بات ان کے محمد کی طرف جھکاؤ کا سبب بن جائے گی۔

دوسر ی رات اس گمان سے کہ اس کے ساتھی اس رات نہیں آئے گے ہر ایک آیت قرآن سننے کی غرض سے پیغمبر کے گھر کے قریب یا مسلمانوں کے مجمع کے قریب آگیا لیکن صبح ہوتے ہیں پھر ان کا رازایک دوسرے پر فاش ہوگیا لیکن اتفاق کی بات ہے کہ یہ کام تیسری رات پھر دہرا یا گیا، جب صبح ہوئی تو اخنس بن شریق اپنا عصا لئے ہوئے ابو سفیان کی تلاش میں نکلا اور اس سے کہنے لگا: مجھے صاف ،صاف بتا کہ تمھارا ان باتوں کے بارے میں جو تم نے محمد سے سنی ہیں کیا عقیدہ ہے، تو وہ کہنے لگا :خدا کی قسم کچھ چیزیں تو میں نے ایسی سنی ہیں جنھیں میں نے اچھی طرح جان لیا ہے اور ان کا مقصود و مضمون اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن کچھ ایسی آیات بھی سنی ہیں جن کا معنی ومقصد میری سمجھ میں نہیں آیا، اخنس نے کہا خدا کی قسم میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں اس کے بعد وہ اٹھا اور ابو جہل کی تلاش میں گیا اور یہی سوال اس سے کیا کہ ان باتوں کے بارے میں جو تم نے محمد سے سنی ہیں تمھاری کیا رائے ہے اس نے کہاتو کیا سننا چاہتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم اور اولاد عبد مناف سرداری کے حصول میں ایک دوسرے کے رقیب ہیں انھوں نے لوگوں کو کھانا کھلایا تو ہم نے بھی اس غرض سے کہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں کھانا کھلایا،انھوں نے سواریاں بخشی تو ہم نے بھی سواریاں بخشی، انھوں نے اور دوسری عنایات کیں تو ہم نے بھی اور دوسری عنایات کیں تو اس طرح سے ہم ایک دوسرے کے دوش بدوش تھے، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں پیغمبر ہے کہ جس پر آسمانی وحی نازل ہوتی ہے لیکن اب ہم اس امر میں ان کی رقابت کس طرح کرسکتے ہیں( واللّٰه لا نومن به ابدا ولانصدقه ) خدا کی قسم ہم کبھی بھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس کہ تصدیق کریں گے،اخنس کھڑا ہوگیا اور اس کی مجلس سے نکل گیا ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن”اخنس بن شریق“ کا ابو جہل سے آمنا سامنا ہویگا جب کہ وہاں پر اور کوئی دوسرا آدمی موجود نہیں تھا، تو اخنس نے اس سے کہا: سچ بتا محمد سچا ہے یا جھوٹا، قریش میں سے کوئی شخص سوا میرے وتیرے یہاں موجود نہیں ہے جو ہماری باتوں کو سنے ۔

ابو جہل نے کہا: وائے ہو تجھ پر خدا کی قسم ! وہ میرے عقیدے میں سچ کہتا ہے اور اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن اگر یہ اس بات کی بنا ہوجائے کہ محمد کا خاندان سب چیزوں کو اپنے قبضہ میں کرلے،حج کا پرچم، حاجیوں کو پانی پلانا، کعبہ کی پردہ داری اورمقام نبوت تو باقی قریش کے لئے کیا رہ جائے گا(۱) ۔

ان روایات اور انھیں جیسی دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بہت سے سخت ترین دشمن باطنا آپ کی سچائی کے معترف تھے لیکن قبائلی رقابتیں اور اسی قسم کی دوسری باتیں انھیں اجازت نہیں دیتی تھیں یا وہ اس بات کی جرات نہیں رکھتے تھے کہ باقاعدہ ایمان لے آئیں ۔

البتہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قسم کا باطنی اعتقاد جب تک روح تسلیم کے ساتھ نہ ملا ہو کسی قسم کا اثر نہیں رکھتا اور انسان کو سچے مومنین کے زمرہ میں قرار نہیں دیتا ۔

بعد والی آیات میں ، اس تسلی کی تکمیل کے لئے گذشتہ انبیاء کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:یہ امر صرف تیری ذات کے ساتھ ہی مختص نہیں ہے بلکہ تجھ سے پہلے جتنے رسول گذرے ہیں ان کی بھی اسی طرح سے تکذیب کی جاتی تھی( وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ ) ۔

لیکن ان انبیاء نے ان تکذیبوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں پامردی او استقامت دکھائی یہاں تک کہ ہماری مدد ونصرت ان کو پہنچی اور آخرکار وہ کامیاب ہوئے

( فَصَبَرُوا عَلَی مَا کُذِّبُوا وَاٴُوذُوا حَتَّی اٴَتَاهُمْ نَصْرُنَا ) ۔

اور یہ ایک سنت الٰہی ہے کہ جسے کوئی چیز دیگرگوں نہیں کرسکتی( وَلاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰهِ ) ۔

اس بنا پر تم بھی ان تکذیبوں اور آزاروں اور سخت اور ہٹ دھرم ودشمنوں کے حملوں کے مقابلے میں صبر واستقامت سے کام لو اور یہ جان لو کہ اسی سنت کے مطابق خدا وند تعالیٰ کی امداد اور پروردگار عالم کے بے انتہا الطاف تمھیں حاصل ہوں گے اور آخر کار تم بھی ان سب پر کامیابی حاصل کروگے اور وہ خبریں جو گذشتہ پیغمبروں کے حالات کی تجھ تک پہنچی ہیں کہ انھوں نے مخالفتوں اور شدائد کے مقابلے میں کس طرح صبر وتحمل کیا اور کامیاب ہوئے، وہ تمھارے لئے ایک واضح وروشن گواہ ہیں( وَلَقَدْ جَائَکَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِینَ ) ۔

در حقیت اوپر والی آیت ایک بنیادی کلیہ کی طرف اشارہ کررہی ہے اور وہ کلیہ یہ ہے کہ ہمیشہ معاشرے کے صالح رہنما جو پست افکار اور معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط رسموں اور خرافات کے مقابلے میں اصلاحی پروگرام پیش کرنے اور صحیح راہ دکھانے کے لئے قیام کرتے ہیں ، انھیں ایسے منافع خور اور دروغ گو لوگوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ جن کے منافع اس جدید دین ومذہب کی ترقی سے خطرے میں پڑ جاتے تھے ۔

وہ اپنے برےامقاصد کی پیش رفت کے لئے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور تمام حربے مثلا تکذیب کا حربہ، تہمت کا حربہ، محاصرہ اجتماعی کا حربہ،تکلیفیں اور دکھ پہنچانے کا حربہ، قتل کرنے اور لوٹ ار کرنے کا حربہ غرضیکہ وہ ہر وسیلے کو کام میں لاتے تھے لیکن حقیقت اپنی اس جزب وکشش اور گہرائی کے ذریعہ جو اس کے اندر ہوتی ہے ۔سنت الٰہی کے مطابق ۔ آخر کار اپنا کام کرے گی اور راستے کے یہ تمام کانٹے ایک ایک کر کے سب ختم ہوجائیں گے ، لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اس کامیابی کی بنیادی شرط بردباری، مقاومت، پامردی اور استقامت ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ مدرجہ بالا آیت میں سنن کو ”کلمات اللّٰہ “ سے تعبیر کیا گیا ہے، کیوں کہ”کلم وکلام“ در اصل ایک ایسی تاثیر کے معنی میں ہے جو آنکھ یا کان سے محسوس ہوسکے ”کلم“ تاثیرات عینی کے معنی میں ہے اور ”کلام“ ان تاثیرا ت کو کہتے ہیں جو کانوں سے محسوس کئے جاتے ہیں ، اس کے بعد اس میں وسعت پیدا ہوگئی اور اب ”الفاظ“ کے علاوہ معانی پر بھی ”کلمہ“ بولا جانے لگا ہے، یہاں تک کہ ”عقیدہ“، ”مکتب“ اور ”روش وسنت“ پر بھی بولا جاتا ہے ۔

____________________

۱۔ مندرجہ بالا روایات تفسیر المنار اور مجمع البیان سے اس آیت کے ذیل میں بیان کردہ تفسیر سے لی گئی ہیں -

آیات ۳۵،۳۶

۳۵ و( إِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ اٴَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاٴَرْضِ اٴَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاٴْتِیَهُمْ بِآیَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَی الْهُدَی فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْجَاهِلِینَ ) ۔

۳۶( إِنَّمَا یَسْتَجِیبُ الَّذِینَ یَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَی یَبْعَثُهُمْ اللّٰهُ ثُمَّ إِلَیْهِ یُرْجَعُونَ ) ۔

ترجمہ:

۳۵ ۔ اور اگر تم پر ان کا اعراض(روگردانی) کرنا گراں ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو نقب لگا لو یا آسمان میں سیڑھی لگا لو( اور زمین و آسمان کی گہرائیوں میں جستجو کرو) تاکہ کوئی آیت(یا دوسری کوئی اور نشانی ) ان کے لئے لا سکو( لیکن یہ جان لو کہ یہ ہٹ دھرم پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے)لیکن اگر خدا چاہے تو انھیں (جبرا) ہدایت پر جمع کرسکتا ہے( لیکن جبری ہدایت کا کیا فائدہ ہے) پس تم ہرگز جاہلوں میں سے نہ ہونا ۔

۳۶ ۔صرف وہ لوگ (تیری دعوت) قبول کرتے ہیں جو سننے والے کان رکھتے ہیں ،لیکن مردے (اور وہ لوگ جو روح انسانی ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں ایمان نہیں لائیں گے اور ) خدا انھیں (قیامت کے دن) مبعوث کرے گا وہ اس کی طرف پلٹ جائیں گے ۔

زندہ نما مردے

یہ دونوں آیات ان آیات کا بقیہ ہیں جو پیغمبر کو تسلی کے سلسلے میں گذشتہ آیات میں گزرچکی ہیں ، چونکہ فکر وروح پیغمبر مشرکین کی گمراہی اور ہٹ دھرمی سے زیادہ دکھی اور پریشان تھی اور آپ چاہتے تھے کہ جیسے بھی ہو سکے انھیں مومنین کی صف میں کھینچ لائیں ، خدا فرماتا ہے: اگر ان کا اعراض گردانی تیرے لئے زیادہ سخت اور گراں ہے تو اگر تم سے ہو سکے تو زمین کو پھاڑ ڈالو اور اس میں نقب لگالو اور جستجو کرو، یا آسمان پر کوئی سیڑھی لگالو اور اطراف آسمان کی بھی جستجو کرو اور ان کے لئے کوئی اور آیت یا کوئی دوسری نشانی تلاش کرکے لاسکو تو لے آؤ لیکن یہ جان لو کہ وہ اس قدر ہٹ دھرم ہیں کہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے( وَإِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ اٴَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاٴَرْضِ اٴَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاٴْتِیَهُمْ بِآیَةٍ ) (۱)

”نفق“ اصل میں نقب اور زمین کے نیچے کے راستوں کے معنی میں اور اگر منافق کو منافق کہاجاتا ہے تو وہ بھی اسی مناسبت کی وجہ ہے و کہ وہ ظاہری راہ وروشن کے علاوہ اپنے لئے ایک مخفی راہ وروش بھی رکھتا ہے اور ”سلم“ سیڑھی کے معنی میں ہے ۔

خدا وند عالم اس جملہ کے ذریعہ اپنے پیغمبر کو سمجھا رہا ہے کہ تمھاری تعلیمات ،دعوت اور سعی وکوشش میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے بلکہ نقص وعیب ان کی طرف سے ہے انھوں نے یہ پختہ ارادہ کررکھا ہے کہ وہ حق کو قبول نہیں کریں گے ، لہٰذا کسی قسم کی کوئی کوشش ان پر اثر نہیں کرتی تو تن پریشان نہ ہوجاؤ۔

لیکن اس بنا پر کہ کسی کو یہ تو ہم نہ ہوجائے ہ خدا میں یہ قدرت نہیں ہے کہ وہ ان سے اپنی بات کو تسلیم کراسکے بلا فاصلہ فرما تا ہے : اگر خدا چاہے تو وہ ان سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا ہے، یعنی وہ تیری دعوت کے سامنے ان کا سرتسلیم کراکے انھیں حق اور ایمان کا اعتراف کرانے پر آمادہ کر سکتا ہے

( وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَی الْهُدَی ) ۔

لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کا جبری ایمان بے فائدہ ہے، انسان کی فطرت میں حصول کمال کے لئے اختیار اورآزادی ارادہ، ہی بنیاد ہوتے ہیں ، یہ آزادی ارادہ ہی ہے کہ جس کی وجہ سے مومن کی کافر سے ،نیک کی بد سے ، امانتدار کی خائن سے، سچ کی جھوٹے سے قیمت پہچانی جاتی ہے، ورنہ جبری ایمان وتقوی سے اچھے اور برے کے درمیان کسی قسم کا فرق باقی نہیں رہے گا اور یہ مفاہیم جبر کی صورت میں اپنی قدروقیمت بالکل کھو بیٹھتے ہیں ۔

اس کے بعدہے : یہ بات ہم نے تجھ سے اس لئے کہی ہے کہ کہیں تو جاہلوں میں سے نہ ہوجائے ، یعنی بیتاب نہ ہو، صبر واستقامت کو ہاتھ سے نہ دے اور ان کے کفر وشرک پر اتنا دکھی نہ ہو ،اور یہ جان لو کہ راستہ تو وہی ہے کہ جس پر تم چل رہے ہو( فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْجَاهِلِینَ ) ۔

اس میں شک نہیں ہے کہ پیغمبر ان حقائق کو خوب اچھی طرح جانتے تھے لیکن خدا وند تعالیٰ یاددہانی اور تسلی کے طور پر اپنے پیغمبر کے لئے ان الفاظ کو دہرارہا ہے ، اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کہ ہم کسی ایسے شخص کو جس کا بیٹا مرگیا ہو یوں کہتے ہیں کہ: غم نہ کھاؤ، دنیا فنا کی جگہ ہے، سبھی اسی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، اس کے علاوہ تم تو ابھی جوان ہو ، تمھاری اور بھی اولاد ہوجائے گی، لہٰذا زیادہ بیتاب نہ ہو ۔

مسلمہ طور پر دار دنیا کا فانی ہونا ، یا اس کا جوان ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو اس پر پوشیدہ ہو، یہ تمام باتیں اس سے صرف یاددہانی کے طور پر کہی جاتی ہے ۔

باوجود اس کے کہ اوپر والی آیت جبر کی نفی کرنے والی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے، بعض مفسرین جیسے فخرالدین رازی نے اسے مسلک جبر کی دلیلوں میں سے ایک دلیل سمجھا ہےاور وہ لفظ( ولو شاء ) کا سہارا لیتے ہوئے کہتا ہے: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نہیں چاہتا ہے کہ کفار ایمان لائیں ۔

(حالانکہ وہ اس سے ) غافل ہیں کہ مشیت وارادہ اوپر والی آیت میں مشیت وارادہ اجباری ہے یعنی خدا یہ نہیں چاہتا کہ لوگ جبر سے اور زبردستی ایمان لائیں بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنی رضا ورغبت اور اپنے ارادہ سے باخوشی ایمان لائیں ، اس بنا پر یہ آیت جبریوں کے عقیدہ کی نفی پر واضح گواہ ہے ۔

بعد والی آیت میں اس موضوع کی تکمیل اور پیغمبر کی مزید دلجوئی اور تسلی کے لئے کہتا ہے کہ جوط لوگ سننے والے کان رکھتے ہیں وہ تیری دعوت کو قبل کرتے ہیں او اس پر لبیک کہتے ہیں( إِنَّمَا یَسْتَجِیبُ الَّذِینَ یَسْمَعُونَ )

لیکن وہ لوگ جو عملا مردوں کی صف میں شامل ہیں وہ ایمان نہیں لاتے یہاں تک کہ وہ خدا انھیں قیامت کے دن اٹھائے اور وہ اس کی بارگاہ میں لوٹیں

( وَالْمَوْتَی یَبْعَثُهُمْ اللّٰهُ ثُمَّ إِلَیْهِ یُرْجَعُونَ ) (۲)

وہ ایسا دن ہے کہ قیامت کے مناظر دیکھ کر وہ ایمان لے آئیں گے لیکن ان کا اس وقت ایمان لانا انھیں کویہ فائدہ نہ دے گا کیوں کہ یہ عظیم منظر دیکھ کر جو لوگ ایامن لائیں گے ان کا یہ ایمان ایک قسم کا اضطرابی ایمان ہوگا ۔

شاید اس بات کی وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو ”موتی“ (مردے) سے مراد اوپو والی آیت میں جسمانی طور پر مردے نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد باطنی ومعنوی مردے ہیں کیوں کہ ہم دو قسم کی موت وحیات رکھتے ہیں ، ایک حیات وموت مادی اور دوسری موت وحیات معنوی ، اسی طرح شنوائی اور بینائی بھی دو قسم کی ہیں ایک مادی اور دوسری معنوی، اسی دلیل سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایسے اشخاص کے بارے میں کہ جو آنکھیں بھی رکھتے ہیں ،کان بھی رکھتے ہیں یا زندہ وسالم تو ہیں لیکن وہ حقائق کو نہیں سمجھتے، کہتے ہیں کہ وہ اندھے بہرے ہیں یا بالکل مردہ ہیں ، کیوں کہ جو ردعمل ایک بینا و شنوا یا ایک زندہ انسان سے ہونا چاہئےے وہ حقائق کے سامنے نہیں دکھاتے، قرآن مجید میں ایسی تعبےرات کثرت سے نظر آتی ہے اور ان میں ایک خاص کشش پائی جاتی ہے بلکہ قرآن حیات مادی اور ظاہری زندگی کو، جس کی نشانی صرف کھانا، سونا اور سانس لینا ہے، کچھ اہمیت نہیں وہ ہمیشہ حیات معنوی وانسانی پر جو ذمہ داری وجوابدہی اور احساس ودرد اور بیداری وآگاہی کے ساتھ ملی ہوئی ہو، انحصار کرتا ہے ۔

اس نکتہ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بینائی وشنوائی اور معنوی موت خود ان کی اپنی وجہ سے ہے، وہ خود ہی وہ لوگ ہیں کہ جو بار بار گناہ کرنے اور اس پر اصرار اور ہٹ دھرمی کرنے کے سبب سے اس مرحلہ تک پہنچ جاتے ہیں کیوں کہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ اگر کوئی انسان ایک مدت تک اپنی آنکھ کو بند کئے رکھے تو وہ آہستہ آہستہ اپنی بینائی اور نظر کو گوا بیٹھے گا اور شاید ایک روز بالکل اندھا ہوجائے، جو اشخاص اپنے دل کی آنکھوں کو حقائق کی طرف سے بند کرلے تو وہ تدریجا اپنی معنوی بصارت کی قوت کوزائل کردے گا ۔

____________________

۱۔حقیقت میں ”ان استطعت “ کا جملہ شرطیہ ہے اور اس کی جزا محذوف ہے اور اس کی تقدیر اس طرح ہے”ان استطعت ---فافعل ولٰکِنَّهم لایومنون “۔

۲۔ ترکیب کی نظر سے ”الموتی“ مبتدا ہے اور ”یبعثهم اللّٰه “ اس کی خبر ہے اور یہ جو کہتا ہے کہ وہ مردوں کو مبعوث کرے گا اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی قسم کی تبدیلی ان کے حالات میں پیدا نہیں ہوگی سوائے اس کے کہ وہ قیامت میں مبعوث ہوں گے اور حقائق کو دیکھیں گے ۔