تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31230
ڈاؤنلوڈ: 2813


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31230 / ڈاؤنلوڈ: 2813
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیت ۳۷

۳۷( وَقَالُوا لَوْلاَنُزِّلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلَی اٴَنْ یُنَزِّلَ آیَةً وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُون ) ۔

ترجمہ:

۳۷ ۔ اور انھوں نے کہا کہ کوئی نشانی( اور معجزہ) اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر کیوں نازل نہیں ہوتا، تم کہہ دو کہ خدا وند تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی نازل کرے لیکن ان میں سے اکثر کو اس کا علم نہیں ہے ۔

بہانہ جوئی

اس آیت میں مشرکین کی بہانہ جوئی میں سے ایک بہانہ جوئی بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ جب سرداران قریش میں سے کچھ قرآن کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تو پیغمبر سے کہنے لگے کہ ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر تم سچ کہتے ہو تو عصا ئے موسیٰ(علیه السلام) اور ناقہ صالح(علیه السلام) جیسے معجزات ہمارے لئے لے آؤ، قرآن اس بارے میں کہتا ہے کہ انھوں نے کہا کہ کوئی نشانی اور معجزہ اس کے پرور دگار کی طرف سے اس پر کیوں نازل نہیں ہوا( وَقَالُوا لَوْلاَنُزِّلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّه ) ۔

یہ بات واضح ہے کہ وہ یہ تجویز حقیقت کی تلاش کے لئے پیش نہیں کرتے تھے کیوں کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم ان کے لئے کافی مقدار میں معجزات لاچکے تھے اور اگر قرآن کے علاوہ جو مضامین عالیہ پر مشتمل ہیں ، آپ کے پاس کوئی معجزہ نہ بھی ہوتا تو وہی قرآن جو انھیں کئی آیات میں باقاعدہ مقابلے کی دعوت دے چکا تھا اور اصطلاح کے مطابق انھیں چیلینج کرچکا تھا، وہی آپ کی نبوت کے اثبات کے لئے کا فی تھا لیکن یہ ابوالہوس بہانہ جو ایک طرف سے یہ چاہتے تھے کہ کہ قرآن کی تحقیر کریں اور دوسری طرف سے پیغمبر کی دعوت قبول کرنے سے روگردانہ کرے، لہٰذا پے درپے نئے سے نئے معجزہ کی درخواست کرتے تھے اور مسلمہ طور پر اگر پیغمبر ان کی درخواست کو تسلیم بھی کرلیتے تو ”ھذا سحر مبین“ کہہ کر سب ان کا انکار کردیتے، جیسا کہ قرآن کی دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔

لہٰذا قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: خداوند تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی ایسی نشانی اور معجزہ (کہ جس کا تم مطالبہ کررہے ہو) اپنے پیغمبر پر نازل کرے( قُلْ إِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلَی اٴَنْ یُنَزِّلَ آیَةً ) لیکن اس میں ایک ایسا اشکال ہے جس سے تم بے خبر ہو اور وہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کے تقاضوں پر جو تم ہٹ دھرمی کی بنا پر کرتے ہو تمھاری بات مان لی جائے اور تم پھر بھی ایمان نہ لاؤ تو تم سب کے سب خداوند تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوکر نابود ہوجاؤ گے ، کیوں کہ پروردگار عالم کی بارگاہ اقدس میں اور اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی آیات ومعجزات کی انتہائی بے حرمتی ہے لہٰذا آیت کے آخر میں فرما تا ہے: لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں( وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُون ) ۔

ایک اشکال اور اس کا جواب

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے بعض مخالفین اسلام نے اس آیت کو دستاویز قرار دیتے ہوئے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے پاس کائی معجزہ نہیں تھا کیوں کہ جس وقت کفار ان سے معجزہ دکھانے کا تقاضا کیا کرت تھے تو ان سے اتنا کہنے پر ہی قناعت کیا کرتے تھے کہ خدا ہی ایسی چیزوں پر قدرت رکھتا ہے لیکن تمھاری اکثریت نہیں جانتی، اتفاق کی بات یہ ہے کہ متاخرین میں سے بعض لکھنے والوں نے بھی یہی پرانا افسانہ دہرایا ہے اور اپنی تحریروں میں اسی پرانے اعتراض کو دوبارہ زندہ کیا ہے ۔

جوابا عرض ہے کہ:

پہلی بات تو یہ کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے قبل وبعد کی آیات کا ٹھیک طور پر مطالعہ نہیں کیا ہے، اور یہ غور نہیں کیا کہ یہاں پر ان ہٹ دھرم لوگوں کے متعلق گفتگو ہورہی ہے جو کسی طرح بھی حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، اب اگر پیغمبر نے ان کے تقاضا کو پورا نہیں کیا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی، ورنہ قرآن میں یہ کہاں ہے کہ حق کی جستجو اور حق کو طلب کرنے والے افراد نے پیغمبر سے معجزہ کا تقاضاکیا ہو اور آپ نے ان کی خواہش کو رد کردیا ہو، اسی سورہ انعام کی آیہ ۱۱۱ میں اسی قسم کی ”ہٹ دھرم “افراد کے سلسلے میں ہے:

( وَلَوْ اٴَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیهِمْ الْمَلاَئِکَةَ وَکَلَّمَهُمْ الْمَوْتَی وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَلَکِناٴَکْثَرَهُمْ یَجْهَلُون )(۱)

دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے یہ مطالبہ سرداران قریش کی ایک جماعت کی طرف سے تھا اور انھوں نے قرآن کریم کی تحقیر اور اس سے بے پرواہی برتتے ہوئے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا اور یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم ایسے تقاضوں کے سامنے جن کا سرچشمہ ایسے اسباب ہوں سر نہیں جھکا سکتے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں انھوں نے گویا قرآن کریم کی باقی تمام آیات کو اپنی نگاہ سے دور رکھا ہے کہ کس طرح قرآن نے خود ایک جاودانہ معجزہ کے طور پر اپنا تعارف کروایا ہے اور بارہا مخالفین کو مقابلے کی دعوت دیتا رہا ہے اور ان کے ضعف وناتوانی کو آشکار کرچکا ہے ۔

معترضین نے سورہ اسراء کی پہلی آیت کو بھی بھلا دیا ہے جو صریحا کہتی ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ یہ بات باور نہیں کی جاسکتی کہ قرآن انبیاء ومرسلین کے معجزات خارق عادات سے پر ہو اور پیغمبر اسلام کہیں کہ میں تمام انبیاء کا خاتم ہوں ، سب سے افضل وبر تو ہوں اور میرا دین بالاترین دین ہے لیکن حق کے متلاشیوں کے لئے کمترین معجزہ بھی اپنی طرف سے نہ دکھا سکے، کیا اس صورت میں غیر جانبدار حقیقت طلب افراد کے لئے اس کی دعوت میں نقطہ ابہام پیدا نہیں ہوگا ۔

اگر ان کے پاس کوئی معجزہ نہ ہوتا تو ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ دوسرے انبیاء کے معجزات کا بالکل ہی نام تک نہ لیتے تاکہ وہ اپنے پروگرام کی توجیہ کرسکیں اور اپنے اوپر کئے جانے والے اعتراضات کے راستوں کو بند کردیں ، اور یہ باے کہ وہ برملا کھلے دل کے ساتھ پے در پے دوسروں کے معجزات بیان کررہے ہیں اور موسیٰ (علیه السلام) بن عمران (علیه السلام)، عیسیٰ (علیه السلام) بن مریم (علیه السلام) ، ابراہیم (علیه السلام) ،صالح (علیه السلام) او نوح (علیه السلام) کے خارق عادت کام اور معجزات کو ایک ایک کرکے بیان کرتے چلے جارہے ہیں یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اپنے معجزات کی طرف سے کامل مطمئن تھے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام، معتبر روایات اور نہج البلاغہ میں پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مختلف قسم کے معجزات نقل ہوئے ہیں کہ جن کا مجموعہ حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے ۔

____________________

۱۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ: اگر ہم ان کے پاس فرشتے نھی نازل کرتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزوں کو گروہ در گروہ ان کے پاس لا کھڑا کرتے تو یہ ایمان لانے والے نہ تھے ۔مترجم۔

آیت ۳۸

۳۸( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَطَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْهِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّهِمْ یُحْشَرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۳۸ ۔ کوئی زمین میں چلنے والا جانور اور کوئی دو پروں سے اڑنے والا پرندہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ تمھاری طرح کی امت ہے، ہم نے کسی چیز کو اس کتاب میں فروگذاشت نہیں کیا ہے پھر وہ سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے ۔

کیوں کہ یہ آیت وسیع مباحث اپنے پیچھے رکھتی ہے

کیوں کہ یہ آیت وسیع مباحث اپنے پیچھے رکھتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ پہلے آیت کے الفاظ معنی اور پھر اس کے اجمالی تفسیر ذکر کرکے، پھر باقی مباحث کو بیان کرے ۔

”دابة“”دیبب “کے مادہ سے آہستہ چلنے اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے معنی میں ہے عام طور پر زمین پر چلنے والے سب جانوروں کو ”دابة“کہا جاتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سخن چین اور چغل خور کو ”دیبوب“ کہاجاتا ہے اور حدیث وارد ہوا ہے ۔”لا یدخل الجنة دیبوب “۔

کبھی چغل خور جنت میں نہیں جائے گا ۔

یہ بھی اسی لحاظ سے ہے کہ وہ آہستہ آہستہ دوافراد کے درمیان آمدورفت کرتا ہے تاکہ انھیں ایک دوسرے سے بد بین اور بدظن کردے ۔

”طائر“ ہر قسم کے پرندے کو کہا جاتا ہے، البتہ چونکہ بعض موقع پر ایسے امور معنوی وروحانی پر بھی جو پیشرفت اور پرواز رکھتے ہیں ، یہ لفظ بولا جاتا ہے ، لہٰذا زیر بحث اس آیت میں اس لحاظ سے کہ نگاہ صرف پرندوں پر مرکوز رہے (یطیر بجناحیہ) یعنی اپنے دوپروں کے ساتھ اڑتا ہے، کے جملہ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔

”امم“ جمع ہے ”امت“ کی اور امت کا معنی ہے ”وہ جماعت جو ایک قدر مشترک رکھتی ہو“ مثلا ان کا دین ایک ہو یا زبان ایک ہو یا صفات اور افعال ایک جیسے ہوں ۔

”یحشرون “”حشر“ کے مادہ سے جمع کرنے کے معنی میں ہے لیکن قرآن میں عام طور پر روزقیامت کے اجتماع پر یہ لفظ بولا جاتا ہے خصوصا جب اس کے ساتھ ”الی ربھم“ کا ضمیمہ ہو ۔

گذشتہ آیات مشرکین کے بارے میں بحث کر رہی تھی اور انھیں اس انجام کی طرف جو انھیں قیامت میں پیش آئے گا متوجہ کررہی تھی، اب یہ آیت تمام زندہ موجودات اور تمام قسم کے حیوانات کے عام حشر ونشر اور قیامت میں اٹھنے کا بیان کر رہی ہے ، پہلے فرمایا گیا ہے: کوئی زمین پر چلنے والا جانور نہیں اور کوئی دوپروں سے اڑنے والاپرندہ نہیں مگر یہ کہ وہ بھی تمھاری طرح کی امت ہے( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَطَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْهِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ ) ۔

اور اس طرح سے تمام قسم کے جانور اور ہر قسم کے پرندے انسانوں کی طرح اپنے لئے ایک امت ہے لیکن یہ کہ یہ ایک جیسا ہونا اور یہ شباہت کس جہت سے ہے، اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔

بعض ان کی انسانوں نے شباہت خلقت کے تعجب خیز اسرار کی جہت سے سمجھتے ہیں کیوں کہ دونوں ہی خالق آفریدگار کی عظمت کی نشانیاں اپنے ساتھ لئے ہوئے ہیں ۔بعض سمجھتے ہیں کہ یہ شباہت زندگی کی مختلف ضروریات کہ جہت سے ہے یا ان وسائل کے لحاظ سے کہ جن کے ذریعے وہ اپنی طرح طرح کی حاجتوں کو پورا کرتے ہیں ۔

جب کہ کچھ دوسرے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کی انسان کے کے ساتھ شباہت سے مراد ادراک اور فہم وشعور میں شباہت ے، یعنی وہ بھی اپنے عالم میں علم ،شعور اور ادراک رکھتے ہیں وہ خدا کی معرفت رکھتے ہیں اور اپنی توانائی کے مطابق اس کی تسبیح وتقدیس کرتے ہیں اگر چہ ان کی فکر، انسانی فکر وفہم سے بہت نچلی سطح پر ہے اور جیسا کہ آگے چل کر بیان ہوگا، آیت کا ذیل آخری نظریہ کو تقویت دیتا ہے ۔

پھر بعد کے جملے میں ہے: ہم نے کتاب میں کسی چیز کو فروگذاشت نہیں کیا ہے( مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ) ۔

ممکن ہے کہ ”کتاب “ سے مرادقرآن مجید ہو کہ تم تمام چیزیں (یعنی وہ تمام امور کہ جو انسان کی تربیت و ہدایت اور تکامل وارتقاء سے مربوط ہیں ) اس میں موجود ہیں ، البتہ بعض اوقات کلی صورت میں بیان ہوئے ہیں جیسے ہر قسم کے علم ودانش کی طرف دعوت اور بعض اوقات جزئےات کو بھی بیان کیا گیا ہے، جیسے بہت سے احکام اسلامی اور مسائل اخلاقی۔

دوسرا احتما ل یہ ہے کہ ” کتاب“ سے مراد ”عالم ہستی“ ہو کیوں کہ عالم آفرینش ایک عظیم کتاب کی مانند ہے کہ جس میں تمام چیزیں آگئی ہیں اور کوئی چیز اس میں فروگذار نہیں ہوئی ۔

اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ آیت میں دونوں تفاسیر ہی مراد ہوں کیوں کہ نہ تو قرآن میں مسائل تربیتی فروگذار ہوئے ہیں اور نہ ہی عالم آفرینش وخلقت میں کوئی نقص ،کمی اور کسر رہ گئی ہے ہے ۔

اور اس آیت کے آخر میں ہے: وہ تام خدا کی طرف قیامت میں جمع ہوں گے( ثُمَّ إِلَی رَبِّهِمْ یُحْشَرُون ) ۔

ظاہر یہ ہے کہ ” ھم “کی ضمیر اس جملے میں تمام چلنے والے جانوروں اور پرندوں کی تمام اصناف اور انواع واقسام کی طرف لوٹتی ہے اور اس طرح سے قرآن ان کے لئے بھی قیامت میں محشور ہونے کا قائل ہوا ہے اور زیادہ تر مفسرین نے اسی مطلب کو قبول کیا ہے کہ تما م قسم کے جاندار اور حشر ونشر اور جزا وسزارکھتے ہیں ، صرف بعض اس کے منکر ہوئے ہیں اور انھوں نے اس ٓیت کی اور دوسری آیت کی ایک اور طرح توجیہ کی ہے، مثلا انھوں نے کہا ہے کہ ”حشرالی اللّٰہ“ سے مراد زندگی کا ختم ہونا اورماوت ہے(۱) ۔

لیکن جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں قرآن مجید میں اس تعبیر کا ظاہر وہی قیامت میں حشر ونشر کا ہونا اور دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جانا ہے، اس بنا پر آیت مشرکین کو آگاہ کررہی ہے کہ وہ خدا کہ جس نے تمام قسم کے جانوروں کو پیدا کیا ہے ، ان کی ضروریات کو مہیا کیا اور ان کے تمام افعال کا نگران ہے اور ان سب کے لئے اس نے حشر ونشر قرار دیا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہ تمھارے لئے حشرونشر قرار نہ دے اور بعض مشرکین کے قول کے مطابق دنیاوی زندگی اور اس کی حیات و موت کے سوا اور کچھ بھی نہ ہو ۔

____________________

۱۔ یہ احتمال المنار کے مولف نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔

چند قابل غور باتیں

۱ ۔ کیا جانوروں کے لئے بھی حشر ونشر ہے: اس میں شک نہیں کہ حساب کتاب اور جزا وسزا کی پہلی شرط مسئلہ عقل وشعور ہے اور اس کے بعد فرائض کا وجوب اور جوابدہی کی ذمہ داری ہے، اس عقیدے کے طرفدار کہتے ہیں کہ ایسے ثبوت موجود ہیں کہ جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جانور بھی اپنی مقدار واندازہ کے مطابق فہم وادراک رکھتے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہے کہ بہت سے جانوروں کی زندگی ایسے تعجب انگیز اور پر کشش نظام کے ساتھ ملی ہوئی ہے جو ان کے فہم وشعور کی سطح عالی کو واضح کرتی ہے، کون ایسا شخص ہے کہ جس نے چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں اور ان کے عجیب وغریب تمدن او انک ے چھتے اور بلوں کے تعجب انگیز نظام کی باتیں نہ سنی ہوں اور ان کے تحسین آمیز ادراک و شعور پر آفرین نہ کہی ہو، اگر چہ بعض حضرات اس بات کی طرف مائل ہیں کہ ان تمام باتوں کو ایک فطری اور طبعی الہام جانیں ، حالانکہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ان کے اعمال لاعلمی کی صورت میں (فطری طور پر بغیر عقل کے)انجام پاجاتے ہیں ۔

اس بات میں کونساامر مانع ہے کہ ان کے یہ تمام اعمال جیسا کہ ان کا ظاہر نشاندہی کرتا ہے، عقل وادراک کے ذریعہ ظہور پذیر ہوتے ہیں ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جانور بغیر گذشتہ تجربہ کے اور پیش بینی نہ ہونے کے حوادثات کے مقابلہ میں نئی راہ تلاش کرلیتے ہیں ، مثلا وہ بھےڑ جس نے عمر میں کسی بھیڑ ئےے کو نہیں دیکھا جب پہلی بار اس کو دیکھتی ہے تو اچھی طرح اس دشمن کے خطرناک ہونے کی تشخیص کرلیتی ہے اور جس ذریعہ سے ہو سکے اپنے دفاع اور خطرے سے نجات کے لئے کوشش کرتی ہے ۔

بہت سے جانور جا اپنے مالکوں کے ساتھ تدریجی طور پر لگاؤ اور محبت پیدا کرلیتے ہیں اس موضوع کا دوسرا گواہ ہےں ، بہت سے درندے اور خطرناک کتے اپنے مالکوں کے ساتھ حتی ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی ایک مہربان خدمتگار کی طرح برتاؤ کرتے ہیں ۔

جانوروں کی وفاداری کے بہت سے واقعات اور یہ کہ وہ کس طرح سے انسانی خدمت کا بدلہ اتار تے ہیں کتابوں میں اور لوگوں کے درمیان مشہور ہیں کہ ان تمام کو محض افسانہ نہیں کہا جاسکتا ۔

مسلم ہے کہ ان تمام باتوں کو آسانی کے ساتھ فطرت کی پیداوارنہیں کہا جاسکتا کیوں کہ فطرت عام طور پر ایک ہی قسم کے دائمی کاموں کا سرچشمہ ہوتی ہے لیکن وہ اعمال جو ایسی خاص شرائط میں پیش بینی کے قابل نہ تھے عکس العمل کے عنوان سے انجام پاتے ہیں فطرت کی نسبت فہم وشعور سے زیادہ شباہت رکھتے ہیں ۔

موجودہ زمانے میں بہت سے جانوروں کو اہم مقاصد کے لئے تربیت دی جاتی ہے ، مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس کے کتے خطوں کو پہچاننے کے لئے کبوتر، دکانوں سے سودا سلف خریدنے کے لئے بعض جانور ،شکار کرنے کے شکاری جانور سدھائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اہم اور مشکل فرائض ،عجیب وغریب عمدگی سے انجام دیتے ہیں (آج کل تو بعض جانوروں کے لئے باقاعدہ تربیتی ادارے معرض وجود میں آچکے ہیں ) ۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر قرآ ن کی متعدد آیات میں ایسے مطالب دکھائی دیتے ہیں جو بعض جانوروں کے فہم وشعور کے بارے میں قابل ملاحظہ دلیل شمار ہوتے ہیں ، حضرت سلیمان(علیه السلام) کے لشکر کو دیکھ کر چیونٹی کے فرار کرنے کا واقعہ اور ہد ہد کا سبا اور یمن کے علاقے میں آنا اور وہاں سے ہیجان انگیز خبر وں کو سلیمان کے پاس لانے، اس مدعا پر شاہد ہے ۔

روایات اسلامی میں بھی متعدد احادیث جانوروں کے قیامت میں اٹھنے کے سلسلے میں نظر آتی ہے منجملہ ان کے حضرت ابوذر سے نقل ہوا ہے ، وہ فرماتے ہیں :

ہم پیغمبر کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے سامنے دوبکریوں نے ایک دوسرے کو سینگ مارے، پیغمبر نے فرمایا کہ جانتے ہو کہ انھوں نے ای دوسرے کو سینگ کیوں مارے ہیں ، حاضرین نے عرض کیا کہ نہیں ، پیغمبر نے فرمایا لیکن خدا جانتا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا اور عنقریب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا(۲)

اور ایک روایت میں پیغمبر سے بطریق اہل سنت نقل ہوا ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:

ان اللّٰه یحشر هذه الامم یوم القیامة ویقتص من بعضها لبعض حتی یقص للجماء من القرناء

خدا وند تعالیٰ ان تمام جانور ں کو قیامت کے دن محشور کرے گا اور بعض کا بعض سے قصاص لے گا ، یہاں تک کہ اس جانور کو قصاص کے جس کے سینگ نہیں ہے اور کسی دوسرے نے بلاوجہ اسے سینگ مارا ہے اس سے لے گا(۳) ۔

سورہ تکویر کی آیہ پانچ میں ہے:”( وَاِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ )

اور اس وقت جب کہ جانور محشور کئے جائیں گے ۔

اگر اس آیت کا معنی قیامت کے دن کا حشر لیں (نہ کے دنیا کے ختم ہونے کے وقت محشور وجمع ہونا) تو اوپر والی بحث کی منقول دلیلوں میں سے یہ ایک اور دلیل ہوگی۔

۲ ۔ حشر ونشر ہے تو پھر فرائض بھی ہیں : ایک اہم سوال جو یہاں پیش آتا ہے ، اور جب تک وہ حل نہ ہو اوپر والی آیت کی تفسیر واضح نہیں ہوتی اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ قبول کر سکتے ہیں کہ حوانات بھی فرائض وواجبات رکھتے ہیں جب کہ شرعی تکلیف کی مسلم شرائط میں میں ایک عقل ہے اور اسی بنا پر بچہ اور دیوانہ شخص شرعی تکلیف کے دائرے سے خارج ہے تو کیا جانور ایسی عقل رکھتے ہیں کہ ان پر تکلیف عائد ہو، کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ ایک جانور ایک نابالغ بچے اور حتی کے دیوانوں سے زیادہ سمجھ رکھتا ہے؟ اور اگر ہم یہ قبول کرلیں کہ وہ اس قسم کی عقل وادراک نہیں رکھتے تو پھر یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ فرائض واجبا ت ان پر لاگو ہوں ۔

اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تکلیف یعنی فرائض وواجبات کے کئی مراحل ہوتے ہیں اور ہر مرحلہ کے لئے اپنی مناسبت سے ادراک و عقل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بہت سی تکالیف اور واجبات وفرائض جو قوانین اسلامی میں ایک انسان کے لئے بنائے گئے ہیں ایسے ہیں کہ جو رعقل وادراک کی ایک سطح عالی کے بغیر انجام دئے ہی نہیں جاسکتے اور ہم ہرگز ایسی تکالیف جانوروں کے لئے قبول نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کو بجالابے کی شرط ان جانوروں کو حاصل ہی نہیں ہے ۔

لیکن تکالیف کا ایک آسان اور نچلی سطح کا مرحلہ بھی تصور ہوتا ہے کہ جس کے لئے مختصر فہم وشعور بھی کافی ہے ، ہم اس قسم کے فہم وشعور اور اس قسم کی تکالیف کا جانوروں سے قطعی انکار نہیں کرسکتے ۔

یہاں تک کہ ان بچو ں اور جانوروں کے بارے مین بھی جو کچھ مسائل کو سمجھتے ہیں تمام تکالیف کا انکار کرنا مشکل ہے، مثلا اگر ہم چودہ سال نوخیز بچوں کو جو حدبلوغ کو تو نہیں پہنچے لیکن مکمل طور سے تمام مطالب انھوں نے پڑھے اور سمجھے ہیں ، نظر میں رکھیں اب اگر وہ عمدا قتل نفس کے مرتکب ہوں جب کہ وہ اس عمل کے تمام نقصانات ومضارت کو جانتے ہیں تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا دنیاوی تعزیراتی قوانین میں غیر بالغ افراد کو بعض گناہوں می سزا دیتے ہیں ، اگر چہ ان کی سزائیں مسلمہ طور پر بہت خفیف ہوتی ہیں ۔

اس بنا پر بلوغ وعقل کامل مرحلہ عالی وکامل میں شرط تکلیف ہے، لیکن نچلے مراحل میں یعنی چند ایسے گناہوں کے بارے میں کہ جن کی قباحت اور برائی نچلی سطح کے انسانوں کے لئے بھی مکمل طور سے قابل فہم ہے ان کے لئے بلوغ اور عقل کامل کو شرط نہیں جانا جاسکتا ۔

مراتب تکلیف کے فرق اور مراتب عقل کے فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ اعتراض جانوروں کے بارے میں بھی حل ہوئے گا ۔

۳ ۔ کیا یہ آیت تناسخ کی دلیل ہے:تعجب کی بات یہ ہے کہ تناسخ کے بےہودہ عقیدہ کے بعض طرفداروں نے اس آیت سے اپنے مسلک کے لئے استدلال کیا ہے اور انھوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت یہ کہتی ہے کہ جانور بھی تمھاری طرح امتیں ہیں ، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر ہماری طرح نہیں ہیں تو اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی روح بدن سے جدا ہونے کے بعد جانوروں کے بدن میں چلی جاتے ہے اور اس ذریعے سے وہ اپنے بعض برے اعمال کی سزا پائے ۔لیکن اس بات کے علاوہ کہ عقیدہ تناسخ قانون ارتقااور عقل ومنطق کے خلاف ہے اور اس سے قیامت ومعاد کا انکار لازم آتا ہے ( جیسا کہ اپنے مقام پر ہم نے اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے) اوپر والی آیت کسی طرح بھی اس مسلک پر دلالت نہیں کرتی کیون کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے مجتعات حیوانی کئی جہات سے انسانی مجتمعات کی طرح ہے اور شباہت صرف بالقوة نہیں بلکہ باالفعل ہے (یعنی عملی طور پر ایسا ہے) کیوں کہ وہ بھی ادراک وشعور کا کچھ حصہ اور اور مسولیت کا کچھ حصہ اور حشر ونشر اور قیامت میں اٹھائے جانے کا کچھ حصہ رکھتے ہیں لہٰذا ان جہات سے انسان کے ساتھ شباہت رکھتے ہیں ۔

لیکن اس بات سے کوئی اشتباہ اور غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئے مختلف جانوروں کے لئے ایک خاص مرحلہ میں مسولیت وتکلیف رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے لئے بھی کوئی رہبر وپیشوا (نبی وامام) ہوتا ہے اور وہ بھی کوئی نہ کوئی مذہب اور شریعت رکھتے ہیں ، جیسا کہ بعض صوفیوں سے نقل ہوا ہے بلکہ اس قسم کے موقع پر ان کا رہبر وارہنما صرف ان کا ادراک وشعور باطنی ہوتا ہے یعنی وہ معین مسائل کا فہم رکھتے ہیں اور اپنے شعور کی مقدار اوراندازے کے مطابق اس کے مقابلہ میں مسول وجوابدہ ہے ۔

____________________

۱۔ یہ احتمال المنار کے مولف نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔۲۔ تفسیر مجمع البیان ونورالثقلین، محل بحث آیت کے ذیل میں ۔

۳۔ تفسیر المنار، محل بحث آیت کے ذیل میں ۔

آیت ۳۹

۳۹( وَالَّذِینَ کَذَّبُوابِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُکْمٌ فِی الظُّلُمَاتِ مَنْ یَشَاٴْ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ وَمَنْ یَشَاٴْ یَجْعَلْهُ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

ترجمہ:

۳۹ ۔ اور وہ لوگ جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں تاریکیوں میں بہرے اور گونگے قرار پاتے ہیں ، جیسا خدا چاہتا ہے(اور وہ اسی کا مستحق ہوتا ہے) اسے وہ گمراہ کرتا ہے اور جسے وہ چاہتا ہے (اور اس کو اس بات کے لائق پاتا ہے) اسے سیدھے راتے پر قرار دیتا ہے ۔

بہرے اور گونگے

قرآن ہٹ دھرم منکرین کی بحث کو دوبارہ شروع کررہا ہے اور کہتا ہے: وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا بہرے اور گونگے ہیں اور ظلمت اور تاریکی میں قرار پاتے ہیں (وَالَّذِینَ کَذَّبُوابِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُکْمٌ فِی الظُّلُمَاتِ ) نہ تو وہ ایسے سننے والے قرآن رکھتے ہیں کہ جو حقائق کو سنیں اور نہ ہی ایسی حق گو زبان رکھتے ہیں کہ اگر انھوں نے کسی حقیقت کو سمجھ لیا ہو تو دوسروں سے بیان کردیں اور چونکہ خود خواہی ،خود پرستی،ہٹ دھرمی اور جہالت کی تاریکی نے انھی ہر طرف سے گھیر رکھا ہے لہٰذا وہ حقائق کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تو اس طرح سے وہ ان تین عظیم نعمتوں (یعنی سننا، دیکھنا اور بولنا) سے جو انھیں خارجی دنیا سے مربوط کرتی ہیں محروم ہیں ۔

بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ بہروں سے مراد وہ مقلد ہیں جو جو بغیر چون و چرا کے اپنے گمراہ رہبروں کی پیروی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے کان بند کر رکھے ہیں اور خدائی رہبروں کی بات نہیں سنتے اور گونگے افاد سے مراد وہی گمراہ رہبر ہیں جو حقائق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن اپنی حیثیت اور اپنے مادی منافع کی حفاظت کے لئے انھو ں نے اپنے اصول مہرسکوت لگائی ہوئی ہے اور دونوں گروہ جہالت اور خودپرستی کی تاریکی میں گرفتار ہیں(۱)

اور اس کے بعد فرماتا ہے کہ”خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے جادہ مستقیم پربر قرار رکھتا ہے ۔

( مَنْ یَشَاٴْ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ وَمَنْ یَشَاٴْ یَجْعَلْهُ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیم ) ۔

ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں کہ مشیت واراد ہ خدا کی طرف ہدایت وضلالت کی نسبت دینا ایک ایسی بات ہے کہ جس کی قرآن کی دوسری آیات سے اچھی طرح تفسیر ہوجاتی ہے، ایک جگہ ہم پڑھتے ہیں :

( یضل اللّٰه الظالمین ) “۔۔خدا ظالموں کو گمراہ کرتا ہے ۔

دوسری جگہ ہے:”( وما یضل به الَّاالفاسقین ) “۔صرف فاسقین کو گمراہ کرتا ہے ۔

ایک اور جگہ ہے:”( والذین جاهدوا فینا لنهدیهم سبیلا ) “۔جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم انھیں سیدھی راہوں کی ہدایت کریں گے ۔

ان آیات اور قرآن کریم کی دوسری آیات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہ کہ وہ ہدایتیں اور وہ ضلالتیں کہ جن کی ان موقع پر خدا کے ارادہ کی طرف نسبت دی گئی ہے حقیقت میں وہ جزا ئیں اور وہ سزائیں ہیں جو وہ اپنے بندوں کو اچھے یا برے اعمال کے بدلے دیتا ہے اور زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات انسان سے ایسے برے اعمال سرزد ہوجاتے ہیں کہ جن کے زیر اثر ایک ایسی وحشتناک تاریکی اس کی روح کو گھیر لیتی ہے کہ جس سے حقیقت میں آنکھیں چھین لی جاتی ہیں اور اس کے کان حق کی آواز کو نہیں سنتے، اور اس کی زبان حق بات کہنے سے رک جاتی ہے ۔

اس کے برعکس کبھی انسان سے ایسے بہت سے نیک کام صادر ہوتے ہیں کہ ایک عالم نور وروشنی اس کی روح پر نچھاور ہوتا ہے، اس کی نظروادراک زیادہ وسیع اور اس کی فکر فزوں تر اور اس کی زبان حق بات کہنے گویا تر ہوجاتی ہے، یہ ہے معنی ہدایت وضلالت کا جس کی خدا کے ارادے کی طرف نسبت دی جاتی ہے ۔

____________________

۱۔ المیزان، جلد ہفتم، صفحہ ۸۴-