تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31249
ڈاؤنلوڈ: 2814


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31249 / ڈاؤنلوڈ: 2814
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

جرح وتنقید اور اعتراضات

اس میں شک نہیں کہ اگر یہ آیت خلافتِ علی کے علاوہ کسی دوسرے موضوع سے متعلق ہوتی تو جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان روایات اور خود آیت میں موجود قرائن سے کم مقدار پر بھی قناعت کرلی جاتی جیسا کہ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے مفسّرین نے قرآن کریم کی باقی تمام آیات کی تعبیر میں بعض اوقات زیر نظر آیت کے موجود مدارک کے دسویں حصّہ بلکہ اس سے بھی کم تر پر قناعت کرلی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس مقام پر تعصّب کے پردے بہت سے حقائق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن گئے ہیں ۔

جن لوگوں نے اس آیت کی تفسیر اور اُن متعدد روایات کے متعلق جو اس آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ہوئی ہیں اختلاف کیا ہے اور حدِّ تواتر سے بڑھی ہوئی اُن روایات کے مقابلے میں علم مخالفت بلند کیا ہے جو دراصل واقعہ غدیر کے متعلق ہیں دوقسم کے ہیں :

پہلی قسم ان لوگوں کی ہے کہ جو شروع ہی سے نہ صرف دشمنی اور ہٹ دھرمی سے اس پر بحث کرتے ہیں بلکہ انھوں نے شیعوں کی ہتک وتوہین، بدگوی اور دشنام طرازی کا راستہ اختیار کیا ہے ۔

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھوں نے روح تحقیق کی حفاظت کی ہے اور وہ کسی حد تک حقیقت کی تہ تک پہنچ گئے ہیں لہٰذا انھوں نے استدلال کی راہ اپنائی ہے اسی بناپر انھوں نے حقائق کے ایک حصّے کا اعتراف کرلیا ہے ۔ لیکن انھوں نے اس آیت اور اس سے مربوط روایات بیان کرنے سے پہلے کچھ اشکالات بیان کئے ہیں اور وہ اشکالات جو شاید اُن حالات کا نتیجہ تھے جو اُن کے فکری ماحول پر محیط تھا، بیان کرنے کے بعد اس آیت اور اس آیت سے مربوط روایات ذکر کی ہیں ۔

پہلے گروہ کا واضح نمونہ ابن تیمیہ ہے اس نے اپنا موقف کتاب ”منہاج السنة“ میں بیان کیا ہے اس میں اس کی حالت بالکل اس شخص کی طرح ہے جو روز روشن میں اپنی آنکھیں بند کرلے اور اپنی انگلیاں زور سے کانوں میں ٹھونس لے اور چلّانا شروع کردے کہ سورج کہاں ہے ۔ نہ تو وہ اپنی آنکھوں کو کھولنے کے لئے تیار ہوتا ہے کہ کچھ حقائق کو دیکھ لے، نہ کانوں سے انگلیاں نکالنے پر آمادہ ہوتا ہے کہ کچھ اسلامی محدثین ومفسّرین کی داد وفریاد سن سکے، بس مسلسل اور پے درپے گالیاں دیئے چلے جارہا ہے اور ہتک حرمت پر کمربستہ ہے ۔ ایسے افراد جہالت، بے خبری، ہٹ دھرمی اور خشونت آمیز تعصّب کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کہ ایسے واضح اور بدیہی مسائل کا بھی انکار کردیتے ہیں جن کا ہر آدمی آسانی کے ساتھ اِدراک کرسکتا ہے ۔ لہٰذا ایسے شخص کی باتیں نقل کرنے کی ہم اپنے آپ کو زحمت دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے جوابات پڑھنے کی تکلیف قارئین کو دیتے ہیں کیونکہ عظیم اسلامی علماء ومفسرین جن کی اکثریت علماء اہل سنت میں سے ہے جنھوں نے نے تصریح کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جو شخص ان کے خلاف ڈھٹائی سے کہے کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی ایسی کوئی چیز اپنی کتاب میں نقل نہیں کی، ایسے شخص کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں اور ایسے آدمی کی بات کیا وزن رکھتی ہے کہ جس پر ہم بحث کریں ۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ”ابن تیمیہ“ نے اُن بہت سی معتبر کتابوں کے مقابلے میں کہ جن میں اس آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اپنی برائت کے لئے اس مضحکہ خیز جملہ پر اکتفا کیا ہے:

”اُن علماء میں سے جویہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کوئی بھی اس آیت کوحضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے کو نہیں جانتا“

گویا صرف وہ علماء جو ابن تیمیہ کے عناد آلود ہٹ دھرمی کے افراط زدہ میلانات کے ساتھ ہم آواز ہیں صرف وہی ”سمجھتے ہیں کہ کیا کہہ رہے“ ورنہ جو شخص اس کا ہم آواز نہیں ہے وہ ایسا دانشمند ہے کہ جسے یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ یہ ایسے شخص کی منطق ہے کہ جس کی فکر خود خواہی اور ہٹ دھرمی سایہ فگن ہے ۔ ہم اس گروہ کا ذکر یہیں پر چھوڑتے ہیں ۔

البتہ ان اعتراضات میں سے جو دوسرے گروہ نے کئے ہیں اُن میں چند قابل بحث ہیں جنھیں ہم ذیل میں آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔

۱ ۔ کیا مولیٰ کا معنی اولیٰ بالتصرف ہے؟

اہم ترین اعتراض جو حدیث غدیر کے سلسلہ میں کیا جاتا ہے یہ ہے کہ ”مولیٰ“ کے معانی میں سے ایک معنی دوست اور یاور ومددگار بھی ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ یہاں یہ معنی مراد نہ ہو!

اس بات کا جواب کوئی مشکل یا پیجیدہ نہیں ہے کیونکہ ہر غیر جانبدار دیکھنے والا شخص جانتا ہے کہ علی کی دوستی کے ذکر اور یاددہانی کے لئے ان مقدمات وتشکیلات اور خشک جلادینے والے بیابان کے وسط میں خطبہ پڑھنے اور لوگوں کو وہاں ٹھہرانے اور اُن سے پے درپے اقرار لینے اور اعتراف کرانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ کیونکہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے دوستی رکھنا مسائل اسلامی میں سے ایک بدیہی ترین مسئلہ تھا جو آغاز اسلام سے ہی موجود تھا، علاوہ از ایں یہ کوئی ایسا مطلب نہیں تھا کہ جس کی پیغمبر نے اُس وقت تک تبلیغ نہ کی ہو بلکہ آپ تو بارہا اس کی تبلیغ کرچکے تھے ۔

یہ کوئی چیز بھی نہیں تھی کہ جس کے اظہار سے آپ پریشان ہوں اور خدا کو اس کے لئے تسلی اور حفاظت کی ضمانت دینی پڑے ۔

یہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں تھا کہ خداوندعالم اس لب ولہجہ کے ساتھ اپنے پیغمبر سے گفتگو کرتا ”اگر اس کی تبلیغ نہ کی تو رسالت کی تبلیغ بھی نہ کی“ یہ سب چیزیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ مسئلہ ایک عام دوستی سے کہیں اونچا تھا، وہ دوستی جو اسلام کے پہلے ہی دن سے اخوّت اسلامی کی الف کا حصّہ شمار ہوتی تھی ۔

علاوہ از ایں اگر اس سے ایک عام اور سادہ دوستی کا بیان کرنا ہی منظور ہوتا تو پیغمبر پہلے یہ اقرار لوگوں سے کیوں لیتے کہ ”الست اولیٰ بکم مِن انفسکم “ یعنی کیا میں تمھاری نسبت تمھارے نفوس پر خود تم سے زیادہ حقدار اور صاحب اختیار نہیں ہوں(۱)

کیا یہ جملہ ایک عام دوستی کے بیان کے ساتھ کسی خاص قسم کی مناسبت رکھتا ہے؟ نیز ایک عام دوستی تو یہ مقام نہیں رکھتی کہ لوگ یہاں تک کہ حضرت عمر جیسی شخصیت بھی حضرت علی - کو اس طرح سے مبارکباد اور تہنیت پیش کریں !( اصبحت مولای ومولا کل مومن ومومنة )

”اے علی ! آپ میرے اور ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کے مولا ہوگئے“

اور اِسے ایک نیا منصب اور اعزاز شمار کریں(۲)

کیا حضرت علی - اس دن تک ایک عام مسلمان کی حیثیت سے بھی پہچانےنہیں گئے تھے؛ کیونکہ ایک مسلمان کی دوستی تو تمام مسلمانوں پر لازم وضروری ہے ۔ کیا مسلمانوں کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے دوستی کرنا کوئی نئی بات تھی کہ جس کے لئے مبارکباد دینے کی ضرورت ہو اور وہ بھی رسول الله کی عمر کے آخری سال میں ۔

علاوہ از ایں کیا حدیث ثقلین اور وداعِ پیغمبر سے تعلق رکھنے والی تعبیرات کا حضرت علی - کی دوستی کے مسئلہ سے بھی کوئی ربط ہوسکتا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام کی مومنین کے ساتھ ایک عام دوستی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم اُسے قرآن کے ہم پلّہ اور برابر قرار دے دیں(۳)

کیا ہر غیر جانبدار دیکھنے والا شخص اس تعبیر سے یہ نہیں سمجھتا کہ یہاں پر مسئلہ رہبری وامامت سے متعلق گفتگو ہورہی ہے؛ کیونکہ پیغمبر کی رحلت کے بعد قرآن مسلمانوں کا پہلا رہبر ہے لہٰذا اسی بنیاد پر اہلِ بیت علیہم السلام مسلمانوں کے دوسرے رہبر ہیں ۔

____________________

۱۔یہ جملہ متعدد روایات میں وارد ہوا ہے ۔

۲۔ اس واقعہ کے اس حصہ کو کہ جو حدیث تہنیت کے نام سے مشہور ہے، اہل سنت کے بہت سے عظیم علماء حدیث وتفسیر وتاریخ نے متعدد طریقوں سے بہت سے صحابہ سے نقل کیا ہے مثلاً: ابن عباس، ابوہریرہ، برآء ابن عازب اور زید ابن ارقم، مرحوم علامہ امینی نے ”الغدیر“ کی پہلی جلد میں اس حدیث کو اہل سنت کے ساٹھ علماء سے نقل کیا ہے ۔

۳۔حدیث ثقلین ان متواتر احادیث میں سے ہے جسے اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں متعدد صحابہ سے نقل کیا گیا ہے مثلاً: ابوسعید خدری، زید ابن ارقم، زید بن ثابت، ابوہریرہ، حذیفہ بن اسید، جابر بن عبدالله انصاری، عبدالله بن خطب، عبد بن حمید، جبیر بن مطعم، ضمر واسلمی، ابوذر غفاری، ابورافع اور امّ سلمہ نے پیغمبر سے نقل کیا ہے ۔

۲ ۔ آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط

بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وبعد کی آیات اہل کتاب اور ان کی غلط کاریوں کے بارے میں ہیں ۔ خاص طور پر تفسیر المنار کے مولف نے جلد ۶ صفحہ ۴۶۶ پر اس مسئلہ پر زیادہ زور دیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم خود اس آیت کی تفسیر میں کہہ چکے ہیں کہ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ؛ کیونکہ اوّل تو اس آیت کا لب ولہجہ اور اس کا قبل وبعد کی آیات سے فرق مکمل طور پر یہ نشاندہی کرتا ہے کہ اس آیت میں موضوع سخن کوئی ایسی چیز ہے جو قبل وبعد کی آیات سے مختلف ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ قرآن ایک کلاسیکی کتاب نہیں ہے کہ جس کے مطالب کو خاص حصّوں اور ابواب میں ترتیب کے ساتھ بیان گیا ہو، بلکہ جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی اور مختلف حادثات وواقعات رونما ہوتے گئے اُن کے مطابق نازل ہوتا رہا، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں قرآن ایک جنگ کے متعلق بحث کرتے کرتے یکایک ایک فرعی حکم کا ذکر چھیڑ دیتا ہے ۔ یا جب وہ یہود ونصاریٰ کے بارے میں گفتگو کررہا ہوتا ہے تو اچانک ہی مسلمانوں کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے ایک اسلامی حکم اُن کے لئے بیان کردیتا ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے ایک دفعہ اس بحث کی طرف رجوع فرمائیں جو ہم نے اس آیت کی تفسیر کے ابتدا میں کی ہے ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض متعصب قسم کے لوگوں کو اس بات پر اصرار ہے کہ یہ آیت ابتدائے بعثت میں نازل ہوئی ۔ حالانکہ سورہ مائدہ پیغمبر کی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوا ہے اور اگر وہ یہ کہیں کہ صرف یہ ایک آیت مکہ میں ابتدائے بعثت میں نازل ہوئی ہے جسے آپ منوانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابتدائے بعثت میں نہ تو پیغمبر یہودیوں کے ساتھ برسرجنگ تھے اور نہ ہی عیسائیوں کے ساتھ ، اس بنیاد پر تو اس آیت کا قبل وبعد کی آیت سے کوئی تعلق ہی نہ رہے گا(غور کیجئے)۔

یہ سب چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ آیت تعصب کے طوفان کی زد میں آگئی ہے اور اسی بناپر اس میں کئی طرح کے احتمالات پیدا کئے جاتے ہیں جبکہ اس جیسی دوسری آیات میں اُس قسم کی کوئی بات نہیں ہوتی ۔ ہر ایک اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ کسی حیلہ وبہانہ سے یا کسی بے بنیاد ودستاویز کے ذریعہ اس کے مفہوم کو اس کے صحیح راستہ سے منحرف کردے ۔

۳ ۔ کیا یہ حدیث تمام کتبِ صحاح میں نقل ہوئی ہے؟

بعض کہتے ہیں کہ ہم کس طرح اس حدیث کو قبول کرسکتے ہیں جبکہ بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی کتاب میں اسے نقل کیا ہے، یہ اعتراض بھی عجائبات میں سے ہے کیونکہ اوّل تو بہت سی معتبر احادیث ایسی ہیں جنھیں علمائے اہل سنت نے قبول کیا ہے ۔ حالانکہ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں ہیں اور یہ کوئی پہلی حدیث بھی نہیں کہ جس کی یہ وضع وکیفیت ہو۔

دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ کیا ان کے نزدیک صرف یہی دو کتابیں معتبر ہیں ؛ حالانکہ یہ حدیث ان کے قابل اعتماد منابع اور کتب میں موجود ہے، یہاں تک کہ صحاح ستّہ( اہل سنت کی چھ مشہور کتابیں جن پر وہ اعتماد کرتے ہیں )مثلاً سنن ابن ماجہ(۱) میں یہ حدیث موجود ہے اسی طرح مسند احمد حنبل(۲) میں یہ حدیث آئی ہے اور حاکم ذہبی اور ابن حجر جیسے علماء نے بھی اپنے شہرہ آفاق تعصب کے باوجود اس حدیث کے بہت سے طرق کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔

بنابر یں بعید نہیں کہ بخاری ومسلم اس مخصوص فضا اور گھُٹے ماحول میں صریحاً اپنی کتاب میں ایسی چیز نہ لکھ سکے ہوں یا نہ لکھنا چاہتے ہوں جو اُن کے وقت کے صاحبانِ اقتدار کے مزاج کے خلاف تھی ۔

____________________

۱۔جلد اوّل، ص۵۵ و۵۸.

۲۔مسند احمد حنبل، ج۱، ص۸۴۔۸۸، ۱۱۸۔۱۱۹، ۱۵۲، ۳۳۱، ۳۸۱، ۳۷۱.

۴ ۔ حضرت علی - نے اور اہلِ بیت نے اِس حدیث سے استدلال کیوں نہیں کیا؟

بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر حدیث غدیر اس عظمت کے ساتھ موجود تھی تو خود حضرت علی -نے اور ان کے اہل بیت اور یار وانصاراور ان سے تعلق رکھنے والوں نے ضروری مقامات پر اس سے استدلال کیوں نہیں کیا، آیا یہ بہتر نہ تھا کہ وہ حضرت علی - کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے اس قسم کے اہم مدرک کو سند کے طور پر پیش کرتے ۔

یہ اعتراض بھی اسلامی کتابوں سے خواہ حدیث سے متعلق ہوں یا تاریخ وتفسیر سے، عدم واقفیت کا نتیجہ ہے، کیونکہ اہل سنت کے علماء کی کتابوں میں ایسے بہت سے مواقع کا ذکر کیا گیا ہے کہ جہاں پر خود حضرت علی - نے یا ائمہ اہل بیت نے یا اس مسلک سے تعلق رکھنے والوں نے حدیثِ غدیر سے استدلال کیا ہے ان میں سے ایک واقعہ خود حضرت علی - سے متعلق ہے جسے خطیب خوارزمی نے عامر بن واصلہ کے حوالے سے نقل کیا ہے، عامر کہتا ہے:

”میں شوریٰ کے روز حضرت علی - کے ساتھ اس گھر میں موجود تھا میں نے خود سنا کہ آپ ارکان شوریٰ سے اس طرح کہہ رہے تھے کہ میں ایک ایسی محکم دلیل تمھارے سامنے قائم کررہا ہوں جسے عرب وعجم مل کر بھی تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تمھیں خدا کی قسم! بتلاؤ کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے مجھ سے پہلے خدا کو اس کی توحید ویکتائی کے ساتھ پکارا ہو؟ اس کے بعد آپ نے خاندانِ رسالت کی معنوی عظمتیں بیان کی یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں بتلاؤ تمھارے درمیان میرے علاوہ اور کوئی شخص ایسا ہے جس کے حق میں پیغمبر نے یہ کہا ہو:”من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وانصر من نصره لیبلغ الشاهد الغائب“

سب نے کہا: نہیں(۱)

یہ روایت حموینی نے فرائد السمطین باب ۵۸ میں اور اسی طرح ”ابن حاتم“ نے ”دارالنظیم“ میں ، دار قطنی نے اپنی کتاب میں ، ابن عقدہ نے اپنی کتاب میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے ۔

فرائد السمطین کے باب ۵۸ میں منقول ہے کہ حضرت علی - نے حضرت عثمان کے زمانے میں مسجد کے اندر چند لوگوں کی موجود گی میں بھی واقعہ غدیر سے استدلال کیا تھا، اسی طرح کوفہ میں اُن لوگوں کے سامنے جو پیغمبر کی طرف سے ان کی خلافت بلافصل کے لئے نص ہونے کا انکار کررہے تھے صراحت کے ساتھ اس حدیث سے استدلال کیا ہے ۔الغدیر کے مطابق اس حدیث (یعنی کوفہ میں واقعہ غدیر سے آپ کے استدلال) کو اہلِ سنت کی مشہور کتابوں اور معروف ماخذوں میں چار صحابہ اور چودہ تابعین سے روایت کیا گیا ہے ۔

جنگِ ”جمل“ کے دن بھی ”حاکم“ کی کتاب مستدرک جلد سوم، صفحہ ۲۷۱ کی روایت کے مطابق طلحہ کے سامنے حدیث غدیر سے استدلال فرمایا ۔

نیز جنگ صفین کے دن ”سلیم بن قیس ہلالی“ کی روایت کے مطابق حضرت علی - نے اپنی لشکر گاہ میں مہاجرین وانصار اور اطراف وجوانب سے آنے والے لوگوں کے سامنے اس حدیث سے استدلال کیا ۔ اور بدر مبین (جو جنگ بدر میں پیغمبر کے ساتھ تھے) میں سے بارہ افراد نے کھڑے ہوکر گواہی دی کہ انھوں نے یہ حدیث پیغمبر سے سنی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ بانوئے اسلام حضرت فاطمہ زہر، امام حسن ، امام حسین ، عبداللہ بن جعفر، عمار یاسر، قیس بن سعد، عمر بن عبدالعزیز اور عباسی خلیفہ مامون نے بھی اس حدیث کو سند کے طور پر پیش کیا ہے ۔ یہاں تک کہ عمروبن عاص نے اس خط میں جو اُس نے معاویہ کو اس لئے لکھا تھا تاکہ وہ اس پر اچھی طرح سے یہ بات ثابت کردے کہ وہ حضرت علی کے مرتبہ و مقام اور معاویہ کی وضع سے متعلق حقائق سے خوب آگاہ ہے، اس خط میں اس نے صراحت کے ساتھ مسئلہ غدیر کا ذکر کیا تھا اور اسے خطیب خوارزمی حنفی نے اپنی کتاب مناقب کے صفحہ ۱۲۴ پر نقل کیا ہے ۔

وہ لوگ جو اس سے زیادہ توضیحات کے خواہاں ہیں اور حضرت علی ، اہلبیت ، صحابہ اور غیر صحابہ کی طرف سے حدیث غدیر سے استدلال کرنے کے بارے میں ان روایات کے مختلف ماخذوں میں بیان سے آگاہ ہونا چاہیں تو وہ کتاب الغدیر جلد اوّل صفحات ۵۹ تا ۲۱۳ کی طرف رجوع کریں ۔ علامہ امینی نے صحابہ وغیر صحابہ میں سے ۲۲ حضرات سے مختلف مواقع پر اس حدیث سے استدلال کرنے کی روایات پیش کی ہیں ۔

____________________

۱۔ مناقب ،ص ۲۱۷.

۵ ۔ روایت کے آخری جملہ کا مفہوم کیا ہے؟

بعض کہتے ہیں کہ اگر یہ آیت حضرت علی کو خلافت وولایت کا منصب عطا کرنے اور واقعہ غدیر سے مربوط ہے تو پھر یہ آخری جملہ کہ: ”ان الله لایھدی القوم الکافرین“ یعنی ”خدا کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا“ اس مسئلے سے کیا ربط رکھتا ہے ۔

اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ لفظ ”کفر“ لغت میں بھی اور اسی طرح قرآن کی زبان میں بھی انکار، مخالفت اور ترک کے معنی میں ہے ۔ کبھی انکار خدا یا انکار نبوت پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے ہے اور کبھی دوسرے احکام کے مقابلے میں انکار یا مخالفت پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، سورہ آل عمران آیت ۹۷ میں حج کے بارے میں ہے:( وَمَن کَفَرَ فَاِنّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ )

”جو لوگ حج کے حکم کو پائمال کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے خدا تمام جہانوں سے بے نیاز ہے“

سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۲ میں جادوگروں کے لئے بھی اور ان کے بارے میں بھی کہ جو جادو میں آلودہ نہیں لفظ ”کفر“ بولا گیا ہے:( وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اٴَحَدٍ حَتَّی یَقُولاَإِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَتَکْفُرْ )

سورہ ابراہیم آیت ۲۲ میں بھی ہے کہ شیطان اُن لوگوں کے مقابلے میں کہ جنھوں نے اس کی پیروی اور اطاعت کی، قیامت کے دن صریحاً اظہار نفرت کرتے ہوئے اُن سے کہے گا کہ تم نے احکام الٰہی کی اطاعت میں مجھے اس کا شریک قرار دیا تھا اور میں آج تمھارے اس کام سے کفر کرتا ہوں :( إَنِّیْ کَفَرْتُ بِمَا اٴَشْرَکْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ ) (ابراہیم/ ۲۲)

اس بناپر کفر کا اطلاق مسئلہ ولایت ورہبری کے مخالفین پر ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔

۶ ۔ ایک ہی زمانہ میں دو ولی ہوسکتے ہیں ؟

ایک اور بہانہ جو اس متواتر حدیث اور اسی طرح زیر بحث آیت سے روگردانی کے لئے کیا گیا ہے یہ ہے کہ اگر پیغمبر نے حضرت علی کو غدیر خم میں ولایت ورہبری وخلافت کے لئے مقرر کردیا ہوتو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ہی زمانہ میں دو رہبر اور دو پیشوا ہوجائیں گے ۔

لیکن اس آیت کے نزول اور حدیث کے ورود کے زمانے کے خاص اوضاع وشرائط اور مخصوص حالات و کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اسی طرح اُن قرائن پر توجہ کرتے ہوئے کہ جو پیغمبر اسلام کی زندگی کے آخری مہینوں میں واقع ہوا ہے جبکہ آپ آخری احکام کو لوگوں تک پہنچا رہے تھے ۔ خصوصاً جب کہ آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ میں بہت جلد تمھارے درمیان سے جارہا ہوں اور دو گرانمایہ چیزیں تمھارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں ۔

جو شخص یہ گفتگو کررہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے جانشین کے مقرر کرنے کا انتظام میں مصروف ہے اور وہ آئندہ کے لئے پروگرام دے رہا ہے، نہ کہ اپنے زمانے کے لئے ۔ لہٰذا اس سے صاف واضح اور روشن ہے کہ اس سے دو امیروں اور دو پیشواؤں کا ایک ہی زمانے میں وجود مقصود نہیں ہے ۔

وہ بات جو خاص طور پرلائق توجہ ہے یہ ہے کہ ایک طرف تو بعض علمائے اہل سنت یہ اعتراض پیش کررہے ہیں تو بعض دوسرے ایسے ہیں جنھوں نے اس کے مقابلے میں ایک اور اعتراض پیش کردیا ہے اور وہ یہ کہ پیغمبر نے حضرت علی کی ولایت وخلافت کے منصب پر تقرری تو کی ہے لیکن اس کی تاریخ صاف اور واضح طور پر بیان نہیں فرمائی، تو اس صورت میں کیا رکاوٹ ہے کہ یہ ولایت وخلافتِ علی کا بیان دوسرے تین خلفاء کے بعد کے لئے ہو۔

حقیقتاً کتنی حیرت کی بات ہے کہ کوئی چھت کے اُس طرف گررہا ہے اور کوئی اس طرف، لیکن متن واقعہ کو مان لینے میں تعصبات حائل ہوگئے ہیں ۔ ذرا کوئی اُن سے یہ تو پوچھے کہ اگر پیغمبر اکرم یہ چاہتے تھے کہ اپنے چوتھے خلیفہ کو معین کریں اور مسلمانوں کے آئندہ کی فکر تھی تو کیوں اپنے پہلے، دوسرے اور تیسرے خلیفہ کا ذکر جس کا تعین چوتھے پر مقدم ولازم تھا غدیرِ خم کے خطبہ میں نہ فرمایا ۔

ہم یہاں پر اپنا سابقہ بیان دہراتے ہیں اور اس بحث کو ختم کرتے ہیں کہ اگر مخصوص نظریات درمیان میں نہ ہوتے یہ تمام اعتراضات اس آیت اور اس حدیث کے سلسلے میں نہ کئے جاتے جس طرح کہ دوسرے مواقع اس قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوا ہے ۔

آیات ۶۸،۶۹

۶۸( قُلْ یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلیٰ شَیْءٍ حَتَّی تُقِیمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ وَلَیَزِیدَنَّ کَثِیرًا مِنْهُمْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ طُغْیَانًا وَکُفْرًا فَلاَتَاٴْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ )

۶۹( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَی مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ )

ترجمہ:

۶۸ ۔ اے اہلِ کتاب تم کچھ وقت کچھ وقعت نہیں رکھتے جب تک کہ تم تورات و انجیل اور اس کو جو تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے قائم اور برپانہ کرو لیکن جو کچھ تجھ پر تیرے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے (نہ صرف ان کی بیداری کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ)اُن میں سے بہت سوں کے طغیان اور کفر کو زیادہ کرتا ہے ۔ اس بناپر اس کافر قوم (اور ان کی مخالفت)سے غمگین نہ ہو۔

۶۹ ۔ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور یہودی، صائبین اور عیسائی جو بھی خدائے یگانہ اور روز قیامت پر ایمان لے آئے گا اور عمل صالح بجالائے گا تو نہ ایسے لوگوں پر کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ ہی وہ محزون و مغموم ہوں گے ۔

شان نزول

تفسیر ”مجمع البیان“ اور تفسیر قرطبی میں ابن عباس سے اس طرح منقول ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبر کی خدمت میں آئی اور پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ یہ اقرار کرتے ہیں کہ تورات خدا کی طرف سے ہے ۔ پیغمبر نے اثبات میں جواب دیا: انھوں نے کہا کہ ہم بھی تورات کو قبول کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے علاوہ اور کسی چیز پر ایمان نہیں رکھتے (در حقیقت تورات ہمارے اور آپ کے درمیان قدر مشترک ہے لیکن قرآن ایسی کتاب ہے کہ جس پر صرف آپ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ، تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم تورات کو قبول کرلیں اور اس کے علاوہ کی نفی کردیں ) اس پر پہلی آیت نازل ہوئی اور انھیں جواب دیا گیا ۔

جیسا کہ ہم اس سورہ کی آیات کی تفسیر میں اب تک پڑھ چکے ہیں ہیں کہ اُن میں قابلِ لحاظ حصہ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ )کی وعدہ شکنیوں بحثوں ، سوالات اور اعتراضات سے ہی متعلق تھا ۔ یہ آیت بھی اُن بحثوں کے ایک اور رُخ کی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ان کی اس کمزور منطق کا جواب دے رہی کہ جو یہ چاہتے تھے کہ تورات کو تو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک متفق علیہ کتاب ہونے کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے اور قرآن کو ایسی کتاب ہونے کی حیثیت سے کہ جس میں اختلاف پایا جاتا ہے چھوڑدیا جائے ۔ یہ آیت انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہی ہے: اہل کتاب تمہاری کوئی بھی وقعت نہیں ہوگی جب تک کہ تم تورات و انجیل اور تمام آسمانی کتابوں کو جو تم پر نازل ہوئی ہیں بلااستثنا اور بغیر کسی تفاوت کے تسلیم نہ کرو گے ۔

( قل یا اهل الکتب لستم علی شیءٍ حتی تقیموا التوراة و الانجیل و ما انزل الیکم من ربکم )

کیونکہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہ تمام کتابیں ایک ہی مبدا سے صادر ہوئی ہیں اور اِن سب کی اساس اور اصول بھی ایک سے ہیں اگر چہ اُن میں سے آخری کتاب کامل ترین اور جامع ترین ہے ۔ اسی بناپر لازم العمل ہے اُن کے علاوہ پہلی کتابوں میں آخری کتاب یعنی قرآن کے بارے میں متعدد بشارتیں بھی آئی ہیں ۔ وہ مدعی ہیں اس بات کے کہ وہ تورات و انجیل کو قبول کرتے ہیں پس اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ان بشارتوں کو بھی قبول کریں اور جب کہ انھوں نے ان نشانیوں کو قرآن میں پالیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ۔

مذکورہ بالا آیت یہ بھی کہتی ہے کہ صرف دعویٰ ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان آسمانی کتابوں پر عملاً قائم ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں ”ہماری“ اور ”تمہاری“کتاب کی بات نہیں ہے ۔ معاملہ تو آسمانی کتابوں کا ہے اور جو کچھ خدا کی طرف سے آیا ہے، اُس کا ہے ۔ پس تم کس طرح اس کمزور منطق کے ذریعے آخری کتاب کو نظر انداز کرسکتے ہو۔ قرآن پھر ایک مرتبہ ان کی اکثریت کی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے اُن میں سے بہت سے لوگ نہ صرف ان آیات سے پند و نصیحت نہیں لیتے اور ہدایت حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کا کفر و طغیان بڑھتاہی جاتا ہے ۔

( ولیزیدن کثیراً منهم ما انزل الیک من ربک طغیاناً و کفرًا )

اور آیات حق اور صحیح باتوں کی بیمار افکار اور ہٹ دھرمی سے بھرے ہوئے دلوں پر ایسی ہی اُلٹی تاثیر پیدا ہوا کرتی ہے ۔

آیت کے آخر میں اپنے پیغمبر کو اس منحرف اکثریت کی انتہائی سختی کے مقابلہ میں تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے: اس کافر جمیعت کی مخالفتوں سے غمگین نہ ہو کیونکہ اس کا نقصان خود اُن ہی کی طرف لوٹ جائے گا اور تجھے اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا( فلا تاٴس علی القوم الکافرین ) .(۱)

یہ بات بھی صاف ظاہر ہے کہ اس آیت کے مفاہیم قوم یہود کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ مسلمان بھی اگر صرف اسلام کے دعویٰ پر ہی قناعت کریں اور تعلیمات انبیاء کے اصول اور خاص طور پر اپنی آسمانی کتاب قرآن کو عملاً برپا نہ کریں تو ان کی کسی قسم کی کوئی حیثیت اور قدر و قیمت بارگاہ خدا میں ہوگی نہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں اور وہ ہمیشہ زبوں حال، زیر دست اور شکست خوردہ رہیں گے ۔

بعد والی آیت میں پھرنئے سرے سے اس حقیقت کو محلِ تاکید قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام اقوام و ملل اور تمام مذاہب کے پیروکار بلا استثنا خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی، صائبین ہوں یا نصاریٰ صرف اسی صورت میں اہلِ نجات ہوں گے اور اپنے آئندہ سے خوف زدہ اور گذشتہ سے محزون و غمگین نہ ہوں گے جب کہ وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہوں گے اور نیک اعمال انجام دیں گے ۔

( ان الذین اٰمنوا و الذین هادوا و الصابون و النصریٰ من آمن باللّٰه و الیوم الاٰخر و عمل صالحاً فلا خوف علیهم ولا هم یحزنون ) .

یہ آیت حقیقت میں ان لوگوں کے لئے دندان شکن جواب ہے جو نجات کو کسی خاص ملت اور قوم میں منحصر سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انبیاء کے احکام میں تبعیض (بعض کو ماننا اور بعض کو نہ ماننا) کے قائل ہوجائیں اور مذہبی دعوتوں کو قومی تعصبات سے ملادیں ۔ آیت کہتی ہے کہ راہِ نجات ایسی باتوں کو برکنار رکھنے میں منحصر ہے ۔

جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۶۲ کے ذیل میں کہ جس کا مضمون مذکورہ بالا آیت کے ساتھ تقریباً یکساں ہے ہم واضح کرچکے ہیں کہ بعض لوگ ایک سفسطہ آمیز بیان کے ذریعہ چاہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت کو ”صلح کل “ کے مسلک پر دلیل قراردیں اور تمام مذاہب کے پیردکاروں کو اہلِ نجات فرض کرلیں اور اسے نظر انداز کردیں کہ در حقیقت آسمانی کتابوں کے یکے بعد دیگر سے نازل ہونا جہانِ انسانیت کے بتدریج درجہ کمال تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے ۔

لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ آیت ”عمل صالحا“ کی تعبیر کے ذریعے اس حقیقت کو مشخص و ممتاز کرتی ہے کہ مذاہب کے اختلاف کی صورت میں آخری قانون پر عمل کریں ۔ کیونکہ منسوخ شدہ قوانین پر عمل کرنا عمل صالح نہیں ہے ۔ بلکہ عمل صالح تو موجودہ قوانین اور آخری قانون پر عمل کرنا ہے(۲)

علاوہ ازیں اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی قابلِ قبول ہے کہ( من آمن باللّٰه و الیوم الاٴخرو عمل صالحاً ) کا جملہ صرف یہود و نصاریٰ اور صائبین کی طرف لوٹتا ہو کیونکہ ”( الذین آمنوا ) “ جو آیت کی ابتداء میں ذکر ہوا ہے وہ اس قید کا محتاج نہیں ہے ۔ تو اس طرح سے اس آیت کا معنی یوں ہوگا کہ صاحبان ایمان اور مسلمان افراد اور اسی طرح یہود و نصاریٰ اور صائبین بشرطیکہ وہ بھی ایمان لے آئیں اور اسلام قبول کرلیں اور عمل صالح بجالائیں تو سب کے سب اہلِ نجات اور رستگار ہوں گے اور کسی بھی قسم کے لوگوں کے سابقہ مذہبی اعتقادات کا اس صورت میں ان پر کوئی اثر نہ ہوگا اگر وہ ایمان لے آئیں اور راستہ سب کے سامنے کھلا ہوا ہے (غور کیجئے )

____________________

۱۔ ”تاس“ کا مادہ ”آس “ ہے جس کا معنی ہے ”غم و اندوہ“.

۲۔ اس کی مزید توضیح کے لئے تفسیر نمونہ اُردو ترجمہ جلد اوّل، ص ۲۲۷ کی طرف رجوع فرمائیں ۔