تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31233
ڈاؤنلوڈ: 2813


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31233 / ڈاؤنلوڈ: 2813
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۵۴،۵۵

۵۴( وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوئًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

۵۵( وَکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ ) ۔

ترجمہ:

۵۴ ۔ جب وہ لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے ہیں تمھارے پاس آئیں تو ان سے کہو، تم پر سلام ہو تمھارے پرور دگار نے اپنے اوپر رحمت فرض کرلی ہے، تم میں سے جو آدمی نادانی سے کوئی برا کام کرلے اس کے بعد توبہ اور اصلاح (وتلافی) کرلے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

۵۵ ۔اور ہم اس طرح سے آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں (اور واضح کرتے ہیں ) تاکہ گناہگاروں کا راستہ آشکار ہوجائے ۔

سلام بر مؤمنان!

بعض کا نظریہ تو یہ ہے کہ پہلی آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی یے کہ جن کے متعلق گذشتہ آیات میں پیغمبر کو حکم دیا گیا تھا کہ انھیں اپنے پاس سے دھتکارے نہیں اور انھیں اپنے پاس سے جدا نہ کرےں ، اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت کچھ گنہگاروں کے بارے میں ہے جو پیغمبر کے پاس آئے تھے اور انھوں نے یہ اظہار کیا تھا کہ ہم نے بہت گناہ کئے ہیں اس پر رسول اللہ نے سکوت اختیار کیا تو زیر نظر آیت نازل ہوئی ۔

بہرحال اس کی شان نزول خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اس میں شک نہیں کہ آیت کا مفہوم کلی اور وسیع ہے اور سب پر محیط ہے، کیوں کہ پہلے ایک قانون کلی کے طور پر پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ تما م اہل ایمان کو خواہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو ، نہ صرف یہ کہ اپنے پاس سے دھتکارےں نہیں بلکہ انھیں گلے لگائیں اور قبول کریں ، اور فرمایا گیا کہ : جب وہ لوگ کہ جو ہماری آیات پر ایمان لا چکے ہیں تیرے پاس آئیں تو ان سے کہو تم پر سلام ہو

( وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ ) ۔

یہ سلام ممکن ہے کہ خدا کی طرف سے اور پیغمبر کے وسیلہ سے ہو اور یا براہ راست خود پیغبر کی طرف سے ہو، اور یہ ہرحال میں ان کی پذیرائی اور استقبال کرنے اور ان سے افہام وتفہیم اور دوستی کرنے کی دلیل ہے ۔

دوسرے جملہ میں مزید فرمایا گیا ہے: تمھارے پروردگار نے رحمت کو اپنے اوپر فرض کرلیا ہے( کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ) ۔

”کتب“ جو مادہ کتابت سے ہے لکھنے کے معنی میں ہیں اور بہت سے موقع پر لازم ہونے، قبول کرنے اور ذمہ لینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیوں کہ لکھنے کے آثار میں سے ایک اثر کسی چیز کا مسلم ہونا ااور ثابت رہ جانا ہے ۔

تیسرے جملہ میں جو درحقیقت رحمت الٰہی کی توضیح وتفسیر ہے، ایک محبت آمیز تعبیر کے ساتھ یوں فرمایا گیا ہے : تم میں سے جو شخص کوئی کام ازروئے جہالت انجام دے ، اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح اور تلافی کرے تو خدا بخشنے والا اور مہربان ہے

( اٴَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوئًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں(۱) ، ایسے موقع پر ”جہالت“ سے مراد وہی شہوت اور خواہش نفسانی اور غلبہ اور طغیان وسرکشی ہے، جس میں انسان دشمنی اور عداوت کی بنا پر نہیں بلکہ ہویٰ وہوس کے غلبہ کی خاطر اس طرح ہوجاتا ہے کہ فروغ عقل اور خواہش کا کنٹرول ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے، ایسا شخص اگرچہ گناہ اور حرام کا علم رکھتا ہے مگرچونکہ اس کا علم ہویٰ وہوس کے پردے میں آگیا ہے اس لئے اس پر ”جہالت“ کا اطلاق ہوا ہے، مسلمہ طور پر ایسا شخص اپنے گناہ کے لئے جوابدہ ہے، لیکن چوں کہ وہ گناہ عداوت اور دشمنی کی بنا پر نہیں تھا لہٰذا وہ سعی وکوشش کرتا ہے کہ اس کی اصلاح اور تلافی ہوجائے ۔

حقیقت میں یہ آیت پیغمبر اسلام کو حکم دے رہی ہے کہ تم کسی بھی صاحب ایمان فرد کو خواہ وہ کسی طبقہ سے ہو، کسی نسل سے ہو اور کیسے ہی حالات سے دوچار ہو نہ صرف یہ کہ اپنے پاس سے نہ دھتکارو بلکہ اپنے دامن کو یکساں طور پر سب کے لئے کھول، یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ بہت سے گناہوں میں آلودہ بھی ہو تو انھیں بھی قبول کرلو اور ان کی اصلاح کرو ۔

بعد والی آیت میں اس مطلب کی تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: ہم اپنی آیات ، نشانیاں اور احکام اس روشن اور مشخص کرتے ہیں کہ حق کے متلاشیوں اور اطاعت گزاروں کا راستہ بھی واضح وآشکار ہوجائے اور ہٹ دھر م گنہگاروں اور حق کے دشمنوں کی راہ بھی معلوم وروشن ہوجائے

( وکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ ) (۲) ۔

واضح ہے کہ اوپر والی آیت میں ” مجرم“ سے مراد ہر گنہگار نہیں ہے، کیوں کہ اس آیت میں پیغمبر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب گنہگار ان کے پاس آئیں ،خواہ انھوں نے نادا نی کی بنا پر کتنے ہی غلط اعمال انجام دئے ہوں ، انھیں قبول کرلیں ، اس بنا پر یہاں مجرم سے مراد ہی ہٹ دھرم اور سخت قسم کے گنہگار ہیں جو جو کسی ذریعہ سے بھی حق کے سامنے سرتسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے ہوں ، یعنی حق کی طرف اس عمومی اور ہمہ گیر دعوت کے بعد، یہاں تک کہ ان گنہگاروں کو دعوت دینے کے بعد کہ جو اپنے کام سے پشیمان ہیں ، اب ہٹ دھرم اور ناقابل توجہ ہیں مجرموں کے طرز عمل کو مکمل طور پر واضح کیا جارہا ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ جلد ۳، ص۳۲۸(اردو ترجمہ) ۔

۲۔ حقیقت میں جملہ ”وَلِتَسْتَبِینَ “ عطف ہے ایک محزوف جملہ پر جو مقابلہ کے کے قرینہ سے سمجھا جاتا ہے یعنی”وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِین “تاکہ اطاعت کرنے والے مومنین کا راستہ اور گنہگاروں کا راسہ الگ الگ واضح اور روشن ہوجائے ۔

آیات ۵۶،۵۷،۵۸،

۵۶( قُلْ إِنِّی نُهِیتُ اٴَنْ اٴَعْبُدَ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ قُلْ لاَاٴَتَّبِعُ اٴَهْوَائَکُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُهْتَدِینَ ) ۔

۵۷( قُلْ إِنِّی عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَکَذَّبْتُمْ بِهِ مَا عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِین ) ۔

۵۸( قُلْ لَوْ اٴَنَّ عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَاللَّهُ اٴَعْلَمُ بِالظَّالِمِینَ ) ۔

ترجمہ:

۵۶ ۔ تم کہہ دو کہ مجھے ان کی پرستش سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو، کہہ دو کہ میں تمھاری ہویٰ وہوس کی پیروی نہیں کرتا، اگر میں ایسا کروں گا توگمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت پانے والوں میں سے نہ ہوں گا ۔

۵۷ ۔ تم کہہ دو کہ میں اپنے پرور دگار کی طرف سے ایک واضح اور روشن دلیل رکھتا ہوں اور تم نے اس کی تکذیب کی ہے( اور اسے قبول نہیں کیا) وہ چیز کہ جس کے بارے میں تمھیں زیادہ جلدی ہے وہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے، حکم اور فرمان جاری کرنا صرف خدا ہی کے اختیار میں ہے جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور وہ (حق کو باطل سے) بہترین (طریقے پر) جدا کرنے والا ہے ۔

۵۸ ۔ تم کہہ دو کہ اگر وہ چیز جس کے بارے میں تمھیں جلدی میرے پاس ہوتی (اور میں تمھاری درخواست پر عمل کرتا تو عذاب الٰہی تم پر نازل ہوجاتا اور ) میرا اورتمھارا کام انجام کو پہنچ جاتا اور خدا ظالموں کو اچھی طرح سے پہچانتا ہے ۔

بے جا اصرار اور ہٹ دھرمی

ان آیات میں روئے سخن اسی طرح ہٹ دھرم مشرکین اور بت پرستوں کی طرف ہے جیسا کہ اس سورہ کی زیادہ تر آیات اسی بحث کے گرد گھومتی ہے، ان آیات کا لب ولہجہ کچھ اس طرح کا ہے جیسا کہ انھوں نے پیغمبر کو دعوت دی تھی کہ پیغمبر ان کے دین کی طرف جھک جائیں لہٰذا پیغمبر کو حکم ہوتا ہے کہ وہ انھیں صراحت کے ساتھ کہہ دے کہ: مجھے ان کی پرستش سے منع کیا گیا ہے جن کی تم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہو

( قُلْ إِنِّی نُهِیتُ اٴَنْ اٴَعْبُدَ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّه ) (۱) ۔

لفظ ”نھیت“ (ممنوع قرار دیا گیا ہوں ) جو فعل مجہول کی صورت میں لایا گیا ہے اس طرف اشارہ ہے کہ بتوں کی پرستش کا ممنوع ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا ۔

اس کے بعد ” کہہ دو اے پیغمبر کہ میں تمھاری ہویٰ وہوس کی پیروی نہیں کرتا“( قُلْ لاَاٴَتَّبِعُ اٴَهْوَائَکُمْ ) ، اس جملے کے ذریعہ ان کا مطالبہ کا واضح جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ بت پرستی کوئی منطقی دلیل نہیں رکھتی اور ہرگز عقل وخرد سے مطابقت نہیں رکھتی کیوں کہ عقل اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ انسان جماد سے اشرف ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ انسان دوسری مخلوق کے سامنے یہاں تک کہ ایک پست تر مخلوق کے سامنے سر تعظیم جھکائے، اس کے علاوہ وہ زیادہ تر بت خود انسان کے گھڑے اور بنے ہوئے ہوتے تھے تویہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ چیز کہ جو خود انسان کی مخلوق ہو اس کی معبود اور اس کی حلال مشکلات ہوجائے، اس بنا پر بت پرستی کا سرچشمہ اندھی تقلید، خرافات اور ہوا پرستی کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔

آخر میں میں مزید تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے: اگر میں ایسا کام کروں تو یقینا گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ ہوں گا

( قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُهْتَدِینَ ) ۔

بعد والی آیت میں انھیں ایک اور جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ :میں اپنے پرور دگار کی طرف سے ایک واضح اور روشن دلیل رکھتا ہوں ، اگرچہ تم نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی تکذیب کی ہے ( قُلْ إِنِّی عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَکَذَّبْتُمْ بِہِ ) ۔

”بینة“ اصل میں ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ جو دو چیزوں کے درمیان اس طرح سے جدائی ڈال دے کہ ان میں کسی طرح سے دوبارہ اتصال اور باہمی تعلق نہ ہوسکے، اس کے بعد روشن اور واضح دلیل کو بھی کہا جانے لگا کیوں کے وہ حق وباطل کو ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے ۔

فقہی اصطلاح میں اگرچہ ”بینة“ دوعادل افراد کی گواہی کو کہا جاتا ہے لیکن اس کا لغوی معنی کا مل طور پر وسیع ہیں اور دو عادلوں کی گواہی اس کا ایک مصداق ہے، اور اگر معجزات کو ”بینة“ کہا جاتا ہے تو وہ بھی اسی بنا پر ہے کہ وہ حق کو باطل سے جدا کرتے ہیں ، اور اگر آیات واحکام الٰہی کو ”بینة“ کہتے ہیں تو وہ بھی اس وسیع مفہوم کے ایک مصداق کے طور پر ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں بھی پیغمبر کویہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کا سہارا لیں کہ خدا پرستی کی راہ میں اور بتوں سے جنگ میں میرا مدرک کامل طور سے روشن اور آشکار ہے اور تمھارا انکار اور تکذیب اس کی اہمیت میں کوئی کمی پیدا نہیں کرسکتے ۔

اس کے بعد ان کی بہانہ سازیوں میں سے ایک اور بہانہ جوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کہتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو وہ عذاب کہ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو اسے جلدی لے آؤ، پیغمبر ان کے جواب میں کہتے ہیں : وہ چیز کہ جس کے بارے میں تم جلدی کررہے ہو وہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے (مَا عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ)تمام کام اور تمام احکام سب کے سب خدا کے ہاتھ میں ہیں( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ ) ۔

اور بعد میں تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : وہی ہے کہ جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور وہ حق کو باطل سے بہتر طور پر جدا کرنے والا ہے( یَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِین ) ۔

ظاہر ہے کہ حق کو باطل سے وہی اچھی طرح جدا کرسکتا ہے کہ جس کا علم سب سے زیادہ ہو اور اس کے لئے حق وباطل کی شناخت کامل طور سے روشن ہو، علاوہ ازایں وہ اپنے علم ودانش کو روبہ عمل لانے کے لئے کافی قدرت بھی رکھتا ہو اور یہ دونوں صفات (علم وقدرت) نامحدود اور بے پایاں طور پر صرف خدا وند تعالیٰ کی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہے، لہٰذا وہ حق کو باطل سے سب سے بہتر طور پر جدا کرنے والا ہے ۔

بعد والی آیت میں پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ اس ہٹ دھرم اور نادان گروہ کی جانب سے عذاب وسزا کے مطالبہ پر انھیں کہہ دو کہ وہ چیز جس کے جلدی ہوجانے کا مطالبہ تم اس سے کرتے ہو اگر وہ میرے قبضہ واختیار میں ہوتی اور میں تمھاری درخواست پر عمل کردیتا تو میرا اور تمھارا کام ختم ہوگیا ہوتا

( قُلْ لَوْ اٴَنَّ عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ ) ۔

لیکن اس غرض سے کہ کہیں وہ یہ خیال نہ کریں کہ ان کی سزا کو بھلا دیا گیا ہے آخر میں قرآن کہتا ہے: خدا وند تعالیٰ ستمگاروں اور ظالموں کو سب سے بہتر طور پر پہچانتا ہے اور موقع پر انھیں سزا دے گا( وَاللَّهُ اٴَعْلَمُ بِالظَّالِمِینَ ) ۔

____________________

۱۔ لفظ ”الذین “ کا استعمال جو ذوی العقول جمع مذکر کے لئے ہوتا ہے بتوں کے لئے اس بنا پرہوا، کیوں کہ ان کی فکر کے دریچہ سے ان سے گفتگو کی جاری ہے ۔

۲۔قاموس کہتا ہے:قص الشعر والظفر قطع منهما بالمقص ای المقراض “ بالوں اور ناخونوں کو مقارض یعنی قینچی سے کاٹنے کو عرب قص اور مقراض کو مقص (کسر میم وفتح قاف کے ساتھ ) کہتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے گذشتہ قومیں اپنے انبیاء سے یہی درخواست کرتی رہی کہ اگر تم سچے ہو تو پھر اس عذاب کو ،جس کے ہمارے اوپر نازل ہونے کی توقع رکھتے ہو ہماری طرف کیوں نہیں بھیجتے ۔

قوم نوح (علیه السلام) نے بھی ان سے یہی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ اے نوح ! تم ہم سے اتنی باتیں کیوں کرتے ہو اور ہم سے کیوں جھگڑتے ہو ،اگر تم سچ کہتے ہو تو وہ عذاب جس سے ہمیں ڈرا رہے ہو اسے جلدی سے لے آؤ ۔

( قالوا یا نوح قد جادلتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصادقین ) (ھود ۳۲)

ایسا ہی تقاضا قوم صالح(علیه السلام) نے بھی ان سے کیا تھا ۔ (اعراف، ۷۷) ۔

قوم عاد نے بھی اپنے پیغمبر ہود (علیه السلام) سے ایسا ہی تقاضا کیا تھا(اعراف ۷۰) ۔

سورہ بنی اسرائیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ درخواست پیغمبر سے بارہا کی گئی یہاں تک کہ انھوں نے یہ کہا کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے مگر اس وقت جب تم چند کاموں میں سے کوئی ایک انجام نہ دو ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم آسمانی پتھر ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر پھینکو( او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا ) ( بنی اسرائیل ۹۲) ۔

یہ نامعقول تقاضے یا تو استہزاء اور تمسخر کے طور پر ہوتے تھے ۔اور یا سچ مچ طلب اعجاز کے لئے اور دونوں صورتوں میں یہ احمقانہ فعل تھا کیوں کہ دوسری صورت میں ان کی نابودی کا سبب ہوتا لہٰذا معجزہ سے استفادہ کا محل ہی باقی نہ رہتا اور پہلی صوت میں بھی ان واضح دلائل اور نشانیوں کے ہوتے ہوئے کہ جو تمام پیغمبر اپنے ساتھ رکھتے تھے اور جن سے ہر دیکھنے والے کی نگاہ میں کم از کم ان کی صداقت کا احتمال تو پیدا ہوجاتا تھا تو ایسے احتمال کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنی نابودی کا تقاضا کرے یا اس سے مذاق کرے، لیکن تعصب اورہٹ دھرمی ایک ایسی عظیم بلا ہے کہ جو ہر قسم کی فکر ومنطق کے راستے میں حائل ہوجا تی ہے ۔

۲ ۔ ”إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ “ کا جملہ ایک واضح معنی رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر قسم کے فرامین واحکام کا وہ عالم آفرینش وتکوین سے متعلق ہوں یا وہ عالم احکام دین وتشریح سے تعلق رکھتے ہوں ، سب کے سب خدا کے ہاتھ میں ہیں ، اس بنا پر اگرکوئی پیغمبر ان کاموں میں سے کسی کام کو کرکے دیکھتا ہے تو وہ بھی اسی کے فرمان سے کرتا ہے ۔

مثلا اگر حضرت عیسی(علیه السلام) مردہ کو زندہ کرتے ہیں تو بھی اسی کے اذن سے ہے اسی طرح ہر وہ منصب جو کسی کو سپرد ہوا ہے خواہ وہ رہبری الٰہی ہو یا قضاوت وحکمرانی، پروردگار کی طرف سے ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنے واضح اور رشن جملہ سے پوری تاریخ میں بارہا غلط استفادہ کیا گیا ہے ۔ کبھی خوارج نے جنگ صفین میں ”حکمین“ کے تعین کے مسئلہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہ جو خود ان کے اور ان جیسے لوگوں کے تقاضے پر صورت پذیر ہوا تھا اس جملے کا سہارا لیا اور حضرت علی (علیه السلام) کے ارشاد کے مطابق وہ ایک کلمہ حق کو ایک باطل معنی میں استعمال کرتے رہے اور رفتہ رفتہ جملہ ”لا حکم الا اللّٰه “ ان کا شعار ہوگیا ۔

وہ اس قدر نادان واحمق تھے کہ خیال کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص خدا کے فرمان اور دستور اسلام کے مطابق بھی کسی موضوع میں حکم مقرر ہوجائے تو وہ ”إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّه “کا مخالف ہے حالانکہ وہ قرآن کو زیادہ پڑھتے تھے لیکن اسے بہت کم سمجھتے تھے کیوں کہ قرآن تو اسلامی خاندانی جھگڑوں کے سلسلے میں بھی عورت اور مرد کی طرف سے حکم کے انتخاب کی تصریح کرتا ہے:( فابعثوا حکما من اهله وحکما من اهلها ) ( ۳۵) ۔

کچھ دوسرے لوگوں نے ۔ جیسا کہ فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔ اس جملے کو مسلک جبر کی ایک دلیل قرار دیا ہے، کیوں کہ جب ہم یہ قبول کرلیں کہ جہاں آفرینش کے تمام فرمان خدا کے ہاتھ میں ہیں تو پھر تو کوئی اختیار کسی کے لئے باقی ہی نہیں رہتا ۔حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ بندوں کے ارادہ کی آزادی اور ان کا مختار ہونا بھی پروردگار کے فرمان سے ہے، یہ خدا ہی تو ہے کہ جو یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں مختار اور آزاد ہوں تاکہ ان کے مختار اور آزاد ہونے کی حالت میں ان کے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالے اور ان کی تربیت ہو ۔

۳ ۔ ”یقص“ لغت میں ”قطع کرنے “اور ”کسی چیز کو توڑنے“ کے معنی میں آیا ہے،(۲) اور یہ جو زیر نظر آیت میں ”یقص الحق“(خدا حق کو توڑتا ہے ) یعنی مکمل طور پر اسے باطل سے جدا اور الگ کردیتا ہے، تو اس بنا پر بعد والا جملہ ”وھو خیرالفاصلین“ (وہ بہترین طور پر جدا کرنے والا ہے ) اس امر کی تاکید شمار ہوگا اور اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ ”یقص“ ”قصہ“ سے نہیں کہ جس کا معنی سرگذشت اور داستان بیان کرنا ہے، جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے

____________________

۱۔ لفظ ”الذین “ کا استعمال جو ذوی العقول جمع مذکر کے لئے ہوتا ہے بتوں کے لئے اس بنا پرہوا، کیوں کہ ان کی فکر کے دریچہ سے ان سے گفتگو کی جاری ہے ۔

۲۔قاموس کہتا ہے: قص الشعر والظفر قطع منھما بالمقص ای المقراض “ بالوں اور ناخونوں کو مقارض یعنی قینچی سے کاٹنے کو عرب قص اور مقراض کو مقص (کسر میم وفتح قاف کے ساتھ ) کہتے ہیں ۔