تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31212
ڈاؤنلوڈ: 2811


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31212 / ڈاؤنلوڈ: 2811
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیت ۶۵

۶۵( قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَی اٴَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ اٴَوْ مِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِکُمْ اٴَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَاٴْسَ بَعْضٍ انظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُونَ ) ۔

ترجمہ:

۶۵ ۔ تم کہہ دو کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی عذاب یا تو اوپر کی طرف سے تم پر نازل کردے یا تمھارے پاؤں کے نیچے کی طرف سے بھیج دے،یا تمھیں مختلف گروہوں کی صورت میں ایک دوسرے کے سامنے بھڑا دے او رجنگ (وناراحتی) کا ذائقہ تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کے ذریعے چکھا دے، دیکھو ہم طرح طرح کی آیات کو کس طرح ان کے لئے واضح کرتے ہیں شاید وہ سمجھ لیں ( اور پلٹ آئیں ) ۔

رنگ رنگ کے عذاب

گذشتہ آیات میں توحید فطری کے بیان کے ضمن میں در حقیقت بندوں کے ساتھ ایک قسم کی تشویق اور اظہار محبت ہوا تھا کہ خدا وند تعالیٰ شدائد ومشکلات کے وقت انھیں کس طرح اپنی پناہ میں لے لیتا ہے اور ان کی خواہشات کو پورا کرتا ہے ۔

اس آیت میں تربیت کے مختلف طرق کی تکمیل کے لئے خدائی عذاب اور سزا سے ڈرانے کے مسئلہ کا سہارا لیا گیا ہے یعنی جس طرح کہ خدا الرحمن الرحیم اور بے سہارا لوگوں کو پناہ دینے والا ہے، اسی طرح طغیانگروں اور سرکشوں کے مقابلے میں قہار ومنتقم بھی ہے، اس آیت میں پیغمبر کو حکم دیا جارہا ہے کہ مجرموں کو تین قسم کی سزاؤں کی دھمکی دو،اوپر کی طرف کے عذابوں کی، نیچے کے طرف کے عذابوں کی اور باہمی اختلاف کے ذریعے جنگ کی آگ کے بھڑک اٹھنے اور خونریزی کی سزائیں ، لہٰذا فرمایا گیا کہ :کہہ دو کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی عذاب یا تو اوپر کی طرف سے تم پر نازل کرے یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے بھیج دے( قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَی اٴَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ اٴَوْ مِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِکُمْ ) ۔

یا تمھیں مختلف گروہ کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ بھڑا دے اور جنگ وخونریزی کا ذائقہ تم سے ہر ایک کو دوسرے کے ذریعے چکھا دے( اٴَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَاٴْسَ بَعْضٍ ) ۔

اور آیت کے آخر میں قرآن مزید کہتا ہے :دیکھو! ہم طرح طرح کی نشانیوں اور دالائل کو کس طرح ان کے لئے بیان کرتے ہیں شاید وہ سمجھ جائیں اور حق کی طرف لوٹ آئیں( انظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ اس بارے میں کہ ”اوپر“ کی طرف سے ”عذاب“ اور ”نیچے“ کی طرف عذاب سے کیا مراد ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ دونوں لفظ (فوق وتحت) بہت ہی وسیع معنی رکھتے ہیں ، ان میں حسی طور پر اوپر اور نیچے کا مفہوم بھی شام ہے یعنی ایسی سزائیں جو اوپر کی طرف سے آتی ہیں ،مثلا بجلیاں ، خطرناک بارشیں اور طوفان اور ایسی سزائیں جو نیچے کی طرف سے آتی ہیں مثلا زلزلے اور زمین کو ویران وبرباد کرنے والے شگاف اور دریاؤں اور سمندروں کے طوفان، سب اس میں داخل ہیں ۔

وہ دردناک عذاب بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں کہ جو حکام کے طبقہ اور معاشرے کے اوپر والے حصے کی طرف سے بعض قوموں کے سروں پر آتے ہیں اور وہ پریشانیاں اور سختیاں جو مزدوروں اور نافہم اور فرض ناشناس افراد کی طرف سے لوگوں کودامنگیرہوجاتی ہیں جو بعض اوقات پہلے گروہ کے عذاب سے کم تر نہیں ہوتی، سبھی اس کے معنی میں داخل ہیں ۔

اور اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے زمانے کے خوفناک جنگی ہتھیار کہ جو فضا اور زمین سے وحشتناک صورت میں انسانی زندگی کو تباہ کردیتے ہیں اور تھوڑی سی دیر میں آباد ترین شہروں کو ہوائی بمباری اور زمینی حملوں سے، میزائیلوں اور آبدوزوں سے خاکستری ٹیلوں میں بدل جاتے ہیں وہ بھی آیت کے وسیع مفہوم میں داخل ہیں ۔

۲ ۔ ”یلبسکم“ ”لبس“ (بروزن حبس) مڈھ بھیڑ کرانے اور ایک دوسرے سے ٹکرانے کے معنی میں ہے نہ کہ مادہ ”لبس“ (بروزن قرض) لباس پہننے کے معنی میں ، اس بنا پر جملہ کے معنی یوں ہوگا کہ وہ تمھیں مختلف گروہ اور دستوں کی شکل میں ایک دوسرے سے ٹکرابھی سکتا ہے ۔(۱)

اور یہ تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی کہ اختلاف کلمہ (تفرقہ بازی یاپھوٹ )اور جمعیت کی پراگندگی کا مسئلہ اس قدر خطرناک ہے کہ وہ آسمانی عذاب اور بجلیوں اور زلزلوں کا ہم پلہ اور ہم پایہ قرار پایا ہے، حقیقتا ہے بھی ایسا ہی بلکہ بعض اوقات اختلاف و پراگندگی سے پیدا ہونے والی ویرانیاں ان ویرانیوں سے کئی درجے زیادہ ہوتی ہے جو بجلیوں اور زلزلوں سے آتی ہے، بارہا دیکھا گیا ہے کہ آباد ملک نفاق اور تفرقہ بازی کے منحوس سائے متعلق تباہی کی نظر ہوجاتے ہیں اور یہ جملہ تمام مسلمانان عالم کے لئے ایک تنبیہ اور صدائے ہوشیار باش ہے ۔

یہ احتمال بھی اس جملہ کی تفسیر میں موجود ہے کہ خدا نے آسمانی اورزمینی عذاب کے مقابلہ میں دو دوسرے عذاب بیان کئے ہیں ، ایک عقیدہ اور فکرونظر میں اختلاف کا عذاب (جو حقیقت میں اوپر کے عذابوں کی مانند ہے) اور دوسرے عمل اور اجتماعی طور طریقوں میں اختلاف کا عذاب جس کا نتیجہ جنگ اور خونریزی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جو نیچے کی طرف کے عذاب کے مشابہ ہے، اس بنا پر آیت میں چار قسم کے طبیعی عذابوں اور دو قسم کے اجتماعی عذابوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۳ ۔ اس بات کا اشتباہ نہ ہونے پائے کہ زیر بحث آیت کہتی ہے کہ خدا تمھارے درمیان تفرقہ ڈال دے گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا بلا وجہ لوگوں کو نفاق واختلاف میں گرفتار کردے گا بلکہ یہ لوگوں کے برے اعمال، خودخواہیوں ، خودپرستیوں اور شخصی نفع خوریوں کا نتیجہ ہے کہ جس کا اثر نفاق اور تفرقہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور خدا کی طرف اس کی نسبت اس سبب سے ہے کہ اس نے اس قسم کا اثر ان برے اعمال میں قرار دے دیا ہے ۔

۴ ۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان آیات میں روئے سخن مشرکین اور بت پرستوں کی طرف ہے، ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایک مشرک معاشرہ جو توحید اور یکتا پرستی کے راستے سے منحرف ہوچکا ہے، وہ طبقات بالا کے ظلم وستم میں بھی گرفتار ہوتا ہے اور نچلے طبقہ کی فرض نا شناسی کی مصیبت میں بھی گرفتار ہوتا ہے، اختلاف عقیدہ کی خرابیون سے بھی دوچار ہوتا ہے اور اجتماعی خونیں کشمکشوں میں ہی گرفتارہوتا ہے، جیسا کہ آج کی مادی دنیا میں معاشرے ، جو صرط صنعت وثروت کے بتوں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ان تمام عظیم بلاؤں میں مبتلا ہیں اور ان کے درمیان ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ۔

ہمیں اسے مذاہب کا بھی علم ہے کہ جو توحید وخدا پرستی کا دم بھرتے ہیں لیکن عملی طور پر مشرک اور بت پرست ہیں ، ایسے مذاہب واقوام بھی انھیں مشرکین کے سے انجام میں گرفتار ہوں گے اور یہ جو ہم بعض احادیث میں پڑھتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ :قل هذا فی اهل القبلة ۔

یہ سب سزائیں مسلمانوں میں ہی واقع ہوں گی۔

ممکن ہے کہ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ جب مسلمان توحید کے راستے سے منحرف ہوجائیں ، خود خواہی اور خود پرستی اخوت اسلامی کی جگہ لے لے، شخصی مفاد عمومی مفاد پر مقدم سمجھا جانے لگے اور ہر شخص اپنی ہی فکر میں لگ جائے اور خدائی احکام بھلا دئے جائیں ، تو وہ بھی ایسے انجام میں گرفتار ہوجائیں گے ۔

____________________

۱۔” شیعا“ جمع ہے شیعہ کی جس کا معنی گروہ ہے ۔

آیات ۶۶،۶۷

۶۶( وَکَذَّبَ بِهِ قَوْمُکَ وَهُوَ الْحَقُّ قُلْ لَسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیلٍ ) ۔

۶۷( لِکُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ:

۶۶ ۔تیری قوم نے اس کی تکذیب اور انکار کیا حالانکہ وہ حق ہیں ( ان سے ) کہہ دو کہ میں تمھارے بارے میں (قبول کرنے اور ایمان لانے کا) جوابدہ ہوں ( میرا فریضہ صرف ابلاغ رسالت ہے نہ کہ تمھیں ایمان پر مجبور کرنا) ۔

۶۷ ۔ہر خبر (جوخدا نے تمھیں دی ہے آخر کار اس) کی ایک قرار گاہ ہے (اور وہ اپنی وعدہ گاہ میں انجام پائی گی) اور تم جلدی ہی جان لوگے ۔

جس وقت تم ان لوگوں کو دیکھو کہ

یہ دونوں آیات حقیقت میں اس بحث کی تکمیل ہے جو خدا ، معاد اورحقائق اسلام کی طرف دعوت دینے اور خدائی سزاؤں سے ڈرانے کے سلسلے میں گذشتہ آیات میں گزرچکی ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے کہ: تیری قوم وجمعیت یعنی قریش اور مکہ کے لوگوں نے تیری تعلیمات کی تکذیب کی حالانکہ کہ وہ سب حق ہے اور مختلف عقلی ، فطری اور حسی دلائل ان کی تائید کرتے ہیں( وَکَذَّبَ بِهِ قَوْمُکَ وَهُوَ الْحَقُّ ) ۔(۱)

اس بنا پر ان کی تکذیب اور انکار سے ان حقائق کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں آتی خواہ مخالفت کرنے والے اور منکرین کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو ۔

اس کے بعد حکم دیا گیا کہ :ان سے کہہ دو کہ میری ذمہ داری تو صرف ابلاغ رسالت ہے اور میں تمھارے قبول کرنے کا ضامن نہیں ہوں( قُلْ لَسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیلٍ )

ان متعدد آیات سے کہ جن میں یہی تعبیر اور اسی کے مانند تعبیر آئی ہے(مثلاانعام۔ ۱۰۷ ، یونس ۔ ۱۰۸ ، زمر۔ ۴۱ اور شوریٰ ۔ ۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مواقع پر ”وکیل“ سے مراد ایسا شخص ہے کہ جو ہدایت عملی کے لئے جوابدہ اوردوسروں کا ضامن ہو، اس طرح پیغمبر انھیں بتاتے ہیں کہ یہ صرف تم ہو کہ جو حقیقت کو قبول کرنے یا روکنے کے سلسلے میں پورا پورا اختیار رکھتے ہو اورہدایت کو قبول کرتے ہو، میں تو صرف ابلاغ رسالت اور دعوت الٰہی پر مامور ہوں ۔

بعد والی آیت میں ایک مختصر اور پر معنی جملہ کے ساتھ انھیں تنبیہ کررہا ہے اور صحیح راستہ انتخاب کرنے کے بارے میں دقت نظر اور باریک بینی کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے: ہر خبر جو خدا یا پیغمبر تمھیں دیتے ہیں بلاآخر اس جہاں میں یا دوسرے جہاں میں اس کی کوئی نہ کوئی قرار گاہ ہے اور آخر کار وہ اپنی مقررہ میعاد پر انجام پائے گی اور تمھیں بہت جلد اس کی خبر ہوجائے گی( لِکُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ) ۔(۲)

____________________

۱۔ ضمیر ”بہ“ کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے اور بعض نے اس خاص عذاب کی طرف جو اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا تھا لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ان تمام باتوں کی طرف اور پیغمبر کی تمام تعلیمات کی طرف جن کی دشمنان پیغمبر تکذیب وانکار کیا کرتے تھے ،لوٹتی ہے اور آیت کا آخری جملہ بھی اس معنی پر گواہ ہے ۔

۲۔ ہوسکتا ہے ”مستقر“ مصدر میمی بمعنی اسقرار ہو ، یا یہ اسم زمان ومکان محل استقرار کے معنی میں ہو، پہلی صورت میں خدائی وعدوں کے اصل تحقق کی خبر دے رہا ہے اور دوسری صور میں ان وعدوں کے زمان ومکان کی خبر ہے ۔

آیات ۶۸،۶۹

۶۸( واِذَا رَاٴَیْتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فِی آیَاتِنَا فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِهِ وَإِمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْطَانُ فَلاَتَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔

۶۹( وَمَا عَلَی الَّذِینَ یَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْءٍ وَلَکِنْ ذِکْرَی لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ) ۔

ترجمہ:

۶۸ ۔جس وقت تم ان لوگوں کو دیکھو کہ جو ہماری آیات کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لو، یہاں تک کہ وہ دوسری باتوں میں مشغول ہوجائیں اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو جو نہی (اس ) ستمگر گروہ کی طرف تمھاری توجہ ہوجائے تو ان کے پاس بیٹھنے سے کنارہ کشی کرلو ۔

۶۹ ۔ اور اگر صاحب تقوی افراد (انھیں ہدایت اور پند ونصیحت کرنے کے لئے ان کے پاس بیٹھ جائیں )تو ان کے حساب (وگناہ) میں سے کوئی چیز ان کے اوپر عائد نہیں ہوگی لیکن (یہ کام صرف انھیں ) یاددہانی کرانے کے لئے ہونا چاہئے شاید (وہ سنے اور) پرہیزگاری اختیار کرلیں ۔

شان نزول

تفسیر مجمع البیان میں امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ جب پہلی آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو کفار اور آیات الٰہی کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کیا گیا، تو مسلمانوں کی ایک جماعت کہنے لگی کہ اگر ہم چاہیں کہ اس حکم پر ہر جگہ عمل کریں تو نہ ہمیں مسجدالحرام میں جانا چاہئے اور نہ ہی خانہ کعبہ کا طواف کرنا چاہئے( کیوں کہ وہ مسجد کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور آیات الٰہی کے بارے میں باطل باتوں میں مشغول ہیں اور ہم مسجد الحرام کے کسی بھی گوشہ میں خواہ کتنا بھی مختصر توقف کریں اس میں ان کی باتیں ہمارے کانوں تک پہنچ سکتی ہیں )، اس موقع پر دوسری آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ایسے مواقع پر انھیں نصیحت کرے اور جتنا ہوسکے ان کی ہدایت اور رہنمائی کریں ۔

اس آیت کے لئے شان نزول کا ذکر جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں تمام سورة کے اکٹھا نازل ہونے کے منافی نہیں کیوں کہ ممکن ہے مسلمانوں کی زندگی میں ایسے مختلف حوادث پیش آئیں ، اس کے بعدا یک سورہ اکٹھی نازل ہو اور اس کی کوئی آیت ان حوادث میں سے کسی حصہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ہو ۔

اہل باطل کی مجالس سے دوری

چونکہ اس سورہ کے زیادہ تر مباحث مشرکین اور بت پرستوں کی کیفیت کے بارے میں ہے لہٰذا ان دو آیات میں ان سے مربوط ایک دوسرے مسئلہ کی طرف اشارہ ہورہا ہے، پہلے پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلمسے ارشاد ہوتا ہے کہ:جس وقت تم ہٹ دھرم اور بے منطق مخالفین کو دیکھو کہ وہ آیات خدا کا استہزاء کررہے ہیں تو ان سے منہ پھیر لوجب تک وہ اس کام سے صرف نظر کرکے دوسری گفتگو کو شروع نہ کرلیں( واِذَا رَاٴَیْتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فِی آیَاتِنَا فَاٴَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِهِ ) ۔(۱)

اس جملے میں اگرچہ روئے سخن پیغمبر کی طرف ہے، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ یہ حکم آپ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مومنین کے لئے ہے ۔ اس حکم کا فلسفہ بھی واضح ہے کہ اگر مسلمان ان کی مجالس میں شرکت کرتے تھے تو وہ انتقام لینے اور انھیں تکلیف پہنچانے کے لئے اپنی باطل اور ناروا باتوں کو جاری رکھتے تھے، لیکن جب وہ بے اعتنائی کے ساتھ ان کے قریب سے گزرجائیں تو وہ فطرتا خاموش ہوجائیں گے اور دوسرے مسائل شروع کردیں گے، کیوں کہ ان کا سارا مقصد تو پیغمبر اورمسلمانوں کو تکلیف پہچانا تھا ۔

اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ یہ موضوع اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ”اگر شیطان تمھیں یہ بات بھلا دے اور اس قسم کے افراد کے ساتھ بھول کر ہم نشین ہوجاؤ تو جب بھی اس موضوع کی طرف توجہ ہوجائے فورا اس مجلس سے کھڑے ہوجاؤ اور ان ظالموں کے پاس نہ بیٹھو( وَإِمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْطَانُ فَلاَتَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔(۲)

____________________

۱۔ ”خوض“ جیسا کہ ”راغب“ کتاب ”مفردات“ میں کہتا ہے دراصل پانی میں وارد ہونے اور اس میں چلنے(اور نہانے) کے معنی میں ہے لیکن بعد اور امور میں وارد ہونے کے معنی میں بھی بولا جانے لگا، لیکن قرآن میں اس لفظ کا اطلاق زیادہ تر باطل اور بے بنیاد مطلب میں وارد ہونے کے معنی میں ہوا ہے ۔

۲۔ شاید یہ بات یاد دلانے کی ضرورت نہ ہو کہ ”لا تقعد“ (ان کے پاس نہ بیٹھو) سے مراد یہ نہیں ہے کہ صرف ایسے افراد کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے، بلکہ مقصد تو ان کی جماعت میں شرکت کرنا ہے، چاہے بیٹھنے کی شکل میں ہو یا قیام کی صورت میں یاچلنے کی حالت میں ۔

دوسوال اور ان کا جواب

پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ شیطان پیغمبر پر تسلط پیدا کرے اور ان کے نسیان کا باعث بنے، دوسرے لفظوں میں کیا مقام عصمت اور خطا مصئونیت کے باوجود حتی کہ موضوعات میں یہ بات ممکن ہے کہ پیغمبر اشتباہ اور نسیان میں گرفتار ہوجائے ۔

اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر چہ روئے سخن آیت میں پیغمبر کی طرف سے ہے لیکن حقیقت میں ان کے پیروکار مراد ہیں کہ اگر وہ فراموش کاری میں گرفتار ہوجائیں اور کفار کے گناہ آمیز اجتماعات میں شرک ہوجائی تو جس وقت بھی انھیں یاد آجائے فورا وہاں سے اٹھ کھڑے ہو اور باہر نکل جائیں ، اور قسم کی بحث ہماری روزمرہ کی گفتگو میں اور مختلف زبانوں کے ادبیات میں عام نظر آتی ہے کہ انسان روئے سخن تو کسی اور کی طرف کرتا ہے مگر اس کامقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے سن لیں ، عربوں کی مشہور ضرب المثل کی طرح، جس میں کہتے ہیں :

ایاک اعنی واسمعی یاجارة

میری مراد تو تم ہو اور اے پڑوسن تو سن لے ۔

بعض مفسرین نے مثلا طبرسی نے مجمع البیان میں اور ابو الفتوح نے اپنی مشہور تفسیر میں ایک دوسرا جواب دیا ہے کہ جس کاماحصل یہ ہے انبیاء کے لئے خدا کی طرف سے احکام کے پہنچانے اور مقام رسالت میں سہو وفراموشی اور بھول چوک کا ہونا تو جائز نہیں ہے لیکن موضوعات خارجی میں اگر لوگوں کی گمراہی کا سبب نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ جواب اس اصول کے ساتھ جو ہمارے متکلمین کے درمیان مشہور ہے کہ انبیاء وائمہ علیہم السلام احکام کے علاوہ عام موضوعات میں بھی غلطی سے معصوم ومصئون ہیں مناسبت نہیں رکھتا ۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ بعض علمائے اہل سنت نے اس آیت کو رہبران دینی کے لئے تقیہ جائز نہ ہونے کی دلیل قرار دیا ہے کیوں کہ آیت صراحت کے ساتھ کہتی ہے:دشمنوں کے سامنے تقیہ نہ کرو یہاں تک کہ اگر تم ان کی مجلس میں بھی موجود ہوتو ان کی مجلس سے کھڑے ہوجاؤ،

اس اعتراض کا جواب بھی بالکل واضح اور روشن ہے، کیوں کہ شیعہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہرجگہ تقیہ ضروری ہے بلکہ تقیہ بعض مواقع پر تو قطعا حرام ہے اور اس کا وجوب صرف ایسے مواقع کے لئے ہے کہ جہاں تقیہ کرنے اور اظہار حق نہ کرنے میں کچھ ایسے فوائد ومنافع ہوں کہ جو اس کے اظہار سے زیادہ ہو یا یہ کہ تقیہ دفع ضرر اور خطر کلی کے دور ہونے کا موجب ہو ۔

بعد والی آیت میں ایک موقع کو مستثنیٰ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اگر صاحب تقوی لوگ نہی از منکر کی غرض سے ان کے جلسوں میں شرکت کریں اور پرہزگاری کی امید اور ان کے گناہ سے پلٹ آنے کی امید پر انھیں نصیحت کریں تو کوئی مانع نہیں ہے اور ہم ان کے گناہ کو ایسے افراد کے حسا میں نہیں لکھے گ، کیوں کہ ہر حالت میں ان کا ارادہ تو خدامت اور اپنے فرض کی بجاآوری تھا( وَمَا عَلَی الَّذِینَ یَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْءٍ وَلَکِنْ ذِکْرَی لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ) ۔

اس آیت کے لئے ایک دوسری تفسیر بھی بیان ہوئی ہے لیکن ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ ظاہر آیت اور اس کی شان نزول کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔

ضمنا اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ صرف وہ افراد استثنیٰ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ جو آیت کی تعبیر کے مطابق تقوی اور پرہیزگاری کے مقام کے حامل ہوں اور نہ صرف یہ کہ وہ خود ان سے متاثر ہوں ، بلکہ وہ انھیں خود اپنے سے متاثر کرسکیں ۔

سورہ نساء کی آیت ۱۴۰ کے ذیل میں بھی مذکورہ آیت کے مشابہ ایک مضمون آیاہے اور وہاں پر دوسرے مطالب بیان ہوئے ہیں ۔(۱)

____________________

۱۔تفسیر نمونہ جلد چہارم صفحہ ۱۴۲۔

آیت ۷۰

۷۰( وَذَرِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِهِ اٴَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِیٌّ وَلا َشَفِیعٌ وَإِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لاَیُؤْخَذْ مِنْهَا اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اٴُبْسِلُوا بِمَا کَسَبُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ اٴَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۷۰ ۔ تم ایسے لوگوں کہ جنھوں نے اپنے فطری دین کو کھیل تماشہ (اور استہزاء) بنا لیا ہے اور دنیاوی زندگی نے انھیں مغرور کردیا ہے، چھوڑ دو اور انھیں نصیحت کرو تاکہ وہ اپنے اعمال کے (برے نتائج ) میں گرفتار نہ ہوں ، (اس دن ) خدا کے سوا نہ ان کا کوئی یارویاور ہوگا اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا اور (ایسے شخص سے) خواہ وہ کسی بھی قسم کا عوض کیوں نہ دے اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو ان اعمال میں گرفتار ہوئے ہیں کہ جو انھوں نے انجام دئے ہیں ، ان کے پینے کے لئے گرم پانی ہے اور دردناک عذاب ہے، یہ اس سبب سے ہوگا کیوں کہ انھوں نے کفر اختیار کیا ہے ۔

دین حق کو کھیل بنانے والے

یہ آیت اصل میں گذشتہ آیت کی بحث کی تکمیل کررہی ہے اور پیغمبر اکرم کو حکم دے رہی ہے کہ وہ” ایسے اشخاص سے کہ جنھوں نے اپنے دین وآئین کو مذاق بنا لیا ہے اور لہو لعاب کو دین قراد دے لیا ہے اور دنیاوی زندگی اور اس کے وسائل نے انھیں مغرور کردیا ہے، منہ پھیر لیں اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں “( وَذَرِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا ) ۔

یہ بات واضح ہے کہ ایسے اشخاص کو چھوڑ دینے کا حکم مسئلہ جہاد کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتا، کیوں کہ جہاد کی کچھ خاص شرائط ہیں اور کفار کے ساتھ بے احتیاطی برتنے کے شرائط دوسری ہیں ، ان دونوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر انجام پذیرہونا چاہئے، بعض اوقات تو بے اعتنائی کے ذریعہ ہی مخالفین کو دبانا لازم ہوتا ہے اور کبھی مبارزہ وجہاد اور مسلح جنگ کے ذریعہ مقابلہ ضروری ہوتا ہے اور بعض حضرات نے جو یہ تصور کرلیا ہے کہ آیات جہاد نے اوپر والی آیت کو منسوخ کردیا ہے، بالکل بے بنیاد ہے ۔

حقیقت میں مندرجہ بالا آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا دیم اپنے مفاہیم کے لحاظ سے بیہودہ اور فضول ہے اور انھوں نے چند ایسے اعمال کا نا م دین رکھ لیا ہے جو بچوں کے کاموں اور بوڑھوں کی لغویات سے زیادہ مشابہ ہے، ایسے لوگ بحث وگفتگو کے قابل نہیں ہے، لہٰذا حکم دیا گیا ہے ک تم ان سے رخ موڑ لو اور ان کی اور ان کے کھوکھلے مذہب کی پرواہ نہ کرو ۔

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوگیا کہ ”دینھم“ سے مراد وہی ان کا شرک وبت پرستی والا مذہب ہی ہے، یہ احتمال کہ اس سے مراد ”دین حق “ہوااور ان کی طرف دین کی اضافت ونسبت دین کے فطری ہونے کی وجہ سے ہو، بہت ہی بعید نظر آتا ہے ۔

آیت کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کفار کی ایک جماعت کی طرف اشارہ کررہاہے کہ وہ خود اپنے دین ومذہب کو ایک لہو لعاب ہی سمجھتے تھے، اور ہرگز اس میں ایک حقیقی مطلب کے طور پر غور نہیں کرتے تھے،یعنی وہ اپنی بے ایمانی میں بھی بے ایمان تھے اور اپنے بے بنیاد مذہب کے اصولوں سے بھی وفادار نہیں تھے ۔

بہر حال آیت کفار کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتی اور ان تمام لوگوں کے حالت پر محیط ہے جو مقدسات الٰہی اور احکام خداوندی کو اپنے شخصی اور مادی مقصد کے حصول کا ایک کھیل قرار دیتے ہیں ، دین کو دنیا کا آلہ اورخدا کے حکم کو اعتراض شخصی کا کھلونہ بنا لیتے ہیں ۔

اس کے بعد پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلمکو حکم دیا گیا کہ وہ انھیں ان اعمال پر تنبیہ کریں کیوں کہ ایسا دن آنے والا ہے جس میں ہر شخص اپنے اعمال کے آگے سپرانداختہ ہوگا اور اس کے لئے اس کے چنگل سے فرار کی راہ نہیں ہوگی( وَذَکِّرْ بِهِ اٴَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ ) ۔(۱)

اور اس دن خدا کے سوا نا تو کوئی اس کا حامی ومددگار ہوگا اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا( لَیْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِیٌّ وَلا َشَفِیعٌ ) ۔

اس کا معاملہ اس دن اس قدر سخت اور درد ناک ہوگا اور وہ اپنے اعمال کی زنجیر میں اس طرح گرفتار ہوں گے کہ:خواہ کتنا بھی تاوان اورجرمانہ (بالغرض ان کے پاس ہو اور وہ ) دیں کہ اپنے آپ کو سزاؤں سے نجات دلالیں تو وہ ان سے قبول نہیں کیا جائے گا( وَإِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لاَیُؤْخَذْ مِنْهَا ) (۲)

کیوں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوچکے ہیں ، اس دن نہ تو تلافی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی توبہ کا وقت باقی ہے لہٰذا ان کے لئے نجات کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اٴُبْسِلُوا بِمَا کَسَبُوا ) ۔

اس کے بعد ان کی دردناک سزاؤں کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:کیوں کہ انھوں نے حق اور حقیقت کو ٹھکرا دیا ہے لہٰذا ان کے لئے دردناک عذاب کے ساتھ پینے کے لئے کھولتا ہوا گرم پانی ہوگا ( ل( هُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ اٴَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ ) وہ گرم گرم کھولتے ہوئے پانی کی وجہ سے اندر سے جل رہے ہوں گے اور باہر کی طرف سے آگ میں جل رہے ہوں گے ۔

ایک نکتہ کہ جس کی طرف خاص طورپر توجہ کرنی چاہئے یہ ہے کہ( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اٴُبْسِلُوا بِمَا کَسَبُوا ) ،”وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے“ حقیقت میں ان سے تاوان قبول نہ ہونے اور ان کا ولی وشفیع نہ ہونے کی دلیل وعلت کے طور پر ہے، یعنی ان کی سزا کسی خارجی عامل کی وجہ سے نہیں ہے کہ جسے کسی طرح سے دفع کیا جاسکے، بلکہ خود ان کی ذات وصفات اور اعمال کے اندر ہی اس کا سرچشمہ ہے، وہ اپنے برے اعمال کے قیدی ہیں اس لئے ان کی رہائی ممکن نہیں ہے، کیوں کہ اعمال اور ان کے آثار سے الگ ہونا خود اپنے آپ سے جدا ہونے کے مترادف ہے ۔

لیکن اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ شدت وسختی اور راہ بازگشت کا مسدود ہونا اور شفاعت کا عدم وجود ایسے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے کہ جو کفر پر اصرار کرتے ہیں اور ہمیشہ اسی پر کاربند رہے، جیسا کہ (بما کانوا یکفرون) کے جملے سے معلوم ہوتا ہے کیوں کہ فعل مضارع کسی چیز کے استمرار کے بیان کے لئے ہوتا ہے ۔

____________________

۱۔ ”تبسل “ اصل میں مادہ ”بسل“ (بروزن نسل) کسی چیز سے قہر وغلبہ کے ذریعہ بچنے اور منع کرنے کے معنی میں ، اسی لئے کسی کو تسلیم وسپردگی کے لئے ابھارنے کو ابسال کہا جاتا ہے، نیز اسی مناسبت سے سزا دینے اور یرغمال بنانے کے لئے بھی بولا جاتا ہے، اور ”جیش باسل“ لشکر شجاع کے معنی میں بھی اسی مناسبت سے ہے، کیوں کہ وی دوسروں کو قہر وغلبہ سے جھکنے پر مجبور کردیتا ہے، اوپروالی آیت میں بھی کسی شخص کا تسلیم اور گرفتار ہونا اپنے برے اعمال کے چنگل میں کے معنی میں آیا ہے ۔

۲۔ ”عدل“ یہاں معادل اور وہ چیز جو کسی غلط کام کی تلافی کے طور پر دی جائے کے معنی میں ہے تاکہ مدمقابل آزاد ہوجائے، حقیقت میں اس کا معنی غرامت ، جرمانے اور فدیہ سے شباہت رکھتا ہے ۔