تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31217
ڈاؤنلوڈ: 2811


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31217 / ڈاؤنلوڈ: 2811
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

یہ گفتگو تحقیق کے طور پر کی تھی

اس آیت کی تفسیر اور بعد والی آیات کی تفسیر میں اور یہ کہ ابراہیم- جیسے موحد و یکتا پرست نے کس طرح آسمان کے ستارے کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہا کہ یہ میرا خدا ہے مفسرّین نے بہت بحث کی ہے۔ ان تمام تفاسیر میں سے دو تفسیریں زیادہ قابلِ ملاحظہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کو بعض بزرگ مفسرین نے اختیار کیا ہے اور ان پر منابعِ حدیث میں بھی شواہد موجود ہیں ۔

پہلی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم - ذاتی طور پر یہ چاہتے تھے کہ خداشناسی کے بارے میں غور و فکر کریں اور اُس معبود کو جسے وہ اپنی پاک فطرت کی بناء پر اپنی روح و جان کی گہرائیوں میں پاتے تھے تلاش کریں ۔ وہ خدا کو نورِ فطرت اور عقلی احمالی دلیل سے تو پہنچان چکے تھے، اور ان کی تمام تعمیرات بتلاتی ہیں کہ انھیں اُس کے وجود میں کسی قسم کا شک و یعبہ نہیں تھا، لیکن وہ اس کے حقیقی مصداق کی تلاش میں تھے، بلکہ اُس کے حقیقی مصداق کو بھی جانتے تھے مگر چاہتے یہ تھے کہ زیادہ واضح عقلی اتدلالات کے ذریعہ ”حق الیقین“ کے مرحلہ تک پہنچ جائیں ۔ اور یہ واقعہ دور ان نبوت سے پہلے کا ہے اور احتمال یہ ہے کہ ابتداء بلوغ یا قبل از بلوغ کا ہے۔

کچھ روایات اور تواریخ میں ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ابراہیم - کی نظر آسمان کے ستاروں پر پڑی تھی اور و رات کے نیلگوں صفحہ آسمان کو اس کے روشن اور چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ آپ کی والدہ اُن کے بچپنے سے ہی نمرود جبار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے خوف سے ایک غار کے اندر ان کی پرورش کررہی تھیں ۔

لیکن یہ بات بہت ہی بعید نظر آتی ہے کہ کوئی انسان کئی سالوں تک غار کے اندر ہی زندگی گزارتا رہے یہاں تک ایک تاریک رات میں بھی اس سے باہر قدم نہ رکھا ہو۔ شاید بعض کی نظر میں اس احتمال کی تقویت (رای کو کبا) کے جملے کے سبب سے ہو کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت تک ستارہ نہیں دیکھا تھا۔

لیکن یہ تعبیر کسی لحاظ سے بھی یہ مفہوم اپنے اندر نہیں رکھتی، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر چہ اُنہوں نے اس وقت تک ستارے، چاند اور سورج کو دیکھا تو بہت دفعہ تھا لیکن ایک محقق توحید کے طور پر یہ پہلی دفعہ تھی کہ اُن پر نظر ڈالی اور ان کے طلوع و غروب کو مقام خدائی کی نفی کمے ساتھ مربوط ہونے پر غور کرنے لگے۔ در حقیقت ابراہیم - نے انھیں بار ہا دیکھا تھا لیکن اس نظر سے نہیں ۔

اس بناپر جب ابراہیم - یہ کہتے ہیں کہ : ہٰذا ربی (یہ میرا خدا ہے) تو یہ ایک قطعی خبر کے عنوان سے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فرض اور احتمال کے طور پر اور ہے اور غور وفکر کے لئے ہے۔ اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ جس طرح ہم کسی حادثہ کی ملت معلوم کرنا چاہتے ہیں تو تمام احتمالات اور فروض کو ایک ایک کرکے مطالعہ کے لیے فرض کرتے چلے ہیں اور ہر ایک کے لوازم کی تحقیق ملت کو پاسکیں اور اس قسم کی بات نہ ہی نفی ایمان پر دلالت کرتی ہے بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ تحقیق اور بہتر سے بہتر شناسائی کا ایک طریقہ ہے اور ایمان کے بلند مراتب تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے ۔ جیسا کہ” معاد“ کے سلسلہ میں بھی حضرت ابراہی-م مرحلہ شہود اور اس سے پیدا ہونے والے اطمینان تک پہنچنے کے لیے بیشتر تحقیق کے در پے ہوئے تھے۔ تفسیر عیاشی میں محمد بن مسلم کے واسطے سے امام باقر- یا امام صادق سے اس طرح منقول ہے :”اِنَّمَا کَانَ اِبرَاهِیم طَالباً لِرَبِّهِ ولم یبلغ کفرًاو انّه مِن النّاس فِی مِثلِ ذَالِکَ فَاِنَّهُ بِمَنزلته “۔

ابراہی-م نے یہ گفتگو تحقیق کے طور پر کی تھی اور لوگوں میں سے جو شخص بھی تفکرو تحقیق کے لیے یہ بات کہتے تو وہ ابراہیم- کی طرح ہوگا(۱)

اس سلسلے میں دو روایات اور بھی تفسیرنور الثقلین سے نقل ہوئی ہے ۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم - نے یہ بات ستارہ پرستوں اور سورج پرست لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کی اور احتمال یہ ہے کہ بابل میں بت پرستوں کے ساتھ سخت قسم کے مقابلے اور مبارزات کرنے اور اس زمین سے شام کی طرف نکلنے کے بعد جب ان اقوام سے ان کا آمناسامنا ہوا تو اس وقت یہ گفتگو کی تھی ۔حضرت ابراہیم - بابل میں نادان قوموں کی ہٹ وھرمی کو ان کی غلط راہ و رسم میں آزما چکے تھے لہٰذا اس بناپر کہ آفتاب و مہتاب کے پجاریوں اور ستارہ پرستوں کو اپنی طرف متوجہ کریں ، پہلے ان کے ہم صدا ہوگئے اور ستارہ پرستوں سے کہنے لگے کہ تم یہ کہتے ہو کہ یہ زہرہ ستارہ میرا پروردگار ہے، بہت اچھا چلو اسے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ اس عقیدے کا انجام تمہارے سامنے پیش کروں ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس ستارے کا چمکدار چہرہ افق کے تاریک پردے کے پیچھے چھپ گیا، یہ وہ مقام تھا کہ ابراہیم - کے ہاتھ میں ایک محکم ہتھیار آگیا اور وہ کہنے لگے میں تو کبھی ایسے معبود کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس بناپر” ھذا ربی“کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے عقیدے کے مطابق یہ میرا خدا ہے، یا یہ کہ آپ نے بطور استفہام فرمایا: کیا یہ میرا خدا ہے؟ اس سلسلے میں بھی ایک حدیث تفسیر نور الثقلین اور دیگر تفاسیر میں عیون اخبار

____________________

۱۔ تفسیر نور اثقلین جلد اوّل صفحہ ۷۳۸۔

حضرت ابراہیم - کا توحید پر استدلال

اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ حضرت ابراہیم - نے آفتاب و مہتاب اور ستاروں کے غروب ہونے سے ان کی ربوبیت کی نفی پر کس سے استدلال کیا؟

ممکن ہے کہ یہ استدلال تین طریقوں سے ہو:

۱ ۔ موجودات کا پروردگار اور مربی( جیسا کہ لفظ” رب“سے معلوم ہوتا ہے) ایسا ہونا چاہیے کہ جس کا مخلوقات کے ساتھ ہمیشہ قریبی ربط ہو کہ ایک لحظہ کے لیے بھی اُن سے جدا نہ ہو، اس بناء پر وہ موجود جو غروب ہوجائے اور کئی ساعت تک اپنے نور و برکت کو ختم کیے رکھے اور بہت سے موجودات سے بالکل بیگانہ ہوجائے، ان کا پروردگار اور رب کس طرح ہوسکتا ہے؟

۲ ۔ وہ موجود جو غروب و طلوع کرنے والا ہے وہ قوانین کے چنگل کا اسیر ہے، وہ چیز جو خود ان قوانین کی محکوم ہے وہ ان پر حاکم اور ان کی مالک کس طرح ہوسکتی ہے۔ وہ خود ایک کمزور مخلوق ہے اور ان کے تابع فرمان ہے اور اُن سے انحراف اور تخلف کی کم سے کم توانائی بھی نہیں رکھتی۔

۳ ۔ جو موجود حرکت رکھتا ہے وہ یقینا ایک حادث موجود ہے کیونکہ جیسا کہ فلسفہ میں تفصیل کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ حرکت ہر مقام پر حدوث کی دلیل ہے کیونکہ حرکت خود ایک قسم کا وجود حادث ہے اور وہ چیز جو معرض حوادث میں ہے یعنی حرکت رکھتی ہے وہ ایک ازلی و ابدی وجود نہیں ہوسکتی۔(غور کیجئے)۔

”کذالک“سے کیامراد ہے۔ ؟

۱ ۔ زیر بحث آیت میں لفظ ”کذالک“(اسی طرح سے) اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح سے ہم نے ابراہیم کی عقل و خرد کے لیے بت پرستی کے مضراّت و نقائص واضح کیے تھے اِسی طرح سے آسمان و زمین پر خدا کی حکومت و مالکیت کی بھی ہم نے اُسے نشاندہی کرائی، بعض مفّسرین نے کہا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ہم نے تجھے اپنی قدرت و حکومت کے آثار آسمانوں پر دکھائے اسی طرح ابراہیم کو ہم نے دکھائے تھے تاکہ ان کے ذریعے وہ خدا سے زیادہ آشنا ہوجائے۔

”جن“ “سے مراد

۲ ۔ ”جن“ (مادہ ”جن“ بروزن ”فن“سے)کسی چیز کو چھپانے کے معنی میں ہے اور زیر بحث آیت میں جملہ کا معنی یہ ہے کہ ”جب رات نے ابراہیم- سے موجودات کا چہرہ چھپادیا اور“۔ اور یہ جو دیوانہ کو مجنون کہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ گویا ایک پردہ اس کی عقل پر پڑگیا ہے اور نظر آنے والے موجود کو جو جن کہتے ہیں تو وہ بھی اسی لحاظ سے ہے۔ جنین بھی بچے کے شکم مادر میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ہے اور جنت کا اطلاق بہشت اور باغ پر بھی اسی بناپر ہے کہ اس کی زمین درختوں کے نیچے چھپی ہوئی ہوتی ہے اور دل کو جنان (بروزن زمان) اسی لیے کہتے ہیں چونکہ وہ سینہ کے اندر پوشیدہ ہے، یا یہ کہ وہ انسان کے اسرار اور رازوں کو چھپائے رکھتا ہے۔

”کوکباً“کونسا ستارہ مراد ہے؟

۳ ۔ یہ کہ ”کوکباً“ (ایک ستارہ )سے کونسا ستارہ مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن زیادہ تر مفسرین نے زہرہ یا مشتری کا ذکر کیا ہے اور کچھ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانوں میں ستاروں کی پرستش کی جایا کرتی اور ”اٰلھة“ (خداوں )کا حصہّ شمار ہوتی تھے لیکن اس حدیث میں جو امام علی- بن موسیٰ رضا سے ”عیون الاخبار“ میں نقل ہوئی ہے کہ یہ تصریح ہوئی ہے کہ یہ زہرہ ستارہ تھا، تفسیر علی بن ابراہیم میں بھی امام صادق- سے یہی بات مروی ہے ۔(۱)

بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ کلدہ اور بابل کے لوگوں نے وہاں بت پرستوں کے ساتھ مقابلے اور مبارزے شروع کررکھے تھے اور ہر ایک ستارے کو خالق یا کسی خاص موجودات کا رب النوع سمجھے تھے، ” مریخ “کو رب النوع جنگ اور مشتری کو رب النوع عدل وعلم اور عطارد کو رب النوع وزراء اور آفتاب کو سب کا پادشاہ سمجھے تھے ۔(۲)

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین جلد اول صفحہ ۷۳۵ و صفحہ ۷۳۷-

۲۔ تفسیر ابوالفتوح جلد چہارم صفحہ ۴۶۷ (حاشیہ )-

” بازغ“ سے مراد

۴ ۔ ” بازغ“ ”بزغ“ کے مادہ سے(بروزن نذر) ہے۔یہ اصل میں شگاف کرنے اور خون جاری کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے جیوانات کی جراحی کو بزغ کہتے ہیں ۔ اس لفظ کا آفتاب یا ماہتاب کے طلوع پر اطلاق حقیقت میں ایک قسم کی خوبصورت تشبیہ ہے کیونکہ آفتاب و ماہتاب اپنے طلوع کے وقت گویا تاریکی کے پردے کو پھاڑ تے ہیں ۔ علاوہ ازیں افق کے کنارے پر ایک ہلکی سی سرخی جو خون کے رنگ سے ملتی جلتی ہوتی ہے اپنے اطراف میں ایجاد کرلیتے ہیں ۔

”فطر“۔سے مراد

۵ ۔ ”فطر“۔”فطور“ کے مادہ سے شگاف کرنے اور پھاڑ نے کے معنی میں ہے اور جیسا کہ اسی سورہ کی آیت ۱۴ کے ذیل میں ہم لکھ چکے ہیں کہ اس لفظ کا آسمان و زمین کی پیدائش پر اطلاق شاید اس سبب سے ہو کہ موجودہ زمانے کے علم کے مطابق ابتداء میں سارا عالم ایک ہی کرّہ تھا اور بعد میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے گئے اور آسمانی کرات یکے بعد دیگرے وجود میں آتے گئے (مزید توضیح کے لیے مذکورہ آیت کی تفسیر کی طرف رجوع کیا جائے)۔

۶ ۔ ”حنیف“ کا معنی

۶ ۔ ”حنیف“ کا معنی خالص ہے جیسا کہ اس کی تفصیل سورہ آلِ عمران آیت ۶۷ کے ذیل میں جلد دوم تفسیر نمونہ ص ۳۲۹ ( اردو ترجمہ) میں بیان ہوچکی ہے۔

آیات ۸۰،۸۱،۸۲،۸۳

۸۰( وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ اٴَتُحَاجُّونِی فِی اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِی وَلاَاٴَخَافُ مَا تُشْرِکُونَ بِهِ إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ رَبِّی شَیْئًا وَسِعَ رَبِّی کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا اٴَفَلاَتَتَذَکَّرُونَ ) --

۸۱( وَکَیْفَ اٴَخَافُ مَا اٴَشْرَکْتُمْ وَلاَتَخَافُونَ اٴَنَّکُمْ اٴَشْرَکْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فَاٴَیُّ الْفَرِیقَیْنِ اٴَحَقُّ بِالْاٴَمْنِ إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) -

۸۲( اَلَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اٴُوْلَئِکَ لَهُمْ الْاٴَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ) -

۸۳( وَتِلْکَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاهَا إِبْرَاهِیمَ عَلیٰ قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) -

ترجمہ:

۸۰ ۔ اُس (ابراہیم) کی قوم نے اُس سے حجت بازی شروع کی تو اُنہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں حجت بازی کیوں کرتے ہو۔ حالانکہ خدانے مجھے (واضح ولائل کے ساتھ) ہدایت کی ہے اور جسے تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو میں اُس سے نہیں ڈرتا۔ (اور مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا) مگر یہ کہ میرا پروردگار کچھ چاہے۔ میرے پروردگار کی آگاہی اور علم اس قدر وسیع ہے کہ وہ تمام چیزوں پر حاوی ہے، کیا تم متذکر (اور بیدار) نہیں ہوتے۔

۸۱ ۔ میں تمہارے بتوں سے کس طرح ڈروں جب کہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے خدا کا ایسا شریک قرار دے لیا ہے کہ جس کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی (سچ بتاؤ) ان دونوں گروہوں (بت پرستوں اور خدا پرستوں ) میں سے کونسا گروہ (سزا سے) اَمن میں رہنے کے زیادہ لائق ہے۔ اگر تم جانتے ہو۔

۸۲ ۔ ہاں ہاں وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کیا، ان کا انجام امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔

۸۳ ۔ یہ ہمارے دلائل تھے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں دیئے تھے۔ ہم جس شخص کے درجات کو چاہتے ہیں (اور اُسے لائق دیکھتے ہیں ) اُوپر لے جاتے ہیں ۔ تیرا پروردگار حکیم اور دانا ہے۔

حضرت ابراہیم - کی بت پرست قوم و جمعیت سےبحث و گفتگو

اس بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں حضرت ابراہیم - کے توحیدی استدلالات کے سلسلہ میں گزرچکی ہے، اِن آیات میں اُسی بحث و گفتگو کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم - کی بت پرست قوم و جمعیت سے ہوئی تھی۔ پہلے فرمایا گیا ہے: قومِ ابراہیم ان کے ساتھ گفتگو اور کج بحثی کرنے لگی( و حاجه قومه )

ابرہیم - نے ان کے جواب میں کہا: تم مجھ سے خدائے یگانہ کے سلسلہ میں بحث اور مخالفت کیوں کرتے ہو حالانکہ خدانے مجھے منطقی اور واضح دلائل کے ساتھ راہ توحید کی ہدایت کی ہے( قَالَ اٴَتَحَاجونِی فِی اللّٰهِ وَ قَد هَدَان ) ۔

اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم - کی قوم کے بت پرستوں کی جمعیت اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ جس قیمت پر بھی ممکن ہوسکے ابراہیم - کو اُن کے عقیدے سے پلٹالیں اور بت پرستی کے آئین کی طرف کھینچ لیں ۔ لیکن حضرت ابراہیم - انتہائی شجاعت و شہامت کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے ڈٹ گئے اور منطقی دلائل کے ساتھ سب کی باتوں کے جواب دیئے۔

یہ بات کہ وہ (بت پرست) کس منطق سے حضرت ابراہیم - کا مقابلہ کرتے تھے ان آیات میں صراحت کے ساتھ کوئی چیز بیان نہیں ہوئی لیکن حضرت ابراہیم - کے جواب سے اجمالی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے آپ کو پانے خداؤں اور بتوں کے غیض و غضب اور سزا کی دھمکی دی اور ان کی مخالفت سے ڈرایا تھا، کیونکہ آیت کے آخر میں ہم حضرت ابراہیم - کی زبانی اس طرح پڑھتے ہیں : میں ہرگز تمہارے بتوں سے نہیں ڈرتا کیونکہ اُن میں یہ قدرت ہی نہیں ہے کہ کسی کو نقصان و ضرر پہنچا سکیں( وَلَا اٴَخَافُ مَا تُشرِکُونَ به ) ۔کوئی شخص اور کوئی چیز مجھے نقصان نہیں پہنچاسکتی مگر یہ کہ خدا چاہے( اِلَّا اٴَنْ یَشَاءَ رَبِّی شَیئاً ) ۔(۱)

گویا ابراہیم - اس جملے کے ذریعے یہ جاہتے ہیں کہ ایک اجتمالی پیش بندی کرلیں اور کہیں کہ اگر اس کشمش کے دوران بالفرض مجھے کوئی حادثہ پیش آجائے، تو اس کا بتوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ربط نہیں ہوگا بلکہ اس کا تعلق مشیت الٰہی کے ساتھ ہوگا کیونکہ بے شعور وبے جان بت تو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں وہ کیا دوسرے کے نفع ونقصان کیا مالک ہوں گے؟

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: میرے پروردگار کا علم و دانش اس طرح ہمہ گیر و وسیع ہے کہ ہر چیز کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے( وَسِعَ رَبِّی کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ) ۔

یہ جملہ حقیقت میں سابقہ جملے کی ایک دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ بت ہرگز کوئی نفع یا نقصان پہنچاہی نہیں سکتے کیونکہ وہ کسی قسم کا علم و آگاہی نہیں رکھتے، اور نفع اور نقصان پہنچانے کی پہلی شرط علم و شعور اور آگاہی ہے۔ صرف وہ خدا کہ جس کے علم و دانش نے تمام چیزوں کا احاط کیا ہوا ہے وہی سود و زیاں بھی پہنچا سکتا ہے، تو پھر میں اُس کے غیر کے غیض و غضب سے کیوں ڈروں ۔

آخر میں اُن کے فکر و فہم کو بیدار کرنے کے لیے، اُنہیں مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے: کیا ان تما باتوں کے باوجود بھی تم متذکر اور بیدار نہیں ہوتے( اٴَفَلاَتَتَذَکَّرُونَ ) ۔

بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم - کی ایک اور منطق و استدلال کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ بت پرست گروہ سے کہتے ہیں : ”یہ کس طرح ممکن ہے کہ میں بتوں سے ڈروں اور تمہاری دھمکیوں کے مقابلہ میں اپنے اندر وحشت اور خوف پیدا کرلوں حالانکہ مجھے تو ان بتوں میں عقل و شعور اور قدرت کی کسی قسم کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دیتی، لیکن تم باوجود اس کے کہ خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہو اور اس کی قدرت اور علم کو بھی جانتے ہو اور اُس نے کسی قسم کا کوئی حکم بتوں کی پرستش کے بارے میں تمہاری طرف نازل نہیں کیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود تم تو اُس سے نہیں ڈرتے، تو میں بتوں کے غضب سے کس طرح ڈروں( وَکَیْفَ اٴَخَافُ مَا اٴَشْرَکْتُمْ وَلاَتَخَافُونَ اٴَنَّکُمْ اٴَشْرَکْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا ) (۲) - کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بت پرست ایسے خدا کے منکر نہ تھے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ وہ تو صرف بتوں کو عبادت میں شریک کرتے تھے اور انھیں درگاہ خداوندی میں شفیع خیال کرتے تھے۔

اب تم ہی انصاف کرو کہ میں امن و امان کا زیادہ حقدار ہوں یا تم( فَاٴَیُّ الْفَرِیقَیْنِ اٴَحَقُّ بِالْاٴَمْنِ إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) ۔

حقیقت میں اس مقام پر ابراہیم - کی منطق ایک عقلی منطق ہے جو اس واقعیت کی بنیاد پر قائم ہے کہ تم مجھے بتوں کے غضب ناک ہونے کی دھمکی دے رہے ہو۔ حالانکہ اِن کے وجود کی تاثیر مو ہوم ہے، لیکن تم اُس عظیم خدا سے بالکل نہیں ڈرتے جسے تم اور میں دونوں قبول کرتے ہیں اور ہمیں اُس کے حکم کا پیرو ہونا چاہیے اور اس کی طرف سے بتوں کی پرستش کا کوئی حکم نہیں پہنچا۔ تم نے ایک قطعی و یقینی امر کو تو چھوڑ رکھا ہے اور ایک موہوم چیز کے ساتھ چمٹے ہوئے ہو۔

بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم - کی زبانی اُس سوال کا جواب نقل ہوا ہے جو خود اُنہوں نے قبل کی آیت میں پیش کیا تھا (اور علمی استدلالات میں یہ ایک عمدہ طریقہ ہے کہ بعض اوقات استدلال کنندہ شخص مد مقابل کی طرف سے سوال کرکے پھر خود ہی اس کا جواب دیتا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مطلب اتنا واضح ہے کہ جس کا جواب ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے) ۔

ارشاد ہوتا ہے: وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم و ستم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا، امن و امان بھی انہی کے لیے ہے اور ہدایت بھی انہی کے ساتھ مخصوص ہے( اَلَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اٴُوْلَئِکَ لَهُمْ الْاٴَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ) ۔

اُس روایت میں بھی جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے، اس بات کی تاکید ہوتی ہے کہ یہ گفتگو حضرت ابراہیم - کی بت پرستوں کے ساتھ گفتگو کا ضمیمہ ہے۔(۳)

بعض مفسّرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ جملہ خدا کا بیان ہوگا نہ کہ حضرت ابراہیم - کی گفتگو۔ لیکن پہلا احتمال علاوہ اس کے کہ یہ روایت میں وارد ہوا ہے، آیات کی وضع و ترتیب کے ساتھ بھی زیادہ بہتر مطابقت رکھتا ہے لیکن یہ احتمال کہ یہ جملہ بت پرستوں کی گفتگو ہو جو حضررت ابراہیم - کی باتیں سننے کے بعد بیدار ہوئے ہوں بہت ہی بعید نظر آتا ہے۔

____________________

۱۔ حقیقت میں اُوپر والا استثناء، استثناء منقطع سے شباہت رکھتاہے، کیونکہ بتوں سے نفع و نقصان کی قدرت کی کلی طور پر نفی ہوئی ہے اور خدا کے لیے ثابت ہے۔ اگر چہ اس جملے کے معنی میں اور مفسرّین نے اور احتمال بھی ذکر کیے ہیں ، لیک جو کچھ ہم نے اُوپر بیان کیا ہے وہ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

۲۔ سلطان کا معنی برتری و کامیابی ہے اور چونکہ دلیل و برہان کامیابی کا سبب ہوتی ہے لہٰذا بعض اوقات اُسے بھی سلطان کہتے ہیں اور اُوپر والی آیت اسی معنی میں ہے۔ یعنی بتوں کی پرستش کی اجازت کے لیے کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور حقیقت میں یہ ایسا مطلب ہے جس کا کوئی بت پرست انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اس قسم کا حکم عقل یا وحی و نبوت کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوسکتا ہے اور ان دونوں باتوں میں سے کوئی سی دلیل موجود نہیں ہے۔

۳۔ تفسیر مجمع البیان ذیل آیہ زیرِ بحث۔

یہاں ظلم سے کیا مراد ہے؟

مفسّرین کے درمیان مشہور یہ ہے کہ یہاں ”ظلم“ شرک کے معنی میں ہے۔ سورہ لقمان (کی آیہ ۱۳) میں جو یہ وارد ہوا ہے کہ ”( اِنَّ الشِّرک لَظُلْمٌ عَظِیمٌ ) “ (شرک ظلم عظیم ہے) کو اس معنی کا شاہد قرار دیا ہے۔

ایک روایت میں بھی ابن مسعود سے یہ نقل ہوا ہے کہ جس وقت یہ (زیر بحث) آیت نازل ہوئی، تو یہ بات لوگوں کو بہت گراں معلوم ہوئی۔ عرض کیا: اے اللہ کے رسول ایسا کون ہے کہ جس نے اپنے اُوپر تھوڑا بہت ظلم نہ کیا ہو (لہٰذا یہ آیت تو سبھی کو شامل کرلیتی ہے)

رسول اللہ نے فرمایا:جو تم نے خیال کیا ہے اس سے وہ مراد نہیں ہے۔ کیا تم نے خدا کے صالح بندے (لقمان کا) قول نہیں سنا (جو اپنے بیٹے سے) کہتا ہے ”میرے بیٹے خدا کا شریک قرار نہ دے کہ شرک، ظلم عظیم ہے“۔(۱)

لیکن چونکہ قرآن کی آیات بہت سے مواقع پر دو یا دو سے زیادہ معانی کی حامل ہوتی ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ اُن میں سے ایک معنی دوسرے معنی دوسرے معنی سے زیادہ وسیع اور عمومی ہوتو آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ ”امنیت“ سے مراد عام امنیت ہے خواہ خدا کے عذاب سے امن و امان ہو یا اجتماعی دردناک حوادث سے امن و امان ہو۔

یعنی جنگیں ایک دوسرے پر زیادتیاں ، مفاسد اور جرائم سے امان، یہاں تک کہ روحانی سکون و اطمینان صرف اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے جب کہ انسانی معاشرے میں دو اصولوں کی حکمرانی ہو، اوّل ایمان اور دوسرے عدالت اجتماعی، اگر خدا پر ایمان کی بنیادیں ہل جائیں اور پروردگار کے سامنے جواہدہی کا احساس ختم ہوجائے اور عدالت اجتماعی کی جگہ ظلم و ستم کا دَورہ ہو، تو ایسے معاشرے میں ان و امان ختم ہوجائے گا اور یہی سبب ہے کہ دنیا کے بہت سے مفکرین کی طرف سے دنیا میں بدامنی کی مختلف صورتوں کو ختم کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود دنیا کے لوگوں کا واقعی امن دامان سے دن بدن فاصلہ بڑھتا جارہا ہے، اس کیفیت کا سبب وہی ہے کہ طرف زیر نظر آیت میں اشارہ ہوا ہے اور وہ یہ کہ ایمان کی بنیادیں ہل رہی ہیں اور عدالت کی جگہ ظلم کا دور دورہ ہے ۔

خاص طور پر روحانی امن و سکون میں ایمان کی تاثیر سے تو کسی کے لیے بھی تردید کی گنجایش نہیں ہے۔ جیسا کہ ارتکاب ظلم سے وجدان کی پریشانی اور روحانی امن وسکون کا چھن جانا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

بعض روایات میں بھی حضرت صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ زیر بحث آیت سے مراد یہ ہے کہ:وہ لوگ کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے حکم کے مطابق اُمت اسلامی کی ولایت و رہبری کے سلسلے میں آپ کے بعد ایمان لے آئیں اور اُسے دوسرے لوگوں کی ولایت و رہبری کے ساتھ مخلوط نہ کریں تو وہ امن و امان میں ہیں ۔(۲)

یہ تفسیر حقیقت میں آیہ شریفہ میں موجود مطلب کی روح اور نچوڑ پپر نظر رکھتے ہوئے بیان ہوئی ہے کیونکہ اس آیت میں خدا کی ولایت و رہبری کے متعلق گفتگو ہے اور اُسے اُس کے غیر کی رہبری کے ساتھ خلط ملط نہ کرنے کے سلسلہ میں ہے اور چونکہ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری آیہ ”( اِنَّمَا وَلِیّکُمُ اللّٰه وَ رَسُولَه ) “““کے اقتضا کے مطابق خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رہبری کا پرتو ہے اور خدا کی طرف سے معین نہ ہونے والی رہبریاں ایسی نہیں ہیں لہٰذا اُوپر والی آیت ایک وسیع نظر سے ان سب پر محیط ہوگی، اس بناء پر اس حدیث سے مراد یہ نہیں ہے کہ آیت کا مفہوم اسی معنی میں منحصر ہے، بلکہ یہ تفسیر آیت کے اصلی مفہوم کا پرتو ہے۔

اسی لیے ہم حضرت امام صادق علیہ السلام کی ایک دوسری حدیث میں پڑھتے ہیں کہ یہ آیت خوارج جو ولی خدا کی ولایت سے نکل گئے تھے اور شیطان کی ولایت و رہبری میں چلے گئے تھے، کے بارے میں بھی ہے۔(۳)

بعد والی آیت اُن تمام بحثوں کی طرف۔ ایک اجمالی اشارہ کرتے ہوئے کہ جو حضرت ابراہیم- کی طرف سے توحید کے بیان اور شرک کے خلاف مبارزہ و مقابلہ کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں ایک اجمالی اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے: یہ ہمارے وہ دلائل تھے جو ہم نے ابراہیم - کو اس کی قوم و جمعیت کے مقابلہ میں دیئے تھے( وَتِلْکَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاهَا إِبْرَاهِیمَ عَلیٰ قَوْمِهِ ) ۔

یہ صحیح ہے کہ اس استدلال میں منطقی پہلو بھی تھا اور ابراہیم - عقلی قوت اور فطری الہام کی بناپر اُن تک پہنچے تھے لیکن چونکہ یہ قوت عقل اور وہ الہام فطرت سب خدا کی ہی طرف سے تھے، لہٰذا خدا ان تمام استدلالات کو اپنی نعمات میں سے شمار کررہا ہے کہ جو ابراہیم - کے دل جیسے آمادہ دلوں میں منعکس ہوتے ہیں ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ”تلک“ عربی زبان میں بعید کے لیے اسم اشارہ ہے۔ لیکن بعض اوقات موضوع کی اہمیت، اور اس کا بلند پایہ ہونا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ ایک نزدیک کا موضوع بھی اسم اشارہ بعید سے ذکر ہو، جس کی مثال سورہ بقرہ کی ابتداء میں ہے:”( ذَٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ ) “۔

”یہ عظیم کتاب وہ ہے کہ جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے“۔

پھر اس بحث کی تکمیل کے لیے فرمایا یا ہے: ہم جس کے درجات کو چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ) ۔(۴)

لیکن اس غرض سے کہ کوئی اشتباہ واقع نہ ہو۔ کہ لوگ یہ گمان کرنے لگ جائیں کہ خدا اس درجے کے بلند کرنے میں کسی تبعیض سے کام لیتا ہے، قرآن فرماتا ہے: تیرا پروردگار حکیم اور عالم ہے اور وہ درجات عطا فرماتا ہے وہ ان کی لیاقت و قابلیت سے آگاہی اور میزان حکمت کے مطابق عطا فرماتا ہے اور جب تک کوئی شخص لائق اور قابل نہ ہو اُس سے بہرہ مند نہیں ہوگا( إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

____________________

۱۔ تفسیر مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ تفسیر نور الثقلین جلد اوّل صفحہ ۷۴۰۔

۳۔ تفسیر برہان جلد اوّل صفحہ ۵۳۸۔

۴۔ ”درجہ“ کے بار سے میں اور اس کے اور ”درک“ کے درمیان فرق کے بارے میں ہم سورہ نساء آیہ ۱۴۵ جلد چہارم صفحہ ۱۴۸ میں بحث کرچکے ہیں ۔