تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31222
ڈاؤنلوڈ: 2811


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31222 / ڈاؤنلوڈ: 2811
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۸۴،۸۵،۸۶،۸۷

۸۴( وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا هَدَیْنَا وَنُوحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ) -

۸۵( وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ ) -

۸۶( وَإِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِینَ ) -

۸۷( وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّیَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَیْنَاهُمْ وَهَدَیْنَاهُمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) -

ترجمہ:

۸۴ ۔ور ہم نے اُسے (ابراہیم - کو) اسحاق و یعقوب عطا کیے اور ہم نے ہر ایک کو ہدایت کی، اور نوح کو (بھی) ہم نے (ان سے) پہلے ہدایت کی تھی، اور اس کی ذریت و اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو (ہم نے ہدایت کی) اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح سے جزا دیتے ہیں ۔

۸۵ ۔ اور (اسی طرح) زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس سب صالحین میں سے تھے۔

۸۶ ۔ اور اسماعیل، الیسع، یونس اور ہر ایک کو ہم نے عالمین پر فضیلت دی۔

۸۷ ۔ اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے کچھ افراد کو ہم نے برگزیدہ کیا اور اُنہیں راہ راست کی ہدایت کی۔

نعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل

اِن آیات میں اپنی نعمات میں سے ایک کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جو خداوندتعالیٰ نے حضرت ابراہیم- کو عطا کی تھیں اور وہ نعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل جو نعمات الٰہی میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: ہم نے ابراہیم- کو اسحاق اور (فرزند اسحاق) عطا کیے (وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ) ۔

اور اگر یہاں ابراہیم- کے دوسرے فرزند اسماعیل کی طرف اشارہ نہیں ہوا، بلکہ بحث کے دوران کہیں ذکر آیا ہے، شاید اس کا سبب یہ ہے کہ اسحاق کا سارہ جیسی بانجھ ماں سے پیدا ہونا، وہ بھی بڑھاپے کی عمر میں ، بہت عجیب وغریب امر اور ایک نعمت غیر مترقبّہ تھی۔

پھر اس چیز کو بیان کرنے کے لئے کہ ان دونوں کا افتخار صرف پیغمبر زادہ ہونے کے پہلو سے نہیں تھا، بلکہ وہ ذاتی طور پر بھی فکر صحیح اور عمل صالح کے سائے میں نور ہدایت کو اپنے دل میں جاگزین کیے ہوئے تھے، قرآن کہتا ہے: ان میں سے ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی( کُلًّا هَدَیْنَا ) ۔

اس کے بعدیہ بتانے کے لئے کہ کہیں یہ تصور نہ ہو کہ ابراہیم- سے قبل کے دور میں کوئی علَم بردارِ توحید نہیں تھا اور یہ کام بس انہی کے زمانے سے شروع ہوا ہے مزید کہتا ہے: اس سے پہلے ہم نے نوح کی بھی ہدایت ورہبری کی تھی( وَنُوحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ ) ۔

اور ہم جانتے ہیں کہ نوح- پہلے اولوالعزم پیغمبر ہیں جو آئین وشریعت کے حامل تھے اور وہ پیغمبران اولوالعزم کے سلسلے کی کڑی تھے۔

حقیقت میں حضرت نوح- کی حیثیت اوران تمام کی طرف اشارہ کرکے کہ جو حضرت ابراہیم- کے اجداد میں سے ہیں ، اور اسی طرح پیغمبروں کے اس گروہ کے مقام کا تذکرہ کرکے کہ جوابراہیم- کی اولاد اور ذریّت میں سے تھے، حضرت ابراہیم- کی ممتاز حیثیت کو دراثت، اصل اور ثمرہ کے حوالے سے مشخص کیا گیا ہے۔

اور اس کے بعد بہت سے انبیاء کے نام گنوائے ہیں جو ذریت ابراہیم- میں سے تھے، پہلے ارشاد ہوتا ہے: ابراہیم کی ذریت میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، موسیٰ اور ہارون تھے( وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ ) اور اس جملے کے ساتھ کہ: ”اس قسم کے نیکوکار لوگوں کو ہم جزا دیں گے“ واضح کرتا ہے کہ ان کا مقام وحیثیت ان کے اعمال وکردار کی بناپر تھا( وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ) ۔

اس سلسلے میں کہ ”( وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ ) “ (اس کی اولاد میں سے) کی ضمیر کس کی طرف لوٹتی ہے، ابراہیم- کی طرف یا نوح- کی طرف، مفسّرین کے درمیان بہت اختلاف ہے لیکن زیادہ تر مفسّرین ابراہیم- کی طرف لوٹاتے ہیں اور ظاہراً اس بات کی تردید نہیں کرنا چاہیے کہ مرجع ضمیر ابراہیم- ہیں کیونکہ آیت کی بحث ان خدائی نعمات کے بارے میں ہے جو ابراہیم- کی نسبت سے ہوئی تھیں نہ کہ حضرت نوح- کے بارے میں ۔ علاوہ ازیں اُن متعدد روایات میں سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے، جنھیں ہم بعد میں نقل کریں گے۔

صرف ایک مطب اس بات کا سبب بنا ہے کہ بعض مفسّرین نے ضمیر کو نوح- کی طرف لوٹایا ہے اور وہ ہے بعد کی آیات میں حضرت یونس- اور حضرت لوط- کا نام، کیونکہ تواریخ میں مشہور یہ ہے کہ یونس- حضرت ابراہیم- کی اولاد میں سے نہیں تھے اور لوط- بھی حضرت ابراہیم- کے بھتیجے یا بھانجے تھے۔

لیکن یونس- کے بارے میں تمام مورخین میں اتفاق نہیں ہے، بعض انھیں بھی اولاد ابراہیم- میں سے سمجھتے ہیں(۱) اور بعض انھیں انبیاء بنی اسرائیل میں سے شمار کرتے ہیں(۲)

علاوہ ازیں عام طور پر مورخین نسب کی باپ کی طرف سے حفاظت کرتے ہیں لیکن اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ حضرت یونس- کا بھی حضرت عیسیٰ - کا بھی حضرت عیسیٰ کی طرح کہ جن کا نام درج بالا آیات میں ہے کا سلسلہ نسب ماں کی طرف سے حضرت ابراہیم - تک پہنچتا ہو۔

باقی رہے لوط تو وہ اگر چہ ابراہیم - کے فرزند نہیں تھے لیکن ان کے خاندان اور رشتہ داروں میں سے تھے، تو جس طرح عربی زبان میں بعض اوقات ”چچا“ کو ”اب“ (باپ) کہا جاتا ہے اسی طرح بھتیجے اور بھانجے پر بھی ”ذریت“ اور فرزند کا اطلاق ہوتا ہے، اس طرح سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ظاہر آیات سے دست بردار ہوجائیں جو کہ ابرہیم - کے بارے میں ہیں اور ضمیر کو نوح - کی طرف پلٹادیں جو یہاں موضوعِ سُخن بھی نہیں ہیں ۔

بعد کی آیت میں زکری-، یحییٰ، عیسیٰ - اور الیاس کا نام لیا گیا ہے اور مزید کہا گیا ہے کہ یہ سب صالحین میں سے تھے۔

یعنی ان کا مقام و منزلت تشرفاتی اور اجباری پہلو نہیں رکھتا تھا بلکہ انھوں نے عمل صالح کے ذریعہ بارگاہ خداوندی میں عظمت و بزرگی حاصل کی تھی( وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ ) ۔

بعد والی آیت میں بھی چار اور پیغمبروں اور خدائی رہنماؤں کے نام آئے ہیں اور فرمایا گیا ہے: اور اسماعیل, الیسع، یونس اور لوط بھی، اور سب کو ہم نے عالمین پر فضیلت عطا کی (وَإِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِینَ)۔اس بارے میں الیسع کس قسم کا نام ہے اور پیغمبروں میں سے کون سے پیغمبر کی طرف اشارہ ہے مفسرّین اور ادباء عرب کے درمیان اختلاف ہے بعض اسے ایک عبرانی نام سمجھتے ہیں جو اصل میں یوشع تھا اس کے بعد اس پر الف لام داخل ہوئے اور شین، سین سے تبدیل ہوگئی اور بعض کا نظریہ ہے کہ یہ ایک عربی نام ہے اور ”یسع“ سے لیا گیا ہے (جو وسعت کا فعل مضارع ہے)۔ یہ احتمال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اسی صورت میں گذشتہ انبیاء میں سے کسی نبی کا نام تھا بہرحال وہ جناب بھی نسل ابراہیم - میں سے ایک پیغمبر ہیں ۔

اور آخری آیت میں مذکورہ انبیاء کے صالح آباؤ اجداد، اولاد اور بھائیوں کی طرف کہ جن کے نام یہاں پر تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیے گوے ایک کلی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان کے آباؤ اجداد، ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے کچھ افراد کو ہم نے فضیلت دی، انھیں برگزیدہ کیا اور راہ راست کی ہدایت کی( وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّیَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَیْنَاهُمْ وَهَدَیْنَاهُمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

____________________

۱۔ تفسیر آلوسی, ج۷، ص۱۸۴-

۲۔ دائرة المعارف فرید وجدی، ج۱۰، ص۱۰۵۵ (ذیل مادہ یونس)

چند قابل توجہ امور

۱ ۔ فرزندانِ پیغمبر۔ اُوپر والی آیات میں حضرت عیسیٰ - کو فرزندان ابراہیم - (اور ایک احتمال کی بناپر فرزندان نوح) میں سے شمار کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ جناب صرف ماں کی طرف سے ابراہیم - کی طرف منسوب ہوتے ہیں ۔

یہ بات اس امر کی دلیل سے پوتے اور نواسے دونوں ہی انسان کی ذریت اور فرزند شمار ہوتے ہیں ۔

اسی سبب سے آئمہ اہلِ بیت- کو جو سب کے سب بیٹی کی طرف سے پیغمبر اکرم تک پہنچتے ہیں ”ابناء رسول اللّٰہ“ (فرزندان رسول -) کہا جاتا ہے۔

اگر چہ زمانہ جاہلیت میں جب کہ عورت کی کوئی اہمیت نہیں تھی نسب کو صرف باپ کی طرف سے سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اس جاہلانہ فکر پر قلم بطلان پھِیر دیا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لکھنے والوں میں سے بعض قلم نگار جوائمہ اہل بیت- کے ساتھ صحیح لگاؤ نہیں رکھتے یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس امر کا انکار کریں اور ابن رسول الله کہنے سے اجتناب کریں اور سننِ جاہلیت کو زندہ کریں ۔

اتفاق سے یہ موضوع خود ائمہ-کے مانہ میں پیدا ہوچکا تھا اور انھوں نے اسی آیت کے ساتھ کہ جو ایک دندان شکن دلیل ہے، انھیں جواب دیا۔

منجملہ اُن کے کتابِ کافی اور تفسیر عیّاشی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے، آپ- نے فرمایا:

خداوندعالم نے قرآن میں حضرت عیسی- کا نسب جو کہ ماں کی طرف سے حضرت ابراہیم- تک پہنچتے تھے ذریّت (اولاد کی اولاد) کے عنوان سے بیان کیا ہے۔

پھر آپ- نے آیہ( وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ ) کو آخر تک اور بعد کی آیت کو لفظ عیسی- تک تلاوت فرمایا۔

تفسیر عیّاشی میں بھی ابوالاسود سے مروی ہے وہ کہتا ہے:

ایک دن حجاج نے کسی کو یحییٰ بن معمر کے پاس بھیجا جو خاندان رسالت سے محبت رکھتا تھا (اور اُس سے پوچھا) کہ میں نے سنا ہے کہ تو حسن- وحسین- کو فرزندان رسول سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں آیات قرآن سے استدلال کرتا ہے، حالانکہ میں نے قرآن کو اوّل سے آخر تک پڑھا ہے مجھے تو کوئی ایسی آیت نہیں ملی، یحییٰ بن معمر نے اس کے جواب میں کہا کہ کیا تونے سورہ انعام کی وہ آیت پڑھی ہے کہ جو یہ کہتی ہے کہ( وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ----وَیَحْییٰ وَعِیسیٰ ) اس نے کہا کہ ہاں میں نے پڑھی ہے تو اس نے کہا کہ کیا ان آیات میں حضرت عیسی- کو ذریت ابراہیم- میں شمار نہیں کیا گیا ہے حالانکہ وہ باپ کی طرف سے اُن تک نہیں پہنچتے تھے۔

”عیون الاخبار“ میں ایک طویل حدیث ہے جس میں امام موسی- بن جعفر- کی ہارون الرشید اور موسیٰ بن مہدی سے گفتگو منقول ہے جس میں ہے:

اُس (ہارون) نے امام کاظم علیہ السلام سے کہا کہ تم لوگ کس طرح کہتے ہو کہ ہم ذریت پیغمبر ہیں حالانکہ پیغمبر کا کوئی بیٹا تو نہیں تھا اور نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے اور تم اُن کی بیٹی کی اولاد ہو، امام علیہ السلام نے جواب میں اس سے فرمایا کہ اس سوال کو رہنے دے لیکن ہارون نے اصرار کیا اور کہا کہ میں کسی طرح بھی اس سوال سے صرفِ نظر نہیں کروں گا کیونکہ تم لوگ عقیدہ رکھتے ہوکہ سب کچھ قرآن مجید میں موجود ہے لہٰذا اس بارے میں قرآن کی کوئی آیت دکھائیے، امام علیہ السلام نے فرمایا:

اعوذ باللّٰه من الشیطان الرجیم، بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم ( وَمِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ،وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی ) -

اس کے بعد آپ- نے سوال کیا: اے ہارون!عیسی- کا باپ کون تھا؟ اُس نے کہا: عیسی- کا تو کوئی باپ نہیں تھا۔ فرمایا: تو اس بناپر اگر وہ انبیاء کی ذریت سے ملحق ہیں تو مریم کی طرف سے ہیں ، ہم بھی رسولِ خدا کی ذریت میں اپنی ماں فاطمہ- کے ذریعہ سے ملحق ہیں(۱)

یہ بات خاص طور پر توجہ ہے کہ بعض متعصب سنّی مفسّرین نے بھی یہ موضوع اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک فخر الدین رازی ہیں جنھوں نے اپنی تفسیر کبیر میں لکھا ہے:

”یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن- وحسین- ذریت پیغمبر ہیں کیونکہ خدا ہے عیسی- کو ذریت ابراہیم- میں شمار کیا ہے حالانکہ وہ صرف ماں کی طرف سے ان (حضرت ابراہیم-) سے تعلق رکھتے ہیں(۲)

تفسیر ”المنار“ کا مولف بھی جو بعض مخصوص مذہبی مباحث میں فخر رازی سے کم متعصب نہیں ہے، فخر رازی کی اس گفتگو کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

”اس باب میں ایک حدیث حضرت ابوبکر سے بھی صحیح بخاری میں پیغمبر سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے امام حسن- کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:”اِنَّ ابْنِی هٰذا سیّد “”میرا یہ بیٹا سید وسردار ہے“

یعنی آپ نے ”میرا بیٹا“ کے لفظ کا امام پر اطلاق فرمایا حالانکہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک لفظ ابن (بیٹا) کا بیٹی کی اولاد پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ اسی بناپر لوگ اولاد فاطمہ- کو اولاد رسول اور عترت واہل بیت- رسول جانتے تھے۔

بہر حال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اولاد کی اولاد بیٹی کی ہو یا بیٹے کی انسان کی اولاد شمار ہوتی ہے اور اس سلسلے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ ہی یہ تفریق ہمارے پیغمبر کے خصوصیات میں سے ہے اور اس مسئلہ کا مخالفت کا سرچشمہ سوائے تعصب یا زمانہ جاہلیت کے افکار کے اور کچھ نہیں ہے۔ اسی لئے تمام احکام اسلام میں ازدواج، ارث وغیرہ کے قبیل سے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ مسئلہ خمس ہے، جو سیادت کے ساتھ مخصوص ہے اور ایک خاص جہت سے جو فقہ کی کتابِ خمس میں بیان ہوئی ہے اس موضوع کا استثناء ہوا ہے۔

۲ ۔ ان پیغمبروں کے نام تین حصوں میں کیوں بیان ہوئے؟ بعض مفسّرین نے یہ احتمال بیان کیا ہے کہ پہلا گروہ یعنی داؤد-، سلیمان-، ایوب- موسی- اور ہارون، یہ چھ افراد ان پیغمبروں میں سے تھے جو مقام نبوت ورسالت کے علاوہ حکومت وسلطنت بھی رکھتے تھے، او رشاید جملہ ”وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ“ جو ان کے ناموں کے ذکر کے بعد آیا ہے ان فراواں نیکیوں کی وجہ سے تھا جو انھوں نے اپنی اپنی حکومت کے زمانہ میں لوگوں پر کی تھیں ۔

لیکن دوسرا گروہ یعنی زکری-، یحیی-، حیسی- اور الیاس- اپن انبیاء میں سے ہیں کہ جو مقام نبوت ورسالت کے علاوہ زہد وتقویٰ میں اعلیٰ نمونہ تھے ”کُلٌّ مِنَ الصَّالِحِیْن“ کا جملہ اُن کے اسمائے گرامی کے بعد ہوسکتا ہے کہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہو۔

اور تیسرا گروہ (کے انبیاء) یعنی اسماعیل-، الیسع-، یونس- او لوط- یہ امتیاز رکھتے تھے کہ انھوں نے بڑی بڑی ہجرتیں کیں اور دین خدا کو محکم کرنے لیے ہجرت کے پروگرام کو عملی شکل دی اور جملہ ”کلا فضلنا علی العالمین“ کا ذکر بھی (اس قول کی بناپر کہ اس میں جملہ میں انہی چار افراد کی طرف اشارہ ہے نہ کہ ان تمام پیغمبروں کی طرف کہ جن کا ذکر ان تین آیات میں آیا ہے) ہوسکتا ہے کہ اُن کے مختلف قوموں اور دنیا جہاں کے لوگوں کے درمیان سیر کی طرف اشارہ ہو۔

۳ ۔ انسان کی شخصیت کے تعارف میں صالح اور نیک اولاد کی اہمیت: ایک دو سرا موضوع جو زیر بحث آیات سے معلوم ہوتا ہے یہی مسئلہ ہے کیونکہ خدا شجاع وبت شکن ابراہیم- کے مقامِ والا کے تعارف کے لیے عالم انسانیت کی عظیم شخصیتوں کا جو آپ کی اولاد میں سے مختلف زمانوں میں عالم وجود میں آئی تھیں شرح وبسط اور تفصیل کے ساتھ ذکر کرتا ہے، اس طور پر کہ ان ۲۵ انبیاء میں سے کہ جن کے نام سالم قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان آیات میں ۱۶ نام ابراہیم- کے فرزندوں اور وابستگان کے ہیں اور ایک نام اُن کے اجداد میں سے آیا ہے اور یہ حقیقت میں عام مسلمانوں کے لیے ایک عظیم درس ہے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ ان کی اولاد اور عزیزوں کی شخصیت ان کی شخصیت کا جزء شمار ہوتی ہے لہٰذا اُن سے مربوط تربیتی اور انسانی مسائل بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔

۴ ۔ ایک اعتراض کا جواب: ممکن ہے کہ کچھ لوگ آخری آیت سے، جو یہ کہتی ہے کہ ہم نے ان کے بعض آباؤ اجداد اور اولاد اور بھائیوں کو برگزیدہ کیا اور انھیں راہ راست کی ہدایت کی، یہ سمجھا کریں کہ انبیاء کے آباؤ اجداد سب کے سب یا ایمان افراد نہیں تھے اور اُن میں غیر موحّد بھی ہیں ، جیسا کہ بعض مفسّرین اہل سنّت نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”اجتبیناھم وہدیناھم“ سے مراد اس تعبیر کے قرینہ سے کہ جو اسی سلسلہ آیات میں موجود ہے، مقامِ نبوت ورسالت ہے، یہ مشکل حل ہوجاتی ہے یعنی آیت کا مفہوم اس طرح ہوگا کہ ہم نے اُن میں سے بعض کو مقامِ نبوت کے لیے برگزیدہ کیا۔ اور یہ باقی دوسروں کے موحّد وخدا پرست ہونے کی نفی نہیں ہے۔ اس سورہ کی آیت ۹۰ میں بھی (جو اس آیت سے چند آیات بعد کی آیت ہے) ہدایت کا اطلاق مقامِ نبوت پر ہوا ہے(۳)

____________________

۱۔ نور الثقلین، ج۱، ص۷۴۳-

۲۔ تفسیر فخر رازی، ج۱۳، ص۶۶-

۳۔ ترکیب کے لحاظ سے ”من آبائہم“ ، ”جارو ومجرور“ ہے کہ جس کا متعلق یا تو لفظ ”فضلنا“ ہے جو قبل کی آیت میں ذکر ہوا ہے، یا محذوف ہے اور بعد کا حصّہ اس محذوف پر دلالت کرتا ہے اور اصل می اس طرح تھا: ”اجتبیناہم من آبائہم“ ضمناً توجہ رکھنا چاہیے کہ اوپر والی آیت میں ”مِن“ تبعیضیہ ہے۔

آیات ۸۸،۸۹،۹۰

۸۸( ذٰلِکَ هُدَی اللَّهِ یَهْدِی بِهِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ اٴَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) -

۸۹( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ یَکْفُرْ بِهَا هَؤُلاَءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَیْسُوا بِهَا بِکَافِرِینَ ) -

۹۰( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ هَدَی اللَّهُ فَبِهُدَاهُمْ اقْتَدِهِ قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ اٴَجْرًا إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ ) -

ترجمہ:

۸۸ ۔ یہ خدا کی ہدایت ہے کہ جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کی ہدایت کرتا ہے اور اگر وہ مشرک ہوجائیں تو انھوں نے جو کچھ عمل کیا تھا وہ سب کا سب (ضائع اور) نابود ہوجائے گا۔

۸۹ ۔ وہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ہم نے کتاب اور حکم ونبوت عطا کی ہے اور اگر وہ اس کا انکار کریں اور کافر ہوجائیں تو (کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ) ہم نے ایسے لوگوں کو اس کا نگہبان بنایا ہے کہ جو اُس کا کفر وانکار کرنے والے نہیں ہیں ۔

۹۰ ۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جنھیں خدا نے ہدایت کی ہے پس تم ان کی ہدایت کی اقتدا (وپیروی) کرو (اور) یہ کہو کہ میں اس (رسالت وتبلیغ) کے بدلے میں تم سے کوئی اجر اور بدلہ نہیں مانگتا یہ رسالت تو عالمین کے لیے ایک یاد دہانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

تفسیر

تین اہم امتیاز

گذشتہ آیات میں خداوند تعالیٰ پیغمبروں کے مختلف گروہوں کے ناموں کے ذکر کے بعد یہاں ان کی زندگی کے کلی اور اصلی خطوط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلے فرماتا ہے: یہ خدا کی ہدایت ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ہدایت ورہبری کرتا ہے( ذٰلِکَ هُدَی اللَّهِ یَهْدِی بِهِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ) ۔ یعنی اگرچہ وہ صالح اور نیک لوگ تھے اور عقل وفکر کی قوت اور اپنے تمام وجود کے ساتھ ہدایت کی راہ میں قدم اٹھاتے تھے لیکن پھر بھی اگر توفیق الٰہی ان کے شامل حال نہ ہوتی اور اس کی مہربانی کا ہاتھ ان کی دستگیری کرتے ہوئے انھیں سہارا نہ دیتا تو اُن سب کے بارے میں بھی اور ہر شخص کے لیے لغزش کا امکان موجود تھا اور موجود ہے۔ پھر اس بناپر کہ کہیں یہ تصور نہ کیا جائے کہ انھوں نے اس راہ میں مجبوراً قدم اٹھایا ہے اور اسی طرح کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ خداوندتعالیٰ ان کے بارے میں ایک استثنائی اور بغیر دلیل اور وجہ کے کوئی خاص نظر رکھتا تھا فرماتا ہے: اگر فرض کریں کہ یہ پیغمبر اس مقام وحیثیت کے باوجود جو وہ رکھتے تھے مشرک ہوجاتے تو ان کے تمام اعمال حبط ہوجاتے( وَلَوْ اٴَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

یعنی اُن کے لیے بھی وہی قوانین الٰہی جاری ہیں جو دوسروں کے بارے میں جاری ہوتے ہیں اور کوئی استثناء کسی کے لئے نہیں ہے۔

بعد والی آیت میں تین اہم امتیازات وخصوصیات کی طرف جو انبیاء کے تمام امتیازات کی بنیاد ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: یہ ایسے لوگ تھ کہ جنھیں ہم نے آسمانی کتاب عطا کی اور مقام حکم بھی اور نبوت بھی( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ) ۔

البتہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ سب صاحب کتاب تھے بلکہ چونکہ گفتگو ان سب کے متعلق ہورہی ہے لہٰذا اجتماعی طور پر سب کی طرف نسبت دی گئی ہے اس کی مثال ٹھیک اس طرح ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں کتاب میں علماء اور ان کی کتب کا تعارف کرایا گیا ہے، یعنی ان کی کتب کہ جنھوں نے کوئی کتاب لکھی ہے۔

ضمنی طور پر اس بارے میں کہ ”حکم“ سے کیا مراد ہے تین احتمال پائے جاتے ہیں :

۱ ۔ حکم کا مفہوم:

یہ لفظ یہاں عقل وفہم وادراک کے معنی میں ہے یعنی اس کے علاوہ کہ ہم نے انھیں آسمانی کتاب دی ہے اس کو سمجھنے کی قدرت بھی انھیں بخشی ہے کیونکہ کتاب کا وجود قوی وکامل ادراک وفہم کے بغیر کوئی اثر نہیں رکھتا۔

۲ ۔ منصَب قضاوت:

یعنی وہ اُن آسمانی قوانین کے سائے میں جو کتاب الٰہی میں تھے، لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکتے تھے اور اُن سب میں ایک قاضی اور دادرس عادل کی تمام شرائط کامل طور پر موجود تھیں ۔

۳ ۔ حکومت وسلطنت:

کیونکہ وہ مقام نبوت ورسالت کے علاوہ مقام حکومت کے بھی حامل تھے۔

اُوپر والے تمام معانی کا شاہد۔ اس کے علاوہ کہ حکم کا لغوی معنی ان تمام معانی پر منطبق ہوتا ہے۔ یہ ہے کہ قرآن کی مختلف آیات میں بھی حکم ان تمام معانی میں استعمال ہوا ہے(۱)

اور اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اوپر والی آیت میں لفظ حکم ایک جامع معنی میں کہ جس میں تینوں اُوپر والے مفہوم موجود ہوں ، استعمال ہوا ہو کیونکہ حکم اصل میں جیسا کہ راغب ”مفردات“ میں کہتا ہے منع کرنے اور روکنے کے معنی میں ہے اور چونکہ عقل اشتباہات اور غلط کاریوں سے روکتی ہے، اسی طرح صحیح قضاوت و فیصلہ کرنا ظلم و ستم کرنے سے منع کرتا ہے اور عادل حکومت دوسروں کی ناروا و ناجائز حکومتوں کو روک دیتی ہے (لہٰذا لفظ حکم) ان تینوں (معانی) میں سے ہر ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

البتہ جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ تمام انبیاء ان تمام مقامات کے حامل نہیں تھے۔ لیکن جب ایک گروہ کچھ احکام کی نسبت دی جائے، تو یہ بات ضروری نہیں ہے کہ اس جماعت کے تمام افراد اُن تمام احکام کے حامل ہوں بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان احکام میں سے فقط بعض احکام کے ہی حامل ہوں ۔ لہٰذا کتابِ آسمانی کا موضوع جو صرف مذکورہ و معدودے چند انبیاء کے بارے میں تھا، مندرجہ بالا آیت کے سمجھنے میں ہمارے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرتا۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اگر یہ گروہ یعنی مشرکین، اہلِ مکہ اور ان جیسے لوگ ان حقائق کو قبول نہ کریں تو تیری دعوت جواب کے بغیر نہیں رہے گی کیونکہ ہم نے ایک گروہ کو اس امر پر مامور کردیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اُسے قبول کریں بلکہ اس کی حفاظت و نگہبانی بھی کریں ۔ وہ ایسا گروہ ہے کہ جو (ایمان لانے کے بعد) کفر کے راستے پر گامزن نہ ہوں گے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم رکھیں گے( فَإِنْ یَکْفُرْ بِهَا هَؤُلاَءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَیْسُوا بِهَا بِکَافِرِینَ ) ۔

تفسیر ”المنار“ اور تفسیر ”روح المعانی“ میں بعض مفسرّین سے نقل ہوا ہے کہ اس جماعت سے مراد ایرانی ہیں (کہ جنہوں نے بہت جلدی اسلام قبول کیا اور اس کی پیش رفت میں اپنی ساری توانائیوں کے ساتھ کو شاں رہے اور ان کے علماء اور دانشمندوں نے مختلف اسلامی فنون میں بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں )۔(۲)

آخری آیت میں ان بزرگ پیغمبروں کے پروگرام (اور کارناموں ) کو ہدایت کے ایک اعلیٰ نمونے کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تعارف کراتے ہوئے قرآن کہتا ہے: یہ ایسے لوگ ہیں کہ ہدایت الٰہی جن کے شاملِ حال تھی لہٰذا تم بھی ان کی ہدایت کی اقتداء کرو( اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ هَدَی اللَّهُ فَبِهُدَاهُمْ اقْتَدِهِ ) ۔(۳)

یہ آیت دوبارہ تاکید کرتی ہے کہ تمام پیغمبروں کا اصولِ دعوت ایک ہی ہے۔ اگر چہ خصوصیات کے لحاظ سے مختلف زمانوں کی مختلف ضروریات کے تناسب سے احکام فرق رکھتے تھے اور بعد کے دین و آئین قبل کے ادیان سے کامل تر ہوتے رہے اور علمی و ترتیبی کلاسیں اپنے انتہائی درجے تک کہ جو آخری کو رس تھا یعنی اسلام تک پہنچی ہیں ۔

اس بارے میں کہ اس ہدایت سے کونسی ہدایت مراد ہے کہ جو پیغمبر اسلام کے لیے نمونہ قرار پائی ہے۔ بعض مفسرّین نے تویہ احتمال ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد مشکلات کے مقابلہ میں صبر و پائداری ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اس سے مقصود توحید اور تبلیغِ رسالت ہے لیکن ظاہرا ًہدایت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے کہ جو توحید کو بھی اور دوسرے اصول اعتقادی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور صبر و استقامت اور باقی اخلاق، تعلیم اور تربیت کے اصول بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ زیر نظر آیت اس بات کے منافی نہیں کہ اسلام تمام گذشتہ ادیان و شرائع کا ناسخ ہے کیونکہ نسخ تو صرف احکام کے ایک حصہ کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اُن کی دعوت کے کلی اصول منسوخ ہوجاتے ہیں ۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں سے یہ کہہ دیں کہ: میں تم سے اپنی رسالت کے بدلے میں کسی قسم کا کوئی اجرا اور بدلے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ جیسا کہ گذشتہ انبیاء نے بھی کوئی ایسی درخواست نہیں کی تھی میں بھی انبیاء کی ہمیشہ کی اس سنت کی پیروی کرتے ہوئے ان کی اقتدا کرتا ہوں( قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ اٴَجْرًا ) ۔

نہ صرف یہ کہ انبیاء اور ان کی سنتِ جاوید کی اقتداء کا تقاضا یہ ہے کہ میں کسی قسم کی اجرت کا مطالبہ نہ کروں بلکہ اس سبب سے بھی کہ یہ پاک دین جو میں تمہارے لیے لایا ہوں ایک خدائی امانت ہے جو میں تمھیں سپرد کررہا ہوں تو خدائی امانت تم تک پہنچانے کا اجر اور جزاء (مانگتے) کوئی مفہوم ہی نہیں ہے۔

علاوہ ازیں یہ قرآن، رسالت اور ہدایت تمام عالمین کے لیے ایک صدائے بیدار باش اور یاد آوری ہے ( ا( ِٕنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ ) ۔

اور اس قسم کی عمومی نعمت جو سب کے لیے ہے، نورِ آفتاب، نورِ آفتاب، امواج ہوا اور بارش برسنے کے مانند ہے کہ جو عمومی اورجہانی پہلو رکھتی ہے اور کبھی بھی اس کی خرید و فروخت نہیں ہوتی اور کوئی اس کے بدلے میں اجرو جزا نہیں لیتا۔ یہ ہدایت و رسالت بھی کوئی خصوصی اور اختصاصی پہلو نہیں رکھتی کہ جس کے لیے کسی بدلے کا قائل ہوا جاسکے۔

(اس جملہ کی تفسیر میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان کا ایک دوسرے کے ساتھ جوڑاقبل کی آیات کے ساتھ تعلق کامل طور پر واضح ہوجاتاہے)۔

ضمنی طور پر آخری جملے سے یہ اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ دینِ اسلام کوئی علاقائی اور قومی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک عالمی اور انسانی دین ہے جو ہر جگہ اور ہر شخص کے لیے ہے۔

____________________

۱ ۔ سورہ لقمان کی آیہ ۱۲ میں علم و فہم کے معنی ہیں ، سورہ ص کی آیہ ۲۲ میں قضاوت کے معنی میں اور سورہ کہف کی آیہ ۲۶ میں حکومت کے معنی میں آیا ہے۔

۲ ۔ آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ ”ہٰولاء“ سے مراد خود انبیاء ہوں یعنی بفرض محال اگر یہ بزرگ انبیائے خدا ادائے رسالت سے سرتابی کرلیتے، تو پھر بھی خدائی پیغام زمین پر نہ پڑا رہتا، اور ایک دوسری جماعت اسے عالمین تک پہنچانے پر مامور ہوجاتی۔ قرآن میں ایسی تعبیرات کی نظیر بھی پائی جاتی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ہم پڑھتے ہیں : ”لئن اشرکت لیحبطن عملک“- (زمر: ۶۵) ۔

۳۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ ” اقتدہ“میں ”‘ِہ‘ ضمیر نہیں ہے بلکہ ”ہاء سکت“ ہے جو وقف کے وقت کلام میں حرف متحرک سے متعلق ہوتی ہے جیسا کہ ہمزہ وصل استعمال ہوتا ہے کہ جو شروع کے حرف کو ساکن کے ساتھ شروع نہ کرنے کی بناپر آغاز کا کلام میں لایا جاتا ہے تو جس طرح ہمزہ وصل اتصال کلام کے وقت ساقط ہوجاتا ہے اسی طرح ”ہائے سکت“ بھی ساقط ہوجانی چاہیے، لیکن چونکہ یہ ”ہاء“ قرآن کے رسم الخط میں لکھی ہوئی ہے، لہٰذا رسم الخط کے ظاہر کی رعایت کرتے ہوئے، احتیاط کو اسی بات میں سمجھتے ہیں کہ یہاں وقف ہوتا کہ ”ہاء“ ظاہر ہوسکے۔