تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31236
ڈاؤنلوڈ: 2813


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31236 / ڈاؤنلوڈ: 2813
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۹۸،۹۹

۹۸( وَهُوَ الَّذِی اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَهُونَ ) -

۹۹( وَهُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَاٴَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاکِبًا وَمِنْ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ انظُرُوا إِلَی ثَمَرِهِ إِذَا اٴَثْمَرَ وَیَنْعِهِ إِنَّ فِی ذَلِکُمْ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) -

ترجمہ:

۹۸ ۔ اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا حالانکہ بعض انسان پائیدار ہیں (ایمان یا خلقت کامل کے لحاظ سے) اور بعض ناپائیدار ہم نے اپنی آیات اُن لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں بیان کردی ہیں ۔

۹۹ ۔ اور وہی وہ ذات ہے کہ جس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس کے ذریعے طرح طرح کے نباتات اُگائے ۔ اُن سے سبز تنے اور شاخیں نکالیں اور اُن سے ترتیب کے ساتھ چنے ہوئے دانے اور کجھور کے گچھوں سے باریک دھاگوں کے ساتھ جُڑے ہوئے خوشے باہر نکالے اور طرح طرح کے انگور، زیتون اور انار کے باغ (پیدا کئے) جو ایک دوسرے سے مشابہ بھی ہی اور (بعض) غیر مشابہ (ہیں ) جب اُن میں پھل آتا ہے تو تم اُس میں پھل لگنے اور اُس کے پکنے کی طرف نگاہ کرو کہ اس میں صاحبانِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں ۔

وہی وہ ذات ہے کہ جس نے تمھیں ایک انسان سے پیدا کیا ہے

تفسیر

ان آیات میں بھی توحید اور خدا شناسی کے دلائل ہی بیان ہوئے ہیں ۔ کیونکہ قرآن انسان کو اس ہدف کے لیے کبھی آفاق اور دور رداز کے جہانوں کی سیر کراتا ہے اور کبھی اُسے اپنے وجود کے اندر سیر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور اسی کے جسم وجان میں موجود خدا کی نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے۔ تاکہ وہ خدا کو ہر جگہ اور ہر چیز میں دیکھ لے۔

پہلے کہتا ہے: وہی وہ ذات ہے کہ جس نے تمھیں ایک انسان سے پیدا کیا ہے( وَهُوَ الَّذِی اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ) ۔

یعنی تم ان گوناگوں چہروں ، مختلف ذوق وافکار اور تمام جنبہ ہاے وجودی میں وسیع تنوع کے باوجود ایک ہی فرد سے پیدا ہوتے ہو۔ اور اس سے خالق وآفرید گار کی انتہائی عظمت کا اظہار ہوتا ہے کہ اس نے ایک ہی مبداء سے یہ مختلف چہرے کس طرح پیدا کیے ہیں ۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس جملہ میں خلقت انسان کو ”انشاء “ سے تعبیر کیا ہے اور یہ لفظ جیسا کہ متون لغت سے معلوم ہوتا ہے ایسے ایجاد وابداع کے معنی ہیں ہے کہ جس میں ترتیب وپرورش کی آمیزش ہو۔ یعنی نہ صرف یہ کہ خدا وندتعالیٰ نے تمھیں بغیر کسی سابقہ تجربے کے یدا کیا ہے بلکہ اُس نے تمھاری تربیت وپرورش کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے اور یہ بات مسلّّم ہے کہ اگر کوئی پیدا کرنے والا کسی چیز کو پیدا کرکے پھر اُسے (بے سہارا) چھوڑدے تو اُس نے کوئی زیادہ قدرت نمائی نہیں کی۔ لیکن اگر وہ ہمیشہ کے لیے اُسے اپنی حمایت میں لے لے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی پرورش وتربیت سے غافل نہ ہو تو اُس نے اپنی عظمت ورحمت کی مکمل نشاندہی کی ہے۔

ضمنی طور پر مندرجہ بالا جملے سے یہ تو ہّم پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ جناب حوّا ہماری پہلی ماں (بھی) آدم- سے پیدا ہوئی ہیں (جیسا کہ تورات کی فصل دوم سفر تکوین میں آیا ہے) لیکن چونکہ آدم- وحوّا روایات اسلامی کے مطابق ایک ہی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور دونوں ایک ہی جنس اور ایک ہی نوع ہیں لہٰذا نفس واحدہ کے الفاظ اُن پر بولے گئے ہیں (ہم سورہ نساء کی ابتداء میں بھی اس بارے میں بحث کرچکے ہیں )

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: افراد بشر کی ایک جماعت مستقر ہے اور ایک جماعت مستودع( فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ) ۔

”مستقر“ مادہ ”قر“ (بروزن ”حر) سے سردی کے معنی میں ہے اور چونکہ ایسی سردی کہ جس کی ہوا تیز اور سخت ہو وہ انسان اور دوسرے موجودات کو حانہ نشین کردیتی ہے۔ تو یہ لفظ سکون وتوقف اور کسی جگہ قرار پانے کے معنی میں آیا ہے اور ”مستقر“ ثابت اور پائیدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

”مستودع“ ، ”دوع“ (بروزن ”منع) کے مادہ سے ترک کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ اس بناپر ناپائیدار امور بہت جلد اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں لہٰذا یہ لفظ ناپائیدار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور ودیعہ (امامت) کو اس لیے ودیعہ کہتے ہیں کہ اُسے اپنی جگہ ترک کرنا چاہیے اور اصل مالک کی طرف پلٹ جانا چاہیے۔

مندرجہ بالا گفتگو سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ بعض انسان پائیدار ہیں اور بعض ناپائیدار اور اس بارے میں کہ یہاں ان دونوں تعبیرات سے کیا مراد ہے مفسّرین کے درمیان بہت اختلاف نظر آتا ہے۔ لیکن ان میں سے چند تفاسیر جو اپنی اصل حالت پر رہتے ہوئے بھی آپس میں ایک دوسرے سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں اور اُن سب کو ہی آیت کی تفسیر کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے اور وہ حقیقت سے قریب تر ہیں ۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ ”مستقر“ سے مراد وہ انسان ہیں کہ جن کی خلقت کامل ہوئی ہے اور وہ رحم مادر میں رہے ہیں یا روئے زمین پر قدم رکھا ہے۔ اور مستودع ان افراد کی طرف اشارہ ہے جن کی غفلت ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی اور وہ نطفہ کی صورت میں آباؤ اجداد کے صلب میں ہی ہیں ۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ ”مستقر“ روحِ انسان کی طرف اشارہ ہے کہ جو ایک ناپائیدار وبرقرار چیز ہے اور ”مستودع“جسم انسانی کی طرف اشارہ ہے جو ناپائیدار اور فانی ہے۔

بعض روایات میں ان دونوں تعبیرات کے لیے ایک معنوی تفسیر بھی بیان ہوئی ہے کہ ”مستقر“ ان انسانوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو پائیدار ایمان کے حامل ہیں اور ”مستودع“ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو ناپائیدار ایمان رکھتے ہیں(۱)

یہ احتمال بھی موجود ہے کہ مذکورہ بالا دونوں تعبیریں نطفہ انسان کو تشکیل دینے والے اجزائے اوّلیہ کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نطفہ انسان دو اجزاء ایک نطفہ مادہ ( OVUM ) اور دوسرا نطفہ نر ( SPERM )سے تشکیل پاتا ہے، مادہ کا نطفہ تو رحم میں تقریباً ثابت اور مستقر ہے، لیکن نر کے نطفے متحرک جانداروں کی شکل میں اس کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ حرکت کرتے ہیں ( SPERM ) کا پہلا فرد جو ( OVUM ) تک پہنچتا ہے وہ اُس میں داخل ہوجاتا ہے اور باقی کو پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے اور یوں انسان کے تخمہ اوّلی کی تشکیل ہوتی ہے۔

آیت کے آخر میں دوبارہ کہا گیا ہے: ہم اپنی نشانیوں کو ایک ایک کرکے تفصیل سے بیان کردیا ہے تاکہ جو لوگ سمجھدار اور صاحب ادراک ہیں وہ سمجھ لیں( قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَهُونَ ) ۔

لغت کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”فقہ“ ہر قسم کے علم وفہم کو نہیں کہتے بلکہ موجودہ معلومات سے غائب کی معلومات کا کھوج نکالنے کو کہتے ہیں(۲) اس بناپر ان طرح طرح کے چہروں اور مختلف جسمانی وروحانی قیافوں کے ساتھ انسان کی خلقت کی طرف توجہ کرنا اس لائق ہے کہ نکتہ سنج افراد اس میں غور کریں اور اپنے خدا کو پہچانیں ۔

دوسری آیت وہ آخری آیت ہے جو ان بحثوں کے سلسلے میں ہمیں جہانِ خلقت کے عجائبات کے ذریعہ خدا شناسی کی دعوت دیتی ہے۔

شروع میں پروردگارِ عالم کی اہم ترین اور بنیادی ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت کی طرف کہ جسے تمام نعمتوں کی اصل، جڑ، بنیاد اور ماں سمجھا سکتا ہے اشارہ کیا گیا ہے اور وہ نباتات (سرسبز پودے) اور درختوں کا بننا اور رشد ونمو کرنا ہے، چنانچہ یہ آیت کہتی ہے: وہی وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے) آسمان سے پانی نازل کیا( وَهُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔

جو یہ کہتا ہے کہ آسمان کی طرف سے (یعنی اُوپر کی طرف سے، کیونکہ لغت عرب میں آسمان ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو اُوپر کی طرف قرار پاتی ہو) تواس کی وجہ یہ ہے کہ روئے زمین میں پانی کے جتنے بھی منابع ہیں چاہے وہ چشمے ہوں یا دریا، نہریں ہوں یا گہرے کنویں ، سب کے سب آخرکار ربارش کے پانی کے محتاج ہیں ۔ اسی لیے بارش کی کمی اُن سب پر اثرانداز ہوتی ہے اور اگر خشک سالی طول پکڑلے تو وہ سب کے سب خشک ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بعد بارش کے ایک واضح اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ: اسی کے ذریعہ سے تمام اُگنے والی چیزوں کو ہم نے زمین سے نکالا ہے( فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ ) ۔

مفسّرین نے ”نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ“ (ہر چیز کی گھاس) کی تفسیر میں دو احتمال کا ذکر کیا ہے۔ پہلا یہ کہ اس سے مراد ہر نوع اور ہر قسم کی ایسی بناتات ہیں جو ایک ہی پانی سے سیراب ہوتی ہی اور ایک ہی زمین اور ایک ہی قسم کی مٹی میں پرورش پاتی ہیں اور یہ چیز آفرینش کے عجائبات میں سے ہے کہ یہ تمام قسم قسم کی نباتات اپنے خواص میں مکمل طور پر مختلف ہونے اور بعض اوقات متضاد ہونے اور مختلف شکلوں میں ہونے کے باوجود سب کی سب ایک ہی زمین میں اور ایک ہی پانی سے کیسے پرورش پاتی ہیں ۔

دوسرا یہ کہ اس سے مراد وہ نباتات ہیں جن کی ہر کسی کو حاجت اور ضرورت ہے۔ یعنی پرندوں ،چوپاؤں ، حشرات اور دریائی وصحرائی جانوروں میں سے ہر ایک ان نباتات سے بہرہ اندوز ہوتا ہے۔ اور یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ خداوندتعالیٰ نے ایک ہی زمین سے اور ایک ہی پانی سے ہر ایک ضرورت کے مطابق غذا مہیّا کی ہے اور یہ قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے کہ فی المثل ایک ہی معین مادے سے ایک باورچی خانہ میں ہزاروں قسم کی مختلف سلیقہ اور مزاجوں کے لوگوں کے لیے مہیّا کرتی ہے۔

اور اس سے بھی بڑھ کر لائق توجہ بات یہ ہے کہ نہ صرف صحراؤں کی اور خشکیوں کی گھاس اور سبزے بارش کے پانی کی برکت سے پرورش پاتے ہیں بلکہ بہت سی ایسی چھوٹی نباتات جو سمندر کے پانی کی موجوں کے درمیان اُگتی ہیں اور سمندر میں رہنے والی مچھلیوں کی عمدہ خوراک بنتی ہیں ، وہ بھی نورِ آفتاب اور بارش کے قطروں کے اثر سے رشد ونمو حاصل کرتی ہیں ۔ میں یہ بات بھولتا نہیں ہوں کہ خلیج فارس کے جزائر کا رہنے والا ایک شخص جو شکار کی کمی کی شکایت اس کی علت وسبب کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا کہ مچھلی کے شکار کی کمی خشک سالی کے سبب سے ہے اور وہ اس بات کا معتقد تھا کہ سمندر کے اندر بارش کے قطروں کا خیات بخش اثر خشکیوں میں بارش کے اثر سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

اس کے بعد اس جملے کی شرح کرتے ہوئے قرآن گیہوں اور درختوں کے ایسے اہم مواقع کی نشاندہی کرتا ہے کہ جو بارش کے پانی کے ذریعہ پرورش پاتے ہیں پہلے کہتا ہے: ہم نے اُس (بارش کے پانی) کے ذریعہ گیہوں اور نباتات کے سبز تنوں کو زمین سے نکالا ہے اور چھوٹے سے خشک دانے سے ایسا تروتازہ اور سرسبز پیدا کیا ہے کہ جس کی لطافت (ونزاکت) اور زیبائی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے( فَاٴَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا ) (۳)

”اور اُن سبز ڈنٹھلوں اور تنوں سے ایسے دانے کہ جو ایک دوسرے کے اوپر (موتیوں کی طرح) چنے ہوئے ہوتے ہیں (جیسے مکئی اور گندم کے خوشوں میں ) باہر نکالتے ہیں( نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاکِبًا ) (۴)

اسی طرح اس کے ذریعے کھجور کے درختوں سے سربستہ خوشے باہر نکالتے ہیں جس کے شگافتہ ہونے کے بعد باریک اور خوبصورت دھاگے جو خرما (کھجور) کے دانوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں اور بوجھ کی وجہ سے نیچے کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں ، باہر نکلتے ہیں( وَمِنْ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ ) ۔

”طلع“ کا معنی کھجور کا سربستہ خوشہ ہے جو ایک خوبصورت سبز رنگ کے غلاف میں لپٹا ہوتا ہے اور اس کے شگافتہ ہونے اور پھٹ جانے سے اس کے درمیان سے باریک سے دھاگے باہر نکل آتے ہیں اور وہی دھاگے بعد میں کھجور کے خوشوں کوتشکیل دیتے ہیں ۔ ”قنوان“ جمع ہے اور ”قنو“ (برزون ”صنف) کی جو انہی باریک اور لطیف دھاریوں اور دھاگوں کی طرف اشراہ ہے۔

”دانیہ“ نزدیک کے معنی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان دھاگوں کے ایک دوسرےکے قریب ہونے کی طرف اشارہ ہو، یا زیادہ بوجھ کی وجہ سے ان جھکنا مراد ہو۔

اسی طرح ہم نے انگور ، زیتون اور انار کے باغوں کی پرورش کی ہے( وَجَنَّاتٍ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ ) ۔

اس کے بعد عالم آفرینش کے ایک اور شاہکار کی طرف جس کا تعلق انہی درختوں کے ساتھ ہے اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: وہ ایک دوسرے ساتھ شباہت رکھتے ہیں اور نہیں بھی سمجھتے( مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ ) ۔

اسی سورہ کی آیت ۱۴۱ کی طرف توجہ کرتے ہوئے جس میں متشابہ اور غیر متشابہ کے وصف کا ذکر زیتون اور انار کے لیے کیا گیا ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیرِ بحث آیت میں بھی مذکورہ صفت انہی دو درختوں کے بارے میں ہے(۵)

یہ دونوں درخت ظاہری شکل نیز شاخوں اور پتوں کی ساخت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں ۔ جبکہ پھل ، ذائقہ اور خاصیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے اِن میں فرق ہے۔ ان میں سے ایک موثر اور قوی روغنی مادہ رکھتا ہے اور دوسرے میں ترش یا میٹھا مادہ ہوتا ہے جو بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، علاوہ ازیں بعض اوقات یہ دونوں درخت ایک ہی زمین میں پرورش پاتے ہیں اور ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں (یعنی ان دونوں صفات میں سے ہر ایک درختوں اور پھلوں کے ایک گروہ کے لئے ہے، لیکن پہلی تفسیر کے مطابق دونوں صفات ایک ہی چیز کے لیے تھیں ۔

اس کے بعد بحث کو پیکرِ درخت کے اعضاء سے موڑتے ہوئے اُن کے پھلوں سے متعلق بحث کرتے ہوئے کہتا ہے: ایک نظر درخت کے پھل کی طرف کرو جب کہ وہ ثمر آور ہوئے، اور اسی طرح اس کے پکنے کی کیفیت کی طرف نگاہ کرو کہ ان میں ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں خدا کی قدرت وحکمت کی واضح نشانیاں موجود ہیں( انظُرُوا إِلَی ثَمَرِهِ إِذَا اٴَثْمَرَ وَیَنْعِهِ إِنَّ فِی ذَلِکُمْ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) ۔

اس بات کی کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو آج کے زمانے میں نباتات کی تحقیق کے بارے میں پھلوں کی پیدائش کی کیفیت اور ان کے پکنے کے سلسلے میں کہا گیا ہے، وہ خاص نکتہ جس کا قرآن پھل کے بارے میں ذکر کرتا ہے واضح ہوجاتا ہے۔ کیونکہ پھلوں کا پیدا ہونا بعینہ جاندارون میں بچہ پیدا ہونے کی طرح ہے۔ نر نطفے مخصوص ذرائع سے (ہوا کے چلنے یا حشرات وغیرہ کے سبب سے) مخصوص تھیلیوں سے جدا ہوتے ہیں اور نباتات کے مادہ حصّہ پر جاپڑتے ہیں ۔ عمل تلقیح انجام پانے اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ ترکیب پانے کے بعد پہلا بیج تشکیل پاتا ہے اور کئی قسم کے مواد غذائی اسے اطراف میں گوشت کی طرح آغوش میں لے لیتے ہیں ۔ یہ مواد غذائی ساخت کے لحاظ سے بہت ہی متنوع اور مختلف ہیں ۔ اسی طرح ذائقہ اور غذائی وطبی خواص کے لحاظ سے بھی بہت مختلف ہیں ، کبھی ایک پھل (مثلاً انار اور انگور) میں سینکڑوں دانے ہوتے ہیں کہ جن میں سے ہر دانہ خود جنین اور ایک درخت کا بیج شمار ہوتا ہے اور اس کی ساخت بہت ہی پیچیدہ اور اندر ہی اندر ہوتی ہے۔

انار کی ساخت

تمام پھلوں کی ساخت اور ان کے غذائی ودوائی مواد اس بحث کی گنجائش سے خارج ہیں ۔ لیکن کوئی حرج نہیں ہے کہ نمونہ کے طور پر انار کے پھل کی ساخت کی طرف اشارہ کیا جائے کہ جس کی طرف قرآن نے مندرجہ بالا آیت میں اشارہ کیا ہے۔

اگر ہم انار کو چیزیں اور اس کا ایک چھوٹا سا دانا ہاتھ میں لے کر اُسے آفتاب یا چراغ کے سامنے رکھیں اور صحیح طور پر اس میں غور وفکر کریں تم ہم دیکھیں گے کہ وہ چھوٹے چھوٹے حصّوں سے بنا ہوا ہے کہ جو انتہائی چھوٹی چھوٹی شیشیوں کا مانند، انار کے پانی کی ایک خاص مقدار لیے، ایک دوسرے کے پاس چن دی گئی ہیں ، انار کے ایک چھوٹے سے دانے میں شاید اس قسم کی سینکڑوں چھوٹی چھوٹی شیشیاں موجود ہیں ۔ پھر ان کے اطراف کو ایک باریک چھلکے کے ساتھ جو انار کے ایک دانے کا چھلکا ہے گھیرا ہوا ہے۔ پھر اس غرض سے کہ یہ بستہ بندی کامل تر، محکم تر اور خطرے سے دور تر رہے، انار کے دانوں کی ایک خاص تعداد کو ایک ستون پر ایک خاص نظام کے ساتھ چن دیا گیا ہے اور ایک سفید رنگ کا پردہ جو نسبتاً موٹا ہے اس کے اطراف میں لپیٹ دیا گیا ہے اور اس کے بعد ایک موٹا اور محکم چھلکا جو دونوں طرف سے خاص قسم کا لعاب رکھتا ہے ان سب کے اُوپر کھینچ دیا گیا ہے تاکہ وہ ہوا اور جراثیم کے نفوذ کو روکے اور ضربات سے بھی ان کی حفاظت کرے اور دانوں کے اندر موجود پانی کے بخارات بننے کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ کم کرے۔ یہ نازک اور عمدہ بستہ بندی انار کے دانوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ دوسرے پھلوں مثلاً مالٹا اور لیموں وغیرہ میں بھی نظر آتی ہے لیکن انار اور انگور میں زیادہ عمدہ اور جاذب نظر ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوع بشر نے بھی سیال چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے اسی سے سبق سیکھا ہے کہ وہ پہلے چھوٹی چھوتی شیشیوں کو ایک چھوٹے ڈبوں کو ایک بڑے کارٹون میں رکھ دیتے ہیں اور ان کے مجموعے کو ایک بڑے بنڈل کی صورت میں منزلِ مقصود کی طرف اٹھاکر لے جاتے ہیں ۔

انار کے دانوں کے داخلی ستونوں پر قرار پکڑنے کی طرز اور اپنے حصّہ کا پانی اور مواد غذائی اُن سے حاصل کرنا اس سے بھی زیادہ عجیب اور حیرت انگیز ہے۔ سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جنھیں ہم اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لیتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم ان پھلوں کے ذرّات کو (مائیکرو سکوپ) دوربین کے نیچے رکھ کر دیکھیں تواس وقت ایک پُرغوغا جہاں عجیب وغریب اور حیرت انگیز بنیادوں اور تعمیرات کے ساتھ حد سے زیادہ منظم طریقے پر ہماری نظروں کے سامنے مسجم ہوجاتا ہے۔ تو کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص چشم حقیقت بین کے ساتھ ایک پھل کی طرف نگاہ کرے اور پھر یہ عقیدہ رکھے کہ اس کو بنانے والا علم ودانش نہیں رکھتا؟ اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں قرآن ”انظروا“ (نگاہ کرو) کے لفظ کے ساتھ اس قسم کے نباتات کے بارے میں دقتِ نظر اور غور وفکر کرنے کا حکم دیتا ہے، انہی حقائق کی طرف توجہ کرنے کے لئے ہے۔

ایک طرف سے تو یہ حقائق اور دوسری طرف سے وہ مختلف مراحل جو ایک پھل کچی حالت میں لے پکنے کے موقع تک طے کرتا ہے ، بہت ہی قابلِ ملاحظہ ہے، کیونکہ پھلوں کے اندر کی لیبارٹریاں ہمیشہ کام میں مشغول رہتی ہیں اور ترتیب دار اس کی کمیائی ترکیب میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری مرحلہ تک جاپہنچے اور اس کی کیمیائی ترکیب صحیح صورت اختیار کرلے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے مقام پر خالق کائنات کی عظمت وقدرت کی ایک نشانی ہے۔

لیکن اس بات کی طرف توجہ رہے رکھنا چاہیے کہ قرآن کی تعبیر کے مطابق صرف صاحبانِ ایمان افراد یعنی حق بین اور حقیقت جُو ہی ان مسائل کو دیکھتے ہیں ، ورنہ چشم عناد اور ہٹ دھرمی یا بے اعتنائی اور سہل انگاری کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہے کہ ان حقائق میں سے کسی ایک کو بھی نہ سکیں ۔

____________________

۱۔تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۷۵۰-

۲۔ مفردات راغب، ص۳۸۴-

۳۔ ”خضر“ بمعنی ”اخضر“ یعنی ”سبز رنگ“ ہے اس بناپر تمام سبزوں کو یہاں تک کہ درختوں کی کونپلوں کو بھی شامل ہے لیکن اُوپر والی آیت سے چونکہ اس میں غذائی دانوں کی طرف اشارہ ہوا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خصوصیت سے زراعت مراد ہے۔

۴۔ ”متراکب“ ”رکوب“ کے مادہ سے ”سواری“ کے معنی میں یعنی ایسے دانے جو ایک دوسرے پر سوار ہوتے ہیں اور زیادہ تر غذائی دانے ایسے ہیں ۔

۵۔ راغب کتاب ”مفردات“ میں کہتا ہے:”مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ“ و” مُتَشَابِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ“ تقریباً ایک ہی معنی رکھتے ہیں ۔

آیات ۱۰۰،۱۰۱،۱۰۲،۱۰۳

۱۰۰( وَجَعَلُوا لِلّٰهِ شُرَکَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِینَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ ) -

۱۰۱( بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ اٴَنَّی یَکُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَهُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) -

۱۰۲( ذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ لَاإِلَهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ وَکِیلٌ ) -

۱۰۳( لَاتُدْرِکُهُ الْاٴَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاٴَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ ) -

ترجمہ:

۱۰۰ ۔ انھوں نے جنوں میں سے خدا کے شریک قرار دیئے ہیں ، حالانکہ خدا نے اُن سب کو پیدا کیا ہے اور انھوں نے خدا کے لئے بیٹے اور بیٹیاں جھوٹ اورجہالت سے بنا رکھے ہیں ، خدا اس بات سے منزہ وبرتر ہے جو یہ اس کی توصیف (میں بیان) کرتے ہیں ۔

۱۰۱ ۔آسمانوں اور زمین کی ابداع کرنے اور (اور انھیں تازہ اورنیا وجود عطا کرنے والا) وہی ہے، کیسے ممکن ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو حالانکہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے اور سب چیزوں کو اسی نے پیدا کیا ہے اور وہ سب چیزوں کو جانتا ہے ۔

۱۰۲ ۔ہاں ! ایسا ہی ہی تمھارا خدا ، تمھارا پروردگار، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے، وہ تمام چیزوں کا خالق ہے (تم صرف )اسی کی عبادت کرو، اور وہ تمام موجودات کا حافظ اور مدبر ہے۔

۱۰۳ ۔آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتی، لیکن وہ سب آنکھوں کا ادراک رکھتا ہے، اور وہ (طرح طرح کی نعمتوں کا) عطا کرنے والا ہے (اور چھوٹے چھوٹے کاموں سے باخبر)اور (تمام چیزوں سے ) آگاہ ہے ۔

تمام چیزوں کا خالق وہی ہے

ان آیات میں مشرکین اور باطل مذہب رکھنے والوں کے کچھ غلط اور بیہودہ عقائد بیان کئے گئے ہیں اور ان کے منطقی جواب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے:وہ جنوں میں سے خدا کے لئے شرکاء کے قائل ہوگئے ہیں (وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَاءَ الْجِن)۔

اس بارے میں یہان پر جن سے مراد اس کا لغوی معنی یعنی جنس انسانی سے غائب اور پوشیدہ موجودات ہے یا خاص طور پر وہ جنات مراد ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن نے بارہا گفتگو کی ہے اور ہم اس کی طرف عنقریب اشارہ کریں گے، مفسرین نے اس سلسلہ میں دواحتمال بیان کئے ہیں ۔

پہلے احتمال کی بنا پر ممکن ہے کہ آیت ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہو جو فرشتوں اور ہر دکھائی نہ دینے والی چیز کی پرستش کرتے تھے، لیکن دوسرے احتمال کی بنا پر آیت ان لوگوں کی طرف اشارہ کررہی ہے جو گروہ جنات کا خدا کا شریک یا اس کی بیوی سمجھتے تھے۔

”کلبی“ ”الاصنام“ میں نقل کرتے ہیں کہ عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلہ جا کا نام ”بنو طیح“ تھا کہ جو قبیلہ ”خزاعہ“ کی شاخ تھا جن کی پرستش کرتا تھا(۱) کہا جاتا ہے کہ ”جن“ کی عبادت اور اسکی الوہیت کا عقیدہ قدیم یونان اور ہندوستان کے بیہودہ اور فضول مذہب میں بھی پایا جاتا تھا(۲) ۔

جیسا کہ سورہ صافات کی آیہ ۱۵۸ ہے:”( وَجَعَلُوا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ) “۔

”وہ خدا اور جنات کے درمیان رشتہ داری کے قائل ہوگئے تھے “۔

اس سے معلو م ہوتا ہے کہ عربوں کے درمیان کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو جنوں کی خدا کے ساتھ ایک قسم کی رشتہ داری کے قائل تھے۔

اور جیسا کہ بہت سے مفسرین نے نقل کیا ہے کہ قریش کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا نے جنیات کے ساتھ شادی کی ہے اور فرشتے اس شادی کا نتیجہ اور ثمر ہے۔(۳)

اس کے بعد اس فضول اور بیہودہ خیال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے :حالانکہ خدا نے تو انھیں (یعنی جنات کو) پیدا کیا ہے ( وَخَلَقَھم) یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کی مخلوق اسی کی شریک ہوجائے کیوں کہ شرکت ہم جنس اور ہم رتبہ ہونے کی علامت ہے حالانکہ مخلوق ہرگز خالق کی ہم پلہ نہیں ہوسکتی۔

دوسری بیہودہ بات یہ تھی کہ: وہ خدا کے لئے نادانی سے بیٹوں اور بیٹیوں کے قائل ہوگئے تھے ( وَخَرَقُوا لَہُ بَنِینَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ )۔

حقیقت میں ان بیہودہ عقائد کے باطل ہونے کی بہترین دلیل وہی ہے جو ”بغیر علم “ کے الفاظ سے معلوم ہوتی ہے یعنی کسی قسم کی کوئی دلیل اور نشانی ان خرافات وموہومات کے لئے ان کے پاس موجود نہ تھی۔

لائق توجہ بات یہ ہے کہ” خرقوا“ ”خرق“ (بروزن غرق) کے مادہ سے لیا گیا ہے، جو اصل میں کسی چیز کو بے سوچے سمجھے اور بلاوجہ پارہ پارہ کرنے کو کہتے ہیں ۔یہ لفظ ٹھیک لفظ ”خلق“ کے بالمقابل ہے جو کسی چیز کو سوچ سمجھ کر کسی حساب سے ایجاد کرنے کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ یہ دونوں لفظ(خلق اور خرق) کبھی کبھار گھڑے ہوئے اور جھوٹے مطالب کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ جھوٹ جو سوچ سمجھ کر کسی حساب سے گھڑے گئے ہوں وہ تو خلق واخلاق کہلاتے ہیں اور وہ جھوٹ جو بغیر کسی حساب اور اندازے کے اور اصطلاح کے مطابق شاخدار جھوٹ ہوں انھیں ”خرق واختراق “ کہا جاتا ہے۔

یعنی انھوں نے یہ جھوٹ اس کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کئے بغیر اور اس کے لوازم پر نظر کئے بغیر گھڑا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ وہ کونسے گروہ تھے جو خدا کے لئے بیٹوں کے قائل تھے، قرآن نے دوسری آیت میں دو گروہوں کے نام لئے ہیں ۔ایک عیسائی جو حضرت عیسیٰ - کے خدا کا بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور دوسری یہودی جو عزیر - کا خدا کا بیٹا سمجھتے تھے اور جیسا کہ سورہ توبہ کی آیہ ۳۰ سے اجمالی طور پر معلوم ہوتا ہے اور محققین معاصر کی ایک جماعت نے بھی عیسائیت اور بدھ مذہب کے مشترک اصولوں کو خصوصا مسئلہ تثلیث میں مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم کیا ہے کہ خدا کا بیٹا عیسائیوں اور یہودیوں میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ ان سے پہلے کے فضول وبیہودہ قسم کے مذاہب میں بھی موجود تھا۔

باقی رہا کہ بیٹیوں کے وجود کا عقیدہ تو خود قرآن نے دوسری آیات میں اس مطلب کو واضح کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ:

( وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَةَ الَّذِینَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَانِ إِنَاثًا )

”وہ فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں اس کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں “(زخرف: ۱۹)

جیسا کہ ہم سطور بالا میں بھی اشارہ کرچکے ہیں تفاسیر وتواریخ میں ہے کہ قریش کا ایک گروہ اس بات کا معتقد تھا کہ فرشتے خدا کی وہ اولاد ہیں جو خدا کی جنیات سے شادی کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آئے ہیں ۔

لیکن اس آیت کے آخر میں قرآن نے ان بیہودہ مطالب اور موہوم وبے بنیاد خیالات پر قلم سرخ کھینچ دیا ہے اور ایک عمدہ اور بیدار کرنے والے جملے کے ساتھ ان تمام باطل باتوں کی نفی کردی ہے اور فرمایا ہے کہ: خدا (ان خرافات سے ) منزہ ہے اور ان اوصاف سے برتر وبالاتر ہے جو وہ اس کے لئے بیان کرتے ہیں (سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ )۔

بعد والی آیت میں ان بیہودہ عقائد کا جواب دیتے ہوئے پہلے کہا گیا ہے:خدا وہ ہستی ہے کہ جس نے آسمان اور زمین کو ایجاد کیا ہے( بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

آیا کوئی اور بھی ایسا ہے کہ جس نے ایسا کام کیا ہو، یا ایسا کرنے کی قدرت ہی رکھتا ہو۔ جس کی بنا پر وہ عبودیت میں اس کا شریک سمجھا جائے؟ نہیں ! ایسا نہیں ہے، بلکہ سب اس کی مخلوق ہیں اور اسی کے تابع فرمان ہیں اور اسی کی ذات پاک کے سب محتاج ہیں ۔

علاوہ ازایں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو جب کہ اس کہ بیوی ہی نہیں ہے( اٴَنَّی یَکُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ ) ۔

اصولی طور پر اسے بیوی کی ضرورت ہی کیا ہے اور پھر یہ بات کس کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس کی (بیوی یا ) ہمسر ہوسکے جب کہ سب اس کی مخلوق ہیں ۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر اس کی ذات مقدس عوارض جسمانی سے پاک ومنزہ ہے اور بیوی اور اولاد کا ہونا واضح طور پر جسمانی اور مادی عوارض میں سے ہیں ۔

دوسری مرتبہ پھر تمام چیزوں اور تمام افراد کے بارے میں اسی کے خالق ہونے اور ان تمام کے متعلق اس کے احاطہ علمی کو بیان کرتے ہوئے کہا گیاہے : اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ، اور وہ ہر چیز کا عالم( وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وهُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) ۔

تیسری زیر بحث آیت میں تمام چیزوں کا خالق ہونے، آسمان اور زمین کو ایجاد کرنے، اور اس عوارض جسم وجسمانی اور بیوی اور اولاد سے منزہ ہونے اور ہر کام اور ہر چیز پر اس کے احاطہ علمی کا ذکر ہونے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ”تمھارا خدا اور پروردگار ایسی ذات ہے اور چونکہ اور کوئی ان صفات کا حامل نہیں ہے لہٰذا اس کے سوا اور کوئی بھی عبودیت کے لائق نہیں ہوسکتا، پروردگار وہی اور خالق وآفریدگار بھی وہی ہے اس بنا پر معبود صرف وہی ہوسکتا ہے لہٰذا اسی کی پرستش وعبادت کرو( ذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوهُ ) ۔

آیت کے آخر میں اس مقصد کے پیش نظر اور اس غرض سے کہ غیر خدا سے ہرقسم کی امید کو قطع کردے اور ہر قسم کے شرک کی جڑ کو اور خدا کے سوا اور کسی پر بھی بھروسہ کرنے کو کلی طور پر ختم کردے قرآن کہتا ہے: اور وہی تمام چیزوں کا حافظ ونگہبان ومدبر ہے( وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ وَکِیلٌ ) ۔

اس بنا پر تمھارے مشکلات کے حل کی جابیاں صرف اسی کے ہاتھ میں اور اس کے سوا کوئی بھی شخص اس کام کی توانائی نہیں رکھتا، کیوں کہ اس کے سوا جو بھی ہیں وہ سب اس کے محتاج اور نیاز مند ہیں اور اس کے احسان کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو ان حالات میں کوئی وجہ نہیں کہ کوئی شخص اپنی مشکلات کسی اور کے پاس لے جائے اور اس کا حل اس سے چاہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں ”علی کل شیء وکیل“ کہا گیا ہے نہ ”لکل شیء وکیل“ اور ان دونوں کے درمیان فرق واضح ہے کیوں کہ لفظ ”علی“کاذکراس کے تسلط اور نفوذ امر کی دلیل ہے جب کہ لفظ” لام“ کا استعمال تابع ہونے کی نشانی ہے۔

دوسرے لفظوں میں تعبیر اولولایت اور حافظ ہونے کے معنی میں ہے اور دوسری تعبیر نمائندگی کے معنی میں ہے ۔

آخری زیر بحث میں تمام چیزوں پر اس کی حاکمیت اور نگہبانی کو ثابت کرنے کے لئے اور اسی طرح تمام موجودات سے اس کے فرق کو ثابت کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے:آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں لیکن وہ تمام آنکھوں کا ادراک کرتا ہے وہ طرح طرح کی نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے اور ہر چھوٹے سے چھوٹے کام سے باخبر اور آگاہ ہے، وہ بندوں کے مصالح کو جانتا ہے اور ان کی حاجات وضروریات سے باخبر ہے اور اپنے لطف کرم کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے( لاَتُدْرِکُهُ الْاٴَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاٴَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیر ) ۔

حقیقت جو یہ چاہتا ہو کہ وہ تمام چیزوں کا محافط ومربی اور سہارا ہو اسے ان صفات کا حامل ہونا چاہیے۔

علاوہ از ایں یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تمام موجودات جہاں سے مختلف ومتفاوت ہے کیوں کہ ان میں سے کچھ چیزیں تو ایسی ہیں کہ جو دیکھتی بھی ہیں اور خود بھی دیکھی جاتی ہیں ، جیسے انسان ہے اورکچھ ایسی ہیں جو نہ خود دیکھتی ہیں اور نہ ہی دیکھی جاتی ہیں ، جیسے ہمارے اندرونی صفات، اور بعض ایسی ہیں کہ جنھیں دیکھا تو جاسکتا ہے لیکن وہ کسی کو نہیں دیکھتیں ، جیسے جمادات، تنہا وہ ہستی ہے کہ جسے دیکھا تو نہیں جاسکتا لیکن وہ ہر چیز اور ہر شخص کو دیکھتی ہے صرف اسی کی ذات پاک ہے ۔

____________________

۱۔تفسیرفی ظلال، جلد سوم ، صفحہ ۳۲۶(پاورقی)(حاشیہ)-

۲۔ تفسیر المنار، جلدہشتم صفحہ ۶۴۸-

۳۔ تفسیر مجمع البیان اور دیگر تفاسیر زیر نظر آیہ کے ذیل میں -