تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31242
ڈاؤنلوڈ: 2814


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31242 / ڈاؤنلوڈ: 2814
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۷۰،۷۱

(۷۰)( لَقَدْ اٴَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَاٴَرْسَلْنَا إِلَیْهِمْ رُسُلًا کُلَّمَا جَائَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَتَهْوَی اٴَنفُسُهُمْ فَرِیقًا کَذَّبُوا وَفَرِیقًا یَقْتُلُونَ. )

(۷۱)( وَحَسِبُوا اٴَلاَّ تَکُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا کَثِیرٌ مِنْهُمْ وَاللهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ:

۷۰ ۔ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے لیکن جب بھی کوئی پیغمبران کی خواہشات نفسانی اور میلانات کے خلاف آتا تو بعض کی تکذیب کرتے اور بعض کو قتل کردیتے ۔

۷۱ ۔ اور انھوں نے یہ گمان لیا تھا کہ اس کا کوئی بدلہ اور سزا نہ ہوگی لہٰذا (وہ حقائق کو دیکھنے اور سچی باتوں کو سننے سے) اندھے اور بہرے ہوگئے اس کے بعد پھر (وہ بیدار ہوئے اور) خدانے ان کی توبہ قبول کرلی اس کے بعد دوبارہ (خواب غفلت میں جا پڑے اور )ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور خدا ان کی کار گزاریوں پر خوب اچھی طرح مطلع ہے ۔

ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا

سورہ بقرہ میں جو آیات گزرچکی ہیں اُن میں اور اِس سورہ کے شروع میں جو آیات گزری ہیں اُن میں اُس تاکیدی عہد و پیمان کی طرف جو خداوند تعالیٰ نے نبی اسرائیل سے لیا تھا اشارہ ہوچکا ہے ۔ اس آیت میں دوبارہ اس عہد و پیمان کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرماتا ہے: ہم نے بنی اسرائیل سے پیمان کو وفا کرنے کا مطالبہ کرنے کے لئے ان کی طرف پیغمبر بھیجے( لقد اخذنا میثاق بنی اسرائیل و ارسلنا الیهم رسلاً )

جیسا کہ جلد اوّل میں بیان ہوچکا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیمان وہی ہے جس کی طرف سورہ بقرہ کی آیت ۹۳ میں اشارہ ہوا ہے یعنی اس پر عمل کرنے کا پیمان جو خدانے ان پر نازل کیا تھا ۔(۱)

پھر مزید کہتا ہے: انھوں نے نہ صرف یہ کہ اُس پیمان پر عمل نہیں کیا بلکہ جب بھی کوئی پیغمبران کے میلانات اور ہوا و ہوس کے خلاف کوئی حکم لاتا تو وہ اس کی مخالفت میں سخت ترین مقابلے اور جھگڑنے پر اتر آتے تھے ۔ اُن کے اثرات کو روکنے پر قادر نہ ہوتے تھے انھیں قتل کردیتے تھے ۔( کلما جاء هم رسول بما لا تهوی انفسهم فریقاً کذبوا و فریقاً یقتلون ) ۔

یہ ہیں طریقے منحرف اور خودخواہ افراد کے کہ بجائے اپنے رہبروں کی پیروی کرنے کے وہ اس بات پر مصر ہیں کہ رہبران کے میلانات اور خواہشات کے تابع ہوں اور اگر وہ ان کے میلانات اور خواہشات کے خلاف ہوں تو اس صورت میں نہ صرف ان کی رہبری قبول نہیں کرتے بلکہ انھیں زندہ رہنے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے ۔

مندرجہ بالا جملے میں ”کذبوا“ ماضی کی شکل میں اور ”یقتلون“ مضارع کی صورت میں آیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا سبب قبل و بعد کی آیات کی لفظی مناسبت کا لحاظ رکھنے کے علاوہ کہ جو سب کے سب مضارع کی صورت میں آئے ہیں یہ ہو کہ چونکہ فعل مضارع استمرار پر دلالت کرتا ہے لہٰذا خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ اس روح اور فکر کے اُن میں ہمیشہ جاری رہنے کو بیان کرے کہ پیغمبروں کو جھٹلانا اور انھیں قتل کرنا ان کی زندگی کا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ ان کا یہ عمل ایک مستقل پروگرام اور مکتب کی صورت اختیار کرگیا تھا ۔(۲)

بعد والی آیت میں ان سرکشیوں اور جرائم کے با وجود ان کی بے جا خود فریبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ان حالات کے با وصف وہ یہ کمان کرتے تھے کہ کوئی عذاب و سزا دامن گیرنہ ہوگی ۔

جیسا کہ دوسری آیات میں تصریح ہوچکی ہے وہ خود کو ایک برتر قوم و قبیلہ سمجھتے تھے اور خود کو خدا کا بیٹا کہتے تھے( وحسبوا ان لا تکون فتنة ) ۔

آخر کار اس خطرناک فریب خوردگی نے اور اپنے آپ کو برتر سمجھنے نے ایک قسم کا پردہ ان کی آنکھوں اور کانوں پر ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے وہ آیات خدا دیکھنے سے اندھے اور کلماتِ حق سننے سے بہرے ہوگئے( فعمّوا وصمّوا ) ۔

لیکن جب انھوں نے اللہ کے عذاب کے نمونے اور اپنے بُرے اعمال کے انجام کا مشاہدہ کیا تو پشیمان ہوئے اور توبہ کرلی اور اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوئے کہ خداوند تعالیٰ کی دھمکیاں یقینی اور سچ ہونے والی ہیں نیز وہ قطعاً کوئی برتر خاندان نہیں ہیں تو خدانے بھی اُن کی توبہ کو قبول کرلیا( ثم تاب اللّٰه علیهم ) ۔

مگر یہ بیداری اور ندامت و پشیمانی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور انھوں نے دوبارہ طغیان دسر کشی اختیار کرلی اور حق و عدالت کو ٹھکرانا شروع کردیا اور ایک دفعہ پھر غفلت کے پردے کہ جو گناہ کے اندر ڈوب جانے کے آثار ہیں اُن کی آنکھوں اور کانوں پر پڑگئے اور پھر وہ آیات ِ حق دیکھنے سے اندھے اور حق کی باتیں سننے سے بہرے ہوگئے اور اُن میں سے بہت سوں کی یہ حالت ہوگئی( ثمّ عمّوا و صمّوا کثیر منهم ) ۔

شاید ”عموا“(اندھے ہوگئے)کو ”صموا“(بہرے ہوگئے) پر مقدم رکھنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہوکہ پہلی دفعہ انھیں آیات خدا اور پیغمبر کے معجزات کو دیکھنا چاہیے اور پھر ان کے احکام کو سننا چاہیے ۔ ”کثیر منھم“(ان میں سے بہت سے)کا ذکر ”عموا و صموا“ کے الفاظ کی تکرار کے بعد در حقیقت دونوں الفاظ کی توضیح کے طور پر ہے یعنی غفلت و بے خبری اور اندھے اور بہرے ہونے کی حالت حقائق کے مقابلے میں کوئی عمومی حیثیت نہیں رکھتی تھی بلکہ ہمیشہ ایک صالح اور نیک اقلیت بھی ان کے درمیان موجود رہی تھی اور یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کے یہودیوں پر حملے کسی طرح بھی نسلی اور قبائلی پہلو نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ صرف ان کے اعمال کی وجہ سے تھے ۔

کیا ”عموا و صموا“کے الفاظ کی تکرار کلیت اور تاکید کا پہلو رکھتی ہے یا یہ دو مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل میں ہوئے تھے ۔ بعض مفسرّین کا خیال ہے کہ یہ دو مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہیں ایک بابل کے لوگوں کے حملے کے وقت اور دوسرے ایرانیوں اور رومیوں کے حملے کے زمانے میں کہ جس کی طرف قرآن نے سورہ بنی اسرائیل کی ابتداء میں ایک مختصر سا اشارہ کیا ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ وہ بارہا اس حالت میں گرفتار ہوتے رہے ہیں اور جب بھی وہ اپنے بُرے اعمال کے منحوس نتائج دیکھتے تو توبہ کرلیتے اور پھر توبہ کو توڑ دلیتے نہ یہ کہ صرف دو ہی مرتبہ ایسا ہوا ۔ آیت کے آخر میں ایک مختصر اور پُر معنی جملے کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ خدا کسی وقت بھی ان کے اعمال سے غافل نہیں تھا اور تمام کام جو انجام دیتے ہیں انھیں وہ دیکھتا ہے ۔( واللّٰه بصیر بما یعلمون )

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ جلد اوّل سورہ بقرہ آیت ۹۳ کے ذیل میں ۔

۲۔ حقیقت میں ”فریقاً کذبوا و فریقاً یقتلون “کا جملہ جیسا کہ مجمع البیان اور دیگر تفاسیر میں آیا ہے در اصل ”کذبوا و قتلوا “ اور ”یکذبون و یقلون “ تھا ۔

آیات ۷۲،۷۳،۷۴

(۷۲)( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ إِنَّهُ مَنْ یُشْرِکْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاٴْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ اٴَنصَارٍ )

(۷۳)( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلاَّ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ یَنتَهُوا عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ )

(۷۴)( اٴَفَلاَیَتُوبُونَ إِلَی اللهِ وَیَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

ترجمہ:

۷۲ ۔ جنہوں نے یہ کہا کہ خدا مسیح ابن مریم ہی ہے وہ یقینا کافر ہیں (جبکہ خود) مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل تم خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی کیونکہ جو شخص کسی کو خدا کا شریک قرار دے گا خدانے اس پر جنت کو حرام کردیا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی یاور و انصار نہیں ہے ۔

۷۳ ۔ جنہوں نے یہ کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے وہ بھی یقینا کافر ہوگئے ہیں کیونکہ معبود یگانہ کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے اس قول سے دستبردار نہ ہوئے تو اُن میں سے (اس عقیدہ پر قائم رہنے والے) کافروں کو دردناک عذاب پہنچے گا ۔

۷۴ ۔ کیا وہ خدا کے حضور توبہ نہیں کرتے، اُس کی طرف نہیں پلٹتے اور اُس سے طلب بخشش نہیں کرتے جبکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

مسیح اور تثلیت

ان مباحث کے بعد کہ جو گذشتہ آیات میں یہودیوں کے انحرافات سے متعلق گزری ہیں ، یہ آیات اور ان سے بعد والی آیات عیسائیوں کے انحرافات کے متعلق بحث کرتی ہیں ۔ سب سے پہلے تو خدا اس آیت میں مسیحیت کے اہم ترین انحراف یعنی مسئلہ الو ہیتِ مسیح اور تثلیت معبود سے بحث کرتے ہوئے کہتا ہے: یقینا جنہوں نے یہ کہا کہ خدا مسیح ابن مریم ہی ہے وہ کافر ہوگئے ہیں ۔( لقد کفر الذین قالوا ان اللّٰه هو المسیح ابن مریم )

اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہوگا کہ ہر جہت سے لامحدود خدا کو ایسی مخلوق کے ساتھ کہ جوہر جہت سے محدود ہے ایک اور متحد سمجھ لیا جائے اور مخلوق کی صفات کو خالق میں قرار دے لیا جائے جبکہ خود مسیح نے صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل سے کہا کہ تم خدائے یگانہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی ۔

( و قال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدو اللّٰه ربی و ربکم )

اور اس طرح سے اپنے متعلق ہر قسم کے غلو اور شرک سے نفی کرتے ہوئے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور خود کو خدائے تعالیٰ کی دوسری مخلوقات کی طرح ہی ایک مخلوق کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ ساتھ ہی اس مطلب کی تاکید مزید اور ہر قسم کا شک و شبہ دور کرنے کے لئے مسیح نے مزید کہا کہ ”جو خدا کے لئے کوئی شریک قرار دے اس پر خدانے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے“۔( انه من یشرک باللّٰه فقد حرم اللّٰه علیه الجنة و ماٴوٰئه النار )

پھر مزید تاکید اور اس حقیقت کے اثبات کے لئے کہ شرک و غلو ایک قسم کا کھلم کھلا ظلم ہے اُن سے کہتا ہے کہ ستمگروں اور ظالموں کے لئے کوئی بھی مددگار نہ ہوگا ۔( وما للظٰلمین من انصار )

جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ تاریخ مسیحیت یہ کہتی ہے کہ تثلیث کا قرن اوّل میں اور خصوصاً حضرت مسیح کے زمانے میں کوئی وجود نہ تھا ۔ یہاں تک کہ موجودہ انجیلوں میں بھی اپنی تمام تر تحریفات کے باوجود تثلیث کے بارے میں ذراسی بات بھی دکھائی نہیں دیتی اور خود مسیحی محققین بھی اس امر کا اعتراف کرتے ہیں ۔

بنابرین مذکورہ بالا آیت میں حضرت مسیح کی ثابت قدمی و پافشاری اور مسئلہ توحید کے بارے میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ مسیحیت کے موجودہ منابع اور کتب سے بھی ہم آہنگ ہے اور یہ بات قرآن کی عظمت کے دلائل میں سے شمار ہوتی ہے ۔(۱)

ضمنی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ اس آیت میں جو موضوع زیر بحث ہے وہ مسئلہ غلو اور جناب مسیح کی خدا کے ساتھ وحدت ہے دوسرے لفظوں میں ”توحید در تثلیث“ کا معاملہ زیر نظر ہے لیکن بعد کی آیت میں مسیحیوں کے نقطہ نظر سے ”خداؤں کے تعدّد“ یعنی تثلیث در توحید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے”جنہوں نے یہ کہا کہ خدا تین اقانیم میں سے تیسرا اقنوم(۲) ہے وہ مسلماً کافر ہیں “( لقد کفر الذین قالوا ان اللّٰه ثالثة ) ۔

بہت سے مفسّرین نے مثلاً طبرسی نے” مجمع البیان“ میں شیخ طوسی نے ”تبیان“ میں اور رازی و قرطبی نے اپنی اپنی تفسیروں میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ پہلی آیت تو عیسائیوں کے یعقوبیہ نامی فرقے کے بارے میں ہے جو خدا کو حضرت مسیح کے ساتھ متحد جانتے ہیں لیکن یہ آیت ملکانیہ اور فسطوریہ نامی فرقوں کے بارے میں ہے ۔ یہ لوگ تین خداؤں کے قائل ہیں ۔

لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ اسے مسیحیوں کے بعض فرقوں سے غیر متعلق کہنا حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا چونکہ تثلیث کا کا عقیدہ تو تمام عیسائیوں میں عمومیت رکھتا ہے جیسا کہ خدا کی توحید اور یکتائی کا مسئلہ ہم مسلمانوں کے درمیان قطعی اور مسلم ہے ۔

زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ جہاں وہ خداؤں کو تین مانتے ہیں وہاں وہ اسے یگانہ حقیقی بھی مانتے ہیں اور ان کے اعتماد کے مطابق تین حقیقی واحد مل کر ایک حقیقی واحد کو تشکیل دیتے ہیں ۔

مذکورہ بالا دونوں آیات ظاہراً ان دونوں قضیوں کے دو مختلف پہلوؤں کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں ۔

پہلی آیت میں تین خداؤں کی وحدت کے عقیدے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری آیت میں اُن کے تعدد کے عقیدے کی طرف اشارہ ہے اور ان دونوں بیانات کا ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے آنا در حقیقت اُن کے عقیدے کے بطلان کے روشن و واضح دلائل میں سے ہے کہ کس طرح ان کے زخم میں خداوند تعالیٰ کبھی مسیح اور روح القدس کے ساتھ مل کر حقیقتاً ایک ہو جاتاہے اور کبھی حقیقتاً تین چیزیں بن جاتا ہے کیا تین کا ایک کے ساتھ مساوی ہوجانا کوئی معقول بات ہے ۔

جو بات اس حقیقت کی تائید کرتی ہے یہ ہے کہ عیسائیوں میں ایک گروہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا جو تین خداؤں کا قائل نہ ہو۔(۳)

پھر قرآن قطعی طور پر ان کے جواب میں کہتا ہے: خدائے یکتا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے”و ما من الٰہ الا الٰہ “ خصوصاً لفظ ”من“کا لفظ ”الہ“ سے پہلے آنا دوسرے معبودوں کی نفی کرتا ہے ۔

دوسری مرتبہ پھر انتہائی سخت اور تاکیدی لب و لہجہ میں اُن کو اس خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے: اگر دواس عقیدے سے دستبردار نہ ہوں گے تو اُن لوگوں کو جو اس کفر پر باقی رہیں گے ضرور دردناک عذاب پہنچے گا( و ان لّم ینتهوا عما یقولون لیمسن الذین کفروا منهم عذاب الیم ) ۔

”منھم“میں کلمہ ”من“بعض کی نظر میں بیانیہ ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اسے ”بعض“ کے مفہوم میں ہونا چاہیے اورحقیقت میں یہ ایسے اشخاص کی طرف اشارہ ہے جو اپنے کفر و شرک پر اڑے رہے اور قرآن کی دعوت توحید کے بعد بھی صحیح عقیدے کی طرف نہیں پلٹے نہ کہ وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی اور صحیح عقیدہ کی طرف پلٹ آئے ۔

تفسیر” المنار“ میں کتاب ”اظہار الحق“ سے ایک داستان نقل ہوئی ہے کہ جس کا یہاں پر ذکر کرنا غیر مناسب نہیں ہے ۔ اس سے اس بات کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ عیسائیوں کی تثلیث و توحید کتنی نا قابلِ فہم ہے ۔

اس کتاب کا مولف کہتا ہے: تین آدمی عیسائی ہوگئے ۔ پادری نے عیسائیت کے ضروری عقائد کہ جن میں سے ایک عقیدہ تثلیث بھی تھاانھیں تعلیم کردیا ۔ ایک دن ایک کٹّر عیسائی عقیدہ رکھنے والا اُس پادری کے پاس آیا اور اُس نے اُن لوگوں کے بارے میں جو نئے نئے عیسائی ہوئے تھے سوال کیا ۔ پادری نے انتہائی خوشی کے عالم میں ان تین افراد کی طرف اشارہ کیا تو اس نے فوراً پوچھا کہ کیا انھوں نے ہمارے ضروری عقائد میں سے کچھ یاد کرلیا ہے ۔ پادری نے بڑی دلیری اور تاکید کے ساتھ کہا: ہاں !ہاں !۔ اس کے بعدنمونے کے طور پر اُن میں سے ایک کو آواز دی تاکہ مہمان کے سامنے اس کی آزمایش کرے ۔ پادری نے کہا تم تثلیث کے بارے میں کیا جانتے ہو؟۔

اس نے جواب میں کہا: آپ نے مجھے یہ بتلایا ہے کہ خداتین ہیں ۔ ایک آسمان میں ہے، دوسرا زمین میں ہے کہ جو مریم کے شکم سے پیدا ہوا ہے ۔ تیسرا خدا کبوتر کی شکل میں دوسرے خدا پر تیس سال کی عمر میں نازل ہوا ۔ پادری کو غصّہ آگیا اور اُس کو باہر نکال دیا ۔ کہنے لگا: اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا ۔ پھر دوسرے شخص کو آوازدی تو اُس نے اس سوال کے جواب میں تثلیث کے بارے میں بتلا یا کہ آپ نے مجھے اس طرح تعلیم دی ہے کہ خدا تین تھے ۔ لیکن اُن میں سے ایک سولی پر چڑھا دیا گیا لہٰذا اب ہمارے پاس صرف دو خدا باقی رہ گئے ہیں ۔ پادری کو اس پر اس سے بھی زیادہ غصّہ آیا اور اسے بھی باہر نکال دیا ۔ اس کے بعد تیسرے آدمی کو جو سب سے زیادہ سمجھدار اور دینی عقائد کو یاد کرنے میں زیادہ کوشش کرنے والا تھا، آوازدی اور وہی مسئلہ اُس نے بڑے ادب اور احترام سے کہا: اے میرے پیشوا جو کچھ آپ نے مجھے تعلیم دی ہے میں نے اسے مکمل طور پر یاد کر لیا ہے اور حضرت مسیح کی برکت سے میں نے اُسے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے ۔ آپ نے کہا ہے کہ خدائے یگانہ سہ گانہ ہے (ایک خداتین ہیں ) اور تین خدا ایک ہیں ۔ اُن میں سے ایک کو انھوں نے سولی پر لٹکا دیا اور وہ مرگیا اس بناپر وہ سب کے سب مرگئے کیونکہ وہ باقیوں کے ساتھ متحد اور ایک ہی تھا لہٰذا اس طرح سے اب کوئی خدا باقی نہیں رہا ۔

ان آیات میں سے تیسری آیت میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کفر آمیز عقیدے سے توبہ کرو، یہ دعوت اس لئے ہے تاکہ خدا اپنی عفو و بخشش ان کے شامل حال کردے ۔ لہٰذا کہا گیا ہے: کیا وہ ان تمام باتوں کے بعد خدائے یکتا کی طرف نہیں پلٹتے اور اس شرک اور کفر سے مغفرت نہیں چاہتے حالانکہ خدا غفور و رحیم ہے ۔

____________________

۱۔ اس موضوع کی مزید و ضاحت اور مسئلہ تثلیث اور وحدت در تثلیث کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد چہارم ، ص ۱۷۶ کی طرف رجوع کریں (اُردو ترجمہ)۔

۲۔ ”اقنوم“ کا معنی ہے اصل اور ذات اور اس کی جمع ”اقانیم“ہے ۔

۳۔ بعض روایات و تواریخ میں نقل ہوا ہے کہ عیسائیوں میں ایک ایسی اقلیت بھی وجود رکھتی ہے جو تین خداؤں کے قائل نہیں ہیں بلکہ صرف عیسیٰ کی خدا سے وحدت کے قائل ہیں لیکن آج ایسے لوگ بہت کم یاب ہیں ۔

آیات ۷۵،۷۶،۷۷

(۷۵)( مَا الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَاٴُمُّهُ صِدِّیقَةٌ کَانَا یَاٴْکُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمْ الْآیَاتِ ثُمَّ انظُرْ اٴَنَّی یُؤْفَکُونَ ) ۔

(۷۶)( قُلْ اٴَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا وَاللهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) ۔

(۷۷)( قُلْ یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ لاَتَغْلُوا فِی دِینِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعُوا اٴَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَاٴَضَلُّوا کَثِیرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ ) ۔

ترجمہ:

۷۵ ۔ مسیح ابن مریم فقط فرستادئہ خدا تھے اُن سے پہلے اور دوسرے بھی فرستارگان الٰہی ہی تھے ان کی ماں بھی بہت سچی خاتون تھیں ۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے (لہٰذا تم کس طرح سے مسیح کی الوہیت کا دعویٰ اور اس کی ماں کی عبادت کرتے ہو)غور کرو کہ ہم کس کس طرح سے نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد یہ دیکھو کہ وہ حق سے کس طرح باز رکھے جاتے ہیں ۔

۷۶ ۔ کہہ دو کیا تم خدا کے سوا ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھیں نقصان ہی پہنچاسکتی ہے اور نہ ہی تمہارے نفع کی مالک ہے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

۷۷ ۔ کہہ دواے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں غلو (اور تجاوز) نہ کرو اور حق کے سوا کچھ نہ کہو اور ایسے لوگوں کی ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے خود بھی گمراہ ہوگئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیا اور سیدھے راستے سے منحرف ہوگئے ۔

حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں

اس بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں حضرت مسیح کے بارے میں عیسائیوں کے غلو اور ان کی الوہیت کے اعتقاد سے متعلق گزری ہیں ان آیات میں واضح دلائل سے چند مختصر جملوں میں ان کے اس عقیدے کو باطل کرتا ہے ۔

پہلے کہتا ہے کہ مسیح اور باقی انبیاء کے درمیان کیا فرق ہے کہ جس کی وجہ سے تم مسیح کی الو ہیت کا عقیدہ رکھتے ہو۔ مسیح ابن مریم بھی خدا کے ایک رسول ہی تھے اور اُن سے پہلے بھی خدا کی طرف سے رسول اور اس کے دیگر فرستادگان آتے رہے ہیں( ما المسیح ابن مریم الارسول قد خلت من قبله الرسل ) ۔

اگر خدا کی طرف سے رسول ہونا الوہیت اور شرک کی دلیل ہے تو پھر باقی انبیاء کے متعلق بھی اسی چیز کے قائل کیوں نہیں ہوتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ کجرو و عیسائی ہر گز اس بات پر قانع نہیں ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں بلکہ ان کا عام عقیدہ کہ جس پر وہ فعلاً قائم ہیں یہ ہے کہ وہ انھیں خدا کا بیٹا اور ایک معنی میں خود خدا سمجھتے ہیں کہ جو بشریت کے گناہوں کو خرید نے کے لئے (نہ کہ ان کی ہدایت و رہبری کے لیے) آیا ہے ۔ اسی لئے وہ اس کو ”فادی“ (نوع بشر کے گناہوں کا فدیہ ہونے والا) کا لقب دیتے ہیں ۔

اس کے بعد اس بات کی تائید کے لئے ارشاد ہوتا ہے: اس کی ماں بہت ہی سچی خاتون تھیں (وَاُمّہ صدیقة)۔

بہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اولاً تو وہ شخص کہ جس کی کوئی ماں ہے اور وہ ایک عورت کے شکم میں پرورش پاتا ہے اور بہت سی حوائج و ضروریات رکھتا ہے وہ کس طرح خدا ہوسکتا ہے؛ اور دوسرے یہ کہ اگر اس کی ماں قابلِ احترام ہے تو وہ اس بناپر ہے کہ وہ بھی مسیح کی رسالت کے دوران اُن سے ہم آہنگ تھیں اور کار رسالت میں ان کی مددگار تھیں تو اس طرح سے وہ بھی خدا کی ایک خاص بندہ ہی تھیں لہٰذا ان کی ایک معبود کی طرح سے عبادت و پرستش نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ عیسائیوں میں رائج ہے کہ وہ اُن کے مجسمہ کے سامنے عبادت و پرستش کی حد تک خضوع کرتے ہیں ۔

اس کے بعد عیسیٰ کی ربوبیت کی نفی کی ایک اور دلیل کی طرف اشارہ کرتے فرمایا: وہ اور ان کی ماں دونوں کھانا کھاتے تھے( کانا یاٴ کلان الطعام ) تو جو شخص اتنا محتاج ہے کہ اگر چند دن اُسے کھانا نہ ملے تو اُس میں چلنے پھر نے کی بھی طاقت نہ رہے وہ کس طرح سے پروردگار یا خدا کے ہم پلہ ہوسکتا ہے ۔

آیت کے آخر میں ایک طرف تو اُن دلائل کے واضح ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری طرف ان واضح و آشکار دلائل کے مقابلہ میں ان کی ہٹ دھرمی ، سختی اور نادانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ذرا دیکھو تو سہی کہ ہم کس طرح ان دلائل کو وضاحت کے ساتھ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں( انظر کیف نبین لهم الاٰیات ثم انظرانّٰی یوفکون ) ۔(۱)

بنابرین ان دوجملوں میں ”انظر“کی تکرار اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک طرف تو ان روشن و واضح دلائل پر غور کرو کہ جو ہر شخص کی توجہ کے لئے کافی ہیں اور دوسری طرف اُن کے حیرت انگیز اور منفی عکس العمل پر نظر کرو کہ جوہر شخص کے لئے تعجب خیز ہے ۔

بعد والی آیت میں گذشتہ استدلال کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا ہے: تمھیں معلوم ہے کہ مسیح خود سرتا پا احتیاجاتِ بشری رکھتے اور خود اپنے نفع و نقصان پر قادر نہیں تھے چہ جائیکہ وہ تمہارے نفع و نقصان پر قادر نہیں تھے چہ جائیکہ وہ تمہارے نفع و نقصان پر قادر ہوں( قل اتعبد ون من دون مالا یملک لکم ضرًا ولا نفعاً ) ۔

اسی بناپر وہ بارہا دشمنوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہوئے ۔ یا ان کے دوست گرفتار ہوئے ۔ اگر لطف خدا ان کے شامل حال نہ ہوتا تو وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے تھے ۔

آخرین اُنہیں اس خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ خبردار کہیں یہ گمان نہ کرلینا کہ خدا تمہاری ناروا باتوں کو سنتا نہیں ہے یا وہ تمہارے باطن سے آگاہ نہیں ہے، خدا سننے والا بھی ہے اور عالم و دانا بھی( و اللّٰه هو السمیع العلیم ) ۔

یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ مسیح کے بشر ہونے اور ان کی مادّی اور جسمانی ضروریات اور احتیاجات کا مسئلہ کہ جس کا قرآن نے ان آیات اور دوسری آیات میں تذکرہ کیا ہے حضرت عیسیٰ کی خدائی کا دعویٰ کرنے والے عیسائیوں کے لئے بہت بڑی مشکلات میں سے ایک ہے کہ جس کی توجیہ کے لئے وہ بہت ہی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بعض اوقات وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ مشکلات میں سے ایک ہے کہ جس کی توجیہ کے لئے وہ بہت ہی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بعض اوقات وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے لئے جنبوں کے قائل ہوں جنبہ لاہوت اور دوسرے جنبہ ناسوت ۔ جنبہ لاہوت کی نظر سے وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خود خدا ہیں اور ناسوت کی نظر سے جسم اور مخلوقِ خدا ہیں اور اسی قسم کی دوسری توجیہات کہ جوان کی منطق کے ضعف اور نادرستی کی بہترین مظہر ہیں ۔

اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ آیت میں لفظ ”من“ کے بجائے ”ما“ استعمال ہوا ہے جو عام طور پر غیر ذوی العقول موجودات کے لئے ذکر ہوتا ہے یہ تعبیر شاید اسی بناپر ہو کہ باقی معبودوں اور بتوں کو بھی جو پتھر اور لکڑی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اس جملہ کی عمومیت میں داخل کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ اگر مخلوق کی پرستش جائز ہو تو پھر بت پرستوں کی بت پرستی بھی جائز شمار کی جائے ۔ کیونکہ مخلوق ہونے میں سب برابر ہیں اور مساوی ہیں اور حقیقت میں حضرت مسیح کی الوہیت پر ایمان ایک طرح کی بت پرستی ہیں ہے نہ کہ خدا پرستی ۔

انبیاء کے بارے میں غلو کے سلسلے میں روشن دلائل سے اہلِ کتاب کا اشتباہ واضح ہوجانے کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ اُنہیں دعوت دو کہ وہ اس راستے سے عملی طور پر پلٹ آئیں ۔ فرمایا گیا ہے: کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں غلونہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو اور حق کے علاوہ کوئی بات نہ کہو( قل یا اهن الکتاب لا تفلوافی دینکم غیر الحق ) ۔(۲)

البتہ عیسائیوں کا غلو تو واضح ہے باقی رہا یہودیوں کا غلو کہ اہلِ کتاب کا خطاب ان کے بارے میں بھی ہے، تو بعید نہیں ہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو جو وہ عزیر کے بارے میں کہتے تھے اور اُسے خدا کا بیٹا سمجھتے تھے ۔ چونکہ غلو کا سر چشمہ عموماً گمراہ لوگوں کی ہوا وہوس کی پیروی کرنا ہے اس لئے اس گفتگو کی تکمل کے لئے فرمایا گیا ہے کہ اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ جو تم سے پہلے گمراہ ہوئی اور انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کیا اور جو راہ مستقیم سے منحرف ہوگئے( ولا تتبعوا اهوا قوم قد ضلوا من قبل و اضلوا کثیرًا و ضلوا عن سواء السبیل ) ۔

یہ جملہ حقیقت میں ایک ایسی چیز کی طرف اشارہ ہے جو مسیحیت کی تاریخ میں بھی منعکس ہے کہ مسئلہ تثلیث اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں غلو مسیحیت کی ابتدائی صدیوں میں ان کے درمیان وجود نہیں رکھتا تھا بلکہ جب ہندوستان کے بت پر ست اور ان کی مانند دوسرے لوگوں نے دین مسیحیت اختیار کیا تو انھوں نے اپنے سابقہ دین میں سے باقی ماندہ ایک چیز یعنی تثلیثِ شرک کو مسیحیت میں شامل کردیا ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ثابوث ہندی (تین خداؤں ، بر ہما فیشنو، سیفا پر ایمان) تاریخی لحاظ سے تثلیث مسیحیت سے پہلے تھا اور در حقیقت یہ اسی کی عکاسی ہے ۔ سورئہ توبہ کی آیت ۳۰ میں بھی یہود و نصاریٰ کے عزیر و عیسیٰ کے بارے میں غلو کے ذکر کے بعد ہے کہ:

( یضَاهِنُوْنَ قَولَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ )

”ان کی باتیں گذشتہ کفار کی باتوں سے مشابہت رکھتی ہیں ۔

اس عبارت میں لفظ ”ضلوا“ اُن کفار کے بارے میں ہے کہ جن سے اہلِ کتال نے غلو کا قتباس کیا تھا اور یہ لفظ دو مرتبہ آیا ہے ۔

ممکن ہے کہ یہ تکرار تاکید کے لئے ہو یا اس بناپر ہو کہ وہ پہلے سے گمراہ تھے ہی لیکن بعد میں اپنی تبلیغات کے ذریعہ انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کردیا تو وہ ایک نئی گمراہی میں جاگرے ۔ کیونکہ جو شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھینچ لے جائے در حقیقت وہ سب سے زیادہ گمراہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اُس نے اپنی قوتوں کو خود اپنی اور دوسرے لوگوں کی بدبختی میں تلف کردیا ہے اور دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے دوش پر اٹھالیا ہے ۔ آیا وہ شخص کہ جو سیدھے راستے پر قرار پاچکا ہو کبھی اس بات کے لئے تیار ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے بوچھ کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھائے ۔

____________________

۱۔ ”یوفکون“ کا مادہ ”افک “ ہے اور یہ در اصل کسی چیز سے منحرف کرنے کے معنی دیتا ہے اور ”ما فوک “ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے کہ جسے حق سے روک دیا گیا ہو، اگر چہ خود اس کی کوتاہی کی بناپر ایسا ہوا ہو۔ اور چونکہ جھوٹ انسان کو حق سے روک دیتا ہے اس لئے اس کو ”افک “کہا جاتا ہے ۔

۲۔ ”لا تغلوا“ کا مادہ ”غلو“ ہے جس کے معنی ہیں حق سے تجاوزکرنا ۔ فرق یہ ہے کہ جب یہ کسی کے مقام و منزلت سے متعلق تجاوز ہو تو غلو کہا جاتا ہے، اگر کسی چیز کے زخ اور قیمت کے بارے میں ہو تو غلاء کہا جاتا ہے اور اگر تیرکے بارہ میں ہو تو غلو بروزن دلو کہتے ہیں جوش مارنے کو غلیان کہتے ہیں اور جو جانور بہت ہی سرکش ہو اُسے غلواء کہتے ہیں ، یہ سب اسی مادہ سے ہیں ۔ بعض کا نظریہ یہ ہے کہ غلو افراط کی طرف بھی بولا جاتا ہے اور تفریط کی طرف بھی جبکہ بعض اسے تفریط میں منحصر سمجھتے ہیں اور اس کے نقطہ مقابل کو تقصیر کہتے ہیں ۔