تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31225
ڈاؤنلوڈ: 2812


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31225 / ڈاؤنلوڈ: 2812
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۱۰۹،۱۱۰

۱۰۹( وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَائَتْهُمْ آیَةٌ لَیُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ اٴَنَّهَا إِذَا جَائَتْ لاَیُؤْمِنُونَ )

۱۱۰( وَنُقَلِّبُ اٴَفْئِدَتَهُمْ وَاٴَبْصَارَهُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِهِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ )

ترجمہ:

۱۰۹ ۔انھوں نے بہت ہی اصرارسے اللہ کی قسم کھائی کہ اگر کوئی نشانی(معجزہ) ان کے لئے آجائے تو وہ یقینی طور پر اس پر ایمان لے آئیں گے (اے رسول تم یہ) کہہ دو کہ معجزات خدا کی طرف سے ہوتے ہیں ( اور یہ بات میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں تمھاری خواہش پر معجزہ لے آؤں ) اور تم نہیں جانتے کہ وہ معجزات کے آجانے کے باوجود ایمان نہیں لائےں گے۔

۱۱۰ ۔ اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو اوندھا کردیں گے کیوں کہ وہ ابتدا میں ایمان لائے تھے اور انھیں طغیان وسرکشی کے عالم میں خود ان کی حالت مین چھوڑ دےں گے تاکہ وہ سرگرداں ہوجائیں ۔

شان نزول

مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کی شان نزول کے بارے میں یہ نقل کیا ہے کہ قریش کا ایک گروہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ تم موسیٰ- اور عیسیٰ - کے بڑے بڑے معجزات بیان کرتے ہو اوراسی طرح دوسرے انبیاء کے بھی، تم بھی ہمیں کوئی ایسا ہی کام کرکے دکھاؤ تاکہ ہم ایمان لائیں ، پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ تم کونسا کام چاہتے ہو کہ میں اسے تمھارے لئے انجام دوں ، انھوں نے کہا کہ تم خدا سے درخواست کرو کہ وہ کوہ صفا کو سونے میں تبدیل کردے اور ہمارے بعض پہلے کے مرے ہوئے مردے زندہ ہوجائیں اور ہم ان سے تیری حقانیت کے بارے میں سوال کریں اور ہمیں فرشتے بھی دکھا جو تیرے بارے میں گواہی دیں یا خدا اور فرشتوں کا اکھٹا اپنے ساتھ لے آ۔

پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں اگر ان میں سے بعض کام انجام دے دوں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم ایسا کریں گے( یعنی ایمان لے آئیں گے) مسلمانوں نے جب مشرکین کا اس سلسلہ میں اصرار دیکھا تو پیغمبر سے تقاضا کیا کہ آپ ایسا کریں شاید یہ ایمان لے آئیں ، جونہی پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم دعا کرنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ ان میں سے بعض مطالبات کے لئے خدا سے دعا کریں ( کیوں کہ ان میں سے بعض تو نامعقول اور محال تھے) کہ امین وحی خدا نازل ہوئے اور یہ پیغام لائے کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کی دعا قبول ہوجائے گی لیکن اس صورت میں (چونکہ ہر لحاظ سے اتمام حجت ہوجائے گا اور یہ حسی طور پر ظاہر بظاہر کھل کر سامنے آجائے گا) اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو سب کو سخت عذاب ہوگا( اور نیست ونابود ہوجائیں گے) لیکن اگر ان کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے اور تم انھیں ان کی اپنی اسی حالت پر چھوڑ تو ممکن ہے کہ ان میں سے بعض آئندہ توبہ کرلیں اور راہ حق اختیار کرلیں ، پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے اسے قبول کرلیا اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں ۔

انھوں نے انتہائی اصرار کے ساتھ یہ قسم کھائی

گذشتہ آیات میں توحید کے بارے میں متعدد منطقی دلیلیں بیان ہوئی ہیں کہ جو خدا کی وحدانیت اور اثبات اور شرک وبت پرستی کی نفی کے لئے کافی تھیں لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرم اور متعصب مشرکین کی ایک جماعت نے سرتسلیم خم نہ کیا اور وہ بہانے تراشنے لگے اور منجملہ ان کے، پیغمبر ﷺسے عجیب غریب خارق العادات کے لئے کہ جن میں سے بعض تو بنیادی طور پر محال تھے، مطالبہ کرنے لگے اور دروغ بیانی کے ساتھ یہ دعوا کرنے لگے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے معجزات دیکھ کر ایمان لے آئیں ، قرآن پہلی آیت میں ان کی کیفیت اور وضع کو اس طرح بیان کرتا ہے : انھوں نے انتہائی اصرار کے ساتھ یہ قسم کھائی کہ اگر ان کے لئے معجزہ آجائے تو وہ ایمان لے آئیں گے( وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَائَتْهُمْ آیَةٌ لَیُؤْمِنُنَّ بِهَا ) ۔(۱)

قرآن ان کے جواب میں دو حقیقتوں کو بیان کرتا ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ تو ان سے یہ کہہ دے کہ یہ کام میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں تمھارے ہر مطالبے اور ہر تقاضے کو پورا کردوں ، بلکہ معجزات تو صرف خدا ہی کی طرف سے (ہوتے) ہیں اور اسی کے فرمان سے ظہور پذیر ہوتے ہیں( قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِنْدَ اللهِ ) ۔

اس کے بعد روئے سخن ان سادہ لوح مسلمانوں کی طرف کرتے ہوئے کہ جو ان کی سخت اور شدید قسموں سے متاثر ہوگئے تھے کہتا ہے: تم نہیں جانتے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اوراگر یہ معجزات اور ان کی درخواستوں کے مطابق مطلوبہ نشانیاں دکھا بھی دی جائیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لایئں گے( وَمَا یُشْعِرُکُمْ اٴَنَّهَا إِذَا جَائَتْ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔(۲)

پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ان کے ساتھ ٹکراؤ کے مختلف مناظر اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ یہ گروہ حق کی جستجو میں نہیں تھا بلکہ ان کا ہدف اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو بہانہ تراشیوں میں لگائے رکھیں اور شک وشبہ کے بیج ان کے دلوں بکھیرتے رہیں ۔

بعد والی آیت میں ان کی ہٹ دھرمی کی علت کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے کہ وہ کجروی، جاہلانہ تعصبات اور حق کے مقابلہ میں سرتسلیم خم نہ کرنے پر اصرار کی وجہ سے قوت ادراک اور صحیح نظر کھو بیٹھے ہیں ، اور حیران وپریشان اور گمراہ ہوکر سرگردانی کے عالم میں پھر رہے ہیں چنانچہ قرآن اس طرح کہتا ہے: ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو دگرگوں کردےں گے جیسا کہ وہ آغاز میں اور دعوت کی ابتدا میں ایمان نہیں لاتے تھے( وَنُقَلِّبُ اٴَفْئِدَتَهُمْ وَاٴَبْصَارَهُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِهِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ ) ۔

یہاں بھی اس کام کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے جس کی ایک نظیر قبل کی آیات میں گزرچکی ہے، یہ حقیقت میں خود ان ہی کے اعمال کا نتیجہ اور عکس العمل ہے، اس کی خدا کی طرف نسبت اس عنوان سے ہے کہ وہ علت العلل اور عالم ہستی کا سرچشمہ ہے اور ہر چیز میں جو بھی خاصیت ہے وہ اسی کے ارادہ سے ہے، دوسرے لفظوں میں خداوند تعالی نے ہٹ دھرمی، کجروی اور اندھے تعصبات میں یہ اثر پیدا کیا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ انسان کے ادراک اور فکرونظر کو بے کار کردیتے ہیں ۔آیت کے آخر میں کہتا ہے: ہم انھیں طغیان وسرکشی کی حالت میں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ سرگرداں پھرتے رہیں( وَنَذَرُهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُون ) ۔(۳)

____________________

۱۔ ”جھد“ کسی بھی کام کام کرنے کے لئے سعی وکوشش کو کہتے ہیں اور یہاں تاکیدی قسموں کے لئے کوشش کرنا مراد ہے۔

۲۔اس بارے میں کہ اوپر والے جملے میں ”ما“ استفہامیہ ہے یا نافیہ اور اسی طرح جملے کی ترکیب کی کیفیت میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے، بعض نے ”ما“ استفہام انکاری قرار دیا ہے، حالانکہ اگر ایسا ہوتو جملہ کا معنی یہ ہوگا کہ :تم کہاں سے جانتے ہو کہ اگر معجزہ آگیا تو یہ ایمان نہیں لائیں گے، یعنی ہوسکتا ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور یہ مفہوم مقصود آیت کے بالکل برخلاف ہے، لہٰذا بعض نے ”ما“ کو نافیہ قرار دیا ہے (اور ذہن سے زیادہ نزدیک بھی یہی ہے) تو اس بنا پر جملے کا معنی اس طرح ہوگا: تم نہیں جانتے کہ اگر یہ معجزات دکھا بھی دئے جائیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، اس صورت میں ”یشعر“ کا فاعل لفظ”شیء“ ہے جو مقدر ہے اور ”یشعر“ کے دومفعول ہیں پہلا مفعول”کم“ اور دوسرا ”انھا‘۔(غور کیجئے گا)

۳۔ ”یعمھون“،”عمہ“(بروزن”قدح) کے مادہ سے سرگردانی اور تحیر کے معنی میں ۔

خدا وند تعالی ہم سب کو اس قسم کی سرگردانی سے جو ہمارے بے سوچے سمجھے اعمال کا نتیجہ ہے محفوظ رکھے اور ہمیں قوت ادراک اور ایسی کامل نظر مرحمت فرمائے کہ ہم حقیقت کے چہرے کو اس کی اصلی ہیئت وصورت میں دیکھ لیں ۔

آیت ۱۱۱

۱۱۱( وَلَوْ اٴَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْهِمْ الْمَلاَئِکَةَ وَکَلَّمَهُمْ الْمَوْتَی وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَلَکِنَّاٴَکْثَرَهُمْ یَجْهَلُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۱۱ ۔ اور اگر ہم ان پر فرشتوں کو نازل کردیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اورتمام چیزوں کو ان کے سامنے جمع کردیتے تو بھی وہ ہرگز ایمان نہ لاتے، مگر یہ کہ خدا چاہے ، لیکن ان میں سے اکثر نہیں اجانتے۔

تفسیر

ہٹ دھرم لوگ راہ راست پر کیوں نہیں آتے؟۔

یہ آیت گذشتہ آیات کے ساتھ مربوط ہے ، یہ سب آیات ایک ہین حقیقت کو بیان کرتی ہیں ، ان چندآیات کا مفہوم یہ ہے کہ ان عجیب وغریب معجزات کا تقاضا کرنے والوں میں سے بہت سے اپنے تقاضوں میں سچے نہیں ہیں اور کا ہدف حق کو قبول کرنا نہیں ہے لہٰذا ان کے مطالبات میں میں سے بعض (مثلا خدا کا ان کے سامنے آنا) اصولا محال ہے۔

وہ اپنے گمان کے مطابق چاہتے یہ ہےں کہ ان عجیب وغریب معجزات کا تقاضا کرکے مومنین کے افکار کو متزلزل کردیں اور حق طلب لوگوں کے نظریے خلط ملط ہوں اور یہ انھیں اپنی طرف مشغول کرنا چاہتے ہیں ۔

قرآن زیر نظر آیت میں صراحت کے ساتھ کہتا ہے:اگر ہم (جس طرح انھوں نے درخواست کی تھی) فرشتوں کو ان پر نازل کردیتے، اور مردے بھی آجاتے اور ان سے باتیں کرتے اور خلاصہ یہ کہ جو جومطالبات اور تقاضے وہ کررہے تھے ان سب کو جمع کردیتے تو پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے( وَلَوْ اٴَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْهِمْ الْمَلاَئِکَةَ وَکَلَّمَهُمْ الْمَوْتَی وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا ) ۔(۱)

اس کے بعد تائید مطلب کے لئے فرماتا ہے: صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور وہ یہ ہے کہ خدا وند تعالی اپنی جبری مشیت کے ذریعہ انھیں ایمان کے قبول کرنے پر آمادہ کردے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس قسم کا ایمان کوئی تربیتی فائدہ اور تکاملی اور ارتقائی اثر نہینں رکھتا( إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ ) ۔

آیت کے آخر میں مزید کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر جاہل اور بے خبر ہیں( وَلَکِنَّاٴَکْثَرَهُمْ یَجْهَلُون ) ۔

اس بارے میں کہ اس جملے میں ضمیر ”ھم“ سے کون سے اشخاص مراد ہیں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ممکن ہے یہ اشارہ ان مومنین کی طرف ہو جو یہ اصرار کررہے تھے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کفار کے اس گروہ مطالبات پورا کردیں اور جس جس معجزہ کے لئے وہ تقاضا کررہے ہیں وہ لے آئیں ۔

ان مومنین میں سے کیوں بہت سے اس واقعیت سے بے خبر تھے اور اس بات کی طرف متوجہ نہیں تھے کہ وہ اپنے تقاضے میں سچے نہیں ہیں ، لیکن خدا جانتا تھا کہ یہ مدعی جھوٹ بول رہے ہیں ، اسی بنا پر ان کے مطالبات کو پورا نہ کیا، لیکن اس بنا پر کہ دعوت پیغمبر معجزہ کے بغیر نہیں ہوسکتی لہٰذا خاص مواقع پر ان کے ہاتھ پر مختلف معجزات ظاہر کئے۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر”ھم“ کا مرجع اور بازگشت تقاضا کرنے والے کفار ہوں ، یعنی ان میں سے بیشتر اس واقعیت سے بے خبر ہیں کہ خدا ہر قسم کے خارق العادات فعل پر قدرت رکھتا ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی قدرت کو محدود جانتے ہیں ، لہٰذا جب بھی پیغمبر کوئی معجزہ دکھاتے تھے تو وہ اسے جادو یا نظر فریبی پر محمول کرتے تھے جیسا کہ ہم دوسری آیت میں پڑھتے ہیں :

( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِیهِ یَعْرُجُونَ لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ اٴَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ )

”اگر ہم آسمان سے کوئی دروازہ ان کے اوپر کھول دیتے اور وہ اس کے ذریعے اوپر جڑھ جاتے تو کہتے کہ ہماری تو نظروں کو دھوکہ دیا گیا ہے اور ہمارے اوپر جادو کردیا گیا ہے“۔(حجر: ۱۴ ۔ ۱۵)

اس بنا پر وہ نادان اور ہٹ دھرم گروہ ہے، لہٰذا ان کی اور ان کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرنا چاہئے۔

____________________

۱۔حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ کُلَّ شَیْء “سے مراد یہ ہے کہ تمام چیزیں او ان کے تمام مطالبات پورے کردئے جائیں ، کیوں کہ”حشر“ اصل میں جمع کرنے اور ایک دوسرے کے گرد لانے کے معنی میں ہے، اور” قبلا“ کا معنی روبرو اور مدمقابل ہونا ہے ، یہ احتمال بھی ہے کہ” قبلا“ قبیل کی جمع ہو، یعنی گروہ در گروہ فرشتے اور مردے اور ----ان کے سامنے حاضر ہوں ۔

آیات ۱۱۲،۱۱۳

۱۱۲( وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُهُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ ) ۔

۱۱۳( وَلِتَصْغَی إِلَیْهِ اٴَفْئِدَةُ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِیَرْضَوْهُ وَلِیَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۱۲ ۔ اس طرح ہم نے ہر نبی کے مقابلے میں شیاطین جن وانس سے کچھ دشمن قرار دئے ہیں کہ جوپر فریب اور بے بنیاد باتیں (لوگوں کو غافل رکھنے کے لئے) مخفی طور (اور کانوں میں ) ایک دوسرے سے کہتے تھے اور اگر تیرا پرور دگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے (اور وہ انھیں جبری طور پر روک سکتا تھا لیکن اجبار واکراہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے) اس بنا پر انھیں اوران کی تہمتوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دو۔

۱۱۳ ۔ اور(شیطانی وسوسوں اور شیطان صفت افراد کی تبلیغات کا ) نتیجہ یہ ہوگا کہ ان لوگوں کے دل جو روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ان کی طرف مائل ہوجائیں گےاور وہ اس پر راضی وجائیں گے اور جو گناہ بھی وہ انجام دینا چاہیں گے، دیں گے۔

تفسیر

اس آیت میں اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے کہ اس قسم کے سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کا پیغمبر اسلام (ص)کے مقابلہ میں وجود کہ جس کی طرف گذشتہ آیات میں اشارہ ہوا ہے صرف آنحضرت کی ذات کے لئے ہی منحصر نہیں تھا بلکہ تمام انبیاء ہی کے مقابلہ میں شیاطین جن وانس میں سے دشمن موجود تھے( وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ ) اور ان کاکام یہ ہوتا تھا کہ ”وہ پر فریب باتیں اور ایک دوسرے کو غافل کرنے کے لئے پر اسرار طریقے پر بھی اور ظاہر بظاہر بھی ایک دوسرے کے کان میں کہتے تھے( یُوحِی بَعْضُهُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ) ۔

لیکن اشتباہ نہیں ہونا چاہئے کہ ”اگر خدا چاہتا تو وہ جبرا سب کو روک سکتا تھا“تاکہ کوئی شیطان یا شیطان صفت انبیاء اور ان کی دعوت کے راستے میں کوئی معمولی سے معمولی رکاوٹ بھی نہ ڈال سکے( وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوهُ ) ۔

لیکن خدا وند تعالی نے یہ کام نہیں کیا کیوں کہ وہ یہ چاہتا تھا کہ لوگ آزاد رہیں تاکہ ان کی آزمائش اور ارتقاو پرورش کے لئے میدان موجود ہیں ، جب کہ جبرا ور سلب آزادی اس ہدف کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے، اس کے علاوہ اس قسم کے سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کاوجود ( اگر چہ ان کے اعمال خود ان کی خواہش وارادہ کے ماتحت تھے ) نہ صرف یہ کہ وہ سچے مومنین کے لئے کوئی ضرر نہیں رکھتا، بلکہ غیر مستقیم طریقہ سے ان کے ان کے تکامل میں مدد کرتا ہے چونکہ ہمیشہ تکامل وارتقا تضادات میں پنہاں ہوتا ہے اورایک طاقتور دشمن کا ہونا انسان کی قوتوں کے اجتماع اور اس کے ارادوں کی تقویت کے لئے موثر ہے ۔

لہٰذا آیت کے آخر میں خدائے تعالیٰ پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ تم اس کی شیطانیتوں کی کسی طرح بھی پرواہ نہ کرو اور انھیں اور ان کی تہمتوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دو( فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ مندرجہ بالا آیت میں خدا وند تعالی شیاطین جن وانس کے وجود کی نسبت اپنی طرف دے رہا ہے اور کہتا ہے: ”وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا“ (ہم نے ایسا قرار دیا)ن اس جملے کے معنی کے بارے میں اختلاف ہے، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ انسانوں کے تمام اعمال ایک لحاظ سے خدا کی طرف بھی منسوب کئے جاسکتے ہیں ، کیوں کہ ہر شخص جو کچھ بھی رکھتا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہے ، اس کی قدرت اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ اس کا اختیار اور اس کی آزادی بھی اسی کی طرف سے ہے، لیکن ایسی تعبیرات کا مفہوم ہرگز جبر اور سلب اختیار نہیں ہے کہ خدا نے کچھ لوگوں کو اس طرح سے پیدا کیا ہو کہ وہ انبیاء کے مقابلے میں دشمنی کے لئے کھڑے ہوجائیں ۔

کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ضروری تھا کہ وہ اپنی عداوت ودشمنی میں کسی قسم کی کوئی مسئولیت اور جوابدہی نہ رکھتے ہوتے بلکہ ان کا کام ایک رسالت کی انجام دہی شمار ہوتا، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

البتہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس قسم کے دشمنوں کا وجود چاہے وہ خود ان کے اپنے اختیار سے ہی ہو، مومنین کے لئے بلا واسطہ طور پر اصلاح کنندہ اثر رکھتا ہے، اور بہتر لفظوں میں سچے مومنین ہرقسم کے دشمن کے وجود سے مثبت اثر لے سکتے ہیں اور اسے اپنی آگاہی و آمادگی اور مقاومت کی سطح بلند کرنے کا وسیلہ بناسکتے ہیں کیوں کہ دشمن کا وجود انسان کی قوتوں کے اجتماع کا سبب اور باعث ہوتا ہے۔

۲ ۔ لفظ”شیاطین“ ”شیطان“ کی جمع ہے اور یہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور وہ ہر سرکش باغی اور موزی موجود کے معنی میں ، لہٰذا قرآم میں پست ، خبیس اور سرکش انسانوں پر بھی لفظ شیطان بولا گیا ہے، جیسا کہ اوپر والی آیت میں لفظ شیطان کا انسانی شیطانوں پر بھی اور ایسے غیر انسانی شیطانوں پر بھی جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ، اطلاق میں وہ تمام شیاطین کا رئیس وسردار ہے، اس بنا پرشیطان کا اسم خاص ہے کہ جوحضرت آدم علیہ السلام کے مقابل میں آیا تھا اور حقیقت میں وہ تمام شیاطین کا رئیس وسردار ہے، اس بنا پر شیطان اسم جنس ہے اور ابلیس اسم خاص ہے۔(۱)

۳ ۔ ”زخرف القول“ پر فریب باتوں کو کہتے ہیں ، جن کا ظاہر خوشنما اور باطن قبیح اور برا ہوتا ہے اور غرور کا معنی غفلت میں رکھنا ہے۔(۲)

۴ ۔ زیر نظر آیت میں وحی کی تعبیر اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ اپنے شیطانی گفتار واعمال میں ایسے اسرار آمیز پروگرام رکھتے ہیں کہ جن کو وہ رازدارانہ طریقے سے ایک دوسرے کی طرف ارتقا کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگ ان کے کاموں سے آگاہ نہ ہوں اور ان کی سازشیں کامل طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں ، کیوں کہ ”وحی“ کے معانی میں سے ایک معنی لغت میں آہستہ اور کان میں بات کرنا بھی ہے ۔

بعد والی آیت میں شیاطین کی پر فریب تلقینات وتبلیغات کے نتیجے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : ان کے کام کا سر انجام یہ ہوگا کہ بے ایمان افراد یعنی وہ کہ جو قیامت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کی باتوں کو کان لگا کر سنیں گے اور ان کے دل ان کی طرف مائل ہوں گے( وَلِتَصْغَی إِلَیْهِ اٴَفْئِدَةُ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ) ۔

آیت کی ترتیب کے بارے میں اوریہ کہ لفظ ”وَلِتَصْغَی“ کا عطف کس پر ہے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، آیت کے مفہوم کے ساتھ جو بات زیادہ مناسب ہے وہ یہ ہے کہ اس کا عطف ”یوحیٰ“ پر ہونا چاہئے اور اس کی ”لام“ عاقبت کی لام ہے، یعنی شیاطین کے کام کا انجام یہ ہوگا کہ وہ پر فریب باتیں ایک دوسرے سے کہیں گے، اور بے ایمان افراد ان کی طرف مائل ہوجائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ”غرورا“ کے اوپر عطف ہو جو ”مفعول لاجلہ “ ہے، یعنی ”لیفترو اولتصغیٰ“ کیوں کہ انسان مرحلہ اول میں فریب کھاتا ہے اور پھر میلان پیدا رکرتا ہے(غور کیجئے گا)۔

”لتصغی“ ،”صغو“ (بروزن سرو) کے مادہ سے کسی چیز کی طرف میلان پیدا کرنے کے معنی میں ہے لیکن زیادہ تر اس میلان ورغبت پر بولا جاتا ہے کہ جو سماعت اور کان کے وسیلہ سے حاصل ہو اور اگر کوئی شخص کسی کی بات پر موافقت کی نظر سے کان دھرے تو اس کو ”صغو“ اور ”اصغاء“ کہتے ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اس میلان کا انجام شیطانی پروگراموں پر کامل طور پر راضی ہونے کی صورت میں نکلے گا( وَلِیَرْضَوْه ) ۔

اور ان سب کا نتیجہ مختل قسم کے گنہاہوں کے ارتکاب اور برے اور ناپسندیدہ اعمال کی صورت میں رونما ہوگا( وَلِیَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُون ) ۔

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں ہم تفسیر نمونہ کی پہلی جلد صفحہ ۱۶۶ پر بھی بحث کرچکے ہیں ۔

۲۔اس طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ ”زخرف“ اصل میں ”زینت“ کے معنی میں اور اسی طرح ”سونے“ کے معنی میں بھی کہ جو زینت کا ایک ذریعہ ہے، بعد ازاں دھوکہ اور فریب دینے والی باتوں پر بھی کہ جن کا ظاہر زیبا اور خوبصورت ہو”زخرف“ اور ”مزخرف“ بولاجانے لگا۔

آیات ۱۱۴،۱۱۵

۱۱۴( اٴَفَغَیْرَ اللهِ اٴَبْتَغِی حَکَمًا وَهُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ إِلَیْکُمْ الْکِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ اٴَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُمْتَرِینَ ) ۔

۱۱۵( وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) ۔

ترجمہ:

۱۱۴ ۔ کیا میں ( اس حال میں ) غیر خدا کو منصف کے طور پر اپناؤں حالانکہ وہی وہ ہستی ہے کہ جس نے اس آسمانی کتاب کو جس میں ہر چیز کا تفصیلی بیان ہے نازل کیا ہے، اور وہ لوگ کہ جنھیں ہم ااسمانی کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے، اس بنا پر تم ہرگز شک تردد کرنے والوں میں سے نہ ہونا ۔

۱۱۵ ۔ اور تیرے پروردگار کا کلام صدق وعدل ساتھ انجام کو پہنچا، کوئی شخص اس کے کمالات کو دیگر گوں نہیں کرسکتا اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

کیا میں غیر خدا کو منصف اور حکم کے طور پر قبول کرلوں

یہ آیت حقیقت میں گذشتہ آیات کا نتیجہ ہے اور یہ آیت کہتی ہے کہ ان واضح آیات کے باوجود جو توحید کے سلسلے میں گزرچکی ہے کیا کسی شخص کو منصف اور حکم کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے، کیا میں غیر خدا کو منصف اور حکم کے طور پر قبول کرلوں( اٴَفَغَیْرَ اللهِ اٴَبْتَغِی حَکَمًا ) ۔(۱)

جب کہ وہی ذات ہے کہ جس نے یہ عظیم آسمانی کتاب نازل کی ہے جس میں انسان کی تمام تربیتی ضروریات آچکی ہیں اور جس نے حق و باطل، نور وظلمت اور کفر وایمان کے درمیان فرق ظاہر کردیاہے( وَهُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ إِلَیْکُمْ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً ) ۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے نہ صرف تم اور تمام مسلمان اس بات کو جانتے ہیں کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے، بلکہ اہل کتاب(یہود ونصاری) جنھوں نے آسمانی کتاب کی نشانیان اپنی کتابوں میں دیکھی ہیں وہ بھی جانتے ہیں ، کہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے

( وَالَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ اٴَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ ) اس بنا پر اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ، اور اے پیغمبر تم ہرگز اس بارے میں تردد کرنے والوں میں سے نہ ہونا( فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُمْتَرِینَ ) ۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو بھی اس بارے میں کوئی شک تھا کہ اس قسم کا خطاب آپ سے ہورہا ہے؟

اس سوال کا جواب وہی ہے جو ہم نے اس کے مشابہ اور اس سے ملتے جلتے مواقع پر دیا اور وہ یہ کہ اس میں درحقیقت مخاطب تو عام لوگ ہیں لیکن خدا وند تعالی تاکید اور تحکیم مطلب کے لئے اپنے پیغمبر مخاطب کرتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اپنے بارے میں جان لیں ۔

بعد والی آیت میں فرمایا گیا ہے:تیرے پروردگار کا کلام صدق، عدل کے ساتھ مکمل ہوگا اور کوئی بھی شخص اس بات پر قادر نہین ہے کہ اس کے کلمات کو دگر گوں کردے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے( وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) ”کلمة“ لغت عرب گفتگو اور ہر قسم کے جملے کے معنی میں ہے یہاں تک کہ مفصل اور طولانی گفتگو بھی کہا جاتا ہے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بعض اور وعدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے مثلا:

( وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلیٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِمَا صَبَرُوا )

”تیرے پروردگار کا وعدہ بنی اسرائیل کے بارے میں اس صبر استقامت کے مقابلے جو انھوں کیا انجام پاگیا“ (سورہ اعراف: ۱۳۷) ۔

یہ بھی اسی لحاظ سے ہے کیوں کہ انسان وعدہ کرتے وقت ایسا جملہ کہتا ہے جو وعدہ کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہوتا ہے۔

بعض اوقات ”کلمہ“ دین وآئین اور حکم ودستور کے معنی بھی آتا ہے اوروہ اسی اصل کی طرف لوٹتا ہے۔

اس بارے میں کہ زیر بحث آیت میں لفظ ”کلمہ“ سے مراد قرآن ہے یا خدا کا دین وآئین ہے یا کامیابی کے وہ وعدے جو پیغمبر سے کئے گئے تھے، یہ مختلف احتمالات ہیں کہ جن میں مختلف ہونے کے باوجود کوئی تضاد نہیں ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں تمام احتمالات کو مد نظر رکھا گیا ہو لیکن اس لحاظ سے کہ گذشتہ آیات میں گفتگو قرآن کے بارے میں بھی تھی لہٰذا یہ معنی زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔

حقیقت میں آیت یہ بیان کررہی ہے کہ کسی طرح سے بھی قرآن میں کوئی شک اور تردد کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ یہ ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب ہے، اس کی تواریخ اور اخبار سب کے سب صدق ہیں اور اس کے احکام و قوانین سب کے سب عدل ہیں ۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ”کلمہ“ سے مراد وہی ”وعدہ“ ہو جو بعد والے جملہ میں یعنی ”لا مبدل لکَلِمَاتِہ“(کوئی شخص کلمات خدا میں تغیر اور تبدیل نہیں کرسکتا کے جملہ میں آیا ہے کیوں کہ اس جملہ کی نظر ودوسری آیات قرآنی میں بھی نظر آتی ہے مثلا :

( وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لَاٴَمْلَاٴَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِینَ ) “(ہود ۱۱۹) ۔

یا دوسری آیات میں ہم پڑھتے ہیں :( وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ إِنَّهُمْ لَهُمَ الْمَنصُورُونَ ) ” پیغمبروں کے بارے میں ہمارا پہلے سے یہ وعدہ تھا کہ مظفر ومنصور تو وہی ہوں گے“ (سورہ صافات آیہ ۱۷۱ و ۱۷۲) ۔

اس قسم کی آیت میں بعد کا جملہ اس وعدہ کی وضاحت ہے کہ جس کی طرف قبل کے جملہ میں لفظ ”کلمہ“ کے ذکر سے اشارہ ہوا ہے، اس بنا پر آیت کی تفسیر اس طرح ہوگی ، ہمارا وعدہ صدق وعدالت کے ساتھ انجام پذیر ہوا کہ کوئی شخص پروردگار کے احکام اور فرامین میں تبدیلی کی طاقت نہیں رکھتا۔

اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے یہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت ان تمام معانی کی طرف اشارہ کرتی ہو۔

اس بات لا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ آیت اگر قرآن کی طرف اشارہ کررہی ہو تو یہ بات اس امر سے کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتی کہ اس وقت تک سارا قرآن نازل نہیں ہوا تھا کیوں کہ آیات قرآن کے کامل ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ نازل ہوچکا تھا اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں اور وہ ہر لحاظ سے کامل ہے۔

بعض مفسرین نے اس آیت سے قرآن میں تحریف کے بارے میں عدم امکان پر استدلال کیا ہے، کیوں کہ ”لا مبد ل لکلماتہ“ کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی شخص لفظ کے لحاظ سے، اخبار کے لحاظ سے اور احکام کے لحاظ سے قرآن میں تغیر وتبدل نہیں کرسکتا اور یہ آسمانی کتاب جسے آخر دنیا تک عالمین کا رہنما ہونا چاہئے خیانت کرنے والوں اور تحریف کرنے والوں کی دستبرد سے مصئون ومحفوظ رہے گی۔

____________________

۱۔ ”حکم“ (بروزن قلم) کا معنی فیصلہ کرنے والا، قاضی اور حاکم ہے اور بعض نے اسے معنی کے لحاظ سے حاکم کے مساوی جانا ہے لیکن مفسرین کی ایک جماعت کہ جن میں ایک شیخ طوسی بھی ہیں ، کتاب” تبیان “میں انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ”حکم“ اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو حق کے علاوہ فیصلہ نہ کرتا ہو لیکن دونوں کے لئے بولا جاتا ہے، بعض دوسرے کہ جن میں ”المنار“ کا مولف بھی ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ” حکم“ وہ شخص ہے جسے طرفین دعوی نے انتخاب کیا ہو، جب کہ حاکم ہر قسم کے فیصلہ کرنے والے کو کہا جاتا ہے ۔