تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31232
ڈاؤنلوڈ: 2813


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31232 / ڈاؤنلوڈ: 2813
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیت ۱۲۱

۱۲۱( وَلاَتَاٴْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی اٴَوْلِیَائِهِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ اٴَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُون ) ۔

ترجمہ:

۱۲۱ ۔ اور اس (ذبیحہ) سے کہ جس پر خدا کا نام نہیں لیا گیا، نہ کھاؤاور یہ فعل گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کومخفی طور پر کچھ مطالب القاکرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے مجادلے اور جھگڑے کے لئے کھڑے ہوجائیں او راگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو تم بھی مشرک ہوجاؤ گے۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں مسئلہ کے مثبت پہلو یعنی حلال گوشت کھانے کا ذکر کیا گیا تھا لیکن اس آیت میں زیادہ سے زیادہ تاکید کے لئے منفی پہلو اور اس کے مفہوم کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان گوشتوں میں سے کہ جن پر خدا نام ان کے ذبح کے وقت نہیں لیا گیا نہ کھاؤ( وَلاَتَاٴْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ ) ۔

اس کے بعد نئے سرے سے ایک مختصر سے جملے کے ساتھ اس عمل کو جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: یہ کام فسق وگناہ ہے اور راہ ورسم بندگی اور فرمان خدا کی اطاعت سے خروج ہے( وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ) ۔

نیز اس غرض سے کے بعض سادہ لومسلمان ان کے شیطانی وسوسوں کا اثر قبول نہ کر لیں یہ اضافی کیا گیا ہے کہ شیاطین وسوسہ انگیز مطالب مخفی طور پراپنے دوستوں کو القا کرتے ہیں تاکہ ہمارے ساتھ مجادلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں( وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی اٴَوْلِیَائِهِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ ) ۔

لیکن تم ہوش وہواس کے ساتھ رہو کیوں کہ ، اگر تم ان کے وسوسوں کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تو تم بھی مشرکین صف میں شامل ہوجاؤ گے

( وَإِنْ اٴَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُون ) ۔

یہ مجادلہ اور وسوسہ شاید اسی منطق کی طرف اشارہ ہو جو مشرکین ایک دوسرے کی طرف القا کیا کرتے تھے (اور بعض نے کہا ہے کہ مشرکین عرب نے اسے مجوسیوں سیکھا تھا ) کہ اگر ہم مردہ جانور کا گوشت کھاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے خدا نے مارا ہے لہٰذا وہ اس جانور سے بہتر ہے جسے ہم مارت ہیں ، یعنی مردار نہ کھانا خدا کے کام سے ایک قسم کی بے اعتنائی ہے ۔

وہ اس ( حقیقت ) سے غافل ہیں کہ جو اپنی طبیعی موت مرتا ہے وہ اس بات کے علاوہ کہ اکثر بیمار ہوتے ہیں ، اس کا سر نہیں کاٹا جاتا اور گندہ اور گاڑھا خون اس کے گوشت کے اندر ہی رہ جاتا ہے اور وہ مر جاتا ہے اور فاسد اور خراب ہوجاتا اور وہ گوشت بھی آلودہ اور فاسد کردیتا ہے، اسی بنا پر خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اس جانور کا گوشت کھاؤ جو مخصوص شرائط کے ساتھ ذبح ہوا ہے اور اس کا خون باہر گرا ہے۔

ضمنی طور ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ غیر اسلامی ذبیحہ حرام ہے کیوں دیگر جہات کے علاوہ اس کے ذبح کے وقت غیر مسلم خدا کا نام لینے کے پابند نہیں ہوتے ۔

آیات ۱۲۲،۱۲۳،

۱۲۲( اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا یَمْشِی بِهِ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَثَلُهُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )

۱۲۳( وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَةٍ اٴَکَابِرَ مُجْرِمِیهَا لِیَمْکُرُوا فِیهَا وَمَا یَمْکُرُونَ إِلاَّ بِاٴَنفُسِهِمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۲۲ ۔ وہ جو کہ مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور قرار دیا کہ جس کے ذریعے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتاہے، کیا اس شخص کی مانند ہے کہ جو تاریکیوں میں ہو اور اس سے باہر نہ نکلے، اس طرح کفار کے لئے وہ(برے ) اعمال جو وہ انجام دیتے تھے زینت دئے گئے ہیں (او رخوبصورت دکھائی دیتے ہیں )۔

۱۲۳ ۔اور ہم نے اسی طرح سے ہر ہر شہر اور ہر ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم قرار دئے ہیں ، (ایسے افراد کہ ہم نے جن کے اختیار میں ہر قسم کی قدرت دے دی تھی لیکن انھوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور غلط راستے پر چل پڑے)اور آخر کار ان کا معاملہ اس حد کو پہنچ گیا کہ وہ مکر(کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے) میں مشغول ہوگئے، لیکن (فی الحقیقت ) وہ صرف اپنے آپ کو ہی (دھوکہ اور) فریب دیتے ہیں اور سمجھتے نہیں ۔

شان نزول

پہلی آیت کی شان نزول کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے :

ابوجہل جو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بہت ہی سخت دشمنوں میں سے تھا، ایک دن اس نے آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو سخت تکلیف پہنچائی پیغمبر کے بہادر چچا حضرت حمزہ جو اس دن ایمان نہیں لائے تھے اور اسی طرح آپ کے دین کے بارے میں مطالعہ اور سوج بچار کررہے تھے اور اس دن اپنے معمول کے مطابق شکار کے لئے بیابان میں گئے ہوئے تھے، جب بیابان سے واپس آئے تو ابوجہل اور اپنے بھتیجے کے مابین ہونے والے ماجرے سے باخبرہوئے، انھیں بہت غصہ آیا، وہ فورا ابوجہل کی تلاش میں نکل پڑے، وہ ملا تو اس کے سر یا ناک پر اس طرح مارا کہ خون جاری ہوگیا، ابوجہل نے اس تمام نفوذ واقتدار کے باوجود جو وہ اپنی قوم وقبیلہ بلکہ مکہ کے لوگوں کے درمیان رکھتا تھا حضرت حمزہ کی بہت زیادہ شجاعت کو دیکھتے ہوئے کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا ۔

اس کے بعد حمزہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی تلاش میں نکلے اور اسلام قبول کرلیا، اس دن سے باقاعدہ اسلام کے ایک افسر رشید کے طور پر آخر عمر تک اس آسمانی دین کا دفاع اور اس کی حفاظت کرتے رہے۔

اوپر والی آیت اسی واقع کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں حمزہ کے ایمان اور ابوجہل کے کفروفساد میں پائیداری کو مشخص کیا گیا ہے۔

بعض رویات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت عمار یاسر کے ایمان لانے اور ابوجہل کے کفر پر اصرار کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

بہرحال یہ آیت بھی قرآن کی دوسری آیات کی طرح ہی اپنے محل نزول کے ساتھ ہی اختصاص نہیں رکھتی اور ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جو ہر سچے مومن اور ہر بے ایمان اور ہٹ دھرم پر صادق آتی ہے ۔

ایمان اور نور نظر

ان کا قبل کی آیات کے ساتھ ربط اس لحاظ سے ہے کہ گذشتہ آیات میں دو گرہوں کی اشارہ ہے۔ مومن خالص اور ہٹ دھرم کافر جو صرف یہ کہ خود ایمان نہیں لاتا بلکہ دوسروں کوگمراہ کرنے کی سختی سے کوشش بھی کرتا ہے، یہاں بھی دوجالب اور عمدہ مثالیں ذکر کرکے ان دونوں گروہوں کی کیفیت کو مجسم کیا گیا ہے۔

پہلے ان افراد کو جو گمراہی میں تھے پھر انھون نے حق اور ایمان کو قبول کرکے اپنے راستے کو بدل لیا انھیں اس مردہ سے تشبیہ دی ہے کہ جو خدا کے ارادہ اور فرمان سے زندہ ہوگیا ہو( اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاهُ ) ۔

قرآن میں بارہا ”موت“اور ”حیات“ معنوی موت وحیات اور کفر ایمان کے معنی میں آئی ہے، اور تعبیر اس بات کی طرف اچھی طرح نشاندہی کرتی ہے کہ ایمان ایک خشک اور خالی عقیدہ یا کوئی تکلفاتی الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ وہ ایک ایسی روح کی مانند کہ جو بے ایمان افراد کے بے جان جسم میں پھونکی جاتی ہے اور وہ ان کے تمام وجود میں اثر کرتی ہے ، ان کی آنکھوں میں بینائی اور وشنی آجاتی ہے، ان کے کانوں میں سننے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے ، زبان میں طاقر گویائی اور ہاتھ پاؤں میں ہر قسم کے مثبت کام انجام دینے کی قدرت پیدا ہوجاتی ہے، ایمان افراد کو دگرگوں کردیتا ہے اور ان کی ساری زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے اورزندگی کے آثار کو ان کے تمام حالات زندگی میں آشکار وواضح کرتا ہے۔

”فاحییناہ“ (ہم نے اسے زندہ کیاہے ) کے حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اگر چہ خود انسان کی اپنی سعی وکوشش سے صورت پذیر ہونا چاہئے لیکن جب تک خدا کی طرف سے کشش نہ ہو یہ کوششیں انجام کو نہیں پہنچتی۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے: ہم نے ایسے افراد کے لئے نور قرار دیا ہے کہ جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلیں پھریں( وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا یَمْشِی بِهِ فِی النَّاسِ ) ۔

اگر چہ مفسرین نے اس بارے میں کئی احتمال ذکر کئے ہیں کہ اس ”نور“ سے کیا مراد ہے لیکن ظاہری طور پر اس سے صرف قرآن اور تعلیمات پیغمبر ہی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ خدا پر ایمان انسان کو نور بصیرت اور ایک نیا ادراک بخشتا ہے اور ایک خاص قسم کا نور بصیرت اس کا عطا کرتا ہے، اس کی نگاہ کے افق کق مادی محدود زندگی اور عالم مادی کی چہار دیواری سے نکال کر ایک بہت ہی وسیع عالم میں لے جاتا ہے۔

اور چونکہ وہ انسان کو خود سازی کی دعوت دیتا ہے تو خودخواہی، خود بینی، تعصب، ہٹ دھرمی اور ہوا ہوس کے پردے اس کی روح کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دیتا ہے اور وہ ایسے حقائق دیکھنے لگ جاتا ہے کہ جن کے ادراک کی اس سے قبل ہرگز قدرت نہیں رکھتا تھا۔

اس نور کے پرتو میں وہ لوگوں کے درمیان اپنی زندگی کی راہ تلاش کرسکتا ہے اور وہ بہت سے ایسے اشتباہات سے کہ جن میں دوسرے لوگ طمع اور لالچ کی خاطر اور مادی محدود ففکر کی وجہ سے یا خود خواہی اور ہوا وہوس کے غلبہ کے باعث گرفتار ہوجاتے ہیں مامون ومحفوظ رہ جاتا ہے ۔ نیز یہ جو اسلامی رویات میں ہے کہ:”اٴلْمُومِنُ یَنْظُرُ بِنُورِاللّٰهِ

”مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے“۔

یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔اگرچہ ان تمام باتوں کے باوجود اس خاص نور کی کہ جو صاحب ایمان انسان میں پیدا ہوجاتا ہے بیان وقلم سے پھر بھی توصیف نہیں کرسکتے۔ بلکہ اس کا ذائقہ چکھنا چاہئے اور اس کے وجود کو محسوس کرنا چاہئے ۔

اس کے بعد ایسے زندہ، فعال، نورانی اور موثر افرا د کا ہٹ دھرم بے ایمان افراد کے ساتھ مقابلہ وموازنہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: کیا ایسا شخص اس شخص کی مانند ہے کہ جو ظلمتوں اور تاریکیوں کی امواج میں ڈوبا ہوا ہے اور ہر گز اس سے باہر نہیں نکل سکتا( کَمَنْ مَثَلُهُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا ) ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ نہیں کہتا کہ ”کمن فی الظلمات“ (اس شخص کی طرح جو ظلمات میں ہے) بلکہ یوں کہتا ہے”کمن مثلہ فی الظلمات“ اس شخص کی طرح کہ جس مثل ظلمات ہیں ۔ بعض نے کہا کہ اس تعبیر سے ہدف ومقصد یہ تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اس قسم کے افراد اس قدر تاریکی اور بد بختی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان کی وضع وکیفیت ایک ضرب المثل بن گئی ہے کہ جس سے تمام باسمجھ افراد آگاہ ہیں ۔

لیکن ممکن ہے یہ تعبیر ایک لطیف تر معنی کی طرف اشارہ ہو اور وہ یہ کہ: ایسے افراد کی ہستی اور وجود سے حقیقت میں ایک قالب اور ایک مجسمہ کے سو کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے، وہ ایک ایسا ہیکل رکھتے ہیں کہ جو روح کے بغیر ہے اور ایسا دماغ اور فکر رکھتے ہیں جو بیکار ہوچکی ہے۔

اس نکتہ کی یاددہانی بھی لازمی ہے کہ مومن کا راہنما”نور“ (صیغہ مفرد کے ساتھ) اور کفار کا محیط”ظلمات“( صیغہ جمع کے ساتھ) بیان کیا گیا ہے ، کیوں کہ ایمان صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وحدت وویگانگی کی رمز ہے اور کفر وبے ایمانی ، پراگندگی وتفرقہ اور پھوٹ کا سرچشمہ ہے۔

آیت کے آخر میں اس بد بختی کی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: کفار کے اعمال کوان کی نظروں میں اسی طرح زینت دے دی گئی ہے( کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں یہ برے عمل کے تکرار کی خاصیت ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی برائی نظر میں کم ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اس کی نظروں میں ایک اچھا کام معلوم ہونے لگتا ہے او ر ایک زنجیر کی مانند اس کے ہاتھ پاؤں میں پڑ جاتا ہے اور اپنے جال سے نکلنے کی اسے اجازت نہیں دیتا، تباہ کاروں کے حالات کا ایک سرسری مطالعہ اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کردیتا ہے۔

اور چونکہ منفی جہت سے ایک ماجرے کاہیرو ابوجہل تھا اور وہ مشرکین مکہ اور قریش کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا لہٰذا دوسری آیت میں ان گمراہ رہبروں اور کفر وفساد کے زعما کی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ہم نے ہر شہر اور آبادی میں اسی طرح سے ایسے بڑے بڑے لوگ قراردئے ہیں کہ جنھوں نے گناہ کا راستہ اختیار کرلیا اور مکروفریب اور دھوکا بازی کے ذریعے لوگوں کو راستے سے منحرف کردیا( وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَةٍ اٴَکَابِرَ مُجْرِمِیهَا لِیَمْکُرُوا فِیهَا ) ۔

ہم نے بارہا یہ کہا ہے اس قسم کے افعال کی خدا کی طرف نسبت اس بنا پر ہے کہ وہ مسبب الاسباب اور تمام قدرتوں کا سرچشمہ ہے اور جو شخص جس کام کو سر انجام دیتا ہے وہ ان امکانات ووسائل کے ساتھ سرانجام دیتا ہے کہ جو خدا نے اس کے اختیار میں دئے ہیں ۔ اگرچہ کچھ لوگ اس سے اچھا فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض لوگ ان ہی وسائل سے برے کام انجام دیتے ہیں ۔

”لیمکروا“ (تاکہ وہ مکروفریب کو کام میں لائیں ) کا معنی ان کے سرانجام کے معنی میں ہے۔ یہ ان کی خلقت کا ہدف نہیں ہے(۱) یعنی نافرمانی اور بکثرت گناہوں کا انجام یہ ہوا کہ وہ راہ حق کے رہزن بن گئے اور بندگان خدا کو راہ سے منحرف کردیا۔ کیوں کہ ”مکر“ اصل میں گرم کرنے اور مروڑنے کے معنی مین بعد ازاں ہر اس انحرافی کام کے لئے جو مخفیانہ اور چھپ کر کیا جائے استعمال ہونے لگا۔

آیت کے آخر میں کہا گیا ہے: وہ اپنے سوا کسی کو بھی فریب اور دھوکا نہیں دیتے، لیکن وہ سمجھتے نہیں ہیں اور متوجہ نہیں ہیں( وَمَا یَمْکُرُونَ إِلاَّ بِاٴَنفُسِهِمْ وَمَا یَشْعُرُونََ ) ۔

اس سے بڑھ کر اور کیا مکروفریب ہوگا کہ وہ اپنے وجود کا تمام سرمایہ چاہے وہ فکر ،ہوش، عقل، عمر اور وقت ہو یا مال دولت ایسی راہ میں استعمال کرتے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ ان کے لئے سود مند نہیں بلکہ ان کی پشت کو بار مسئولیت اور گناہ سے بھی بوجھل کردیتا ہے جب کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے ہیں ۔

ضمنی طور پر اس آیت سے بھی اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ مفاسد اور بد بختیاں جو معاشرے کو دامن گیر ہوتی ہیں ان کا سر چشمہ قوموں کے بڑے اور سردار ہی ہوتے ہیں اور وہی لوگ ہوتے ہیں جو قسم قسم کے حیلوں اور فریب کاریوں کے ذریعہ راہ حق کو دگرگوں کر کے حق کے چہرے کولوگوں پر پوشیدہ کردیتے ہیں ۔

____________________

۱۔ اصطلاح کے مطابق ”لام“ غایت کا”لام“ ہے بلکہ عاقبت کا لام ہے کہ جس کے قرآن میں متعدد نمونے موجود ہیں ۔

آیت ۱۲۴

۱۲۴( وَإِذَا جَائَتْهُمْ آیَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّی نُؤْتَی مِثْلَ مَا اٴُوتِیَ رُسُلُ اللهِ اللهُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَیُصِیبُ الَّذِینَ اٴَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا کَانُوا یَمْکُرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۲۴ ۔ اور جس وقت کوئی آیت ان کے لئے آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمیں بھی ویسی ہی چیز نہ دکھائی جائے جیسی کہ خدا کے پیغمبروں کو دی گئی ہے،۔خدا ہی بہتر طور پر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے، وہ لوگ جو گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں (اور انھوں نے اپنی حیثیت ومقام کو بچانے کے لئے لوگوں کو راہ حق سے منحرف کیا ہے ) وہ بہت جلدی اپنے مکر( اور فریب اور چالبازی) کے بدلے میں جو وہ کیا کرتے تھے، بارگاہ خدا وندی میں ذلیل ہوں گے اور عذاب شدید میں گرفتار ہوں گے۔

شان نزول

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں (کہ جو بت پرستوں کے مشہور سرداروں میں سے تھااور اصطلاح کے مطابق ان کا دماغ سمجھا جاتا تھا) نازل ہوئی ہے۔ وہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے کہتا تھا کہ اگر نبوت سچی بات ہے تو میں یہ مقام حاصل کرنے کا آپ سے زیادہ حقدار ہون ، کیون کہ ایک تو میرا سن آپ سے زیادہ ہے اور دوسرے میرے پاس مال ودولت بھی آپ سے زیادہ ہے۔

بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ کیوں کہ وہ خیال کرتا تھا کہ مسئلہ نبو ت بھی رقابتوں کا مرکز بنے ، وہ کہتا تھا کہ ہم اور قبیلہ بنی عبد مناف (پیغمبر کا قبیلہ) ہر چیز میں ایک دوسرے کے رقیب تھے اور گھوڑ دوڑکے دو گھوڑوں کی طرح ایک دوسروں کے دوش بدوش جارہے تھے یہاں تک کہ انھوں نے یہ دعوی کردیا کہ ہمارے درمیان میں سے ایک پیغمبر مبعوث ہوا ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے لیکن یہ بات ممکن نہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئےں مگر یہ کہ ہم پر بھی وحی اترے جس طرح اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔

خدا سب بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کوکہاں قراردے

اس آیت میں ان باطل گدی نشینوں اور سرداروں اور ”اکابر مجرمیہا“ کے طرز فکر اور مضحکہ خیز دعوے کی طرف ایک مختصر اور پر معنی اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : جب خدا کی طرف سے کوئی آیت ان کے لئے بھیجی گئی تو انھوں نے کہا: ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ ہمیں بھی وہی مقامات اور آیات جو خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کو عطا ہوئی ہے دی جائیں( وَإِذَا جَائَتْهُمْ آیَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّی نُؤْتَی مِثْلَ مَا اٴُوتِیَ رُسُلُ اللهِ ) ۔

ان کے خیال میں جیسے مقام رسالت اور خلق کی رہبری کا حصول سن وسال ومال ودولت پر موقوف ہے یا قبائل کی بچہ گانہ رقابتوں پر اور گویا خدا بھی اس بات کا پابند ہے کہ وہ ان بے بنیاد اور مضحکہ خیز رقابتوں کا خیال کرے اور انھیں صحیح قرار دے ۔ایسای رقابتیں کہ جن کا سرچشمہ انحطاط فکری ہو، جو مفہوم نبوت اور انسانوں کی رہبری کی فکر سے دور ہوں ۔

قرآن انھیں واضح جواب دیتا ہے اور کہتا ہے: اس کی ضرورت نہیں کہ تم خدا کو سبق دو کہ وہ اپنے پیغمبروں اور رسولوں کو کس طرح بنائے اور کن لوگوں میں ان کا انتخاب کرے کیوں کہ” خدا سب بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کوکہاں قراردے“( اللهُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ) ۔

یہ بات صاف ظاہر او بالکل واضح ہے کہ رسالت نہ تو سن وسال اور مال دولت سے کوئی ربط رکھتی ہے اور نہ ہی قبائل کی حیثیت سے ۔ بلکہ ہر چیز سے پہلے اس کی شرط روح کی آمادگی، ضمیر کی پاکیزگی، اصل انسانی خصائل وصفات، فکر بلند، قوت نظر اور آخری طور پر غیر معمولی تقوی وپرہیزگاری کا مرحلہ عصمت میں ہونا ہے اور ان صفات کا موجود ہونا خصوصا مقام عصمت کے لئے آمادگی ایسی چیز ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ان شرائط اور ان کی سوچ کے درمیان کس قدر فرق ہے۔

جانشین پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم بھی سوائے وحی وتشریع بنی کے تمام صفات اور پروگراموں کا حامل ہوتا ہے ، یعنی وہ محافظ شرع وشریعت بھی ہے ، اس کے مکتب وقوانین کا پاسدار بھی ہے اورلوگوں کا روحانی اور دنیا کا رہبر بھی ہے، لہٰذا اسے بھی مقام عصمت پر فائز اور خطا وگناہ سے مامون ومحفوظ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی پیغام رسانی کو باور کرسکے اور رہبرمطاع اور قابل اعتماد نمونہ ہو۔ اسی دلیل سے اس کا انتخاب بھی خدا ہی کے اختیار میں ہے اور خدا ہی جانتا ہے کہ اس مقام کو وہ کہاں قرار دے نہ کہ خلق خدا۔ نہ ہی لوگوں کے انتخاب اور شوری سے یہ ہوتا ہے۔

آیت کے آخر میں اس قسم کے مجرموں اور باطل دعوے کرنے والے رہبروں کے اس انجام کا ذکر کیا گیا ہے جو ان کے انتظار میں ہے ارشاد ہوتا ہے: عنقریب یہ گنہگار لوگ اس مکروفریب کی وجہ سے جو وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے کرتے تھے ذلت وحقارت اور عذاب شدید میں گرفتار ہوں گے( سَیُصِیبُ الَّذِینَ اٴَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا کَانُوا یَمْکُرُونَ ) ۔(۱)

یہ خود خواہ لوگ چاہتے تھے کہ اپنے غلط کاموں کے ذریعہ اپنی حیثیت ، مقام اور مرتبہ کی حفاظت کریں لیکن خدا انھیں اس طرح حقیر کرے گا کہ وہ درد ناک روحانی گرفت کا احساس کریں گے ، علاوہ ازایں چونکہ راہ باطل میں ان کہ ہاؤہو زیادہ اور ان کی سعی وکوشش سخت تھی لہٰذا ان کی سزا اور عذاب بھی ”شدید“ اور پر سرصدا ہوگا۔

____________________

۱۔ ”اجرام“ مادہ”جرم“ سے اصل میں قطع کرنے کے معنی میں ہے اور چونکہ گنہگار افراد رشتوں اور ناتوں کو قطع کردیتے ہیں اور اپنے آپ کو فرمان خدا کی اطاعت سے الگ کرلیتے ہیں لہٰذا یہ لفظ گناہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور اس میں اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے ہر شخص اپنی ذات میں حق وپاکیزگی اور عدالت کے ساتھ رشتہ رکھتا ہے اور گناہ سے آلودگی فی الواقع فطرت الٰہیہ سے علحیدگی ہے۔

آیات ۱۲۵،۱۲۶،۱۲۷

۱۲۵( فَمَنْ یُرِدْ اللهُ اٴَنْ یَهدِیَهُ یَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ وَمَنْ یُرِدْ اٴَنْ یُضِلَّهُ یَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاٴَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللهُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

۱۲۶( وَهَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیمًا قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

۱۲۷( لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِیُّهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۲۵ ۔ جس شخص کے لئے خدا چاہتا ہے کہ ہدایت کرے اس کے سینہ کو(قبول کرنے کے لئے) کشادہ کردیتا ہے اور جس شخص کو( اس کے برے اعمال کی وجہ سے) گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ کو اس طرح تنگ کردیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے، اس طرح خدا پلیدی ایسے افراد کے لئے قرار دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

۱۲۶ ۔اور یہ صراط مستقیم (اور ہمیشہ کی سنت) تیرے پروردگار کی ہے ہم ایسے افراد کے لئے جو پندونصیحت حاصل کرتے ہیں اپنی آیات کو کھول کر بیان کردیتے ہیں ۔

۱۲۷ ۔ ان کے لئے ان کے پروردگار کے پاس امن وامان کا گھر ہوگا او ران کا ولی، دوست اور مددگار ہے ان (نیک)اعمال کی وجہ سے جو وہ انجام دیتے ہیں ۔

تفسیر

خدائی امداد

گذشتہ آیات کہ جو سچے مومنین اور ہٹ دھرم کفار کے بارے میں بحث کررہی تھیں ، کے بعد ان آیات میں ان عظیم نعمتوں کو جو پہلے گروہ کے لئے ہیں اور بے توفیقیاں جو دوسرے گروہ کے دامن گیر ہوں گی تفصیل ک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

پہلے فرمایا گیاہے: جس شخص کو خدا ہدایت کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ حق کو قبول کرنے کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ اس کے لئے اسے تنگ کردیتا ہے گویا وہ چاہتا ہے کہ آسمان کی طرف چڑھ جائے( فَمَنْ یُرِدْ اللهُ اٴَنْ یَهدِیَهُ یَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ وَمَنْ یُرِدْ اٴَنْ یُضِلَّهُ یَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاٴَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ ) ۔

اس امر کی تاکید کے لئے مزید کہا گیا ہے : خدا اس طرح سے پلیدی اور رجس کو بے ایمان افراد کے لئے قرار دیتا ہے اور ان کے سرا پا کو نحوست اور سلب توفیق گھیر لے گی (کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللهُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ)۔

قابل توجہ نکات

۱ ۔ ہم بارہا بیان کرچکے ہیں کہ خدائی ”ہدایت“ اور ”ضلالت“ سے مراد ایسے اشخاص کے لئے کہ جنھوں نے حق قبول کرنے کے لئے اپنے اعمال وکردار سے آمادگی یا عدم آمادگی کو ثابت کردیا ہے ، ہدایت کی بنیادیں فراہم کرنا یا فراہم شدہ ہدایت کی بنیادوں کو برطرف کرنا ہے۔

وہ لوگ کہ جو راہ حق پر رواں دواں ہین اور ایمان کے اور ایمان کے آب زلال کے متلاشی اور پیاسے ہیں ، خدا ان کے راستوں میں ایسے ضیا بخش چراغ روشن کردیتا ، تاکہ وہ اس آب حیات کو حاصل کرنے کے لئے تاریکیوں میں گم نہ ہوجائےں لیکن وہ لوگ کہ جنھوں نے ان حقائق ک بارے میں اپنی بے اعتنائی ثابت کردی ہے وہ اس خدائی امداد سے محروم اور اپنی راہ میں انبوہ مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں اور ان سے توفیق ہدایت سلب ہوجاتی ہے۔

۲ ۔یہاں ”صدر“ (سینہ) سے مراد روح اور فکر ہے اور یہ کنایہ بہت سے مواقع پر استعمال ہوتا ہے ۔نیز ”یشرح“ (کشادہ کرنا) سے مراد وہی وسعت روح، بلندی فکر اور انسان کی عقل کے افق کا پھیلاؤ ہے ۔ کیوں کہ حق کو قبول کرنے کے لئے بہت سے ذاتی منافع چھوڑنے پڑتے ہیں کہ جس کے لئے وسعت روح رکھنے والے اور بلند افکار افراد کے سوا اور کوئی آمادہ نہیں ہوگا۔

۳ ۔ ”حرج“ (بروزن حرم) حد سے زیادہ تنگی اور شدید محدویت کے معنی میں ہے ۔ یہ ہٹ دھرم اور بے ایمان افرا د کا حال ہے ، کہ جن کی فکر بہت کوتاہ اور ان کی روح حد سے زیادہ چھوٹی اور ناتواں ہے اور جو معمولی سی گنجائش بھی زندگی میں نہیں رکھتے۔۔

۴ ۔ قرآن کا ایک علمی معجزہ: اس قسم کے افراد کو ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ کہ جو یہ چاہتا ہے کہ آسمان پر چڑھ جائے اس لحاظ سے ہے کہ آسمان کی طرف صعود کرنا (چڑھنا) حد سے زیادہ مشکل کام ہے اور ان کے لئے حق کو قبول کرنا بھی اسی طرح ہے۔

جیسا کہ ہم روزمرہ کی گفتگو میں کہتے ہیں کہ یہ کام فلاں شخص کے لئے اتنا مشکل ہے کہ گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ میں آسمان کی طرف چڑھ جاؤں ، یا جیسا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے بجائے آسمان پر چڑھ جاؤ تو زیادہ آسان ہے ۔

البتہ اس زمانے میں آسمان کی طرف پرواز کرنا انسان کے لئے ایک تصور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا، لیکن آج بھی جب کہ فضا میں سیر کرنا ایک عملی شکل اختیار کرچکا ہے پھر بھی وہ ایک طاقت فرسا اور مشکل کاموں میں سے ہے اور فضا نوردوں کو ہمیشہ شدید مشکلات کا سامنہ رہتا ہے۔

لیکن اس آیت کے لئے ایک لطیف تر معنی بھی نظر میں آتا ہے جو گذشتہ بحث کی تکمیل کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کرہ زمین کے اطراف کی ہوا اس زمین کے قرب جوار میں تو بالکل نتھری ہوئی اور انسانی تنفس کے لئے آمادہ ہے، لیکن ہم جتنا اوپر کی طرف چڑھتے چلے جائیں ہوا اتنی ہی زیادہ رقیق اور کم ہوجاتی ہے اور اس کی آکسیجن کی مقدار کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے، اس حد تک کہ اگر ہم( آکسیجن کے ماسک کے بغیر) زمین کی سطح سے چند کلو میٹر اوپر کی طرف چلے جائیں تو ہمارے لئے سانس لینا ہر لحظہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا اور اگر ہم برابر اوپر کی طرف بڑھتے رہیں تو تنگی نفس اور آکسیجن کی کمی ہماری بے ہوشی کا سبب بن جائے گی ، اس دن جب یہ واقعیت علمی ثابت نہیں ہوئی تھی اس تشبیہ کا بیان کرنا حقیقت میں قرآن کے علمی معجزات میں شمار ہوگا۔

۵ ۔ شرح صدر کیا ہے آیت میں شرح صدر(سینہ کی کشادگی) ایک عظیم نعمت اور ضیق صدر(سینہ کی تنگی) ایک خدائی سزا شمار کی گئی ہے ۔ جیسا کہ خدا وند تعالی اپنے پیغمبر سے ایک عظیم نعمت کابیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

( اٴَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ )

”کیا ہم نے تیرے سینہ کو وسیع اور کشادہ نہیں کیا“۔(۱)

یہ ایک ایسا امر ہے کہ جو افرادکے حالات کا مشاہدہ کرنے سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔ بعض کی روح تو اس قدر بلند وکشادہ ہوتی ہے جو ہر حقیقت کو قبول کرنے کے لئے ۔چاہے وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو۔ آمادہ اور تیار ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس بعض کی روھ اتنی تنگ اور محدود ہوتی ہے جیسے کسی بھی حقیقت کے نفوذ کے لئے اس میں کوئی راہ اور جگہ نہیں ہے ان کی فکری نگاہ کی حد روزمرہ کی زندگی اور کھانے پینے تک ہی محدود ہوتی ہے، اگر وہ انھیں مل جائے تو ہر چیزچھی ہے اور اگر اس میں تھوڑا سا بھی تغیر پیدا ہوجائے تو گویا سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور دنیا خراب ہوگئی ہے۔

جس وقت اوپر والی آیت نازل ہوئی پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے لوگوں نے پوچھاکہ شرح صدر کیا ہے تو آپ نے فرمایا:”نور یقذفه اللّٰه فی قلب من یشاء فینشرح له صدره وینفسح

”ایک نور ہے کہ جسے خدا جس شخص کے دل میں چاہے ڈال دے تواس کے سائے میں اس کی روح وسیع اور کشادہ ہوجاتی ہے“۔

لوگوں نے پوچھا کہ کیا اس کی کوئی نشانی بھی ہے جس سے اسے پہچانا جائے تو آپ نے فرمایا:

نعم الانابة الی دار الخلود والتجافی عن دارالغرور والاستعداد للموت قبل نزول الموت “۔(۲)

”ہاں ! اس کی نشانی ہمیشہ گھر کی طرف توجہ کرنا ، اور دنیا کے زرق برق سے دامن سمیٹنا، اور موت کے لئے آمادہ ہونا (ایمان وعمل صالح اور راہ حق میں کوشش کرنے کے ساتھ ) قبل اس کے کہ موت آجائے “۔

بعد والی آیت میں گذشتہ بحث کی تاکید کے عنوان سے کہتا ہے: یہ مطلب کہ خدائی مدد حق طلب لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے اور سلب توفیق دشمنان حق کی تلاش میں جاتی ، ایک مستقیم وثابت اور ناقابل تغیر سنت الٰہی ہے( وَهَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیمًا ) ۔

اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ ”ھذا“ کا اشارہ اسلام اور قرآن کی طرف ہو، کیو ں کہ وہی صراط مستقیم اور راست ومعتدل راستہ ہے۔

آیت کے آخر میں دوبارہ تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ہم نے اپنی نشانیوں اور آیات کو ان لوگوں کے لئے جو قبول کرنے والا دل اور سننے والا کان رکھتے ہیں تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے( قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

بعد والی آیت میں خدا وند تعالی اپنی نعمتوں کے ان دو عظیم حصوں کو جو وہ بےدار افراد اور حق طلب لوگوں کو عطا کرتا ہے بیان کرتا ہے: پہلی یہ کہ ان کے پروردگار کے پاس ان کے لئے امن وامان کا گھر ہے( لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ ) ۔

اور دوسری یہ کہ : ان کا ولی وسرپرست اور حافظ ناصر خدا ہے( وهُوَ وَلِیُّهُمْ ) ۔

”اور یہ سب کچھ ان نیک اعمال کی وجہ سے ہے جو وہ انجام دیتے تھے“( بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

اس سے بڑھ کر اور کونسی چیز باعث افتخار ہوگی کہ انسان کی سرپرستی اور کفالت امورخدا وند تعالی اپنے ذمہ لے لے، اور وہ اس کا حافظ، دوست اور یارویاور ہوجائے۔

اور کون سی نعمت اس سے عظیم تر ہے کہ ”دارالسلام“ یعنی امن امان کا گھر وہ جگہ کہ جس میں نہ جنگل ہے نہ خونریزی،نہ نزاع ہے نہ جھگڑا، نہ خشونت وسختی ہے نہ زمانے والی اور طاقت صرف کرنے والی رقابتیں ، نہ مفادات کا تصادم ہے نہ جھوٹااور افتراء نہ تہمت، حسد اور کنہ ہے اور نہ غم واندوہ ، ایسا گھر جو ہرلحاظ سے راحت وآرام کی جگہ ہے، انسان کے انتظار میں ہے۔

لیکن آیت یہ کہتی ہے کہ یہ چیزیں وہ زبانی جمع خرچ سے کسی کو نہیں دیتا بلکہ عمل کے بدلے میں دیتا ہے، ہاں ! ہاں ! عمل ہی کے بدلے میں ۔

____________________

۱۔ سورہ الم نشرح، آیہ :۱۔

۲۔ مجمع البیان، جلد ۴، صفحہ ۳۶۳۔