تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31237
ڈاؤنلوڈ: 2813


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31237 / ڈاؤنلوڈ: 2813
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۱۳۸،۱۳۹

۱۳۸( وَقَالُوا هَذِهِ اٴَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَیَطْعَمُهَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ لاَیَطْعَمُهَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَاٴَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَاٴَنْعَامٌ لاَیَذْکُرُونَ اسْمَ اللهِ عَلَیْهَا افْتِرَاءً عَلَیْهِ سَیَجْزِیهِمْ بِمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ) ۔

۱۳۹( وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ هَذِهِ الْاٴَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُکُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلیٰ اٴَزْوَاجِنَا وَإِنْ یَکُنْ مَیْتَةً فَهُمْ فِیهِ شُرَکَاءُ سَیَجْزِیهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

ترجمہ:

۱۳۸ ۔ اور انھوں نے کہا کہ چوپایوں اور زراعت کا یہ حصہ (جو بتوں کے ساتھ مخصوص ہے یہ سب کے لئے) ممنوع ہے اور سوائے ان لوگوں کے کہ جنھیں ہم چاہیں ۔ان کے گمان کے مطابق۔ اس سے کسی کو نہیں کھانا چاہئے ۔اور(وہ یہ کہتے تھے کہ یہ) ایسے چوپائے ہیں کہ جن پر سوار ہونا حرام قرار دیا گیا ہے اور وہ چوپائے کہ جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا پر جھوٹ بولتے تھے (اور یہ کہتے تھے کہ یہ احکام خدا کی طرف سے ہیں ) عنقریب ان کے افتراء انھیں دے گا۔

۱۳۹ ۔ اور انھوں نے کہا کہ جو کچھ ان حیوانات کے شکم میں (جنین اور بچہ میں سے) موجود ہے وہ تو ہمارے مردوں کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ ہماری بیویوں پر حرام ہے لیکن اگر وہ مردہ ہوں (یعنی مردہ پیدا ہوں ) تو پھر سب اس میں شریک ہیں اور عنقریب (خدا) اس توصیف (اور جھوٹے احکام) کی سزا انھیں دے گا، وہ حکیم ودانا ہے۔

۱ ۔ بعض خیال کرتے ہیں کہ لفظ اولاد زیر نظر آیت میں اس تفسیر کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ لفظ اولاد ایک وسیع مععنی رکھتی ہے جو بیٹا اور بیٹی دونوں پر بولا جاتا ہے، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۳ میں ہے:( وَالْوَالِدَاتُ یُرضِعْنَ اَولَادَهُنَّ حَولَینِ کَامِلَینِ ) (مائیں اپنی اولا کو مکمل دو سال دودھ پلائیں گی)۔

بت پرستوں کے بیہودہ احکام

ان آیات میں بت پرستوں کے بیہودہ احکام کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جو ان کی کوتاہ فکری کی حکایت وترجمانی کرتے ہیں اور گذشتہ آیات کی تکمیل کرتے ہیں ۔

قرآن کہتا ہے کہ بت پرست کہتے تھے کہ چوپایوں اور زراعت کا یہ حصہ جو بتوں کے ساتھ مخصوص ہے اور خاص انھیں کا حصہ ہے کلی طور پ سب کے لئے ممنوع ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں ، ان کے خیال کے مطابق اسی گروہ کے لئے حلال تھا دوسروں کے لئے نہیں( وَقَالُوا هَذِهِ اٴَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَیَطْعَمُهَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ لاَیَطْعَمُهَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ ) ۔

ان کی اس سے مراد وہی بت اور بت خانہ کے متولی اورخدام تھے، صرف وہ یہی گروہ تھا جو ان کے خیال کے مطابق بتوں کے حصہ میں سے کھانے کا حق رکھتے تھے ۔

اس بیان سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آیت کا یہ حصہ حقیقت میں اس حصہ کے مصرف کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے ، جو انھوں نے زراعت اور چوپایوں میں سے بتوں کے لئے مقرر کیا تھا جس کی تفسیر گذشتہ آیات میں گزرچکی ہے۔

لفظ” حجر“ (بروزن”شعر) اصل میں ممنوع قرار دینے کے معنی میں ہے اور جیسا کہ راغب نے کتاب مفردات میں کہا ہے بعید نہیں کہ” حجارة “

کے مادہ سے پتھر کے معنی میں لیا گیا ہو کیوں کہ جب وہ یہ چاہتے تھے کہ کسی احاطے میں داخلہ ممنوع قرا ردیں تو اس کے گرد پتھر چن دیتے تھے اور یہ جو ”حجر اسماعیل“ پر اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک مخصوص پتھر کی دیوار کے ذریعے اسے مسجد الحرام کے دوسرے حصوں سے الگ کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے عقل کو بھی کبھی کبھی ”حجر“ کہا جاتا ہے ، کیوں کہ وہ انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی نگرانی اور حمایت میں آجائے تو کہتے ہیں کہ یہ اس کی حجر (حفاظت) میں ہے ، اور ”محجور“ اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو اپنے اموال میں تصرف کرنے سے رکاہوا ہے ۔(۱)

اس کے بعد دوسری چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جسے انھوں نے حرام کررکھا تھا اور فرمایا گیا ہے: وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ کچھ جانور ایسے ہیں کہ جن پر سوار ہونا حرام ہے( وَاٴَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا ) ۔

اور ظاہرا یہ وہی جانور تھے کہ جن کی تفسیر سورہ مائدہ کی آیہ ۱۰۳ میں ”سائبہ“ ”بحیرہ“ اور” حام“کے عنوان سے گزر چکی ہے( مزید معلومات کے لئے مذکورہ آیت کے ذیل میں بیان کردہ تفسیر کا مطالعہ کریں ) ۔

اس کے بعد ان کے ناروا حکام کے تیسرے حصے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: کچھ جانوروں پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے( وَاٴَنْعَامٌ لاَیَذْکُرُونَ اسْمَ اللهِ عَلَیْهَا ) ۔

یہ جملہ ہوسکتا ہے ایسے جانوروں کی طرف اشارہ ہو جن کو ذبح کرتے وقت صرف بت کا نام لیتے تھے یا اس سے مراد وہ جانور ہوں کہ جن پر حج کے لئے سوار ہونا انھوں نے حرام قرار دیاتھا، جیسا کہ تفسیر مجمع البیان، تفسیر کبیر المنار اور قرطبی میں بعض مفسرین سے نقل ہوا ہے ان دونوں صورتوں میں یہ ایک بے دلیل اور بیہودہ حکم تھا۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ ان بیہودہ احکام پر قناعت نہیں کرتے تے تھے بلکہ خدا پر افتراء باندھتے تھے اور ان کی خدا کی طرف نسبت دیتے تھے( افْتِرَاءً عَلَیْهِ ) ۔

آیت کے آخر میں ان بناوٹی احکام کے ذکر کے بعد قرآن کہتا ہے: خدا عنقریب ان افترات کے بدلے میں سزا اور عذاب دے گا( سَیَجْزِیهِمْ بِمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ) ۔

ہاں ! جب ایک انسان یہ چاہے کہ وہ اپنی ناقص فکر وعقل ذریعے کوئی قانوں بنالے تو عین ممکن ہے کہ ہرگروہ اپنی ہواوہوس سے کچھ احکام وقوانین بناڈالے اور خدا کی نعمتوں کو بلا وجہ اپنے اوپر حرام قرار دے لے یا قبےح اور غلط کاموں کو اپنے لئے حلال قرار دے لے، یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ قانوں ن کا واضح کرنا صرف خدا کا کام ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور ہر کام کی مصلحت سے آگاہ ہے اور ہر قسم کی ہواوہوس سے دور ہے۔

بعد والی آیت میں ان کے ایک اور بیہودہ حکم کی طرف جو جانوروں کے گوشت کے بارے میں ہے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: انھوں کہا ہے کہ وہ جنین (اور بچے) جو ان جانوروں کے شکم میں ہے وہ ہمارے مردوں کے ساتھ مخصوص ہےں اور ہماری بیویوں پر حرام ہے البتہ اگر وہ مردہ پیدا ہوں تو پھر سب اس میں شریک ہیں( وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ هَذِهِ الْاٴَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُکُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلیٰ اٴَزْوَاجِنَا وَإِنْ یَکُنْ مَیْتَةً فَهُمْ فِیهِ شُرَکَاءُ ) ۔

اس بات پر توجہ رہے کہ ”ھذہ الانعام“ سے مراد وہی جانور ہیں جن کی طف گذشتہ آیت میں ازرہ ہوا ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ ”( ما فی بطون هذه الانعام ) “ ( جو کچھ ان جانوروں کے شکم میں ہے) کی عبارت ان جانوروں کے دودھ کے بارے میں بھی ہے لیکن ”وان یکن میتة“(اگر مردہ ہوں ) کے جملے پر توجہ کرتے ہوئے واضح ہوجاتا ہے کہ آیت جنین (شکم مادر میں بچہ) سے بحث کررہی ہے کہ اگر وہ زندہ پیدا ہو تو اسے صرف مردوں کے ساتھ مخصوص جانتے تھے اور اگر مردہ پیدا ہوجاتا تھا کہ جو ان کے لئے زیادہ باعث رغبت ومیل نہ ہوتا تھا تو پھر سب کو اس میں مساوی جانتے تھے ۔

اس حکم کا اول تو فلسفہ اور منطقی دلیل ہی نہیں اور دوسرے مردہ پیدا ہونے والے جنین کے بارے میں بہت ہی برا اور چبھنے والا تھا کیوں کہ اس قسم کے جانور کا گوشت تو اکثر اوقات خراب اور مضر ہوتا ہے اور تیسرے یہ کہ ایک قسم کی مردوں اور عورتوں میں واضح تفریق تھی کیوں کہ جو چیز اچھی تھی وہ تو صرف مردوں کے ساتھ مخصوص تھی اور جو چیز بری تھی اس میں سے عورتوں کو بھی حصہ دیا جاتا تھا۔

قرآن اس جاہلانہ ذکر کرنے کے بعد مطلب کو اس جملے کے ساتھ ختم کرتا ہے:عنقریب خدا نے انھیں ان کی اس قسم کی توصیفات کی سزا دے گا

( سَیَجْزِیهِمْ وَصْفَهُمْ ) ۔

”وصف“ کی تعبیر ایسی توصیف کی طرف اشارہ ہے کہ جو وہ خدا کے لئے کرتے تھے اور اس قسم کی غذاؤں کی حرمت کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے، اگرچہ اس سے مرا د ووہ صفت اور حالت ہے کہ جو تکرار گناہ کے اثر اسے گنہگار شخص کو عارض ہوتی ہے اور اسے سزا وعذاب کا مستحق بنادیتی ہے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے ہے: وہ حکیم اور دانا ہے ( إِنَّہُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ)۔

ان کے اعمال وگفتار اور ناروا تہمتوں سے بھی باخبر ہے، اور حساب ہی ساتھ انھیں سزا بھی دے گا۔

____________________

۱۔ اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہئے کہ اوپر والی آیت میں ”حجر“ وصفی معنی رکھت

آیت ۱۴۰

۱۴۰( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا اٴَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمْ اللهُ افْتِرَاءً عَلَی اللهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ ) ۔

ترجمہ:

۱۴۰ ۔ یقینا جنھوں نے اپنی اولاد کو حماقت ونادانی کی بنا پر قتل کردیا انھوں نے نقصان اٹھایا ہے، اور جو کچھ خدا نے انھیں رزق دے رکھا تھا اسے اپنے اوپر حرام قرار دے لیا اور خدا پر انھوں نے افتراء باندھا ہے اور وہ گمراہ ہوگئے ہیں اور (وہ ہرگز ) ہدایت نہیں پائیں گے۔

زمانہ جاہلیت کے عربوں کی فضول احکام

گذشتہ چند آیات میں زمانہ جاہلیت کے عربوں کی فضول احکام اور قبیح اور شرمناک رسموں سے متعلق گفتگو تھی منجملہ ان کے اپنی اولاد کو بتوں کی قربانی کے طور پر قتل کرنا ، اپنے قبیلہ اور خاندان کی حیثیت و عزت کو محفوظ رکھنے کے نام پر اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا اور اسی طرح کچھ حلال نعمتوں کے حرام کرلینا تھا، اس آیت میں بڑی سختی کے ساتھ ان تمام اعمال وہ احکام کو جرم قرار دیتے ہوئے سات مختلف تعبیروں کے ساتھ جو مختصر جملوں میں ہے لیکن وہ بہت ہی رسا اور جاذب توجہ ہے ، ان کی وضع وکیفیت کو واضح وروشن کیا گیا ۔

پہلے فرمایا گیا ہے: وہ لوگ کہ جنھوں نے اپنی اولاد کو حماقت ، بیوقوفی اور جہالت کی بنا پر قتل کیا ہے ، انھوں نے نقصان اور خسارہ اٹھایا ہے وہ انسانی اور اخلاقی نظر سے بھی اور احساس کی نظر سے بھی اور اجتماعی ومعاشرتی لحاظ سے بھی خسارہ اور نقصان میں گرفتار ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر انھوں نے دوسرے جہان میں روحانی نقصان اٹھایا ہے( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا اٴَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ) ۔

اس جملے میں ان کا یہ عمل اولا ایک قسم کا خسارہ اور نقصان اور اس کے بعد حماقت کم عقلی اور بعد میں جاہلانہ کام کے طور پر متعارف ہوا ہے ان تینوں تعبیرات میں سے ہر ایک تنہا ان کے عمل کی برائی کے تعارف کے لئے کافی ہے ، کونسی عقل اجازت دیتی ہے کہ انسان اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قتل کردے اور کیا یہ حماقت اور بے وقوفی کی انتہا نہیں ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر شرم نہ کریں بلکہ اس پر ایک قسم کا فخر کرے اور اسے عبادت شمار کرے، کونسا علم ودانش اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ انسان ایسا عمل ایک سنت کے طور پر یا اپنے معاشرے میں ایک قانون کے طور پر قبول کرے۔

یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ابن عباس کی گفتگو یاد آرہی ہے کہ جو کہا کرتے تھے :

جو شخص زمانہ جاہلیت کی قوموں کی پسماندگی کی میزان کو جاننا چاہے تو وہ سورہ انعام کی آیات (یعنی زیر بحث آیات ) کو پڑھے۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے: انھوں نے اس چیز جو خدا نے انھیں روزی کے طور پر دی ہوئی تھی اور ان کے لئے اسے مباح وحلال قرار دیا تھا اپنے اوپر حرام قرار دے لیااور خدا پر انھوں نے یہ افتراء باندھا کہ خدا نے انھیں حرام کیا ہے( وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمْ اللهُ افْتِرَاءً عَلَی اللهِ ) ۔

اس جملہ میں دو اور تعبیروں کے ذریعے ان کے اعمال کو جرم قرار دیا گیا ہے کیون اول تو انھوں نے اس نعمت کو جو خدا نے انھیں بطور روزی دے رکھے تھی یہاں تک کہ وہ ان کی حیات کی بقا اور زندگی کے برقرار رہنے کے لئے بھی ضروری تھی، اسے اپنے اوپر حرام کرلیا اور خدا کے قانون کو پاؤں تلے روند ڈالا اور دوسرے خدا پر افتراء باندھا کہ اس نے یہ حکم دیا ہے، حالانکہ ہرگز ہرگز ایسا نہیں تھا آیت کے آخر میں دو اور تعبیرات کے ذریعے انھیں مجرم قرار دیا گیا ہے پہلے کہا گیا ہے :وہ یقینا گمراہ ہوگئے( قَدْ ضَلُّوا ) ۔

اس کے بعد مزید کہا گیا ہے:وہ کبھی بھی راہ ہدایت پر نہیں تھے( وَمَا کَانُوا مُهْتَدِین ) ۔

فہرست

آیت ۶۷ ۴

انتخابِ جانشین پیغمبر ہی آخری کار سالت تھا ۴

آیت کی شان نزول ۶

واقعہ غدیر کا خلاصہ ۱۰

جرح وتنقید اور اعتراضات ۱۶

۱ ۔ کیا مولیٰ کا معنی اولیٰ بالتصرف ہے؟ ۱۷

۲ ۔ آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط ۲۰

۳ ۔ کیا یہ حدیث تمام کتبِ صحاح میں نقل ہوئی ہے؟ ۲۱

۴ ۔ حضرت علی - نے اور اہلِ بیت نے اِس حدیث سے استدلال کیوں نہیں کیا؟ ۲۲

۵ ۔ روایت کے آخری جملہ کا مفہوم کیا ہے؟ ۲۴

۶ ۔ ایک ہی زمانہ میں دو ولی ہوسکتے ہیں ؟ ۲۴

آیات ۶۸،۶۹ ۲۶

شان نزول ۲۶

آیات ۷۰،۷۱ ۳۰

ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ۳۰

آیات ۷۲،۷۳،۷۴ ۳۳

مسیح اور تثلیت ۳۳

آیات ۷۵،۷۶،۷۷ ۳۸

حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں ۳۸

آیات ۷۸،۷۹،۸۰ ۴۳

آیت ۸۱ ۴۶

آیات ۸۲،۸۳،۸۴،،۸۵،۸۶ ۴۷

اسلام کے پہلے مہاجرین ۴۷

یہودیوں کی کینہ پروری اور عیسائیوں کی نرم دلی ۵۲

آیات ۸۷،۸۸،۸۹، ۵۵

حد سے تجاوز نہ کرو ۵۵

قسم اور اس کا کفارہ ۵۷

قسموں کی دوقسمیں ۵۸

پہلی چیز ہے دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ( فکفارته اطعام عشرة مشاکین ) ۔ ۵۹

دوسری چیز ہے دس محتاج لوگوں کو لباس پہنانا ( او کسوتهم ) ۶۰

تیسری چیز ہے ایک غلام کو آزاد کرنا (او تحریر رقبة)۔ ۶۰

آیات ۹۰،۹۱،۹۲ ۶۲

شان نزول ۶۲

شراب کے بارے میں قطعی حکم اور اس کے تدریجی مراحل ۶۳

شراب اور قمار باطی کے مہلک اثرات ۶۷

آیت ۹۳ ۷۰

شان نزول ۷۰

وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح بجالائیں ۷۰

آیات ۹۴،۹۵،۹۶ ۷۳

شانِ نزول ۷۳

حالت احرام میں شکار کرنے کے احکام ۷۴

( اٴُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ ) ۔ ۷۸

اس بارے میں کہ طعام اور کھانے سے کیا مراد ہے؟ ۷۸

حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کا فلسفہ ۸۰

آیات ۹۷،۹۸،۹۹ ۸۱

خدا نے بیت الحرام کو لوگوں کے امر کے قیام کا ذریعہ قرار دیا ۸۱

کعبہ کی اہمیت ۸۴

آیت ۱۰۰ ۸۵

اکثریت پاکیزگی کی دلیل نہیں ۸۵

آیات ۱۰۱،۱۰۲ ۸۷

شانِ نزول ۸۷

تفسیر ۸۸

غیر مناسب سوالات ۸۸

ایک سوال اوراس کا جواب ۹۱

آیات ۱۰۳،۱۰۴ ۹۳

چار غیر مناسب ”بدعات“ ۹۳

اپنے بزرگوں اور بڑوں کے نام کا بت ۹۷

بے دلیل تضاد ۹۷

آیت ۱۰۵ ۹۹

تفسیر ۹۹

ہر شخص اپنے کام کا جواب دہ ہے ۹۹

ایک سوال کا جواب ۹۹

آیات ۱۰۶،۱۰۷،۱۰۸ ۱۰۲

شان نزول ۱۰۲

اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق ۱۰۳

آیت ۱۰۹ ۱۰۸

اس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا ۱۰۸

آیت ۱۱۰ ۱۱۰

تفسیر ۱۱۰

مسیح(علیه السلام) پر انعاماتِ الٰہی ۱۱۰

آیات ۱۱۱،۱۱۲،۱۱۳،۱۱۴،۱۱۵ ۱۱۳

حواریوں پر مائدہ کے نزول کا واقعہ ۱۱۳

چند ضروری نکات کی یاد دہانی ۱۱۵

۱ ۔ مائدہ کے مطالبہ سے کیا مراد تھی؟ ۱۱۶

۲ ۔ ” ( هَلْ ییَسْتَطِیْعُ رَبُُکَ ) “ سے کیا مراد ہے؟ ۱۱۶

۳ ۔ یہ آسمانی مائدہ کیا تھا؟ ۱۱۷

۴ ۔ کیا ان پر کوئی مائدہ نازل ہوا؟ ۱۱۷

۵ ۔ عید کسے کہتے ہیں ؟ ۱۱۷

۶ ۔ عذاب شدید کس بناپر تھا؟ ۱۱۸

آیات ۱۱۶،۱۱۷،۱۱۸ ۱۲۰

حضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاری ۱۲۰

دوسوال اور ان کا جواب ۱۲۳

آیات ۱۱۹،۱۲۰ ۱۲۵

تفسیر ۱۲۵

عظیم کامیابی ۱۲۵

سوره انعام ۱۲۸

فضیلت تلاوت سوره انعام ۱۲۸

شرک کی مختلف اقسام اور بت پرستی کے خلاف جہاد ۱۲۸

آیات ۱،۲ ۱۲۹

وہ خدا جو نور وظلمت دونوں کا مبدا ہے، ۱۲۹

کیا تاریکی بھی مخلوقات میں سے ہے ۱۳۰

نور رمز وحدت ہے اور ظلمت رمز پراکندگی ۱۳۱

اجل مسمیٰ کیا ہے؟ ۱۳۲

تو یہاں اجل سے مراد وہی حتمی موت ہے ۔ ۱۳۵

آیت ۳ ۱۳۶

تمام چیزوں کا خالق وہی ہے ۱۳۶

آیات ۴،۵ ۱۳۸

آیت ۶ ۱۴۰

سرکشی کرنے والوں کو سرگذشت ۱۴۰

چند اہم نکات ۱۴۲

آیت ۷ ۱۴۳

ہٹ دھرمی کا آخری درجہ ۱۴۳

آیات ۸،۹،۱۰ ۱۴۵

بہانہ تراشیاں ۱۴۵

آیت ۱۱ ۱۴۸

وہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ، ۱۴۸

آیات ۱۲،۱۳ ۱۴۹

معاد پر استدلال ۱۴۹

معاد پر استدلال ۱۴۹

ایک سوال اور اس کا جواب ۱۵۱

آیات ۱۴،۱۵،۱۶ ۱۵۴

خدا کے سوا اور کوئی پناہ گاہ نہیں ہے ۱۵۴

آیات ۱۷،۱۸ ۱۵۸

پروردگار کی قدرت قاہرہ ۱۵۸

آیات ۱۹،۲۰ ۱۶۱

سب سے بڑا گواہ ۱۶۱

آیات ۲۱،۲۲،۲۳،۲۴، ۱۶۶

سب سے بڑا ظلم ۱۶۶

چند اہم نکات ۱۶۹

آیات ۲۵،۲۶ ۱۷۱

حق قبول نہ کرنے والوں کا طرز عمل ۱۷۱

مومن قریش حضرت ابو طالب (علیه السلام) پر ایک بہت بڑی تہمت ۱۷۴

آیات ۲۷،۲۸ ۱۸۱

وقتی اور بے اثر بیداری ۱۸۱

چند اہم نکات ۱۸۳

آیات ۲۹،۳۰،۳۱،۳۲ ۱۸۵

تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر ۱۸۵

آیات ۳۳،۳۴ ۱۹۰

مصلحین کے راستے میں ہمیشہ مشکلات رہی ہیں ۱۹۰

آیات ۳۵،۳۶ ۱۹۵

زندہ نما مردے ۱۹۵

آیت ۳۷ ۱۹۹

بہانہ جوئی ۱۹۹

ایک اشکال اور اس کا جواب ۲۰۰

آیت ۳۸ ۲۰۲

کیوں کہ یہ آیت وسیع مباحث اپنے پیچھے رکھتی ہے ۲۰۲

چند قابل غور باتیں ۲۰۵

آیت ۳۹ ۲۰۹

بہرے اور گونگے ۲۰۹

آیات ۴۰،۴۱ ۲۱۱

فطری توحید ۲۱۱

چند اہم نکات ۲۱۲

آیات ۴۲،۴۳،۴۴،۴۵ ۲۱۴

نصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجام ۲۱۴

چند اہم نکات ۲۱۷

آیات ۴۶،۴۷،۴۸،۴۹ ۲۲۰

روئے سخن بدستور مشرکین ہی کی طرف ہے ۲۲۰

آیت ۵۰ ۲۲۴

غیب سے آگاہی ۲۲۴

آیت ۵۱ ۲۲۷

قرآن کے ذریعہ ایسے لوگوں کو ڈراؤ ۲۲۷

آیات ۵۲،۵۳ ۲۲۹

شان نزول ۲۲۹

طبقاتی تقسیم کے خلاف جنگ ۲۳۱

اور وہ اسے ان کی رسالت کے باطل ہونے کی دلیل سمجھتے تھے ۔ ۲۳۲

اسلام کا ایک عظیم امتیاز ۲۳۴

آیات ۵۴،۵۵ ۲۳۶

سلام بر مؤمنان! ۲۳۶

آیات ۵۶،۵۷،۵۸، ۲۳۹

چند اہم نکات ۲۴۲

آیات ۵۹،۶۰،۶۱،۶۲ ۲۴۴

اسرار غیب ۲۴۴

آیات ۶۳،۶۴، ۲۵۳

تفسیر وہ نور جو تاریکی میں چمکتا ہے ۲۵۳

چند اہم نکات ۲۵۴

آیت ۶۵ ۲۵۷

رنگ رنگ کے عذاب ۲۵۷

چند اہم نکات ۲۵۸

آیات ۶۶،۶۷ ۲۶۱

جس وقت تم ان لوگوں کو دیکھو کہ ۲۶۱

آیات ۶۸،۶۹ ۲۶۳

شان نزول ۲۶۳

اہل باطل کی مجالس سے دوری ۲۶۴

دوسوال اور ان کا جواب ۲۶۵

آیت ۷۰ ۲۶۷

دین حق کو کھیل بنانے والے ۲۶۷

آیات ۷۱،۷۲ ۲۷۰

کیا ہم سابقہ حالت کی طرف پلٹ جائیں ۔ ۲۷۰

ایک سوال اور اس کا جواب ۲۷۱

آیت ۷۳ ۲۷۳

آیت ۷۴ ۲۷۶

یہ سورہ شرک وبت پرستی سے مقابلے کا پہلو رکھتی ہے ۲۷۶

کیا آزر حضرت ابرہیم (علیه السلام) کا باپ تھا ۲۷۶

آیات ۷۵،۷۶،۷۷،۷۸،۷۹ ۲۸۱

آسمانوں میں توحید کی دلیلیں ۲۸۱

یہ گفتگو تحقیق کے طور پر کی تھی ۲۸۴

حضرت ابراہیم - کا توحید پر استدلال ۲۸۶

”کذالک“سے کیامراد ہے۔ ؟ ۲۸۶

”جن“ “سے مراد ۲۸۶

”کوکباً“کونسا ستارہ مراد ہے؟ ۲۸۷

” بازغ“ سے مراد ۲۸۸

”فطر“۔سے مراد ۲۸۸

۶ ۔ ”حنیف“ کا معنی ۲۸۸

آیات ۸۰،۸۱،۸۲،۸۳ ۲۸۹

حضرت ابراہیم - کی بت پرست قوم و جمعیت سےبحث و گفتگو ۲۸۹

یہاں ظلم سے کیا مراد ہے؟ ۲۹۳

آیات ۸۴،۸۵،۸۶،۸۷ ۲۹۶

نعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل ۲۹۶