تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31239
ڈاؤنلوڈ: 2814


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31239 / ڈاؤنلوڈ: 2814
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۷۸،۷۹،۸۰

۷۸( لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ ) .

۷۹( کَانُوا لاَیَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنکَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ ) ۔

۸۰( تَرَی کَثِیرًا مِنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اٴَنفُسُهُمْ اٴَنْ سَخِطَ اللهُ عَلَیْهِمْ وَفِی الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ) ۔

ترجمہ:

۷۸ ۔ جو لوگ بنی اسرائیل میں سے کافر ہوگئے ہیں انھیں حضرت داؤد و عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ۔ یہ اس بناپر ہوا کہ وہ گناہ اور تجاوز کرتے تھے ۔

۷۹ ۔ وہ ان برے اعمال سے جنہیں وہ خود انجام دیتے تھے ایک دوسرے کو منع نہیں کیا کرتے تھے ۔

۸۰ ۔ تم اُن میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں (اور بت پرستوں ) کو دوست رکھتے ہیں (اور اُن سے راہ ورسم بڑھاتے ہیں ) انھوں نے کتنے بُرے اعمال اپنے (انجام اور آخرت) کے لئے آگے بھیجے ہیں کہ جن کا نتیجہ خدا کی ناراضگی تھی اور وہ ہمیشہ عذاب (الٰہی) میں رہیں گے ۔

( لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داود و عیسی ابن مریم ) ۔

ان آیات میں اس بناپر کہ اہلِ کتاب کو اُن سے پہلے لوگوں کی اندھی تقلید سے روکا جائے اُن کی بدبختی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے؟ بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ہے اور ان دو بزرگ انبیاء نے خدا سے درخواست کی ہے کہ وہ انھیں اپنی رحمت سے دور رکھے (لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داود و عیسی ابن مریم)۔

اس سلسلے میں کہ صرف ان دو ہی پیغمبروں کا نام کیوں لیا گیا کئی احتمال پیش کیے گئے ہیں ۔ کبھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد زیادہ معروف نبی یہی دونوں تھے ۔ کبھی یہ کہا جات ہے اہلِ کتاب اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ داؤد کی اولاد ہیں ۔ لہٰذا قرآن اس جملے کے ذریعہ اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ حضرت داؤد ان لوگوں سے کہ جنہوں نے کفر و طغیان اختیار کیا تھا متنفر تھے ۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ اس آیت میں دو تاریخی واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ جس پر یہ دونوں عظیم پیغمبر غضب ناک ہوئے اور انھوں نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر لعنت کی ۔ حضرت داؤد نے ساحلی شہر ایلہ کے ساکنین پر کہ جو اصحاب سبت کے نام سے مشہور تھے ۔ ان کا قصہ سورہ اعراف میں آئے گا اور حضرت عیسیٰ نے اپنے پیروکاروں میں سے اس گروہ پر لعنت ونفرین کی کہ جنھوں نے آسمائی مائدہ کے نازل ہونے کے بعد بھی انکار ومخالفت کی راہ کئے رکھے تھی ۔

بہرحال اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نسل بنی اسرائیل سے ہونا یا حضرت عیسی کے ماننے والوں میں سے ہونا کسی کی نجات کا باعث نہیں ہوگا، جب تک اُن کے اعمال کے ساتھ ہم آہنگی نہ پیدا کی جائے ۔ بلکہ خود ان انبیاء نے ایسے افراد سے نفرت کی ہے ۔

آیت کا آخری جملہ بھی اس مطلب کی تائید کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ نفرت وبیزاری کا یہ اعلان اس بناپر تھا کہ وہ گنہگار اور تجاوز کرنے والے تھے( ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدون ) ۔

اس کے علاوہ وہ لوگ کسی طرح بھی اپنے لئے کسی اجتماعی ذمہ داری کے قائل نہ تھے اور ایک دوسرے کو غلط کاری سے منع نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ اُن میں سے نیک لوگوں کا ایک گروہ خاموشی سے اور سازشی انداز میں گنہگار لوگوں میں عملی طور پر شوق پیدا کرتا تھا( کانوا لایتناهون عن منکر فعلوه ) ۔

اس طرح ان کی زندگی کا لائحہ عمل بہت ہی پست اور ناپسندیدہ تھا( لبئس ماکانوا یفعلون ) ۔

اس آیت کی تفسیر میں پیغمبر اکرم اور ائمہ اہلبیت سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جو بہت ہی سبق آموز ہیں ۔

ایک حدیث میں جو پیغمبر سے روایت ہوئی ہے منقول ہے:

لتاٴمرن بالمعروف ولتنهون عن المنکر ولتاٴخذن علی ید السفیه ولتاطرنه علی الحق اطرا، اٴو لیضربن اللّٰه قلوب بعضکم علیٰ بعض ویلعنکم کما لعنهم

”تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، نادان اور جاہل لوگوں کا ہاتھ پکڑو اور حق کی طرف دعوت دو ورنہ خدا تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کی مانند کردے گا اور تمھیں اپنی وصیت سے اسی طرح دور کرے گا جس طرح سے اس نے انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا تھا ۔(۱)

ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے (کانوا لایتناھون عن منکر فعلوہ) کی تفسیر میں منقول ہے:

اما انّهم لم یکونوا یدخلون مداخلهم ولایجلسون مجالسهم ولکن کانوا اذا لقوهم ضحکوا فی وجوههم وانسو بهم(۲)

”یہ گروہ جن کی خدا مدمت کررہا ہے ہرگز گنہگاروں کے کاموں اور ان کی محفلوں میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ فقط اُس وقت جبکہ اُن سے ملاقات کرتے تھے تو اپن کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور ان سے مانوس تھے“

بعد والی آیت میں ان کے ایک اور غلط عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اُن میں سے بہت سوں کو دیکھوگے کہ وہ کافروں کے ساتھ محبت اور دوستی کی بنایادیں استوار کرتے ہیں (تریٰ کثیراً منھم یتولون الذین کفروا)۔

یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان کی دوستی ایک عام دوستی کی طرح نہ تھی بلکہ وہ طرح طرح کے گناہوں سے مخلوط اور غلط اعمال وافکار کا شوق پیدا کرنے والی دوستی تھی لہٰذا آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: اُنھوں نے کیسے بُرے ااعمال اپنی آخرت کے لئے آگے بھیجے ہیں کہ جن کا نتیجہ خدا خشم وغضب تھا اور وہ ہمیشہ کے لئے غذابِ الٰہی میں مبتلا رہیں گے ۔( لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اٴَنفُسُهُمْ اٴَنْ سَخِطَ اللهُ عَلَیْهِمْ وَفِی الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُون )

اس بارے میں کہ ”الذین کفروا“ سے اس آیت میں کون سے افراد مراد ہیں بعض نے تو یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ اس سے منظور مشرکین مکّہ ہیں کہ جن کے ساتھ یہودیوں نے دوستی کی پینگیں بڑھا رکھی تھیں اور بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس سے منظور وہ ظالم وستمگر ہیں جن کے ساتھ یہودیوں نے گذشتہ زمانے میں دوستی کررکھی تھی ۔

وہ حدیث جو امام باقر علیہ السلام سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی وہ بھی اس معنی کی تاکید کرتی ہے، آپ فرماتے ہیں :

یتولون الملوک الجبارین ویزینون هوائهم لیصیبوا من دنیاهم(۳)

”یہ گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جو جابر بادشاہوں کو دوست رکھتے تھے اور ان کے ہوس آلود گناہوں کو ان کی نظر میں اچھا کرکے پیش کرتے تھے تاکہ انھیں اُن کا تقرب حاصل ہو اور ان کی دنیا سے بہرہ ور ہوں “

اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ آیت دونوں ہی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہو بلکہ ان معنی سے بھی بڑھ کر عام ہو۔

____________________

۱۔تفسیر مجمع البیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں اور تفسیر قطبی جلد چہارم صفحہ ۲۲۵۰ میں اسی مضمون کی ایک حدیث ترمذی سے نقل کی گئی ہے

۲۔تفسیر برہان، ج۱، ص ۴۹۲؛ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۶۶۱.

۳۔مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں

آیت ۸۱

۸۱( وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالنَّبِیِّ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ اٴَوْلِیَاءَ وَلَکِنَّ کَثِیرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ )

ترجمہ:

”اگر وہ خدا پر اور پیغمبر پر اور جو کچھ اس کے اوپر نازل ہوا ہے اُس پر ایمان لے آتے تو (ہرگز) انھیں اپنا دوست نہ بناتے لیکن ان میں بہت سے فاسق ہیں “

خدا نے انھیں ان ہی باتوں کی وجہ سے

اس آیت میں الله تعالیٰ انھیں اس غلط اور نادرست طریقہ عمل سے راہ نجات کی طرف رہنمائی کررہا ہے کہ اگر واقعاً وہ خدا اور پیغمبر اور کچھ اس پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے تھے تو کبھی بیگانوں اور خدا کے دشمنوں سے دوستی نہ کرتے اور نہ ہی انھیں اپنے لئے سہارے کے طور پر منتخب کرتے

( ولو کانوا یومنون باللّٰه والنبی ومااٴنزل الیه وماتخذهوهم اولیاء ) لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُن میں اطاعت خدا کرنے والے لوگبہت ہی کم ہیں اور اُن میں سے زیادہ تر فرمان خدا کے دائرہ سے خارج ہوچکے ہیں اور فسق کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں( ولٰکن کثیراً منهم فاسقون )

یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ”النبی“ سے مراد پیغمبر اسلام (ص) ہیں کیونکہ قرآن مجید کی مختلف آیات میں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے اور یہ امر قرآن کی دسیوں آیات میں دکھائی دیتا ہے ۔

آیت کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ہے کہ ”کانوا“ کی ضمیر مشرکین اور بت پرستوں کی طرف لوٹتی ہو کہ اگر یہ مشرک جو یہودیوں کے دوست اور ان کے لئے قابل اعتماد ہیں پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن پر ایمان لاتے تو یہودی کبھی انھیں اپنا دوست نہ بناتے اور یہ اُن کی گمراہی اور فسق وفجور کی واضح نشانی ہے کیونکہ وہ کتب آسمانی کی پیروی کے دعوے کے ساتھ بت پرستوں سے اس وقت تک دوستی نہ کرتے جب تک وہ مشرک ہیں جبکہ ہوتا یہ ہے کہ جب وہ خدا اور آسمانی کتابوں کی طرف آجاتے ہیں تویہ اُن سے دوری اختیار کرلیتے ہیں ۔ لیکن پہلی تفسیر آیات کے ظاہری مفہوم سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے اور اس کے مطابق تمام ضمیریں ایک ہی مرجع (یعنی یہودیوں ) کی طرف لوٹتی ہیں ۔

آیات ۸۲،۸۳،۸۴،،۸۵،۸۶

۸۲( لَتَجِدَنَّ اٴَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ اٴَشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ اٴَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَی ذَلِکَ بِاٴَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَرُهْبَانًا وَاٴَنَّهُمْ لاَیَسْتَکْبِرُونَ )

۸۳( وَإِذَا سَمِعُوا مَا اٴُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی اٴَعْیُنَهُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنْ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِینَ )

۸۴( وَمَا لَنَا لاَنُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا جَائَنَا مِنْ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ اٴَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ )

۸۵( فَاٴَثَابَهُمْ اللهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَذَلِکَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِینَ )

۸۶( وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَحِیمِ )

ترجمہ:

۸۲ ۔ یقینی طور پر تم یہود اور مشرکین کو مومنین کی دشمنی میں سب لوگوں سے بڑھا ہوا پاؤگے لیکن وہ لوگ کہ جو خود کو مسیحی کہتے ہیں انھیں تم مومنین کے ساتھ دوستی میں قریب تر پاؤ گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں کچھ دانشمند اور دنیا سے دور افراد موجود ہیں اور وہ حق کے مقابلے میں تکبّر نہیں کرتے ۔(۱)

۸۳ ۔ اور وہ جس وقت پیغمبر پر نازل ہونے والی آیات سنتے ہیں توتم دیکھوگے کہ ان کی آنکھوں سے (فرط شوق میں ) آنسو جاری ہوجاتے ہیں کیونکہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں اے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں پس تو ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ دے ۔

۸۴ ۔ ہم خدا پر اور اُس حق پر جو ہم تک پہنچا ہے کیوں ایمان نہ لے آئیں جبکہ ہماری آرزو ہے کہ وہ ہمیں صالحین کے گروہ میں سے قرار دے ۔

۸۵ ۔ خدا نے انھیں ان ہی باتوں کی وجہ سے جنت کے ایسے باغات ثواب وجزا کے طور پر دیئے کہ جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور یہ نیکوکار لوگوں کی جزا ہے ۔

۸۶ ۔ اور وہ لوگ جو کافر ہوگئے ہیں اور انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ اہلِ دوزخ ہیں ۔

اسلام کے پہلے مہاجرین

بہت سے مفسرین نے منجملہ طبرسی نے ”مجمع البیان“ میں اور فخر الدین رازی اور ”المنار“ کے مولف نے اپنی اپنی تفسیروں میں اپنے سے پہلے مفسرین کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیات پیغمبر اکرم کے زمانے کے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نال ہوئی ہیں ، نیز جو حدیث تفسیر ”برہان“ میں نقل ہوئی ہے اس میں بھی یہی بات شرح وبسط سے بیان کی گئی ہے ۔

اس سلسلے میں اسلامی روایات وتواریخ اور مفسرین کے اقوال سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ اس طرح ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعثت اور عمومی دعوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت ہی کم تعداد میں تھے ۔ قریش نے قبائل عرب کو یہ نصیحت کر رکھی تھی کہ ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کے ان لوگوں پر کہ جو پیغمبر اکرم پر ایمان لاچکے ہیں انتہائی سخت دباؤ ڈالیں اور اس طرح مسلمانوں میں سے ہر کوئی اپنی قوم وقبیلہ کی طرف سے انتہائی سختی اور دباؤ میں مبتلا تھا، اس وقت مسلمانوں کی تعداد جہادِ آزادی شروع شروع کرنے کے لئے کافی نہیں تھی، پیغمبر اکرم نے اس چھوٹے سے گروہ کی حفاظت اور مسلمانوں کے لئے حجاز سے باہر قیام گاہ مہیّا کرنے کے لئے انھیں ہجرت کا کا حکم دے دیا اور اس مقصد کے لئے حبشہ کو منتخب فرمایا اور کہا کہ وہاں ایک نیک دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرتا ہے ۔ تم وہاں چلے جاؤ۔ یہاں تک کہ خداوندتعالیٰ کوئی مناسب موقع ہمیں عطا فرمائے ۔

پیغمبر اکرم کی مراد نجاشی سے تھی (نجاشی ایک عام نام تھا جسے ”کسریٰ“ جو حبشہ کے تمام بادشاہوں کا خاص لقب تھا لیکن اس نجاشی کا اصل نام جو پیغمبر کا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو کہ حبشہ کی زبان میں عطیہ وبخشش کے معنی میں ہے)مسلمانوں میں سے گیارہ مرد اور چار عورتیں حبشہ جانے کے لئے تیار ہوئے اور ایک چھوٹی سی کشتی کرایہ پر لے کر بحری راستے سے حبشہ جانے کے لئے روانہ ہوگئے، یہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب کا واقعہ ہے ۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ جناب جعفر بن ابوطالب بھس مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے ۔ اب اس اسلامی جمعیت میں ۸۲ مردوں کے علاوہ کافی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی تھے ۔

اس ہجرت کی بنیاد بت پرستوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھی کیونکہ وہ اچھی طرح سے دیکھ رہے تھے کہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ لوگ جو تدریجاً اسلام قبول کرچکے ہیں اور حبشہ کی سرزمین امن وامان کی طرف چلے گئے ہیں ، مسلمانوں کی طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے ۔ یہ حیثیت ختم کرنے کے لئے انھوں نے کام کرنا شروع کردیا ، اس مقصد کے لئے انھوں نے جوانوں میں سے دو ہوشیار، فعّال، حیلہ ساز اور عیّار جوانوں یعنی عمروبن عاص اور عمارہ بن ولید کا انتخاب کیا، بہت سے ہدیے دے کر اُن کو حبشہ کی طرف روانہ کیا گیا ۔ ان دونوں نے کشتی میں بیٹھ کر شراب پی اور ایک دوسرے سے لڑپڑے، لیکن آخر کار وہ اپنی سازش کو روبہ عمل لانے کے لئے سرزمین حبشہ میں داخل ہوگئے، ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد وہ نجاشی کے دربار میں پہنچ گئے، دربار میں باریاب ہونے سے پہلے انھوں نے نجاشی کے درباریوں کو بہت قیمتی ہدیے دے کر اُن کو اپنا موافق بنالیا تھا اور اُن سے اپنی طرفداری اور تائید کرنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔

عمروعاص نے اپنی گفتگو شروع کی اور نجاشی سے اس طرح ہمکلام ہوا:

”ہم سرداران مکہ کے بھیجے ہوئے ہیں ، ہمارے درمیان کچھ کم عقل جوانوں نے مخالفت کا علم بلند کیا اور وہ اپنے بزرگوں کے دین سے پھر گئے ہیں اور ہمارے خداؤں کو بُرا بھلا کہتے ہیں ، انھوں نے فتنہ وفساد برپا کردیا ہے، لوگوں میں نفاق کا بیج بودیا ہے؛ آپ کی سرزمین کی آزادی سے انھوں نے غلط اُٹھایا ہے اور انھوں نے یہاں آکر پناہ لی ہے، ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ یہاں بھی خلل اندازی نہ کریں ، بہتر یہ ہے کہ آپ انھیں ہمارے سُپرد کردیں تاکہ ہم انھیں اپنی جگہ واپس لے جائیں ۔

یہ کہہ کر ان لوگوں نے وہ ہدیے جو اپنے ساتھ لائے تھے پیش کئے ۔

نجاشی نے کہا: جب تک میں اپنی حکومت میں پناہ لینے والوں کے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرسکتا اور چونکہ یہ ایک مذہبی بحث ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مذہبی نمائندوں ہی کو ایک جلسہ میں تمھاری موجودگی میں دعوت دی جائے ۔

دوسرے دن ایک اہم جلسہ منعقد ہوا، اس میں نجاشی کے مصاحبین اور عیسائی علماء کی ایک جماعت شریک تھی، جعفر بن ابی طالب مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے موجود تھے اور قریش کے نمائندے بھی حاضر تھے، نجاشی نے قریش کے نمائندوں کی باتیں سننے کے بعد جناب جعفر کی طرف رخ کیا اور اُن سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظر بیان کریں ۔

جناب جعفر ادائے احترام کے بعد اس طرح گویا ہوئے: پہلے ان سے پوچھئے کہ کیا ہم ان کے بھاگے ہوئے غلاموں میں سے ہیں ؟

عمرو نے کہا: نہیں بلکہ آپ آزاد ہیں ۔

جعفر: ان سے یہ بھی پوچھئے کہ کیا ان کا کوئی قرض ہمارے ذمّے ہے کہ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ؟

عمرو: نہیں ہمارا آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔

جعفر: کیا ہم نے تمھارا کوئی خون بہایا ہے کہ جس کا ہم سے بدلہ لینا چاہتے ہو؟

عمرو: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔

جعفر: تو پھر تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟ تم نے ہم پر اتنی سختیاں کیں اور اتنی تکلیفیں پہنچائیں اور ہم تمھاری سرزمین سے جو سراسر مرکز ظلم وجور تھی باہر نکل آئے ہیں ۔

اس کے بعد جناب جعفر نے نجاشی کی طرف رخ کیا اور کہا :ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستی کرتے تھے، مردار کا گوشت کھاتے تھے، طرح طرح کے برے اور شرمناک کام انجام دیتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، اپنے ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے اور ہمارے طاقتور کمزوروں کے حقوق ہڑپ کرجاتے تھے ۔

لیکن خداوند تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک پیغمبر کو مبعوث فرمایا، جس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم خدا کا کوئی مثل اور شریک زبنائیں اور فحشاء و منکر، ظلم و ستم اور قمار بازی ترک کردیں ۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم نماز پرھیں ، زکوٰة ادا کریں ، عدل و احسان سے کام لیں اور اپنے وابستگان کی مدد کریں ۔

نجاشی نے کہا: عیسیٰ مسیح بھی انہی چیزوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے ۔ اس کے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آیات میں سے جو تمہارے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں کچھ تمھیں یاد ہیں ۔

جعفر نے کہا: جی ہاں :

اور پھر انھوں نے سورئہ مریم کی تلاوت شروع کردی ۔ اس سورہ کی ایسی ہلا دینے والی آیات کے ذریعہ جو مسیح اور اُن کی ماں کو ہر قسم کی ناروا تہمتوں سے پاک قرار دیتی ہیں ، جناب جعفر کے حسن انتخاب نے عجیب و غریب اثر کیا یہاں تک کہ مسیحی علماء کی آنکھوں سے فرط شوق میں آنسو بہنے لگے اور نجاسی نے پکار کر کہا: خدا کی قسم! ان آیات میں حقیقت کی نشانیان نمایاں ہیں ۔

جب عمرونے چاہا کہ اب یہاں کوئی بات کرے اور مسلمانوں کو اس کے سُپرد کرنے کی در خواست کرے، نجاشی نے ہاتھ بلند کیا اور زور سے عمرو کے منہ پر مارا اور کہا: خاموش رہو، خدا کی قسم! اگر ان لوگوں کی مذمت میں اس سے زیادہ کوئی بات کی تو میں تجھے سزادوں گا ۔ یہ کہہ کر مامورینِ حکومت کی طرف رُخ کیا اور پکار کر کہا: ان کے ہدیے ان کو واپس کردو اور انھیں حبشہ کی سرزمین سے باہر نکال دو۔ جناب جعفر اور اُن کے ساتھیوں سے کہا: تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسر کرو۔

اِس واقعہ نے جہاں حبشہ کے کچھ لوگوں پر اسلام شناسی کے سلسلے میں گہرا تبلیغی اثر کیا وہاں یہ واقعہ اس بات کا بھی سبب بنا کہ مکے کے مسلمان اس کو ایک اطمینان بخش جائے پناہ شمار کریں اور نئے مسلمان ہونے والوں کو اُس دن کے انتظار میں کہ جب وہ کافی قدرت و طاقت حاصل کریں وہاں پر بھیجتے رہیں ۔

کئی سال گزرگئے ۔ پیغمبر بھی ہجرت فرماگئے اور اسلام روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا، عہد نامہ حدیبیہ لکھا گیا اور پیغمبر اکرم فتح خیبر کی طرف متوجہ ہوئے ۔

اس وقت جبکہ مسلمان یہودیوں کے سب سے بڑے اور خطرناک مرکز کے ٹوٹنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ پھولے نہیں سماتے تھے، دور سے انھوں نے ایک مجمع کو لشکر اسلام کی طرف آتے ہوئے دیکھا ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ معلوم ہوا کہ یہ وہی مہاجرین حبشہ ہیں ، جو آخوش وطن میں پلٹ کر آرہے ہیں ، جب کہ دشمنوں کی بڑی بڑی طاقتین دم توڑچکی ہیں اور اسلام کا پودا اپنی جڑیں کافی پھیلا چکا ہے ۔

پیغمبر اکرم نے جناب جعفر اور مہاجرین حبشہ کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:

لا ادری انا بفتح خبیر اسرام بقدوم جعفر ؟“

”میں نہیں جانتا کہ مجھے خیبر کے فتح ہونے کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے پلٹ آنے کی“

کہتے ہیں کہمسلمانوں کے علاوہ شامیوں میں سے آٹھ افراد کہ جن میں ایک مسیحی راہب بھی تھا اور ان کا اسلام کی طرف شدید میلان پیدا ہوگیا تھا، پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھو ں نے سورہ یٰسین کی کچھ آیات سننے کے بعد رونا شروع کردیا اور مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ آیات مسیح کی سچّی تعلیمات سے کس قدر مشابہت رکھتی ہیں ۔

اُ س روایت کے مطابق جو تفسیر ”المنار“ میں سعید ابن جبیر سے منقول ہے نجاشی نے اپنے یاور وانصار میں سے تیس بہترین افراد کو پیغمبر اکرم اور دین اسلام کے ساتھ اظہارِ عقیدت کے لئے مدینہ بھیجا اور یہ وہی تھے جو سورہ یٰسین کی آیات سُن کر رو پڑے تھے اور اسلام قبول کرلیا تھا ۔ اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں اور ان مومنین کی عزت افزائی کی گئی ۔ (یہ شان نزول اس بات کے خلاف نہیں کہ سورئہ مائدہ پیغمبر اکرم کی عمر کے اواخر میں نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ یہ بات اس سورہ کی اکثر آیات کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اُن میں سے کچھ آیات قبل کے واقعات کے شلشلے میں نازل ہوئی ہوں اور پیغمبر کی ہدایت کے مطابق اس سورہ میں بہت سی مناسبات کی وجہ سے شامل کردی گئی ہوں )۔

یہودیوں کی کینہ پروری اور عیسائیوں کی نرم دلی

ان آیت میں اُن یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے پیغمبر کے ہم عصر تھے ۔ پہلی آیت میں یہودیوں اور مشرکین کی ایک ہی صف میں قرار دیاگیا ہے اور عیسائیوں کو دوسری صف میں ، ابتدا میں فرمایا گیا ہے: مومنین کے سخت ترین دشمن یہودی اور مشرکین ہیں لیکن عیسائی مومنین سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں (لتجدن اشد الناس عداوة للذین اٰمنوا الیهود و الذین اشرکوا ولتجدن اقربهم مودة للذین اٰمنو الذین قالوا انا نصری

تاریخ اسلام اس حقیقت کی اچھی طرح گواہ ہے کیونکہ اسلام کے خلاف لڑی جانے والی بہت سی جنگوں کے میدان میں یہودی بلا واسطہ یا بالواسطہ طریقہ سے دخیل رہے ہیں اور کسی عہد شکنی اور دشمنی سے باز نہیں آتے تھے ۔ اُن میں سے بہت ہی کم افراد ایسے ہیں جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے جبکہ ہم اسلام ہوئے جبکہ ہم اسلامی جنگوں میں بہت کم مسلمانوں کو عیسائیوں سے آمنا سامنا کرتے دیکھتے ہیں اور ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اُن میں سے بہت سے افراد مسلمانوں کی صفوں میں آملے ۔

اس کے بعد قرآن اس روحانی فرق کی دلیل اور رہن سہن کے اجتماعی طریقوں کو چند جملوں میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پیغمبر کے ہم عصر عیسائی کچھ ایسے امتیازات رکھتے تھے کہ جو یہودیوں میں نہیں تھے ۔

پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ ان میں علماء اور دانشمندوں کی ایک ایسی جماعت موجود تھی جو دنیا پرست یہودی علماء کی طرح حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے تھے( ذلک بان منهم قسیسین ) ۔(۲)

نیز اُن کے درمیان کچھ لوگ تارک دنیا بھی تھے کہ جواز روئے عمل لالچی یہودوں کے بالکل بر خلاف تھے اگر چہ وہ بھی کئی طرح کے انحرافات کے مرتکب تھے لیکن پھر بھی وہ ایک ایسی سطح پر تھے جو یہودیوں سے بالاتر تھی( ورهباناً ) ۔

اُن میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو حق کے قبول کرنے میں خاضع تھے اور اپنی طرف سے تکبر کا اظہار نہیں کرتے تھے جبکہ یہودیوں کی اکثریت دین اسلام کو قبول کرنے سے اس وجہ سے سرتابی کرتی تھی کیونکہ وہ خود کو ایک برتر نسل سمجھتے تھے اور دین اسلام یہودیوں کی نسل میں قائم نہیں ہوا تھا( وانهم لا یستکبرون ) ۔

علاوہ ازین ان میں سے ایک جماعت (جیسے جناب جعفر کے ساتھی اور حبشہ کے عیسائیوں میں سے کچھ لوگ) ایسے تھے کہ وہ جس وقت قرآن کی آیات کو سنتے تھے تو حق کے حاصل ہوجانے کی خوشی میں ان کی آنکھوں سے شوق کے آنسو جاری ہو جاتے تھے( واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینهم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق ) ۔

اور وہ صراحت کے ساتھ علی الاعلان بغیر کسی لاگ لپیٹ کے پکار اُٹھتے تھے پروردگارا ! ہم ایمان لے آئے ہیں ہمیں حق کے گواہوں اور محمد کے ساتھیوں اور یا و انصار میں سے قرار دے( یقولون ربنا اٰمنا فاکتبنا مع الشَّاهدین ) ۔

وہ اس آسمانی کتاب کی ہلادینے والی آیات سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ پکار اُٹھتے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم خدائے یکتا پر اور ان حقائق پر جو اُس کی طرف سے آئے ہیں ایمان نہ لائیں جبکہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں صالحین کے زمرے میں قرار دے( و مالنا لا نومن باللّٰه و ماجاء نا من الحق و نطمع ان ید خلنا ربنا مع القوم الصَّالحین ) ۔

البتہ جیسا ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں یہ موازنہ زیادہ تر پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہود و نصاریٰ کے بارے میں ہے کیونکہ یہودی آسمانی کتاب کے حامل ہونے کے باوجود مادیت سے بے اندازہ لگاو کی وجہ سے مشرکین کی صف میں جاکھڑے ہوتے تھے ۔ جب کہ مذہبی نقطہ نظر سے اُن دونوں میں کوئی وجہ مشترک نہیں تھی ۔ حالانکہ ابتدا میں یہودی اسلام کی بشارت دینے والوں میں شمار ہوتے تھے اور اُن میں عیسائیوں کی طرح تثلیث اور غلو جیسے انحرافات موجود نہیں تھے ۔

لیکن ان کی شدید دنیا پرستی نے انہیں حق سے بالکل بیگانہ کردیا جبکہ اُس زمانے کے عیسائی ایسے نہیں تھے ۔

لیکن گذشتہ اور موجودہ زمانے کی تاریخ ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ بعد کے زمانوں کے عیسائی، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے جو یہودیوں کے جرائم سے کسی طرح کم تھے ۔ گذشتہ زمانے میں طویل اور خونین صلیبی جنگیں اور اِس زمانے کی ایسی بے شمار تحریکیں جو مسیحی سامراجی ممالک کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہیں ہیں کسی پرڈھکی چھُپی نہیں ۔ لہٰذا اُوپر والی آیات کو تمام عیسائیوں کے بارے میں ایک قانون کلی کے طور پر نہیں جاننا چاہیے ۔ و اذا سمعوا ما انزل الی الرسول ۔ اور اس کے بعد کے جملے اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ آیات صرف پیغمبر اکرم کے ہم عصر عیسائیوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔

اس کے بعد کی دو آیات میں ان ہی دونوں گرہوں کے انجام اور جزا و سزا کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ پہلے فرمایا گیا ہے: جن لوگوں نے صاحبِ ایمان افراد کے سامنے محبت کا اظہار کیا اور آیات الٰہی کے مقابلہ میں سر تسلیم خم کیا اور صراحت کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا خداوند تعالیٰ اس کے بدلے میں بطورِ جزا و ثواب انہیں جنت کے ایسے باغات عطا فرمائے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور نیکو کار لوگوں کی یہی جزا ہے( فاثا بهم اللّٰه بما قالوا جنات تجری من تحتها الانهار خالدین فیها و ذٰلک جزاء المحسنین ) ۔(۳)

اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے دشمنی کا راستہ اختیار کیا اور کافر ہوگئے( والّذین کفروا و کذّبوا بِاٰیٰاتنا اولٰئک اصحاب الجحیم ) ۔

____________________

۱۔ساتواں پارہ، آیت۸۳ سے شروع ہوتا ہے لیکن ۸۳ آیت کو مضمون کی مناسبت سے یہاں درج کیا گیا ہے (مترجم)

۲۔ کشیش اصل میں سریانی زبان کا لفظ کہ جس کا معنی عیسائیوں کا مذہبی پیشوا اور رہنما ہے جس کو عربی میں قسیس کہا جاتا ہے اس کی جمع قسیسین ہے ۔

۲۔ ”ثابھم“ ثواب کے مادے سے لیا گیا ہے کہ جو اصل میں ”لوٹ آنے “ ”نیکی کرنے“ اور کسی کو نفع پہنچانے کے معنی میں ہے ۔