تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 31250
ڈاؤنلوڈ: 2814


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31250 / ڈاؤنلوڈ: 2814
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۹۷،۹۸،۹۹

۹۷( جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْیَ وَالْقَلاَئِدَ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ وَاٴَنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) -

۹۸( اعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ وَاٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) -

۹۹( مَا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ ) -

ترجمہ:

۹۷ ۔ خدانے کعبہ، بیت الحرام کو لوگوں کے کام کے لئے سامان مہیا کرنے کا ایک وسیلہ قرار دیا ہے اور اس طرح حرمت والا مہینہ اور بے نشان قربانیان اور نشاندار قربانیاں ، اس قسم کے (حساب شدہ اور دقیق) احکام اس لئے ہیں کہ تمھیں معلوم ہوکہ خدا جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، جانتا ہے ۔

۹۸ ۔ جان لو کہ خدا شدید سزا دینے والا ہے (اور اس کے باوجود) وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے ۔

۹۹ ۔ پیغمبر کی ذمہ داری ابلاغِ رسالت (اور احکام الٰہی پہنچانے) کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے (اور وہ تمھارے اعمال کا جواب دہ نہیں ہے) اور خدا جانتا ہے کہ تم کن چیزوں کو آشکار اور کن چیزوں کو مخفی رکھتے ہو ۔

خدا نے بیت الحرام کو لوگوں کے امر کے قیام کا ذریعہ قرار دیا

گذشتہ آیات میں حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کے بارے میں بحث تھی ۔ اس آیت میں ”مکہ“ کی اہمیت اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی اصلاح و ترتیب میں اس کے اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلے فرماتا ہے: خدا نے بیت الحرام کو لوگوں کے امر کے قیام کا ذریعہ قرار دیا( جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاس ) ۔

یہ مقدس گھر لوگوں کے اتحاد کی علامت، دلوں کے مجتمع ہونے کا ایک وسیلہ اور مختلف رشتوں اور گرہوں کے استحکام کے لئے ایک عظیم مرکز ہے ۔ اس مقدس گھر اور اس کی مرکزیت و معنویت کے سائے میں کہ جو گہری تاریخی بنیادوں پر استوار ہے، وہ اپنی بہت سی بے سامانیوں کا سامان (اور بہت سی خرابیوں اور کمزوریوں کی اصلاح) کرسکتے ہیں اور اپنی سعادت کا محل اس کی بنیادوں پر کھڑا کرسکتے ہیں ۔ اس لئے سورہ آلِ عمران میں خانہ کعبہ کو وہ پہلا گھر بتایا گیا ہے جو لوگوں کے فائدے کے لئے بنایا گیا ہے ۔(۱)

حقیقت یہ ہے کہ ”( قِیَاماً لِلنَّاسِ ) “ کے معنی کی وسعت کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان اس گھر کی پناہ میں اور حج کے اسلامی حکم کے سائے میں اپنے تمام معاملات کی اصلاح کرسکتے ہیں ۔

چونکہ ضروری تھا کہ یہ مراسم جنگ، کشمکش اور نزاع سے ہٹ کر امن و امان کے ماحول میں صورت پذیر ہوں ، حرام مہینوں (وہ مہینے کہ جن میں جنگ مطلقاً حرام ہے) کے اثر کی طرف اس موضوع میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے( وَالشَّهْرُ الْحَرَامَ ) ۔(۲)

علاوہ ازیں اس نظر سے کہ بے نشان قربانیوں (صدی) اور نشاندار قربانیوں (قلائد) کا وجود، کہ جو مراسم حج و عمرہ میں مشغول ہونے کے دونوں میں لوگوں کو غذا مہیا کرتا ہے اور ان کی سوچ کو اس جہت سے آسودہ خاطر کرتا ہے، اس پروگرام کی تکمیل میں مخصوص اثر رکھتا ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے( وَالْهَدْیَ وَ الْقَلَائِدَ ) ۔۔

اور چونکہ یہ تمام پروگرام، قوانین اور مقرر شدہ احکامِ شکار، اور اسی طرح حرم مکہ و ماہ حرام وغیرہ ایک قانون ساز کی وسعتِ علم اور تدبیر کی گہرائی کا پتہ دیتے ہیں لہٰذا آیت کے آخر میں اس طرح کہتا ہے کہ: خدانے یہ منظم پروگرام اس لئے مقرر کیے ہیں تاکہ تمھیں معلوم ہوجائے کہ اس کا علم اس قدر وسیع ہے کہ جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب کو جانتا ہے اور تمام چیزوں سے خصوصاً اپنے بندوں کی روحانی اور جسمانی ضروریات سے باخبر ہے( ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ وَاٴَنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) ۔

ہم جو کچھ سطور بالا میں کہہ آئے ہیں اسے مد نظر رکھتے ہوئے آیت کی ابتدا ور انتہا کا با ہمی تعلق واضع ہو جاتا ہے ۔کیونکہ ان گہرے تشریع احکام کو وہی ذات منظم کرسکتی ہے جو قوامین تکوینی کی گہرائی سے آگاہ اورباخبر ہو ۔ جب تک کوئی زمین اور آسمان کے تمام جزئیات اور روح وجسم کے تخلیقی رموز سے آگاہ نہ ہو، وہ ایسے احکام کی پیش بینی نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ وہی قانون درست اور اصلاح کنندہ ہوسکتا ہے جو قانونِ خلقت و فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو ۔

پھر بعد والی آیت میں گذشتہ احکام کی تاکید، لوگوں کو ان کے انجام دینے کی تشویق اور مخالفین اور نافرمانوں کی تہدید کے طور پر فرماتا ہے: جان لو کہ خدا شدید العقاب (ہونے کے ساتھ) غفور رحیم بھی ہے( اعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ وَاٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

نیز یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا آیت میں ”شدید العقاب“کو ”غفور رحیم“ پر مقدم رکھا گیا ہے، تو شاید یہ امن بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدائی سزاکو اس کی پوری شدت کے باوجود توبہ کہ پانی سے دھویا جاسکتا ہے اور خداکی مغفرت و رحمت شامل حال ہوسکتی ہے ۔

پھر مزید تاکید کے لئے فرماتا ہے: اپنے اعمال کے جواب دہ خود تمہی ہو، اور پیغمبر کی ذمہ داری تبلیغِ رسالت اور احکام خدا تم تک پہنچانے کے سوا کچھ نہیں( مَا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ ) ۔

اس کے باوجود خدا تمھاری نیتوں سے اور تمھارے سب آشکار وپنہاں اعمال سے باخبر آگاہ ہے( وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُون ) ۔

____________________

۱۔سورہ آل عمران، آیت۹۶-

۲۔حرام مہینوں کے بارے میں جلد دوم میں سورہ بقرہ کی آیت۱۹۴ کے ذیل میں بحث ہوچکی ہے-

کعبہ کی اہمیت

کعبہ جس کا ان آیات اور گذشتہ آیات میں دومرتبہ ذکر کیا گیا ہے اصل میں مادہ ”کعب “ سے مشقق ہے، جس کا معنی ہے ”پاوں کے اُوپر کی ابھری ہوئی جگہ“، بعد از اں یہ لفظ ہر قسم کی بلندی اور اُبھری ہوئی چیز کے لئے استعمال ہونے لگا اور ”مکعب“ کو بھی اس لئے مکعب کہتے کہا جاتاہے کہ وہ چاروں اطراف سے ابھرا ہوا ہوتا ہے، اُن عورتوں کو جن کے سینے تازہ تازہ ابھر رہے ہوتے ہیں ”کاعب“ کہا جاتا ہے جس کی جمع ”کواعب“ ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے بہرحال یہ لفظ (کعبہ) خانہ خدا کی ظاہری بلندی کی طرف اشارہ بھی ہے اور اس کے مقام کی عزت وبلندی کی علامت بھی ہے ۔

کعبہ ایک طویل اور پُرحوادث تاریخ کا حامل ہے، یہ تمام حوادث بہرحال اس کی عظمت واہمیت ہی کے باعث ظہور پذیر ہوئے ہیں ۔

کعبہ کی اہمیت اس قدر ہے کہ روایات اسلامی میں اسے خراب ویران کرنے کو پیغمبر اور امام(علیه السلام) کے قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی طرف دیکھنا عبادت او ر اس کے گرد طواف کرنا بہترین اعمال میں سے ہے، یہاں تک کہ ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

”لاینبغی لِاَحدٍ اٴن یرفع بنائه فوق الکعبة “”مناسب نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنا گھر کعبہ سے اونچا بنائے“(۱)

لیکن اس طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ کعبہ کی اہمیت اور احترام قطعاً اس کی عمارت کی وجہ سے نہیں ہے؛ کیونکہ نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں حضرت امیرالمومنین(علیه السلام) کے ارشاد کے مطابق:

”خدا نے اپنے گھر کو ایک خشک جلی ہوئی اور سخت پہاڑوں کے درمیان والی زمین میں قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے بہت ہی سادہ مصالحہ سے بنایا جائے، عام اور معمولی پتھر سے“(۲)

لیکن چونکہ خانہ کعبہ ایک قدیم ترین اور بہت ہی سابق ترین توحید اور خدا پرستی کا مرکز ہے اور مختلف ملل واقوام کی توجہ کی مرکزیت کا نقطہ ہے لہٰذا اسے درگاہ خداوندی سے ایسی اہمیت میسّر آئی ہے ۔ -

____________________

۱۔سفینة البحار، ج۲، ص۴۸۲-

۲۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲، خطبہ قاصعہ

آیت ۱۰۰

۱۰۰( قُلْ لاَیَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اٴَعْجَبَکَ کَثْرَةُ الْخَبِیثِ فَاتَّقُوا اللهَ یَااٴُولِی الْاٴَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ )

ترجمہ:

۱۰۰ ۔ کہہ دو کہ پاک وناپاک (کبھی) برابر نہیں ہوسکتے اگرچہ ناپاکوں کی کثرت تجھے بھلی معلوم ہو، خدا (کی مخالفت) سے پرہیز کرو اے صاحبان عقل وخرد! تاکہ تم فلاح ونجات حاصل کرسکو ۔

اکثریت پاکیزگی کی دلیل نہیں

گذشتہ آیات میں مشروبات الکحل ، قمار بازی، انصاب وازلام اور حالت احرام میں شکار کرنے کی حرمت کے سلسلے میں گفتگو تھی، چونکہ ہوسکتا ہے بعض لوگ ایسے گناہوں کے ارتکاب کے لئے کچھ معاشروں اور علاقوں میں اکثریت کے عمل کو دستاویز قرار دیں اور اس بہانے سے کہ مثلاً شہر کی اکثریت شراب پیتی ہے یا قمار بازی کرتی ہے یا یہ کہ لوگوں کی اکثریت فلاں قسم کے حالات میں حرمتِ شکار وغیرہ کی پرواہ نہیں کرتی لہٰذا وہ ان احکام پر عمل در آمد سے روگردانی کریں اور انھیں طاق نسیاں کردیں تو اس بناپر کہ یہ بہانہ اس مقام پر اور اس قسم کے افراد سے دیگر مواقع میں کلی طور پر چھپن لیا جائے، خدا ایک بنیادی کلیہ قاعدہ مختصر سی عبارت میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے پیغمبر! پاک و ناپاک کبھی برابر نہیں ہوسکتے اگر چہ ناپاک لوگوں کی زیادتی اور آلودہ لوگوں کی کثرت تجھے تعجب میں ڈال دے اور بھلی معلوم ہو( قُلْ لاَیَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اٴَعْجَبَکَ کَثْرَةُ الْخَبِیثِ َ ) ۔

اس بناپر درج بالا آیت میں خبیث و طیب ہر قسم کے پاک و ناپاک وجود کے معنی میں ہے چاہے وہ پاک و ناپاک کھانے کی چیزیں ہوں یا پاک و ناپاک افکار و نظریات ہوں ۔

آیت کے آخر میں صاحبان فکر اور ارباب عقل و ہوش کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کرتا ہے کہ خدا سے ڈرو تاکہ کامران و کامیاب ہوجاؤ( فَاتَّقُوا اللهَ یَااٴُولِی الْاٴَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ )

لیکن یہ جو آیت میں ایک واضح چیز کی توضیح کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی یہ خیال کرے کہ کچھ عوارض مثلاً پلید و ناپاک کے طرفداروں کی زیادتی جسے اصطلاح میں ”اکثریت“ کہتے ہیں اس چیز کی باعث بنے کہ ناپاک کی ہم پلہ قرار پاجائے ۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات کچھ لوگ انبوہ کثیر اور کثریت کے میلانات کے زیر اثر آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اگر اکثریت کسی مطلب کی طرف مائل ہوجائے تو یہ اس مطلب کے بے چون و چرا درست ہونے کی قطعی نشانی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ ایسے مواقع بہت سے ہو گزرے ہیں جن میں معاشروں کی اکثریت واضع اشتباہات اور غلطیوں میں گرفتار ہوئی ہے اور مواقع اور حقیقت میں جو چیز اچھی چیز کی بُری چیز سے (اور خبیث کی طیب سے) پہچان کے لئے لازمی ہے ”وہ اکثریت کیفی“ ہے نہ کہ”اکثریت کمی“ یعنی قوی تر، والاتر اور اعلیٰ ترین افکار اور توانا تر اور پاکترین نظریات کی ضرورت ہے، نہ کہ طرفداروں کی کثرت۔ یہ مسئلہ شاید اس زمانہ کے بعض لوگوں کے ذوق کے مطابق نہ ہو کیونکہ تلقین و تبلیغ کے ذریعے بہت کوشش کی گئی ہے کہ لوگ اکثریت کے رجحانات ومیلانات کو نیک و بد کے پرکھنے کی ترازو کے طور پر قبول کرلیں ۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے باور کرلیا ہے کہ”حق“ وہ چیز ہے جس کو اکثریت پسند کرتی ہو اور اچھی چیز وہ ہے جس کی طرف اکثریت مائل ہو ۔ حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں ہے ۔ دنیا کے بہت سے مصائب و آلام اسی طرز فکر کی وجہ سے ہیں ۔ ہاں اگر اکثریت صحیح رہبری اور درست تعلیمات سے بہرہ مند ہوجائے اور اصطلاحی طور پر عام معنی کے لحاظ سے ایک رشید اکثریت ہو تو پھر ممکن ہے کہ اس کے میلانات نیک و بد کی پہچان کا مقیاس و میزان بن سکیں ، نہ کہ وہ اکثریتیں جن کی رہنمائی نہیں ہوئی اور جو غیر رشید ہیں ۔

بہر حال قرآن محل بحث آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: کبھی تمھیں بُروں اور نا پاک چیزوں کی زیادتی تعجب میں نہ ڈالے ۔ دیکر مقامات پر بھی متعدد مرتبہ فرمایا ہے:”( وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاس لَا یَعْلَمُون )

اکثر لوگوں کے کام علم و دانش کے ماتحت نہیں ہوتے ۔

ضمنی طور پر توجہ کرنا چاہیے کہ اگر آیت میں لفظ ”خبیث“، ”طیب“ پر مقدم رکھا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ محل بحث آیت میں روئے سخن، ان لوگوں کی طرف ہے جو خبیث کی زیادتی کو اس کی اہمیت کی دلیل سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انھیں جواب دیا جائے، اس لئے قرآن اُن کے گوش گزار کرتا ہے کہ نیکی و بدی اور اچھائی و بُرائی کا معیار کسی بھی موقع پر کثرت و قلت اور اکثریت و اقلیت نہیں ہے، بلکہ ہر جگہ اور ہر وقت ”پاکی“ ”ناپاکی“ سے بہتر ہے اور صاحبانِ عقل و فکر کبھی کثرت سے دھوکا نہیں کھاتے ۔ وہ ہمیشہ پلیدی سے دوری اختیار کرتے ہیں اگر چہ اُن کے ماحول کے تمام افراد آلودہ ہوں ۔ وہ پاکیزگیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اگر چہ ان کے معاشرے کے تمام افراد اس کے خلاف ہوں ۔

آیات ۱۰۱،۱۰۲

۱۰۱( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَسْاٴَلُوا عَنْ اٴَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِنْ تَسْاٴَلُوا عَنْهَا حِینَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللهُ عَنْهَا وَاللهُ غَفُورٌ حَلِیمٌ ) -

۱۰۲( قَدْ سَاٴَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اٴَصْبَحُوا بِهَا کَافِرِینَ ) -

ترجمہ:

۱۰۱ ۔ اسے ایمان والوں !تم ایسے مسائل کے متعلق سوال نہ کرو کہ وہ تمھارے سامنے واضح ہوجائیں تو تمھیں بُرے لگیں اور اگر قرآن کے نزول کے وقت ان کے متعلق سوال کرو تو وہ تمھارے لئے آشکار ہوجائیں گے، خدا نے تمھیں معاف کردیا ہے( اور ان سے صرفِ نظر کرلیا ہے ) اور خدا بخشنے والا اور حلیم ہے ۔

۱۰۲ ۔ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں سے ایک گروہ نے ان چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا اور پھر ان کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے تھے (ہو سکتا ہے کہ تم بھی ایسے ہی ہوجاو) ۔

شانِ نزول

اُوپر والی آیت کے شان نزول کے سلسلے میں کتبِ حدیث و تفسیر میں مختلف اقوال نظر آتے ہیں لیکن جو اُوپر والی آیت اور ان کی تعبیرات کے ساتھ زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے وہ، وہ شانِ نزول ہے جو تفسیر مجمع البیان میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے منقول ہے ۔ اور وہ یہ ہے:

ایک دن پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم نے خطبہ دیا اور حج کے بارے میں خدا کا حکم بیان کیا تو ایک شخص جس کا نام ”عکاشہ “تھا (اور ایک روایت کے مطابق ”سراقہ) نے کہا: کیا یہ حکم ہر سال کے لئے ہے اور ہر سال ہمیں حج بجالانا ہوگا؟ پیغمبر نے اس کے سوال کا جواب نہ دیا، لیکن اس نے اصرار کیا اور دو مرتبہ یا تین مرتبہ اپنے سوال کا تکرار کیا، پیغمبر نے فرمایا: وائے ہو تم پر، کیوں اس قدر اصرار کررہے ہو، اگر تمھارے جواب میں میں ہاں کہدوں تو ہر سال تم پر حج واجب ہوجائے گا اور اگر ہر سال واجب ہوگیا تو اس کی انجام دہی کی تم میں طاقت نہیں ہوگی اور اگر اس کی مخالفت کی تو گنہگار ہوگے، لہٰذا جب تک میں تم سے کوئی چیز بیان نہ کروں تم اس پر اصرار نہ کیا کرو کیونکہ (ایک چیز) اُن امور میں سے جو (بعض) گذشتہ اقوام کی ہلاکت کا سبب بنی یہ تھی کہ وہ ہٹ دھرمی کرتے تھے اور بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے تھے اور اپنے پیغمبر سے زیادہ سوال کرتے تھے، اس بناپر جب میں تمھیں کوئی حکم دوں تواپنی توانائی کے مطابق اُسے انجام دو ۔

( اِذَا اَمَرتکُم مِن شَیء فَاٴتُو مِنهُ مَا اسْتَطَعتُم )

اور جب تمھیں کسی چیز سے منع کروں تو اجتناب کرو، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انھیں اس کام سے روکا گیا(۱)

کہیں اس سے اشتباہ نہ ہو کہ اس شان نزول سے مراد۔ جیسا کہ ہم آیت کی تفسیر میں بیان کریں گے ۔ یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے لئے راہ پرسش وسوال اور مطالب علمی سمجھنا بند کردیا جائے، کیونکہ قرآن تو خود اپنی آیات میں صراحت کے ساتھ حکم دیتا ہے کہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے اس کااہلِ علم سے سوال کریں ۔

( فَاسْئَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُم لَا تَعْلَمُونَ )

بلکہ اس سے مراد بے جا سوال،بہانہ سازیاں اور ہٹ دھرمیاں ہیں ، یہ طریقہ کار زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں کی خرابی، گفتگو کرنے کی مزاحمت اور اس کے سلسلہ گفتگو اور پروگرام کی پراکندگی کا سبب بنتا ہے ۔

تفسیر

غیر مناسب سوالات

اس میں شک نہیں کہ سوال کرنا حقائق کو سمجھنے کی کلید ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو کم پوچھتے ہیں کم جانتے ہیں ۔آیات وروایاتِ اسلامی میں بھی مسلمان کو تاکیدی حکم دیاگیا ہے کہ جو کچھ وہ نہیں جانتے پوچھیں ، لیکن چونکہ ہر قانون کا کوئی استثنائی پہلو ہوتا ہے لہٰذاتعلیم وتربیت کی یہ بنیاد بھی استثنا سے خالی نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض اوقات کچھ مسائل کا مخفی رہنا اجتمائی نظام کی حفاظت اور لوگوں کی مصلحتوں کے پیش نظر بہتر ہوتا ہے ۔ ایسے مواقع پر واقعیت اور حقیقت کے چہرے سے پردہ اُٹھانے کے لئے جستجو کرنا اور پے در پے سوال کرنا نہ صرف یہ کہ فضیلت نہیں رکھتا، بلکہ مذموم و ناپسندیدہ بھی ہے ۔ مثلاً زیادہ تر ڈاکٹراسی میں مصلحت جانتے ہیں کہ سخت اور وحشت ناک بیماریوں کو بیمار سے مخفی رکھیں ۔ بعض اوقات صرف ساتھ والے لوگوں کو اصل ماجرا کی خبر دیتے ہیں ، اس شرط کے ساتھ کہ بیمار سے چھپائے رکھیں ۔ کیونکہ تجربہ نشاندہی کرتا ہے کہ بہت سے لوگ اگر اپنی بیماری کے گہرے پن سے باخبر ہوجائیں تو وحشت و سرگردانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں یہ وحشت اُنھیں مارنہ ڈالے تو کم از کم بیماری سے صحت یابی میں تاخیر کا سبب ضرور بن جاتی ہے ۔

لہٰذا ایسے مواقع پر بیمار کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنے ہمدرد و طبیب کے سامنے سوال و اصرار کرنے لگے کیونکہ اس کا بار بار اصرار بعض اوقات طبیب پر میدان کو اس طرح تنگ کردیتا ہے کہ وہ اپنی آسودگی اور دوسرے بیماروں کی خبر گیری کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں دیکھتا کہ اس ”ہٹ دھرم“بیمار کے لئے حقیقت واضع کردے، اگر چہ اسے اس سے بہت نقصانات اٹھانا پڑیں ۔

اسی طرح لوگ اپنے ساتھیوں کے بارے میں خوش گمانی کے محتاج ہیں اور اس عظیم سرمائے کی حفاظت کے لئے بہتر ہی ہے کہ ایک دوسرے کے حالات کی تمام تفصیلات سے باخبر ہوں ، کیونکہ آخر کام ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہوتی ہے، اور تمام کمزوریوں کا فاش ہوجانا، لوگوں کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مشکلات پیدا کردے گا ۔مثلاً ہوسکتا ہے کہ ایک فرد جو موثر شخصیت کامالک ہے، اتفاق سے کسی پست اور نچلے خاندان میں پیدا ہوا ہے اب اگر اس کا سابقہ حال فاش ہوجائے تو ہوسکتا ہے کہ اس کے وجود کی تاثیر معاشرے میں متزلزل ہوجائے ۔ اس لئے اس قسم کے مواقع پر لوگوں کو کسی طرح بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے اور کسی جستجو میں نہیں پڑنا چاہیے ۔

یا یہ کہ مبارزات اجتماعی کے بہت سے منصوبے ایسے ہوتے ہیں جنھیں عملی شکل دینے تک پوشیدہ رہنا چاہیے اور ان کے افشا پر اصرار کرنا معاشرے کی کامیابی پر منفی طور پر اثر انداز ہوگا ۔

یہ اور ان جیسے کئی ایک مواقع ایسے ہیں جن میں سوال کرنا صحیح نہیں ہے اور رہبر اور قائدین کو جب تک وہ بہت زیادہ دباؤ اور فشار میں نہ ہوں ان کا جواب نہیں دینا چاہیے ۔

قرآن زیر نظر آیت میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ کہتا ہے: اے ایمان لانے والو! ایسے امور کے افشا کے متعلق سوال نہ کرو کہ جو موجب رنج و تکلیف ہوں( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَسْاٴَلُوا عَنْ اٴَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ) ۔

لیکن اس سبب سے کہ بعض افراد کی طرف سے پے در پے سوالات کا ہونا اور ان کا جواب نہ دینا ممکن ہے دوسروں کے لئے شک و شبہ کا باعث بن جائے اور بہت سے مفاسد پیدا کرد ے تو مزید کہتا ہے: اگر ایسے مواقع پر زیادہ اصرار کرو گے تو آیاتِ قرآن کے ذریعے تمھارے لئے افشاء ہوجائیں گے اور تم زحمت و تکلیف میں پڑ جاؤ گے( وَإِنْ تَسْاٴَلُوا عَنْهَا حِینَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُم ) ۔

یہ جوان کے افشاء کرنے کو نزول قرآن کے زمانے کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوالات ایسے مسائل سے مربوط تھے جنھیں وحی کے ذریعے ہی واضح اور روشن ہونا تھا ۔

مزید ارشاد ہوتا ہے: یہ خیال نہ کرو کہ اگر خدا کچھ مسائل بیان کرنے سے سکوت اختیار کرتا ہے تو اُن سے غافل تھا بلکہ وہ تمھارے لئے وسعت چاہتا ہے اور انھیں معاف کردیا ہے اور خدا بخشنے والا حلیم و بردبار ہے( عَفَا اللهُ عَنْھَا وَاللهُ غَفُورٌ حَلِیم) ۔

ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :”ان اللّٰه افترض علیکم فرائض فلا تضیعوها وحد لکم حدوداً فلا تعتدوها و نهی عن اشیاء فلا تنتهکوها و سکت لکم عن اشیاء ولم یدعها نسیانا فلا تتکلفوها

خدا نے کچھ واجبات تمھارے لئے مقرر کیے ہیں ، انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ حدود تمھارے لئے نافذ کی ہیں اُن سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں سے منع کیا ہے اُن کی پردہ دری نہ کرو اور کچھ امور سے خاموش رہا ہے اور ان کے پوشیدہ رکھنے کو اس نے بہتر سمجھا ہے اور یہ پوشیدہ رکھنا نسیان اور بھول چوک کی وجہ سے ہرگز نہیں تھا ۔ ایسے امور کے افشاء اور ظاہر کرنے پر اصرار نہ کرنا ۔(۱)

____________________

۱۔ مجمع البیان آیہ محل بحث کے ذیل میں ۔

ایک سوال اوراس کا جواب

ممکن ہے کہا جائے کہ اگر ان امور کا افشا کرنا لوگوں کی مصلحت کے خلاف ہے تو پھر اصرار کی صورت میں اُسے کیوں افشاء کیا جاتا ہے؟

اس کی دلیل وہی ہے جس کی طرف اُوپر اشارہ ہوچکا ہے کہ بعض اوقات اگر پے در پے سوالات کے مقابلے میں سکوت اور خاموشی اختیار کرلی جائے تو اُس سے کئی دوسرے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں ، بدگمانیاں سر اٹھالیتی ہیں ، اور لوگوں کے اذہان خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ جیساکہ اگر طبیب بیمار کے پے در پے سوالات کے جواب میں سکوت اختیار کرے تو بعض اوقات ہوسکتا ہے یہ امر بیمار کو طبیب کے بارے میں بیماری کی اصل تشخیص کے سلسلے میں شک میں ڈال دے اور وہ یہ خیال کرے کہ اصولی طور پر اس کی بیماری کی شناخت نہیں ہوسکی ۔ لہٰذا وہ طبیب کی ہدایات پر عمل نہ کرے تو اس صورت میں طبیب کے پاس بیماری کے افشاء کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ اگر چہ بیمار اس طریقے سے کئی ایک مشکلات اور دشواریاں پیدا کرے گا ۔

بعد والی آیت میں اِس آیت کی تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: گذشتہ اقوام میں سے بھی بعض لوگ اسی قسم کے سوالات کیا کرتے تھے اور جب انھیں جواب دیا گیا تو مخالفت اور نافرمانی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے( قَدْ سَاٴَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اٴَصْبَحُوا بِهَا کَافِرِینَ ) ۔

اس سلسلے میں کہ یہ اشارہ گذشتہ اقوام میں سے کس قوم سے مربوط ہے، مفسّرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض کا تو یہ خیال ہے کہ اس کا تعلق حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے اپنے شاگردوں کے ذریعہ مائدہ آسمانی کی درخواست سے مربوط ہے کہ جس کے صورت پذیر ہوجانے کے بعد بعض مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ۔

بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس کا ربط حضرت صالح(علیه السلام) سے معجزہ طلب کرنے کے ساتھ ہے لیکن ظاہراً یہ تمام احتمالات صحیح نہیں ہیں کیونکہ آیت ایسے سوال کے بارے میں گفتگو کررہی ہے جس کا معنی ”پوچھنا“ اور کشفِ مجہول کرنا ہے نہ کہ وہ سوال جس کا معنی تقاضا کرنا اور کسی چیز کی درخواست کرنا ہے ۔ گویا لفظ ”سوال“ کا دونوں معنی میں استعمال ہونا اس قسم کے اشتباہ کا سبب بنا ہے ۔

البتہ ممکن ہے کہ جماعت بنی اسرائیل مراد ہو کہ جب وہ ایک جرم (قتل) کی تحقیق کے سلسلے میں ایک گائے کے ذبح کرنے پر مامور ہوئے تھے (جس کی توضیح جلد اول میں گزرچکی ہے) تو اُنہوں نے موسیٰ سے ٹیڑھے سوال کیے اور گائے کی جزئیات کے بارے میں ایسے پے در پے سوالات کیے جن کے بارے میں کوئی خاص حکم اُنھیں نہیں دیا گیا تھا ۔ اسی بناء پر انہوں نے کام اپنے اُوپر اتنا سخت کرلیا تھا کہ ایسی گائے کا ہاتھ آنا اس قدر مشکل اور قیمتی ہوگیا کہ قریب تھا کہ اس سے صرف نظر کرلیں ۔

( اٴَصْبَحُوا بِهَا کَافِرِینَ ) “۔ اس جملے کے بارے میں دو احتمال پائے جاتے ہیں : پہلا یہ کہ ”کفر“ سے مراد نافرمانی اور مخالفت ہو جیسا کہ اوپر اشارہ کرچکے ہیں اور دوسرا یہ کہ ”کفر“ اپنے مشہور معنیٰ میں ہو، کیونکہ بعض اوقات ایسے تکلیف دہ جوابات سُننا جو سُننے والے کے ذہن پر بوجھ بن جاتے ہیں کہ وہ اصل موضوع اور کہنے والے کی صلاحیت کا ہی انکار کرنے پر آمادہ ہوجائے، مثلاً یہ کہ بعض اوقات طبیب کی طرف سے ایک تکلیف دہ جواب کا سننا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ بیمار اپنی طرف سے مخالفت کا اظہار کرے اور اس کی صلاحیت کا ہی انکار کردے اور اس تشخیص کو بڑھاپے کا نتیجہ قرار دے یا یہ کہے کہ طیب مخبوط الحواس ہے ۔

اس بحث کے آخر میں ہم یہ نکتہ دُہرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ زیر بحث آیات کسی صورت میں بھی، منطقی، علمی، تہذیبی اور تربیتی سوالات کی راہ لوگوں بند نہیں کرتیں بلکہ یہ پابندی منحصر طور پر صرف بے جا اور نامناسب سوالات اور ایسے امور کے متعلق جستجو سے مربوط ہے جس کے پوچھنے کی نہ صرف یہ کہ ضرورت واحتیاج نہیں ہے بلکہ ان کا چُھپا رہنا ہی بہتر بلکہ بعض اوقات تو لازمی اور ضروری ہوتا ہے