تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27611
ڈاؤنلوڈ: 2571


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27611 / ڈاؤنلوڈ: 2571
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیر نمونہ جلد ۰ہفتم

تفسیرنمونه ، آیه الله العظمی مکارم شیرازی (مدظله العالی) کی ۱۵ ساله زحمات کا نتیجه ہے جس کو معظم له نے اہل قلم کی ایک جماعت کی مدد سے فارسی زبان میں تحریر فرمایا ، اس کا اردو اور عربی زبان میں ترجمه ہو کر شایع ہوچکا ہے.

تعداد جلد: ۱۵جلد

زبان: اردو

مترجم : مولانا سید صفدر حسین نجفی (رح)

تاریخ اشاعت: ربیع الثانی ۱۴۱۷هجری

قوم یہود کے بارے میں آخری بات

”نتقنا“ کی اصل ”نتق“ (بروزن ”قلع“) ہے جس کے معنی کسی چیز کو کسی جگہ سے اکھیڑ کر کسی دوسری جگہ پھینک دیتے ہیں ، جن عورتوں کے ہاں زیادہ بچے ہوتے ہیں انھیں بھی ”ناتق“ کہتے، کیونکہ وہ بچے کو اپنے رحم سے آسانی کے ساتھ جدا کرکے باہر ڈال دیتی ہے ۔

یہودیوں کی سرگزشت جو اس سورہ میں بیان کی گئی ہے یہ آیت اس سلسلہ کی آخری کڑی ہے، اس میں یہودیوں کی ایک اور سرگزشت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ ایک ایسی سرگزشت ہے جس میں ایک درسِ عبرت ہے اور ایک عہدوپیمان کا ذکر بھی ارشاد ہوتا ہے: اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے پہاڑ کو ان کے سرکے اوپر قرار دیا اس طرح جیسے ایک سائبان سایہ فگن ہو( وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ کَاٴَنَّهُ ظُلَّةٌ ) ۔

”اور اس طرح کہ انھیں لگتا تھا جیسے وہ ان کے سرپر گرپڑے گا“ وہ دیکھ کر سراسیمہ اور پریشان ہوگئے اور گڑاگڑانے لگے( وَظَنُّوا اٴَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ ) ۔

اس حال میں ہم نے ان سے کہا: ”ہم نے جو احکام تمھیں دیئے ہیں انھیں مضبوطی سے تھام لو“( خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ ) ۔

”اور جو کچھ ان احکام میں آیا ہے اسے ذہن نشین کرلو تاکہ پرہیزگار ہوجاؤ“ خدا کی سزا سے ڈرو اور اس (کتاب) میں ہم نے تم سے عہد وپیمان لئے ہیں ان پر عمل کرو( وَاذْکُرُوا مَا فِیهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ )

یہ آیت، نیز سورہ بقرہ کی آیت ۶۳ تھوڑے سے فرق کےساتھ ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جسے مشہور مفسّر علامہ طبرسی نے اپنی کتاب ”مجمع البیان“ میں ابنِ زید کے حوالے سے بیان کیا ہے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت موسیٰ(علیه السلام) کوہِ طور سے پلٹ رہے تھے اور توریت کے احکام ان کے ساتھ تھے، انھوں نے جب اپنی قوم کو ان کی ذمہ داریوں اور حلال وحرام کے قوانین سے آگاہ کیا تو ان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ ان تمام احکام پر عمل کرنا ایک بہت بڑا مشکل کام ہے، چنانچہ انھوں نے مخالفت پر کمر باندھی، اس موقع پر ایک پہاڑ سے ایک بہت بڑی چٹان الگ ہوکر ہَوا میں بلند ہوئی اور ان کے سروں پر آکر ٹھہر گئی، اس وقت وہ لوگ اتے خوفزدہ ہوگئے کہ انھوں نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے سامنے گڑگڑانا شروع کردیا، حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے اسی حال میں فرمایا: اگر تم ان عمل کرنے کا عہد کرلو تو یہ خطرہ تم سے دور ہوجائے گا، یہ سنتے ہی انھوں نے قبول کرلیا اور سجدے میں گڑپڑے اور وہ بلا ان سے دور ہوگئی ۔

یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں جنھیں ہم نے سورہ بقرہ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور ان کا جواب بھی دیا ہے، یہاں پر ان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔

پہلا سوال:

کیا اس طرح کسی سے عہد لینا درست ہے؟ کیا اس میں جبر کا پہلو نہیں ہے؟

جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں جبر کا پہلو ضرور ہے لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ جب ان سے خطرہ دور ہوگیا تو اختیار پلٹ آیا یعنی وہ باقی راستہ اپنی مرضی اور اختیار کے ساتھ طے کرسکتے تھے ۔

اس کے علاوہ ایک جواب اور بھی دیا جاسکتا ہے کہ عقائد کے معاملے میں جبر واکراہ لا یعنی چیز ہے لیکن جو امور انسان کے فعل وعمل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں نوعِ بشر کی خیر وسعادت ہے ان میں جبر واکراہ کرنے میں کیا حرج ہے، اگر کسی کو نشہ پینے سے جبراً روکا جائے یا اسے کسی خطرناک راستے پر چلنے سے جبراً روک دیا جائے تو کیا یہ کوئی بُری بات ہے؟

دوسرا سوال:

پہاڑ ان کے سروں پر کس طرح ٹھہرا رہا؟

جواب یہ ہے کہ بعض مفسّرین کا خیال ہے کہ حکمِ خدا کی وجہ سے کوہِ طور اپنی جگہ سے جدا ہوکر ان کے سروں پر سائبان کی طرح سایہ فگن ہوگیا تھا ۔

بعض کا کہنا ہے کہ ایک شدید زلزلے کی وجہ سے پہاڑ اس طرح ہلا اور ٹیڑھا ہوگیا کہ جو لوگ اس پہاڑ کے دامن میں تھے ان کے سروں پر پہاڑ کی چوٹی کا سایہ پڑنے لگا ۔

یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس پہاڑ سے ایک بہت بڑا پتھر الگ ہوکر ذار سی دیر کے لئے ان کے سروں پر ٹھہرا اور اس کے بعد وہ وہاں سے گذر گیا اور طرف گِر گیا ۔

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک خارقِ عادت اور غیر معمولی بات تھی، طبیعت کو اس میں کوئی دخل نہیں تھا ۔

ایک دوسری بات جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے یہ نہیں کہا کہ وہ پہاڑ ان کے سروں پر سائبان بن گیا بلکہ یہ فرمایا کہ: گویا سائبان بن گیا (کاٴنّه ظلة ) ۔

یہ تعبیر یا تو اس وجہ سے ہے کہ اگر کسی کو اوپر سائبان بنایا جاتا ہے تو وہ اس کی حفاظت کے لئے بربنائے محبّت بنایا جاتا ہے، جبکہ یہ سائبان بعنوان تہدید وخوف بنایا گیا تھا، اور یا اس وجہ سے یہ

.

آیات ۱۷۲،۱۷۳،۱۷۴

۱۷۲( وَإِذْ اٴَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَاٴَشْهَدَهُمْ عَلیٰ اٴَنفُسِهِمْ اٴَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلیٰ شَهِدْنَا اٴَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ هٰذَا غَافِلِینَ ) .

۱۷۳( اٴَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا اٴَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ اٴَفَتُهْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ) .

۱۷۴( وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ) .

ترجمہ

۱۷۲ ۔ اُ س وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے اولادِ آدم کی صلب سے ان کی ذریت کو لیا اور اُنھیں اُن کے اپنے نفسوں پر گواہ بنادیا (اور پھر اُن سے سوال کیا) کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں ۔ اُنھوں نے کہا ہاں ہم گواہی دیتے ہیں ۔ (خدا نے ایسا کیوں کیا) اس لئے کہ وہ قیامت کے دِن یہ عذر پیش نہ کریں کہ ہمیں معلوم نہ تھا (اور توحید اور خدا کو جاننے کے فطری عہدسے بے خبر تھے) ۔

۱۷۳ ۔ یا تم یہ نہ کہو کہ ہمارے آباء واجداد تو بُت پرستی کرتے تھے اور ہم بھی تو اُن ہی کی اولاد تھے (لہٰذا اُن کی پیروی کرنے کے علاوہ ہمارے لئے اور کوئی راستہ نہ تھا) جو کچھ باطل پرستوں نے کیا، کیا ہمیں اُس پر سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے ۔

۱۷۴ ۔ اور ہم اپنی آیات کو اس لئے کھول کر بیان کرتے ہیں کہ شاید وہ حق کی طرف لوٹ آئیں (اور یہ جان لیں کہ توحید کی آواز کی رُوح کی گہرائیوں میں اوّل دِن سے موجود تھی) ۔

پہلا عہد وپیمان اور عالمِ ذر

مذکورہ بالا آیات اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ توحید کا اقرار ایک فطری تقاضا ہے اور ہر انسانی روح کی گہرائیوں میں خدا کے وجود کی گواہی موجود ہے ۔ اسی بناپر جو بحث وتمحیص اس سورہ کی گزشتہ آیات میں توحید استدلالی کے بارے میں کی گئی ہے یہ اُن کی تمکیل کرتی ہے ۔

اگرچہ اس پہلی آیت کی تفسیر کرتے وقت مختلف مفسّرین کے درمیان زوروشور سے بحثیں ہوئی ہیں اور اس آیت کے متعلق مختلف طرح کی احادیث بھی ملتی ہیں ، تاہم ہماری کوشش یہ ہوگی کہ اوّل اس آیت کی اجمالی تفسیر کریں پھر مفسرین کی اہم ترین مباحث کا تذکرہ کریں اور آخر میں ان تمام مباحث کی روشنی میں محتاط انداز سے اپنا استدلالی نقطہ نظر پیش کریں ۔

اس آیت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مخاطب ہے، پہلے فرمایا گیا ہے: اس وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے اولادِ آدم کی صلب سے اُن کی ذرّیت کو لیا اور پھر انھیں ظاہر کیا اور انھیں خود اُن کا گواہ بناکر اُن سے پوچھا کہ کیا میں تمھارا پروردگارنہیں ہوں تو اُنھوں نے پوچھا کہ کیا میں تمھار پروردگار نہیں ہوں تو اُنھوں نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے( وَإِذْ اٴَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَاٴَشْهَدَهُمْ عَلیٰ اٴَنفُسِهِمْ اٴَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلیٰ شَهِدْنَا ) ۔

لفظ ”ذریة“ لغت میں علماء کے مطابق ”چھوتی اور کم سن اولاد“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات”تمام اولاد“ کو کہتے ہیں ۔ بعض اوقات مفرد اور بعض اوقات جمع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ لفظ جمع کا مفہوم رکھتا ہے ۔

اس لفظ کے مادہ کے بارے میں مختلف آراء ملتی ہیں بعض اسے ”ذرء“ (بروزن ”زرع“) پیدائش وآفرینش کے معنی میں لیتے ہیں ، اس بناپر ”ذریة“ کا اصل مطلب ”مخلوق“ اور ”پیدا شدہ“ہے ۔

اور بعض اسے ”ذر“ (بروزن ”شر“) کے مادہ سے سمجھتے ہیں جس کا معنی ہے بہت چھوٹے موجودات جیسے گردوغبار کے ذرّات اور بہت ہی چھوٹی چیونٹیاں ، انسانی اولاد بھی ابتداء میں بہت ہی چھوٹے سے ذرّے (نطفہ) سے زندگی کا آغاز کرتی ہے اس لئے اسے ”ذریت“ کہتے ہیں ، تیسرا ”ذور“ (بروزن ”مرو“) کے مادہ سے پراگندہ اور منتشر ہونے کے معنی لیا گیا ہے اور انسان کی اولاد کو ”ذریة“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پایہ تکمیل کو پہنچنے میں زمین میں چاروں طرف پھیل جاتی ہے ۔

اس کے بعد مسئلہ توحید کے سلسلے میں سوال وجواب اور اولادِ آدم سے عہدوپیمان لینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: یہ کام خدا نے اس لئے انجام دیا تاکہ قیامت کے دن وہیہ نہ کہیں کہ ہم تو اس حقیقت توحید وخدا شناسی سے ناآشنا تھے( اٴَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ هٰذَا غَافِلِینَ ) ۔

خدا نے اُن لوگوں سے جو وعدہ لیا تھا اس میں سے ایک اور بھی مقصد پوشیدہ تھا، جس کا دوسری آیت میں اشارہ ملتا ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یہ عہد وپیمان ہم نے اس لئے لیا تھا تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ ”ہمارے آباء واجداد چونکہ ہم سے پہلے بُت پرست تھے اور ہم بھی کیونکہ اُنہی کی اولاد تھے اس لئے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہم ان کی پیروی کرتے تو کیا خدا ہمیں ان لوگوں کے باعث سزا دیتا ہے جنھوں نے بیہودہ کام کیا( اٴَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا اٴَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ اٴَفَتُهْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ) ۔

ہاں ہم اپنی آیات اس لئے کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ توحید کا نُور اور روشنی ابتداء ہی سے ان روح میں موجود تھی، شاید وہ ان حقائق کی طرف توجہ کرتے ہوئے حق کی طرف پلٹ آئیں( وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

عالم ذر کے بارے میں فیصلے کن بحث

جیسا کہ ہم پڑھا ہے کہ زیر نظر آیات میں الله تعالیٰ کے ساتھ اولاد آدم کے عہد وپیمان کا تذکرہ موجود ہے، وہ عہد وپیمان جو آدم کی اولاد سے سربستہ طریقے سے لیا گیا لیکن اس عہد وپیمان کی تفصیلات آیت کے متن میں نہیں ہیں ۔

ان آیات سے متعلق اسلامی کتب مصادر میں جو مختلف طرح کی روایات موجود ہیں مفسرین نے اُن کو بنیاد بناکر کئی نظریے قائم کئے ہیں جن میں زیادہ اہم دو نظریات جو درج ذیل ہیں :

۱ ۔ جس وقت حضرت آدم(علیه السلام) پیدا ہوئے تو آخری بشر تک ان کی اولاد ذرّات کی شکل میں ان کی پشت سے باہر نکلی (اور بعض روایات کے مطابق یہ ذرّات آدم کی مٹّی سے نکلے) وہ بات سُننے اور جواب دینے کی حد تک کافی عقل وشعور کے حامل تھے تو اُس وقت خدا اُن سے مخاطب ہوا:

( اٴلستُ بربّکم )

”کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں “

( بلیٰ شهدنا )

”جی ہاں ہم اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں “

پھریہ سب ذرّ ات آدم کی پشت (یا آدم کی مٹی) کی طرف واپس لوٹ گئے، اس بناء پر اس عالم کو عالم ذر اور اس پیمان کو پیمان الست کہتے ہیں ، اس لئے کہ مذکورہ پیمان ایک پیمان تشریعی انسانوں اور اُن کے پروردگار کے درمیان ایک خودآگاہی کی قرارداد تھی ۔

۲ ۔ اس عالم اور اس پیمان سے مراد وی ”عالم استعداد“ اور ”پیمان فطرت“ اور عہدِتکوین ہے، اس طرح سے کہ باپوں کی پشت اور ماؤں کے رحم سے ”نطفہ“ کی صورت میں اولاد آدم کے خروج کے وقت جبکہ اُن کی حیثیت ذرّات سے زیادہ نہ تھی تو خدا نے توحید کی گواہی کے لئے انھیں استعداد اور اہلیت عنایت کی، پھر ان کی سرشت اور فطرت میں یہ خدائی راز ایک اندرونی ذاتی حس کے طورپر انھیں ودیعت کیا اور اسے ایک جانی پہچانی حقیقت کے طور پر شعور میں رکھا ۔

یہی وجہ ہے کہ تمام انسان رُوح توحید سے شناسائی کے حامل ہیں اور خدا نے جو اُن سے سوال کیا تھا وہ تکوین وآفرینش کی زبان میں تھا اور اُنھوں نے جو جواب دیا تھا وہ بھی اسی زبان میں تھا ۔

ایسا انداز روز مرّہ کی گفتگو میں بھی بکثرت ملتا ہے، مثلاً ہم کہتے: ”رخسار کا رنگ اندرونی راز کی نشاندہی کرتا ہے“ یا ہم کہتے ہیں کہ ”کسی کی آنکھوں کا بند ہونا یہ بتاتا ہے کہ وہ رات سویا نہیں “ ایک عرب ادیب کہتا تھا:

سل الارض من شق انهارک وغرس اشجارک واینع ثمارک فإن لم تجبک حوراً اٴجابتک اعتباراً

اُس زمین سے پوچھو کس نے تیرے ردیاؤں کے راستے بنائے، کس نے تیرے درختوں کو بویا اور تیرے پھلوں کو پکایا، اگر زمین نے عام زبان سے جواب نہ دیا تو زبانِ حال سے جواب دے گی ۔

قرآن مجید میں بھی زبانِ حال میں گفتگو کرنے کا اسلوب بعض آیات میں آیا ہے مثلاً:

( فَقَالَ لَهَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْهًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِین )

خدا نے زمین وآسمان سے فرمایا: اپنی رضا ورغبت سے یا مجبوراً آؤ اور فرمانبرداری کرو، تو اُنھوں نے کہا: ہم تیری اطاعت کرتے ہوئے اپنی رضایت ورغبت سے آتے ہیں (حم سجدہ/ ۱۱)

ان آیات کی تفسیر کے بارے میں یہ دو مشہور نظریات کا خلاصہ تھا، لیکن پہلی تفسیر پر مندرجہ ذیل اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں :

۱ ۔ آیات کے متن میں اولادِ آدم کی پشت سے ذرّات کے خارج ہونے کے بارے میں گفتگو ہے نہ کہ خود آدم سے (من بنی آدم/ من ظهورهم ذریّتهم ) جبکہ پہلی تفسیر خود آدم کی مٹّی سے نکلنے کی بات کرتی ہے ۔

۲ ۔ اگر یہ عہد وپیمان کافی خود آگاہی اور عقل وشعور سے لیا گیا تھا تو پھر کس طرح سب کے سب اسے بھول گئے ہیں ، کسی شخص کے دل میں بھی اس کی یاد نہیں ہے، جبکہ اس کا فاصلہ ہمارے زمانے کی نسبت اس جہان اور دوسرے جہان اور قیامت سے زیادہ نہیں ہے، حالانکہ قرآن مجید کی کئی آیات میں ہم پڑھتے ہیں کہ بنی نوع انسان (قطع نظر اس سے کہ وہ جنتی ہوں یا جہنمی) قیامت میں دُنیا کے حالات کو نہیں بھولیں گے اور وہ انھیں بہت اچھی طرح یاد ہوں گے تو عالم ذر کے بارے میں یہ فرماموشی کسی طرح بھی قابل توجیہ نہیں ہے ۔

۳ ۔ اس عہدو پیمان کا کیا مقصد تھا ۔ کیا یہ مقصود تھا کہ عہدوپیمان کرنے والا اس قسم کے عہدوپیمان کو یاد کرکے راہ حق میں قدم اٹھائیں اور خدا شناسی کے سوا کسی اور راستے پر نہ چلیں تو کہنا چاہیے کہ یہ مقصد تو کسی طرح بھی اس عہدوپیمان سے حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ سب اسے بھول چکے ہیں اور اصلاح کے مطابق کے بہتر ”لا“ پر ہوئے ہوئے اور اس ہدف اور مقصد کے بغیر یہ پیمان لغو اور فضول نظر آتا ہے ۔

۴ ۔ اس قسم کے جہان کے وجود کا اعتقاد حقیقت میں ایک قسم کے تناسخ کے قبول کرنے کے متبادل ہے کیونکہ اس تفسیر کے مطابق یخ قبول کرنا پڑے گا کہ روحِ انسانی موجودہ پیدائش سے پہلے اس جہان میں قدم رکھ چکی ہے اور کم یا طویل دور طے کرنے کے بعد اس جہاں سے واپس چلی گئی ہے، تو اس طرح تناسخ کے بہت سے اعتراضات اس کی طرف متوجہ ہوں گے ۔

لیکن اگر ہم دوسری تفسیر کو قبول کرلیں تو ان میں سے کوئی اعتراض متوجہ نہیں ہوگا، کیونکہ اس صورت میں سوال وجواب اور مذکورہ عہدوپیمان ایک فطری پیمان ہوگا جس کے آثار اب بھی ہر شخص کو اپنی روح کے اندر نظر آتے ہیں ، یہاں تک کہ متاخرین ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق ”حس مذہبی“ ہونا ہود آگاہ انسان کے بنیادی نفسیاتی احساسات میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے جو انسان کو طول تاریخ میں خدا شناسی کی طرف رہنمائی کرتی رہی ہے اور اس فطرت کے ہوتے ہوئے کبھی بھی انسان یہ عذر کرسکتا کہ ہمارے آباء واجداد تو بت پرست تھے( فِطْرَةَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ) (روم/ ۳۰)

دوسری تفسیر پر صرف ایک اہم اعتراض کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں سوال وجواب اپنے اندر منشا کا پہلو لے لیں گے لیکن جس چیز کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ تعبیریں عربی زبان اور دیگر زبانوں میں موجود ہیں تو پھر اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں ہوسکتا اور یہ تفسیر تمام تفاسیر کی نسبت زیادہ قریب نظر آتی ہے ۔

عالم ذر اور اسلامی روایات

شیعہ اور سنّی کے مختلف کُتب ومصادر میں عالم ذر کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو پہلی نظر میں ایک مسلسل روایت کے حصّے معلوم ہوتی ہیں ، مثلاً تفسیر برہان میں ۳۷ روایات اور تفسیر نورالثقلین میں ۳۰ روایات مذکورہ بالا آیات کی ذیل میں نقل ہوئی ہیں اور جن میں بعض مشترک اور بعض مختلف ہیں اور جن روایاتمیں تفاوت وفرق پایا جاتا ہے اُن کا مجموعہ شاید چالیس سے زیادہ ہو۔

لیکن اگر صحیح طریقے سے ان روایات کی درجہ بندی اور تجزیہ وتحلیل کی جائے، نیز ان کے مضامین اور اسناد کی جانچ پڑتال کی جائے تو ہم دیکھیں کہ ان پر ایک معتبر روایت کی حیثیت سے (چہ جائیکہ متواتر روایت کی حیثیت میں ) بھی بھروسہ اور اعتاد نہیں کیا جاسکتا (غور کیجئے) ۔

ان میں سے بہت سی روایات تو ”زرارہ“ سے ہیں کچھ ”صالح بن سہل“ سے، کچھ ”جابر“ اور کچھ ”عبدالله بن سنان“ سے ہیں ، ظاہر ہے کہ جب ایک ہی شخص ایک مضمون کی کئی روایات نقل کرے تو وہ سب ایک ہی روایات شمار ہوں گی اور نتیجتاً مندرجہ بالا روایات کی تعداد اس کثیر عددد سے جوشروع میں نظر آتا تھا گرجائے گی اور شاید دس سے لے کر بیس روایات سے تجاوز نہ کرے یہ تو سند کے لحاظ سے ہے ۔

لیکن مضمون اور دلالت کے لحاظ سے ان روایات کے مفاہیم مکمّل طور سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، بعض پہلی اور بعض دوسری تفسیر سے موافقت رکھتے ہیں اور بعض مفاہیم ان میں سے کسی سے بھی مطابقت نہیں رکھتے، مثلاً وہ روایات جو ”زرارہ“ سے نقل کی ہیں ۔ اور محل بحث آیات کے ذیل میں تفسیر برہان میں ۳ ۔ ۴ ۔ ۸ ۔ ۱۱ ۔ اور ۲۹ شمارہ میں نقل ہوئی ہیں ، وہ پہلی تفسیر کے ساتھ مواقف ہیں اور وہ جو عبدالله بن سنان سے تفسیر برہان میں ۷ اور ۱۲ کے شمارہ کے تحت ذکر ہوئی ہیں وہ دوسری تفسیر کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔

ان روایات میں سے بعض مبہم ہیں ۔

جن سوائے کنایہ کی شکل اور اصطلاح کے مطابق ”سمبولیک“ کی شکل میں کوئی مفہوم نہیں مثلاً اٹھارہ اور تیئسویں روایت جو ”ابوسعید خدری“ اور ”عبدالله کلبی“ سے اسی تفسیر میں نقل ہوئی ہے ۔

کچھ مذکورہ روایات میں صرف بنی آدم کی ارواح کی طرف اشارہ ہوا ہے (مثلاً مفضل کی روایت جس کا شمارہ ۲۰ میں ذکر ہوا ہے)

علاوہ ازیں اوپر والی روایات میں سے بعض سند معتبر کی حامل ہیں اور بعض سند کے بغیر ہیں ۔

اُن روایات کے دوسرے سے متعارض ہونے کی وجہ سے ان پر ایک معتبر دستاویز کے لحاظ سے اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، یا کم ازکم جیسا کہ بزرگ علماء نے اس ضمن میں کہا ہے کہ ان روایات کے علم وفہم کو صاحبانِ روایات کے سپرد کرنا چاہیے اور وہ ان کے متعلق مناسب قسم کے فیصلے کرلیں ۔

تو اس صورت میں ہم ہیں اور اُن روایات کا متن، جو قرآن میں آئی ہیں اور جیسا کہ ہ کہہ چکے ہیں کہ دوسری تفسیر آیات کے زیادہ قریب ہے اوراگر ہماری بحث میں تفسیر اور تشریح کی اجازت ہوتی تو ہم تمام حوالہ جات اور روایات کا شرح وبسط سے ذکرکرتے اور ہر ایک میں بحث وتمحیص کرتے تاکہ جو کچھ ہم اوپر بیان کیا ہے اور زیادہ واضح ہوجاتا، لیکن دلچسپی لینے والے حضرات تفسیر ”نورالثقلین“ ، ”برہان“اور ”بحارالانوار“ کی طرف رجوع کرکے گذشتہ بحث کی بنیاد پر روایات کی درجہ بندی اور اسناد کی تحقیق کرسکتے ہیں ۔

آیات ۱۷۵،۱۷۶،۱۷۷،۱۷۸

۱۷۵( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاٴَ الَّذِی آتَیْنَاهُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَاٴَتْبَعَهُ الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِینَ ) .

۱۷۶( وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَکِنَّهُ اٴَخْلَدَ إِلَی الْاٴَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اٴَوْ تَتْرُکْهُ یَلْهَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا فَاقْصُصْ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) .

۱۷۷( سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاٴَنفُسَهُمْ کَانُوا یَظْلِمُونَ ) .

۱۷۸( مَنْ یَهْدِ اللهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِی وَمَنْ یُضْلِلْ فَاٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْخَاسِرُونَ ) .

ترجمہ

۱۷۵ ۔ اور اُن کے لئے اُس شخص کی سرگزشت پھو کہ جسے ہم نے اپنی آیات دیں ، لیکن (بالآخر) وہ ان کے (حکم) سے نکل گیا اور شیطان نے اُس پر غلبہ پالیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا ۔

۱۷۶ ۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس (مقام) کو ان آیات (اور علوم ودانش) کے ساتھ اُوپر لے جاتے (لیکن جبر کرکرناہماری سنّت کے خلاف ہے لہٰذا ہم نے اُسے اُس کی حالت پر چھوڑدیا) لیکن وہ پستی کی طرف مائل ہوا اور اس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کی اور وہ (باؤلے) کتّے کی مانند ہے کہ اگر اُس پر حملہ کردیا تو اپنا منھ کھول دیتا ہے اور زبان باہر نکال دیتا ہے اور اگر اُسے اُس کے حال پر چھوڑدیا جائے تو پھر بھی یہی کام کرتاہے گویا دُنیاپرستی کا اتنا پیاسا ہے کہ کبھی سیراب نہیں ہوتا) یہ اُس گروہ کی مانند ہے کہ جس نے ہماری آیات کو جھٹلایا، یہ کہانیاں (اُن سے) بیان کرو، شاید وہ غور وفکر کریں (اور ہوش میں آجائیں ) ۔

۱۷۷ ۔ کتنی بُری مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں لیکن وہ تو خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔

۱۷۸ ۔ وہ جسے خدا خدا کرے (حقیقی) ہدایت پانے والا وہی ہے اور انھیں (اُن کے اعمالوں کی وجہ سے) گمراہ کرے اور وہ (واقعی) خسارے میں ہیں ۔

ایک عالم جو فرعونوں کا خدمتگار ہے

اس آیت میں بنی اسرائیل کے ایک اور واقعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے جو اُن لوگوں کے لئے ایک مثال اور نمونہ ہے جو اس قسم کی صفات رکھتے ہیں ۔

جیسا کہ ہم ان آیات کی تفسیر کے دوران میں پڑھیں گے مفسرین نے اس شخص کے بارے میں جس کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، متعدد شکوک کا اظہار کیا ہے لیکن یہ درست ہے کہ آیت کا مفہوم دیگر آیات کی طرح کہ جو اگرچہ خاص حالات میں نازل ہوئیں ، کلی اور عمومی ہے ۔

پہلی آیت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: اُس شخص کا واقعہ جسے ہم نے اپنی آیات دی تھیں لیکن بالآخر وہ ان سے بھٹک گیا اور شیطانی وسوسوں میں گرفتار ہوکر گمراہوں کے زمرے میں داخل ہوگیا، ان سے بیان کرو( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاٴَ الَّذِی آتَیْنَاهُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَاٴَتْبَعَهُ الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِینَ ) ۔

یہ آیت واضح طور پر کسی ایسے شخص کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو پہلے مومنین کی صف میں شامل تھا اور آیات وعلوم الٰہی پر ایمان رکھتا تھا، پھر وہ اس راستہ سے بھٹک گیا اس بناء پر شیطان نے اُسے وسوسہ میں ڈالا اور اُس کا انجام گمراہی اور بدبختی تک جاپہنچا ۔

”انسلخ“ مادہ ”انسلاخ“ سے ہے جو اصل میں چمڑے سے باہر آنے معنی میں ہے، یہ لفظ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے آیات خداوندی اور علوم الٰہی نے ابتداء میں اس کا اس طرح احاطہ کیا ہوا تھا کہ وہ اس کے بدن کے چمڑے کی طرح ہوگئے تھے مگر اچانک وہ اس چمڑے کے محیط سے باہر نکل آیا اور اس نے ایک تیز چکّر کھاتے ہوئے اپنا راستہ مکمل طورپر بدل لیا ۔

فاٴتبعه الشیطان “ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان پہلے تو اس سے اپنی اُمید منقطع کرچکا تھا کیونکہ وہ مکمل طورپر حق کے راستے پر گامزن تھا، لیکن مذکورہ انحراف کے بعد شیطان نے تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور اس کی تاک میں لگا رہا اور اس کے دِل میں وسوسے ڈالنے لگا اور آخرکار اسے گمراہ، شقی اور بدبخت لوگوں کی سف میں لاکھڑا کیا(۱)

بعد والی آیت اس بات کی اس طرح تکمیل ہے کہ ”اگر ہم (خدا) چاہتے تو اسے جبراً حق کی راہ پر قائم رکھ سکتے تھے اور اِن آیات وعلوم کے ذریعہ اسے بلند مقام دے سکتے تھے( وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا ) لیکن یہ مسلّم ہے کہ جس پروردگار کی سنّت انسان کو ارادہ وفیصلہ کی آزادی واختیار دیتا ہے افراد کو جبراً حق کی راہ پر چلانا اس کی اس سنّت سے مناسبت نہیں رکھتا اور یہ بات کسی کی شخصیت وعظمت کی نشانی نہیں بن سکتی، لہٰذا بِلاتوقف مزید ارشاد فرماتا ہے: ہم نے اسے اس کے اختیار پر چھوڑدیا اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے علوم ودانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر روز بلند مقام کی طرف بڑھتا، پستی کی طرف جھکا اور ہواوہوس کی پیروی کی وجہ سے اپنے تنزّل کی جانب مائل ہوا( وَلَکِنَّهُ اٴَخْلَدَ إِلَی الْاٴَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ) ۔

”اخلد“ ”اخلاد“ کے مادہ سے ہے، جس کا مطلب ہے ”کسی جگہ دائمی سکونت اختیار کرنا“ اس بناء پر ”اٴَخْلَدَ إِلَی الْاٴَرْضِ “ کا معنی ہے کہ ہمیشہ کے لئے زمین سے چمٹ گیا جو یہاں کنایہ ہے اور اس مادّی دنیا کی چمک دمک اور غیرشرعی لذّات اور آسائشوں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

اس کے بعد اس شخص کو کتّے سے تشبیہ دی ہے، ایسا کتّا جو اپنی زبان پیاسے جانوروں کی طرح ہمیشہ باہر نکالے رکھتا ہے، ارشادِ ربّانی ہے: وہ کتّے کی طرح ہے ۔ اگر اس پر حملہ کرو تو اس کا منھ کھلا ہوا ہے اور زبان باہر نکلی ہے اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑدیں تو بھی اسی طرح رہتا ہے( فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اٴَوْ تَتْرُکْهُ یَلْهَثْ )

اس نے لذّت پرستی کی شدّت اور اس مادی دُنیا کی بے تحاشا محبّت سے مغلوب ہوکر ایک لامحدود اور ختم نہ ہونے والی پیاس کی حالت اپنا رکھی ہے کہ ہمیشہ وہ دنیا پرستی کے پیچھے لگارہتا ہے، کسی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ ایک بیمار کی طرح، باؤلے کتّے کی مانند کہ جس پر باؤلے پن کی وجہ سے پیاس کی ایک جھوٹی کیفیت طاری رہتی ہے اور کسی وقت بھی سیراب نہیں ہوتا، یہی حالت اُن دنیا پستوں اور پست ہمّت ہواوس کے پچاریوں کی ہے جنھیں دُنیا کی آسائشیں میسّر ہوں لیکن اُن کی نیّت سیر نہیں ہوتی ۔

مزید ارشاد ہوتا ہے کہ یہ مثال کسی مخصوص شخص کے ساتھ منسوب نہیں بلکہ یہ ان تمام گروہوں کی مثال ہے جو آیات خدا کو جھٹلاتے ہیں( ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ) ۔

یہ واقعات ان کے سامنے بیان کرو ہوسکتا ہے کہ وہ ان پر سوچ بچار کریں اور صحیح راستے کا یقین کرلیں( فَاقْصُصْ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

دُنیا پرست اور منحرف عالم بلعم باعوراجیسا کہ آپ نے دیکھا اوپر والی آیات میں کسی کا نام نہیں لیا گیا بلکہ ایک عالم کے متعلق گفتگو ہوئی ہے جو پہلے حق کے راستے پر گامزن تھا اور گوئی ا س کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ کسی دِن یہ حق سے منحرف ہوجائے گا لیکن آخرکار دُنیاپرستی اور خواہشات نفسانی نے اُس پر ایسا غلبہ پایا اور اُسے پستیوں میں دھکیل دیا کہ وہ گمراہوں اور شیطان کے پیروکار کی صف میں جاکھڑا ہوا ۔

بہت سی روایات اور مفسرین کے کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد بلعم باعور نامی ایک شخص تھا جو حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے زمانہ میں رہتا تھا اور بنی اسرائیل کے نامی گرامی علماء میں اس کا شمار ہوتا تھا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) اُس سے ایک بڑے مبلغ کی حیثیت کام لیتے تھے اور وہ اس درجے پر فائز تھا کہ اس کی دُعا بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت پاتی تھی، لیکن وہ فرعون کی ظاہری شان وشوکت اور اُس کے وعدوں سے اتنا متاثر ہُوا کہ راہ حق سے بھٹک گیا لہٰذا اس کی تمام قدرومنزلت جاتی رہی ، حتّیٰ کہ وہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے مخالفین کی صف میں شامل ہوا ۔(۲)

باقی رہا یہ احتمال کہ یہ شخص امیہ ابن ابی الصلت ہے جو زمانہ جاہلیت کا مشہور شاعر ہے جوپہلے گذشتہ کتبِ آسمانی آگاہی رکھنے کی وجہ سے آخری پیغمبر کے ظہور کے انتظار میں تھا، لیکن پھر وہ یہ سوچنے لگا کہ ہوسکتا ہے کہیں وہ خود ہی پیغمبر ہے ۔ اس لئے اس نے بعثتِ پیغمبر کے بعد رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے حسد کو مخالفت کی بنیاد بنایا ۔

یہ بھی احتمال پیش کیا گیا ہے کہ اس سے مشہور راہب ابوعامر مراد ہے، جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو پیغمبر اسلام کے ظہور کی خوشخبری دیتا تھا لیکن پیغمبر کے ظہور کے بعد اس نے مخالفت کی راہ اپنائی، تو یہ دونوں احتمال حقیقت سے دُور نظر آتے ہیں ۔

کیونکہ ”واتل“ ”نباء“ اور ”فاقصص القصص“ کے الفاظ نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ واقعہ پیغمبر اسلام کے ہمعصر افراد سے متعلق نہیں تھا بلکہ یہ گذشتہ اقوام کی سرگزشت ہے، علاوہ ازیں سورہ اعراف ان سورتوں میں سے ہے جو مکّہ میں نازل ہوئی ہیں اور ابوعامر راہب اور امیہ بن ابوصلت کا تعلق مدینہ سے ہے ۔

تفسیر المنار میں پیغمبر اسلام سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں بلعم باعور کی مثال اس امّت میں امیّہ بن ابی الصلت ایسی ہے ۔(۳)

____________________

۱۔ ”اتبعہ“ اور ”تبعہ“ ”لحقہ وادرکہ“ (اس سے ملحق ہوا اور اسے پالیا) کے معنی میں آیا ہے ۔

۲۔موجودہ تورات میں بھی بلعم باعور کے ماجرا کی تفصیل آئی ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ تورات آ!رکار اسے انحراف سے بری الذمہ قرار دیتی ہے، مزید تفصیل کے لئے سفر اعداد کے باب ۲۲ سے رجوع کریں ۔

۳۔المنار، ج۹، ص۱۱۴.