تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27752
ڈاؤنلوڈ: 2619


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27752 / ڈاؤنلوڈ: 2619
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۲۷،۲۸

۲۷-( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا اٴَمَانَاتِکُمْ وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ )

۲۸-( وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا اٴَمْوَالُکُمْ وَاٴَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ وَاٴَنَّ اللهَ عِنْدَهُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ )

ترجمہ

۲۷ ۔ اے ایمان والو! خدا اور رسول سے خیانت نہ کرو (نیز) اپنی مانتوں میں خیانت روا نہ رکھو جب کہ تم متوجہ ہو اور جانتے ہو۔

۲۸ ۔ اور جان لو کہ تمھارے اموال اور اولاد آزمائش کا ذریعہ اور خدا کے ہاں (ان کے لئے) اجر عظیم ہے (جو امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

شان نزول

مندرجہ بالا آیت کے نزول کے بارے میں کئی ایک روایات ہیں ۔ ان میں سے ایک روایت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

پیغمبر خدا نے حکم دیا کہ بنی قریظہ (جو مدینہ کے یہودیوں میں سے تھے) کا محاصرہ کرلیا جائے، یہ محاصرہ اکیس راتوں تک جاری رہا، لہٰذا وہ صلح کی تجویز پیش کرنے پر مجبور ہوگئے جیسے ان کے بھائی بنی نضیر (جو مدینے کا یہودیوں کا ایک اور گروہ تھا) کے لوگوں نے بھی کیا تھا۔ صلح کی تجویز میں انھوں نے پیش کش کی صداقت مشکوک تھی)اور فرمایا کہ صرف سعد بن معاذ کا فیصلہ قبول کیا جائے۔

انھوں نے تقاضا کیا کہ رسول الله ابولبابہ (آپ کے مدنی صحابی) کو ان کے پاس بھیجا جائے۔

ابولبابہ کا ان سے دوستی کا پرانا رشتہ تھا اور اس کے گھر والے، بیٹے اور مال ومنال ان کے پاس تھے۔

یہ تجویز رسول الله نے قبول فرمالی اور ابولبابہ کو ان کے پاس بھیج دیا۔

انھوں نے ابولبابہ سے مشورہ کیا کہ کیا اس میں مصلحت ہے کہ وہ سعد بن معاذ کی قضاوت قبول کرلیں ۔

ابولبابہ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی اگر قبول کروگے تومارے جاوگے لہٰذا اس تجویز کو قبول نہ کرو۔

وحی خدا کے قاصد جبرئیل نے اس امر کی اطلاع پیغمبرکو دے دی۔

ابولبابہ کہتا ہے: ابھی میں نے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا تھا کہ متوجہ ہوا کہ میں نے خدا اور پیغمبر سے خیانت کی ہے۔

اس موقع پر یہ آیات اس کے متعلق نازل ہوئیں ۔

اس وقت ابولبابہ سخت پریشان ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنے آپ کو ایک طناب کے ذریعے مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا اور کہا: خدا کی قسم نہ کھاوں گا نہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ مرجاوں گا یا یہ کہ خدا میری توبہ قبول کرلے۔

سات شب وروز گزر گئے نہ اُس نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑا تو خدا نے اس کی توبہ قبول کرلی۔

یہ خبر مومنین کے ذریعے اسے ملی لیکن اس نے قسم کھائی کہ میں اپنے آپ کو ستون سے نہیں کھولوں گا جب تک پیغمبر خدا آکر خود نہ کھولیں ۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم آئے اور انھوں نے اسے کھو لا۔

ابولبابہ نے کہا:میں اپنی توبہ کی تکمیل کے لئے اس گھر کو چھوڑتا ہوں جس میں مَیں اس گناہ کا مرتکب ہوا تھا اور اپنے تمام مال سے صرفِ نظر کرتا ہوں ۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا :صرف اتنا کافی ہے کہ اپنے مال کا تیسرا حصّہ صدقہ کردے۔(۱)

کتب اہلِ سنّت میں بھی یہی مضمون اس آیت کی شان نزول کے متعلق موجود ہے ۔

گذشتہ آیات چونکہ جنگ بدر سے مربوط تھیں لہٰذا بعض نے اس بات کو بعید سمجھا ہے کہ یہ آیت یہودیوں اور بنی قریظہ سے متعلق ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ان روایات سے مراد یہ ہے کہ ابولبابہ کا واقعہ آیت کا ایک مصداق قرار پاسکتا ہے نہ یہ کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی ہے۔ ایسا ہی انھوں نے گذشتہ آیات کی شایان نزول سے متعلق بھی کہا ہے۔ مثلاً بعض کتب میں کچھ صحابہ سے منقول ہے کہ فلاں آیت عثمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عثمان کا قتل وفات پیغمبر سے سالہا سال بعد ہوا ہے۔

یہ احتمال بھی ہے کہ آیت تو بنی قریظہ کے واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو لیکن چونکہ بدر کی آیات سے مناسبت رکھتی تھی لہٰذا پیغمبرِ خدا کے حکم سے ان کے ساتھ رکھ دی گئی ہو۔

خیانت اور اس کا شرچشمہ

پہلی آیت میں خداوندعالم نے روے سخن مسلمانوں کی طرف کرتے ہوئے کہا ہے: اے ایمان والو! خدا اور پیغمبر سے خیانت نہ کرو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ ) ۔

خدا اور رسول سے خیانت یہ ہے کہ مسلمانوں کے فوجی راز دوسروں تک پہنچادیئے جائیں یا دشمنوں کو اپنے ساتھ مقابلے اور جنگ میں تقویت پہنچائی جائے یا واجبات، محرّمات اور خدائی احکام کو بالکل پس پشت ڈال دیا جائے۔ لہٰذا ابن عباس سے منقول ہے کہ جو شخص اسلامی احکام اور پروگراموں میں سے کسی چیز کو ترک کردے وہ اسی قدر خدا اور پیغمبر سے خیانت کا مرتکب ہوا ہے۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اپنی امانتوں میں سے خیانت نہ کرو( وَتَخُونُوا اٴَمَانَاتِکُمْ ) ۔(۲)

”امانت“ اگرچہ مالی امانتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن منطق قرآن میں اس کا وسیع مفہوم ہے زندگی کے جو تمام اجتماعی، سیاسی اور اخلاقی پہلوؤں پر محیط ہے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے:

”المجالس بالامانة“

جو باتیں خصوصی نشستوں اور مجالس میں ہوں وہ امانت ہیں ۔

ایک اور حدیث میں ہے:”اذا حدث الرجل بحدیث ثمّ التفت فهو امانة“

جب کوئی شخص کسی سے بات کررہا ہو ، پھر وہ اِدھر واُدھر دیکھے (کہ کہیں کوئی اسے سُن تو نہیں رہا) تویہ بات امانت ہے۔

لہٰذا اسلام کی آب وخاک مسلمانوں کے ہاتھ خدائی امانت ہے، ان کی اولاد بھی امنت ہے اور سب بالاتر قرآن مجید اور اس کی تعلیمات پروردگار کی عظیم امانت ہیں ۔

بعض کا کہنا ہے کہ خدا کی امانت اُس کا دین ہے، رسول کی امانت ان کی سنّت اور مومنین کی امانت ان کا مال واسرار ہیں لیکن مندرجہ بالا آیت میں امانت میں تمام مفاہیم شامل ہیں ۔

بہرحال امانت میں خیانت سب سے زیادہ قابلِ نفرت عمل اور قبیح ترین گناہ ہے۔ جو شخص امانت میں خیانت کرتا ہے در حقیقت وہ منافق ہے جیسا کہ حدیث میں منقول ہے:

”آیة المنافق ثلاث: اذا حدث کذب، واذا وعد اخلف، واذا ائتمن خانَ واذا صام وصلی وزعم انّه مسلم“

منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت کرتا ہے۔ ایسا شخص منافق ہے چاہے روزہ رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔

اصول طور پر امانت میں خیانت نہ کرنا انسانی فرائض اور حقوق میں سے ہے یعنی اگرچہ صاحبِ امانت مسلمان نہ ہو تب بھی اس کی امانت میں خیانت نہیں کی جاسکتی۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: ہوسکتا ہے تم غلطی سے اور بے خبری میں کسی چیز میں خیانت کر بیٹھو لیکن جان بوجھ کر کبھی ایسا نہ کرنا( وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ۔

البتہ جو اعمال ابولبابہ کے کام جیسے ہیں انھیں اشتباہ یا بے خبری نہیں کہا جاسکتا بلکہ مال، اولاد اور ذاتی مفاد سے عشق بعض اوقات حساس مواقع پر انسان کی آنکھ اور کان بند کردیتے ہیں اور وہ خدا اور پیغمبر سے خیانت کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ در حقیقت جان بوجھ خیانت کرنا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ انسان فوراً باولبابہ کی طرح بیدار ہوکر گذشتہ گناہ کی تلافی کرے۔

اگلی آیت میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ ہوشیار رہیں کہیں مادّی امور اور جلد گزر جانے والے شخصی مفادات انسان کی آنکھ اور کان پر پردہ نہ ڈال دیں اور وہ ایسی خیانتوں کا مرتکب نہ ہوجائے جو اس کے معاشرے کی زندگی اور سرنوشت کو خطرے میں ڈال دے۔ ارشاد ہوتا ہے : جان لو کہ تمھارے اموال اور اولاد آزمائش اور امتحان کا ذریعہ ہیں( وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا اٴَمْوَالُکُمْ وَاٴَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ ) ۔

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے ایسے مواقع پر ”فتنة“کا معنی ہے ”آزمائش کا ذریعہ“ اور درحقیقت ایمان وکفر اور انسانی قدر وقیمت کے اندازے کے لئے یہ دو چیزیں اہم ترین میزان ہیں ۔ مال واسباب حاصل کرنا، انھیں خرچ کرنا، ان کی حفاظت کرنا اور ان سے لگاو کی کیفیت یہ سب امتحانِ بشر کے میدان ہیں ۔

بہت سے ایسے اشخاص ہیں جو عام عبادات اور دین ومذہب کے ظاہری امور کے لحاظ سے بلکہ بعض اوقات مستحبات کے انجام دہی میں بہت سخت اور پکّے ہیں لیکن جب کوئی مکالی معاملہ بیچ میں آجائے تو سب چیزیں ایک طرف ہوجاتی ہیں اور قوانین الٰہی، مسائل انسانی اور حق وعدالت سب کچھ بھول جاتا ہے۔

اولاد کے بارے میں بھی یہی صورت ہے کہ جو انسان کے دل کا میوہ ہے اور بچّے انسان کی شاخِ حیات کے پھول ہیں ، بہت سے افراد جو بظاہر امور دینی اور مسائلِ انسانی واخلاقی کے پابند ہیں انھیں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ان کی اولاد کا معاملہ ہوتا ہے تو گویا ان کے افکار ونظریات پر پردہ پڑجاتا ہے اور وہ ان تمام مسائل کو بھول جاتے ہیں ۔ اُولاد کی محبت کے ہاتھوں حرام کو حلال اور حلال کو حرام شمار کرتے ہیں ۔ اولاد کی آئندہ کی خیالی زندگی کے لئے ہر کام پر تیار ہوجاتے ہیں اور ہرحق کو پاوں تلے روند دیتے ہیں ۔

ہمیں چاہیے کہ امتحان کے ان دونوں میدانوں میں پھسل گئے ہیں اوروہ گر پڑے ہیں ۔ انھوں نے اپنے لئے ابدی نفرین اوردائمی پھٹکار حاصل کی ہے۔

اگر ہم سے بھی کوئی لغزش سرزد ہوجائے تو ابولبابہ کی طرح ہیں ہمیں اس کی تلافی کرنا چاہیے یہاں تک کہ وہ اموال جو ایسی لغزش کا سبب بنے اسے اس راہ میں قربان کردینا چاہیے۔

آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو اِن دونوں میدانوں سے کامیابی کے نکل آئیں انھیں بشارت دی گئی ہے کہ پروردگار کے پاس اجر عظیم اور بہت بڑی جزا ہے( وَاٴَنَّ اللهَ عِنْدَهُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ ) ۔ اولاد کی محبت کتنی ہی عظیم دکھائی دے ار مال دولت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو پھر بھی الله کا اجر اور جزا ان سے برتر، عالی تر اور بزرگ تر ہے۔

یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں مثلاً یہ کہ اپنے علمی احاطے کے باوجود خداتعالیٰ لوگوں کو آزمائش کیوں کرتا ہے اور یہ کہ خدا کی آزمائش سب کے لئے کیوں ہے یہاں تک کہ انبیاء ومرسلین کے لئے بھی ہے، نیز یہ کہ خدائی آزمائش کے مواقع کون کون سے ہیں اور ان میں کامیابی کا طریقہ کیا ہے۔ ان سب سوالات کے جوابات تفسیر نمونہ جلد اول ( ۲۷۷ اُردوترجمہ) میں دیئے جاچکے ہیں ۔

____________________

۱۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۴۳-

۲-”خیانت“ کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کی ادائیگی کا انسان نے ذمہ لیا ہو۔ یہ در اصل ”امانت“ کی ضد ہے۔

آیت ۲۹

۲۹-( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا وَیُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ )

ترجمہ

۲۹ ۔ اے ایمان لانے والو! اگر خدا کے حکم کی مخالفت سے ڈرو تو وہ تمھارے لئے حق اور باطل کو الگ الگ کردے گا (اور تمھیں ایسی روشن ضمیری عطا کرے گا جس کے ذریعے تم حق اور باطل میں تمیز کرسکو) اور تمھارے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور تمھیں بخش دے اور وہ عظیم فضل وبخشش کا مالک ہے۔

ایمان اور روشن ضمیری

گذشتہ آیات میں ایسے حیات بخش احکام بیان ہوئے جو مادی اور روحانی سعادت کے ضامن ہیں لیکن ان پر تقویٰ اور پرہیزگاری کے بغیر عمل نہیں ہوسکتا لہٰذا اس آیت میں انسانی کردار میں تقویٰ اور اس کے آثار کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ اس آیت میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے چار نتائج بین گئے ہیں ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان لانے والو! اگر تقویٰ اختیار کرو اور حکم خدا کی مخالفت سے پرہیز کرو تو وہ تمھیں ایک خاص نورانیت اور روشن ضمیری بخشے گا جس سے تم حق اور باطل کے درمیان اچھی طرح سے امتیاز کرسکوگے۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا ) ۔

”فرقان“ ”فرق“ کے مادّہ سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہاں ایک ایسی چیزو کے معنی میں جو حق کو باطل سے اچھی طرح جدا کرے۔

یہ مختصر اور پُر معنی لفظ انسان کے لئے ایک اہم ترین حیات ساز مسئلہ بیان کرتا ہے اور وہ یہ کہ جس راستے میں انسان کامیابیوں کی طرف جاتا ہے ہمیشہ پھسلنے کے مقاات آتے ہیں اور بے راہ ورویاں موجود ہوتی ہیں اور اگر انھیں اچھی طرح نہ دیکھے اور نہ پہچانے اور ان سے پرہیز نہ کرے تواس طرح کرے گا کہ اس کانام ونشان تک باقی نہیں رہے گا۔ اس راستے میں اہم ترین مسئلہ حق وباطل، نیک وبد، دوست ودشمن، مفید ونقصان دہ عوامل اور سعادت وبدبختی کی شناخت ہے اگر واقعاً انسان ان حقائق کو اچھی طرح پہنچان لے تو اس کے مقصد تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔

مشکل یہ ہے کہ ایسے بہت سے مواقع پر انسان اشتباہ میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ باطل کو حق، دشمن کو دوست اور بے راہ روی کو شاہراہ سمجھنے لگ جاتا ہے۔

ایسے مواقع پر تیز نظر، قوی ادراک اور بہت زیادہ نورانیت اور روشن بینی درکار ہے۔ زیر نظر آیت کہتی ہے کہ یہ نگاہ اور ادراک تقویٰ کے درخت کا ثمر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح تقویٰ اختیار کرنے سے اور گناہ وسرکشی سے پرہیز کرنے سے انسان میں ایسی نظر اور ادراک پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ بات شاید بعض لوگوں کے لئے مبہم اور غیر واضح ہو لیکن اگر کچھ دقّت نظر سے کام لیا جائے تو ان دونوں باتوں کے درمیان موجود رشتہ واضح ہوجاتا ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے تو انسانی قوت عاقلہ کے ادراک کے لئے کافی حد تک آماد ہ ہے لیکن حریص، طمع، شہوت، خود پرستی، حسد اور مال، بیوی، اولاد جاہ وحشمت اور مقام ومنصب سے عشق کے پردے سیاہ دھوئیں کی طرح عقل کی آنکھوں پر پڑجاتے ہیں ، یا گاڑھے گردو وغبار کی طرح اردگرد کی فضا کو ڈھانپ دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے تاریک ماحول میں انسان حق وباطل کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا لیکن اگر تقویٰ کے پانی سے اس غبار کو دھوڈالا جائے اور درمیان سے یہ سیاہ اور تاریک دھواں خم ہوجائے تو حق کے چہرے کو دیکھنا آسان ہوجائے۔ بقول شاعر:

جمالِ یار ندارد حجاب وپردہ دلی

غبارہ رہ بنشان تا نظر توانی کرد

ترجمہ: یعنی حسنِ یار تو حجاب اور میں نہیں ہے لیکن

ایک اور شاعر نے کہا ہے:

حقیقت سرائی است آراستہ

ہوی وہوس گردبرخاستہ

نبینی کہ ہر جا کہ برخاست گرد

نبیند نظر گرچہ بیناست مرد!

ترجمہ: کیا تو نہیں دیکھتا کہ جہاں گرد پڑی ہو وہاں آنکھ نہیں دیکھتی اگرچہ دیکھنے والا شخص بینا ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ جانتے ہیں کہ ہر کمال جہاں بھی ہے وہ کمالِ حق کا پرتُو ہے اور انسان جس قدر خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اس کمال مطلق کا زیادہ طاقتور پرتُو اس کے وجود پر پڑتا ہے۔ اس حساب سے تمام علوم وفنون کا سرچشمہ اس کا علم ہے اور جب بھی انسان تقویٰ کے ذریعے اور گناہ اور ہو وہوس سے پرہیز کرکے اس سے زیادہ نزدیک ہو اور اپنے وجود کے قطرے کو اس کے وجود ہستی کے بے کنار سمندر سے ملادے تو اس کے علم ودانش سے بہت کچھ پالے گا۔

دوسرے لفظوں میں انسان کا دل آئینے کی طرح ہے اور پروردگار کا وجود ہستی آفتاب عالمتاب کی طرح ہے۔ اب اگر اس آئینے کو ہو وہوس کا زنگ تاریک کردے تواس میں نور کا انعکاس نہیں ہوگا لیکن اگر اسے تقویٰ وپرہیزگاری کے پانی سے صِقل کردیا جائے اور زنگ اتار دیا جائے تو اس آفتاب پرفروغ کا خیرہ کرنے والا نور اس میں منعکس ہوگا اور وہ ہر طرف روشن کردے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم پوری تاریخ میں پرہزگار مردوں اور عورتوں کے حالات میں روشن ضمیری اور روشن بینی کے ایسے واقعات دیکھتے ہیں جو علم ودانش کے عام طریق سے ہرگز قابلِ اراک نہیں ہیں ۔

وہ بہت سے ایسے حادثات کی بنیاد کو اچھی طرح سے پہچانتے تھے جنھیں اجتماعی مصائب وآلام اور شور وغوغا میں نہیں پہچانا جاسکتا اوروہ دشمنانِ حق کے قابلِ نفرت چہروں کو ہزاروں پُرفریب پردوں کے پیچھے دیکھ لیتے تھے انسانوں کی شناخت، معرفت، ادراک اور بصیرت پر تقویٰ کا عجیب اثر بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے اور دیگر آیات میں بھی اس کی تاثیر بیان کی گئی ہے۔

سورہ بقرہ آیت ۲۸۲ میں ہے:( وَاتَّقُوا اللهَ وَیُعَلِّمُکُمْ اللهُ )

تقویٰ اختیار کرو اور الله تمھیں تعلیم دے گا۔

ایک مشہور حدیث میں ہے:”الموٴمن ینظر بنور الله “صاحب ایمان انسان الله کے نور سے دیکھتا ہے۔

نہج الباغہ کے کلمات قصار میں ہے:”اکثر مصارع العقوق تحت بروق المطامع

زیادہ تر عقلوں کو لالچ کی چمک دمک پچھاڑدیتی ہے اور حرص وطمع عقل کی آنکھ کو بیکار کردیتی ہے اور پھر لوگ گرنے اور پھسلنے کی جگہ کو نہیں دیکھ پاتے۔

تیسری بات یہ ہے عقلی تجزیہ وتحلیل کے لحاظ سے بھی تقویٰ اور ادراک کے درمیان تعلق قابلِ فہم ہے۔ مثلاً وہ معاشرے جو ہوا وہوس کے محور پر گردش کرتے ہیں اور ان کے نشر واشاعت کے ادارے اسی ہوا وہوس کی ترویج کے لئے کردار ادا کرتے ہیں ، اخبارات برائیوں اور خرابیوں کو رواج دیتے ہیں ،, ریڈیو سے آلودگی اور انحرافات کی آواز بلند ہوتی ہے اور ٹیلیویژن بھی ہوا وہوس کی خدمت کرتے ہیں ، واضح ہے کہ ایسے معاشرے میں ق وباطل میں اچھائی اور برائی میں تمیز اکثر لوگوں کےلئے بہت ہی مشکل ہے۔ لہٰذا تقویٰ کا فقدان عدمِ تشخیص یا غلط تشخیص کا سرچشمہ ہے۔ یا مثلاً وہ گھرانہ جو تقویٰ سے مرحوم ہے اور اس کے بچّے گندے ماحول میں پرورش پارہے ہیں اور بچپن ہی سے برائی اور بے لگام آزادی کے خوگر ہوچکے ہیں آئندہ جب بڑے ہوں گے تو اچھائی اور برائی میں تمیز ان کے لئے مشکل ہوجائے گی۔

اصولی طور پر اگر یہ صلاحتیں اور قُویٰ بیکار ہوجائیں اور سرمایہ راہِ گناہ میں رائیگاں ہوجائے تو لوگ شعور ادراک کے لحاظسے پست ہوجائیں اور پست افکار کے حامل ہوں گے، چاہے وہ صنعتی اور مادی لحاظ سے ترقی کرجائیں ۔

لہٰذا اچھی طرح دیکھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو تقویٰ کے خلاف ہے ایک طرح کی بے خبری، عدم آگاہی یا غلط تشخیص کا سرچشمہ ہے۔ لہٰذا آج کی اس مشینی دنیا میں ایسے معاشرے موجود جو علم وصنعت کے لحاظ سے بہت آگے پہنچ گئے ہیں لیکن اپنی روز مرّہ کی زندگی میں ایسی وحشتناک بے سروسامانی اور تضادات کا شکار ہیں جو انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ یہ سب امور قرآن کی اس بات کی عظمت کو واضح کردیتے ہیں ۔

اس طرح توجہ کرتے ہوئے کہ تقویٰ صرف عقلی عملی تقویٰ میں منحصر نہیں ہے بلکہ فکری اور عقلی تقویٰ بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے تو حقیقت زیادہ واضح تر ہوجاتی ہے، بے لگام فکری آزادی کے مقابلے میں فکری تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ ہم اپنے مطاعلات میں صحیح مدارک اور حقیقی مطالب تلاش کریں ، کافی تحقیق اور ضروری غور وخوض کے بغیر کسی مسئلے کے بارے میں نظریے اور عقیدے کا اظہار نہ کریں ، جولوگ فکری تقویٰ کوبروئے کار لاتے ہیں بیشک وہ بڑی آسانی سے بے لگام لوگوں کی نسبت صحیح نتائج پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو انتخابِ مدارک اور طرزِ استدلال میں بے اصول ہیں ان سے بے حساب غلطیاں اور اشتباہات ہوتے ہیں ۔

باقی رہی وہ اہم بات جس کی طرف یقیناً سنجیدگی سے توجہ کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ اسلام کے دیگر اصلاحی اور انسان ساز پروگراموں کی طرح ”تقویٰ“ بھی ہم مسلمانوں کے ہاتھوں تحریف وتغیّر کا شکار ہے، بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صاحبِ تقویٰ انسان وہ ہے جو اپنا بدن اور لباس زیادہ دھوتا ہے، تمام لوگوں اور تمام چیزوں کونجس یا مشکوک سمجھے، اجتماعی اور معاشرتی مسائل سے کنارہ کش ہو، کسی سیاہ وسفید کو ہاتھ نہ لگائے اور ہر معاملے میں خاموش رہے۔ پرہیزگاری اور تقویٰ کی ایسی غلط تفسیریں در حقیقت اسلامی معاشروں کے انحطاط کے عوامل میں سے ہیں ، اس قسم کا تقویٰ آگاہی پیدا کرتا ہے نہ روشن ضمیری اور نہ حق وباطل کے درمیان تمیز عطا کرتا ہے۔

اب جبکہ پرہیزگاروں کی پہلی جزا کی وضاحت ہوچکی ہے ہم آیت کے اگلے حصّہ کی تفسیر اور باقی چار جزاوں کو بیان کرتے ہیں ۔

قرآن کہتا ہے حق وباطل میں امیتاز کے علاوہ پرہیزگاری کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ ”خدا تمھارے گناہ چھپائے گا اور ان کے آثار تمھارے وجود سے ختم کردے گا( وَیُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ ) ۔ علاوہ ازیں اپنی بخشش بھی تمھارے شامل حال کرے گا( وَیَغْفِرْ لَکُمْ ) ۔اور یہ بہت سی جزائیں اور عنایات تمھارے انتظار میں ہیں جنھیں خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ خدا بہت زیادہ فضل وبخشش رکھتا ہے( وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ) ۔

یہ چار اثرات تقویٰ وپرہیزگاری کے درخت کا ثمر ہیں ، تقویٰ اور ان آثار میں بعض کے درمیان فطری اور طبیعی ربط اس سے مانع نہیں کہ ہم ان سب کی نسبت خدا کی طرف دے دیں کیونکہ ہم اس تفسیر میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہر موجود ہر اثر خدا کی مشیّت اور ارادے سے ہے لہٰذا اس اثر کی نسبت خدا کی طرف دی بھی جاسکتی ہے اور اس موجود کی طرف بھی۔

یہ کہ ”تکفیر سیئات“ اور ”غفران“ میں کیا فرق ہے، اس سلسلے میں مفسّرین کا نظریہ ہے کہ پہلا دنیا میں پردہ پوشی کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا آخرت کی سزا سے نجات حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے، لیکن ایک اور احتمال بھی کہ ”تکفیر سیئات“ گناہوں کے نفسیاتی اور اجتماعی آثار کی طرف اشارہ جو تقویٰ کے ذریعے ختم ہوجاتے ہیں ۔ لیکن ”غفران“ خدا کی بخشش اور سزا سے نجات کی طرف اشارہ ہے۔

آیت ۳۰

۳۰-( وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اٴَوْ یَقْتُلُوکَ اٴَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللهُ وَاللهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ )

ترجمہ

۳۰ ۔ وہ وقت (یاد کرو) جب کافر سازش کررہے تھے کہ تجھے قید کرلیں یا قتل کردیں اور یا (مکہ سے) نکال دیں اور سوچ بچار کررہے تھے (اور پروگرام بنارہے تھے) اور خدا بھی تدبیر کررہا تھا اور خدا بہترین چارہ جو (اور مدبّر) ہے۔

شان نزول

مفسّرین اور محدثین مندرجہ بالاآیت کو ان حوادث کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جن کے نتیجے میں رسول الله کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑھی، ان حوادث کی مختلف تعبیرات بیان ہوئی ہیں جو سب کی سب ایک ہی حقیقت تک جاپہنچتی ہیں اور وہ یہ کہ خدا نے معجزانہ طور پر پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو ایک ایک عظیم حتمی خطرے کے چنگل سے نجات دی، درّالمنثور میں اس سلسلے میں یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے۔

مختلف قبائل سے قریش اور اشراف مکّہ کا ایک گروہ جوع ہوا تاکہ وہ دارالندوة(۱) میں میٹنگ کریں اور انھیں رسول الله کی طرف سے درپیش خطرے پر غور وفکر کریں ۔

(کہتے ہیں ) اثنائے راہ میں انھیں ایک خوش ظاہر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شیطان تھا (یا کوئی انسان جو شیطانی روح وفکر کا حامل تھا)۔

انھوں نے اُس سےپوچھا تم کون ہو؟

کہنے لگا: اہلِ نجد کا بڑا بوڑھا ہوں مجھے تمھارے ارادے کی اطلاع ملی تو میں نے چاہا کہ تمھاری میٹنگ میں شرکت کرواور اپنا نظریہ اور خیرخواہی کی رائے پیش کرنے میں دریغ نہ کروں ۔

کہنے لگے: بہت اچھا اندر آجائیے۔

اس طرح وہ بھی دارالندوة میں داخل ہوگیا۔

حاضرین میں سے ایک نے ان کی طرف رُخ کیا اور (پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کہا: اس شخص کے بارے میں کوئی سوچ بچار کرو، کیونکہ بخدا ڈر ہے کہ وہ تم پر کامیاب ہوجائے گا (اور تمھارے دین اور تمھاری عظمت کو خاک میں ملادے گا)۔

ایک نے تجویز پیش کی: اسے قید کردو یہاں تک کہ زندان میں مَرجائے۔

بوڑھے نجدی نے اس تجویز پر اعتراض کیااور کہا: اس میں خطرہ یہ ہے کہ اس کے طرفدار ٹوٹ پڑیں گے اور کسی مناسب وقت اسے قید خانے سے چھڑاکر اس سرزمین سے باہر لے جائیں گے لہٰذا کوئی زیادہ بنیادی بات کرو۔

ایک اور نے کہا: اسے اپنے شہر سے نکال دو تاکہ تمھیں اس سے چھٹکارا مل جائے کیونکہ وہ تمھارے درمیان سے چلا جائے گا تو پھر جو کچھ بھی کرتا پھرے تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا اور پھر وہ دوسروں سے ہی سروکار رکھے گا۔

بوڑھے نجدی نے کہا: والله یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہے، کہا تم اُس کی شریں بیانی، طلاقتِ لسانی اور لوگوں کے دلوں میں اس کا نفوذ کرجانا نہیں دیکھتے؟ اگر ایسا کروگے تو وہ تمام دنیائے عرب کے پاس جائے گا اور وہ اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور وہ پھر وہ ایک انبوہِ کثیر کے ساتھ تمھاری پلٹے گا اور تمھیں تمھارے شہروں سے نکال باہر کرے گا اور بڑوں کو قتل کردے گا۔

مجمع نے کہا: بخدا! یہ سچ کہہ رہا ہے کوئی اور تجویز پیش سوچو۔

ابوجہل ابھی تک خاموش بیٹھا تھا، اُس نے گفتگو شروع کی اور کہا: میرا ایک نظریہ ہے اور اُس کے علاوہ کسی رائے کو صحیح نہیں سمجھتا۔

حاضرین کہنے لگے: وہ کیا ہے؟

کہنے لگا: ہم ہر قبیلے سے ایک بہادر شمشیر زن کا انتخاب کریں اور ان میں سے ہر ایک ہاتھ میں ایک کاٹ دینے والی تلوار دے دیں اور پھر وہ سب مل کر موقع پاتے ہی اُس پر حملہ کریں ۔ جب وہ اس صورت میں قتل ہوگا تو اس کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نہیں سمجھتا کہ بنی ہاشم تمام قبائل سے لڑسکیں گے لہٰذا مجبوراً اس صورت میں خون بہا پر راضی ہوجائیں گے اور یوں ہم بھی اس کے آزار سے نجات پاجالیں گے۔

بوڑھے نجدی نے (خوش ہوکر) کہا: بخدا! صحیح رائے یہی ہے جو اس جواں مرد نے پیش کی ہے میرا بھی اس کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں ۔

اس طرح یہتجویز پراتفاق رائے سے پاس ہوگئی اور وہ یہی مصمم ارادہ لے کر وہاں سے اٹھ گئے۔

جبرئیل نازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم ملا کہ وہ رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں ، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم رات کو غار ثور(۲) کی طرف روانہ ہوگئے اور حمک دے دے گئے کہ علی(علیه السلام) آپ کے بستر پر سوجائیں (تاکہ جو لوگ دروازے کی دراز سے بستر پیغمبر پر نظر رکھے ہوئے ہیں انھیں بستر پر سویا ہوا سمجھیں اور آپ کو خطرے کے علاقہ سے دور نکل جانے کی مہلت جائے)۔

جب صبح ہوئی گھر میں گھس آئے۔ انھوں نے جستجو کی تو حضرت علی(علیه السلام) کو بستر پیغمبر پر دیکھا) اس طرح سے خدا نے ان کی سازش کو نقش بر آب کردیا۔

وہ پکارے: محمد کہاں ہے؟

آپ نے جواب دیا: میں نہیں جانتا۔

وہ آپ کے پاوں کے نشانوں پر چل پڑے یہاں تک کہ پہاڑ (اوراس کی غار) کے پاس پہنچ گئے لیکن (انھوں نے تعجب سے دیکھا کہ مکڑی نے غار کے سامنے جالا تن رکھا ہے۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر وہ اس غار میں ہوتا تو غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا۔ اس طرح وہ واپس چلے گئے) پیغمبر تین دن تک غار کے اندر رہے (اور جب دشمن مکہ کے تمام بیابانوں میں آپ کو تلاش کرچکے اور تھک ہاکر مایوس پلٹ گئے تو آپ مدینہ کی طرف چل پڑے(۳)

____________________

۱۔ اشرافِ مکہ کی مشاورتی میٹنگیں اس مقام پر منعقد ہوا کرتی تھیں ۔

۲۔ مکہ کے قریب ایک غار کا نام ہے۔

۳۔ المنار ومجمع البیان، زیر نظر آیت کے ذیل میں بحوالہ درّ المنثور-

ہجرت کی ابتدائی

بعض کا نظریہ ہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد کی آیت کی پانچ آیات مکہ میں نازل ہوئی ہیں چونکہ یہ ہجرت پیغمبر کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن آیت کا طرزِ بیان گواہی دیتا ہے کہ یہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے چونکہ اس میں گذشتہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا اگرچہ واقعہ ہجرت کی طرف اشارہ کررہی ہے لیکن مسلّماً مدینہ میں نازل ہوئی۔ اس میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور مسلمانوں پر پروردگار کے ایک احسانِ عظیم اور نعمت عظمیٰ کو بیان کیا گیا ہے پہلے فرمایا گیا ہے: وہ وق تیاد کرو جب مشرکین مکہ نے سازش کی کہ تجھے قید کردیں یا قتل کردیں اور یا جلاوطن کردیں( وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اٴَوْ یَقْتُلُوکَ اٴَوْ یُخْرِجُوکَ ) ۔

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے لفظ ”مکر“ عربی زبان میں تدبیر، چارہ جوئی اور منصوبہ بندی کے معنی میں ہے نہ کہ اس مشہور معنی جو آج کل فارسی زبان میں مروّج ہے۔ اسی طرح لفظ ”حیلہ“ بھی لغت میں چارہ جوئی اور تدبیر کے معنی میں ہے لیکن فارسی زبان میں آج کل یہ لفظ خطرناک سازش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔(۱)

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: وہ منصوبہ بندی، چارہ جوئی اور تدبیر کرتے ہیں اور خدا بھی چارہ جوئی اور تدبیر کرتا ہے اور وہ بہترین منصوبہ ساز اور مدبّر ہے( وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللهُ وَاللهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ ) ۔

اگر ہم ہجرت کے واقعہ پر صحیح غور وفکر کریں تو اس نکتے پر پہنچیں گے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو ختم کرنے کے لئے اپنی پوری فکری اور جسمانی صلاحیتیں صرف کر چکہ تھے یہاں تک کے جب رسول خدا ان کے چنگل سے نیکل گئے تو انہوں نے آپ کی گفتاری کے لئے ایک سواونٹوں کا انعام مقرر کیا تھا جو کہ اس دور میں ایک بہت بڑاسرمایا تھا ۔بہت سے لوگوں نے مذہبی تعصب یا اتنا بڑا انعام حاصل کرنے کے لئے اطراف مکہّ کے کوہ بیابان چھان ڈالے تھے ۔یہاں تک کہ غار کے دھانے تک بھی آپہنچے لیکن خدا تعالیٰ نے ایک نہایت معمولی اور چھوٹے سے (مکڑی کی جالے )کے ذریعے ان کی سبب سازشیں نقش بر آپ کردیں ۔

اس طرح توجہ کرتے ہوئے کہ واقعہ ہجرت تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کی ایک نئے مرحلہ کا آغاز تھا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا نے عنکبوت کی چند تاروں کے ذریعے تاریخ انسانیت کی راہ کو بدل کے رکھ دیا ۔

یہ بات واقعہ ہجرت میں منحرف نہیں بلکہ تاریخ انبیاء نشاند ہی گرتی ہے کہ خداتعالیٰ متکبر ین کی سر کوب کے لئے ہمیشہ معمولی سے ذرائع کو کام میں لاتا ہے ۔کبھی آندھی کے ذریعے ،کبھی ابابیل جیسے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اور کبھی ایسی ہی دیگر چھوٹی چھوٹی چیزوں ذریعے ---- تا کہ خدا کی بے پایان قدرت کے سامنے انسان کی کمزوری اور ناتوانی واضح ہو جائے اورسرکشی کی فکر سے بازرکھے۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قید ،جلاوطنی اور قتل کی سارشیں صرف متکرین کی طرف پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے خلاف ہی نہیں بلکہ جابر اور سرکش لوگ ہمیشہ مصلحین کی زبان روکنے کے لئے اور معاشرے کے ستم رسیدہ دکھی عوام می ان کا اثر و نفوذ ختم کرنے کے لئے ان تین میں سے کسی نہ کسی حر بے کا سہارا لیتے رہے تھے ۔لیکن جیسے پیغمبر اسلام کے خلاف مشرکین مکہ کے اقوام کا نتیجہ برعکس نکلا اور وہ اسلام کے لئے ترقی اور نئی تحریک کامقدمہ اور تمہید بن گیا ایسے ظالمانہ اقدامات کا عام طور پر الٹا ہی نتیجہ نکلتا رہا۔(۲)

ٍ____________________

۱۔ اردو زبان میں بھی یہ لفظ آج کل اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں (مترجم)۔

۲-یہ بات جاذب نظر ہے کے تفسیر نمونہ کی تالیف کی رفتار پہلے بہت کم تھی لیکن اب جبکہ موجودہ اور ان سے پہلے اور بعد والی آیات کی تفسیر مہ آباد کی جلاوطنی کے دوران کے دوران (معدوم شاہ ایران کی حکومت میں ) لکھی جارہی ہے کام کی رفتار تیز ہوگئی ہے اور بالآخر ساتویں جلد مہ آباد اور انارک کی دو جلاوطنیوں کے دور میں اختتام پذیر ہوئی ہے(مولف)۔

(الحمد لله میں بھی ترجمہ پر اس وقت موفق ہوا ہوں جب کہ بہت سی قومیں میرے خلاف صف آراء ہیں جن میں شیخی جو مرزائیوں کی طرح اسلام کے دشمن ہیں پیش پیش ہیں (مترجم)۔