تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27733
ڈاؤنلوڈ: 2610


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27733 / ڈاؤنلوڈ: 2610
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۵۵،۵۶،۵۷،۵۸،۵۹

۵۵-( إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللهِ الَّذِینَ کَفَرُوا فَهُمْ لَایُؤْمِنُونَ )

۵۶-( اَلَّذِینَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِی کُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَایَتَّقُونَ )

۵۷-( فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُونَ )

۵۸-( وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْبِذْ إِلَیْهِمْ عَلیٰ سَوَاءٍ إِنَّ اللهَ لَایُحِبُّ الْخَائِنِینَ )

۵۹-( وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَبَقُوا إِنَّهُمْ لَایُعْجِزُونَ )

ترجمہ

۵۵ ۔ خدا کے نزدیک زمین پر چلنے والے بدترین جانور وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور ایمان نہیں لاتے۔

۵۶ ۔ وہ لوگ کہ جن سے تم نے پیمان لیا پھر وہ اپنے عہد کو توڑتے ہیں (اور پیمان شکنی اور خیانت سے) پرہیز نہیں کرتے۔

۵۷ ۔ اگر میدانِ جنگ میں پالو تو ان پر اس طرح حملہ کرو کہ گروہ جوان کے پیچھے ہیں منتشر ہوجائیں اور بکھر جائیں شاید وہ متذکر ہوں (اور عبرت حاصل کریں )۔

۵۸ ۔ اور جس وقت (نشانیاں ظاہر ہونے پر) تجھے کسی گروہ کی خیانت کا خوف ہو (کہ وہ اپنے عہد کو توڑ کر اچانک حملہ کردے گا) تو انھیں عادلانہ طور پر بتلادو (کہ ان کا پیمان لغو ہوگیا ہے) کیونکہ خدا خیانت کرنے کو دوست دوست نہیں رکھتا۔

۵۹ ۔ اور وہ کہ جنھوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے یہ تصور نہ کریں کہ وہ ان اعمال کے ہوتے ہوئے کامیاب ہوجائیں گے) اور وہ ہماری قلم رو کی سزا سے نکل جائیں گے) وہ ہمیں کبھی عاجز نہیں کرسکتے۔

شدّتِ عمل، پیمان شکنوں کے مقابلے میں

یہ آیات دشمنانِ اسلام کے ایک گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جنھوں نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی پوری پُر حوادث تاریخ میں مسلمانوں پر سخت ضربیں لگائیں اور بالآخر اس دردناک انجام کا سامنا کیا۔

یہ گروہ، وہی مدینہ کے یہودی تھے جنھوں نے بارہا رسول الله کے ساتھ عہدوپیمان باندھا اور پھر بزدلانہ طور پر اسے توڑ یا۔

یا آیات ایک مستحکم طریقہ بیان کررہی ہیں جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو اس پیمان شکن گروہ کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے، ایسا طریقہ کہ جو دوسروں کے لئے باعثِ عبرت ہو اور اس گروہ کے خطرے کو بھی دور کرے۔

پہلے قرآن اس جہاں کے زندہ موجودات میں سے بے وقعت ترین اور گھٹیا ترین وجود کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے:زمین پر چلنے والے بدترین لوگ خدا کے نزدیک وہ ہیں جنھوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اور اسی طرح اس پر چلتے رہتے ہیں اور کسی طرح ایمان نہیں لاتے( إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللهِ الَّذِینَ کَفَرُوا فَهُمْ لَایُؤْمِنُونَ ) ۔

”اَلَّذِینَ کَفَرُوا“ کی تعبیر شاید اس طرف اشارہ ہے کہ مدینہ کے بہت سے یہودی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ظہور سے پہلے اپنی کتب کی روشنی میں آپ سے لگاو اور ایمان کا اظہار کرتے تھے بلکہ آپ کے مبلغ اور لوگوں کو آپ کے ظہور کے لئے تیار کرتے تھے لیکن آپ کے ظہور کے بعد چونکہ انھیں اپنے مادی مفادات خطرے میں نظر آئے تو کفر کی طرف جھک گئے اور اس راہ میں انھوں نے ایسی شدّت کا مظاہرہ کیا کہ ان کے ایمان کی کوئی امید باقی نہ رہی جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ”( فَهُمْ لَایُؤْمِنُونَ ) “۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: یہ وہی لوگ تھے جن سے تم نے عہد وپیمان باندھا تاکہ کم از کم غیرجانبداری ہی کا لحاظ رکھیں اور مسلمانوں کو آزار وتکلیف پہنچانے کے درپے نہ ہوں اور دشمنانِ اسلام کی مدد نہ کریں لیکن انھوں نے ہر مرتبہ اپنا پیمان توڑدیا( اَلَّذِینَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِی کُلِّ مَرَّةٍ ) ۔(۱)

نہ انھیں خدا سے کوئی شرم وحیا آتی تھی اور نہ وہ اس کے فرمان کی مخالفت سے ڈرتے تھے اور نہ ہی وہ انسانی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے کوئی پرواہ کرتے تھے( وَهُمْ لَایَتَّقُونَ ) ۔

”ینقضون“ ”یتقون“فعل مضارع کا صیغہ ہیں اور استمرار پر دلالت کرتے ہیں ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے کئی مرتبہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے کئے ہوئے عہد وپیمان توڑے تھے۔

اگلی آیت میں اس پیمان شکن، بے ایمان اور ہٹ دھرم گروہ سے طرزِ سلوک کے بارے میں قرآن کہتا ہے: اگر انھیں میدانِ جنگ میں پاو اور وہ مسلح ہوکر تمھارے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں تو ان کی ایسے سرکوبی کرو کہ جو گروہ ان کے پیچھے ہوں وہ عبرت حاصل کریں اور منتشر ہوجائیں اور اپنے آپ کو پیش نہ کریں( فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ ) ۔”تَثْقَفَنَّهُمْ “ ”ثقف“ (بروزن ”سقف“ کے مادہ سے ہے اس کا مطلب ہے ”کسی چیز کو دقّت سے اور تیزی سے سمجھنا“۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان کی تنقید اور اعتراضات سے تیزی سے اور دقتِ نظر سے آگاہی حاصل کرو اور اس سے پہلے کہ تم پر وہ بے خبری میں کوئی جنگ ٹھونس دیں بجلی کی طرح ان پر جاپڑو۔

”شرد“ ”تشرید“ کے مادہ سے ”حالتِ اضطراب میں منتشر کرنے“ کے معنی میں ہے۔ یعنی ان پر اس طرح سے حملہ کرو کہ دشمنوں اور پیمان شکنوں کے دیگر گروہ منتشر ہوجائیں اور حملہ کرنے کی نہ سوچیں ، یہ حکم اس بناپر ہے کہ دوشرے دشمن بلکہ آئندہ کے دشمن عبرت حاصل کریں اور ججنگ کی طرف بڑھنے سے اجتناب کریں اور اسی طرح جو لوگ مسلمان سے عہد وپیمان رکھتے ہیں یا آئندہ کوئی پیمان باندھیں تو عہد وپیمان توڑنے سے اجتناب کریں اور شاید سب کے سب سمجھ سکیں اور متذکر ہوں( لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

”اور اگر وہ تیرے سامنے میدان میں نہ آئیں لیکن ان سے ایسے آثار وقرائن ظاہر ہوں کہ وہ پیمان شکنی کے درپے ہیں اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ خیانت کریں گے اور بغیر اطلاع کے ایک طرفہ طور پر پیمان توڑدیں گے تو تم پیش قدمی کرو اور انھیں بتاو کہ ان کا پیمان لغو ہوچکا ہے۔( وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْبِذْ إِلَیْهِمْ عَلیٰ سَوَاءٍ )

ایسا نہ ہو کہ ان کا پیمان لغو ہونے کی اطلاع دیئے بغیر ان پر حملہ کردو کیونکہ خدا خیانت کرنے والوں اور ان لوگوں کو جو اپنے پیمان میں خیانت کرتے کی راہ اختیار کریں دوست نہیں رکھتا( إِنَّ اللهَ لَایُحِبُّ الْخَائِنِینَ ) ۔

اگرچہ مندرجہ بالا آیت میں رسول الله کو اجازت دی گئی ہے کہ دشمن کی طرف سے خیانت اور ایمان شکنی کے خوف کے موقع پر ان کے پیمان کو لغو قرار دیں لیکن واضح ہےکہ یہ خوف بغیر دلیل کے نہیں ہوسکتا لہٰذا اس سلسلے میں یہ بات حتمی ہے کہ جب وہ کچھ ایسے اعمال کے مرتکب ہوں جو نشاندہی کریں کے وہ پیمان شکنی،دشمن سے مل کر سازش کرنے اور غفلت کی حالت میں حملہ کرنے کی فکر میں ہیں تو پھر اتے قرائن اور علاات مہیّا ہوجانے پر اس بات کی اجازت ہے کہ پیغمبر ان کے پیمان کے لغو ہوجانے کااعلان کریں ۔

”فَانْبِذْ إِلَیْھِمْ“ ”اِنْبَاذْ “ کے مادہ سے پھینکنے یا اعلان کرنے اور بتانے کے معنی میں ہے یعنی ان کا پیمان ان کی طرف پھینک دو اور لغو قرار دے دو اور اس کے لغو ہونے کی انھیں اطلاع دے دو۔

”علیٰ سواء “ کی تعبیر یا تو اس معنی میں ہے کہ جس طرح انھوں نے اپنے پیمان کو لغوکردیا ہے تم بھی اپنی طرف سے لغو قرار دے دو، یہ ایک عادلانہ اور مساویانہ حکم ہے یا یہ اس معنی میں ہے کہ ایک واضح غیر مخفی اور ہر قسم کے مکر وفریب سے پاک طریقے سے اعلان کردو۔

بہرحال زیرِ نظر آیت جہاں مسلمانوں کو تنبیہ کررہی ہے کہ وہ کوشش کریں کہ پیمان شکن ان پر حملہ آور نہ ہوجائیں وہاں انھیں معاہدوں کی حفاظت کرنے یا عہدو پیمان لغو کرنے کے سلسلے میں انسانی اصولوں کو ملحوظ رکھنے کے بارے میں بھی کہہ رہی ہے۔

زیرِ بحث آخری آیت میں روئے سخن پیمان شکن گروہ کی طرف کرتے ہوئے انھیں تنبیہ کی گئی ہے کہ ”کہیں ایسا نہ ہو کہ کفر اختیار کرنے والے لوگ یہ تصور کریں کہ وہ اپنے خیانت آمیز اعمال کے ذریعے کامیاب ہوگئے ہیں اور ہماری قدرت اور سزا وعذاب کے قلمرو سے نکل گئے ہیں “( وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَبَقُوا ) ۔ وہ ہمیں ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور ہمارے اجاطہ قدرت سے نہیں نکل سکتے( إِنَّهُمْ لَایُعْجِزُونَ ) ۔

____________________

۱۔ ”من“ ”عاہدت منھم“ میں یا تبعیض کے معنی میں یعنی جزیرہ نمائے عرب کے یہودیوں کے ایک گروہ یا مدینہ کے یہودیوں کے سرداروں سے تم نے پیمان باندھا تھا یا اصلاح کے مطابق ”صلہ“ کے لئے ہے اس کا معنی ”عاہدتھم“ (تونے ان سے عہد یا) ہوگا یہ بھی احتمال ہے کہ یہ جملہ ”اخذ العهد منهم “ (تو نے ان سے عہد لیا) کے معنی ہو۔

آیات ۶۰،۶۱،۶۲،۶۳،۶۴

۶۰-( وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِهِمْ لَاتَعْلَمُونَهُمْ اللهُ یَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَاٴَنْتُمْ لَاتُظْلَمُونَ )

۶۱-( وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ )

۶۲-( وَإِنْ یُرِیدُوا اٴَنْ یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللهُ هُوَ الَّذِی اٴَیَّدَکَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ )

۶۳-( وَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ اٴَنفَقْتَ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا مَا اٴَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَکِنَّ اللهَ اٴَلَّفَ بَیْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ )

۶۴-( یَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللهُ وَمَنْ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ )

ترجمہ

۶۰ ۔ ان دشمنوں کے مقابلے کے لئے جتنی ”قوت“ ممکن ہوسکے مہیّا کرو اور تیّار رکھو اسی طرح (میدان جنگ کے لئے) طاقتور اور تجربہ کار گھوڑے (بھی تیار رکھو) تاکہ اس سے خدا کے اور اپنے دشمن کو ڈرا سکو اور (اسی طرح) ان کے علاوہ دوسرے گروہ کو کہ جنھیں تم نہیں پہچانتے اور خدا انھیں پہچانتا ہے اور جو کچھ تم راہ خدا میں (اسلامی دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے) خرچ کرو گے تمھیں لوٹا دیا جائے گا اور تم پر ظلم وستم نہیں ہوگا۔

۶۱ ۔ اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی بابِ صلح کی طرف داخل ہو اور خدا پر تکیہ کرو کہ وہ سننے اور جاننے والا ہے۔

۶۲ ۔ اور اگر وہ تمھیں دھوکا دینا چاہیں تو خدا تمھارے لئے کافی ہے اور وہی ہے کہ جس نے تجھے اپنی اور مومنین کی مدد سے تقویت پہنچائی۔

۶۳ ۔ اور ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا کردی اور اگر وہ دلوں میں الفت پیدا کرنے کے لئے روئے زمین کی تمام چیزوں کو صرف کردیتے تو ایسا ہرگز نہ کرسکتے لیکن خدا نے ان کے درمیان الفت پیدا کردی وہ توانا اور رحیم ہے۔

۶۴ ۔ اے نبی! خدا اور وہ مومنین جو تیری پیروی کرتے ہیں تیری حمایت کے لئے کافی ہیں ۔

جنگی طاقت میں اضافہ اور اس کا مقصد

اسلامی جہاد کے سلسلے میں گذشتہ احکام کی مناسبت سے زیرِ نظر پہلی آیت میں مسلمانوں کی توجہ زندگی کے لئے ایک بنیادی قانون کی طرف دلائی گئی ہے جو ہر زمانے میں اور ہر وقت نظر میں رہنا چاہیے اور وہ ہے دشمن کے مقابلے میں کافی دفاعی تیاری کا لزوم۔

پہلے قرآن کہتا ہے: اور دشمن کے مقابلے میں جس قدر ممکنہوسکے قوت تیار رکھو( وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ) ۔

یعنی اس انتظار میں نہ رہو کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے گا اس وقت اس کے مقابلے میں تیاری کروگے بلکہ پہلی ہی دشمن کے احتمالی حملے کے مقابلے میں کافی تیاری ہونا چاہیے۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اور اسی طرح طاقتور اور آزمودہ کار گھوڑے میدانِ جہاد کے لئے فراہم رکھو( وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ ) ۔

”رباط“ کا معنی ہے ”باندھنا اور پیوند لگانا“ زیادہ تر یہ لفظ کسی جگہ سے کسی جانور کے حفاظت کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، بعدازاں اسی مناسبت سے حفاظت اور نگرانی کرنے کے عمومی معنی استعمال ہونے لگا۔ ”مرابطہ“ سرحدوں کی حفاظت کرنے کو کہتے ہیں ، اسی طرح ہر چیز کی حفاظت کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور جانوروں کے باندھنے اور حفاظت کرنے کی جگہ ”رباط“ کہتے ہیں ، اسی طرح سرائے کو عرب ”رباط“ کہتے ہیں ۔

چند قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ ”قوة“ کا مفہوم:

ایک مختصر سے جملے کے ذریعے زیرِ نظر آیت میں اسلامی جہاد، مسلمانوں کی بقاء اور ان کی عظمت وافتخار کی حفاظت کے لئے ایک بنیادی اصول بنایا گیا ہے، آیت کی تعبیر اس قدر وسیع ہے کہ ہر زمان ومکان پر پوری طرح سے منطبق ہوتی ہے۔

”قوة“ کس قدر چھوتا اور پرمعنی لفظ ہے، یہ نہ صرف ہر زمانے کے جنگی وسائل اور جدید اسلحہ پر محیط ہے بلکہ ان تمام توانائیوں اور طاقتوں کا مفہوم بھی لئے ہوئے جو کسی شکل میں دشمن پر کامیابی کے لئے موثر ہیں چاہے وہ مادی قوتیں ہوں یا معنوی۔

جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ دشمن پر کامیابی اور اپنی بقا کی حفاظت جنگی ہتھیاروں کی تعداد سے وابستہ ہے وہ انتہائی غلطی پر ہیں کیونکہ ہم نے اپنے زمانے کے انہی میدانوں میں ایس قوموں کو دیکھا ہے جو تھوڑی سی تعداد اور کم اسلحہ سے زیادہ طاقتور اور زیادہ اسلحہ کی مالک قوموں کے مقابلے میں کامیاب ہوئی ہیں ، مثلاً الجزائر کی مسلمان قوم فرانس کی طاقتور حکومت کے مقابلے میں ، لہٰذا ہر زمانے کے نہایت بہترین ہتھیاروں سے ایک قطعی اسلامی فریضے کے طور پر فائدہ اٹھانے کے علاوہ مجاہدین کی ہمت مردانہ اور قوتِ ایمان کو بھی بروئے کار لایا جانا چاہیے جو کہ اہم ترین قوت وطاقت ہے۔

اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی قوتیں بھی ”قوة“ کے مفہوم میں داخل ہیں اور دشمن پر کامیابی کے حصول کے لئے بہت موثر ہیں ۔ ان میں بھی غفلت نہیں برتنا چاہیے۔

یہ امر جاذبِ نظر ہے کہ اسلامی روایات میں لفظ ”قوة“ کی کئی تفاسیر کی گئی ہیں کہ جو اس لفظ کے مفہوم کی وسعت کی ترجمان ہیں ۔ مثلاً بعض روایات میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ !الہ وسلّم نے فرمایا:

قوت سے مراد تیر ہے۔(۱)

دوسری روایت میں جو تفسیر علی بن ابراہیم آئی ہے اس میں ہے کہ:

”قوة“ سے مراد ہر قسم کااسلحہ ہے۔

ایک اور روایت جو تفسیر عیاشی میں آئی ہے میں ہے:

”قوة“ سے مراد تلوار اور ڈھال ہے۔

ایک اور روایت جو ”من لایحضرہ “ میں آئی ہے میں ہے:”منه الخضاب السواد

آیت میں ”قوة“ سے ایک مصداق سفید بالوں کو سیاہ خضاب کرنا بھی ہے۔

یعنی اسلام نے سن رسیدہ مجاہد کے بالوں کے خضاب تک کو نظر انداز نہیں کیا تاکہ دشمن اس سے مرعوب ہو، یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ زیرِ نظر آیت میں ”قوة“ کا مفہوم کس قدر وسیع ہے۔

اس بناپر وہ لوگ جنھوں نے صرف کچھ روایات دیکھی ہیں اور انھوں نے لفظ ”قوة“ کو صرف ایک مصداق میں محدود سمجھا ہے وہ عجیب اشتباہ میں گرفتار ہوئے ہیں ۔

لیکن افسوس ہے کہ مسلمان ایسے صریح اور واضح فرمان کے باوجود گویا ہر چیز ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں ، انھیں دشمنوں کے مقابلے میں نہ تو معنوی اور روحانی قوتیں فراہم کرنے سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی اقتصادی ، سیاسی، ثقافتی اور فوجی قوتیں مہیا کرنے سے دلچشپی، تعجب کی بات یہ ہے کہ اس عظیم غفلت اور ایسے صریح حکم کو پس پشت ڈالنے کے باوجود ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اپنی پسماندگی کا گناہ اسلام کی گردن پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اسلام میں پیش رفت اور کامیابی کا دین ہے تو پھر مسلمان کیوں پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہیں ۔

ہمارا نظریہ ہے کہ اس عظیم اسلامی حکم ”( وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ) “ کی ہر جگہ ایک عمومی اور عوامی شعار کی حیثیت سے تبلیغ ہو اور چھوٹے بڑے، عالم وجاہل، مولف ومقرر، فوجی اور افسر، کسان اور تاجر یعنی تمام مسلمان اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں تو ان کی پسماندگی کی تلافی کے لئے کافی ہے۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو خبر دی کہ یمن میں نیا مشینی ہتھیار تیار ہوا ہے، آپ نے فوراً کسی کو یمن کی طرف بھیجا تاکہ وہ اسے لشکرِ اسلام کے لئے مہیّا کرے۔

جنگ اُحد کے واقعات میں ہے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے جب بت پرستوں کا یہ نعرہ سنا کہ:”اٴعل هبل، اٴعل هبل

یعنی ہبل کی جے، ہبل کی جے۔

تو اس کے مقابلے کے میں مسلمانوں کو اس کی سرکوی کرنے والا اور زیادہ موثر نعرہ سکھایا اور ان سے یہ نعرہ بلند کرنے کو کہا:’‘اللّٰه اٴعلیٰ واٴجل

خدا ہر چیز سے برتر اور بالاتر ہے۔

اور جب بت پرستوں نے یہ نعرہ لگایا کہ:”ان لنا العزّیٰ ولا عزی لکم

ہمارے لئے عزّیٰ بت ہے تمھارے لئے عزّیٰ نہیں ہے۔

تو اس کے مقابلے میں آپ نے مسلمانوں کو اس نعرے کی تعلیم دی:”اللّٰه مولانا ولا مولاکم

خدا ہمارا ولی وسہارا ہے اور تمھارا کوئی سہارا نہیں ۔

یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ رسول الله اور مسلمانوں دشمن کے مقابلے میں ایک زور دار نعرے کی تاثیر تک سے غافل نہ تھے اور اپنے لئے بہترین نعرے کا انتخاب کرتے تھے۔

اسلام کا ایک اہم فقہی حکم تیراندازی اور گھڑ دوڑ کے مقابلے(۲) کے بارے میں ہے، یہاں تک کہ اس سلسلے میں مالی فتح وشکست تجویز کی گئی ہے اور اس مقابلے کی دعوت دی گئی ہے، دشمن کے مقابلے میں تیار رہنے سے متعلق اسلام کی گہری نظریہ کا یہ ایک نمونہ ہے۔

۲ ۔ ”اسلام“ کے دائمی ہونے کی ایک دلیل:

ایک اور اہم نکتہ مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے جو کہ دین اسلام کے عالمی ، دائمی اور جاودانی ہونے پر ایک دلیل ہے، اس دین کے مفاہیم، معانی اور مضامین اس طرح پھیلے ہوئے اور وسیع ہیں کہ اتنا طویل زمانہ گزرنے کے باوجود ان میں کہنگی اور فرسودگی کا نشان نظر نہیں آتا۔ ”( وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ) “ کا جملہ ہزار سال پہلے بھی ایک زندہ مفہوم رکھتا تھا اور آج بھی اسی طرح ہے اور دس سال ہزار سال آئندہ بھی اسی طرح زندہ باقی رہے گا کیونکہ جو ہتھیار اور طاقت آئندہ پیدا ہوگی وہ ”قوة“ کے جامع لفظ میں پوشیدہ ہے، ”ما استطعتم“ عام ہے اور ”قوة“ جوکہ نکرہ کی شکل میں آیا ہےاس کی عمومیت کو تقویت دیتا ہے اور ہر قسم کی قوت وطاقت پر محیط ہے۔

۳ ۔ ”قوة“ کے بعد گھوڑوں کے ذکر کا مقصد:

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لفظ ”قوة“ کے ذکر کے بعد کہ جو اس قسم کا وسیع مفہوم رکھتا ہے تجربہ کار جنگی گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس سوال کا جواب ایک جملے سے واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ مندرجہ بالا آیت نے جہاں تما م زمانوں کے لئے ایک وسیع حکم یان کیا ہے وہاں ایک خاص حکم رسول الله کے زمانہ اور نزولِ قرآن کے وقت کا بھی بیان کردیا ہے در حقیقت ایک کُلی اور عمومی مفہوم کوایک واضح عملی مثال سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ گھوڑا آج کے میدانِ جنگ میں ٹینکوں ، بکتر بند گاڑیوں ، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ہوتے ہوئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا لیکن اُس زمانے میں بہادر وشجاع جنگو سپاہیوں کے لئے یہ ایک چست اور تیز رفتار ذریعہ شمار ہوتا تھا۔

۴-جنگی طاقت میں اضافے کا اصلی مقصد

اس حکم کے بعد قرآن اس موضوع کے منطقی اور انسانی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مقصد یہ نہیں ہے کہ اصل دنیا کو یا اپنی قوم کو طرح طرح کے تباہ کن اور ویران گر ہتھیاروں سے تباہ وبرباد کردو اور آبادیوں اور زمینوں کو ویران کردو، مقصد یہ نہیں کہ دوسروں کی زمینوں اور مال واسباب کو لوٹو اور یہ بھی مقصد نہیں کہ دنیا میں غلامی اور استعمار کے اصول رائج کردو بلکہ مقصد یہ ہے کہ ”ان وسائل کے ذریعے خدا کے اور اپنے دشمن کو ڈراو“ (تُرْھِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ)۔ کیونکہ زیادہ تر دشمن ایسے ہیں کہ جن کے کان منطقی حرف اور انسانی اصول نہیں سنتے وہ قوت وطاقت کی زبان کے سوا دوسری کوئی زبان نہیں سمجھتے۔

اگر مسلمان کمزور ہوں تو تمام تر بوجھ انہی پر ڈالے جائیں گے لیکن اور وہ کافی مقدار میں قوت وطاقت حاصل کرلیں تو پھر حق وعدالت اور استقلال وآزادی کے دشمن پریشان ہوجائیں گے اور اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں گے۔

اس وقت جب کہ میں اس آیت کی تفسیر لکھ رہا ہوں فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک کے اہم حصّے اسرائیل فوجوں کے زیرِ تسلط آچکے ہیں ۔

حالیہ دنوں میں جنوبی لبنان میں جو بزدلانہ حملہ ہوا ہے اس سے ہزارہا خاندان دربدر ہوگئے ہیں ، سینکڑوں قتل ہوئے، آبادیاں وحشتناک ویرانوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اس سے اس غم انگیز داستان میں نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔

دنیا کے عام لوگوں کے افکار نے اس پور عمل کی مذت کی ہے یہاں تک کہ اسرائیل کے دوست نے بھی دوسروں ہی کی آواز میں آواز ملائی ہے، اقوام متحدہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے اسرائیل کو یہ سب زمینیں خالی کرنے کا حکم دیا ہے لیکن چند ملین پر مشتمل اس قوم کے کان ان میں سے کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں ، ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ اُن کے پاس طاقت وقوت ہے، اسلحہ ہے، بڑے پیمانے پر جنگی تیاری ہے اور طاقتور حامی ہیں ، اس جارحیت کے لئے انھوں نے سالہا سال سے تیاری کی ہوئی ہے، وہ واحد منطق جس کے ذریعے انھیں جواب دیا جاسکتا ہے، یہی ہے۔

( وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ -----تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ )

یوں لگتا ہے جیسے یہ آیت ہمارے زمانے میں اور ہماری آج کی کیفیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ اس طرح طقتور بنو کہ دشمن وحشت اور حیرت میں پڑجائے اور غصب شدہ زمینوں کو واپس کردے اور اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ جائے۔

یہ جاذبِ توجہ ہے کہ لفظ ”( عَدُوَّ اللهِ ) “ کو ”( عَدُوَّ کُم ) “سے ملاکر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاد اسلامی دفاع میں شخصی اغراض کو کوئی دخل نیہں بلکہ مقصد اسلام کے مکتبِ انسانی کی حفاظت ہے، وہ کہ جن کی تم سے دشمنی خدا سے دشمنی کی شکل میں ہے یعنی جوو حق وعدالت، ایمان وتوحید انسانی پروگراموں سے دشمنی رکھتے ہوں وہ تمھارے حملوں اور تمھاری دفاعی تیاریوں کا ہدف ہوں ۔

درحقیقت یہ تعبیر ”( فی سبیل الله ) “یا ”( جهاد فی سبیل الله ) “ کی تعبیر سے مشابہ ہے جو نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی جہاد اور دفاع نہ تو گذشتہ سلاطین کی کشور کشائی کی مانند ہے اور نہ آج کی سامراجی اور استعماری طاقتوں کی توسیع طلبی کی طرح بلکہ سب کچھ خدا کے لئے، خدا کی راہ میں اور حق وعدالت کے احیاء کے راستے میں ہے۔

پھر مزید فرمایا گیا ہے: ان دشمنوں کے علاوہ جنھیں تم پہچانتے ہو تمھارے اور دشمن بھی ہیں جنھیں تم نہیں پہچانتے اور وہ تمھاری زیادہ جنگی تیاری سے ڈرجائیں گے اور اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں گے( وَآخَرِینَ مِنْ دُونِهِمْ لَاتَعْلَمُونَهُمْ ) ۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۱۶۴،۱۶۵-

۲۔ ہمارے ہاں جو ریس وغیرہ مروّج ہے اس کا اسلامی سبق ورمایہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں کیونکہ وہاں تو اصل مقابلہ دشمن کے مقابلے میں جنگی مشق کے طور پر ہوتا ہے وہاں پہلے سے دونوں طرف سے یا ایک طرف سے انعام مقرر کیا جاتا ہے کہ جو جیت جائے گا صرف اتنا انعام ملے گا جبکہ مغرب کی شیطانی تہذیب سے آئی ہوئی اس ریس میں تولوگ آپس میں جواء رکھتے ہیں ۔ (مترجم)