تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27734
ڈاؤنلوڈ: 2612


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27734 / ڈاؤنلوڈ: 2612
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

دو قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ دوسرے دشمن کونسے تھے؟

مفسرین نے دوسرے گروہ سے متعلق کئی احتمالات ذکر کئے ہیں ، بعض نے اسے مدینہ کے یہودیوں کے ایک گروہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو دشمنی کو چھپائے رکھتے تھے، بعض دوسرے مفسّرین نے مسلمانوں کے آئندہ دشمنوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے جیسا کہ رومی اور ساسانی سلطنتیں تھیں کہ جن سے جنگ کے متعلق ان دنوں مسلمانوں کو احتمال نہ تھا لیکن جو کچھ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اس سے مراد منافق ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں ناشناختہ طور پر موجود تھے اور سپاہِ اسلام کی مکمل تیاری کی صورت میں وہ بھی پریشان ہوجاتے تھے اور اپنے ہاتھ پاوں سمیٹنے لگتے تھے، اس امر کی شاہد سورہ توبہ کی آیت ۱۰۱ ہے جس میں ہے:( وَمِنْ اٴَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَاتَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ )

بعض اہلِ مدینہ نفاق اور دوزخی پالیسی میں جسور اور سرکش ہیں کہ جنھیں تم نہیں جانتے لیکن ہم انھیں جانتے ہیں ۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے اسلام کے تمام چھپے ہوئے دشمن مراد ہوں چاہے وہ منافقین ہوں یا غیر منافقین۔

۲ ۔ دورِ حاضر کے لئے ایک حکم:

آیت آج کے مسلمانوں کے لئے بھی اپنے اندر ایک حکم لئے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف اپنے ظاہری دشمنوں کو بھی نظر میں رکھو اور جس قدر طاقت وقوت لازمی ہے زیادہ سے زیادہ فراہم کرلو۔

اگر مسلمان فی الحقیقت اس نکتہ کو نظر میں رکھتے تو کبھی طاقتور دشمنوں کے غافلانہ حملوں کا شکار نہ ہوتے۔

آیت کے آخر میں ایک اور اہم موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ قوت وطاقت، سازوسامان، اسلحہ اور مختلف قسم کے ضروری دفاعی وسائل کے لئے سرمائے کی ضرورت ہے، لہٰذا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تمام افراد کے تعاون وہمکاری سے یہ مالی سرمایہ اکھٹا کریں ، فرمایا گیا ہے: جان لو کہ جو کچھ تم راہ خدا میں خرچ کرتے ہو تمھیں پلٹادیا جائے گا( وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ ) ۔اور وہ سارے کا سارا تمھیں پہنچے گا اور تم پر کسی قسم کا ظلم نہیں گا( وَاٴَنْتُمْ لَاتُظْلَمُونَ ) ۔

یہ جزا تمھیں اس جہان کی زندگی میں بھی اسلام کی کامیابی اور شوکت وعظمت کی صورت میں ملے گی کیونکہ ایک کمزور قوم کا مالی سرمایہ بھی خطرے میں پڑجائے گا اور وہ اپنے امن وامان، راحت وآرام اور استقلال واستحکام کو بھی ہاتھ سے دے بیٹھے گی، اس بناپر وہ سرمایہ جو اس راہ میں صرف ہوگا وہ ایک راستے سے بالاتر سطح خرچ کرنے والوں کی طرف پلٹ آئے گا، نیز دوسرے جہاں میں رحمتِ پروردگار کے جوار میں عظیم ترین ثواب وجزا تمھارے انتظار میں ہوگی لہٰذا اس صورت میں نہ صرف یہ کہ تم پر ظلم وستم نہیں ہوگا بلکہ تمھیں بہت زیادہ فائدہ اور نفع بھی حاصل ہوگا۔

یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ مندرجہ بالا جملے میں لفظ ”شیء“ استعمال ہوا ہے جو ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے یعنی ہر قسم کی چیز چاہے وہ جان ہو یا مال، قوتِ فکر ہو یا قدرِ منطق یا کوئی بھی دوسرا سرمایہ مسلمانوں کی دفاعی اور فوجی بنیاد کی تقویت کے لئے دشمن کے مقابلے میں خرچ کیا جائے تو وہ خدا سے پوشیدہ نہیں رہے گا اور خدا اسے محفوظ رکھے گا اور بوقتِ ضرورت تمھیں دے گا۔

واٴنتم لاتظلمون “ کے جملہ کی تفسیر میں بعض مفسّرین نے یہ احتمال بھی بیان کیا ہے کہ اس کا عطف ”ترھبون“ پر ہے یعنی اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی توانائی فراہم کولو تو وہ تم پر حملہ کرنے سے گھبرائیں گے اور تم پر ظلم کرنے کی قدرت ان میں نہیں ہوگی لہٰذا تم پر ظلم وستم نہیں ہوگا۔

جہادِ اسلامی کا مقصداور اس کے ارکان دوسرا نکتہ جو وزیر بحث آیت سے معلوم ہوتا ہے اور بہت سے سوالات اورمعترضین اور بے خبر لوگوں کے اعتراضات کاجواب ہوسکتا ہے وہ اسلامی جہاد کی صورت، ہدف اور پرگرام ہے، آیت واضح طور پر کہتی ہے کہ مقصد یہ نہیں ہے کہ انسانوں کو قتل کردو اور نہ ہدف یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالو بلکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اصل ہدف یہ ہے دشمن ڈریں اور وہ تم پر زیادتی نہ کریں ، زبردستی کوئی بات نہ منوائیں ، نیز تمھاری ساری کوشش کا نتیجہ خدا اور حق وعدالت کے دشمنوں کے شر کو کم کرنا ہو۔

کیا مخالفین جہاد اسلامی کے بارے میں قرآن کی اس صراحت کو نہیں سنتے کہ جو اِس آیت میں موجود ہے۔ یہ لوگ پے درپے اسلامی قانون پر حملہ کرتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کا دین ہے ، کبھی کہتے ہیں کہ اسلام اپنے عقیدے اور نظریے کو ٹھونسنے کے لئے ہتھیاروں کو ذریعہ بناتا ہے اور کبھی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی تاریخ کو کشور کشائی کرنے والوں سے تشبیہ دیتے ہیں ، ہمارے نظریے کے مطابق پر ایسے سب اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ وہ قرآن کی طرف پلٹیں اور اس پروگرام کے اصلی ہدف پر غور وفکر کریں تاکہ ان پر تمام چیزیں واضح ہوجائیں ۔

صلح کے آمادگی گذشتہ آیت میں اگرچہ اسلامی جہاد کے مقصد کو کافی حد تک نمایاں کرتی ہے تاکہ بعد والی آیت کہ جو دشمن سے صلح کے بارے میں بحث کرتی ہے اس حقیق تکو واضح کررہی ہے ، فرمایا گیا ہے: اگر وہ صلح کی طرف میلان ظاہر کریں تو تم بھی ان کا ہاتھ جھٹک نہ دو اور آما دگی ظاہر کرو( وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا ) ۔

مندرجہ جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اگر وہ صلح کی طرف پَر پھیلائیں تو تم بھی اس کی طرف پَر پھیلاو کیونکہ ”جَنَحُوا“ ”جنوح“کے مادہ سے مائل ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے اور پرندوں کے پروں کو بھی ”جناح“ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا ہر پر وبال ایک طرف مائل ہو تا ہے۔اس احتمال کے پیش نظرآیت کی تفسیر کے لئے اصل لغت سے بھی استفادہ ہوسکتا ہے اور اس لفظ کے ثانوی مفہوم سے بھی۔

چونکہ عام طور پر پیمانِ صلح پر دستخط کرتے وقت لوگ تردد میں گرفتار ہوجاتے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ صلح کی تجویز قبول کرنے میں شک وتردد کو اپنے راہ نہ دو اگر اس کی شرائط منطقی، عاقلانہ اور عدلانہ ہوں تو انھیں قبول کرلو ”اور خدا پر توئکل کرو کیونکہ خدا تمھاری گفتگو بھی سنتا ہے اور تمھاری نیتوں سے بھی آگاہ ہے( وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) ۔

لیکن اس کے باوجود رسول الله اور مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے صلح کی تجاویز میں مکر وفریب بروئے کار لایا گیا ہو اور صلح کو دشمن اچانک حملے کے لئے مقدمہ کے طور پر استعمال کریں یاان کا مقصد جنگ میں تاخیر کرنے سے ، زیادہ قوت فراہم کرنا ہو تاہم اس امر سے پریشان نہ ہو کیونکہ خدا تمھارے کام کی کفایت کرے گا اور وہ ہر حالت میں تمھارا پشتی بان ہے( وَإِنْ یُرِیدُوا اٴَنْ یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللهُ ) ۔ تمھاری سابقہ زندگی بھی اس حقیقت پر گواہ ہے کیونکہ ”وہی ہے جس نے اپنی مدد سے اور پاک دل مومنین کی مدد سے تمھاری تقویت کی تھی( هُوَ الَّذِی اٴَیَّدَکَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ ) ۔ انھوں نے بارہا تمھارے لئے عظیم خطرے پیدا کئے اور ایسی خطرناک سازشیں کی کہ عام طریقے سے انھیں ناکام بنانا ممکن نہیں تھا لیکن اس نے ان تمام مواقع پر تمھاری حفاظت کی، علاوہ ازیں یہ مخلص مومنین کہ جو تمھارے گردو پیش تھے کسی قسم کی فداکاری سے دریغ نہیں کرتے، پہلے یہ بکھرے ہوئے اور ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے ان پر نورِ ہدیات کا چھڑکاو کیا ”اور ان کے دلوں کے اندر الفت پیدا کی( وَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ ) ۔

سالہا سال سے مدینہ میں اوس اور خزرج قبائل میں خونریزی جاری تھی اور ان کے بغض وعداوت سے بھر ہوئے تھے، حالت یہ تھی کہ کسی شخص کو یہ یقین نہ تھا کہ وہ کسی روز ایک دوسرے کی طرف دوستی اور محبت کا ہاتھ بڑھائیں گے اور ایک ہی صف میں شامل ہوں گے لیکن قادر متعال خدا نے اسلام کے پرتو اور نزولِ قرآن کے سائے میں یہ کام انجام دیا، اوس وخزرج کو جو انصار میں سے تھے انہی کے درمیان ایسی کشمکش نہ تھی بلکہ رسول الله کے مہاجر اصحاب جو مکہ سے آئے تھے وہ بھی اسلام سے پہلے ایک دوسرے سے الفت اور دوستی نہیں رکھتے تھے اور اکثر ان کے سینے ایک دوسرے کے لئے کینے سے بھرے رہتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے ان سب کینوں کو دھوڈالا اور اس طرح ختم کردیا کہ بدر کے تین سو تیرہ مجاہدین کہ جن میں تقریباً اسی مہاجرین اور باقی انصار تھے اگرچہ ایک چھوٹا سا گروہ تھے لیکن وہ ایک جسم کی مانند ہوگئے اور ایک طاقتور اور متحد لشکر بن گئے کہ جس نے اپنے نہایت قوی دشمن کو شکست سے دوچار کردیا۔

اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس الفت اور دلوں کے رشتے قائم کرنا معمول کے مادی طریقوں سے ممکن نہ تھا ”اگر وہ تمام کچھ جو روئے زمین میں ہے تم خرچ کردیتے تو ان کے دلوں میں الفت ومبّت پیدا نہ کرسکتے( لَوْ اٴَنفَقْتَ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا مَا اٴَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ ) ۔

لیکن یہ خدا ہی تھا جس نے ان کے درمیان ایمان کی وجہ سے اور ایمان کے ذریعے الفت پیدا کردی( وَلَکِنَّ اللهَ اٴَلَّفَ بَیْنَهُمْ ) ۔

وہ لوگ جو ہٹ دھرم اور کینہ پرور افراد خصوصاً جاہل قوموں اور زمانہ جاہلیت کے سے لوگوں کی روحانی اور جذباتی کیفیت سے آشنا ہیں ، جانتے ہیں کہ ایسے کینوں اور عداوتوں کو نہ تو مال ودولت سے دھویا جاسکتا ہے اور نہ جاہ ومقام سے، انھیں خاموش کرنے اور دبانے کی ایک راہ ہے اور وہ ہے انتقام، وہی انتقام جو لہرادار آواز کی صورت میں دُہرایا جائے گا اور ہر مرتبہ اس کا قبیح چہرہ زیادہ ہولناک ہوگا اور اس کا دامن زیادہ وسیع ہوتا چلا جائے گا، واحد چیز جو ان راسخ اور جڑ پکڑ لینے والے کینوں کو ختم کرسکتی ہے وہ افکار، خیالات اور نفوس میں پیدا ہونے والا ایک انقلاب ہے، ایسا انقلاب جو شخصیتوں کو تبدیل کردے، طرزِ افکار بدل دے اور جس سے لوگ اپنی سطح سے بہت بالا ہوجائیں اس طرح سے گذشتہ اعمال ان کی نظر میں پست، حقیر اور احمقانہ ہوجائیں اور اس کے بعد وہ اپنے وجود گی گہرائیوں کے نہاں خانے سے کینہ، قساوت، انتقام جوئی، قبائلی تعصبّات وغیرہ کی سیاہ غلاظت کو نکال باہر پھینکیں اور یہ ایسا کام ہے جو روپئے پیسے اور دولت وثروت سے نہیں ہوسکتا بلکہ صرف حقیقی ایمان وتوحید کے ذریعے ہی سے ایسا ممکن ہے۔

اور آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: خدا عزیز وحیکم ہے (إِنَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ)۔ اس کی عزت کا تقاضا ہے کہ کوئی اس کے سامنے ٹھہرنے کی تاب نہیں رکھتا اور اس کی حکمت سبب بنتی ہے کہ اس کے تمام کام حساب وکتاب کے تابع ہوں ، اسی لئے حساب شدہ پروگرام نے پراگندہ دلوں کو متحد کردیا اور انھیں پیغمبر سے منسلک کردیا تاکہ آپ ان کے ذریعے اسلام کا نورِ ہدایت پوری دنیا میں پھیلادیں ۔

دو توجہ طلب نکات

۱ ۔ آیت کا مفہوم عمومی ہے:

بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیت کو صرف اوس وخزرج کے اختلافات کے خاتمے کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو انصار میں سے تھے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ مہاجرین وانصار ایک ہی صف میں رسول الله کی نصرت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ آیت کا مفہوم وسیع ہے، شاید انھوں نے سمجھا ہے کہ صرف اوس وخزرج کے درمیان قبائلی اختلاف تھا، حالانکہ اختلافات ہزار گناہ تھے اور اجتماعی شگاف موجود تھے، امیر اور غریب کے درمیان اختلاف اور اِس قبیلے اور اُس قبیلے کے چھوٹے بڑے سردار کے درمیان اختلاف، یہ شگاف اسلام کے سائے میں پُر ہوئے اور ان کے آثار محو ہوئے، اس طرح سے قرآن ایک دوسری جگہ فرماتا ہے:

( وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ اٴَعْدَاءً فَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَاٴَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا )

خدا کی اس عظیم نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمھارے دلوں میں الفت وحبت پیدا کی اور اس کی نعمت کے سائے میں تم ایک دوسرے کے بھائی گئے۔ (آل عمران/ ۱۰۳)

۲ ۔ یہ قانون دائمی ہے:

یہ قانون صرف پہلے مسلمانوں کے ساتھ مربوط نہیں تھا آج جب کہ اسلام اسی کروڑ مسلمانوں پر سایہ فگن ہے اور وہ مختلف نسلوں اور قوموں اور مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں کوئی حلقہ اتصال انھیں متحد نہیں کرسکتا سوائے ایمان وتوحید کے حلقے سے مال وثروت، مادی تشویق، سیمینار، کانفرنسیں تنہا کوئی کام نہیں کرسکتیں ، وہ شعلہ دل میں بھڑکنا چاہیے جو پہلے مسلمانوں کے دل میں تھا، نصرت وکامیابی بھی صرف اسی اسلامی اخوت کی راہ سے ممکن ہے۔

زیرِ بحث آخری آیت میں رسول الله کی پاک ہمّت اور جذبے کی تقویت کے لئے ان کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہوتا ہے: ”اے پیغمبر! خدا اور یہ مومنین کہ جنھوں نے تمھاری پیروی کی ہے تمھاری حمایت کے لئے کافی ہیں “ اور ان کی مدد س تم اپنے مقصد کو پالوگے( یَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللهُ وَمَنْ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

بعض مفسّرین نے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بنی قریظہ اور بنی نضیر کے یہودی قبائل نے رسول الله سے کہا کہ ہم آپ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو اور آپ کی پیروی کرنے کو تیار ہیں (اور ہم آپ کی مدد بھی کریں گے)۔

اس آیت نے آپ کو متنبہ کیا کہ ان پر اعتماد اور بھروسہ نہ کیجئے بلکہ صرف خدا اور مومنین کا اپنا سہارا قرار دیجئے۔(۱)

حافظ ابو نعیم جو مشہور علماء اہل سنّت میں سے ہیں کتاب ”فضائل الصحابہ“ میں اپنس سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی اور وہ لفظ مومنین سے مراد حضرت علی(علیه السلام) ہیں ۔(۲)

ہم نے بارہا کہاہے کہ ایسی تفاسیر اور شانِ نزول آیت کو منحصر اور محدود نہیں کرتیں بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت علی(علیه السلام) جیسے شخصیت کہ جو صف اوّل مومنین میں ہیں مسلمانوں کے درمیان پیغمبر خدا کا پہلا سہارا ہیں اگرچہ دوسرے مومنین بھی رسول الله کے یارو مددگار ہیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر تبیان، ج۵، ص۱۵۲-

۲۔ الغدیر، ج۲، ص۵۱-

آیات ۶۵،۶۶

۶۵-( یَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَالِ إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفًا مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِاٴَنَّهُمْ قَوْمٌ لَایَفْقَهُونَ )

۶۶-( الْآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنکُمْ وَعَلِمَ اٴَنَّ فِیکُمْ ضَعْفًا فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ اٴَلْفٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفَیْنِ بِإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِینَ )

ترجمہ

۶۵ ۔ اے پیغمبر! مومنین کو (دشمن سے) جنگ کرنے کی تحریک کیجئے، اگر تم میں سے صبر واستقامت کرنے والے بیس افراد ہوں تو وہ سو افراد پر غالب آجائیں گے اور سو افراد ہوں تو کافروں میں سے ایک ہزار پر کامیابی حاصل کریں گے کیونکہ وہ ایسی قوم ہیں جو سمجھتے نہیں ۔

۶۶ ۔ اب اس وقت خدا نے تمھیں تخفیف دی ہے اور جان لیا ہے کہ تم میں کمزوری ہے اس بناپر جب تم میں سے سو افراد با استقامت اور صابر ہوں تو دو سو افراد پر کامیاب ہوں گے اور اگر ایک ہزار ہوں توحکمِ خدا سے دوہزار پر غالب آئیں گے اور خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

برابر کی قوت کے انتظار میں نہ رہو

پہلے دو آیات میں اسلامی جہاد کے متعلق اور فوجی احکام کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔

پہلی آیت میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم دیا گیا ہے کہ: اے پیغمبر! مسلمانوں کو دشمن سے جہاد کرنے کی ترغیب دیجئے اور تحریک کیجئے( یَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَالِ ) ۔

فوجی سپاہی جس قدر بھی تیار ہوں پھر بھی جنگ شروع ہونے سے پہلے ان کی روحانی تقویت درکار ہوتی ہے یعنی ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیز ساری دنیا کی آگاہ اور تربیت یافتہ فوجوں میں بھی ہوتی ہے کہ کمانڈر اور فوج کے افسر میدانِ جنگ کی طرف جانے سے پہلے یا میدانِ جنگ میں حملہ شروع کرنے سے پہلے مناسب مطالب کے ذکر سے ان کی جنگی جذبے کو ابھارتے ہیں اور شکست کے خطرے سے ڈراتے ہیں ۔

البتہ مادی اور ان جیسے مکاتب فکر میں تشویق وترغیب کا دامن محدو ہوتا ہے لیکن آسمانی مکاتب ومذاہب میں بہت ہی زیادہ وسیع ہے، فرمان الٰہی کی طرف توجہ، خدا پر ایمان کی تاثیر اور شہدائے راہِ حق کے مقام کی یاد اور فضیلت وبے احساب ثواب جو ان کے انتظار میں ہے نیز معنوی افتخار واعزاز اور احسانات وعنایات جو میدان جنگ میں دشمن پر کامیابی میں موجود ہیں نمازیوں میں بہادری استقامت اور پامردی کی روح پھونکنے کا بہترین ذریعہ ہیں ، اسلامی جنگوں میں بعض اوقات قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت مجاہدینِ اسلام کو اس طرح سے آادہ کردیتی تھیں کہ وہ برق اسا ہوجاتے اور عشق وجنون اور جذبے کی کامل تصویر بن جاتے۔

بہرحال آیت کا یہ حصّہ جہاد کی زیادہ سے زیادہ تبلیغ اور مجاہدین کے جذبہ کی تقویت کی اہمیت کو ایک اسلامی حکم کے طور پر واضح کرتا ہے۔

اس کے بعد آیت ایک دوسرا حکم دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر تم میں سے بیس افراد صاحبِ استقامت ہوں تو وہ دو سو افراد پر غلبہ حاصل کرلیں گے اور اگر تم میں سے سو افراد ہوں تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے( إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفًا مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا ) ۔ آیت اگرچہ ایک شخص کے دس افراد پر غالب آنے کے متعلق خبر کی صورت میں ہے لیکن بعد والی آیت کہتی ہے:”( الْآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنکُمْ )

اب سے تم پر اس ذمہ داری میں تخفیف کردی گئی ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے مراد فرض اور حکم کا تعین ہے نہ کہ صرف ایک عام سی خبر ہے۔

لہٰذا مسلمان اس بات کے منتظر نہ رہیں کہ فوج کی تعداد دشمن کی فوج کے مساوی ہوجائے بلکہ یہاں تک کہ ان کی تعداد اگر دشمن کا دسواں حصّہ ہو تو بھی جہاد ان پر فرض ہے اس کے بعد اس حکم کی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: یہ اس بناء پر ہے تمھارے بے ایمان دشمن ایسے ہیں جو سمجھتے ہی نہیں( بِاٴَنَّهُمْ قَوْمٌ لَایَفْقَهُونَ ) ۔

یہ تاویل ابتداء میں عجیب وغریب نظر آتی ہے کہ علم وآگاہی اور کامیابی کے درمیان یا عدم آگہی اور شکست کے درمیان کیا ربط ہے لیکن فی الحقیقت ان دونوں کے درمیان بہت ہی نزدیکی اور مستحکم رابطہ ہے کیونکہ مومنین اپنے راستے کو اچھی طرح پہچانتے ہیں ن اپنی خلقت کے ہدف کا ادراک رکھتے ہیں اور اس جہان میں جہاد کے مثبت نتائج اور دوسرے جہان میں جو زیادہ ثواب مجاہدین کے انتظار میں ہے اس سے باخبر ہیں ۔

وہ جانتے ہیں کہ کس لئے لڑرہے ہیں اور کس لئے برسرِپیکار ہیں اور کس مقدس مقصد کے لئے فداکاری کررہے ہیں اور اگر اس راہ میں قربان اور شہید ہوجائیں تو ان کا حساب کتاب کس کے ہاتھ میں ہے، یہ واضح راستہ اور یہ آگاہی انھیں صبرو استقامت اور پامردی سکھاتی ہے، لیکن بے ایمان اور بت پرست ٹھیک طور پر نہیں جانتے کہ وہ کس لئے جنگ کررہے ہیں اور کس کے لئے لڑرہے ہیں اور اگر اس راہ میں مارے جائیں تو ان کے خون کی تلافی کون کرے گا، صرف ایک عادت اور اندھی تقلید یا خشک اور بے منطق تعصب کی وجہ سے اس مکتب کے پیچھے ہوئے ہیں راستے کی یہ تاریکی، ہدف سے ناآگاہی اور جنگ کے انجام اور نتیجے سے بے خبری اُن کے اعصاب کو کمزور کردیتی ہے، ان کے توانائی اور استقامت کو لے جاتی ہے اور ان کا کمزورسا وجود رہ جاتا ہے۔

لیکن مذکورہ بالا سنگین حکم کے بعد خداتعالیٰ کئی درجے تخفیف دیتا ہے اور کہتا ہے: اسی وقت خدا نے تمھیں تخفیف دی اور اس نے تمھارے درمیان کمزور اور سُست افراد موجود ہیں( الْآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنکُمْ وَعَلِمَ اٴَنَّ فِیکُمْ ضَعْفًا ) ۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ ان حالات میں اگر تم میں سے سو صبر واستقامت والے مجاہد ہوں تو وہ دو سو افراد پر غالب آئیں گے اور اگر ہزار آدمی ہوں تو دو ہزار پر حکمِ خدا سے کامیاب ہوں گے( فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ اٴَلْفٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفَیْنِ بِإِذْنِ اللهِ ) ۔ لیکن یہ بات کسی حالت میں فراموش نہ کریں کہ ”خدا صابرین کے ساتھ ہے( وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِینَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا پہلی آیت منسوخ ہوچکی ہے؟

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ پہلی آیت مسلمانوں کو حکم دے رہی ہے کہ اگر دشمن کا لشکر دس گناہ بھی زیادہ ہو تو ان کے مقابلے منھ نہ پھیریں جب کہ دوسری آیت میں یہ نسبت گھٹا کر دوگنا کردی گئی ہے، اس ظاہری اختلاف کے سبب بنا کہ مفسّرین نے پہل آیت کے حکم کو دوسری آیت کے حکم سے منسوخ سمجھا یا پہلی کو مستحب حکم اور دوسری کو واجب حکم قرار دیا یعنی اگر دشمنوں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے دوگنی ہو تو مسلمان پر فرض ہے کہ میدانِ جنگ سے پیچھے نہ ہٹیں اور اگر دشمن اس سے زیادہ ہوں یہاں تک کہ دس گنا ہوں تو پھر جہاد سے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں اور بچ سکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ پھر بھی جہاد سے دستبردار نہ ہوں ۔

لیکن بعض مفسّرین کا نظریہ ہے کہ ظاہری اختلاف جو آیات کے درمیان نظر آرہا ہے نسخ کی دلیل ہے نہ استحباب کی بلکہ ان دو احکام میں سے ہر ایک کا مقام الگ الگ ہے، جب مسلمان ضعیف وکمزور ہوں اور ان میں نئے، ناتجربہ کار اور غیر آزمودہ افراد ہوں کہ جن کی ابھی صحیح تربیت اور اصلاح نہیں ہوئی تو پھر مقیاس کا معیار دوگنا ہے لیکن اگر تربیت یافتہ، تجربہ کار اور قوی ایمان والے افراد مجاہدین بدر کے سے موجود ہوں تو پھر یہ نسبت دس گناہ تک جا پہنچی ہے۔

اس بناء پر یہ دونوں حکم جو دوالگ آیات میں مذکورہ ہیں دو مختلف گروہوں سے متعلق ہیں اور ان کا مختلف حالات سے تعلق ہے، اس لئے یہاں نسخ والی کوئی بات نہیں اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں نسخ کی تعبیر موجود ہے تو ہمیں توجہ رکھنا چاہیے کہ لفظ ”نسخ“ روایات کی زبان میں ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں ”تخصیص“ بھی شامل ہے۔

۲ ۔ قوتوں کے موازنہ کی داستان:

مندرجہ بالا آیات بہرحال اس مسلّم حکم کی حامل ہیں کہ مسلمان کبھی دشمن سے ظاہری قوتوں کی برابری کے انتظار میں نہ رہیں بلکہ کبھی اپنے سے دوگنا اور کبھی دس گناہ دشمن کے مقابلے میں بھی اٹھ کھڑے ہوں اور تعداد کی کمی کے بہانے دشمن کے مقابلے سے فرار اختیار کریں ۔

یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ بہت سی اسلامی جنگوں میں قوتوں کا توازن دشمن کے مفاد میں نظر آتا ہے مسلمان عموماً کم تعداد میں ہوتے تھے، جنگیں جو رسول الله کے زمانے میں ہوئیں مثلاً بدر، اور احزاب وغیرہ کی جنگیں بلکہ جنگِ موتہ میں تو مسلمان کی تعداد تین ہزار تھی اور دشمن کے لشکر کی جو کم از کم تعداد لکھی گئی وہ ڈیڑھ لاکھ تھی، یہ صورت صرف رسول الله کے دور ہی نہ تھی بلکہ وہ جنگیں جوآپ کے بعد پیش آئیں یہ فرق حیرت انگیز صورت میں موجود تھا، مثلاً ساسانی فوج سے جنگ کے موقع پر اسلام کی آزادی بخش لشکر کی تعداد پچاس ہزار تھی جبکہ خسروپرویز کے لشکر کی تعداد پانچ لاکھ تھی ، جنگ یرموک جوکہ لشکرِ اسلام کی رومی فوج کے خلاف بہت بڑی جنگ تھی کے بارے میں مورخین نے نقل کیا ہے کہ ہرقل کا لشکر تقریباً دولاکھ افراد پر مشتمل تھا لسکن مسلمان فوج کی تعداد چویس ہزار سے زیادہ نہ تھی اور زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ لکھا ہے کہ دشمن کے جو لوگ اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ ستر ہزار افراد سے زیادہ تھے۔

اس میں شک نہیں ک ظاہری موازنہ اور قوتوں کی برتری کامیابی کے عوامل میں سے ایک لیکن پھر کونسی چیز سبب بنتی تھی کہ اتنا عظیم فرق جو صاف نظر آتا تھا اس کے باوجود مسلمان کامیاب رہتے، اس اہم سوال کا جواب قرآن نے ان آیات میں تین تعبیروں میں دیا ہے، ایک جگہ فرمایا گیا ہے ”عشرون صابرون“ یعنی بیس صاحبِ استقامت اور صبر کرنے والے اور ”مائة صابرة“ایک سو با استقامت یعنی استقامت اور پامردی جو شجر ایمان کا ثمر ہے اس بات کا سبب بنتی ہے کہ ایک آدمی دس افراد کے مقابلے میں کھڑا ہوجائے، ڈٹا رہے اور کامیابی حاصل کرے۔

دوسری جگہ قرآن کہتا ہے: ”باٴنّهم لایفقهون “ یعنی اپنے ہدف سے ا ن کیعدم آگہی اور تمھارا اپنے مقدس مقصد سے باخبر ہونا تعداد کی کمی کو تلافی کردیتا ہے۔

ایک اور جگہ پر ہے: ”اذن اللّٰه “ یعنی خدائی امداد ، غیبی اور معنوی نصرتیں اور الله کا لطف ورحمت ان صاحبِ ایمان اور بااستقامت لوگوں کے شامل حال ہیں ۔

آج بھی مسلمان طاقتور دشمنوں کے مقابلے میں کھڑے ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے جنگی میدانوں میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن پھر بھی کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور آج کے مسلمانوں کی حالت پہلے زمانے کے مسلمانوں سے یکسر برعکس ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یا اس بناپر ہے کہ مسلمانوں میں آج کافی آگاہی اور علم نہیں ہے، فساد اور مادی زرق برق کے عوامل کے مقابلے میں وہ صبر و استقامت کی روح گنوا بیٹھے ہیں ، گناہ آلودہ ہونے کی وجہ سے خدائی حمایت بھی ان سے سلب ہوچکی ہے، نتیجتاً وہ اس انجام کو پہنچ گئے ہیں ۔

لیکن پھر بھی لوٹ آنے کا راستہ کھلا ہے اور ہمیں توقع اور انتظار ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ مندرجہ بالا آیات کا مفہوم ایک دفعہ پھر مسلمانوں میں زندہ ہو اور وہ اپنی موجودہ ذلّت بارکیفیت سے نکل آئیں ۔

۳ ۔ دو آیتوں میں مثال کا فرق:

یہ بات توجہ طلب ہے کہ پہلی آیت کہ جس میں گفتگو ایک اور دس کی نسبت کے بارے میں ہے مثال کے لئے ”عشرون “ یعنی بیس اور ”ماٴتین “ یعنی دو سو کے الفظ استعمال ہوئے ہیں لیکن دوسری آیت میں جہاں دوگناہ کی نسبت بیان ہوئی ہے مثال کے لئے ایک سو افراد دوسو کے مقابلے میں اور ایک ہزار کا دستہ دو ہزار کے مقابلے میں کہا گیا ہے۔

مثال کا یہ فرق گویا اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ قوی ارادے والے اہلِ ایمان بیس افراد کا بھی ایک لشکر بناکر سکتے ہیں لیکن کمزور افراد اتنی کم تعداد کا لشکر مہیّا نہیں کرسکتے بلکہ انھیں اس سے کئی گنا زیادہ افراد سے لشکر بنانے کی ضرورت پڑے گی۔