تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27737
ڈاؤنلوڈ: 2613


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27737 / ڈاؤنلوڈ: 2613
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۶۷،۶۸،۶۹،۷۰،۷۱

۶۷-( مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اٴَنْ یَکُونَ لَهُ اٴَسْریٰ حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْاٴَرْضِ تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللهُ یُرِیدُ الْآخِرَةَ وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ )

۶۸-( لَوْلَاکِتَابٌ مِنْ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا اٴَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ )

۶۹-( فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ )

۷۰-( یَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِمَنْ فِی اٴَیْدِیکُمْ مِنَ الْاٴَسْریٰ إِنْ یَعْلَمْ اللهُ فِی قُلُوبِکُمْ خَیْرًا یُؤْتِکُمْ خَیْرًا مِمَّا اٴُخِذَ مِنْکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ )

۷۱-( وَإِنْ یُرِیدُوا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ فَاٴَمْکَنَ مِنْهُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ )

ترجمہ

۶۷ ۔ کوئی پیغمبر یہ حق نہیں رکھتا ہے وہ (دشمنوں کے افراد ) قیدی بنائے تاکہ ان پر کامیابی حاصل کرے (اور زمین پر مستحکم قدم جمالے) تم لوگ تو ناپائیدار دنیا کی متاع چاہتے ہو (اور چاہتے ہو کہ زیادہ سے زیادہ قیدی بنالو اور مال لے کر انھیں آزاد کرو) لیکن خدا (تمھارے لئے) آخرت چاہتا ہے اور خدا قادر وحکیم ہے۔

۶۸ ۔ اگر پہلے سے خدا کا حکم نہ ہوتا (کہ تبلیغ کے بغیر کسی اُمت کو سزا نہ دے) تو (اسیر بنانے کا) کام تم نے کیا اُس پر تمھیں بہت بڑی سزا دیتا۔

۶۹ ۔ اب جو کچھ مالِ غنیمت تم لے چکے ہو اس میں سے حلال وپاکیزہ کھالو اور خدا سے ڈرو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

۷۰ ۔ اے نبی! تمھارے پاس جو قیدی ہیں ان سے کہدو کہ اگر خدا تمھارے دلوں میں کوئی اچھائی دیکھے گا (اورز تمھاری نیتیں نیک اور پاکیزہ ہوں ) تو جو کچھ تم سے لیا ہے اس سے بہتر تمھیں دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

۷۱ ۔ اور اگر وہ تم سے خیانت کرنا چاہیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں ) انھوں نے اس سے پہلے (بھی) خیانت خدا سے خیانت کی ہے اور خدا نے (تمھیں ) ان پر کامیابی دی اور خدا دانا وحکیم ہے۔

جنگی قیدی

گذشتہ آیات میں جہاد اور دشمن سے جنگ کرنے کے متعلق احکام کے اہم حصّے یان ہوئے ہیں ، اب زیرِ بحث آیات میں جنگی قیدیوں کے بارے میں کچھ احکام ذکر کرکے اس جاری بحث کی تکمیل کی گئی ہے، کیونکہ جنگوں میں عموماً قیدیوں اور اسیروں کا مسئلہ پیش آیا ہے، جنگی قیدیوں سے انسانی حوالوں سے سلوک اور اسی طرح مقاصدِ جہاد بہت اہم موضوعات ہیں ، اس سلسلے میں سب سے پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: کوئی نبی یہ حق نہیں رکھتا کہ اس کے پاس جنگی قیدی ہوں تاکہ وہ زمین میں اپنے پاوں خوب محکم کرسکے اور دشمن کے پیکر پر کاری اور اطمینان بخش ضربیں لگاسکے( مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اٴَنْ یَکُونَ لَهُ اٴَسْریٰ حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

”یثخن“ ”ثخن“ (بروزن ”شکن“) کے مادہ سے ضخامت، سختی اور سنگینی کے معنی میں آیا ہے۔

بعد ازاں اسی منسابت سے کامیابی، واضح غلبہ، قوت، قدرت اور شدّت کے مفہوم میں بولا جانے لگا، بعض مفسّرین نے ”حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْاٴَرْضِ “ کو دشمن کو قتل کرنے میں مبالغہ اور شدّت کے معنی میں لیا ہے اور کہا ہے کہ اس جملے کا معنی یہ ہے کہ جنگی قیدی بنانے کا عمل دشمن کے بہت سے افراد قتل کرنے کے بعد ہو لیکن ”فِی الْاٴَرْضِ “ (زمین میں ) کو نظر میں رکھتے ہوئے اور اس لفظ کی اصل کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ جو شدت وسختی کے معنی میں ہے، واضح ہوجاتا ہے کہ اس جملے کا حقیقی معنی یہ نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مراد دشمن پر مکمل فوقیت حاصل کرنا، قوت وقدرت کا مظاہرہ کرنا اور اپنے تسلط کو مستحکم بنانا ہے لیکن چونکہ بعض اوقات دشمن کی سرکوبی اور اُسے قتل وغارت کرنا مسلمانوں کے مقام کے استحکام کا سبب بنتا ہے لہٰذا اس جملے کا ایک مصداق خاص حالات میں دشمن کو قتل کرنا بھی ہوسکتا ہے نہ یہ کہ اس جملے کا اصلی مفہوم ہے۔

بہرحال محلِ بحث آیت مسلمانوں کو ایک حساس جنگی نکتے کی طرف متوجہ کرتی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان کبھی بھی دشمنوں کی مکمل شکست کے بغیر انھیں قیدی بنانے کی فکر میں نہ پڑیں کیونکہ جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے بعض نئے مسلمان میدانِ بدر میں اس کوشش میں تھے کہ جتنا ممکن ہو دشمنوں کو قید کیا جائے کیونکہ اس زمانے کی جنگوں کے رواج کے مطابق جنگ ختم ہونے پر ایک اہم رقم ”فدیہ“ یا ”خدا“ کے نام پر لے کر انھیں آزاد کردیا جاتا تھا۔

ہوسکتا ہے یہ کام بعض مواقع پر اچھا شمار ہو لیکن دشمن کی شکست کے بارے میں مکمل اطمینان کرلینے سے پہلے یہ کام خطرناک ہے کیونکہ قیدیوں کو پکڑنے اور ان کے ہاتھ باندھنے میں مشغول ہونا اور انھیں کسی مناسب جگہ کی طرف منتقل کرنا بہت سے مواقع پر مجاہدین کو جنگ کے اصل مقصد سے باز رکھتا ہے اور بشا اوقات توزخم خوردہ دشمن کے ئلے راہ ہموار کرتا ہ کہ وہ اپنے حملوں میں شدت پیدا کرے اور مجاہدین کو شکست دے دے جیسا کہ جنگ اُحد کے واقعہ میں غنائم کی جمع آوری نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو اپنی طرف مشغول رکھا اور دشمن نے موقع غنیمت پاکر ان پر کاری اور آخری ضرب لگائی۔

لہٰذا قیدی بنانا صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ جب دشمن پر کامیابی کے حصول کے بارے میں کامل اطمینان ہو ورنہ قفاطع، تباہ کن اور پے درپے حملوں سے حملہ آور دشمن کی طاقت کو بیکار جائے، لیکن اطمینان حاصل ہوجانے کے بعد انسانی ہدف ضروری قرار دیتا ہے کہ قتل کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا جائے اور انھیں قید کرلینے پر اکتفا کی جائے، یہ دونوں اہم فوجی اور انسانی نکات زیر نظر آیت کی مختصر سی عبارت میں بیان ہوئے ہیں ۔

اس کے بعد قرآن اس گروہ کو جس نے اس حکم کے خلاف عمل کیا موردِ ملامت قرار دیتے ہوئے کہتا ہے: تم صرف مادی امور کی فکر میں ہو اور دنیا کی ناپائیدار متاع چاہتے ہو حالانکہ خدا تمھارے لئے عالمِ جاوداں اور دائمی سعادت چاہتا ہے( تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللهُ یُرِیدُ الْآخِرَةَ ) ۔

”عرض“ کا معنی ہے ”ناپائیدار امور“ اور چونکہ اس دنیا کے مادی سرمائے پائیدار نہیں ہیں لہٰذا انھیں ”( عَرَضَ الدُّنْیَا ) “ کہا جاتا ہے۔

البتہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں جنگی قیدیوں کے مادی پہلووں کی طرف توجہ اور اصلی اہداف ومقاصد سے غفلت یعنی دشمن پر کامیابی حاصل کرنا نہ صرف سعادت اور اُخروی جزا پر ضرب لگاتی ہے بلکہ اس جہان کی زندگی، سربلندی، عزت اور آرام کے لئے بھی نقصاندہ ہے، حقیقت میں یہ اصلی مقاصد اس جہان کے پائیدار امور میں شمار ہوتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں وقتی اور جلدی گزر جانے والے منافع کے لئے آئندہ کے لئے دائمی منافع کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ یہ حکم اصل میں عزت وکامیابی اور حکمت وتدبیر کامل ہے چونکہ یہ خدا کی طرف سے صادر ہوتا ہے ”اور خدا عزیز وحکیم ہے( وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ۔

اگلی آیت میں دوبارہ انلوگوں کو سرزنش کرتے ہوئے کہ جو وقتی اور مادی مفادات کے لئے اہم اجتماعی مصالح کو خطرے میں ڈالتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اگر خدا کا فرمان سابق نہ ہوتا تو تمھیں ان قیدیوں کو قیدی بنانے پر بہت بڑی سزا اور عذاب سے دوچار ہونا پڑتا( لَوْلَاکِتَابٌ مِنْ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا اٴَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) ۔ ”( لَوْلَاکِتَابٌ مِنْ اللهِ سَبَقَ ) “ کے بارے میں مفسّرین نے مختلف احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن جو چیزی پوری آیت کی تفسیر کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے یہ ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا کہ خدا نے پہلے سے مقرر کیا ہوا ہے کہ جب تک کوئی حکم وہ پیغمبر کے ذریعے اپنے بندوں سے بیان نہ کرے انھیں سزا نہیں دے گا، تمھیں اس بناء پر کہ تم مادی منافع کے حصول کے لئے قیدی بنانے کے پیچھے لگ گئے اور لشکرِ اسلام کی حیثیت اور اس کی مکمل کامیابی کو خطرے میں ڈال دیا تو سخت سزا دیتا لیکن جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات میں تصریح ہوئی ہے کہ پروردگار کی سنت یہ ہے کہ وہ پہلے احکام بیان کرتا ہے پھر ان احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دیتا ہے مثلاً:( وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولًا ) (بنی اسرائیل/ ۱۵)

چند قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ ایک وضاحت:

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں مندرجہ بالا آیات کا ظہور جنگی قیدی بنانے کے بارے میں ہے نہ کہ جنگ کے بعد ”فدیہ“ لینے کے مسئلہ سے اس کا تعلق ہے اسی طرح سے بہت سے اعتراضات جو اس آیت کی تفسیر سمجھنے کے سلسلے میں کچھ مفسّرین کی نظر میں پیدا ہوئے خود بخود حل ہوجاتے ہیں ۔

نیز ملامت اور سرزنش ان لوگوں کی گئی ہے جو مکمل کامیابی سے پہلے مادی اغراض کی وجہ سے قیدی بنانے میں مشغول ہوگئے تھے اور اس کا رسول الله کی ذات اور مقاصدِ جہاد کی تکمیل میں مصروف مومنین سے کوئی نہیں ہے، لہٰذا ایسی یحثیں کہ آیا پیغمبر اس موقع پر گناہ کے مرتکب ہوئے تھے اور وہ گناہ آپ کے مقامِ عصمت سے کیسے مناسبت رکھتا ہے، سب بے محل ہیں ۔

اسی طرح وہ احادیث جو آیت کی تفسیر کے سلسلے میں اہلِ سنت کی بعض کتب(۱) میں آئی ہیں جن میں ہے کہ آیت کا ربط رسول الله اور مسلمانوں کی طرف سے خدا کی اجازت سے پہلے جنگ بدر کے بعد جنگی قیدیوں سے فدیہ لینے سے ہے، بے بنیاد ہیں ، ان روایات میں ہے کہ وہ واحد شخص جو فدیہ لینے کے مخالف تھا اور جنگی قیدیوں کے قتل کا حامی تھا عمر یا سعد بن معاذ کے سوا اس سے نجات نہ پاتا، ایسی روایات کا آیت کی تفسیر سے قطعاً کوئی تعلق نہیں خصوصاً جبکہ ان روایات کا من گھڑت ہونا بالکل واضح ہے کیونکہ عمر یا سعد بن معاذ کا پیغمبر اکرم کےمقام سے بھی بالاتر قرار دیا گیا ہے۔

۲ ۔ جنگی قیدیوں سے فدیہ لینے کا مسئلہ:

مندرجہ بالا آیت جنگی قیدیوں سے جب کہ اسلامی معاشرے کی مصلحت ضروری قرار دے فدیہ لینے کے خلاف نہیں ہے بلکہ کہتی ہیں کہ مجاہدین کو اس مقصد کے لئے قیدی بنانے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے، اس بناپر یہ آیت سورہ محمد کی آیت ۴ سے ہر لحاظ سے موافقت رکھتی ہیں جہاں فرمایا گیا ہے:

( فَإِذا لَقِیتُمْ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا اٴَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً )

جس وقت کافروں (اور ان دشمنوں سے جو تمھارے لئے زندہ رہنے کے حق قائل نہیں ہیں ) سے میدان جنگ میں آمنا سامنا ہو تو ان کی گردنوں پرضربیں لگاو یہاں تک کہ غلبہ حاصل کرلو پھر اس وقت انھیں قتل نہ کرو انھیں باندھ لو قیدی بنالو اس کے بعد انھیں فدیہ لے کر یا بغیر فدیہ لئے آزاد کردو۔

لیکن یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ اگر جنگی قیدیوں میں خطرناک قسم کے افراد موجود ہوں کہ جن کی آزادی دوبارہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھنے اور مسلمانوں کی کامیابی کے خطرے میں پڑجانے کا سبب ہو تو پھر مسلمان حق رکھتے ہیں کہ ایسے افراد کو ختم کردیں ، اس امر کی دلیل خود آیت میں ”یثخن“ اور ”( اٴَثْخَنتُمُوهُمْ ) “ میں چھپی ہوئی ہے۔

اسی بناپر چند ایک روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے حکم دیا کہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے دو افراد عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کردیا جائے اور ان سے کسی قسم کا فدیہ قبول نہ کیا جائے۔(۲)

۳ ۔ نظریہ جبر کی نفی:

مندرجہ بالا آیات میں دوبارہ انسان کے ارادے کی آزادی کے مسئلہ اور نظریہ جبر کی نفی پر تاکید نظر آتی ہے کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ خدا تمھارے لئے ہمیشہ کا گھر چاہتا ہے حالانکہ تم میں سے اگر گروہ وقتی مادی مفادات کی قید میں پھنسا ہوا ہے۔

بعد والی آیت میں جنگی قیدیوں سے متعلق ایک اور مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ ہے فدیہ لینے کا مسئلہ۔

جیسا کہ بعض روایات میں جو زیرِ بحث آیات کی شان نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ان میں ہے کہ جنگ بدر کے خاتمے پر جب جنگی قیدی بنالئے گئے اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے یہ حکم دیا کہ قیدیوں میں سے د خطرناک افراد عقبہ اور نضر کو قتل کردیا جائے تو اس پر انصار گھبرائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حکم تمام قیدیوں کے متعلق جاری ہوجائے (اور وہ فدیہ لینے سے محروم ہوجائیں ) لہٰذا انھوں نے رول الله کی خدمت میں عرض کیا: ہم نے ستر آدمیوں کو قتل کیا ہے اور ستر ہی کو قیدی بنایا ہے اور یہ آپ کے قبیلے میں سے ہیں ، یہ ہمیں بخش دیجئے تاکہ ہم ان کی آزادی کے بدلے فدیہ لے سکیں ۔

(رسول الله اس کے لئے وحی آسمانی کے منتظر تھے) اس موقع پر زیر بحث آیات نازل ہوئیں اور قیدیوں کی آزادی کے بدلے میں فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے(۳)

تعجب کی بات یہ ہے کہ رسول الله کا داماد(۴) ابوالعاص بھی ان قدیوں میں تھا، رسول کی بیٹی(۵) یعنی زینب جو ابوالعاص کی بیوی تھی نے جو گلوبند جناب خریجہ نے ان کی شادی کے وقت انھیں دیا تھا فدیہ کے طور پر رسول الله کے پاس بھیجا، جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ آلہ وسلّم کی نگاہ گلوبند پر پڑی تو جناب خریجہ جیسی فداکار اور مجاہدہ خانتون کی یادیں ان کی آنکھوں کےسامنے مجسم ہوگئیں ، آپ نے فرمایا: خدا کی رحمت ہو خدیجہ پر، یہ وہ گلوبند ہے جو اس نے میری بیتی زینب کو جہیز میں دیا تھا(اور بعض دوسری روایات کے مطابق جناب خریجہ کے احترام میں آپ نے گلوبند قبول کرنے سے احراز کیا اور حقوقِ مسلمین کو پیش نظر کرتے ہوئے اس میں ان کی موافقت حاصل کی(۶)

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم نے ابوالعاص کو اس شرط پر آزاد کردیا کہ وہ زینب کو (جو اسلام سے پہلے ابوالعاص کی زوجیت میں تھیں ) مدینہ پیغمبر کے پاس بھیج دے، اس نے بھی اس شرط کو قبول کرلیا اور بعد میں اسے پورا بھی کیا۔(۷)

بہرحال مندرجہ بالا آیت مسلمانوں کے یہ اجازت دیتی ہے وہ اس جنگی غنیمت (یعنی وہ رقم جو وہ قیدیوں سے رہائی کے بدلے لیتے تھے) سے استفادہ کریں اور ارشاد ہوتا ہے: جو کچھ تم نے غنیمت میں لیا ہے اس میں سے حلال اور پاکیزہ کھالو اور اس سے فائدہ اٹھاو( فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا ) ۔

ممکن ہے اس جملے کا یہ ایک وسیع معنی ہو اور یہ فدیہ کے علاوہ دیگر غنائم کے بارے میں بھی ہو۔

اس کے بعد انھیں حکم دیا گیا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور فرمانِ خدا کی مخالفت سے پر ہیز کرو( وَاتَّقُوا اللهَ ) ۔

اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایسے غنائم کا مباح ہونا اس بات کا سبب نہیں بننا چاہیے کہ مجاہدین کا ہدف جہاد کے میدان میں ہدف مالِ غنیمت جمع کرنا یا فدیہ حاصل کرنا ہوجائے اور اگر پہلے ان کے دل میں ایسے پست خیالات تھے تو انھیں دل سے نکال دیں نیز اس سلسلے میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کے عفو بخشش کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: خدا غفور ورحیم ہے( إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

کیا فدیہ لینا ایک منطقی اور عادلانہ کام ہے؟

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیدیوں کو آزاد کرنے کے بدلے فدیہ لینا اصولِ عدالت سے کس طرح مطابقت رکھتا ہے اور کیا ایسا کام انسان فروشی کے مترادف نہیں ؟

لیکن تھوڑے سے غور وفکر سے واضح ہوجاتا ہے کہ فدیہ حقیقت میں ایک قسم کا تاوانِ جنگ ہے کیونکہ ہر جنگ میں بہت سا اقتصادی سرمایہ اور انسانی قوتیں ختم ہوجاتی ہیں ، حق کے لئے جنگ کرنے سے لوگ یہ حق رکھتے ہیں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد دشمن سے اپنے جنگی خسارے کی تلافی کروائیں اور اس کا طریقہ یہ فدیہ لینا بھی ہے۔

نیز اس طرف توجہ کی جائے کہ ان دنوں مالدار قیدیوں کے لئے فدیہ کی رقم چار ہزار درہم اور باقیوں کے لئے ایک ہزار درہم مقرر ہوئی تھی، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح سے قریش سے جو کل مال حاصل کیا گیا وہ کوئی اتنا زیادہ نہیں تھا کہ ان کا مالی اور جانی نقصانات کی تلافی کرسکتا تھا جو اسلامی لشکر کو اٹھانا پڑا تھا۔

علاوہ ازیں جب مسلمان قریش کے دباو سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کر آئے تھے ان کا بہت سا مال مکہ میں دشمنوں کے ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا، اس لحاظ سے بھی مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ وہ ان اموال کی تلافی کریں ۔

اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ م۔فدیہ لینا کوئی لازمی بھی نہیں اور اسلامی کومت اگر مصلحت سمجھے تو جنگی قیدیوں کا تبادلہ کرسکتی ہے یہ کوئی چیز لئے بغیر ہی آزاد کرسکتی ہے جیسا کہ سورہ محمد کی آیت ۴ میں اس طرف اشارہ ہوا ہے، اس کی تفسیر انشاء الله آئے گی۔

ایک اور اہم مسئلہ جنگی قیدیوں کے حوالے سے، ان کی اصلاح، تربیت اور ہدایت ہے، ہوسکتا ہے یہ امر مادی مکاتب میں پیش نہ آتا ہو لیکن وہ جہاد کہ جو انسانوں کی آزادی، اصلاح اور حق وعدالت کے رواج دینے کے لئے ہو حتمی طور پر اسے اہمیت دیتا ہے۔

اسی لئے زیر نظر چوتھی آیت میں رسول الله کو حکم دیا گیا ہے کہ قیدیوں کو دل خوش کن بیان کے ذریعے ایمان اور اصلاحِ احوال کی دعوت دیں اور انھیں تشویق دلائیں ، ارشاد ہوتا ہے: اے پیغمبر! ان قیدیوں کو جو تمھارے ہاتھ میں ہیں کہہ دو! اگر خدا تمھارے دلوں میں خیر ونیکی جان لے تو تمھیں اس سے بہتر عطا کرے جو تم نے لیا ہے( یَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِمَنْ فِی اٴَیْدِیکُمْ مِنَ الْاٴَسْریٰ إِنْ یَعْلَمْ اللهُ فِی قُلُوبِکُمْ خَیْرًا یُؤْتِکُمْ خَیْرًا مِمَّا اٴُخِذَ مِنْکُمْ ) ۔

”ا( ِٕنْ یَعْلَمْ اللهُ فِی قُلُوبِکُمْ خَیْرًا ) “ میں ”خَیْرًا“ سے مراد وہی ایمان اور اسلام قبول کرنا ہے اور بعد میں آنے والے لفظ ”خَیْرًا“ سے مراد مادی اور معنوی جزا اور احسان کے علاوہ اس نے تمھارے لئے ایک اور لطف وکرم کیا ہے اور گناہ کہ جن کے تم اسلام قبول کرنے سے پہلے گذشتہ زمانے میں مرتکب ہوئے تھے انھیں بخش دے گا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے( وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

اور چونکہ یہ ممکن تھا کہ قیدی اس پروگرام سے غلط فائدہ اٹھائیں اور خیانت اور انتقام کے ارادہ سے اظہارِ اسلام کرتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں گھس آئیں لہٰذا اگلی آیت میں قرآن انھیں بھی خطرے سے خبردار کرتا ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اگر وہ چاہیں کہ تجھ سے خیانت کریں تو کوئی نئی بات نہیں ہے انھوں نے اس سے پہلے بھی خدا سے خیانت کی ہے( وَإِنْ یُرِیدُوا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ ) ۔

اس سے بالاتر خیانت کیا ہوگی کہ انھوں نے ندائے فطرت کو سنا اَن سنا کردیا، حکم عقل کو پسِ پشت ڈال دیا، خدا کے لئے شریک شبیہ کے قائل ہوئے اور بت پرستی کے بیہودہ مذہب کو انھوں نے توحید پرستی کا جانشین قرار دے لیا لیکن انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ”خدا نے تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ان پر فتح وکامیابی بخشی“( فَاٴَمْکَنَ مِنْهُمْ ) ۔ آئندہ بھی اگر وہ خیانت کی راہ پر چلے توکامیاب نہیں ہوں گے پھر بھی وہ شکست ہی سے دوچار ہوں گے، خدا ان کی نیتوں سے آگاہ ہے اور جو احکام اس نے قیدیوں کے بارے میں دیئے ہیں وہ حکمت کے مطابق ہیں کیونکہ ”خدا علیم وحکیم ہے“( وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) ۔

شیعہ اور سنی تفاسیر میں مندرجہ بالا آیات کے ذیل میں منقول ہے:

انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول الله سے اجازت چاہی کہ آپ کے چچا عباس جو قیدیوں میں سے تھے سے آپ کے احترام میں فدیہ نہ لیا جائے لیکن پیغمبر نے فرمایا:”واللّٰه لاتذرون منه درهماً

خدا کی قسم ا س کے ایک درہم سے بھی صرفِ نظر نہ کرو (یعنی اگر یہ فدیہ لینا خدائی قانون ہے تو اسے سب پر یہاں تک کہ میرے چچا پر بھی جاری ہونا چاہیے، اس کے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے)۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم، عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اپنی طرف سے اور اپنے بھتیجے (عقیل بن ابی طالب) کی طرف سے آپ کو فدیہ ادا کرنا چاہیے۔

عباس (جو مال سے بڑا لگاو رکھتے تھے) کہنے لگے: اے محمد! کیا تم چاہتے ہو کہ مجھے ایسا فقیر اور محتاج کردو کہ میں اہل قریش کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلاوں ۔

رسول الله نے فرمایا: اس مال میں سے فدیہ ادا کریں جو آپ نے اپنی بیوی امّ الفضل کے پاس رکھا تھا اور اس سے کہا تھا کہ اگر میدان میں جنگ میں مارا جاوں تو اس مال اپنے اور اپنی اولاد کے مصارف کے لئے سمجھنا۔

عباس یہ بات سن کر متعجب ہوئے اور کہنے لگے: آپ کویہ بات کس نے بتائی (حالانکہ یہ تو بالکل محرمانہ تھی)؟

رسول الله نے فرمایا: جبریل نے ، خدا کی طرف سے۔

عباس بولے: اس کس قسم جس کی محمد قسم کھاتا ہے کہ میرے اور میری بیوی کے علاوہ اس راہ سے کوئی آگاہ نہ تھا۔

اس کے بعد وہ پکار اٹھے: ”اٴشهد اٴنّک رسول اللّٰه “ (یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ الله کے رسول ہیں )۔

اور یوں وہ مسلمان ہوگئے۔

اس کے بعد بدر کے تمام قدید مکہ لوٹ گئے لیکن عباس، عقیل اور نوفل مدینہ میں ہی رہ گئے کیونکہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، مندرجہ بالا آیات میں ان کی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گا ہے۔(۸)

عباس کے اسلام لانے کے بارے میں بعض توایخ میں ہے اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ مکہ کی طرف پلٹ گئے اور خط کے ذریعے رسول الله کو سازش سے باخبررکھتے تھے، پھر آٹھ ہجری سے پہلے فتح مکہ کے سال مدینہ کی طرف ہجرت کرآئے۔

کتاب قرب الاسناد میں امام محمد باقر علیہ السلام کے واسطے سے ان کے والد امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے:

ایک روز رسول الله کے پاس بڑی مقدار میں مال لایا گیا، آپ نے عباس کی طرف رُخ کیا اور ارشاد فرمایا:

اپنی عبا پھیلادو اور اس مال میں کچھ لے لو۔

عباس نے ایسا کیا۔

پھر رسول الله نے فرمایا:

یہ اسی میں سے ہے کہ جس کے بارے میں الله فرماتا ہے، پھر آپ نے آیہیَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِمَنْ فِی اٴَیْدِیکُمْ --- کی تلاوت فرمائی۔ (تفسیر نور الثقلین، ج ۲ ،ص ۱۶۸)

یہ گویا اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ جو مال تم سے لیا گیا تھا اُس کی تلافی کے بارے میں اس طرح خدا کا وعدہ اب پورا ہوگیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله اس کوشش میں تھے کہ جو قیدی مسلمان ہوگئے ہیں انھیں احسن طریقے سے تشویق کی جائے اور جو مال انھوں نے دیئے ان کی بہتر طور پر تلافی کی جائے۔

____________________

۱۔ تفسیر المنار، ج۱۰، ص۹۰؛ تفسیر المعانی، ج۱۰، ص۱۳۲ ؛اور تفسیر رازی، ج۱۵، ص۱۹۸-

۲۔ تفسیرنور الثقلین، ج۲، ص۱۳۵-

۳۔ تفسیرنور الثقلین، ج۲، ۱۳۶ بحوالہ تفسیر علی بن ابراہیم -

۴۔ ظاہری طور پرجناب خریجہ کی بہن کی بیٹی جو رسول الله کی لے پالک تھیں کا شوہر۔(مترجم)

۵۔ لے پالک بیٹی مراد ہے مترجم۔

۶۔ جیسا کہ کامل بن اثیر جلد۲،ص۱۳۴ پر ہے۔”فلما راٴها رسول الله (ص) رق لها رقة شدیدة وقال ان راٴیتم ان تطلقوا لها اٴسیرها، وتردوا علیها الذی لها فافعلوا، فاطلقوا لها اسیرها وردّوا القلادة -

۷۔ تفسیر المیزان، ج۹، ص۱۴۱-

۸۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں تفسیر نور الثقلین، روضة الکافی، تفسیر قرطبی اور تفسر المنار کی طرف رجوع کیجئے۔