تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27295
ڈاؤنلوڈ: 2414


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27295 / ڈاؤنلوڈ: 2414
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

سورہ برائت

سورہ توبہ کے بارے میں چند اہم نکات

اس سورہ کی تفسیر شروع کرنے سے پہلے ان نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

۱ ۔ سورہ کا نام:

مفسّرین نے اس سورہ کے کئی نام ذکر کیے ہیں جن کی تعداد دس سے زیادہ ہے ۔ ان میں سے زیادہ مشہور یہ ہیں : برائت، توبہ اور فاضحہ۔

ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک واضح دلیل ہے ۔ ”برائت“ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کی ابتداء پیمان شکن مشرکین سے خدا کی برائت اور بیزاری سے ہوتی ہے ۔

اسے ”توبہ“ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں توبہ کے متعلق بہت گفتگو کی گئی ہے ۔

اس کا نام ”فاضحہ“ اس جہت سے ہے کہ اس کی مختلف آیات منافقین کی رسوائی، فضاحت اور ان کے اعمال سے پردہ اٹھانے کا سبب بنیں ۔

۲ ۔ مختصر تاریخِ نزول:

مدینہ میں رسول اللہ پر نازل ہونے والی یہ آخری سورہ ہے یا آخری سورتوں میں سے ہے اور جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس کی ۱۲۹ آیات ہیں ۔

اس کے نزول کی ابتداء ۹/ ہجری قمری میں بیان کی جاتی ہے ۔ سورہ کی آیات کا مطالعہ نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا کچھ حصّہ جنگِ تبوک سے پہلے، کچھ جنگ کی تیاری کے وقت اور کچھ جنگ سے واپسی پر نازل ہوا ۔

شروع سے لے کر آیت ۲۸ تک کا حصّہ مراسم حج کا موقع آنے سے پہلے نازل ہوا اور جیسا کہ انشاء اللہ اس کی تشریح میں آئے گا اس کی ابتدائی آیات جو باقی ماندہ مشرکین سے متعلق تھیں مراسمِ حج میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے توسط سے لوگوں کو پہنچائی گئیں اور آپ(ع) نے ان کی تبلیغ فرمائی ۔

۳ ۔ مضامین و مشتملات:

یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب اسلام جزیرہ عرب میں اوج و بلندی حاصل کرچکا تھا اور مشرکین آخری شکست کھا چکے تھے ۔ اس لیے اس کے مضامین خاص اہمیت کے حامل ہیں اور اس میں حساس اور بلند امور زیر بحث آئے ہیں ۔

اس کے اہم حصّے بچے کھچے مشرکین اور بت پرستوں کے بارے میں ہیں ۔ ان سے رابطہ توڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے جو معاہدے تھے انہیں لغو قرار دینے کے سلسلے میں گفتگو ہے کیونکہ وہ بار بار اپنے معاہدوں کو توڑچکے تھے ۔ یہ احکام اس لیے ہیں تاکہ باقی ماندہ بت پرستی اسلامی ماحول سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے ۔

نیز اسلام نے چونکہ وسعت پیدا کرلی تھی اور دوشمنوں کی صفیں تتربتر ہوچکی تھیں لہٰذا کچھ لوگوں نے اپنے چہرے بدل لیے اور مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوگئے تاکہ وہ موقع ہاتھ آتے ہی اسلام پر ضرب کاری لگائیں ۔ اسی صورت حال کے پیش نظر اس سورة کا دوسرا اہم حصّہ منافقین اور ان کی سرنوشت کے بارے میں ہے ۔ اس میں مسلمانوں کو شدت سے متنبہ کیا گیا ہے اور منافقین کی نشانیاں گنوائی گئی ہیں ۔

اس سورہ کا ایک اور حصّہ راہِ خدا میں جہاد کے بارے میں ہے کیونکہ اس حساس موقع پر اس حیات بخش امر سے غافل رہنا مسلمانوں کے ضعف، پسماندگی یا شکست کا باعث ہوسکتا تھا ۔

ایک اور اہم حصّہ اس سورہ کا گذشتہ مباحث کی تکمیل کے حوالے سے ہے ۔ اس میں ان کے حقیقت توحید سے انحراف کے بارے میں گفتگو ہے اور ان کے علماء نے رہبری اور ہدایت کے فریضے سے جو رخ پھیر رکھا ہے اس سے متعلق ہے ۔

نیز کچھ آیات میں جہاد سے مربوط مباحث کی مناسبت سے مسلمانوں کو اتحاد اور اپنی صفوں کو مجتمع کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ کمزور دل اور سست قسم کے افراد جو مختلف بہانوں سے فریضہ جہاد سے کتراتے تھے انہیں شدید سرزنش اور ملامت کی گئی ہے اور اس کے برعکس پہلے مہاجرین اور دیگر سچے مومنین کی مدح و ثنا کی گئی ہے ۔

اسلامی معاشرہ اس وقت وسعت اختیار کرچکا تھا اور بھی کئی امور کی اصلاح کی ضرورت تھی اسی مناسبت سے اس سورہ میں زکوٰة سے متعلق بحث بھی ہے ۔ ذخیرہ اندوزی، ارتکازِ دولت اور خزانہ سازی سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ تحصیلِ علم کے لازمی ہونے کا ذکر ہے اور جاہل و نادان افراد کے لیے وجوبِ تعلیم کی یاددھانی کروائی گئی ہے ۔

مندرجہ بالا مباحث کے علاوہ کچھ اور مباحث بھی ہیں مثلاً رسول اللہ کی ہجرت کا واقعہ، حرام مہنیوں کا مسئلہ جن میں جنگ کرنے کی ممانعت ہے، اقلیتوں سے جزیہ لینے کا معاملہ اور اس قسم کے دیگر مسائل کسی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں ۔

۴ ۔ سورہ کی ابتداء میں ”بسم اللہ“ کیوں نہیں ہے؟:

جس کیفیت میں سورہ شروع ہورہی ہے وہ خود اس سوال کا جواب ہے ۔ در حقیقت اس سورہ کا آغاز پیمان شکن دشمنوں سے اعلان جنگ اور اظہار بیزاری کے ساتھ ہوا ہے اور ان کے خلاف ایک محکم اور سخت روش اختیار کی گئی ہے اور اس گروہ کے بارے میں خدا کے غیض و غضب کو بیان کیا گیا ہے ۔ لہٰذا یہ صورت حال ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ سے مناسبت نہیں رکھتی جو صلح، دوستی، محبت،خدا کی رحمانیت و رحمیت کا اظہار ہے ۔ یہ بات ایک روایت میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے ۔(۱)

بعض حضرات کا نظریہ ہے کہ یہ سورت در حقیقت سورہ انفال کا تسلسل ہے کیونکہ سورہ انفال میں عہد و پیمان کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس سورہ میں پیمان شکنوں کے معاہدوں کو لغو قرار دینے کی بات کی گئی ہے لہٰذا ان دو کے درمیان ”بسم اللہ“ نہیں آئی ۔ اس سلسلے میں امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت بھی منقول ہے ۔(۲)

۱ ۔ مرحوم طبرسی حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :

لم تنزل بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم علیٰ راٴس سورة برآئة، لانّ بسم اللّٰه للاٴمان و الرحمة و نزلت برآئة لرفع الاٴمان و السیف فیه

اس سورہ کی ابتداء میںبسم الله الرحمن الرحیم کے نازل نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بسم اللہ امان ورحمت کے لیے ہے اور یہ سورہ امان کے خاتمے اور تلوار اٹھانے کے لیے ہے ۔

۲ ۔ مرحوم طبرسی نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:”الانفال و برآئة واحدة

انفال اور برائت ایک ہی سورہ ہے ۔

اس میں کوئی ما نع نہیں کہ ”بسم اللہ“ کے ترک کرنے کی دونوں علتیں ہوں جن میں سے ایک کی طرف پہلی روایت میں اور دوسری کی طرف دوسری روایت میں اشارہ ہوا ہے ۔

۵ ۔سورہ کی فضیلت اور تعمیری اثرات:

اسلامی روایات میں اس سورہ ا نفال کی تلاوت کو خاص اہمیت دی گئی ہے ۔ان میں سے ایک روایات حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے آپ(ع) نے فرمایا :

من قرء برآئة والاٴنفال فی کلّ شهر لم یدخله نفاق اٴبداً وکان من شیعة اٴمیرالمومنین حقّاً

جو شخص ہر ماہ انفال اور برائت پڑھے اس میں روحِ نفاق داخل نہیں ہوگی اور وہ امیرالمومنین کے حقیقی شیعوں میں سے ہوگا ۔

ہم نے بارہا کہا ہے کہ روایات میں مختلف سورتوں کو پڑھنے کی جو بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سوچ بچار کیے بغیر اور عمل کے بغیر بس پڑھ لینے ہی سے غیرمعمولی آثار مرتب ہوجائیں گے، مثلاً جو شخص برائت اور انفال کے الفاظ ان کے تھوڑے بہت معانی اور مفہوم سمجھے بغیر پڑھے یہ نہیں ہے کہ وہ نفاق سے دُور اور حقیقی شیعوں کی صف میں شامل ہوجائے گا بلکہ در حقیقت یہ روایت فر اور معاشرے کے لئے سورة کے تعمیری، اصلاحی اور تربیتی مضامین کے اثر کی طرف اشارہ ہے کہ جو معنی سمجھے بغیر اور عمل کے لئے آمادگی کے بغیر ممکن نہیں ہے ان دونوں سورتوں میں حقیقی مسلمانوں اور منافقوں کی صفوں اور ان کی زندگی کے اصلی خطوط کو واضح کیا گیا ہے اور جو عمل کے مردِ میدان ہیں نہ کہ باتوں کے ان راستے کو مکمل طور واضح کیا گیا ہے اس بناپر ان کی تلاوت ان کے مضامین سمجھنے اور عملی زندگی میں انھیں اپنانے پر ہی غیرمعمولی اثر پیدا کرسکتی ہے ۔

اور جو لوگ قرآن اور اس کی نورانی آیات کو ایک جادو اور منتر کی طرح سمجھتے ہیں درحقیقت وہ اس تربیت کنندہ اور انسان ساز کتاب سے بیگانہ اور ناواقف ہیں ۔

جن مختلف نکات کی طرف اس سورة میں اشارہ ہوا ہے ان کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

سورہ برائت اور سورہ توحید ستر ہزار ملائکہ کی معیّت میں مجھ پر نازل ہوئیں اور ان میں سے ہر ایک دونوں سورتوں کی اہمیت کے بارے میں وصیّت کرتا تھا ۔

۶ ۔ ایک حقیقت جسے چھپانے کی کوشش ہوتی ہے:

تقریباً تمام مفسِّرین اورمورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب یہ سورت ابتدائی آیات کے ساتھ تازل ہوئی اور اس میں ان معاہدوں کو لغو قرار دیا گیا ہے جو مشرکین نے رسول الله سے کررکھے تھے تو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس فرمان کی تبلیغ کے لئے یہ سورة حضرت ابوبکر کو دی تاکہ وہ حج کے موقع پر مکہ جاکر عوام کے سامنے پڑھیں ، بعدازان یہ سورة آپ نے اُن سے لے کر حضرت علی علیہ السلام کو دے دی اور حضرت علی علیہ السلام اس تبلیغ پر مامور ہوئے اور انھوں نے مراسمِ حج تمام لوگوں کے سامنے ابلاغِ رسالت کی ۔

اس واقعہ کی اگرچہ مختلف جزئیات اور شاخیں بیان کی گئی ہیں لیکن اگر ہم ذیل کے چند نکات کی طرف توجہ کریں تو ہم حقیقت واضح ہوجائے گی:

۱ ۔ احمد بن حنبل کی روایت:

اہل سنت کے مشہور امام احمد بن حنبل اپنی کتاب ”مسند “میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :

رسول الله نے فلاں شخص (مراد حضرت ابوبکر ہیں جیسا کہ آئندہ روایات میں واضح ہوگا) کو بھیجا اور اسے سورہ توبہ دی (تاکہ حج کے موقع پر وہ اسے لوگوں تک پہنچائے) پھر علی(ع) کو اس کے پیچھے بھیجا اور وہ سورہ اس سے لے لی اور فرمایا:

لاتذهب بها اللا رجل منّی واٴنا منه

اس سورہ کی تبلیغ صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔(۱)

۲ ۔ احمد بن حنبل کی ایک اور روایت:

اسی کتاب میں انس بن مالک سے منقول ہے:

رسول الله نے ابوبکر کو سورہ برائت کے ساتھ بھیجا لیکن جب وہ ”ذی الحلیفہ“ (جس کا دوسرا نام مسجد شجرہ ہے جو مدینہ سے ایک فرسخ پر واقع ہے) پہنچے تو فرمایا:”لاتبلغها الا اٴنا اٴو رجل اهل بیتی فبعث بها مع علی

اس سورہ کا ابلاغ سوائے میرے یا اس شخص کے جو میرے اہلِ بیت میں سے ہو کوئی نہیں کرسکتا، پھر آپ نے وہ سورہ علیٰ کو دے کر بھیجا ۔(۲)

۳ ۔ ایک مزید روایت:

اسی کتاب میں ایک اور سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب رسول الله نے سورہ برائت ان کے ساتھ بھیجی تو آپ نے عرض کیا: میں خطیب نہیں ہوں ۔

سول الله نے فرمایا: اس کے بغیر چارہ نہیں کہ میں اسے لے کر جاوں یا تم۔

حضرت علی علیہ السلام نے کہا: جب معاملہ اس طرح ہے تو پھر میں لے کر جاتا ہوں ۔

اس پر رسول الله نے فرمایا:”انطلق فانّ الله یثبت لسانک ویهدی قلبک

جاوخدا تمھاری زبان کو ثابت رکھے گا اور دل کو ہدایت کرے گا ۔

پھر رسول الله نے اپنا ہاتھ علی(ع) کے منھ پر رکھا (تاکہ اس کی برکت سے ان کی زبان گویا اور فصیح ہو)(۳)

۴ ۔ خصائص نسائی کی روایت:

اہل سنت کے مشہور امام نسائی اپنی کتاب ”خصائص“ میں زید بن سبیعسے ایک روایت نقل کرتے ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :

رسول الله نے سورہ برائت ابوبکر کے سے ساتھ اہلِ مکہ کی طرف بھیجی پھر انھیں (حضرت علی(ع) اُن کے پیچھے بھیجا اور کہا: ا س سے خط لے لو، علی(ع) نے راستے میں ابوبکر کو جالیا اور ان سے خط لے لیا، ابوبکر محزون ومغموم واپس ہوئے اور پیغمبر سے عرض کی: ”اٴنزل فیّ شیء “ (کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے کہ آپ نے مجھے معزول کردیا ہے؟)

رسول الله نے فرمایا: نہیں اور مزید فرمایاکہ:”الآ انّیٰ امرت اٴن اٴبلغه اٴنا اٴو رجل من اٴهل بیتی

(مگر یہ کہ مجھے مامور کیا گیا ہے کہ میں خود تبلیغ کروں یا میرے اہل بیت میں سے کوئی مرد تبلیغ کرے ۔(۴)

۵ ۔ نسائی کی ایک اور روایت:

نسائی نے خصائص میں اور سند کے ساتھ عبدالله بن ارقم سے یوں نقل کیا ہے:

رسول الله نے سورہ برائت حضرت ابوبکر کے ساتھ بھیجی جب وہ کچھ راستہ طے کرچکا تو علی(ع) کو بھیجا اور انھوں نے ابوبکر سے سورت لے لی اور اسے اپنے ساتھ (مکہ کی طرف) لے گئے اورابوبکر نے اپنے دل میں ایک طرح کی پریشانی محسوس کی (اور خدمتِ پیغمبر میں پہنچے تو) رسول الله نے فرمایا:”لاودّی عنّی الّا اٴنا ورجلٌ منّی(۵)

۶ ۔ ابک کثیر کی روایت:

مشہور عالم ابن کثیر اپنی تفسیر میں احمد بن حنبل سے اور وہ حنش سے اور وہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں :

جس وقت سورہ برائت کی دس آیات رسو ل الله پر نازل ہوئیں تو آپ نے ابوبکر کو بلایا اور انھیں آیات کی تلاوت کے لئے اہلِ مکہ کی طرف بھیجا، پھر آپ نے کسی کو بھیج کومجھے بلوایا اور فرمایا ابوبکر کے پیچھے جاو اور جہاں کہیں بھی اس سے جا ملو اس سے خط لے لو---- ابوبکر، پیغمبر کی طرف آئے اور پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے؟ پیغمبر نے فرمایا: نہیں ”ولٰکن جبرئیل جائنی فقال لن یوٴدی الّا اٴنت اٴو رجل منک “ (لیکن جبرئیل میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ یہ ذمہ داری آپ )یا وہ مرد جو آپ سے ہے کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرسکتا) ۔(۷)

۷ ۔ ابن کثیر کی ایک اور روایت:

بعینہ یہی مضمون ابن کثیر نے زید بن یسیغ سے بھی نقل کیا ہے ۔(۸)

۸ ۔ ایک روایت مزید:

اہلِ سنت کے اسی عالم (ابن کثیر) ہی نے اس حدیث کو دوسری سند سے حضرت ابوجعفر محمد(ع) بن علی(ع) بن حسین(ع) بن علی(ع) (امام باقر(ع) سے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔(۹)

۹ ۔ علامہ ابن اثیر کی روایت:

اہلِ سنت کے ایک اور عالم علامہ ابن اثیر نے ”جامع الاصول“ میں ترمذی کی وساطت سے انس بن مالک سے نقل کیا ہے:

رسول الله نے سورہ برائت ابوبکر کے ساتھ روانہ کی، پھر انھیں بلایا اور فرمایا:

لاینبغی لاٴحدٍ اٴن یبلغ هٰذه الّا رجل من اهلی، فدعا علیّاً فاٴعطاه ایّاه

کسی کے لئے مناسب نہیں کہ اس سورہ کی تبلیغ کرے مگر وہ شخص جو میر ے اہل بیت میں سے ہو۔

۱۰ ۔ محب الدین طبری کی روایت:

اہل سنّت کے عالم محب الدین طبری اپنی کتاب ”ذخائر العقبیٰ“ میں ابو سعید یا ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں :

رسول الله نے ابوبکر کو امر حج کی نظارت پر مامور کیا، جس وقت وہ ضجنان کے مقام پر پہنچے تو علی(ع) کے اونٹ کی آواز سنی اور انھیں پہچان لیا اور سمجھ لیا کہ وہ انہی کی تلاش میں آئے ہیں اور کہا کہ آپ کس لئے آئے ہیں ؟ انھوں نے کہا: خیریت ہے، رسول الله نے سورہ برائت کو میرے ساتھ بھیجا ہے، اس وقت ابوبکر واپس آگئے (اور پیغام رسانی کی اس تبدیلی کا اظہار کیا) تو رسول الله نے فرمایا:”لایبلغ عنّی غیری اٴو رجل منّی یعنی علیّاً

میری طرف سے میرے علاوہ کوئی تبلیغ نہیں کرسکتا مگر وہ شخص جو مجھ سے ہے آپ کی مراد علی(ع) تھے ۔(۱۰)

دوسری روایت میں تصریح ہوئی ہے کہ رسول الله نے اپنا اونٹ حضرت علی علیہ السلام کو دیا تاکہ اس پر سوار ہوکر آپ مکہ جائیں اور اس دعوت کی تبلیغ کریں ، اثنائے راہ میں جب ابوبکر نے اونٹ کی سنی تو پہچان لیا ۔

یہ روایات اور مندرجہ بالا حدیث در اصل ایک ہی مطلب پیش کرتی ہیں اور وہ یہ کہ اونٹ خود پیغمبر اکر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا تھا جو اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام کو دیا گیا تھا کیونکہ ان کی ذمہ داری نہایت اہم تھی ۔

اہل سنت کی دوسری بہت سی کتب میں یہ حدیث بعض اوقات مسند اور گاہے مرسل نقل ہوئی ہے، اور یہ ایسی حدیث ہے جس کی اصل میں کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔

بعض روایات کے مطابق جو طرق اہل سنت سے وارد ہوئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر جب ان آیات کی تبلیغ کے منصب سے معزول ہوئے تو ”امیر لحاج “ کی حیثیت سے مکہ آئے اور وہ حج کے معاملے پر نگران تھے ۔

____________________

۱۔ مسند احمد ، ج۱، ص۲۳۱، طبع مصر-

۲۔ مسند احمد ، ج۳، ص۲۱۲، طبع مصر-

۳۔ مسند احمد بن جنل، ج۱، ص۱۵۰-

۴۔ خصائص نسائی، ص۲۸-

۵۔ خصائص نسائی، ص۲۸-

۶۔ تفسیر ابن کثیر ج۲، ص۳۲۲-

۷۔ تفسیر ابن کثیر ج۲، ص۳۲۲-

۸۔ تفسیر ابن کثیر ج۲، ص۳۲۲-

۹۔ جامع الاصول، ج۹، ص۴۷۵-

۱۰۔ ذخائر العقبیٰ، ص۶۹-

توضیح اور تحقیق

یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی ایک عظیم فضیلت ثابت کرتی ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی دوسری احادیث کی طرح یہ بھی سردمہری کا شگار ہوگئی ہے، بعض لوگوں کی کوشش ہے کہ اس کی قیمت بالکل گرادیں یا اس کی اہمیت کم کردیں ، اس کے لئے انھوں نے اِدھر اُدھر بہت ہاتھ پاوں مارے ہیں ، مثلاً:

۱ ۔ کبھی مولف المنار کی طرح احادیث میں صرف وہ حصّہ بیان کی گیا ہے جس میں مراسمِ حج پر حضرت ابوبکر کی نظارت سے گفتگو ہے لیکن حضرت ابوبکر سے سورہ برائت لینے کے بارے میں اور وہ گفتگو جو رسول الله نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کی ہے سے متعلق خاموشی اختیار کی ہے حالانکہ ان احادیث میں سے اگر بعض اس بارے میں خاموش ہیں تو یہ بات اس امر کی دلیل نہیں بنتی کہ جو احادیث اس سلسلے میں بحث کرتی ہیں ان سب کو نظر انداز کردیا جائے، تحقیقی روش کا تقاضا ہے کہ وہ تمام احادیث پر توجہ دیں چاہے وہ ان کے میلان اور پہلے سے کئے گئے فیصلے کے برخلاف کیوں نہ ہوں ۔

۲ ۔ کبھی کچھ حضرات ان میں سے بعض احادیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہیں مثلاً وہ حدیث جو سماک اور حنش تک جا پہنچی ہے (اس سلسلے میں بھی مفسّر مذکور کا نام بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے) حالانکہ اس حدیث کے ایک یاد دہی کے طریق سے سند تو نہیں اور اس کے راوی سماک اور حنش پر ہی منحصر نہیں بلکہ یہ حدیث متعدد طرقف سے ان کی معتبر کتب میں آئی ہے ۔

۳ ۔ کبھی بعض لوگ متنِ حدیث کے بارے میں تعجب انگیز توجیہیں کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں اگر رسول الله نے سورہ کی تبلیغ کا حکم حضرت علی(ع) کو دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں یہ رسم تھی کہ معاہدے کو لغو قرار دینے کا اعلان خود متعلقہ شخص کرے یا اس کے خاندان کاکوئی فرد۔

حالانکہ اوّل تو متعدد طرقِ حدیث میں تصریح ہوئی ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ جبرئیل میرے لئے یہ حکم لے کر آیا ہے کہ یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق میں جو سطور بالا میں ذکر ہوئے ہیں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:اگر تم یہ کام نہ کرو تو پھر مجھے خود یہ کام کرنا پڑے گا ۔

تو کیا پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے چچا آپ کے رشتہ داروں میں سے کوئی اور مسلمانوں میں موجود نہیں تھا کہ اگر علی(ع) نہ جاتے تو پھر خود پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہی یہ اقدام کرتے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ خود اس امر کے لئے کہ یہ عربوں کی رسم تھی کہ انھوں نے کسی قسم کا کوئی مدرک، حوالہ یا دلیل پیش نہیں کی ۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں توجیہ کے لئے اپنے میلان کے مطابق تخمینے قائم کئے ہیں ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض معتبر طرق میں ہے:”لایذهببها الّا رجل منّی واٴنا منه

اسے کوئی نہیں لے جاسکتا مگر میں یا جو مرد مجھ سے ہو۔

یہ اور اس جیسے اور جملے جو متنِ روایات میں موجود ہیں نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی علیہ السلام کو اپنی طرح اور اپنے آپ کو ان کی طرح جانتے تھے (جیسا کہ آیہ مباہلہ میں آیا ہے)

جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر تعصبات اور پہلے سے کئے گئے فیصلے اور ذہنوں میں بٹھائے گئے عقائد ایک طرف کردیئے جائیں تو رسول الله نے اس مقام سے تمام صحابہ پر علی(ع) کی فضیلت وبرتری کو مشخص ومعیّن کیا ہے ”وانّ هٰذا الّا بلاغ “۔

آیات ۱،۲

۱( بَرَائَةٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَی الَّذِینَ عَاهَدتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ )

۲( فَسِیحُوا فِی الْاٴَرْضِ اٴَرْبَعَةَ اٴَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ وَاٴَنَّ اللهَ مُخْزِی الْکَافِرِینَ )

ترجمہ

۱ ۔ خدا اور اس کے رسول کا یہ اعلانِ بیزاری ان مشرکین کے لئے ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا ۔

۲ ۔ اس کے باوجود چار ماہ (تک تمھیں مہلت ہے کہ) زمین میں (آزادانہ) چلو پھرو (اور جہاں چاہو جاو اور جو چاہو سوچ بچار کرو) اور جان لو کہ تم خدا کو عاجز وناتواں نہیں کرسکتے (اور اس کی قدرت سے فرار نہیں کرسکتے اور یہ بھی جان لو کہ) خدا کافروں کو ذلیل وخوار کرنے والا ہے ۔

مشرکین کے معاہدے لغو ہوجاتے ہیں

دعوتِ اسلام کے گرد وپیش مختلف گروہ موجود تھے جن میں سے ہر ایک کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس کے حالات مدنظر رکھ کر سلوک کرتے تھے ۔

ایک گروہ ایسا تھا کہ جس کا پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے کوئی پیمان نہ تھا اور رسول الله کا بھی اس سے کوئی عہد وپیمان نہ تھا ۔

کچھ دوسرے گروہوں نے حدیبیہ وغیرہ میں رسول الله سے دشمنی کا ترک کرنے کا پیمان باندھ لیا تھا، ان معاہدوں میں سے بعض تو معیہ مدت کے حامل تھے اور بعض کی کوئی مدت نہ تھی ۔

اس دوران بعض قبائل کہ جنھوں نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے پیمان باندھا تھا یک طرفہ طور پر بغیر کسی جواز اور وجہ کے اسلام دشمنوں سے واضح طور پر تعاون کرکے اپنے معاہدے توڑدیئے تھے یا رسول اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہوگئے تھے، مثلاً بنی نضیر اور بنی قریظہ کے یہودیوں نے یہی طرزِ عمل اختیار کرلیا تھا، رسول الله نے بھی ان کے مقابلے میں شدّت عمل کا رویہ کا اختیار کرلیا تھا اور ان تمام کو مدینہ سے نکال باہر کیا لیکن کچھ معاہدے ایسے تھے جو ابھی تک پوری طرح باقی تھے چاہے وہ محدودیت والے ہوں یا بغیر مدت کے تعین کے ۔

زیرِ نظر پہلی آیت تمام بت پرستوں کے لئے اعلان کرتی ہے کہ ان کا مسلمانوں سے جو معاہدہ ہے وہ لغو ہوگیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: خدا اور اس کے پیغمبر کا یہ اعلانِ بیزاری ان مشرکین سے ہے کہ جن کے ساتھ عہد وپیمان باندھا تھا( بَرَائَةٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَی الَّذِینَ عَاهَدتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

اس کے بعد انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے تاکہ وہ اس مدت میں سوچ بچار کرلیں اور اپنی کیفیت کو واضح کرلیں اور چاہ ماہ بعد یا تو بت پرستی کے مذہب سے دستبردار ہوجائیں یا جنگ کے لئے تیار ہوجائیں ، فرمایا گیا ہے: ”چار ماہ آزادانہ طور پر زمین پر جہاں چاہو چلو پھر“ لیکن اس کے بعد حالات مختلف ہوجائیں گے( فَسِیحُوا فِی الْاٴَرْضِ اٴَرْبَعَةَ اٴَشْهُرٍ ) ۔(۱)

”لیکن یہ جان لو کہ تم خدا کو ناتواں اور عاجز نہیں کرسکتے اور نہ اس کی قدرت کی قلمرو سے نکل سکتے ہو“( وَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ ) ۔

نیز یہ بھی جان لوکہ بالآخر خد کو کفار مشرکین اور بت پرستوں کو ذلیل وخوار اور رسوا کرے گا“( وَاٴَنَّ اللهَ مُخْزِی الْکَافِرِینَ ) ۔

____________________

۱۔ ”سیحوا“ ”سیاحت“ کے مادہ سے ہے اس کا معنی ہے اطمینان سے چلنا پھرنا اور گردش کرنا ۔

چند قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ کیا یک طرفہ طور پر معاہدہ کالعدم کردیا صحیح ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں ایفائے عہد اور معاہدوں کی پابندی کو خاص اہمیت دی گئی ہے، ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم یہ حکم دے رہا ہے کہ مشرکین سے کیا گیا معاہدہ یکطرفہ طور پر فسخ ہوگیا ہے ۔

ذیل کے امور کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے:

پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے اسی سورہ کی آیت ۷ اور ۸ میں تصریح ہوئی ہے کہ بلاوجہ اور بلاوجہ تمہید معاہدوں کو اسی طرح لغو قرار نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان کی طرف معاہدہ توڑنے کے واضح قرائن اور نشانیاں موجود تھیں اور وہ اس بات پر تیار تھے کہ طاقت حاصل ہونے کی صورت میں مسلمانوں سے کئے گئے معاہدوں کی ذرّہ بھر پرواہ کئے بغیر ان پر کاری ضرب لگائیں ۔

یہ بات بالکل منطقی ہے کہ اگر انسان دیکھے گا کہ دشمن اپنے آپ کو عہد شکنی کے لئے تیار کررہا ہے اور اس کے اعمال میں ایسی کافی علامات اور قرآئن نظر آرہے ہوں تو اس سے پہلے کہ وہ غفلت میں پکڑا جائے معاہدے کی منسوخی کا اعلان کرکے اس کے مقابلے میں کھڑا ہوجائے گا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو معاہدے خاص حالات میں کسی قوم یا ملت پر ٹھونسے اور وہ انھیں قول کرنے پر مجبور ہو تو کیا حرج ہے کہ طاقت حاصل ہونے کے بعد ایسے معاہدے یک طرف طور پر لغو کردے ۔

بت پرستی کوئی دین تھا نہ کوئی عاقلانہ فکر بلکہ ایک بیہودہ، موہوم اور خطرناک روش تھی کہ جسے آخرکار معاشرے سے ختم کیا جانا تھا، اب اگر بت پرستوں کی طاقت ابتداء میں جزیرہ عرب میں اس قدر تھی کہ پیغمبر اسلام مجبور تھے کہ ان سے صلح اور عہد وپیمان کریں تو یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ طاقت کے حصول کے بعد ہوئے عہد وپیمان کو جو منطق، عقل اور درایت کے خلاف ہیں وہ قائم رہیں ، یہ بالکل اس طرح ہے کہ طاقت کے ایک عظیم مصلح گاو پرستوں ں میں ظاہر ہو اور اس طریقے کو ختم کرنے کے لئے وسیع تبلیغات شروع کرے اور جب دباؤ میں ہو تو مجبوراً ان سے ترکِ مخاصمت اور ترک جنگ کا معاہدہ کرے لیکن جب اس کے کافی پیروکار ہوجائیں تو قیام کرے اور کہنہ افکار کو صاف کرنے کے لئے فعّالیت کرے اور اپنے معاہدے کے منسوخ ہونے کا اعلان کردے ۔

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کم صرف مشرکین کے ساتھ مخصوص تھا اور اہلِ کتاب یا دیگر قوّتیں جو جزیرہ عرب کے اطراف میں آباد تھیں ان سے کئے گئے معاہدوں کا رسول الله کی آخر عمر تک احترام کیاگیا ۔

علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکین کے معاہدوں کو غفلت کی حالت میں منسوخ نہیں کردیا گیا بلکہ انھیں چار مہینوں کی مہلت دی گئی اور حجاز کے عوامی اجتماع کے مرکز میں عید قربان کے دن خانہ کعبہ کے پاس اس امر سے تمام لوگوں کو باخبر کیا گیا تاکہ انھیں غوروفکر کرنے کے لئے زیادہ سے مہلت اور موقع مل جائے اور شاید اس طرح وہ اس ے بیہودہ مذہب سے دستبردار ہوجائیں جو پس ماندگی، طراکندگی، جہالت اور خباثت کا سبب ہے، خداتعالیٰ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ انھیں غفلت میں رکھے اور ان سے فکرونظر کی مہلت سلب کرلے یہاں تک کہ اگر وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو انھیں اپنے دفاع کے لئے قوت وطاقت مہیا کرنے کے لئے کافی وقت دیاجائے تاکہ وہ ایک عادلانہ جنگ میں گرفتار نہ ہوجائیں ۔

اگر پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم تربیت اور اصولِ انسانی کو ملحوظ نہ رکھتے تو چار ماہ کی مہلت دے کر کبھی دشمن کو بیدار نہ کرتے اور جنگی طاقت مہیا کرنے اور تیاری کے لئے انھیں کافی وقت نہ دیتے بلکہ کسی ایک دن یک طرفہ طور پر معاہدہ توڑکر بغیر کسی تمہید کے ان پر حملہ کرکے ان کی بساط اُلٹ دیتے ۔

اسی بناپر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے بت پرستوں نے ان چار ماہ کی مہلت سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی تعلیمات کا زیادہ مطالعہ کرکے آغوش اسلام میں آگئے ۔

۲ ۔ یہ چار مہینے کب سے شروع ہوئے؟

اس سوال کے جواب میں مفسّرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن جو کچھ مندرجہ بالا آیات سے ظاہر ہوتا ہے یہ ہے کہ ان کی ابتداء اس وقت ہوئی جب سے یہ اعلان عام لوگوں کے سامنے پڑھا گیا اور ہم جانتے ہیں کہ یہ عید قربان کے روز دس ذ الحجہ کو پڑھا گیا تھا، اس بناپر اس کی مدت اگلے سال کے ماہ ربیع الثانی کی دس تاریخ کو ختم ہوئی تھی، امام صادق علیہ السلام سے جو روایت نقل ہوئی ہے وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ تفسیرز برہان، ج۲، ص۱۰۳-