تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27608
ڈاؤنلوڈ: 2566


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27608 / ڈاؤنلوڈ: 2566
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۳،۴

۳( وَاٴَذَانٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاٴَکْبَرِ اٴَنَّ اللهَ بَرِیءٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُهُ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَکُمْ وَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ وَبَشِّرِ الَّذِینَ کَفَرُوا بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ )

۴( إِلاَّ الَّذِینَ عَاهَدتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوکُمْ شَیْئًا وَلَمْ یُظَاهِرُوا عَلَیْکُمْ اٴَحَدًا فَاٴَتِمُّوا إِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلیٰ مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ )

ترجمہ

۳ ۔ یہ آگاہی ہے خدا اوراس کے پیغمبر کی طرف سے (تمام) لوگوں کو حجِ اکبر (عید قربان) کے دن کہ خدا اور اس کا رسول مشرکین سے بے آزار ہے، ان حالات میں اگر توبہ کرو تو تمھارے نفع میں ہے اور اگر روگردانی کرو تو جان لو کہ تم خدا کو ناتواں اورعاجز نہیں کرسکتے (اور اس کی قدرت کی قلمرو سے نہیں نکل سکتے) اور کافروں کو دردناک سزا اور عذاب کی خوشخبری دے ۔

۴ ۔ مگر مشرکین میں سے وہ لوگ جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے اور اس میں ان سے کوئی فروگذاشت نہیں ہوئی اور تمھارے خلاف انھوں نے کسی کو تقویت نہیں پہنچائی ان کا معاہدہ اس کی مدت ختم ہونے تک محترم شمار کرو کیونکہ خد اپرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔

جن کا معاہدہ قابلِ احترام ہے

ان آیات میں مشرکین کے معاہدوں کے منسوخ ہونے کی بات بہت زیادہ تاکید کے سات دہرا گئی ہے، یہاں تک کہ قرآن انھیں آگاہ کرنے کی تاریخ بھی معین کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ آگاہی خدا اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کو حجِ اکبر کے دن کہ خدا اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں( وَاٴَذَانٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاٴَکْبَرِ اٴَنَّ اللهَ بَرِیءٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُهُ ) ۔(۱)

در حقیقت خدا چاہتا ہے کہ سرزمین مکہ میں اس عظیم دن میں عمومی اعلان کے ذریعے دشمن کے لئے بہانہ جوئی کے تمام راستے بند کردے اور بدگوئی کرنے والوں اور فسادیوں کی زبان کاٹ د ے تاکہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں غفلت میں رکھا گا اور ہم پر بزدلانہ حملہ کردیا گیا ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ”إِلَی الْمُشْرِکِینَ“ کے بجائے ”إِلَی النَّاسِ“ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے، یہ نشاندہی کرتی ہے کہ ضروری تھا کہ وہ تمام لوگوں جو اس دن مکہ میں تھے یہ پیغام سن لیں کہ مشرکین کے علاوہ دوسرے بھی اس امر پر گواہ ہوں ۔

اس کے بعد روئے سخن خود مشرکین کی طرف کرتے ہوئے تشویق وتہدید کے ذریعے ان کی ہدایت کی کوشش کی گئی ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: اگر توبہ کرلو اور خدا کی طرف پلٹ او اور بت پرستی کے مذہب سے دستبردار ہوجاو تو تمھارے فائدے میں ہے( فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَکُمْ ) یعنی دینِ توحید کو قبول کرنا تمھارے لئے، تمھارے معاشرے کے لئے اور تمھاری دنیا وآخرت کے لئے فائدہ مند ہے اور اگر اچھی طرح سوچ بچار کرلو تو اس کے سائے میں تمھاری تمام بے سرد و سامانیاں ختم ہوجائیں گی اور یہ نہیں کہ اس میں خدا اور اس کے رسول کا کوئی فائدہ ہے ۔

اس کے بعد متعصب اور ہٹ دھرم مخالفین کو تنبیہ کے طور پر کہا گیا ہے: اگر اس فرمان سے جو خود نہیں نکل سکتے( وَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ ) اور اس آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو مقابلے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: بت پرست کافروں کو دردناک عذاب کی بشارت دے( وَبَشِّرِ الَّذِینَ کَفَرُوا بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ )

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے یہ ان مشرکین کے معاہدوں کو یک طرف طور پر منسوخ کیا گیا تھا جن سے معاہدہ شکنی پر آمادگی کی نشانیاں ظاہر ہوچکی تھیں ، لہٰذا بعد والی آیت میں ایک گروہ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: مگر مشرکین کا وہ گروہ کہ جس سے تم نے معاہدہ کیا ہے اور اس نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی اور نہ ہی تمھارے کسی مخالف کو انھوں نے تقویت پہنچائی ہے( إِلاَّ الَّذِینَ عَاهَدتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوکُمْ شَیْئًا وَلَمْ یُظَاهِرُوا عَلَیْکُمْ اٴَحَدًا ) ۔ ”معاہدے کی مدت کو تمام ہونے تک اس گروہ کے ساتھ ایفا کرو“( فَاٴَتِمُّوا إِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلیٰ مُدَّتِهِمْ ) ”کیونکہ خدا پرہیزگاروں کو اور انھیں جو ہر قسم کی پیمان شکنی اور تجاوز سے اجتناب کرتے ہیں دوست رکھتا ہے“( إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ ) ۔

چند قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ حج اکبر کونسا دن ہے؟

بعض مفسّرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حج اکبر سے مراد کونسا دن ہے اور بہت سی روایات جو اہل بیت(ع) سے اور اہل سنت کے طرق سے منقول ہیں ، سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے دسویں ذی الحجہ اور عید قربان کا دن مراد ہے، دوسرے لفظوں میں ”یوم النحر“ (قربانی کا دن) مراد ہے ۔

چار ماہ کی مدت کا ربیع الثانی کی دس تاریخ کوختم ہونا اس کے مطابق جو اسلامی منابع اور کتب میں آیا ہے اس پر ایک اور دلیل ہے، علاوہ ازیں عید قربان کے دن اصل میں اعمال حج کا اصلی اور بنیادی حصّہ ختم ہوجاتا ہے، اس بناپر اسے روز حج کہا جاسکتا ہے ۔

باقی رہا یہ کہ اسے ”اکبر“ کیوں کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال تمام گروہ چاہے وہ مسلمان ہوں یا بت پرست (پرانے رواج کے مطابق) سب نے مراسمِ حج میں شرکت کی تھی لیکن یہ کام اس کے بعد بالکل موقوف ہوگیا ۔

مندرجہ بالا تفسیر جو کہ اسلامی روایات میں آئی ہے(۲) اس کے علاوہ ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد مراسمِ حج ہیں مراسمِ عمرہ کے مقابلے میں کہ جسے ”حج اصغر“ کہا جاتا ہے ۔

کچھ روایات میں یہ تفسیر بھی بیان ہوئی ہے اور کوئی مانع نہیں کہ ”حج اکبر“ کہنے کی دونوں وجوہ ہوں(۳)

۲ ۔ اس روز جن چار چیزوں کا اعلان کیا گیا:

قرآن نے خدا کی مشرکین سے بیزاری کو اگرچہ اجمالی طور پر بیان کیا لیکن اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں میں یہ چار اعلانات کردیں :

۱ ۔ مشرکین کے ساتھ معاہدے منسوخ ہوگئے ہیں ۔

۲ ۔ مشرکین آئندہ سال مراسم حج میں کرنے کا حق نہیں رکھتے ۔

۳ ۔ ننگے لوگوں کا طوان کرنا ممنوع ہے (یہ کام اس وقت مشرکین میں رائج تھا) ۔

۴ ۔ خانہ خدا میں مشرکین کا داخلہ ممنوع ہے ۔(۴)

تفسیر ”مجمع البیان“ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اُس سال مراسم حج میں خطبہ پڑھا اور فرمایا: (لایطوفن بالبیت عریان ولا یحجن البیت مشرک ومن کان له فهو الیٰ مدته ومن لم یکن له مدة فمدته اربعة اٴشهر ) ”آج کے بعد کوئی برہنہ خانہ خدا کا طواف نہیں کرسکتا اور کوئی بت پرست مراسم حج میں شریک نہیں ہونے کا حق نہیں رکھتا، وہ لوگ جن کا پیغمبر سے کیا ہوا معاہدہ اپنی مدت پر باقی رکھتا ہے وہ معاہدہ اپنی معیّنہ مدت تک قابل احترام ہے، وہ لوگ جن کے معاہدوں کی میعاد ختم ہوچکی ہے ان کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے“۔

بعض دوسری روایات میں چوتھے موضوع یعنی بت پرستوں کے خانہ کعبہ میں داخل نہ ہوسکنے کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۳ ۔ کن کا معاہدہ وقتی تھا؟

مورخین اور بعض مفسّرین کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی کنانہ کے ایک گروہ سے ترکِ مخاصمت اور ترکِ جنگ کے معاہدے کی مدت میں نو ماہ باقی تھے اور چونکہ وہ پیمان کے وفادار رہے تھے اور انھوں نے دشمنانِ اسلام کی مدد نہیں تھی لہٰذا رسول الله نے بھی معاہدے کی مدت ختم ہونے تک اُسے نبھایا ۔(۵)

بعض دوسرے علماء نے قبیلہ بنی خزاعہ کوبھی اس گروہ کا حصّہ قرار دیا ہے کہ جس کا عہد وپیمان ایک مدت کے لئے تھا ۔(۶)

____________________

۱۔ ”وَاٴَذَانٌ ----“ کے جملہ کا عطف ”بَرَائَةٌ مِنْ اللهِ “ پر ہے، اس جملے کی ترکیب میں اور احتمالات بھی ہیں لیکن جو کچھ ہم نے کہا ہے وہ زیادہ ظاہر ہے ۔

۲۔ تفسیر نور الثقلین میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

انّما سمّی الاکبر لانّها کانت سنة حج فیها المسلمون والمشرکون ولم یحج المشرکون بعد تلک السنة “(ج۱، ص۱۸۴)

۳۔ اسی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:”هو یوم النحر و الاصغر العمرة “(ج۲، ص۱۸۶)

۴۔ بعض روایات میں چوتھا اعلان یہ بیان گیا ہے کہ مشرکین بہشت میں داخل نہیں ہوں گے ۔

۵۔ تفسیر مجمع البیان، ج۵، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں -

۶۔ تفسیر المنار، ج۱۰، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں –

آیات ۵،۶

۵( فَإِذَا انسَلَخَ الْاٴَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ )

۶( وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْهُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ اٴَبْلِغْهُ مَاٴْمَنَهُ ذٰلِکَ بِاٴَنَّهُمْ قَوْمٌ لَایَعْلَمُونَ )

ترجمہ

۵ ۔ جب حرام مہینے ختم ہوجائیں تو مشرکین کو جہاں کہیں پاو قتل کردو اور انھیں قید کرلو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر کمین گاہ میں ان کی راہ میں بیٹھ جاو اور جب وہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکات ادا کریں تو انھیں چھوڑ دو کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

۶ ۔ اور اگر مشرک تم سے پناہ چاہے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ الله کا کلام سن سکے (اور اس میں غور وفکر کرسکے) پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچادو کیونکہ وہ بے علم اور ناگاہ گروہ ہے ۔

شدّت عمل اور سختی ساتھ ساتھ

یہاں مشرکین کے لئے دی گئی چار ماہ کی مہلت ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے اور مشرکین کے بارے میں سخت ترین حکم صادر ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے: جب حرام مہینے ختم ہوجائیں تومشرکین کو جہاں پاو قتل کردو( فَإِذَا انسَلَخَ الْاٴَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ ) ۔(۱)

اس کے بعد حکم دیا گیا ہے: ”انھیں قتل کردو“( وَخُذُوهُمْ ) ”اور ان کا محاصذرہ کرلو“( وَاحْصُرُوهُمْ ) ۔ ”اور ہر جگہ ان کی کمین میں بیٹھ جاو اور ان کے راستے مسدود کردو“( وَاقْعُدُوا لَهُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ ) ۔(۲)

یہاں ان کے بارے میں چار سخت احکام نظر آتے ہیں :

۱ ۔ ان کے راستے مسدود کردو۔

۲ ۔ ان کا محاصرہ کرلو۔

۳ ۔ انھیں قید کرلو اور۔

۴ ۔ انھیں قتل کردو۔

ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ چاروں امور ایک حکم تخییری صورت میں نہیں ہیں بلکہ گرد وپیش، زمان ومکان اور لوگوں کے حالات واوضاع دیکھ کر فیصلہ کیا جانا چاہیے اور ان امور میں سے جو مناسب سمجھا جائے اس پر عمل کیا جانا چاہیے اور اگر قتل کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہ ہو تو انھیں قتل کرنا جائز ہے ۔

یہ شدید طرزِ عمل اس بناپر ہے کہ اسلام کا منصوبہ یہ ہے کہ روئے زمین پر بت پرستی کی جڑ اکھاڑ پھینکی جائے اور جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ آزادی مذہب کا معاملہ یعنی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کرنا آسمانی ادیان اور اہلِ کتاب یعنی یہود ونصاریٰ وغیرہ پر منحصر ہے اور اس میں شامل نہیں ہے کیونکہ بت پرستی کوئی دین و مذہب نہیں کہ جس کا احترام کیا جائے بلکہ یہ تو پستی، بیہودگی، کجروی اور بیماری ہے جسے ہر حالت میں اور ہر قیمت پر جڑ سے نکال پھینکنا چاہیے ۔

لیکن یہ شدّت وسختی اس معنی میں نہیں کہ ان کے لئے لوٹ آنے کا راستہ ہی بند کردیا جائے بلکہ وہ جس حالت میں اور جس وقت چاہیں اپنی جہت اور نظریہ بدل سکتے ہیں لہٰذا فوراً ہی مزید حکم دیا گیا ہے: اگر وہ توبہ کریں ، حق کی طرف پلٹ آئیں ، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو انھیں چھوڑ دو اور ان سے مزاحمت نہ کرو( فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهُمْ ) ۔ اور اس صورت میں پھر وہ باقی مسلمانوں سے بالکل مختلف نہیں ہیں اور تمام احکام و حقوق میں ان کے ساتھ شریک ہیں کیونکہ ”خدا بخشنے والا اور مہربان ہے“ اور جو کوئی اس کی طرف پلٹ آئے وہ اسے اپنے رحمت سے نہیں دھتکارتا( إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

ایک اور حکم کے ذریعے اگلی آیت میں اس موضوع کی تکمیل کی گئی ہے تاکہ اس میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہ جائے کہ اس حکم سے اسلام کا ہدف توحید اور حق وعدالت کے دین کو عام کرنا ہے نہ کہ استعمار اور استثمار اور دوسروں کے اموال اور زمینوں پر قبضہ کرنا لہٰذا فرمایا گیا ہے: اگر کوئی بت پرست تم سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ خدا کی بات سنے( وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْهُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ ) یعنی ان سے انتہائی نرمی کا سلوک کرو اور اسے سوچ بچار کا موقع دو تاکہ وہ آزادنہ طور پر تمھاری دعوت کے مختلف پہلووں کا مطالعہ کرے اب اگر اس کے دل میں نورِ ہدایت چمکا تو اسے قبول کرلے گا، مزید فرمایا گیا ہے: ”مدتِ مطالعہ ختم ہونے پر اسے اس کی جائے امان تک پہنچادو“ تاکہ اثنائے راہ میں کوئی اس سے معترض نہ ہو( ثُمَّ اٴَبْلِغْهُ مَاٴْمَنَهُ ) ۔

آخر میں اس اصلاحی حکم کی علت یوں بیان کی گئی ہے: یہ اس لئے کہ وہ بے خبر اور لاعلم گروہ ہے( ذٰلِکَ بِاٴَنَّهُمْ قَوْمٌ لَایَعْلَمُونَ ) ۔

اس بنا پر اگر علم وآگہی کے حصول کے دروازے ان پر کھل جائیں تو یہ امید ہوسکتی ہے کہ وہ بت پرستی سے جو کہ جہالت ونادانی کی پیداوار ہے نکل آئیں اور خدا اور توحید کی راہ پر گامزن ہوجائیں جو کہ علم ودانش کا تقاضا ہے ۔

شیعہ وسنی کتب میں نقول ہے:

جب بت پرستوں کے معاہدے منسوخ ہونے کا اعلان ہوگیا تو ایک بت پرست نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے فرزندِ ابوطالب! اگر یہ چار مہینے گزرجانے کے بعد ہم میں سے کوئی شخص پیغمبر سے ملاقات کرنا چاہے اور ان کے سامنے کچھ مسائل پیش کرے یا خدا کا کلام سُنے تو کیا وہ امان میں ہے؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ہاں کیونکہ خدا فرماتا ہے:( وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْهُ ) (۳)

اس طرح سے پہلی آیت سے جو بہت زیادہ سخت معلوم ہوتی ہے دوسری آیت کے نرمی کے ساتھ مل کر ایک اعتدال کی صورت پیش کرتی ہے تربیت کا طریقہ یہی ہے کہ ہمیشہ سختی اور نرمی کو باہم ملایا جاتا ہے تاکہ اس سے ایک شفا بخش معجون تیار کی جائے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”اشھر حرم“ سے یہاں کیا مراد ہے؟

اگرچہ بعض مفسّرین نے یہاں پر بہت کچھ کہا ہے لیکن گذشتہ آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ظاہری مفہوم یہ نکلتا ہے کہ یہ وہی مہلت کے چار مہینے ہیں جو مشرکین کے لئے مقرر کئے گئے ہیں جن کی ابتداء دس ذی الحجہ ۹ ھ سے ہوتی ہے اور انتہا ۱۰/ ربیع الثانی ۱۰ ھ کو ہوتی ہے ، بہت سے محققین نے اسی تفسیر کو اپنایا ہے اور زیادہ اہمیت کی بات اس ضمن میں یہ ہے کہ کئی ایک روایات میں بھی اس کی تصریح ہوئی ہے ۔(۴)

۲ ۔ کیا نماز اور زکوٰة قبولیتِ اسلام کی شرط ہے؟

مندرجہ بالا ٰآات سے پہلی نظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بت پرستوں کی توبہ کی قبولیت کے لئے نماز اور زکوٰة ادا کرنا بھی ضروری ہے، اسی بناپر اہلِ سنت کے بعض فقہاء نے نماز اور زکوٰة ترک کرنے کو کفر کی دلیل سمجھا ہے ۔

لیکن یہ حق ہے کہ ان دو عظیم اسلامی احکام کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمام مواقع جہاں اسلام کا دعویٰ مشکوک نظر آئے جیسے اُس زمانے میں بت پرستوں کے معاملے میں عام طور پر ایسا ہی تھا، وہاں ان دو عظیم فرائض کی انجام دہی کو ان کے اسلام کی نشانی سمجھا جائے ۔

یا ہوسکتا ہے کہ مراد ہو کہ نماز اور زکوٰة کو دو خدائی قوانین کے طور پر قبول کریں اور ان کے سامنے سرجھکائیں اور انھیں باقاعدہ تسلیم کریں اگرچہ عملی طور پر وہ کوتاہی کرتے ہوں ، یہ مفہوم اس لئے سمجھا گیا ہے کیونکہ ہمارے پاس بہت سے دلائل موجود ہیں کہ انسان صرف نماز اور زکوٰة ترک کرنے سے کفار کی صف میں شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ اس کا اسلام بہت ہی ناقص ہوتا ہے ۔

البتہ اگر زکوٰة اسلامی حکومت کے خلاف قیام کے طور پر ہو تو وہ سببِ کفر ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے جو ہمارے زیرِ بحث موضوع سے مربوط نہیں ہے ۔

۳ ۔ ایمان علم کا ثمر ہے

مندرجہ بالا آیات سے یہ نکتہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بے ایمانی کا اہم عامل جہالت ہے اور ایمان کا بنیادی سرچشمہ علم وآگہی ہے لہٰذا لوگوں کی ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ انھیں مطالعہ اور غورو فکر کے کافی وسائل مہیا کئے جائیں تاکہ وہ راہ حق کو سمجھ سکیں نہ یہ کہ اندھا دھند اور کورانہ تقلید میں اسلام قبول کریں ۔

____________________

۱۔ ”انسلخ“ مادہ ”انسلاخ“ سے باہر جانے کے معنی میں ہے اور اس کی اصل ”سلخ الشاة“ یعنی ”اس نے بکری کا چمڑا اتارا ہے“۔

۲۔ ”مرصد“ ”رصد“ کے مادہ سے راہ یا کمین گاہ کے معنی میں ہے ۔

۳۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۰۶، اور تفسیر فخر الدین رازی، ج۵، ص۲۲۶-

۴۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں اس ضمن میں چند احادیث نکل گئی ہیں ۔

آیات ۷،۸،۹،۱۰

۷( کَیْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِینَ عَهْدٌ عِنْدَ اللهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلاَّ الَّذِینَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَهُمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ )

۸( کَیْفَ وَإِنْ یَظْهَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً یُرْضُونَکُمْ بِاٴَفْوَاهِهِمْ وَتَاٴْبیٰ قُلُوبُهُمْ وَاٴَکْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ )

۹( اشْتَرَوْا بِآیَاتِ اللهِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )

۱۰( لَایَرْقُبُونَ فِی مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَاذِمَّةً وَاٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْمُعْتَدُونَ )

ترجمہ

۷ ۔ مشرکین کے لئے اور اس کے رسول کے ہاں کس طرح عہدو پیمان ہوگا (جبکہ وہ بارہا اپنا معاہدہ توڑنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں ) مگر وہ کہ جن کے ساتھ تم نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا ہے (یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے معاہدے کو محترم سمجھا ہے) جب تک وہ تمھارے ساتھ وفادار ہیں تم بھی وفاداری کرو کیونکہ خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔

۸ ۔ کس طرح (ان کے معاہدے کی کوئی قدر وقیمت ہو) حالانکہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو نہ تم سے رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد وپیمان کا، اپنی زبان سے تو تمھیں خوش رکھتے ہیں لیکن ان کے دل انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر نادان ہیں ۔

۹ ۔ انھوں نے خدا کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا اور (لوگوں کو) اس کی راہ سے منحرف کردیا، وہ بُرے اعمال بجالاتے تھے ۔

۱۰ ۔ (نہ صرف تمھارے بارے میں بلکہ) ہر با ایمان شخص کے بارے میں وہ رشتہ داری اور عہد وپیمان کا لحاظ نہیں رکھتے اور وہ تجاوز کرنے والے ہیں ۔

حد سے بڑھ جانے والے پیمان

جیسا کہ آپ گذشتہ آیات میں دیکھ چکے ہیں کہ ایک خاص گروہ کے علاوہ اسلام نے تمام مشرکین اور بت پرستوں کے معاہدوں کو فسخ کردیا، انھیں صرف چار ماہ کی مہلت دی گئی تاکہ وہ اپنا ارادہ واضح کرلیں ، اب ان محل بحث آیات میں اس کام کی علت بیان کی گئی ہے، پہلے استفہامِ انکاری کے طور پر قرآن کہتا ہے: کیسے ممکن ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے ہاں مشرکوں کا کوئی پیمان ہو (کَیْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِینَ عَھْدٌ عِنْدَ اللهِ وَعِنْدَ رَسُولِہِ) یعنی وہ ان اعمال اور ایسے غلط افعال کے ہوتے ہوئے یہ توقع نہ رکھیں کہ پیغمبر یک طرفہ طور پر ان کے معاہدوں کی پابندی کریں گے، اس کے بعد فوراً ایک گروہ جو ان کے غلط کردار اور پیمان شکنی میں شریک نہیں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہا گیاہے : مگر وہ لوگ کہ جن کے ساتھ تم نے مسجد الحرام کے پاس عہد کیا( إِلاَّ الَّذِینَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) ”جب تک یہ لوگ تمھارے ساتھ کئے گئے اپنے معاہدے کے وفادار ہیں تو تم بھی عہد نبھاو( فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا ) کیونکہ خدا پیہیزگاروں اور ان لوگوں کو جو ہر قسم کی پیمان شکنی سے اجتناب کرتے ہیں دوست رکھتا ہےں( لَهُمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ ) ۔

اگلی آیت میں یہی بات زیادہ صراحت اور تاکید سے بیان ہوئی ہے اور دوبارہ استفہام انکاری کی صورت میں کہا گیا ہے، کیسے ممکن ہے کہ ان کے پیمان کا احترام کیا جائے حالانکہ اگر وہ آپ پر غالب آجائیں تو نہ تو تم سے کسی رشتہ داری کا لحاظ کریں گے اور نہ عہد وپیمان کا پاس کریں گے( کَیْفَ وَإِنْ یَظْهَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً ) ۔

”الّ“ رشتہ داری اور عزیز داری کے معنی میں ہے، بعض نے اس کا معنی ”عہد و پیمان“ بیان کیا ہے، پہلی صورت میں مراد یہ ہے کہ قریش اگرچہ رسول الله اور کچھ مسلمانوں کے رشتہ دار تھے لیکن جب وہ خود اس بات کی درّہ بھر پرواہ بھی نہیں کرتے اور رشتہ داری کا احترام نہیں کرتے تو پھر کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ رسول الله اور مسلمان ان کا لحاظ کریں اور دوسری صورت میں لفظ ”ذمّہ“ کی تاکید ہے کہ جو عہدو پیمان کے معنی میں شمار ہوتا ہے ۔

راغب کتاب مفردات میں اس لفظ کی اصل ”الیل“ بمعنی درخشندگی اور روشنائی قرار دیتا ہے کیونکہ مستحکم معاہدے اور نزدیک کی رشتہ داریاں خاص درخشندگی کی حامل ہوتی ہے ۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے: ان کی دلنشیں باتوں اور بظاہر خبوبصورت الفاظ سے کبھی دھوکا نہ کھانا کیونکہ ”وہ چاہتے ہیں کہ تمھیں اپنے منھ سے راضی کریں لیکن ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں( یُرْضُونَکُمْ بِاٴَفْوَاهِهِمْ وَتَاٴْبیٰ قُلُوبُهُمْ ) ۔ ان کے دل کینہ، انتقام جوئی، سنگدلی، عہد شکنی اور رشتہ داری سے بے اعتنائی سے معمور ہیں اگرچہ وہ اپنی زبان سے دوستی اور مجبت کا اظہار کرتے ہیں ۔

آیت کے آخر میں اس امر کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: اور ان میں سے زیادہ تر فاسق اور نافران ہیں( وَاٴَکْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ ) ۔

اگلی آیت میں ان کے فسق اور نافرمانی کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے: انھوں نے آیاتِ خدا کا کم قیمت پر سودا کیا ہے اور اپنے وقتی مادی اور حقیر مفادات کے لئے لوگوں کو راہِ خدا سے باز رکھا ہے (اشْتَرَوْا بِآیَاتِ اللهِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِہِ) ۔

ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ ابوسفیان نے ایک کھانا تیار کیا اور کچھ لوگوں کو دعوت دی تاکہ اس طریقے سے رسول الله کے خلاف ان کی عداوت کو ابھار سکے ۔

بعض مفسّرین نے مندرجہ بالا آیت کو اس واقعے کی طرف اشارہ سمجھا لیکن ظاہر یہ ہے کہ ایک وسیع مفہوم ہے جس میں یہ واقعہ اور ان بت پرستوں کے دیگر واقعات بھی شامل ہیں کہ جنھوں نے اپنے وقتی مفادات کا حفاظت کے لئے آیاتِ خدا سے آنکھیں پھیرلی تھیں ۔

بعد میں مزید فرمایا گیا ہے: مشرک کیسا بُرا عمل بجالاتے ہیں (إِنَّھُمْ سَاءَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔ انھوں نے خود کو بھی سعادت ہدایت اور خوش بختی سے محروم کیا اور دوسروں کے لئے بھی سدِّراہ ہوئے اور اس سے بدتر کونسا عمل ہوگا کہ انسان اپنے گناہ کا بوجھ بھی اپنے دوش پر لے لے اور دوسروں کے گناہوں کا وزن بھی خود ہی اٹھالے ۔

زیرِ نظر آخری آیت میں گذشتہ گفتگو کی پھر تاکید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے: یہ مشرک ایسے ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ پہنچ سکیں تو کسی صاحبِ ایمان شخص کے بارے میں یہ رشتہ داری اور پیمان کا تھوڑا سا پاس نہیں کریں گے( لَایَرْقُبُونَ فِی مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَاذِمَّةً ) ۔

”کیونکہ اصولی طور پر یہ لوگ تجاوز اور زیادتی کرنے والے ہیں( وَاٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْمُعْتَدُونَ ) ۔ صرف تمھارے بارے میں ہی ان کا یہ رویہ نہیں بلکہ جس شخص پر بھی ان کا بس چلے گا یہ دستِ تجاوز دراز کریں گے ۔

مندرجہ بالا آیت کا مضمون اگرچہ گذشتہ آیات کی بحث کی تاکید معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی ایک فرق اور اضافہ موجود ہے اور وہ یہ کہ گذشتہ آیات میں گفتگو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے اصحاب اور ان مسلمانوں کے بارے میں تھی جو آپ کے گرد وپیش تھے لیکن اس آیت میں ہر صاحبِ ایمان شخص کے بارے میں بات ہورہی ہے، یعنی صرف تم ان کی نگاہ میں کوئی خصوصیت نہیں رکھتے بلکہ جو شخص مومن ہو اور آئینِ توحید کا پیرو ہو یہ اس کے سخت دشمن ہیں اور پھر کسی چیز کا لحاظ نہیں کرتے لہٰذا اصل میں ایمان اور حق کے دشمن ہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن بعض گذشتہ اقوام کے بارے میں کہتا ہے:( وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلاَّ اٴَنْ یُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ )

”وہ صرف اس بناپر مومنین پر سختی کرتے تھے کہ وہ عزیز وحمید خدا پر ایمان رکھتے ہیں “(بروج/ ۸)

دو اہم نکات

۱ ۔ ”( إِلاَّ الَّذِینَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) “ سے کون مراد ہیں ؟

اس جملے میں معاہدے فسخ کرنے کے اعلان سے ایک گروہ کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اس سے کونسا گروہ مراد ہے، اس سلسلے میں مفسّرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن گذشتہ آیات کی طرف توجہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے وہی قبائل مراد ہیں جو اپنے عہدوپیمان کے وفادار رہے یعنی بنوضمرہ اور بنو خزیمہ وغیرہ سے جیسے قبائل۔

درحقیقت یہ جملہ گذشتہ آیات کی تاکید کی حیثیت رکھتا ہے یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بیدار رہیں اور ان گروہوں کا معاملہ ان سے مختلف رکھیں جن کے معاہدے فسخ ہوگئے ہیں ۔

ریا یہ سوال کہ جو کہا گیا ہے کہ ”جنھوں نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا ہے“ اس سے کیا مراد ہے؟

ممکن ہے کہ یہ اس بناپر ہو کہ صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ سرزمین حدیبیہ پر جو معاہدہ کیا تھا اس میں مشرکین عرب میں سے دوسرے گروہ بھی شامل ہوگئے تھے مثلاً وہ قبائل جن کی طرف سطور بالا میں اشارہ ہوا ہے اور یہ مقام مکہ سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ہے اور یہ معاہدہ ۶/ ہجری میں ہوا مشرکین نے اس معاہدے کے ذریعے مسلمانوں سے ترک مخاصمت کا عہد کیا لیکن مشرکین قریش نے اپنا معاہدہ توڑدیا اور پھر فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے جبکہ ان سے وابستہ دوسرے گروہ مسلمان تو ہوئے مگر معاہدہ بھی نہ توڑا اور چونکہ سرزمین مکہ اپنے اطراف میں ایک وسیع علاقہ پر مشتمل ہے جس کا نصف قطر تقریباً ۴۸ میل بنتا ہے لہٰذا یہ تمام علاقے مسجد الحرام کا جزء سمجھے جاتے ہیں چنانچہ سورہ بقرہ کی آیہ ۱۹۶ میں حج تمتع اور اس کے احکام کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

( ذٰلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اٴَهْلُهُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ )

”یہ احکام اس شخص سے مربوط ہیں کہ جس کا گھر اور گھر والے مسجد الحرام کے پاس نہ ہوں “

روایات اور فقہا کے فتاویٰ کے تصریح کے مطابق حج تمتع کے حکام ان لوگوں کے لئے ہیں کہ جن کا فاصلہ مکہ سے ۴۸ میل سے زیادہ ہو، اس بناپر کوئی مانع نہیں کہ صلح حدیبیہ جو مکہ سے ۱۵ میل کے فاصلے پر انجام پائی ”عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ“ کے عنوان سے ذکر ہو۔

رہی وہ بات جو بعض مفسرین نے کہی ہے کہ مندرجہ بالا استثناء مشرکینِ قریش سے مربوط ہے اور قرآن مجید نے ان کے معاہدے کو جو انھوں نے حدیبیہ میں کیا تھا محترم شمار کیا ہے، درست نظر نہیں آتی کیونکہ پہلے مشرکین قریش کی معاہدہ قطعی اور مسلم تھی، اگر وہ پیمان شکن نہیں تھے تو پھر کون پیمان شکن تھا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ حدیبیہ کا واقعہ ہجرت کے چھٹے سال کا ہے جبکہ مشرکینِ قریش نے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اس لئے مندرجہ آیات جو ہجرت کے نویں سال میں نازل ہوئیں وہ ان کے متعلق نہیں ہوسکتیں ۔

۲ ۔ کیا پیمان شکنی کے ارادے پر ہی ایمان لغو کردیا گیا؟

جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ مندرجہ بالا آیات سے یہ مراد نہیں ہے انھوں نے صرف پیمان شکنی کا ارادہ ہی کیا تھا اور جب مسلمانوں کو طاقت وقدرت حاصل ہوگئی تو مشرکین کا پیمان شکنی کا ارادہ ہی معاہدے کے لغو قرار دیئے جانے کا جواز بن گیا وہ بارہا اپنے اسی طرز فکر کا عملی مظاہرہ کرچکے تھے کہ جب بھی انھیں موقع ملے گا تو وہ معاہدے کی طرف توجہ کئے بغیر مسلمانوں پر ضربِ کاری لگائیں گے اور یہی صورت حال معاہدے کو لغو کرنے کے لئے کافی ہے ۔