تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27698
ڈاؤنلوڈ: 2605


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27698 / ڈاؤنلوڈ: 2605
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،

۱۱( فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَإِخْوَانُکُمْ فِی الدِّینِ وَنُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ )

۱۲( وَإِنْ نَکَثُوا اٴَیْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِکُمْ فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّهُمْ لَااٴَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنتَهُونَ )

۱۳( اٴَلَاتُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَکَثُوا اٴَیْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَئُوکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ اٴَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ )

۱۴( قَاتِلُوهُمْ یُعَذِّبْهُمْ اللهُ بِاٴَیْدِیکُمْ وَیُخْزِهِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْهِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ )

۱۵( وَیُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوبِهِمْ وَیَتُوبُ اللهُ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ )

ترجمہ

۱۱ ۔ اگر وہ توبہ کریں ، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں اور ہم اپنی آیات کی تشریح ایسے لوگوں کے لئے کرتے ہیں جو جانتے ہیں ۔

۱۲ ۔ اور اگر وہ معاہدے کے بعد عہدو پیمان کو توڑدیں اور تمھارے دین پر طعن وطنز کریں تو آئمہ کفر سے جنگ کرو اس لئے کہ ان کا کوئی عہدو پیمان نہیں ، شاید وہ دستبردار ہوجائیں ۔

۱۳ ۔ کیا اس گروہ کے ساتھ کہ جس نے اپنا عہدو پیمان توڑدیا ہے اور جو (شہر سے) پیغمبرکے اخراج کا پختہ ارادہ کرچکے ہیں تم جنگ نہیں کرتے ہو حالانکہ پہلے انھوں نے (تم سے جنگ کی )ابتداء کی تھی، کیا ان سے ڈرتے ہو جبکہ خدا زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔

۱۴ ۔ ان سے جنگ کرو کہ خدا انھیں تمھارے ہاتھوں سزا دینا چاہتا ہے اور انھیں رسوا کرے گا اور مومنین کے ایک گروہ کے سینہ کو شفا بخشے گا (اور ان کے دل پر مرہم رکھے گا)

۱۵ ۔ اور ان کے دلوں ں کے غیظ وغضب کو لے جائے گا اور خدا جس شخص کی چاہتا ہے (اور اسے اہل سمجھتا ہے) توبہ قبول کرلیتا ہے اور خدا عالم وحکیم ہے ۔

دشمن سے جنگ کرنے سے کیوں ڈرتے ہو

فصاحت وبلاغت کے فنون میں سے ایک یہ ہے کہ زیادہ اہمیت رکھنے والے مطالب کی تاکید کے لئے اور انھیں دل میں اتارنے کے لئے تکرار کی جاتی ہے، چونکہ اسلامی ماحول میں بت پرستی کے پیکر پر آخری ضرب لگانے اور اس کے بچے کچھے آثار ختم کرنے کا معاملہ بہت ہی اہم تھا، اس لئے گذشتہ مطالب کو قرآن مجید میں مندرجہ بالا آیات میں نئے انداز سے بیان کیا گیا ہے، ان میں نئے نکات بھی موجود ہیں جو صورتِ تکرار سے بات کو نکال لیتے ہیں اگرچہ یہ تکرار درست ہی کیوں نہ ہو۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: اگر مشرکین توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں( فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَإِخْوَانُکُمْ فِی الدِّینِ ) ۔

آیت کے آخر میں مزید کہا گیا ہے: ہم ان لوگوں کے لئے اپنی آیات کی تشریح کرتے ہیں جو علم وآگہی رکھتے ہیں( وَنُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ) ۔

گذشتہ آیات میں اس بارے میں گفتگو تھی کہ اگر وہ توبہ کریں اور نماز اور زکوٰة کے اسلامی فرائض بجالائیں تو ان سے مزاحمت نہ کرو۔”( فَخَلُّوا سَبِیلَهُم )

لیکن بیان فرمایا گیا ہے: وہ تمھارے دینی بھائی ہیں یعنی دیگر مسلمانوں اور ان کے درمیان احترام ومحبت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں جیسا کہ بھائیوں کے درمیان فرق نہیں ہوتا ۔

یہ بات مشرکین کی روح، فکر اور جذبات کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے بہت موثر ہے کہ ایک مرحلے میں مزاحمت نہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور دوسرے مرحلے میں ان کے بارے میں ایک بھائی کے سے حقوق کی سفارش کی گئی ہے ۔

لیکن اگر وہ اسی طرح اپنی عہد شکنی جاری رکھیں اور اپنے معاہدے روند ڈالیں اور تمھارے دین کی مذّمت کریں اور اپنا غلط پراپیگنڈہ جاری رکھیں تو پھر تم اس کافر گروہ کے پیشواوں سے جنگ کرو( وَإِنْ نَکَثُوا اٴَیْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِکُمْ فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ ) ۔ کیونکہ اب ان کے عہد وپیمان کی کچھ بھی قدر وقیمت نہیں ہے( إِنَّهُمْ لَااٴَیْمَانَ لَهُمْ ) ۔

یہ درست ہے کہ انھوں نے تم سے دشمنی ترک کرنے کا معاہدہ کررکھا ہے لیکن وہ یہ معاہدہ باربار توڑسکتے ہیں اور آئندہ بھی اسے توڑنے کو تیار ہیں لہٰذا اس صورت میں اس معاہدے کا کوئی اعتبار اور قیمت نہیں ہے ، یہ اس لئے ہے تاکہ وہ اس شدّت عمل پر نظر رکھیں اور اس طرف بھی توجہ دیں کہ بازگشت کا راستہ کھلا ہوا ہے،وہ اپنے کئے پر نادم ہوں اور اس سے دستبردار ہوجائیں( لَعَلَّهُمْ یَنتَهُونَ ) ۔

اس سے اگلی آیت میں مسلمانوں میں تحریک پیدا کرنے کے لئے اور اس حیات بخش حکم کے سلسلے میں ان کی روح اور فکر سے ہر طرح کی سستی اور خوف وتردد دور کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے: تم ان لوگوں سے جنگ کیوں نہیں کرتے جنھوں نے اپنے معاہدے توڑدیئے ہیں اور انھوں نے پیغمبر کو اپنی سرزمین سے نکال دینے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے( اٴَلَاتُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَکَثُوا اٴَیْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ ) ۔

تم نے جنگ کی اور معاہدے کولغو قرار دینے کی ابتداء نہیں کی کہ تم پریشان اور ناراحت ہو بلکہ ”جنگ اور پیمان شکنی کی ابتداء تو انھو ں نے کی ہے“( وَهُمْ بَدَئُوکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ ) ۔

اور اگر تم میں سے بعض کا جنگ سے تردد خوف وہراس کی وجہ سے ہے تو بالکل بے جا ہے ”کیا تم ان بے ایمان افراد سے ڈرتے ہو حالانکہ خدا زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے اور اس کی مخالفت سے ڈرو، اگر تم سچ مچ ایمان رکھتے ہو“( اٴَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔

اگلی آیت میں مسلمانوں سے یقینی کامیابی کا وعدہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ان سے جنگ کرو کہ خدا انھیں تمھارے ہاتھوں سزا دے گا( قَاتِلُوهُمْ یُعَذِّبْهُمْ اللهُ بِاٴَیْدِیکُمْ ) ۔ نہ صرف سزا دے گا بلکہ ”انھیں رسوا اور ذلیل وخوا کرے گا“( وَیُخْزِهِمْ ) اور تمھیں ان پر کامیاب کرے گا( وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْهِمْ ) ۔ اور اس طرح سے مومنین کے ایک گروہ کے دلوں کو شفا بخشے گا جو اس سنگدل گروہ کے دباو اور سخت مصیبت میں تھا اور اس راہ میں قربانیاں دے چکا تھا ”اور ان کے دل کے زخموں پر اس طرح سے مرہم رکھے“( وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ )

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ”قوم مومنین“ سے مراد بنی خزاعہ کے مومنین کا ایک گروہ ہے جن پر قبیلہ بن بکر کے بت پرستوں کے ایک گروہ نے بزدلانہ حملہ کیا تھا اور غفلت میں انھیں نقصان پہنچایا تھا ۔

بعض کہتے ہیں کہ یمن کے ایک گروہ کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن جب مکہ میں آئے توبت پرستوں کی طرف سے ان پر ظلم وستم ڈھایا گیا ہے ۔

بعید نہیں کہ یہ عبارت ان تمام لوگوں کے بارے میں ہو جو کسی طرح بھی بت پرستوں کی طرف سے ظلم وایذاء کا ہدف بنے اور بت پرستوں نے جن کے دلوں کا خون کیا ۔

اگلی آیت میں مزید کہا گیا ہے کہ تمھاری کامیابی اور ان کی شکست کے ذریعے ”مومنین کے دلوں کا غیظ وغضب ٹھنڈا کرے گا“( وَیُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوبِهِمْ ) ۔ ہوسکتا ہے یہ جملہ گذشتہ جملے ”وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ“ کی تاکید کے طور پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مختلف ہو اور گذشتہ جملہ اس طرف اشارہ ہو کہ اسلام کی کامیابی کے ذریعے وہ دل جو سالہا سال سے اسلام اور رسولِ اسلام کے لئے تڑپتے تھے، ناراحت، پریشان اور بیمار تھے وہ اچھے ہوجائیں گے اور دوسرا جملہ اس طرف اشارہ ہو کہ وہ دل جو عزیز واقرباء کو کھودینے اور طرح طرح کے آزار اور ظلم سہنے کی وجہ سے ناراحتی اور بے ارامی میں تھے، سنگدل دشمنوں کے مارے جانے سے راحت وآرام حاصل کریں گے ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: خدا جس شخص کو چاہتا ہے (اور مصلحت دیکھتا ہے) اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے (وَیَتُوبُ اللهُ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ)ن اور خدا توبہ کرنے والوں کی نیتوں سے آگاہ ہے اور اُس نے ان کے لئے اور پیمان شکنوں کے بارے میں جو احکام دیئے ہیں وہ حکیمانہ اور بامصلحت ہیں( وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ )

ضمنی طور پر آخری جملے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ممکن ہے آئندہ ان میں سے بعض درِ توبہ داخل ہوجائیں لہٰذا متوجہ رہیں کہ خدا ان کی توبہ قبول کرے گا اور ان کے بارے میں شدّتِ عمل جائز نہیں ہے، نیز یہ ایک بشارت ہے کہ آئندہ اس قسم کے افراد مسلمانوں کی طرف آئیں گے اور ان کی روحانی آمادگی کی وجہ سے خدا کی توفیق ان کے شاملِ حال ہوگی ۔

بعض مفسّرین نے آخری آیات کو کاملاً قرآن کی ترغیب کی خبروں میں سے قرار دیا ہے اور انھیں رسول الله کی دعوت کی صداقت کی نشانی سمجھا ہے کیونکہ ان میں جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے ویسا ہی عملاً ہوا ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ عہد شکن گروہ کونسا ہے؟

اس گروہ سے کون افراد مرادہیں ، اس سلسلے میں مفسّرین میں اختلاف ہے، بعض اسے یہودیوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، بعض ان قوموں کی طرف اشارہ قرار دیتے ہیں جو بعد ازاں مسلمانوں سے برسرِ پیکار ہوئیں مثلاً ایران اور روم کی حکومتیں ، بعض یہاں کفارِ قریش مراد لیتے ہیں اور بعض نے ان افراد کی طرف اشارہ سمجھا ہے جو مسلمان ہوکر مرتد ہوگئے ۔

لیکن آیات کا ظاہر واضح گواہی دیتا ہے کہ موضوع سخن مشرکین اور بت پرستوں کا وہی گروہ ہے جس نے اس وقت بظاہر مسلمانوں سے دشمنی ترک کرنے کا عہد وپیمان کررکھا تھا لیکن عملی طور پر اپنے معاہدے توڑچکا تھا اور یہ اطراف مکہ یا حجاز کے باقی علاقوں کے مشرکین کا گروہ تھا ۔

یہ احتمال کہ اس سے یہودی مراد ہوں بہت بعید ہے کیونکہ ان آیات کی تمام مباحث مشرکین کے گرد گھومتی ہیں ۔

اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اس سے مراد قبیلہ قریش ہو کیونکہ قریش اور ان کے سرغنہ ابوسفیان نے ۸/ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ظاہراً اسلام قبول کرلیا تھا جبکہ زیرِ بحث سورت ۹/ ہجری میں نازل ہوئی ہے ۔

نیز یہ احتمال بھی آیات کے مفہوم سے بہت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور روم کی حکومتیں مراد ہوں کیونکہ آیات ایک موجود معاملے اور جنگ کے متعلق گفتگو کررہی ہیں نہ کہ آئندہ کے کسی معاملے یا لڑائی جھگڑے کے متعلق، علاوہ ازیں انھوں نے رسول الله کو وطن سے بھی نہیں نکالا تھا ۔

نیز یہ احتمال بھی بعید ہے کہ اس سے مراد مرتدین ہوں کیونکہ اس وقت تاریخ مرتدین کے کسی طاقتور گروہ کی نشاندہی نہیں کرتی کہ جس سے مسلمان جنگ کرنا چاہتے ہوں ، علاوہ ازیں ”ایمان“ (جو ”یمین“ کی جمع ہے) اور اسی طرح لفظ ”عہد“ ظاہراً ترکِ مخاصمت کے پیمان کے معنی میں ہے نہ کہ اسلام قبول کرنے میں (غور کیجئے گا) ۔

لہٰذا اگر بعض اسلامی روایات میں یہ آیت جنگ جمل کی آگ بھڑکانے والوں (ناکثین) اور ان جیسوں پر منطبق کی گئی ہے تو وہ اس بناپر نہیں کہ یہ آیات ان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ آیت کی روح اور اس کا حکم ناکثین اور ان سے مسابہت رکھنے والے ایسے گروہوں پر صادق آتا ہے جو ان کے بعد ہوں گے ۔

صرف ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر اس سے مراد وہ معاہدہ شکن بت پرست لوگ ہیں کہ جن کے متعلق گذشتہ آیات میں گفتگو ہوئی ہے تو یہاں کہا گیا ہے کہ : ”وَإِنْ نَکَثُوا اٴَیْمَانَهُمْ “ (یعنی اگر وہ اپنے معاہدوں کو توڑدیں ) حالانکہ انھوں نے تو عملاً اپنے عہد وپیمان توڑدیئے تھے ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ جملے سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ عہد شکنی جاری رکھیں اور اپنے کلام سے دستبردار نہ ہوں تو پھر تمھیں ان سے جنگ کرنا چاہیے، جیسے ہم ”اهدنا الصراط المستقیم “ کا جملہ ”إِنْ تَابُوا “ کے مدمقابل ہے یعنی معاملہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہے، یا وہ توبہ کریں گے اور شرک وبت پرستی سے دستبردار ہوجائیں گے اور راہِ خدا پر آجائیں گے یا یہ کہ وہ اپنے طور طریقے جاری رکھیں گے، پہلی صورت میں وہ تمھارے بھائی ہیں جبکہ دوسری صورت میں تمھیں ان سے جنگ کرنا چاہیے ۔

۲ ۔ کفر کے پیشواوں سے جنگ:

یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں یہ نہیں کہا گیا کہ کافروں سے جنگ کرو بلکہ فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیڈروں اور پیشواوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہو، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ عامة الناس تو اپنے لیڈروں اور زعماء کے پیروکار ہوتے ہیں لہٰذا نشانہ ہمیشہ پیشواوں کو ہونا چاہیے، تمھیں گمراہی، ضلالت اور ظلم وفساد کے سرچشموں کو بند کرنا چاہیے اور ایسے درہتوں کی جڑوں کو کاٹنا چاہیے، جب تک وہ خود موجود ہیں ان کے پیروکاروں سے مقابلے اور جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ۔

تعجب کی بات ہے کہ بعض نے اس تعبیر سے سردارانِ قریش کی طرف اشارہ سمجھا ہے حالانکہ ان میں سے کچھ تو جنگ بدر میں مارے گئے تھے اور (ابوسفیان جیسے) باقی رہ گئے تھے وہ فتح مکہ کے بعد ظاہراً اسلام لے آئے تھے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھے لہٰذا اس وقت ان سے مقابلے کا کوئی مفہوم نہ تھا ۔

آج بھی قرآن کا یہ اہم حم اپنی پوری قوت سے باقی ہے کہ ظلم وفساد اور استعمار واستثمار کو ختم کرنے کے لئے ان کے سرغنوں اور پیشواوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور عام لوگوں کے مقابلے میں قیام کا کوئی فائدہ نہیں (غور کیجئے گا)

۴ ۔ ”( إِخْوَانُکُمْ فِی الدِّین ) “ کا مفہوم:

مندرجہ بالا آیت میں یہ ایک لطیف ترین تعبیر ہے جسے ایک معاشرے کے افراد میں مساوات کے لئے بیان کیا جاسکتا ہے اور یہ محبت و مہربانی کا محکم ترین رشتہ ہے کیونکہ واضح ترین اور نزدیک ترین رشتہ جو انسانوں میں مکمل مساوات کا حامل ہے وہ دو بھائیوں کارشتہ ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے طبقاتی شگافوں اور قومی ونسلی بتوں نے اس اسلامی اخوت کو ختم کردیا ہے جو تمام دشمنوں کے لئے رشک اور حسد کا باعث تھا، کل کے بھائی آج ایک دشمن دوسرے دشمن سے نہیں کرتا، ہماری موجودہ پسماندگی کے اسرار میں سے ایک یہ صورتحال بھی ہے ۔

۴ ۔ ”( اٴَتَخْشَوْنَهُمْ ) “ کا مفہوم:

اس کا مطلب ہے ”کیا تم ان سے ڈرتے ہو“ اس سے اجمالی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو جہاد کے اس حکم سے ڈرتا تھا یا تو دشمن کی طاقت اور قوت سے خوفزدہ تھا یا پھر پیمان شکنی کے گناہ سے ڈرتا تھا ۔

قرآن انھیں صراحت سے جواب دیتا ہے کہ تمھیں ان کمزور انسانوں سے نہیں ڈرنا چاہیے بلکہ حکمِ پروردگار کی نافرمانی سے ڈرنا چاہیے، علاوہ ازیں اپنی پیمان شکنی سے ڈرنا بے جا ہے کیونکہ انھو ں نے پہلے ہی خود اس کے مفدمات فراہم کردیئے ہیں اور اس سلسلے میں انہی نے پیش قدمی ہے ۔

۵ ۔ ”( هَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ ) “ کا مطلب:

اس کا معنی ہے ”انھوں نے پیغمبر کو نکلانے کا ارادہ کیا“ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ ظاہراً یہ ہجرت کے موقع رسو الله کو مکہ کی طرف نکالے جانے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ پہلے ہی ارادہ رکھتے تھے اس کے بعد ان کا ارادہ بدل گیا اور پھر انھوں نے آپ گو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا لیکن الله کے حکم سے رسول الله اسی رات مکہ سے نکل آئے، بہرحال اس معاملے کا ذکر ان کی پیمان شکنی کے طور پر نہیں بلکہ بت پرستوں کے جرائم میں سے ایک ہولناک ارادے کی وضاحت کے طور پر ہے کہ جس میں قریش بھی شریک تھے اور دوسرے قبائل بھی ورنہ بت پرستوں کی عہد شکنی تو دوسرے طرق سے واضح ہوچکی تھی ۔

۶ ۔ ایک غلط استدلال:

ایک تعجب خیز بات یہ ہے کہ جبری مکتبِ فکر کے پیروکاروں نے ”قَاتِلُوهُمْ یُعَذِّبْهُمْ اللهُ بِاٴَیْدِیکُمْ ---“ سے اپنے نظریہ کے لئے استدلال کیا حالانکہ ہم اپنا ذہن تعصّبات سے خالی کرلیں تو مندرجہ بالا آیت ان کے مقصود پر ذرّہ بھر بھی دلالت نہیں کرتی اور اس کی صورت بالکل ایسی ہے جیسے ہم کسی کام کے لئے اپنے ایک دوست کے پاس جائیں اور کہیں کہ ہمیں امید ہے کہ خدا اس کام کی اصلاح تمھارے ہاتھ سے کردے گا، اس بات کا یہ مفہوم نہیں کہ تم یہ کام کرنے میں مجبور ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا نے اسے تمھارے اختیار میں رکھا ہے اور تمھیں پاک نیّت دی ہے کہ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تم ارادے کی آزادی سے یہ کام انجام دے سکتے ہو۔

آیت ۱۶

۱۶( اٴَمْ حَسِبْتُمْ اٴَنْ تُتْرَکُوا وَلَمَّا یَعْلَمْ اللهُ الَّذِینَ جَاهَدُوا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللهِ وَلَارَسُولِهِ وَلَاالْمُؤْمِنِینَ وَلِیجَةً وَاللهُ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

) ترجمہ

۱۶ ۔ کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تمھیں (تمھاری حالت پر) چھوڑ دیا جائے گا جب کہ ابھی جہاد کرنے والے اور خدا اور اس کے رسول کو چھوڑ کر محرم راز بنانے والے ایک دوسرے سے جدا ممتاز نہیں ہوئے (تمھاری آزمائش ہونا چاہیے تاکہ تمھاری صفیں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں ) اور جوکچھ تم کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ۔

تفسیر

اس آیت مسلمانوں کو ایک اور طریقے سے جہاد کی تشویق وترغیب دلاکر انھیں اس سلسلے میں ان کی اہم ذمہ داری کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ تمھیں یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ صرف ایمان کا دعویٰ کرلینے سے تمام چیزیں درست نہیں اور ٹھیک ہوجاتی ہیں بلکہ صدقِ نیت، گفتار کی درستی اور ایمان کی حقیقت دشمنوں سے جنگ کرکے واضح ہوتی ہے، جنگ بھی ایسی جو ہر قسم کے نفاق سے پاک مخلصانہ طور پر ہو۔

پہلے فرمایا گیا ہے: کیا تم گمان کرتے ہو کہ تمھیں تمھاری حالت پر چھوڑدیا جائے گا اور تم میدانِ آزمائش میں سے نہیں گزروگے جب کہ ابھی تم میں سے مجاہدین اور وہ لوگ جنھوں نے خدا، رسول اور مومنین کوچھوڑکر کسی اور کو محرم راز بنالیا ہے ایک دوسرے سے مشخص اور ممتاز نہیں ہوئے( اٴَمْ حَسِبْتُمْ اٴَنْ تُتْرَکُوا وَلَمَّا یَعْلَمْ اللهُ الَّذِینَ جَاهَدُوا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللهِ وَلَارَسُولِهِ وَلَاالْمُؤْمِنِینَ وَلِیجَةً ) ۔(۱)

”وَلِیجَة“ مادہ ”ولوج“ سے داخل ہونے کے معنی میں ہے اور ایسے اشخاص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کسی انسان کا محرم راز ہو اور اس کے کاموں کو چلانے والا ہو، اس کا معنی تقریباً ”بطانة“ جیسا ہے ۔

در حقیقت مندرجہ بالا جملہ مسلمانوں سے دومطالب گوش گزار کرتا ہے اور وہ یہ کہ صرف اظہار ایمان سے کام ٹھیک نہیں ہوتے اور افراد کی شخصیت واضح نہیں ہوتی بلکہ اس سلسلے میں دوطرح سے لوگوں کی آزمائش کی جاتی ہے:

ایک تو راہ خدا میں شرک وبت پرستی کے آثار مٹانے کے لئے جہاد کرنا اور دوسرا منافقوں اور دشمنوں سے ہر طرح کا رابطہ اور ہمکاری ترک کرنا کہ جس میں سے پہلا کام ہے خارجی دشمنوں کا باہر نکالنا ہے اور دوسراہے داخل دشمنوں کو باہر نکالنا ۔

( وَلَمَّا یَعْلَمْ اللهُ ) “ (حالانکہ ابھی تک خدا نہیں ) اس جملے کی نظیر دوسری آیاتِ قرآنی میں بھی نظر آتی ہے ، در اصل اس کا معنی ہے ”ابھی تک ثابت نہیں ہوا“ اور ایسی تعبیر عموماً تاکید کے مواقع میں استعمال ہوتی ہے ورنہ دلائل عقلی اور بہت سی آیات کے مطابق خدا تو ایسی تمام چیزوں سے آگاہ تھا، آگاہ ہے اور آگاہ رہے گا ۔

یہ آیت در حقیقت سورہ عنکبوت کی پہلی آیت جیسی ہے جہاں فرمایا گیا ہے:

( اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَکُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَایُفْتَنُونَ )

کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انھیں ان کی حالت پر چھوڑدیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہیں ہوگی ۔

نیز سورہ آل عمران کی تفسیر میں ہم کہہ چکے ہیں کہ خدا کی آزمائشیں کوئی انجانی چیز جاننے کے لئے نہیں ہیں بلکہ تربیت ، فروغ استعداد اور انسان کی اندرونی صلاحیتوں اور اسرار کو ابھارنے اور آشکار کرنے کے لئے ہیں ۔

آیت کے آخر میں خطرے سے خبردار کرتے ہوئے اور تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: جو کام بھی تم انجام دیتے ہو خدا اُس سے باخبر ہے (وَاللهُ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ) ۔ مبادا کچھ لوگ یہ خیال کربیٹھیں کہ خدا منافقین اور دشمنوں سے ان کے خفیہ روابط سے بے خبر ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ وہ سب چیزوں کو اچھی طرح سے جانتا ہے اور اس کے مطابق اپنے بندوں سے سلوک کرے گا ۔

آیت کے طرزِ بیان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت مسلمانوں کے اسلامی ماحول میں کچھ لوگ نووارد تھے اور نفسیاتی طور پر وہ جہاد کے لئے تیار نہیں تھے، یہ گفتگو ان کے بار ے میں ہے ورنہ سچّے مجاہدین توبارہا جہاد کے میدانوں میں اپنی کیفیت واضح کرچکے تھے ۔

____________________

۱۔”اٴم“ حرف عطف ہے، اس کے ذریعہ ایک استفہامی جملے کو دوسرے استفہامی جملے سے ملاتے ہیں اور اس طرح سے وہ استفہام کا معنی دیتا ہے البتہ وہ ہمیشہ دوسرے استفہام کے پیچھے ہوتا ہے، مندرجہ بالا آیت میں اس کا عطف ”الا تقاتلو ---“ کے جملے پر ہے جو آیہ۱۳ میں گزرا ہے ۔