تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27291
ڈاؤنلوڈ: 2411


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27291 / ڈاؤنلوڈ: 2411
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۱۷،۱۸

۱۷( مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ اٴَنْ یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللهِ شَاهِدِینَ عَلیٰ اٴَنفُسِهِمْ بِالْکُفْرِ اٴُوْلٰئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ وَفِی النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ

) ۱۸ ا( ِٕنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَاٴَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللهَ فَعَسیٰ اٴُوْلٰئِکَ اٴَنْ یَکُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِینَ )

ترجمہ

۱۷ ۔ مشرکین یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ خدا کی مسجدوں کوآباد کریں حالانکہ اپنے کفر کے ذریعے وہ اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں انہی کے اعمال نابود (اور بے قیمت) ہوگئے ہیں اور وہ (جہنم کی) آگ میں ہمیشہ رہیں گے ۔

۱۸ ۔ الله کی مساجد کو صرف وہ شخص آباد کرتا ہے جو خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے، نماز قائم کرتا ہے، زکوٰة ادا کرتا ہے اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا، ہوسکتا ہے ایسا گروہ نجات پاجائے ۔

مسجدیں آباد رکھنا ہر کسی کے بس میں نہیں

جب مشرکین سے معاہدہ فسخ ہونے کا اور ان سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو اس کے بعد بعض لوگوں میں جو ممکنہ باتیں زیرِ بحث آسکتی تھیں ان میں سے ایک سوال یہ بھی ممکن تھا کہ اس عظیم گروہ کو ہم کیوں دھتکار دیں اور انھیں مراسم حج کی ادائیگی کے لئے مسجد الحرام میں قدم رکھنے کی اجازت کیوں نہ دیں حالانکہ ان میں ان کی شرکت ہر لحاظ سے رونق کا سبب ہے، بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مسجد الحرام کی عمارت میں رونق کی صورت میں ان کی طرف سے ایک اہم امداد حاصل ہے اور معنوی آبادی کے طور پر بھی ان کی طرف سے ایک کمک حاصل تھی کیونکہ خانہ کعبہ کے گرد ان کی جمعیت زیادہ ہے، مندرجہ بالا آیات میں سے ایسے بیہودہ اور بے بنیاد افکار کا جواب دیتی ہیں ، پہلی ہی آیت میں تصریح کی گئی ہے: مشرکین یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ الله کی مساجد کو اباد کریں جبکہ وہ صراحت سے اپنے کفر کی گواہی دیتے ہیں( مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ اٴَنْ یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللهِ شَاهِدِینَ عَلیٰ اٴَنفُسِهِمْ بِالْکُفْرِ ) ۔

ان کا اپنے کفر کی گواہی دینا ان کی باتوں سے بھی آشکار ہے اور ان کے اعمال سے بھی، یہاں تک کہ ان کا طرزِ عبادت اور ان کے مراسمِ حج بھی اس امر پر شاہد ہیں ۔

اس کے بعد اس حکم کی دلیل اور فلسفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ان لوگوں کے اعمال نیست ونابود اور برباد ہوجائیں گے اور خدا کی درگاہ میں کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتے( اٴُوْلٰئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ ) ۔

اسی بناپر وہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے( وَفِی النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ ) ۔

ان حالات میں نہ تو مسجد الحرام وغیرہ کی آبادی اور تعمیر کے لئے ان کی کوششیں کوئی قدر وقیمت رکھتی ہیں اور نہ ہی خانہ کعبہ کے اطراف میں ان کا اژدہام کوئی حیثیت رکھتا ہے ۔

خدا پاک اور منزہ ہے اور اس کے گھر کو بھی پاک وپاکیزہ ہونا چاہیے اور غلیظ اور گندے لوگوں کا ہاتھ خانہ خدا اور مسجد سے بالکل دور ہونا چاہیے ۔

اگلی آیت میں اس گفتگو کی تکمیل کے لئے مساجد اور مراکز عبادت کو آباد کرنے والوں کے لئے پانچ اہم شرائط بیان کی گئی ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے: صرف وہ لوگ الله کی مساجد کو آباد کرتے ہیں جو خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں( إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ) ۔ اس میں پہلی اور دوسری شرط کی طرف اشارہ ہے، یہ شرائط اعتقادی اور بنیادی پہلو رکھتی ہیں ، جب تک یہ دونوں نہ ہوں انسان سے کوئی بھی پاک، شائستہ اور خالص عمل سرزد نہیں ہوسکتا بلکہ اگر ظاہراً شائستہ ہو بھی تو باطن طرح طرح کی ناپاک اغراض سے آلودہ ہوگا ۔

اس کے بعد تیسری اور چوتھی شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:( وَاٴَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ ) یعنی خدا اور روزِ جزا پر اس کا ایمان فقط دعویٰ کی حد تک اور زبانی نہ ہو بلکہ وہ اپنے پاک اعمال کے ذریعے اس کی تاکید کرے، اس کا خدا سے رشتہ بھی مستحکم ہو اور نماز کو صحیح طریقے سے انجام دے، مخلوق خدا سے بھی اس کا تعلق ہو اور زکوٰة ادا کرے ۔

آخر میں آخری شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اور خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے( وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللهَ ) ۔

اس کا دل عشقِ خدا سے معمور ہو اور صرف اس کے فرمان کے سامنے احساسِ ذمہ داری رکھتا ہو اور اس کے مقابلے میں کمزور بندوں کو اس سے بہت چھوٹا سمجھتا ہو کہ وہ اس کی سرنوشت، اس کے معاشرے، اس کے مستقبل، اس کی کامیابی، اس کی پیش رفت اور آخر میں اس کے مرکزِ عبادت کی آبادی میں کوئی تاثیر رکھتے ہوں ۔

آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: یہ گروہ جو ایسی صفات کا حامل ہے ہوسکتا ہے کہ ہدایت پالے اور اپنے مقصد تک پہنچ جائے اور مساجدِ خدا کی تعمیر اور آبادی کے لئے کوشش کرے اور اس کے عظیم نتائج سے بہرہ ور ہو( فَعَسیٰ اٴُوْلٰئِکَ اٴَنْ یَکُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِینَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ مساجد کی آبادی سے کیا مراد ہے؟

کیا مساجد کی آبادی سے مراد ان کی تاسیس وتعمیر ہے یا ان میں اجتماع کرنا اور ان کے اجتماعات میں شرکت مراد ہے؟ اس آیت کو عُمران مساجد کی آیت کہتے ہیں ، بعض مفسّرین نے اس کی تفسیر کے سلسلے میں ان دو میں سے صرف ایک کو انتخاب کیا ہے حالانکہ اس لفظ کا وسیع ہے جس میں یہ تمام امور شامل ہیں ۔

مشرکین اور بت پرست نہ تو مساجد میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعمیر کا بلکہ یہ تمام امور مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پانا چاہییں ۔

ان آیات سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو نہیں چاہیے کہ وہ مساجد کی تعمیر کے لئے مشرکین کی بلکہ غیرمسلموں میں سے کسی کی بھی مدد حاصل کریں کیونکہ پہلی آیت اگرچہ مشرکین کے بارے میں گفتگو کرتی ہے لیکن دوسری آیت کہ جو لفظ ”إِنَّمَا“ سے شروع ہوتی ہے مسجدوں کی تعمیر کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کردیتی ہے ۔

یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مساجد کے متولی اور نگران بھی پاکیزہ ترین افراد میں سے منتخب ہونے چاہییں نہ کہ ناپاک اور بُرے لوگ مال وروت، مقام ومنصب یا معاشرے میں اثر ورسوخ کی وجہ سے منتخب ہوجائیں جیسا کہ متاسفانہ بعض علاقوں میں رائج ہے کہ ایسے لوگ ان مراکزِ عبادت اور اسلامی اجتماعات کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں ، تمام ناپاک ہاتھوں کو ان تمام مقدس مراکز سے منقطع کیا جانا چاہیے، جس دن سے جابر حکمرانوں ، گناہ آلود سرمایہ داروں اور بدکرداروں نے مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں ہاتھ ڈالا ہے اس دن سے ان کی روحانیت اور اصلاحی پروگرام مسخ ہوگئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب کیسی بہت سی مساجد نے مسجدِ ضرار کی صورت اختیار کرلی ہے ۔

۲ ۔ عمل صالح کا سرچشمہ صرف ایمان ہے:

ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ سوچتے ہوں کہ اس میں کیا حرج ہے کہ غیرمسلموں کے سرمائے سے ان مراکز کی تعمیر اور آبادی کے لئے فائدہ اٹھالیا جائے لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اس بنیادی نکتے کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ اسلام ہر مقام پر عمل صالح کو شجر ایمان کا ثمر شمار کرتا ہے، عمل ہمیشہ انسان کی نیت اور عقیدے کا سایہ ہے اور وہ ہمیشہ اس شکل وصورت اور رنگ وڈھنگ کو اپناتا ہے، ناپاک نیتوں سے ممکن نہیں کہ پاک عمل وجود میں آئے اور اس کا نتیجہ اور ثمر مفید صورت میں نکلے کیونکہ عمل نیت کی بازگشت ہے ۔

۳ ۔ بہادر محافظ:

( وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللهَ ) “ (خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا) یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ مساجد کی تعمیر، آبادی اور نگہداری شجاعت وبہادری کے بغیر ممکن نہیں ہے، یہ مقدس اسلامی مراکز انسان سازی کے مراکز اور تربیت کی اعلیٰ درسگاہوں میں اسی صورت میں تبدیل ہوں گے جب ان کے بانی اور محافظ اور شجاع ہوں گے کہ جو خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتے ہوں ، کسی مقام ومرتبہ اور قوت سے متاثر نہ نہیں ہوں گے کہ جو ان میں خدائی پروگراموں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہونے دیں گے ۔

۴ ۔ کیا اس سے صرف مسجد الحرام مراد ہے؟

بعض مفسّرین نے مندرجہ آیات کو مسجدالحرام سے مخصوص قرار دیا ہے جبکہ آیت کے الفاظ عام ہیں اور ایسی تشخیص کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے اگرچہ مسجد الحرام جو کہ عظیم ترین اسلامی مسجد ہے اس کا مصداقِ اوّل ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تھی زیادہ تر یہی مسجد محلِ نظر تھی لیکن یہ بات تخصیصِ آیات کی دلیل نہیں بن سکتی ۔

۵ ۔ تعمیر مساجد کی اہمیت

مسجد بنانے کی اہمیت کے بارے میں اہلِ بیتِ رسول علیہم السلام سے اور اہل سنّت کے طرق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ، ان سے تعمیر مسجد کی بے حد اہمیت ظاہر ہوتی ہے، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:”مَن بَنیٰ مَسْجِداً وَلَو کَمَفْحَصِ قطَاة بَنَی اللهُ لَهُ بَیْتاً فِی الْجَنَّةِ

جو شخص کوئی مسجد بنائے اگرچہ پرندے کے گھونسلے کے برابر ہو تو خدا جنت میں اس کے لئے ایک گھر بنائے گا ۔(۱)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم سے منقول ہے:

من اٴسرج فی مسجد سراجاً لم تزل الملائکة وحملة العرش یستغفرون له مادام فی ذلک المسجد ضوئه

جو شخص مسجد میں چراغ روشن کرے جب تک اس چراغ کی روشنی رہے گی فرشتے اور حاملینِ عرشِ الٰہی اس کے لئے استغفار اور دعائے خیر کرتے رہیں گے ۔(۲)

لیکن آج کے زمانے میں جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے وہ مساجد کی معنوی آبادی اور تعمیر ہے، دوسرے لفظوں میں جتنی ہم مسجد کو اہمیت دیتے ہیں اس سے زیادہ اہلِ مسجد، نگران مسجد اور محافظین مسجد کو اہمیت دینا چاہیے، ہر طرف سے اسلامی تحریک مسجد سے اٹھنا چاہیے، مسجد کو تہذیب نفس اور لوگوں کی آکاہی وبیداری کے لئے استعمال ہونا چاہیے، ماحول کو پاکیزہ بنانے اور ورثہ اسلامی کے دفاع کے لئے مسلمانوں کو آمادہ کرنے کا مرکز مسجد کو ہونا چاہیے ۔

خصوصیت سے اس طرف توجہ کرنا چاہیے کہ مسجد صاحبِ ایمان نوجوانوں کے لئے مرکز بنے نہ یہ کہ صرف آگے بیٹھنے والوں اور بیکار لوگوں کا مرکز بنی رہے، مسجد معاشرے کے فعال ترین طبقوں کا مرکز ہونا چاہیے نہ کہ ناکارہ اور خوابیدہ افراد کا مرکز۔

____________________

۱۔ یہ حدیث کتاب وسائل کے باب ۸ میں ہے جوکہ احکامِ مساجد کے ابواب میں سے ہے اور اسی طرح المنار جلد۱۰، ص۲۱۳ پر ابن عباس سے منقول ہے ۔

۲۔ کتاب کنز العرفان، ج۱، ص۱۰۸، بحوالہ کتاب محاسن، ص۵۷-

آیات ۱۹،۲۰،۲۱،۲۲

۱۹( اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لَایَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ )

۲۰( الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْفَائِزُونَ )

۲۱( یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِیهَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ )

۲۲( خَالِدِینَ فِیهَا اٴَبَدًا إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ )

ترجمہ

۱۹ ۔ کیا حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آباد کرنے کا عمل اس شخص (کے عمل) کی طرح قرار پاسکتا ہے جو خدا اور روزِ جزا پر ایمان لایا ہے اور اس نے اُس کی راہ میں جہاد کیا ہے، (یہ دونوں ) خدا کے ہاں ہرگز برابر نہیں ہیں اور خدا ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں کرتا ۔

۲۰ ۔ وہ جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مال وجان سے راہِ خدا میں جہاد کیا، خدا کے ہاں ان کا مقام ومنزلت بلند ہے اور وہ عظیم نعمت پر فائز ہیں ۔

۲۱ ۔ پروردگار انھیں اپنی طرف سے رحمت، خوشنودی اور ایسے باغات بہشت کی بشارت دیتا ہے جن میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ۔

۲۲ ۔ وہ ہمیشہ ان باغوں میں (اور ان نعمتوں میں گھرے) رہیں گے کیونکہ خدا کے ہاں عظیم اجر وثواب ہے ۔

شان نزول

مندرجہ بالا آیات کے شان نزول کے بارے میں شیعہ اور سُنی کتب میں مختلف روایات نقل ہوئی ہیں ، ان میں سے جو زیادہ صحیح نظر آتی ہے اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے ۔

اہل سنّت کے مشہور عالم حاکم ابوالقاسم حسکانی نقل کرتے ہیں کہ شیبہ اور عباس میں سے ہر ایک دوسرے پر افتخار کررہے تھے اس سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کررہے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام ان کے پاس سے گزرے اور کہا کہ کس چیز پر فخرومباہات کررہے ہو، عباس نے کہا مجھے ایسا امتیاز حاصل ہے کہ جو کسی کے پاس نہیں اور وہ ہے خانہ خدا کے حاجیوں کو پانی پلانا ۔

شیبہ نے کہا کہ میں مسجد الحرام کو تعمیر کرنے والا ہوں اور (خانہ کعبہ کا کلید دار ہوں ) ۔

حضرت علی(ع) نے کہا: مجھ شرم آتی ہے کہ میں کم سن ہونے کے باوجود تم ایسا افتخار اور امتیاز رکھتا ہوں کہ جو تم نہیں رکھتے ۔

انھوں نے پوچھا: وہ کونسا افتخار اور امتیاز ہے؟

آپ(ع) نے فرمایا: میں نے تلوار سے جہاد کیا یہاں تک کہ تم خدا اور رسول پر ایمان لے آئے ۔

عباس غصّے میں آکر کھڑے ہوگئے اور دامن کو کھینچتے ہوئے رسول الله کی تلاش میں نکلے، (آپ ملے تو آپ سے شکایت کے طور پر) کہنے لگے: کیا آپ دیکھتے نہیں کہ علی مجھ سے اس قسم کی بات کرتا ہے ۔

رسول الله نے فرمایا: علی کو بلاو۔

جب حضرت علی علیہ السلام بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: تم نے اپنے چچا (عباس) سے کوئی ایسی بات کیوں کی ہے ۔

حضرت علی(ع) نے عرض کیا: یا رسول الله! اگر مجھ سے انھیں تکلیف پہنچی ہے تو میں نے تو ایک حقیقت بیان کی تھی، کوئی حق بات پر ناراض ہوتا ہو تو اور کوئی خوش ہوتا ہو تو ہو۔

اس موقع پر جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: یا محمد! آپ کے پروردگار نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیات ان کے سامنے پڑھیے( اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَ ) (کیا حاجیوں کو سیراب کرنا اور مسجد الحرام کی آبادی خدا اور روزِ جزا پر ایمان لانے اور راہِ خدا میں جہاد کرنے کی مانند قرار دیتے ہو یہ ہرگز ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہیں ۔(۱)

یہی روایت مضمون کے تھوڑے اختلاف کے ساتھ اہل سنّت کی بہت سی کتب میں منقول ہے، مثلاً تفسیر طبری، ثعلبی، اصحابِ النزول واحدی، تفسیر بغدادی ، معالم التنزیل علامہ بغوی، مناقب ابن مغازلی، جامع الاصول ابن اثیر، تفسیر فخر رازی اور دیگر کتب۔(۲)

بہرحال مندرجہ بالا حدیث مشہور ومعروف احادیث میں سے ہے یہاں تک کہ متعصب افراد نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے، ہم ان آیات کی تفسیر مکمل کرکے دوبارہ اس کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔

معیارِ فضیلت

ان آیات کی اگرچہ مخصوص شان نزول ہے تاہم یہ گذشتہ آیات کی بھی تکمیل کرتی ہیں اور ایسی شان مثالیں قرآن مجید میں بہت سی ہیں ۔

پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: کیا خانہ خدا کے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد الحرام کی تعمیر کرنے کو اس شخص کے کام طرح قرار دیتے ہو جو خدا اور روزِ جزا پر ایمان رکھتا ہے اور روہِ خدا میں جہاد کرتا ہے، یہ دونوں خدا کے ہاں کسی طرح بھی برابر اور یکساں نہیں ہیں اور خدا ظالم وستمگر کو ہدایت نہیں کرتا( اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لَایَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔

”سقایة“ مصدر بھی ہے جس کا معنی پانی دینا اور اس وسیلے اور پیمانے کے معنی میں بھی ہے جس سے پانی پلاتے ہیں (جیسا کہ سورہ یوسف آیہ ۷۰ میں آیا ہے) نیز یہ بڑے برتن یا حوض کے معنی میں بھی آیا ہے کہ جس میں پانی ڈالتے ہیں ، مسجد الحرام میں زمزم اور خانہ کعبہ کے درمیان ایک جگہ ہے جو ”سقایة العباس“ کے نام سے مشہور ہے وہ یہاں ایک بڑا برتن رکھ دیتے تھے کہ جس میں سے حاجی پانی لیتے تھے ۔

تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ اسلام سے پہلے ”سقایة الحاج“ کا منصب خانہ کعبہ کی کلید برداری کے منصب کے ہم پلّہ تھا اور اہم ترین منصب شمار ہوتا تھا ۔

ایّام حج میں حاجیوں کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہ سرزمین بھی ایسی ہے جہاں خشک اور جلادینے والی گرمی ہے جہاں پانی کم ہے اور سال کے زیادہ تر دنوں میں جہا گرم ہوا چلتی رہتی ہے، اس سے ”سقایة الحاج“ کے منصب کی خاص اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور جو شخص اس معاملے کا سرپرست ہوتا وہ فطری طور پر مقام وحیثیت کا حامل ہوتا کیونکہ حاجیوں کی خدمت ایک زندہ خدمت شمار ہوتی تھی ۔

اسی طرح مسجد الحرام کی کلید برداری کا منصب رکھنے والے اور اس کی تعمیر وآبادی کی خدمت انجام دینے والے شخص یا اشخاص کا بے حد احترام کیا جاتا تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت میں بھی مسجد الحرام کو مقدس ترین اور عظیم ترین مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔

ان تمام چیزو ں کے باوجود قرآن مجید کہتا ہے کہ خدا پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ان تمام کاموں سے برتر اور بالاتر ہے ۔

اگلی آیت میں تاکید اور توضیح کے طور پر فرمایا گیا ہے: جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انھوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مال وجان سے راہِ خدا میں جہاد کرچکے ہیں وہ بارگاہ خداوندی میں برتر اور عظیم تر مقام رکھتے ہیں( الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْفَائِزُونَ ) ۔

اگلی آیت میں خدا ان تین اہم کاموں (ایمان، ہجرت اور جہاد) کے بدلے میں ان کے لئے تین اہم انعام بیان کرتا ہے:

۱ ۔ انھیں اپنی وسیع رحمت کی بشارت دیتا ہے( یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ ) ۔

۲ ۔ انھیں اپنی رضامندی اور خوشنودی سے بہرہ مند کرتا ہے( وَرِضْوَانٍ ) ۔

۳ ۔ جنت کے ایسے باغات ان کے اختیار میں دے دیتا ہے کہ جن کی نعمتیں دائمی ہیں( وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِیهَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ ) ۔

اگلی آیت میں زیادہ تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: وہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے( خَالِدِینَ فِیهَا اٴَبَدًا ) ۔ کیونکہ خدا کے پاس عظیم واجر وثواب ہے کہ جو وہ بندوں کے اعمال کے بدلے میں انھیں بخشے گا( إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ ) ۔

دو اہم نکات

۱ ۔ تحریف تاریخ:

جیسا کہ ہم مندرجہ بالا آیات کی شان نزول میں پڑھ چکے ہیں ، اس روایت کے مطابق کہ جو بہت سی مشہور تین کتب اہلِ سنّت میں منقول ہوئی ہے یہ آیات حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اور ان کے فضائل میں نازل ہوئی ہیں اگرچہ ان کا مفہوم عام اور وسیع ہے (اور ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ شان نزول آیات کے مفہوم شان نزول آیات کی مفہوم کومحدود نہیں کرتی) لیکن بعض مفسّرین اہل سنت نہیں چاہتے کہ علی کے لیے جاذب نظر فضائل ثابت ہوں حالا نکہ وہ آپ کو اپنا چوتھا عظیم پیشوا مانتے ہیں ، گویا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر وہ ان مدارک ومآخذ کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور اس بات پر ہر طرف سے ان کا دائرہ تنگ کردیں کہ کس بنا پر تم دوسروں کو حضرت علی(ع) پرمقدم سمجھتے ہو، لہٰذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرلیتے ہیں اور جتنا ان سے ممکن ہو ایسی احادیث پر سند کے حوالے سے اعتراضات کرتے ہیں اور اگر سند میں دست اندازی کی کوئی گنجائش نظر نہ آئے تو کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس کی دلالت کو مخدوش کردیں ، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے تعصبات ہمارے اس زمانے تک جاری ہیں یہاں تک کہ ان کے بعض روشن فکر علماء بھی ان سے بچ نہیں سکے ۔

میں بھول نہیں سکتا وہ گفتگو جو میری ایک اہل سنّت عالم سے ہوئی، جب بات چیت کے دوران اس قسم کی احادیث پر گفتگو چل نکلی تو انھوں نے ایک عجیب بات کہی، انھوں نے کہا: میرا نظریہ ہے کہ شیعہ اپنے مذہب کے تمام اصول وفروع ہمارے منابع، مدارک اور کتب سے ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ ان میں مذہب شیعہ کے لئے کافی مقدار میں احادیث موجود ہیں جو ان کے نفع میں ہیں ۔

لیکن اس بنا پر کہ وہ ان تمام منابع ومدارک سے بالکل نجات حاصل کرلیں کہنے لگے: میرا نظریہ ہے کہ ہمارے سابقہ لوگ خوش باور افراد تھے اور جن احادیث کو وہ سن لیتے تھے اپنی کتب میں نقل کردیتے تھے، اب ان تمام چیزوں کو جو وہ لکھ گئے ہیں ہم آسانی سے قبول نہیں کرسکتے (واضح رہے کہ ان کی گفتگو ان کی کتب صحاح، مسانیدِ معتبرہ اور درجہ اوّل کے بارے میں بھی تھی) ۔

میں نے ان سے کہا: یہ محققانہ طریقہ نہیں کہ انسان کسی مذہب کو پہلے سے وراثتاً قبول کرے اور اس کے بعد ہر وہ حدیث جو اس مذہب کے مطابق ہو اسے صحیح سمجھے اور جو حدیث اس سے تطبیق نہ کرے اسے یقین سابق کی خوش باوری خیال کرلے چاہے وہ معتبر حدیث ہی کیوں نہ ہو، کیا ہی اچھا ہو کہ اس طرزِ فکر کی بجائے آپ دوسری راہ انتخاب کرلیں ، پہلے اپنے آپ کو ہر قسم کے موروثی عقائد سے پاک کرلیں پھر منطقی مدارک کو سامنے رکھ کر صحیح عقیدے کو اختیار کریں ۔

آپ اچھی طرح سے ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ کیوں اور کس بناپر ان مشہور ومعروف احادیث کو جو حضرت علی علیہ السلام کے بلند وبرتر مقام کے بارے میں ہیں اور دوسروں پر ان کی برتری ثابت کرتی ہیں کے بارے میں اس طرح سے سرد مہری اختیار کی جاتی ہے بلکہ ان پر اعتراضات کی بوچھار کی جاتی ہے اور بعض اوقات تو انھیں بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے اور ان کے متعلق سرے سے بات ہی نہیں کی جاتی جیسے اس قسم کی احادیث اصلاً موجود ہی نہ ہوں ۔

مندرجہ بالا گفتگو کی روشنی میں اب ہم مشہور مفسّر صاحب المنار کی گفتگو بیان کرتے ہیں ، انھوں نے زیرِ نظر آیات کی شانِ نزول کے بارے میں مذکورہ روایت کو بالکل نظرانداز کردیا ہے اور اس کی بجائے ایک اور روایت جو آیات کے مضمون پر بالکل منطبق نہیں ہوتی اور جسے ایک مخالفِ قرآن روایت کے باعث پھینک دینا چاہیے تھا معتبر جانا ہے، یہ روایت وہ ہے جسے انھوں نے نعمان بن بشیر سے نقل کیا ہے ۔

نعمان کہتا ہے کہ میں منبر رسول کے پاس چند صحابہ کےساتھ بیٹھا ہوا تھا، ان میں سے ایک کہنے لگا: میں اسلام لانے کے بعد کسی عمل کو اس سے بلند وبرتر نہیں سمجھتا کہ خانہ خدا کے حاجیوں کو سیراب کروں ۔

دوسرا کہنے لگا: مسجد الحرام کی تعمیر اور اسے آباد کرنا ہر عمل سے بلند تر ہے ۔

حضرت عمر نے انھیں یہ گفتگو کرنے سے منع کیا اور کہا:- رسولِ خدا کے منبر کے پاس اپنی آواز بلند نہ کرو۔

یہ جمعہ کا دن تھا ۔

حضرت عمر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: لیکن جب میں نمازِ جمعہ پڑھ لوں گا تو رسولِ الله کے پاس جاوں گا اور ان سے تمھارے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کروں گا جس کے متعلق تم اختلاف کررہے ہو۔

(نماز کے بعد حضرت عمر، رسول الله کے پاس گئے اور سوال کیا) تو اس موقع پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں ۔(۱)

حالانکہ یہ روایت مختلف جہات سے زیرِ بحث آیات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور ہم جانتے ہیں کہ جو روایت خلافِ قرآن ہو اسے دور پھینک دینا چاہیے، مذکورہ روایت کے ضمن میں مندرجہ ذیل پہلو قابلِ غور ہیں :

الف: مندرجہ بالا آیات میں جہاد، سقایة الحاج اور تعمیر مسجد الحرام میں موازنہ نہیں ہوا بلکہ بلکہ موازنہ میں ایک طرف سقایة الحاج اور تعمیر مسجد الحرام ہے اور دوسری طرف خدا اور روزِ جزا پر ایمان اور جہاد ہے، یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ کچھ افراد ان اعمال کا جو وہ زمانہ جاہلیت میں انجام دے چکے تھے ایمان اور جہاد کا موازنہ تعمیر مسجد الحرام اور سقایة الحاج سے ہے ۔

ب: دوسری بات یہ ہے کہ ”( وَاللهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) “ کا جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ پہلے گروہ کے اعمال ظلم سے ملے ہوئے تھے اور یہ اس صورت میں ہوگا جب وہ حالتِ شرک میں واقع ہوئے ہوں کیونکہ قرآن کہتا ہے:( اِنَّ الشِّرکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ) یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔(لقمان/ ۱۳)

ج: زیرِ بحث دوسری آیت کہتی ہے: وہ افراد جو ایمان لائے اور انھوں نے جہاد کیا وہ بلند مقام رکھتے ہیں ، اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ افارد ان لوگوں سے جو ایمان، ہجرت اور جہاد نہیں رکھتے برتر ہیں ، اور یہ صورت نعمان والی روایت سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ اس روایت کے مطابق گفتگو کرنے والے سب مومن اور مسلمان تھے اور شاید وہ ہجرت اور جہاد کے مرحلے میں شریک ہوچکے تھے ۔

د: گذشتہ آیات میں مساجد کی آبادی کے سلسلے میں مشرکین کے اقدام کرنے کے متعلق گفتگو تھی( مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ اٴَنْ یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللهِ ) جبکہ زیرِ بحث آیات جو ان کے بعد آئی ہیں اسی موضوع کو جاری رکھے ہوئے ہیں یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ ان آیات کا موضوع بحث حالتِ شرک میں تعمیر مسجد الحرام اور سقایة الحاج ہے، یہ بات نعمان والی روایت کے مطابق نہیں ہے ۔

ان تمام دلائل کے مقابلے میں جو بات کہی جاسکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ”اٴعظم درجة “ کی تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ عمل کے موازنہ اور مقابلہ میں شریک طرفین اچھے افراد ہیں اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے سے بہتر ہے ۔

لیکن اس کا جواب واضح ہے کیونکہ افعل التفضیل (صفت تفصیلی) زیادہ تر ایسے مواقع پر استعمال ہوتی ہے کہ جب موازنہ کی ایک طرف واجد فضیلت اور دوسری طرف صفر ہو مثلاً اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کہتے ہیں کہ دیر سے پہنچنا اس سے بہتر ہے، یا یہ کہ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں :( وَالصُّلْحُ خَیْرٌ )

صلح جنگ سے بہتر ہے ۔(نساء/ ۱۲۸)

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ کوئی اچھی چیز ہے ۔

یا اسی طرح قرآن میں ہے:( وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکٍ )

بندہ مومن مشرک سے بہتر ہے ۔(بقرہ/ ۲۲۱)

تو کیا بت پرست بھی کوئی خیر اور فضیلت رکھتا ہے ۔

اسی طرح سورہ توبہ آیہ ۱۰۸ میں ہے:( لَمَسْجِدٌ اٴُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ اٴَوَّلِ یَوْمٍ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَقُومَ فِیهِ )

وہ مسجد کہ جس کی بنیاد پر تقویٰ پر رکھی گئی ہے (مسجد ضرار سے جسے منافقین نے تفرقہ ڈالنے کے لئے بنایا تھا) عبادت کے لئے زیادہ حق رکھتی ہے اور زیادہ شائستہ ہے ۔

حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ مسجد ضرار میں عبادت کرنے میں کوئی شائستگی نہیں ہے، اس قسم کی تعبیریں قرآن مجید، کلماتِ عرب اور دوسری زبانوں میں بہت زیادہ ہیں ، جو کچھ کہا گیا ہے اس تمام گفتگو سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نعمان بن بشیر والی روایت چونکہ قرآن کے مضمون کے برخلاف ہے لہٰذا پھینک دینا چاہیے اور جو ظاہری آیات کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے وہی مشہور حدیث ہے جو بحث کی ابتداء میں شانِ نزول کے زیرِ عنوان ہم نے بیان کی ہے اور یہ اسلام کے عظیم پیشوا حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک فضیلت ہے ۔

خدا تعالیٰ ہم سب کو حق کی اور ایسے رہنماوں کی پیروی پر ثابت قدم رکھے اور کھلی آنکھ اور کان عطا فرمائے اور تعصب سے دُور فکر عنایت کرے ۔

۲ ۔ مقامِ رضوان کیا ہے؟

مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام رضوان ان عظیم نعمات اور مقامات میں سے ہے جو خدا تعالیٰ مومنین اور مجاہدین کو بخشتا ہے، یہ مقام باغاتِ بہشت، جنت کی جاوداں نعمتوں اور پروردگار کی وسیع رحمت سے الگ الگ چیز ہے اس مسئلے کی مزید تشریح انشاء الله اسی سورت کی آیہ ۷۲ کے ذیل میں آئے گی جس میں فرمایا گیا ہے:

( وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ اٴَکْبَرُ )

____________________

۱۔ تفسیر مجمع البیان، زیر بحث آیات کے ذیل میں -

۲۔ حدیث کی مزید وضاحت کے لئے اور اس کے مدارک کے مشخصات کے بارے میں احقاق الحق جلد۳، ص۱۲۲تا۱۲۷ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۳۔ تفسیر المنار، ج۱۰، ص۲۱-