تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27260
ڈاؤنلوڈ: 2407


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27260 / ڈاؤنلوڈ: 2407
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۲۳،۲۴

۲۳( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَتَّخِذُوا آبَائَکُمْ وَإِخْوَانَکُمْ اٴَوْلِیَاءَ إِنْ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْإِیمَانِ وَمَنْ یَتَوَلَّهُمْ مِنْکُمْ فَاٴُوْلٰئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ )

۲۴( قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَاٴَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَاٴَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَاٴَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَهَا اٴَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنْ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِی سَبِیلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَاٴْتِیَ اللهُ بِاٴَمْرِهِ وَاللهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ )

ترجمہ

۲۳ ۔ اے ایمان والو! جس وقت تمھارے باپ اور بھائی کفر کو ایمان پر ترجیح دیں تو انھیں اپنا ولی (اور دوست، یاور اور سہارا) قرار نہ دو اور جو انھیں اپنا ولی قرار دیں وہ ستمگر ہیں ۔

۲۴ ۔کہہ دو : اگر تمھارے آباواجداد ، اولاد، بھائی، ازواج اور تمھارا قبیلہ اور وہ اموال جو تمھارے ہاتھ لگے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑجانے کا تمھیں ڈر ہے وہ تمھارے پسندیدہ گھر تمھاری نظر میں خدا، اس کے پیغمبر اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تم پھر انتظار کرو کہ خدا تم پر اپنا عذاب نازل کرے اورخدا نافرمانوں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

ہدف اور خدا پر ہر چیز قربان ہے ۔

آخری وسوسہ اور بہانہ جو بت پرستوں کے مقابلے میں حکم جنگ کے بارے میں ہوسکتا ہے اور بعض تفاسیر کے مطابق پیدا ہوا، یہ تھا کہ وہ سوچتے تھے کہ ایک طرف مشرکین اور بت پرستوں کے درمیان ان کے قریبی عزیز اور وابستہ لوگ موجود تھے ۔ کبھی باپ مسلمان ہوجاتا اور بیٹا مشرک رہ جاتا اور کبھی برعکس اولاد راہِ خدا پر چل نکلتی اور باپ اسی طرح شرک تاریکی میں رہ جاتا، یونہی بھائیوں ، میان بیوی اور خاندان کے بارے میں صورت تھی، اب اگر تمام مشرکین کے ساتھ جنگ کرنا مقصود ہوتا تو پھر اس کا تقاضا یہ ہوتا کہ اپنے رشتہ داروں اور قوم وقبیلہ کو بھول جائیں ۔

دوسری طرف ان کا زیادہ تر سرمایہ اور تجارت مشرکین کے ہاتھ میں تھا لہٰذا وہ مکہ آتے جاتے اور اس کی ترقی کے لئے کام کرتے ۔

تیسری بات یہ تھی کہ مکہ میں ان کے گھر تھے جو اچھی حالت میں نسبتاً آباد تھے کہ جو ہوسکتا تھا کہ مشرکین سے جنگ کی صورت میں ویران ہوجائیں یا ممکن تھا کہ مراسم حج سے مشرکین کے معطل ہوجانے کی وجہ سے ان کی کوئی قدر وقیمت نہ رہتی اور وہ بے سود ہوجاتے ۔

مندرجہ بالا آیت کی نظر ایسے اشخاص ہی کی طرف ہے اور دو ٹوک انداز میں انھیں صریح جواب دیتی ہیں ، پہلے فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو! جب تمھارے باپ اور بھائی کفر کوایمان پر مقدم رکھیں تو انھیں اپنا دوست، مددگار ولی اور سرپرست قرار نہ دو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَتَّخِذُوا آبَائَکُمْ وَإِخْوَانَکُمْ اٴَوْلِیَاءَ إِنْ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْإِیمَانِ ) ۔

پھر تاکید کے طور پر مزید کہا گیا ہے: تم میں سے جو لوگ مدد اور دوستی کے لئے ان کا انتخاب کریں وہ ستمگر ہیں( وَمَنْ یَتَوَلَّهُمْ مِنْکُمْ فَاٴُوْلٰئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ ) ۔

اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ انسان حق سے بیگانوں اور حق کے دشمنوں سے دوستی رکھ کر اپنے اوپر، اس معاشرے پر جس میں وہ رہتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رسول پر ظلم کرے ۔

اگلی آیت میں اس امر کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر اس کی تشریح تاکید اور تہدید کی صورت میں کی گئی ہے، روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیاہے: ان سے کہہ دو اگر تمھارے باپ، اولاد، بھائی، ازواج، خاندان اور قبیلہ اور تمھارے جمع کردہ اموال اور تجارت جس کے مندا پڑجانے تمھیں خوف ہے اور اچھے امکانات جو تمھیں پسند ہیں تمھاری نظر میں خدا، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو کہ خدا کی طرف سے سزا اور عذاب تمھیں آلے( قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَاٴَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَاٴَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَاٴَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَهَا اٴَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنْ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِی سَبِیلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَاٴْتِیَ اللهُ بِاٴَمْرِهِ ) ۔

ان امور کو رضائے الٰہی اور جہاد پر ترجیح دینا چونکہ ایک قسم کی نافرمانی اور واضح فسق ہے اور مادی زندگی کے زرق وبرق سے دلبستگی رکھنے والے ہدایت الٰہی کی اہلیت نہیں رکھتے لہٰذا آیت کے آخر میں مزید ارشاد ہوتا ہے: خدا فاسق گروہ کو ہدایت نہیں کرتا( وَاللهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) ۔

تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں اس طرح منقول ہے:

( لما اذن امیرالمومنین ان لا یدخل المسجد الحرام مشرک بعد ذٰلک جزعت قریش جزعاً شدیداً وقالوا ذهبت تجارتنا، وضعت عیالنا، وخرجت دورنا، فانزل الله فی ذٰلک ( یا محمد ) إِنْ کَانَ آبَائُکُمْ )

جب حضرت امیر المومنین علی(ع) نے (مراسم حج کے دوران) اعلان کیا کہ اس کے بعد کوئی مشرک مسجد الحرام میں داخلے کا حق نہیں رکھتا تو قریش (کے مومنین) نے فریان بلند کی اور کہنے لگے: ہماری تجارت ختم ہوگئی اور ہمارے اہل وعیال تباہ ہوگئے اور ہمارے گھر ویران ہوگئے، اس پر آیت ننازل ہوئی ”( إِنْ کَانَ آبَائُکُمْ )

مندرجہ بالا آیات میں اصلی سچّے ایمان کوشرک ونفاق سے آلودہ کو الگ الگ کرکے دکھایا گیا ہے اور حقیقی مومنین اور ضعیف الایمان افراد کے درمیان حد فاصل مقرر کردی گئی ہے اور صراحت سے کہا گیا ہے کہ ہشت پہلو مادی زندگی کا سرمایہ کہ جس کے چار حصّے نزدیکی رشتہ داروں (ماں باپ، اولاد، بہن بھائیوں اور میان بیوی) سے مربوط ہیں ، ایک حصّہ گروہ اجتماعی اور عشیرہ وقبیلہ سے، ایک حصّہ جمع کردہ اموال سے، ایک حصّہ اچھے مکانوں سے مربوط ہے انسان کی نظر میں خدا، رسول، جہاد اور فرمانِ خدا کی اطاعت سے بڑھ کر قیمتی اور گراں بہا ہے یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کو دین پر قربان کرنے کو تیار نہیں تو معلوم ہوتا ہے اس میں حقیقی اور کامل ایمان پیدا نہیں ہوا ۔

حقیقتِ ایمان ور وح ایمان اپنی تمام قدروں کے ساتھ اسی دن روشن ہوگی جس روز ایسی فداکاری اور قربانی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے ۔

علاوہ ازیں جو لوگ ایسے ایثار وفداکاری پر آمادہ نہیں ہیں درحقیقت اپنے اوپر معاشرے پر ظلم کرتے ہیں یہاں تک کہ جس چیز سے وہ ڈرتے ہیں اسی میں جاکریں گے کیونکہ جو قوم تاریخ کے ایسے لمحوں اور مقامات پر ایسی فداکاریوں کے لئے تیار نہیں ہے جلد یا دیر اسے شکست سے دوچار ہونا پڑے گا اور وہی عزیز واقارب اور مال ودولت جن سے دلبستگی کی وجہ سے حہاد سے اجتناب کرتے ہیں خطرے میں پڑجائیں گے اور دشمن کے جنگل میں نیست ونابود ہوجائیں گے ۔

قابل توجہ نکات

۱ ۔ ہدف عزیز تر ہو:

جو کچھ آیاتِ بالا میں فرمایا گیا ہے اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ عزیز واقارب سے دوستی اور محبت کے رشتے توڑلیے جائیں اور اقتصادی سرمائے کی پرواہ نہ کی جائے اور نہ یہاں انسانی جذبات کو ترک پر ابھارا گیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جب زندگی میں دوراہا آجائے تو بیوی، اولاد، مال ودولت، مقام ومنزلت، گھر اور گھرانے کے عشق کو حکمِ خدا کے اجراء اور جہاد کی طرف رغبت سے مانع نہیں ہوچاہیے اور ان چیزوں کو انسان کے مقدس ہدف اور مقصد میں حائل نہیں ہوچاہیے ۔

لہٰذا اگر دوراہاے پر نہ کھڑا ہو اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ نہ ہو تو پھر دونوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔

سورہ لقمان کی آیہ ۱۵ میں بت پرست ماں باپ کے میں ہے:

( وَإِنْ جَاهَدَاکَ عَلی اٴَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا )

اگر وہ اصرار کریں کہ تو جس چیز کو خدا کا شریک نہیں جانتا اسے خدا کا شریک قرار دے تو ہرگز ان کی اطاعت نہ کرنا لیکن دنیاوی زندگی میں ان سے اچھا سلوک کرو۔

۲ ۔ ”( فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَاٴْتِیَ اللهُ بِاٴَمْرِهِ ) “کا ایک اور مفہوم :

اس کی ایک تو تفسیر وہی ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں یعنی خدا کی طرف سے ایسے لوگوں کے لئے تہدید ہے جو اپنے مادی مفاد کو رضائے الٰہی پر مقدم شمار کرتے ہیں اور چونکہ یہ تہدید اجمالی طور پر بیان کی ہوئی ہے لہٰذا اس کا اثر بیشتر اور زیادہ وحشت انگیز ہے اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے انسان اپنے کسی ماتحت سے کہے کہ اگر تو نے اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کی تو میں بھی اپنا کام کروں گا ۔

اس جملے کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا کہتا ہے کہ اگر تم اس قسم کے ایثار کے لئے تیار نہ ہوئے تو خدا اپنے پیغمبر کی فتح وکامرانی کا حکم اس راستے سے دے گا جسے وہ جانتا ہے اور جس طریقے سے اس نے ارادہ کیا ہے اس کی مدد کرے گا، جیسے سورہ مائدہ کی آیت ۵۴ میں ہے:

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ )

اے ایمان والو! تم میں سے جوشخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ خدا عنقریب ایک گروہ لائے گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور خدا بھی اس گروہ سے محبت کرتا ہے ۔

۳ ۔ ماضی اور حال میں اس حکم کی کیفیت:

ہوسکتا ہے کچھ لوگ یہ خیال کریں کہ جو کچھ ابا آیت میں بیان ہوا ہے وہ پہلے مسلمانوں سے مخصوص ہے اور اس کا تعلق گذشتہ تاریخ سے ہے حالانکہ یہ بہت بڑا اشتباہ ہے، یہ آیات گذشتہ، آج اور آئندہ سب ادوار کے مسلمانوں پر محیط ہیں ، اگر وہ جہاد اور فداکاری کے لئے محکم ایمان نہ رکھتے ہوں ، تیار نہ ہوں ، ضرورت کے وقت ہجرت پر تیار نہ ہوں اور اپنے مادی مفاد کو رضائے الٰہی پر مقدم سمجھیں اور بیوی، اولاد، مال ودولت اور عیشِ حیات سے زیادہ دلبستگی کی وجہ سے ایثار وقربانی سے کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں تو ان کا مستقبل تاریک ہے نہ صرف مستقبل بلکہ اُن کا حال بھی خطرے میں ہے اور ان کا سب گذشتہ افتخار، میراث اور امتیاز ختم ہوجائے گا، ان کی زندگی کے منابع اور مراکز دوسروں کے ہاتھ لگ جائیں گے اور ان کے لئے زندگی کا کوئی مفہوم نہیں ہوگا کیونکہ زندگی ایمان اور ایمان کے زیر سایہ جہاد سے عبارت ہے ۔

مندرجہ بالا آیات کی ایک شعار کے طور پر تمام مسلمانوں بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم دی جانا چاہیے اور ان میں فداکاری، مبارزہ اور ایمان کی روح زندہ ہونا چاہیے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنی میراث کی حفاظت کریں ۔

آیات ۲۵،۲۶،۲۷

۲۵( لَقَدْ نَصَرَکُمْ اللهُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَةٍ وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ اٴَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ )

۲۶( ثُمَّ اٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلیٰ رَسُولِهِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ وَاٴَنزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَذٰلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ )

۲۷( ثُمَّ یَتُوبُ اللهُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ )

ترجمہ

۲۵ ۔ خدا نے بہت سے میدانوں میں تمھاری مدد کی (اور تم دشمن پر کامیاب ہوئے) اور حنین کے دن (بھی مدد کی) جبکہ تمھارے لشکر کی کثرتِ تعداد نے تمھیں گھمنڈ میں ڈال دیا لیکن (اس کثرت نے) تمھاری کوئی مشکل حل نہ کی اوز مین پوری وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تو (دشمن کو) پشت دکھاکر بھاگ کھڑے ہوئے ۔

۲۶ ۔ پھر خدا نے اپنی ”سکینة“ اپنے رسول اور مومنین پر نازل کی اور ایسے لشکر بھیجے جنھیں تم نہیں دیکھتے تھے اور کافروں کو عذاب دیا اور یہ ہے کافروں کی جزا ۔

۲۷ ۔ پھر خدا جس شخص کی چاہے (اور اسے اہل دیکھے) توبہ قبول کرتا ہے اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

صرف کثرت کسی کام کی نہیں

گذشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو راہِ خدا میں شرک وبت پرستی کی جڑ اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر قسم کی فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور وہ اشخاص کہ جن کی روح کو بیوی اولاد، قوم وقبیلہ اور مال وثروت کی محبت نے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ فداکاری اور جہادکے لئے تیار نہیں ہیں انھیں شدید خطرے کا الارم دیتا ہے ۔

اس کے بعد محل بحث آیات میں ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر رہبر ورہنما کو چاہیے کہ وہ حسّاس مواقع پر اپنے پیروکاروں کو اس کی طرف متوجہ کرے اور وہ یہ ہے کہ اگر مال واولاد کا عشق ضعیف الاعتقاد گروہ کے کچھ افراد کو مشرکین کے خلاف جہاد کے لئے پیش قدمی سے روکے تو سچّے مومنین کا گروہ اس امر سے پریشان نہ ہو کیونکہ جب ان کی تعداد کم تھی (مثلاً جنگ بدر میں ) ان دنوں خدا نے انھیں تنہا نہیں چھوڑا اور نہ اُس دن جس روز ان کی جمعیت زیادہ تھی (مثلاً جنگِ جنین کے میدان میں ) اور کثرتِ تعداد نے ان کے درد کا مداوا نہ کیا بلکہ ہر حالت میں خدا کی مدد ان کی کامیابی کا سبب بنی، اسی لئے پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: خدا نے بہت سے مقامات پر تمھاری مدد کی( لَقَدْ نَصَرَکُمْ اللهُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَةٍ ) ۔

”مواطن“ ”موطن“ کی جمع ہے، اس کا معنی ہے ایسی جگہ جسے انسان دائمی طور پر یا وقتی طور اقامت کے لئے منتخب کرے لیکن اس کے معانی میں سے ایک جنگ کا میدان بھی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگی فوجی تھوڑی یا زیادہ مدت کے لئے وہاں قیام کرتے ہیں ۔

مزید فرمایا گیا ہے: اور جنین کے دن تمھاری مدد کی جب اپنی زیادہ جمعیت کی وجہ سے تم اترانے لگے تھے( وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ اٴَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ ) ۔

اس جنگ میں لشکرِ اسلام کی تعداد بارہ ہزار تھی، بعض نے دس یا آٹھ ہزار لیکن مشہور اور صحیح روایات بارہ ہزار کی تائید کرتی ہیں اور اُس وقت تک کسی اسلامی جنگ میں اتنی کثیر تعداد نے شرکت نہیں کی تھی چنانچہ بعض مسلمانوں نے غرور کے انداز میں کہا: ”لن نغلب الیوم“ یعنی اتنی فوج کے ہوتے ہوئے ہم ہرگز شکست نہیں کھائیں گے، لیکن جیسا کہ انشاء الله ہم جنگ حنین کی تفصیل میں بتائیں گے کہ لشکر کی یہ تعداد جس میں ایک گروہ نئے مسلمانوں کا تھا اور جن کی ابھی تربیت نہیں ہوئی تھی لشکر کے فرار اور ابتدائی شکست کا سبب بنا مگر آخر کار انھیں لطفِ خداوندی کے سبب نجات ملی اس ابتدائی شکست کے بارے میں قرآن مزید کہتا ہے: زمین اپنی پوری وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوئی( وَضَاقَتْ عَلَیْکُمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ) ۔ پھر تم دشمن کو پشت دکھاکر بھاگ کھڑے ہوئے( ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ ) ۔

ایسے موقع پر جب کہ مسلمان فوج سرزمینِ جنین پر تتر بتر ہوچکی تھی اور چند ایک افراد کے سوا پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ان کے بھاگ جانے کی وجہ سے سخت ناراحت تھے ”خدا نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی طرف سے سکون واطمینان نازل کیا“( ثُمَّ اٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلیٰ رَسُولِهِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ ) ۔ اور اسی طرح تمھاری تقویت اور مدد کے لئے ایسے لشکر بھیجے جنھیں تم نہیں دیکھتے تھے( وَاٴَنزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا ) ۔

جیسا کہ ہم جنگ بدر سے مربوط آیات کے ذیل میں کہہ چکے ہیں کہ اس غیر مرئی خدائی لشکر کا نزول صرف مسلمانوں کی تقویتِ روح اور ثبات قدم کے لئے تھا ورنہ فرشتوں اور غیبی طاقتوں نے کوئی جنگ نہیں کی تھی ۔(۱)

آخر میں جنگ حنین کا اصلی نتیجہ بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: خدا نے بے ایمان اور بت پرست لوگوں کو سزادی دی (کچھ لوگ مارے گئے کچھ گرفتار ہوگئے اور کچھ بھاگ کر مسلمانوں کی دسترس سے نکل گئے)( وَعَذَّبَ الَّذِینَ کَفَرُوا ) ۔ اور بے ایمان لوگوں کی یہی سزا ہے( وَذٰلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ ) ۔

اس کے باوجود کافر قیدیوں اور بھگوڑوں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا کہ اگر وہ مائل ہوں تو خدا کی طرف پلٹ آئیں اور دین حق قبول کرلیں لہٰذا آخری زیرِ بحث آیت میں ارشاد ہوتا ہے: پھر اس واقعہ کے بعد خدا جس کے لئے چاہے (اور جسے واقعی توبہ کے لئے تیار دیکھے اور اہل پائے) اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے( ثُمَّ یَتُوبُ اللهُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ )

”یتوب“ جو فعل مضارع ہے اور استمرار پر دلالت کرتا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ توبہ اور باز گشت کے دروازے اسی طرح ان کے سامنے کھلے ہیں کیونکہ ”خدا بخشنے والا اور مہربان ہے“ وہ کبھی توبہ کے دروازے کسی پر بند نہیں کرتا اور اپنی وسیع رحمت سے کسی کو ناامید نہیں کرتا( وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

____________________

۱۔ مزید وضاحت کے لئے اسی جلد میں سورہ انفال کی آیہ ۹ تا ۱۲ کے ذیل میں دیکھئے ۔

قابل توجہ نکات

۱ ۔ جنگ حنین، ایک عبرت انگیز معرکہ:

”حنین“ شہر طائف کے قریب ایک علاقے کا نام ہے، یہ جنگ چونکہ اس زمین پر لڑی گئی لہٰذا غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہوگئی، قرآن میں اسے ”یومِ حنین“ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس جنگ کو ”غزوہ اوطاس“ اور ”غزوہ ہوازن“ بھی کہتے ہیں (”اوطاس“ اسی علاقے کی زمین کا نام ہے اور ”ہوازن“ ایک قبیلے کا نام ہے جو اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف برسرِپیکار تھا) ۔

کامل ابن اثیر نے لکھا ہے کہ اس جنگ کی ابتداء یوں ہوئی کہ ”ہوازن“ جو بہت بڑا قبیلہ تھا اسے فتح مکہ کی خبر ہوئی تو اس کے سردار مالک بن عوف نے افراد کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ ممکن ہے فتح مکہ کے بعد محمد ان سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہو، وہ کہنے لگے کہ مصلحت اس میں ہے کہ اس سے قبل کہ وہ ہم سے جنگ کرے ہمیں قدم آگے بڑھانا چاہیے ۔

رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سرزمین ”ہوازن“ کی طرف چلنے کو تیار ہوجائیں ۔(۱)

اس جنگ کے مواقع اور کلیات میں مورخین کے درمیان تقریباً اختلاف نہیں ہے لیکن اس کی تفصیلات کے بارے میں طرح طرح کی روایات نظر آتی ہیں جو ایک دوسرے سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتیں ، جو کچھ ہم ذیل میں اختصار سے درج کررہے ہیں اور اپنا مال، اولاد اور عورتیں بھی اپنے ساتھ لے آئے تاکہ مسلمانوں سے جنگ کرتے وقت کسی دماغ میں بھاگنے کا خیال نہ آئے، اس طرح سے وہ سرزمین اوطاس میں وارد ہوئے ۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے لشکر اسلام کا بڑا علم باندھ کر علی(ع) کے ہاتھ میں دیا اور وہ تمام افراد جو فتح مکہ کے موقع پر اسلامی فوج کے کسی دستے کے کمانڈر تھے، آنحضرت کے حکم سے اسی پرچم کے نیچے حنین کے میدان کی طرف روانہ ہوئے ۔

رسول الله کو اطلاع ملی کہ صفوان بن امیہ کے پاس ایک بڑی مقدار میں زرہیں ہیں ، آپ نے کسی کو اس کے پاس بھیجا اور اس سے زرہیں عاریتاً طلب کیں ، صفوان نے پوچھا : واقعاً عاریتاً ہیں یا غصب کے طور پر۔

رسول الله نے فرمایا: یہ عاریتاً ہیں اور ہم ان کے ضامن ہیں کہ صحیح وسالم واپس کریں گے ۔

صفوان نے زرہیں عاریتاً پیغمبر اکرم کو دے دیں اور خود بھی آنحضرت کے ساتھ چلا ۔

فوج میں دو ہزار ایسے افراد تھے جنھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا، ان کے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدینِ اسلام تھے جو پیغمبر اکرم کے ساتھ فتح مکہ کے لئے آئے تھے، یہ تعداد مجموعتاً بارہ ہزار بنتی ہے، یہ سب میدانِ جنگ کی طرف چل پڑے ۔

مالک بن عوف ایک مردِ جری اور ہمت وحوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبیلے کو حکم دیا کہ اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالیں اور پہاڑ کی غاروں میں ، درّوں کے اطراف میں اور درختوں کے درمیان لشکرِ اسلام کے راستے میں کمین گاہیں بنائیں اور جب اوّل صبح کی تاریکی میں مسلمان وہاں پہنچیں تو اچانک اور ایک ہی بار ان پر حملہ کردیں اور اسے فنا کردیں ۔

اس نے مزید کہا: محمد کا ابھی تک جنگجو لوگوں سے سامنا نہیں ہوا کہ وہ شکست کا مزہ چکھتا ۔

رسول الله اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح پڑھ چکے تو آپ نے حکم دیا کہ سرزمینِ حنین کی طرف چل پڑیں ، اس موقع پر اچانک لشکرِ ہوازن نے ہر طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھار کردی، وہ دستہ جو مقدمہ لشکر میں تھا (اور جس میں مکہ کے نئے نئے مسلمان بھی تھے) بھاگ کھڑا ہوا، اس کے سبب باقی ماندہ لشکر بھی پریشان ہوکر بھاگ کھڑا ہوا ۔

خداتعالیٰ نے اس موقع پر دشمن کے ساتھ انھیں ان کی حالت پر چھوڑدیا اور وقتی طور پر ان کی نصرت سے ہاتھ اُٹھالیا کیونکہ مسلمان اپنی کثرتِ تعداد پر مغرور تھے لہٰذا ان میں شکست کے آثار آشکار ہوئے، لیکن حضرت علی(ع) جو لشکر اسلام کے علمبردار تھے وہ مٹھی بھر افراد سمیت دشمن کے مقابلے میں ڈتے رہے اور اسی طرح جنگ جاری رکھے رہے ۔

اس وقت پیغمبر اکرم قلبِ لشکر میں تھے، رسول الله کے چچا عباس بنی ہاشم کے چند افراد کے ساتھ آپ کے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، یہ کل افراد نو سے زیادہ نہ تھے دسویں اُم ایمن کے فرزند تھے، مقدمہ لشکر کے سپاہی فرار کے موقع پر رسول الله کے پاس سے گزرے تو آنحضرت نے عباس کو جن کی آواز بلند اور زور تھی کو حکم دیا کہ اس ٹیلے پر جو قریب ہے چڑھ جائیں اور مسلمانوں کو پکاریں :

یا معشر المهاجرین والاٴنصار! یا اصحاب سورة البقرة! یا اهل بیعت الشجرة! الیٰ این تفرون هٰذا رسول الله -

اے مہاجرین وانصار!، اے سورہ بقرہ کے ساتھیو!، اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہابھاگے جارہے ہو؟ رسول الله تو یہاں ہیں ۔

مسلمانوں نے جب عباس کی آواز سنی تو پلٹ آئے اور کہنے لگے: لبیّک! لبیّک!

خصوصاً لوٹ آنے میں انصار نے پیش قدمی اور فوجِ دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ کیا اور نصرتِ الٰہی سے پیش قدمی جاری رکھی یہاں تک کہ قبیلہ ہوازن وحشت زدہ ہو کر ہر طرف بکھر گیا، مسلمان مسلسل ان کا تعاقب کررہے تھے، لشکرِ دشمن میں سے تقریباً ایک سو افراد مارے گئے، ان کے اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگے اور کچھ ان میں سے قیدی بنا لئے گئے ۔(۲)

لکھا ہے کہ اس تاریخی واقعہ کے آخر میں قبیلہ ہوازن کے نمائندے رسول الله کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا، پیغمبر اکرم نے ان سے بہت محبت والفت فرمائی، یہاں تک کہ ان کے سربراہ مالک بن عوف نے بھی اسلام قبول کرلیا، آپ نے اس کا مال اور قیدی اسے واپس کردیئے اور اس کے قبیلہ کے مسلمانوں کی سرداری بھی اس کے سپرد کردی ۔

درحقیقت ابتدا میں مسلمانوں کی شکست کا اہم عامل غرور وتکبر جو کثرت فوج کی وجہ سے ان میں پیدا ہوگیا تھا، اس کے علاوہ دو ہزار نئے مسلمانوں کا وجود تھا جن میں سے بعض فطری طور پر منافق تھے، کچھ ان میں مالِ غنیمت کے حصول کے لئے شامل ہوگئے تھے اور بعض بغیر کسی مقصد کے ان میں شامل ہوگئے تھے ۔

____________________

۱۔ کامل ابن اثیر، ج۲، ص۲۶۱-

۲۔ مجمع البیان، ج۵، ص۱۷تا ۱۹-

۲ ۔ بھاگنے والے کون تھے؟

اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ میدان حنین میں میں سے اکثریت ابتداء میں بھاگ گئی تھی جو باقی رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق دس تھی اور بعض نے تو ان کی تعداد چار بیان کی ہے، بعض نے زیادہ سے سو افراد لکھے ہیں ۔

بعض مشہور روایات کے مطابق چونکہ خلفاء بھی بھاگ جانے والوں میں سے تھے لہٰذا بعض اہل سنّت مفسّرین نے کوشش کی ہے کہ اس فرار کو ایک فطری طور پر پیش کیا جائے، المنار کے مولف لکھتے ہیں :

جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی سخت بوچھار کی تو جو لوگ مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے اور جن میں منافقین اور ضعیف الایمان بھی تھے اور جو مالِ غنیمت کے لئے آگئے تھے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور انھوں نے میدان میں پشت دکھائی تو باقی لشکر بھی فطری طور پر مضطرب اور پریشان ہوگیا وہ بھی معمول کے مطابق نہ کہ خوف وہراس سے، بھاگ کھڑے ہوئے اور یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر ایک گروہ فرار ہوجائے تو باقی بے سوچے متزلزل ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا فرار ہونا پیغمبر کی مدد ترک کرنے اور انھیں دشمن کے ہاتھ میں چھوڑجانے کے طور پر نہیں تھا کہ وہ خدا کے غضب کے مستحق ہوں ۔(۱)

ہم اس بات کی تشریح نہیں کرتے اور اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں ۔

اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ صحیح بخاری جو اہل سنّت کی معتبر ترین کتب میں سے ہے میں اس میدان میں مسلمانوں کی شکست اور فرار سے متعلق گفتگو میں منقول ہے:فاذا عمر بن الخطاب فی الناس، وقلت ماشاٴن الناس، قال امر الله، ثم تراجع الناس الیٰ رسول الله

اچانک عمر بن خطاب لوگوں کے درمیان تھے میں نے کہا لوگوں نے کیا کیا ہے تو انھوں نے کہا الله کی مرضی ایسی تھی، پھر لوگ پیغمبر کی طرف پلٹ آئے ۔(۲)

لیکن اگر ہم اپنے پہلے سے کئے گئے فیصلوں کو چھوڑدیں اور قرآن کی طرف توجہ دیں تو ہم دیکھیں گے کہ قرآن بھاگنے والوں میں کسی گروہ بندی اور تفریق کا قائل نہیں بلکہ کی مساوی مذمت کررہا ہے کہ جو بھاگ گئے تھے، ہم نہیں سمجھتے کہ ان دو جملوں میں کیا فرق ہے جن میں سے ایک یہ مندرجہ بالا آیات میں ہے:”( ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ )

پھر تم پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔

اور دوسرا جملہ کہ سورہ انفال آیہ ۱۶ میں گزرا ہے جہاں فرمایا گیا ہے:

( وَمَنْ یُوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ اٴَوْ مُتَحَیِّزًا إِلیٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنْ اللهِ )

جو شخص دشمن سے پشت پھیرے وہ غضبِ پروردگار میں گرفتار ہوگا مگر وہ دشمن پر حملہ کرنے کی غرض سے یا مجاہدین کے گروہ کے ساتھ آملنے کے لئے اپنی جگہ بدل لے ۔

لہٰذا اگر ان دو آیات کو دوسرے کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو ثابت ہوگا کہ اس دن چند ایک مسلمانوں کے سوا باقی تمام ایک عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے تھے زیادہ سے زیادہ یہ کہ بعد میں انھوں نے توبہ کرلی اور پلٹ آئے ۔

____________________

۱، ۲۔ تفسیر المنار، ج۱۰، ص۲۶۲، ۲۶۳، ۲۶۵-

۳ ۔ ایمان واطمینان

”سکینة“ در اصل ”سکون “ کے مادہ سے ہے، یہ ایک طرح کے اطمینان وسکون کی حالت کے معنی میں ہے کہ جو انسان سے ہر طرح کا شک وشبہ اور خوف ووحشت دور کرے اور اسے سخت اور دشوار حوادث کے مقابلے میں ثابت قدم رکھے ۔”سکینة“ کا ایمان کے ساتھ قریبی تعلق ہے یعنی یہ ایمان سے پیدا ہوتی ہےن صاحبانِ ایمان جب خدا کی بے پایاں قدرت کو باد کرتے ہیں اور اس کے لطف ورحمت پر نظرکرتے ہیں تو اُمید کی ایک لہر ان کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور یہ جو ”سکینة“ کو بعض روایات میں ”ایمان“ کہا گیا ہے(۲) اور بعض روایات میں ”انسان(۱) کی شکل وصورت میں نسیم بہشت“ مراد لیا گیا ہے تو ا ن سب کی باز گشت اسی معنی کی طرف ہے ۔

قرآن مجید کی سورہ فتح آیہ ۴ میں ہے:( هُوَ الَّذِی اٴَنْزَلَ السَّکِینَةَ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ لِیَزْدَادُوا إِیمَانًا مَعَ إِیمَانِهِمْ )

وہ ذات وہ ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکینةکو نازل کیاتاکہ ان کے ایمان میں ایمان کا اضافہ ہو۔

بہرحال یہ غیر معمولی نفسیاتی کیفیت ایک خدائی اور آسمانی نعمت ہے جس کے باعث مشکل ترین حوادث بھی برداشت کرلیتا ہے اور اطمینان وثبات قدم کی ایک دنیا اپنے اندر محسوس کرتا ہے ۔

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ قرآن محل بحث آیات میں یہ نہیں کہتا کہ ”( ثمّ اٴنزل الله سکینة علی رسوله وعلیکم ) “ (پھر خدا نے اپنے رسول اور تم پر سکینة نازل کی) حالانکہ اس سے پہلے تمام جملوں میں ”کم“ کا لفظ خطاب کے لئے آیا ہے جبکہ یہاں ”علی المومنین “ کہا گیا ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ منافقین اور وہ جو میدان جہاد میں طالب دنیا تھے اس سکینہ اور اطمینان میں ان کا کوئی حصّہ نہیں تھا اور یہ نعمت صرف صاحبانِ ایمان کو نصیب ہوئی ۔

روایت میں ہے کہ یہ نسیم جنّت انبیاء اور خدا کے رسولوں کے ساتھ ہوا کرتی تھی(۳) یہی وجہ ہے کہ ایسے حوادث کے موقع پر جن میں کسی شخص کو خود پر کنٹرول نہیں رہتا ان کی روح مطمئن ہوتی ہے اور ان کا عزم راسخ، آہنی اور غیر متزلزل ہوتا ہے ۔میدان حنین میں پیغمبر اکرم پر سکینةکا نزول جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس اضطراب کو رفع کرنے کے لئے تھا جو آپ کو ان لوگوں کے بھاگ جانے کی وجہ سے تھا ورنہ آنحضرت تو اس معرکہ میں مظبوط پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے تھا اور اس طرح حضرت نے مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ ثابت قدم تھا ۔

____________________

۱۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۱۴-۲۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۲۰۱-

۳۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۲۱-

۴ ۔ ”مواطن کثیرة“ کا مفہوم:

مندرجہ بالا آیت میں ہے کہ ”( مواطن کثیرة ) “(بہت سے میدانوں ) میں خداتعالیٰ نے مسلمانوں کی نصرت کی ۔

وہ جنگیں کہ جن میں رسول الله موجود تھے اور شریک جنگ ہوئے اور وہ جنگیں جن میں آپ شامل تو تھے لیکن خود آپ نے جنگ نہیں کی اور اسی طرح وہ جنگ میں لشکر جس میں لشکرِ اسلام دشمن کے آمنے سامنے ہوا مگر آپ اس میں موجود نہیں تھے ان کی تعداد کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے لیکن بعض روایات جو طرقِ اہل بیت سے ہم تک پہنچی ہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد اسّی( ۸۰) ہے ۔

کافی میں منقول ہے کہ ایک عباسی خلیفہ کے بدن میں زہر سرایت کرگیا تھا اس نے نذر مانی کہ اگر وہ اس سے بچ گیا تو کثیر مال فقراء کو دے گا، جب وہ صحت یاب ہوگیا تو وہ فقہاء جو اس کے گرد پیش تھے انھوں نے مال کے مبلغ میں اختلاف کیا لیکن کسی کے پاس کوئی واضح مدرک اور دلیل نہ تھی، آخرکار انھوں نے نویں امام حضرت محمد بن علی النقی علیہماالسلام سے سوال کیا، آپ نے جواب میں فرمایا کہ کثیر سے مراد اسّی ( ۸۰) ہے، جب اس کی علت پوچھی گئی تو آپ نے زیرِ نظر آیت آیت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ ہم نے اسلام وکفر کی جنگوں کی تعداد شمار کی کہ جن میں مسلمان کامیاب ہوئے ہیں تو ان کی تعداد اسّی بنی ہے ۔(۱)

۵ ۔ ایک سبق:

ایک نکتہ جس کی طرف آج کے مسلمانوں کو ضرور توجہ کرنا چاہیے یہ ہے کہ حنین جیسے حوادث سے سبق حاصل کریں اور جان لیں کہ کثرتِ تعداد اور انبوہِ جمعیت کبھی بھی ان کا غرور اور فریب کا سبب نہ بنے کیونکہ صرف زیادہ جمعیت سے کام نہیں بنتا، اہم مسئلہ تو تربیت یافتہ مومنین اور عزمِ راسخ رکھنے والے افراد کا ہے چاہے ان کی تعداد مختصر ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ ایک چھوٹے سے گروہ نے جنگ حنین میں سرنوشت بدل کے رکھ دی جب کہ غیر آزمودہ، غیر تربیت یافتہ کثیر تعداد شکست وہزیمت کا سبب بن چکی تھی ۔

اہم بات یہ ہے کہ افراد میں ایمان، استقامت اور ایثار کی روح کو پروان چڑھنا چاہیے تاکہ ان کے دل خدائی سکینة کے مرکز قرار پائیں اور وہ زندگی کے سخت ترین طوفانوں میں بھی پہاڑ کی طرح سے جمے رہیں اور مطمئن اور پرسکون ہوں ۔

____________________

۱۔ تفسیرنور الثقلین، ج۲، ص۱۹۷-